ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 20 اپریل، 2020

بیڑیاں / شاعری


              بیڑیاں
       

پاؤں میں بیڑیاں میرے تو وزن دار نہ کر🌺
میں تو پہلے سے ہوں باغی مجھے بیزار نہ کر


🌺 دیکھ رکھےہیں ہراک رنگ کےناٹک میں نے
پیش اب سامنے میرے کوئی فنکار نہ کر


🌺مجھکو گم کردے طلسمات کی دنیا میں کہیں  
ظاہراً سامنے ایسا کوئی کردار نہ کر


🌺آنکھ میں رہنے دے کچھ دیر تو منظر اسکا
محنتیں برسوں کی لمحات میں بیکار نہ کر


🌺دوسرے کے کسی سورج سے متاثر ہو کر
اپنی سوچوں کے چراغوں پہ تو یلغار نہ کر

🌺قرض کے رنگ اترتے ہیں بڑی مشکل سے 
ایسے رنگین کبھی سادہ سے افکار نہ کر


🌺عادتوں میں میری شامل نہیں چاہت اتنی
اسطرح مجھ پہ عنایات کی بھرمار نہ کر


🌺درد خالق کے سوا تو نے کہا کیوں اس سے
وہ بھی مخلوق ہے مخلوق سے اظہار نہ کر


🌺میں نے ممتاز بہت بار یہ مِنّت کی ہے
حد سے زیادہ میری عزت میری سرکار نہ کر
         (کلام / ممتازملک. پیرس)p
                          ......

اتوار، 19 اپریل، 2020

حق چھین لیا ہے / شاعری




اس نے میری باتوں کا اثر اتنا لیا ہے 
سچ بولنے کا مجھ سے ہی حق چین لیا ہے

پوشیدہ ترازو میں تیرے ایسی کشش ہے
خود تولنے کا مجھ سے ہیحق چھین لیاہے
                (  کلام: ممتازملک.پیرس)


ہفتہ، 18 اپریل، 2020

● فرانس میں سفیر پاکستان تقابلی جائزہ/ کالم




فرانس میں
 سفیر پاکستان کا تقابلی جائزہ
    (تحریر:ممتازملک۔پیرس) 
 غالب اقبال صاحب/معین الحق صاحب 

تمام ممالک دنیا بھی میں اپنے ملک کی جانب سے ایک سفیر کی تقرری کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں پر موجود اپنی کمیونٹی اور اپنے ملکی  مفادات کا تحفظ کر سکے ۔ بدقسمتی سے  پاکستان کے سفارتخانوں  میں اکثر ایسے لوگوں کو بطور سفیر  تعینات کیا گیا ہے جن کو سفارتکاری کی الف ب سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی یا پھر ان کی اہلیت ہی اس عہدے کے مطابق نہیں تھی۔ اس صورتحال نے  ایک طرف تو تارکین وطن پاکستانیوں کو ہمیشہ ہی آزمائشوں سے دوچار رکھا ہے ۔ اور دوسری جانب ملکی مفادات کو بھی داو پر لگائے رکھا ہے ۔ کیونکہ وہ نااہل سفارتکار کسی نہ کسی سیاسی بنیاد پر یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر افراد کے ملکی منظر نامے سے ہٹنے کا وقتی جواز ہی ہوا کرتے تھے ۔ کہ جاو کھاو پیو سیر سپاٹا کرو اور چھٹی مناو،  جیسا دورانیہ گزار کر پھر سے پاکستان  آ کر کھیل وہیں سے شروع کرو جہاں سے چھوڑا تھا ۔۔ اسی قسم کے معاملات ہمیں 1998ء سے فرانس آنے کے بعد 2012ء تک دیکھنے کو ملتے رہے ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں یاد تک نہیں کہ اس دور میں فرانس میں ہمارے سفیران کون کون سی عظیم ہستیاں رہی ہیں اور انہوں نے کون کون سے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔ 
فرانس میں دو دہائیاں گزار کر ہمیں اپنے سفارت خانے کے حوالے سے اگر کسی پہلے سفیر کا نام یاد ہے تو وہ تھے جناب غالب اقبال صاحب (2013ء تا 2016ء)۔ جنہیں دیکھ سن کر ہمیں معلوم ہوا ، یہ احساس جاگا کہ ہم پاکستانی یہاں فرانس میں لاوارث نہیں ہیں ۔ ہماری آواز سننے والا بھی یہاں کوئی ہے ۔ دستاویزات  کی تیاری میں درپیش مسائل ہوں یا پھر اہم مواقع پر اپنی کمیونٹی کے سامنے آنا یا ان سے رابطہ کرنا بلاشبہ غالب اقبال صاحب اور ان کی ٹیم نے ہمیشہ ہی اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں انجام دیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کے فرانس سے جانے کے بعد بھی ان کا ذکر نہایت محبت اور احترام کیساتھ کیا جاتا ہے ۔ یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ عزت انہوں نے اپنے رویئے اور اپنی کارکردگی سے کمائی ہے ۔ 
ان کا اپنا ای میل ایڈریس پبلک کرنا ، ہر محفل میں کمیونٹی کو خود دعوت دینا اور اس بات پر اصرار کرنا  کہ میں آپ سے ایک کلک کی دوری پر ہوں ،  آپ کسی بھی وقت 24 گھنٹے،  ساتوں دن مجھے میل کر سکتے ہیں ۔ اپنے مسائل سے آگاہ کر سکتے ہیں ۔ اور نہ صرف کہنا بلکہ ہر میل کا ایک دو روز کے اندر جواب بھیجنا بھی انہیں کی خصوصیت رہا ہے ۔ جو انہیں ان سے پہلے فرانس آنے والے سفیران سے جدا پہچان دلاتا ہے ۔ اب اگر بات کریں ان کے بعد آنے والے سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب (2016ء تا اب تک جاری) کی تو بلاشبہ دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفیروں کے مقابلے میں فرانس میں متعین سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب نے جس طرح سے کرونا کرائیسس اور اس سے پہلے تارکین وطن کے دوسرے اہم مسائل پر اپنا کردار ادا کیا ہے بلاشبہ وہ لائق تحسین ہے ۔
بطور کالمنگار میرا کام قصیدہ گوئی کرنا ہر گز نہیں ہے لیکن اس میں حوصلہ افزائی کا عنصر بہر حال موجود ہونا چاہیئے ۔ پاک فرانس معاہدے ہوں یا دستاویزی معاملات، پاک کمیونٹی کی شکایات پر متحرک ہونا ہو  یا ان کی مدد کرنا ، پاکستانیوں کے اموات اور ائیر لائنز کے مسائل ہوں ،
معین الحق صاحب نے ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔ بہت سی باتوں اور عوامی رابطوں میں وہ غالب اقبال صاحب جیسا رویہ نہیں اپنا سکے شاید اس کی وجہ ان کے گرد موجود مخصوص ٹولے کی ذہنی سطح ہو ۔ جس نے انہیں عام پاکستانی کمیونٹی کے قریب ہی نہیں ہونے دیا ۔ نہ ہی انہیں عام لوگوں کے مسائل سے براہ راست واقف ہونے دیا ۔ کیونکہ آج تک ان کا ذاتی رابطہ میل بھی کسی کے پاس موجود نہیں ہے ۔ اس لیئے ان تک اپنے مسائل پہنچانا ہر ایک کے بس میں بالکل نہیں ہے ۔ اور تو اور مجھ جیسی لکھنے والی تک کے پاس ان کا ای میل اور رابطہ نمبر نہیں ہے ۔  جس سے انہیں کسی معاملے کی آگاہی براہ راست  پہنچائی جا سکے ۔ اس لیئے جو کچھ ان تک ان کے مخصوص ذرائع سے پہنچتا ہے اس پر ان کا رد عمل ہمارے سامنے آتا رہتا ہے ۔ جو کہ کافی حد تک مثبت بھی ہوتا ہے ۔  ہم پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے سفیر پاکستان معین الحق صاحب کو ان کے اچھی کارکردگی پر مبارکبار پیش کرتے ہیں اور اس اچھی کارکرگی کو بہترین کارکردگی میں ڈھلتے ہوئے دیکھنے کے لیئے پر امید ہیں ۔ اس کے لیئے انہیں عام لوگوں کے قریب آنا ہو گا ۔ عام لوگوں کیساتھ ہر معاملے میں زیادہ موثر انداز میں  شامل کرنا ہو گا ۔ جو وہ کر سکتے ہیں تاکہ ان کا نام ان کے فرانس سے جانے کے بعد بھی غالب اقبال صاحب جیسے بہترین سفیروں کی فہرست میں زندہ رہے۔ 
          پاکستان زندہ باد  
         فرانس پائندہ باد                                      ۔۔۔۔
                   

ہفتہ، 11 اپریل، 2020

● عمر جیسا مسلمان ۔ شاعری ۔ پبلشڈ






دنیا میں تھا اللہ کی برہان ،کہاں ہے ؟
نہ جانےعمر(رض) جیسامسلمان،کہاں ہے؟

بھوکاتونہیں سویا میرےملک میں کوئی 
ہر لمحہ اسی پر ہو پریشان، کہاں ہے ؟

ہر ایک کےدر پہ گیاخادم کی سی صورت
جو پشت پہ لادے کھڑا سامان،کہاں ہے؟

جو رات کو بستر پہ کبھی سو نہیں پائے
بتلاو ایسا وقت کا سلطان، کہاں ہے؟ 

اسلام کی خاطر جسے اللہ سے مانگا 
آقا کی دعاوں کا وہ ارمان ،کہاں ہے ؟

ممتاز کسی طور دکھے موت سے پہلے 
کہہ پاوں عمر جیسا مسلمان ،کہاں ہے ؟
۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 10 اپریل، 2020

بےحیائی رفتہ رفتہ / کوٹیشن






عذاب بطفیل 
رفتہ رفتہ بےحیائی

بے حیائی یا بےغیرتی اچانک ہی ہم پر حملہ آور نہیں ہو جاتیں ،
بلکہ یہ آہستہ آہستہ ہم لوگوں کے ہی ذریعے کہیں فیشن ہے، کہیں رواج ہے ، کہیں ضرورت ہے  کہہ کر اپنی جگہ بنا لیتی ہیں ۔ اور کہیں تو یہ "ہمیں کیا " کی بیرحمانہ سوچ کے طفیل بھی ہماری زندگیوں میں داخل ہو جاتی  ہیں ۔ جس کی سزا ہمیں آخرت میں تو بھگتی ہی پڑیگی لیکن دنیا میں بھی اس کا خمیازہ ہمیں عذاب الہی کی مختلتف صورتوں میں  جھیلنا پڑتا ہے ۔ 
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 8 اپریل، 2020

ایک زندگی اور موت کا اختیار / چھوٹی چھوٹی باتیں



       ایک زندگی اور موت کا
                 اختیار 
ویسے تو زندگی اور موت کا اختیار صرف اور صرف اللہ سبحان تعالی ہی کے پاس  ہے ۔
                     لیکن
 ایک چیز ہے جس کی موت اور زندگی کا اختیار اس نے انسان کو دے رکھا ہے اور وہ ہے 
                  امید 
چاہے تو اسے زندہ کر دیجیئے 
چاہے تو اسے مار دیجیئے 
                    ۔۔۔۔۔۔
         (چھوٹی چھوٹی باتیں)                          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 1 اپریل، 2020

خیرات دینے والوں کی شامت / کالم


     خیرات دینے والوں کی شامت
        (تحریر:ممتازملک.پیرس)



کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ ان لوگوں کے لیئے تو آزمائش ہوتی ہی ہے جو لوگ اس آفت میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ آزمائش ان لوگوں کے لیئے اور بھی بڑی ہو جاتی ہے جب آپ کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو اور آپ اس آفت سے بھی محفوظ ہوں ۔ اللہ پاک نے جہاں اولاد کو آزمائش بنا کر انسان کی زندگی کا حصہ بنایا ہے تو وہیں اس کے مال کو بھی اس کے لیئے سب سے بڑی آزمائش قرار دیا ہے ۔ ساری کائناتوں کا خالق ، کیا اپنی جناب سے کسی کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا تھا ؟ 
جس نے آپ کو دیا وہ آپ کے سامنے سائل بنا کر کھڑے انسان کو نہیں نواز سکتا تھا ؟ 
کیوں نہیں ۔ لیکن رزق  تو اللہ پاک نے انسان کی پیدائش سے سالوں قبل اسکے نصیب میں لکھ چھوڑا تھا ۔ جب اس نے اس مانگنے والے یا محتاج کے نصیب ہی میں رزق نہیں لکھا تو میں اپنے مال میں سے اسے کیوں دوں ؟ 
درست فرمایا ، نصیب تو واقعی لکھا جا چکا تھا ۔ اس کے  نصیب میں آسائشیں بھی لکھی جا چکی ہیں اور آزمائشیں بھی ۔ اس کے نصیب کی آزمائش یہ ہے کہ اسے آپ کے سامنے مجبور نگاہیں اور پھیلائے ہوئے دامن کیساتھ کھڑا ہونا پڑا اور آپ کی آزمائش یہ ہے کہ آپ اللہ کے عطا کیئے ہوئے مال و دولت میں سے اللہ کی مخلوق کے لیئے کتنا حصہ نکالتے ہیں ؟ وہ چاہتا تو اس مانگنے والے کی جگہ آپکو بھی کھڑا کر سکتا تھا اور دینے والے کی جگہ وہ محتاج کھڑا ہوتا ۔ لیکن جوابدہی کے امتحان میں  آج آپ کھڑے ہیں کہ آپ ان سائلین کے لیئے کیا کرتے ہیں ؟
لیکن اس کے ساتھ ہمارا ایک قومی المیہ بھی تو ہے کہ 
دنیا بھر میں خیرات اور امداد کی رقوم ہر طرح کے ٹیکسز سے مبرا ہوتی ہیں اور ان آفات کے زمانوں میں اسی امداد کے  بہانے بہت سا کالا دھن عوام کی خدمت کے لیئے حکومتوں کو مددگار مل جاتا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں یہ حال ہے کہ زرا کسی کی مدد کے لیئے کچھ دیکر دیکھیں حکومت اور نیب کے نام پر بنے چودھری ان کی بوسونگھتے سونگھتے اس کی سات پشتوں کی کھال ادھیڑ دینگے اور انہیں اس بات پر نشان عبرت بنا دیا جائیگا کہ بھائی تیری ہمت کیسے ہوئی کہ تو کسی کی مدد کرتا ۔ اس زمانے کی رسیدیں طلب کی جائیں گی جس زمانے میں ہمارے ہاں پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنانا بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔  اور پھر ہم کہاں کہاں سے ثبوت اکٹھے کرتے پھریں کہ جناب یہ مال  میری محنت کا ہے یا جائز ہے ۔ زرا ماضی پر نظر ڈال کر دیکھیں حکومت چاہے کسی کی بھی رہی ہو لیکن ٹیکس پالیسیز اور اپنی دولت کو مکمل طور پر ظاہر کرنیوالے کے لیئے قوانین اس قدر مضحکہ خیز اور  ہتھک آمیز ہیں کہ آپ چاہتے ہوئے بھی اپنا حق حلال کا مال بھی پورے کا پورا ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں حکومت وقت آپ کو کشکول پکڑا کر سڑک پر کھڑا کر دیگی کہ بس یہ ہے اس کا انعام ۔ان ٹیکسز اور ڈیکلریشن  کے بدلے اسے کونسی سہولیات ملتی ہیں ؟ کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں کم از کم ہماری نظر سے تو ابھی تک اہسا کوئی خوشنصیب نہیں گزرا ۔ ہم نے تو ایسا ایماندار بیچارہ بھی دیکھا ہے جس نے اپنی ہر چیز پچھلے سال ڈکلیئر کروائی ،  پانچ لاکھ روپے کا سالانہ انکم ٹیکس  پوری ایمانداری سے ادا کیا ۔ چند ہی ماہ میں اس کے کام کے حالات اچھے نہ رہے تو اپنے بچے کی بیماری پر سرکاری ہسپتال میں گیا تو اس بچے کو  ایک ڈسپرین کو گولی تک فری میں  دینے سے انکار کردیا گیا یہ کہہ کر کر کہ جناب آپ تو ٹیکس پیئر ہیں آپ کو کوئی دوا اور سروس فری میں نہیں دی جا سکتی ۔ اب بیچارہ پچھلے سال کے ٹیکس کی ادائیگی کا جرمانہ تل تل کر مقروض ہو ہو کر بھر رہا ہے ۔ اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اسے کس پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ پانچ لاکھ روپے کی رقم ڈکلیئر ادا کر آیا ۔ اس کے بدلے اس پر ہر آسانی کے دروازے بند ہو گئے کیونکہ اسے ٹیکس پیئر کا نمبر جاری نہیں ہوا بلکہ شاید مجرم نمبر جاری ہو چکا ہے ۔ 
یہ ہی حال کسی بھی شخص کے کہیں پر خیرات کرنے کی صورت میں اسے نشان عبرت بنانے کا بھی ہے ۔ جس قوم میں زلزلہ زدگان اور سیلابی متاثرین کے لیئے آئے ہوئے خیراتی کمبل اور اشیاء تک سوٹوں  والوں اور بوٹوں والوں کے گھروں سے برامد ہوتے ہوں، جہاں ہر صاحب اختیار یتیموں اور بیواوں کا مال کھانے کے لیئے اپنی ہی بیویوں اور بچوں کو یتیم اور بیوہ لکھوا کر کھانے کا رواج ہو ، جہاں بیت المال اور اوقاف کے مال پر دین فروشوں کی بدبخت اولادیں عیش کرتی ہوں ، دور نہ جائیں 
ابھی تازہ واردات زیادہ پرانی بات تو نہیں جب اربوں روپے قوم سے ڈیم کے نام پر اکٹھے کرنے والوں نے اسے مال مفت دل بیرحم کی طرح اڑایا ہو ، وہاں آج اگر خدا کا عذاب نہیں آئیگا تو کیا ہو گا ۔ دنیا بھر میں یہ آزمائش ہے لیکن پاکستانیوں پر یہ واقعی خدا کا عذاب ہے ان کے اعمال کے سبب۔ اور یہ بھی دیکھ لیجیئے گا کہ جس قوم کی اشرافیہ  کروڑوں کے گھر میں رہ کر چھ چھ ماسیاں اور ملازم رکھتی ہے لیکن آفت کے دنوں میں انہیں نوکریوں سے نکال کر بیروزگار کر کے سڑک پر  بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے اسی لعنتی  اشرافیہ کے لیئے یہ خیراتی وینٹیلیٹرز  بھی استعمال کیئے جائینگے ۔ عام آدمی کو مرتے مر جائے لیکن اسے ان وینٹیلیٹرز کی سہولت کبھی نہیں پہنچائی جائیگی ۔  بالکل اسی طرح جس طرح پچھلی امداد میں ملے   ٹیسٹ مشینز کو چغتائی لیب جیسی جگہوں پر نوٹ چھاپنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔آج عوام سے پھر سے بھیک مانگنے والوں سے پوچھا جائے کہ پچھلا مال کدھر ہے ؟ 
پچھلی اپوزیشن کے ایک عالمی غبارہ لیڈر نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جب قوم پر بے اندازہ ٹیکس لگیں ، ملک میں مہنگائی ہو  ، عام آدمی کی زندگی عذاب بن جائے تو سمجھ لو کہ حکمران چور ہے ۔۔۔۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔



شکوے


             شکوے

انکو میرے وجود سے شکوے تھے اسقدر
ہرلمحہ میری روح کو مضروب کر دیا 

دنیا جہاں کی خوبیاں اس میں سمٹ گئیں 
ہر  عیب میری ذات سے  منسوب کر دیا
 (ممتازملک.پیرس)

منگل، 31 مارچ، 2020

معافی کس سے؟ چھوٹی چھوٹی باتیں

     

           معافی کس سے ؟


یہ ہی اتنے دن سے لوگوں کے دماغ میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہوں میں کہ اللہ سے معافی اللہ کے حقوق کی مانگ سکتے ہو۔۔
بندے کے حقوق تو طوق بن کر لٹک رہے ہیں تمہاری گردنوں پر انہیں ادا کرو تاکہ تمہاری گردنیں آزاد ہو سکیں ۔

        (چھوٹی چھوٹی باتیں)

          (ممتازملک.پیرس)


ہفتہ، 28 مارچ، 2020

خدا نے سن لی میری / اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا


 (کشمیر اور کشمیریوں کی آواز)
   خدا نےسن لی میری
      کلام:ممتازملک. پیرس)


خدا نے سن لی میری عرش کو ہلا ہی دیا 
ہوں کس عذاب میں  دنیا کو یہ بتا ہی دیا 

میری ردائیں چھنی سامنے تمہارے ہی 
ردائیں چھیننے والوں کا منہ چھپا ہی دیا 

ہمیں  جو روکتے تھےسجدوں اور عبادت سے
انہیں کو گھٹنوں پہ  تو نے بھی   رب جھکا  ہی دیا 

ہمارے گھر کے اندھیروں سے لاتعلق تھے 
انہیں چراغ  جلانے کا پھر مزا بھی دیا 

ہماری بیٹیاں لٹتی رہیں جہاں والو
خدا کا خوف نہ اس نے تمہیں دلا ہی دیا 

ہماری بھوک تماشا تھی اک مذاق تھی اور 
تمہیں تو بھوک کی لذت سے آشنا ہی کیا 

ہمارے سامنے جاں دی ہمارے پیاروں نے 
تمہیں دواؤں کے ہوتے ہوئے رلا ہی دیا

اب اس سے بڑھکے تعارف  ستم شعار کا کیا
جو زخم دیتا ہے اور دیکے مسکرا بھی دیا

نہیں ہے مجھ سے تو غافل یقین تھا مجھکو
اگرچہ دل نے دعاوں کو ورغلا ہی دیا 

روہنگیا ہو یا کشمیر شام ہو کہ فلسطین 
خدا تو سب کا ہے ممتاز یہ دکھا ہی دیا 
                     ۔۔۔۔۔۔۔




خدا یاد آ گیا/ فوٹو شعر



               خدا یاد آ گیا 


● عاجزی کمزوری نہیں/ کوٹیشنز



            عاجزی کمزوری نہیں 


لوگ عاجزی کو کمزوری سمجھتے ہیں جبکہ یہ تو وہ طاقت ہے جو آپکو اپنی ہمت سے کہیں  زیادہ بوجھ اٹھانے کے قابل بنا دیتی ہے ۔ 🙇‍♂️
بالکل  ایک چیونٹی کی طرح جو اپنی وزن سے سینکڑوں گنا زیادہ کا بوجھ اٹھا لیتی ہے ۔ 💕💖

(چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک.پیرس)
۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 24 مارچ، 2020

معاف کر دے یا خدا / شاعری


معآف کر دے یا خدا 
 (ممتازملک.پیرس)

موت کا شکاری جیسے
 گھات میں ہے لگ چکا 
لے گیا اڑا کے جو بھی 
ہاتھ اسکے لگ چکا
خواب ہیں سمٹ گئے 
ٹکڑیوں میں بٹ گئے
ہر امید  چھپ گئی
 ہر ترقی رک گئی
بے آواز چیخ سے 
 دل ہر اک سہم گیا 
خوف کی رکاوٹوں سے
وقت چرخہ تھم گیا 
روک دے تو قہر کو 
کر آباد شہر کو
دل کو اپنی یاد سے 
اے خدا آباد کر 
شر کی قید میں ہے یہ
 تو اسے آذاد کر
یا الہی رحم فرما
معاف کر دے ہر خطا
آخری گھڑی میں بھی ہے 
ہم کو تیرا آسرا 
تجھ کو زیب دے غرور 
ہم کو عاجزی عطا 
تیرے ہر غضب سے بھاری 
ہے تیرا رحم سدا 
بھولتا نہیں ہے تو 
تو نے ہی ہمیں کہا
تجھ کو آج اپنے اس 
قول سچ  کا واسطہ 
معاف کر دے ہمکو مولا 
تو ہماری ہر خطا
واسطہء مصطفے(ص ع و ) 
واسطہء شیر خدا (رض)
واسطہء سیدہ (رض)
واسطہء کربلآ (رض)
 واسطہء انبیاء (ع س)
واسطہء اصحاب کا (رض)
پڑھ لیا صلی علی 
صلی علی صلی علی   
               ۔۔۔۔۔






پیر، 23 مارچ، 2020

کشمیر کی آواز/ فوٹو شعر


             کشمیر کی آواز 


ہفتہ، 21 مارچ، 2020

Dédié à la France / poésie



Poème de la poétesse Mme Mumtaz Malik
d'origine Pakistanaise, s'installée en France

(traduit de l'Ourdou en Français par 
Syed Aqeel Hussain, Islamabad, Pakistan) 

Dédiée à la France
Notre prière



Oh pays, la France, nous te resterons reconnaissants
Nous n'accepterons pas d'isolement de chez toi

Ta terre fertile, tes champs, tes montagnes
Ta population nous a apporte beaucoup d'amour

Oh France, tu est notre respiration
Ton sol est aujourd'hui affecté par le Coronavirus

Tu t'es inquiète aujourd'hui et fais face aux difficultés

Nous menerons une guerre invisible aux côtés de toi

Nous nous sommes installés chez toi depuis les autres pays
Nous pleurons lors de l'arrivée mais rigoleons chez toi

Nous avons passé la vie ici en utilisant ton alimentation
Nous avons eu tous qu'il faut ici, la joie et la sécurité

Ayant te donné notre jeunesse, nous avons contribué à ta prospérité
Tu es notre fierté, dont nous n'avons pas écrasé

C'est notre promesse de ne te quitter jamais
Nous n'hésiterons jamais de faire face à toute difficulté

Ma vie est pour toi, ma patrimoine est à sacrifier pour toi
Mon corps est prêt à se sacrifier pour toi en cas de besoin

Ah France, que Dieu te maintienne
Puisse que tu n'ais aucun douleur et reste en joie

Mumtaz prie pour toi
Puisse que tu ne fasse pas face à un autre vent de douleur
(Mumtaz Malik)
                   ۔۔۔۔۔


جمعہ، 20 مارچ، 2020

پاکستانی پولیس / کوٹیشنز




پاکستانی پولیس
دنیا کی  واحد پولیس ہے جو جرم ہونے سے پہلے ہی جانتی ہے کہ جرم ہونے جا رہا ہے ۔
اس کے بعد اس پر چلنے والے ڈنڈے کا زور ہے جو اسے کتنی جلدی ان مجرمان کو پکڑنے پر مجبور کرتا ہے ۔
اور جب وہ انہیں پکڑنا چاہیں تو پاتال میں سے بھی مجرم کو ڈھونڈ کر نکال لیتے ہیں اور نہ پکڑنا چاہیں تو اپنے سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے کے بھی سات خون اور سینکڑوں  ریپ کیس سے اندھے ہو جاتے ہیں ۔
واہ پاکستانی پولیس
        تجھے سلام 🙋‍♂️🙋‍♀️
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 18 مارچ، 2020

● فرانس کے نام / شاعری



         

             France 🇫🇷  کے نام 

اے  ملک فرانس تیرے مشکُور ہیں ہم
  تو نے ہمیں سب کچھ دیا تیری زرخیز زمین تیرے میدانی علاقے تیرے پہاڑوں نے
  تیرے لوگوں نے ہم سب کا بہت خیال کیا
  اے  ملک فرانس تو آج ہماری زندگی میں سانسوں کی حیثیت رکھتا ھے
  آج تیرے میدانی علاقے آج تجھ میں بسنے والے لوگ تیرے پہاڑ تیری زرخیز زمین
  کرونا وائرس کی وجہ سے آفت زدہ ھیں
  آج توں پریشان ھے آج مصیبت اور کرب میں مبتلا ھے۔
  اے  ملک فرانس ہم آباد تو ھوئے ہیں تُجھ میں دوسرے ملکوں سے آکر
  تیری مٹی کا نمک کھایا ھے اپنی زندگی کے حسین لمحات یہاں گزار دیئے ہیں اور اپنی جوانیاں تُجھے خوشحال کرنے میں گزار دی ہیں
  ھم تُجھ سے وعدہ کرتے ہیں ہم تمام لوگ آج اس دکھ اور پریشانی کی حالت میں ھر طرح سے تیرے ساتھ ہیں
  ھم کبھی بھی پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے نہی اپنا تن من دھن سب کچھ تُجھ پر قربان کر دیں گے
  یہ ہمارا وعدہ ھے تُجھ سے۔۔
  اے ملک فرانس اللہ تعالیٰ تُجھے خوشحال اور شاد باد رکھے آمین.



           فرانس کے نام 
            ہماری دعا
      (کلام : ممتازملک.پیرس)
 

اے ملک فرانس ہم تیرے مشکور رہینگے 
تجھسے نہ جدائی کبھی منظور کرینگے 

زرخیر زمیں تیری یہ میدان یہ کہسار 
لوگوں نے تیرے ہمکو دیا ہے بہت ہی پیار

اے فرانس تو ہے آج میری سانس برابر
دھرتی ہے تیری آج کرونا سے متاثر 

تو آج پریشان ہے اور مبتلائے کرب
بن دیکھے ہی لڑنی ہے تیرے ساتھ ہمیں حرب

ہم دوسرے ملکوں سے یہاں آ کے بسے ہیں 
روتے ہوئے آئے تھے یہاں آ کے ہنسے ہیں 

تیرا ہی نمک کھا کے یہاں عمر بتائی
خوشیوں سے تحفظ سے ہر اک چیز ہے پائی 

دیکے یہ جوانی تجھے خوشحال کیا ہے 
ہے فخر تو جس کو نہیں پامال کیا ہے 

وعدہ ہے یہ تجھ سے نہیں چھوڑیں گے کبھی ہم 
مشکل ہو کوئی منہ نہیں موڑیں گے کبھی ہم 

 من میرا تیرے واسطے دھن تجھ پہ ہے قربان 
جو ہو گی ضرورت تو یہ تن تجھ پہ ہے قربان 

اے فرانس تجھے رب میرا آباد ہی رکھے 
آئے نہ کوئی غم وہ تجھے شاد ہی رکھے

ممتاز تیرے واسطے مانگیں یہ دعائیں
غم کی نہ کبھی آئیں تیری اور ہوائیں
                    ۔۔۔۔۔۔

      (Traduit  en Français)



Poème de la poétesse Mme Mumtaz Malik
d'origine Pakistanaise, s'installée en France

(traduit de l'Ourdou en Français par 
Syed Aqeel Hussain, Islamabad, Pakistan) 

Dédiée à la France
Notre prière



Oh pays, la France, nous te resterons reconnaissants
Nous n'accepterons pas d'isolement de chez toi

Ta terre fertile, tes champs, tes montagnes
Ta population nous a apporte beaucoup d'amour

Oh France, tu est notre respiration
Ton sol est aujourd'hui affecté par le Coronavirus

Tu t'es inquiète aujourd'hui et fais face aux difficultés

Nous menerons une guerre invisible aux côtés de toi

Nous nous sommes installés chez toi depuis les autres pays
Nous pleurons lors de l'arrivée mais rigoleons chez toi

Nous avons passé la vie ici en utilisant ton alimentation
Nous avons eu tous qu'il faut ici, la joie et la sécurité

Ayant te donné notre jeunesse, nous avons contribué à ta prospérité
Tu es notre fierté, dont nous n'avons pas écrasé

C'est notre promesse de ne te quitter jamais
Nous n'hésiterons jamais de faire face à toute difficulté

Ma vie est pour toi, ma patrimoine est à sacrifier pour toi
Mon corps est prêt à se sacrifier pour toi en cas de besoin

Ah France, que Dieu te maintienne
Puisse que tu n'ais aucun douleur et reste en joie

Mumtaz prie pour toi
Puisse que tu ne fasse pas face à un autre vent de douleur
(Mumtaz Malik)
                   ۔۔۔۔۔            



منگل، 17 مارچ، 2020

ایسی پردہ پوشی بھی جرم ہے جناب / کالم


ایسی پردہ پوشی بھی 
جرم ہے جناب 
(تحریر:ممتاز ملک. پیرس)


زینب کا قاتل پکڑا گیا...
اتنے دن سے جو  ہم تڑپ تڑپ کر صاحب اختیار کو متوجہ کر رہے تھے کہ یہ گندا آدمی  زینب کے اس کے خاندان کے ہی ارد گرد موجود ہے . یہ زانی یہ قاتل  جو مذہبی ادارے کا فعال رکن ہونے کا ڈرامہ سالہا سال سے بخوبی نبھا رہا ہے . آپ کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہے 
آپ کے ساتھ محافل درود و  نعت  سجا رہا ہے،
ادارے کے کھڑپینچوں میں شامل ہے ،
طاہر القادری صاحب کی عقیدت میں تیسری صف میں گوڈے گوڈے ان کے  عشق میں غرق خود کو ظاہر کر رہا ہے .  وہی اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کی عزتوں کو بڑے وحشی پنے  کیساتھ نہ صرف پامال کر رہا تھا بلکہ  ٹشو پیپر کی طرح  انہیں توڑ مروڑ کر کچرے کے ڈھیر پر  پہنچا رہا تھا ...
ادارہ منہاج القرآن کے لئے وقت آ چکا ہے کہ جناب علامہ طاہرالقادری صاحب اب اس بات  کو سمجھ جائیں کہ یورپ میں اسلام پھیلانے سے پہلے آپ کو پاکستان میں اسلام پھیلانے کی اشد ضرورت ہے .
آپ ایک بہترین عالم دین ہیں اور اس حیثیت  میں آپ اللہ کو زیادہ جوابدہ ہیں کہ آپ نے اپنے دور میں ایسے جرائم کی روک تھام اور ایسے بدکار پیدا نہ ہونے کے لئے کیا اقدامات کئے . کیا وہاں آپ خدا کو یہ جواز دیکر بخش دیئے جائیں گے کہ پردوردگار میں تو فل پروٹوکول لئے یورپ کے ٹھنڈے موسم میں لمبی لمبی گاڑیوں کے قافلے میں اسلام پھیلانے میں مصروف تھا . مجھے تو میرے گرد ہالہ کئے ہوئے ٹولے نے کبھی اپنے حصار سے نکلنے ہی نہیں دیا .....
علامہ صاحب  وقت آ گیا ہے کہ مجھ جیسے ادارہ منہاج القرآن میں سولہ سال کام کرنے والے جب بھی آپ کی انتظامیہ کی کسی کرتوت پر سوال اٹھاتے تھے تو راندہ درگاہ کر دئیے جاتے ہیں .
آپ سے زیادہ آپ کے کھڑپینچوں  اور اس ادارے سے وابستہ راتوں رات امیر ہونے والوں ،
اس ادارے میں کام کرنے والوں کے تباہ اور بے راہ روی  کا  شکار ہونے والی اولادوں...
مغرور اور بدتمیز  مردوزن کی خبر لیجئے  جو سچ بولنے اور سوال اٹھانے والوں کے خلاف باقاعدہ گروپ بنا کر اس کی کردار کشی کی مہم کا آغاز کر دیتے ہیں . جو جھوٹ منافقت میں سب سے اعلی  درجات پر فائز ہیں . سو سے زیادہ ممالک میں یہ تنظیم اگر ایسے ہی کارکنان پیدا کر رہی ہے . جو آپ کے نام کے ترانے گائے ،
آپ کے نام کی قوالیاں گا گا کر ، آپ کے پیروں  میں لیٹ لیٹ کر آپ کو سجدے کریں .. آپ کی فوٹو گھر گھر لگا کر  آپ سے وفاداری کا ثبوت پیش کریں ...
آپ کے اور آپ کے اہل خانہ کے پروٹوکول کے لئے ہر وقت لائن حاضر رہیں 
تو معذرت کیساتھ. ..آپ کو خود ابھی اپنی تربیت کی شدید ضرورت ہے .
میں بھی کبھی آپ کو اپنا روحانی باپ سمجھتی تھی لیکن آج اپنی اس سوچ پر خود ہی افسوس کرتی ہوں۔
برائے مہربانی اپنی منجھی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرئیے ۔ ِ جو طرز زندگی آپ کا ہے وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا کبھی نہیں تھا .  ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  تک ہر ایک کی رسائی تھی جبکہ آپ تک کسی کا ملاقات کرنا تو چھوڑئیے اپنا پیغام پہنچانا بھی خواب و خیال ہے . 
کبھی پبلک سے ملاقات کی آپ نے ?
کبھی عام لوگوں میں کسی عام سی ریڑھی پر یا دکان پر کھانا کھایا آپ نے ؟
جو آپ کے گروپ کا حصہ بنا کیا صرف وہی مسلمان ہے ، جس نے اعتراض کیا اس کی عزت اچھالنے کا سرٹیفیکیٹ بھی آپ نے ہی جاری کیا ہے کیا ؟
میں جانتی ہوں میری اس تحریر پر ادارہ  منہاج القرآن کے سارے کھڑپینچوں نے  اپنے بدزبان لوگوں کو مجھ پر کیچڑ اچھالنے کے محاز پر لگا دینا  ہے ..
لیکن میں انہیں پھر بھی ان کے گریبانوں میں جھانکنے کا مشورہ دونگی ۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ اس ادارے کے  مغرور اور بدتمیز اراکین کو کسی کے بھی مشورہ  سے شدید پرہیز ہے . اگر ایسا نہ ہوتا تو ان بیس سالوں میں مخلص ، سچے،  ایماندار اور باصلاحیت اراکین کو گھر نہ بھیج دیا جاتا ...ان کی اس طرح سے تذلیل کی مہم چلائی جاتی ہے کہ وہ ادارہ منہاج القرآن کا نام سنتے ہی کانوں کو  ہاتھ نہ لگاتے .. ..
لیکن  جا کر اپنے گھروں میں جھانکئیے  کہ آپ کے گھروں میں کتنا سکون ہے ؟ آپ کی اولادوں نے یہاں سے کتنی اخلاقی تربیت حاصل کی ہے ؟
انہیں بڑوں چھوٹوں سے بات کرنے کی کتنی تمیز آ چکی ہے ؟
کتنا دین سیکھا  ؟
یہاں پر نعت خوانوں کا کردار کتنا نیک ہے ؟
عہدیداران کی اپنی  شہرت کیسی ہے ؟
معلوم کیجئے : کتنے عمران  یہاں کتنے زینبوں پر بھیڑئیے جیسی  غلیظ نظریں  گاڑے بیٹھے ہیں . اور خود کو پکڑے  جانے پر ذہنی مریض  ثابت کرنے  کی کوشش  نہ تو اس کے جرم کو کم کر سکتی ہے نہ  ہی اسے  معصوم ثابت کر سکتی ہیں۔
خدا کے لئیے پردہ پوشی کے کھیل  اب ختم کیجئے ...
یا اس کی لئیے آپ کے کارکنان کو اپنے اپنے گھر میں کسی نہ کسی  زینب کے لٹنے کا  اور اس کے قتل ہونے کا انتظار کرنا پڑیگا؟؟؟؟؟
                     ۔۔۔۔۔۔

● سلام ، صدر ذی مقام


             صدر ذی مقام
              (کلام/ممتازملک.پیرس)



امید کے دانوں پہ پڑھوں  میں نبی کا نام
اللہ کے حبیب کا اعلی بہت مقام

کہتا ہے رب تعالی مدثر و  مزمل 
خیرالعلی بھی کہہ کے کبھی کر دیا  کلام 

اے فخر ذی مقام  بشیر و نذیر   ہیں 
دیتے ہیں جو خوشی کی خبر ، ڈر کا بھی پیام 

لاکھوں درود آپ پہ لاکھوں پڑھوں سلام 
اے والی کونین  میرے صدر ذی مقام 

بخشش ہماری آپ کی چاہت سے منسلک 
 واجب ہے ہم پہ آپکا دل  جاں سے  احترم 
  
بانی محفل و سبھی حاضر ہیں جو غلام 
آل نبی پہ پیش  کروڑوں کریں سلام 

جھکتا ہے جب بھی آپ کے دربار میں یہ سر 
ممتاز رب بھی موڑتا ہے کر کے انتظام 
السلام السلام السلام السلام 
السلام السلام السلام السلام 
(مجموعہ کلام /اے شہہ محترم 
صلی اللہ علیہ وسلم )
                    ●●●

حاضر ہوئے ہیں خاکسار/ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


    حاضر ہوئے ہیں خاکسار

آپ کے دربار میں حاضر ہوئے ہم خاکسار
لب پہ ہے صلی علی تسبیح درودوں کے ہیں ہار

آرزو یہ  ہے دعائے بے کساں بھی ہو قبول
ہو اگر پھر سے نصیب ایسی ہی محفل اگلی بار

دل کا ہر احوال ہے مد نظر سرکار جی
منہ سے کہنے کا نہیں یارہ اے شاہ ذی وقار

آپ سے بڑھکر کوئی رکھتا ہے پردہ عیب کا
سوچ کر یہ ہی چلے آئے ہیں ہم سب جانثار

آپ وہ شمع دکھائے جو مقام آگہی
سوچ کر ممتاز آئے ہیں یہاں  پروانہ وار

      الصلوۃ والسلام الصلوۃ السلام
     الصلوۃ والسلام الصلوۃ والسلام






● تعارف/ نعت ریسرچ سینٹر یوکے



السلام علیکم و رحمتہ اللہ 

تمام یوکے اور یورپ کےاحباب سے گزارش ہے کہ اپنی ایک عدد نعت اور اپنا مختصر تعارف عنایت فرما دیں تاکہ اسے " نعت ریسرچ سینٹر یوکے " کے ایک سلسلہ " نعت ، شاعر اور تعارف" میں پیج پر شئیر کیا جائے آپ تمام معزز و مکرم احباب کی بہت مہربانی ہوگی ۔ 
آپ کو یہ تمام معلومات یونی کوڈ میں ٹائپ کرکے بھیجنی ہوں گی اور یاد رہے اپنا نعتیہ کلام بھی یونی کوڈ میں ہی بھیجیے اور تصویری صورت میں نہ بھیجا جائے ۔ اگر آپ اپنی تصویر بھیجنا چاہتے ہیں تو ضرور ساتھ میں ارسال کر دیں۔
بہت شکریہ!

مختصر تعارف:

نام 
قلمی نام
شہر
تعلیم
پیشہ
کتاب
ادبی سرگرمیاں
ادبی خدمات
اسناد

سمیعہ ناز اقبال
وائس چئیر آف "نعت ریسرچ سینٹر یوکے"

                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مختصر تعارف:

نام : ممتازملک 
قلمی نام : ممتازملک 
شہر : پیرس ۔ فرانس
تعلیم : برائے نام
پیشہ : خاتون خانہ۔ قلم کار ۔ افسانہ نگار، شاعرہ ، نعت خواں، ٹی وی ہوسٹ ، سوشل ورکر، مختصر تدریس، کوٹیشنز رائیٹر۔
کتاب : 5 کتب
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے (2011ء)شاعری 
2۔ میرے دل کا قلندر بولے 
 (2014ء) شاعری
3۔ سچ تو یہ ہے 
(2016ء ) منتخب متفرق مضامین 
4۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم (2019ء) نعتیہ مجموعہ کلام 
5۔ سراب دنیا 
 (2020ء) شاعری 
ادبی سرگرمیاں : صدر برائے پہلی پاکستانی ادبی نسائی تنظیم "راہ ادب" 
ادبی خدمات و اسناد : 
1۔دھن چوراسی ایوارڈ برائے 
چکوال پریس کلب۔ چکوال  
2۔ دیار خان فاونڈیشن ایوارڈ 
3۔حرا فاونڈیشن کینیڈا 
ٹونی ٹی وی 
4 ۔ کاروان حوا اعزازی شیلڈ
پشاور حق بابا آڈیٹوریم 
5۔ عاشق حسین رندھاوی سند و ایوارڈ و سرٹیفیکیٹ
بزم صدائے وطن ۔  پیرس 
                           ●●●


اتوار، 15 مارچ، 2020

کرو " نہ " / کالم


                 کرو " نہ"
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)

ب

کرو نہ ۔۔۔ کا مطلب ہمارے نزدیک تو یہ ہے کہ ہر اس کام سے کرو"  نہ" جس سے رب کائنات نے روک رکھا ہے ۔ 
اللہ کی شان دیکھیئے کل تک جس دنیا مین مسلمان عورت کے نقاب کھینچے جا رہے تھے ۔ اس کے حجاب پر اعتراضات اٹھائے جارہے تھے ، اس کے پورے لباس پربھپتیاں کسی جا رہی تھیں ، مسلمانوں کے انداز زندگی پر تمسخر اڑایا جاتا تھا اسی دنیا میں آج ایک چھوٹے سے  جرثومے "کرونا" نے موت کا ایسا خوف بھر دیا ہے کہ جن عیاشیوں کو وہ زندگی کا مزا قرار دیا کرتے تھے اسی دنیا میں چمی جپھی پپی سب کچھ بند ، ننگ پنا بند ۔ 
جہاں مسلمان عورت کے نامحرم سے  ہاتھ نہ ملانے کو جہالت قرار دیا جاتا تھا وہیں کا میڈیا اب چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے دور رہیں ، بوس و کنار سے پرہیز کریں اور دوسرے سے مصافحہ تک نہ کریں ۔چہرہ ڈھانپ کر رکھیں ۔۔۔ اللہ تیری شان ۔۔۔
دین اسلام پر آوازے کسنے والوں کی اپنی مادر پدر بے لگام طرز زندگی کو خدا کا خوف تو نہ بدل سکا لیکن موت کے خوف  نے کیسی لگام ڈالی ہے ۔۔ اسلام  ایک طرز ذندگی ہے ایک نظام حیات ہے ۔ جس میں کچھ بھی ہے تو بس خیر ہی خیر ہے ' بھلائی ہی بھلائی ہے ۔ دنیا کی ہر پاکیزہ چیز کو اللہ نے اپنے مسلمانوں کے لیئے حلال کہہ کر چن لیا ۔ پھر چاہے وہ پیدائش کا مرحلہ ہو یا موت کے بعد کا  واپسی کا سفر ۔ حلال خوشبودار اور لذیز پکوان ہوں یا خوبصورت ترین ستر پوش ملبوسات ہوں، اور بتایا کہ جو لباس آپ کے جسم کی پردہ پوشی نہیں کرتا وہ لباس ہی نہیں کہلا سکتا ۔ رشتوں کا حسن ہو کہ جس میں ایکدوسرے کے ساتھ حفاظت ،توقیر اور محبت کیساتھ باندھ دیا گیا ہے یا تعلقات کی نوعیت اور اس کا دائرہ ہو جو یہاں تک آپکو سکھاتا ہے کہ ایک نامحرم مرد و زن  سے بات کرتے ہوئے آپ کے تاثرات اور آواز کی رینج کتنی ہو کہ آپ دونوں ایک دوسرے کی جانب سے کسی بدگمانی یا خوش گمانی میں نہ پڑ سکیں اور یوں کسی  برائی کی راہ پر چلنے سے محفوظ رہ سکیں ۔ 
آج دنیا بھر کا غیر مسلم میڈیا چیخ چیخ کر اپنی جانیں بچانے کے لیئے خود کو اسلام ہی کے مطابق ملبوس ہونے کا سبق دے رہا ہے ۔ پورے کپڑے پہنو ، ایکدوسرے کیساتھ  ناجائز جسمانی تعلقات سے بچو ، ہر ایک سے چپکنے سے پرہیز کرو۔ جہاں جہاں قران پاک کی بیحرمتی جیسے واقعات ہوئے ان ممالک میں اسی قران پاک کے مطالعے  کو تجویز کیا جا رہا ہے۔ کیوں ؟   تاکہ تم فلاح پا جاو  ۔ پھر یہ فلاح مسلمانوں نے کیوں نہیں پائی؟ پائی تھی تب  تک جب تک وہ اسلام کے اس ضابطہ حیات پر عمل کرتے رہے پھر جیسے جیسے وہ اس کلام الہی سے دور ہوتے چلے گئے فلاح اور خیر بھی ان کی زندگیوں سے رخصت ہوتی چلی گئی ۔ آج دنیا بھر میں مسلم زوال کا سبب یہی تو ہے کہ مسلمان ہی آج مسلمان نہ رہا ۔ اس نے اپنے آپ کو فلاح کے بدلے دنیا خرید کر آسودہ کرنے کی کوشش کی ۔ گویا اس نے ہیرے دیکر کوئلے خرید لیئے ۔ اسی سبب آج اس کا منہ بھی کالا ہو گیا اور دل بھی ۔۔۔
کرونا وائرس تیرا شکریہ تو نے لوگوں کو اللہ کا پیغام پھر سے سننے اور سمجھنے کے لیئے مجبور کر دیا ہے ۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے جس سے جو چاہے کروا سکتا ہے ۔ پھر وہ نظر نہ آنیوالا کرونا ہی کیوں نہ ہو۔ اسے بھی اس دنیا کے باسیوں کی بقا اور فلاح کے لیئے حرکت میں آنا ہی پڑا ۔ غلیظ اور مردار خوراکیں ، فیشن اور جدت کے نام پر ننگ دھڑنگ جسم ، آذادی کے نام پر  کھلی جسم فروشی ، ترقی کے نام پر  اعلانیہ ضمیر فروشی ، رشتوں کے نام پر جہاں رات ہوئی وہیں اسی کیساتھ  سو جاو کا دھندہ  ، کہیں ہم جنسی کی آگ لگی ہوئی ہے اور قانون فطرت کا مذاق اڑایا جا ریا ہے اسے قانونی تحفظ دینے کے نام پر  اللہ سے ٹکر لی جا رہی ہے ۔۔اللہ کے غضب کو بار بار آواز ہی تو دیتا ہے ۔ پھر ہم اللہ کے لیئے باز نہیں آتے بلکہ موت کے ڈر سے چار روزہ پرہیز شروع کر دیتے ہیں ۔۔
دنیا بھر میں باحیا مسلمان عورت اور مرد  کو  یہ بےضمیر لوگ جبرا بے لباس کرتے ہیں  تو وہاں ان کے مرد و زن شیطان کی پیروی میں اپنے ہی ہاتھوں  خوشی سے بے لباس ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دنیا میں جہاں یہ اپنے نفس کی تسکین کے لیئے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کٹواتے ہیں وہیں ان کے ممالک میں اپنے ہی اعمال کے سبب کوئی نہ کوئی ایڈز ، ایبولا ،  کرونا لاشیں بچھاتا چلا جاتا ہے ۔ ہے نا کمال کی بات ۔۔ تو بس جان لیجیئے کہ ایک اللہ ہی ہے جو کن کہہ کر کائناتیں تخلیق فرماتا ہے ۔ 
پانی کی بوند سے پورا انسان تخلیق کرتا ہے ، کالی بھینس میں سے  گھاس پھونس کھلا کر بھی سفید و شیریں دودہ پیدا کرواتا ہے ،  زمین کا سینہ پھاڑ کر ہمارے لیئے رزق پیدا فرماتا ہے ، پانی سے بادل بناتا ہے اور پھر اسے جہاں چاہے گھماتا ہوا لیجاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے وہاں برسا کر جل تھل کرتا بنجر زمینوں کو سیراب کر دیتا ہے ۔ 
اور پوچھتا ہے کہ بتاو 
"پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاو گے "
    (سورہ الرحمن: 55/16) 
                    ۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 13 مارچ، 2020

جدائی نے ڈس لیا / تصویری شعر



آنکھوں کو جب امید رسائی نے کس لیا 
پھر یوں ہوا کہ ہم کو جدائی نے ڈس لیا 😢
         (کلام:ممتازملک.پیرس )


پیر، 9 مارچ، 2020

یادیں / کوٹیشن



یادیں

انسان کی زندگی کا حاصل وصول یہ یادیں ہی تو ہیں ۔
 یادیں نہ ہوں یا یاد رکھنے کا عمل روک دیا جائے تو ہر صلاحیت صفر پر چلی جائے گی جیسے ریکارڈ کی سوئی کسی ایک ہی لفظ پر اٹک جائے ۔
 ہم ہر پل ایک ہی بات کرتے رہیں
کون ہو تم ؟؟؟
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
 (ممتازملک.پیرس )

ہفتہ، 7 مارچ، 2020

اور کیا کیا دکھانا چاہتی ہو / کالم


    اور کیا کیا دکھانا چاہتی ہو؟
      (تحریر:ممتازملک۔پیرس)



کھلے بال ، ننگے سر ، ننگے بازو، ننگے پیٹ، ننگی کمر، ہائی وے جیسے گلے،  ننگی ٹانگیں ،  ٹھسے ہوئے تنگ کپڑے اور ان سے بھی جھانکتے زیر جامے ۔۔لعنت ہے ایسی عورتوں پر اور اس کو دیکھنے والے اسکے وارث مردوں پر بھی ۔۔۔
واقعی ایک عورت چار مردوں کو اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائے گی ، اس کا باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹا ۔یہ پیکج ہے اللہ کا دیا ہوا ، یعنی ایک عورت حیادار اور پورے ستر میں آ گئی باکردار رہی  تو انہیں چار مردوں کو جنت میں بھی اپنے ساتھ لیکر جائے گی ۔
اور کیا کیا ننگا کرنا چاہتی ہیں یہ بد کار ذہنیت کی حامل فاحشائیں ۔ 
کوئی یہ کہے کہ نائٹ کلب میں جانے والی عورتیں اور مرد شریف باحیا اور با کردار ہوتے ہیں تواس پر یا تو زوردار قہقہہ لگایا جا سکتا یے یا اس کی عقل پر ماتم کیا جا سکتا ہے۔
ان حیوانوں کے خلاف یہ طوائفیں کیوں نہیں نکلیں ؟ ان کی حفاظت میں کیوں نہیں کارڈز اٹھائے  ؟
 جو معصوم بچیوں  کی آبروئیں برباد کر کے انہیں موت کی نیند سلا رہے ہیں  یا ان عورتوں کو جو  کہ رشتے سے انکار کا اپنا حق استعمال کرنا چاہتی ہیں  اور اپنی زندگی کے شادی ، تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق لینا چاہتی ہیں  یا اپنے باپ اور شوہر کی جائیداد سے اپنا جائز حق وصول کرنا چاہتی ہیں، لیکن قتل کر دی جاتی ہیں یا تیزاب گردی کا شکار بنا لی جاتی ہیں ۔ ان کے لیئے یہ موم بتی مافیا اور یہ فاحشائیں کیونکر سڑکوں پر آئینگی کیونکہ وہ سب ان کی طرح  بے لگام اور بے مہار زندگی کی تمنا نہیں رکھتیں بلکہ اپنی عزت ، جان اورمال کے تحفظ کے جائز حقوق کی حصول کی جنگ میں خود کو قربان کر دیتی ہیں ۔  سڑکوں پر امڈتی ہوئی مٹھی بھر زر خرید  غیر ملکی ایجنڈوں پر ناچتی ہوئی عورتیں جو باحیا اور محنت کش عورتوں کے خاندان تباہ کرنے والی مہم   اصل میں  یہ جنگ تو بے حیائی کی اڈوں کی اشتہاری مہم ، جس میں کسی شریف عورت کی نہ تو آواز شامل ہے اور نہ ہی وہ ان کے ارادوں میں  کسی طور سے شمولیت گوارہ کرتی پے ۔  
انہیں کپڑوں سے آذادی چاہیئے، 
باپ بھائی شوہر کے رشتوں سے آذادی چاہییے، ہر عورت ان کی پیروی میں طوائف بن جائے یہ ہے ان کا ایجنڈا اور بس۔
دنیا میں کہاں  کیا ہو رہا ہے یہ ہمارا سر درد  نہیں ہے ۔ ہمارا سردرد ہمارے ملک پر اثرانداز ہونے والی حقیقتیں ہیں ۔ چاہےوہ ہمارے مذہب پر حملہ ہو یا ہماری ثقافت پر ہمیں قبول نہیں ہو سکتا ، کیونکہ یہ یی چیزیں آپکو دنیا کے دوسرے ممالک سے ممتاز  و منفرد کرتی ہیں ۔ مگر ٹہریئے یہاں تو بات ہمارے مذہب اور خدا کے حکم سے جا ٹکرائی ہے اس کا علاج اب لازم ہے ۔ 
پاکستان کا لفظی مطلب ہی ہمیں اس کی اساس سمجھا دینے کے لیئے کافی ہے یعنی پاک ستان مطلب  پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ ۔اس کا مطلب کہیں بھی کسی مذہب سے وابستہ نہیں کیا گیا لیکن اس کی معنویت اسے ہر مذہب کے انسان کے رہنے کا ٹھکانہ بناتی ہے ۔شرط صرف ہے تو اس کی پاکیزگی کی ہے ۔ اور یہ ہی پاکیزگی اس کے کردار سے جھلکتی ہے اور کردار کا پہلا آئینہ اس کا لباس ہو گا ۔ جو اس کے بارے میں دیکھنے والے کی پہلی رائے قائم کرتا ہے ۔ جو یہ فرماتے ہیں کہ دل پاک ہونا چاہیئے لباس سے کیا فرق پڑتا ہے تو انہیں یہ اطلاع بہم پہنچا دی جائے کہ دل کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ہم انسان جو دیکھتے ہیں  اسی پر اپنی رائے بنانے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ لہذا اپنے لباس کو مکمل اورحیادار رکھنا ہی انسان کی شرافت کا پہلا اعلانیہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اس کے کردار کی عظمت کو جانچا جائے گا کہ وہ اپنے رشتوں سے کتنا مخلص ہے ؟  اور اگر وہ ان رشتوں ہی سے بیزار ہے ، اپنے لباس سے  ہی تنگ ہے تو اسے وہیں جا کر آباد ہو جانا چاہیئے جہاں سب ان چیزوں سے بیزار لوگوں کا ٹھکانہ ہے  ۔ 
ایسے بےمہار مرد و زن اگر کسی رشتے کے قابو میں آنے کو تیار نہیں ہیں تو انہیں اٹھا کر یا اپنے ملک کی سرحد سے باہر پھینک دیا جائے یا  پھر اس جہان سے ہی رخصت کردیا جائے  
مردوں سے بیزار عورتوں کا ایک شہر بھی بسایا جا سکتا ہے جہآں کا رخ کوئی بھی مرد کرنا اپنے لیئے حرام کر لے ۔ چار ہی دنوں میں ان عورتوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ۔ کہ اللہ نے ہر جنس کی اپنی جگہ اور ضرورت رکھی ہے اور جو ان کے خلاف جا کر غیر فطری تقاضے کرتے ہیں وہ برباد ہی ہوا کرتے ہیں ۔ پاکیزگی اور ناپاکی کبھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے ۔  شہد خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو اسے  گندے چمچ میں بھر کر اپنے منہ میں رکھنے کی کوشش کوئی نہیں کرے گا ۔ اسی طرح ایک وقت میں انسان یا تو پاک ہوتا ہے یا غلیظ ۔ گویا وہ ناپاک لباس میں ہو یا کردار میں ، کچرہ ہی بن جاتا ہے انہیں گھروں سے باہر ہی پھینکنا بنتا ہے ۔ 
 کیوں کچرا گھروں میں نہیں رکھا جاتا اس کا مقدر صرف کوڑے دان ہی ہوتا ہے ۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 5 مارچ، 2020

● ہائے بیچارہ مرد/ کالم


             ہاۓ بیچارہ مرد
             (تحریر:ممتازملک۔پیرس)

ہم سب خواتین کی مظلومیت کا رونا تو خوب روتے ہیں ۔ان کے لیۓ کبھی نہ کبھی آواز بھی اُٹھا لیتے ہیں خواتین بھی آنسو بہا کر اپنے دل کا غبار نکال لیتی ہیں ۔ لیکن کیا ہم نے کبھی دھیان دیا ہے کہ ہماری دنیا میں اس غریب مرد پر کیا گزرتی ہے ۔ یہ غریب تو پیدا ہی یہ سوچ کر کیا جاتا ہے کہ آتے ہی [ اس دور میں جب کہ انسان کااکیلے اپنا ہی بوجھ اٹھانا بھی پہاڑ اٹھانے جتنا لگتا ہے ] اپنے سے پہلے پیدا کی گئ چھ سات بہنوں کا جہیز اکٹھا کرے گا ، ماں باپ کو حج کرواۓ گا ۔ ۔بہنوں کے سسرال پالے گا ۔ ایک ملازم کی طرح ان کی ابرو کے ایک ایک اشارے پر رقص کرے گا ۔ کسی بات پر کبھی اعتراض کرے گا توفورا دودہ کی بتیس دھاروں کی بلیک میلنگ بھرے گا ۔ بہنو ں کے آگے بندر کی طرح ناچے گا کوئ بہن اگر بدکردار نکل آۓ تو اس کی خاطر کسی کو قتل کر کے جیل بھی جانا پڑے تو جاۓ گا ۔ اور قتل نہ کیا تو قتل ہو کر اپنی محبت کا یقین دلاۓ گا ۔ اول تو یہ کبھی شادی ہی نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو کسی ایسی لڑکی سے جس میں سارے جہاں کی خوبیاں ہوں مگر ہمارے سامنے نوکرانی بن کر رہنا پسند کرے ۔ ہمارا ھی جوٹھا کھاۓ اور ہمارا ہی گاۓ ۔
مرد بیچارہ ماں کی جانب جاۓ گا تو بیوی سے کھری کھری سنے گا ۔ اور اگر بیوی کی جانب جاۓ گا تو ماں کی گالیاں مقدر ۔اپنے ہی بچوں کو اس ڈر سے اپنی گود میں لیکر کھلم کھلا پیار نہیں کر سکتا کہ بہن کو پتنگے لگ جائیں گے ماں ڈنڈا لیکر ذلیل کرے گی کہ ہاۓ ہاۓ بے شرم ماں بہنوں کو دکھاتا ہے کہ تو بھی بچوں والا ہے ۔ ان سب سے نپٹ لے تو کئ بار بیوی ہی اپنی چادر پھاڑ کر پاؤں ایسے باہر نکال لینا چاہتی ہے کہ اس کی نمود و نمائش کے لیۓ مرد بیچارہ مقروض ہو کر چاہے خون ہی تھوکنے لگے ۔ شوہر نے بیوی کو مارا یہ تو سب مانتے ہیں لیکن کیا شوہر جو اپنی بیویوں کے ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ جسمانی تشدد کا شکار بھی ہوتے ہیں ۔ اس تمام ظلم وستم کا کبھی کہیں کوئ تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔ شاید اس لیۓ کہ اس سے مرد اپنی عزت کو کم ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ لیکن کیوں ؟ ظلم کہیں پر بھی ہو کسی پر بھی ہو ۔ اسے ہر صورت بے نقاب کیا جانا چاہیۓ ۔ابھی پچھلے ہی دنوں ایک پاکستانی خاتون نے اپنی ماں کا غلام نہ بننے پر اپنے شوہر کو دانتوں سے کاٹ کر بری طرح ذخمی کر دیا ۔ جب کہ اس خاتون کا پہلا شوہر اپنی شادی کے ایک ماہ کے اندر ہی اسے طلاق دے کر بھاگ گیا تھا ۔اور یہ سب جانتے ہوۓ اس خاتون کو ایک بیٹی سمیت قبول کرنے کا اس مظلوم شخص نے حوصلہ کیا ۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہمارے ارد گردبکھری پڑی ہیں ۔ مردوں کے ساتھ ایسا شرمناک سلوک کرنے والی بیویوں کا نہ صرف سوشل بائیکاٹ کیا جانا چاہیۓ بلکہ انہیں بغیر کسی رُورعایت کے پولیس کے حوالے بھی کیا جانا چاہیۓ ۔ کیوں کہ یہ ہی سزا ہم ایسا کرنے والے مردوں کے لیۓ بھی تجویز کرتے ہیں ۔ تاکہ باقی ایسی خواتین کو بھی عبرت حاصل ہو ۔ مرد کو بھی کسی بھی رشتے میں گدھا نہ سمجھا جاۓ بلکہ وہ بھی ایک دھڑتا ہوا دل رکھنے والا گوشت پوست کا انسان سمجھا جاۓ ۔ اس کے دل پر لگنے والی چوٹ پر بھی مرہم رکھا جانا چاہیۓ ۔ ماں کو بھی چاہیۓ کہ بیٹے کو ایک نعمت سمجھے نہ کہ لاٹری کا کوئ ٹکٹ ۔ بہنیں بھی بھائ کو ایک شفیق سایہ سمجھیں نہ کہ ایک ملازم اور ڈاکو ۔ اور بیویوں کو بھی بتائیں کہ پیاری بہنو اور بیٹیو یہ مرد شوہر کے روپ میں آپ کے سر کی چادر ہیں جو آپ کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں آپ کو زمانے کے سردو گرم اور بری نظروں سے بچاتے ہیں ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے اچھی عورت وہ ہے کہ جب اس کا شوہر اسے دیکھے تو خوشی محسوس کرے ۔ اور یہ بھی کہ شوہر کی نافرمان عورت کی کبھی بخشش نہیں ہو گی ۔ خدا کرے کہ ھم دنیا سے زیادہ خدا کا ہی خوف کر لیں ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 2 مارچ، 2020

یادگار مشاعرہ / رپورٹ




              یادگار مشاعرہ 
        (رپورٹ :ممتازملک ۔ پیرس)

گزشتہ روز  یکم مارچ 
2020ء  بروز اتوار  پیرس کے نواحی علاقے سارسل کے ہال میں پاکستانی خواتین کی فرانس ، پیرس میں موجود پہلی ادبی تنظم راہ ادب کے زہر اہتمام ایک خوبصورت مشاعرے  کا اہتمام کیا گیا جس میں فرانس کی تقریبا سبھی ادبی تنظیمات  بزم اہل سخن ،بزم صدائے وطن اورراہ ادب کے شعراء کرام نے بھرپور حصہ لیا ۔

پروگرام کی صدارت معروف پنجابی شاعر جناب عاشق حسین رندھاوی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض راہ ادب کی جانب سے متاز ملک اور روحی بانو نے ادا کیئے ۔  پروگرام کا آغاز معروف  نوجوان قاری معظم   کی پرسوز آواز میں تلاوت کلام پاک اورحمد باری تعالی سے ہوا ۔ ساری محفل نے نہایت عقیدت و احترام کیساتھ انہیں سنا اور داد دی ۔ جبکہ نعت رسول مقبول پیش کرنے کی سعادت  معروف شاعر عاکف غن کو حاصل ہوئی ۔ ۔ شعراء کام نے اردو اور پنجابی کے علاوہ پوٹھوہاری زبان میں بھی اپنا کلام پیش کیا اور حاضرین سے بھرپور داد سمیٹی ۔  یوں  یہ پروگرام کافی حد تک اردو ک ساتھ پنجابی مشاعرے کی صورت  اختیار کر گیا 
 اور تقریبا سبھی شعراء کرام نے اردو کیساتھ ساتھ پنجابی کلام میں بھی کمال دکھایا ۔ 
جن شعراء کرام  نے اپنے کلام  سے نوازہ ان کے نام ہیں  ،عاکف غنی ، نبیلہ آرزو، آصف جاوید آسی ، مقبول الہی شاکر ، ممتاز احمد ممتاز ، راجہ زعفران ، سیدحمزہ شاہ ، کبیر احمد،   جبکہ راہ ادب کی جانب سے ممتاز ملک ، روحی بانواور شمیم خان صاحبہ نے اپنے خوبصورت کلام سے پذیرائی پائی ۔  معروف ناول نگار ، شاعرہ اور افسانہ نگار محترمہ شاز ملک صاحبہ نے بھی خصوصی شرکت فرمائی اور اپنے پنجابی اور اردو کلام سے بھرپور دادسمیٹی ۔ پروگرام کے اختتام پر  راہ ادب کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ کہ فرانس اور  دنیا بھر میں موجود مخیر پاکستانیوں کا یہ قومی فریضہ ہے کہ اپنی کمائی  کا ایک برائے نام حصہ ہی سہی لیکن اپنی زبان اپنے کلچر اوراپنے ادب کے لیئے ضرور وقف کریں ۔ آپ اپنی زبان کے لیئے ریڈیو ، ٹی وی  چینلز بنان  والے ساتھیوں کی بے غرض مدد کریں تاکہ کل کو ان کا نام ان کی اولادیں ان کےجانے کے بعد بھی فخر سے لے سکیں کہ انہوں نے اپنی زندگی سیاست اور ریسٹورنٹ کے کاروبار میں پیسے سے پیسہ بنانے کے علاوہ بھی کسی نیک مقصد میں خرچ کیا ہے۔  جو ان کہ نسلوں کو اپنے  آبائی ملک  کیساتھ جوڑے رکھنے میں پل کا کردار ادا کریگا ۔ کل کو اگر اس خالی جگہ کو کسی بھارتی یا یہودی لابی نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو آپ کے پاس اپنا سر پیٹنے کی بھی مہلت نہیں رہیگی ۔ کیونکہ جو پیسہ لگاتا ہے وہ اپنا ایجنڈا بھی پورا کرواتا ہے ۔ پروگرام  کے آخری حصے میں معروف نوجوان  شاعر اور آن دیسی ٹی وی کے سی ای او  وقار ہاشمی نے اپنی تیار کردہ مختصر دورانیئے کی  فلم پیش کرنے کا اعلان بھی کیا ۔  اور دوستوں سے اس سلسلے میں ساتھ دینے کی استدعا  بھی کی ۔ جبکہ ممتاز ملک نے آن دیسی ٹی وی کے لیئے پروگرام کے نئے  سلسلے کے آغاز کا اعلان بھی کیا جس میں کلام شاعر بزبان شاعر کے عنوان سے  ہر بار  ایک شاعر کو اس کے حالات زندگی سنانے اور ان کے منتخب کلام سننے کے لیئے دعوت دی جائے گی ۔ 
یوں یہ تقریب بہت سے اہم پیغامات کیساتھ  اختتام پذیر ہوئی ۔ مہمانوں کی تواضح چائے مشروبات اور  دیگر لوازمات سے کی گئی۔ 
پروگرام کے انعقاد میں تعاون کیا تھا معروف تنظیم "لے فم دو موند " اور "بھائی بھائی سویٹس" اور "آن دیسی ٹی وی"  نے ۔ جس کے لیئے راہ ادب کی صدر محترمہ ممتاز ملک نے ان سب کا دلی شکریہ ادا کیا ۔ ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔


پیر، 17 فروری، 2020

علی یاسر روٹھ گیا


علی یاسر روٹھ گیا 

علی یاسر نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ انسان تھا بلکہ بہت ہی مہذب ، منکسرالمزاج ، مہربان اور ملنسار انسان تھا ۔ اس سے میری ملاقاتیں زیادہ تو نہیں ہوئیں ۔  اسلام آباد اور راولپنڈی میں تین یا چار  ادبی پروگرامز  میں اس سے ملنا ہوا ۔ بہت ہی عزت دینے والا انسان تھا ۔ بہت اہم موضوعات پر ان کی تحریریں سامنے آ رہی تھیں  ۔ فیس بک پر انکی آخری پوسٹ 16 فروری 2020ء ان کی ذہنی کیفیات کو کھل کر بیان کر رہی ہے کہ 
ہے آج بھی مصروف گماں کچھ نہیں بدلا 
اے شہر غلط فہم یہاں کچھ نہیں بدلا
چہروں کے بدلنے کی روایت ہی نہیں ہے 
بینائی ہوئی روبہ زیاں کچھ نہیں بدلا
ایک بہت ہی پیارا اور مخلص انسان بہت جلد دنیا سے روٹھ گیا ۔ ایک اچھی دنیا کو چن لیا اس نے ۔ 
ایک دم سے بھریا میلہ چھوڑ کر یوں چلدینا کوئی کیسے بھول سکتا ہے ۔ علی یاسر جہاں رہو اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہو ۔ آمین
  ( ممتازملک.پیرس)

عقل عمر سے نہیں /کوٹیشن




عقل عمر سے نہیں ،
                    تجربے سے

  پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربےسے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
 (چھوٹی چھوٹی باتیں )(ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com



شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/