ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 12 جنوری، 2017

بچے بڑے کریں غلام نہیں

بچے بڑے کریں غلام نہیں
ممتازملک. پیرس

اللہ پاک نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اورانسان نے  اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنے  آگے غلام کی قطار میں کھڑا کر دیا ..جب تک یہ غلام اس کے کوکھ اور نسل سے نہ تھی اس کی یہ رعونت اور خود غرضی سمجھ میں آتی بھی تھی .. لیکن وہاں کیا کہیئے گا کہ جب اپنی ہی جنی ہوئی اولادوں کو بھی ہم نے اپنا غلام بنانا شروع کر دیا اور سمجھنا بھی شروع کر دیا .
*خبردار یہ نہیں کرنا
*چلو جلدی کرو تمہیں یہ ابھی کرنا ہے
*تمہاری یہ جرات کہ تم مجھ سے یہ سوال کرو
*میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں
*تم مجھ سے سوال کرو گے (کرو گی )کیا
*میں دیکھتا  (دیکھتی) ہوں کہ تم ایسا کیسے کرتے ہو
*دو روٹی کی اوقات نہیں تمہاری میرے بغیر
یہ اور اس جیسے بہت سے جملے ...
اگر ہم اپنی روزانہ کی گفتگوکا جائزہ لیں تو ہم ہر روز کسی نہ کسی سے اپنے ہی گھر میں یہ جملے کہہ رہے ہوتے ہیں . کبھی اپنی اولاد سے، کبھی اپنے بہن بھائیوں سے، کبھی اپنے دوستوں سے ، کبھی اپنے ملازمین سے..
پہلے یہ احکامات ماں باپ کی جانب سے ہمیں  پیدا کرنے کے بدلے ہمیں سنائے جاتے ہیں ..
بڑے ہونے تک، بیاہ ہونے تک، ہر روز ان جملوں کے کوڑے سے ہماری کھال ادھیڑی جاتی ہے ..
جہاں آپ تھکے یا ذرا بیزار ہوئے وہیں سے آپ کی تمام تابعداری اور محنت و محبت پر نافرمانی اور ناہنجاری کا تیزاب  انڈیل دیا جائیگا. .
اور دوبارہ سے نیکیوں اورخدمتوں کی گنتی شروع کر دی جائیگی.
لیکن ہمیں یہ کبھی یاد نہیں رہا کہ
بچوں سے غلاموں کی طرح برتاؤ کرنے والوں نے صرف غلام ہی پیدا کیئے .. ہمارے بزرگوں نے اپنی اولادوں کو صرف اپنا ہتھیار بنایا اس رویئے سے ..
اگر وہ پچھلی نسل کو پیار اور اعتماد دیتے تو آج کے والدین کی اکثریت اپنی اولادوں کو بے لگام آزادی کبھی نہ دیتی ...
وجہ ...
*جو احساس محرومی ان لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھے.
*جہاں ماں باپ نے کبھی اپنے بچوں کو گلے سے نہ لگایا
*کبھی ان کی کامیابی پر کسی کے سامنے کیا، ان کے سامنے بھی خوشی کی کا اظہار نہیں کیا
*کبھی ان کی پسند ناپسند کا خیال نہیں رکھا
*کبھی ان کی عزت نفس کا احترام نہیں کیا
*کبھی انہیں اپنے دل کی بات کہنے کی اجازت نہیں دی .
تو ان ترسے ہوئے بچوں کو جب اللہ نے والدین بنایا تو یہ موقع ملتے ہی اکثر اپنے بچوں کو وہ آزادی بھی دے بیٹھے جو ابھی ان کی عمر کے لیئے مناسب نہیں تھی. اور اسی سبب وہ آج کی بگڑی ہوئی نسل بن گئے ...
جبکہ جن ماں باپ نے سوچ سمجھ کر ان کی عمر کی ضروریات کے حساب سے ان سے تعلق کو دوستی میں بدل کر ان میں جھانک  کر استعمال کیا انہیں اس پر اچھے نتائج ہی ملے ہیں ..
آپ کے بچے ہمارے بچے اللہ نے ہمارے دوست بنائے ہیں نہ کہ دشمن ...
اپنے بچوں کو یہ بات بتانے اور ثابت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم  ان کی ہر دلچسپی اور تحریک میں شریک ہیں  ..ان کے مضامین چننے سے لیکر ان کے زندگی کے ساتھی تک چننے کی انہیں وہ ساری آزادی دی ہے اس کی حدود بتا کر .. کہ یہ آپ کا دائرہ ہے اس کے اندر جو جی چاہے اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کرو گے ، اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ کھڑا پاو گے.
صرف اسی طرح ہم اپنے بچپن میں اپنے  ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ  کر سکتے ہیں . جب ہماری اولاد میں وہ محرومیاں اور کمیاں پیدا ہونے سے روکی جا سکیں ..
  انشاءاللہ

منگل، 10 جنوری، 2017

شب ازل سے


تعز چھپا ہے تزل کی چادر میں جانے کب دے
شب ازل سے ..
شب ازل سے

ہمارا معاشرہ عورت کی بیچاری قبول کرتا ہے اس کی مضبوطی اور خوداعتمادی سے اسے اخلاقی ہیضہ ہو جاتا ہے .
بقول منٹو کے کہ
ہمارا معاشرہ عورت کو تانگہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن کوٹھا چلانے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ...
وجہ.....
اگر وہ عزت سے کمانے لگی تو اس کی بےچارگی پر اپنے ترس کی رال ٹپکانے  کے شوقین کہاں جائیں گے ...
اس کے ننگے بدن کو  اس کی غربت سمجھ کر مدد کے بجائے ہوس کے کیل  کون ٹھونکے  گا .....
گویا کہ معززین شہر کا "تعز" انہی فقیروں کے "مذل" ہونے پر قائم ہے ....
سچ کہا ہے شاعر نے کہ
نہ ملتا غم تو بربادی کےافسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے

سچی بات ہے ہمارا معاشرہ تماش بین معاشرہ ہے اب اس کے سامنے بندر ناچے یا کسی کی مفلسی. ..
بس تماشا ہونا چاہیئے ....
ممتازملک.پیرس

پیر، 9 جنوری، 2017

آنٹی نامہ


آنٹی کوئی رشتہ نہیں ہے لوگو
کتنے ہی عرصے کے غور و خوض کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم  لوگ کوئی بات نہ تو سوچ کر بولتے ہیں اور نہ ہی سمجھ کر سنتے ہیں . ہم ٹائم پاس  کرنے کے لیئے ہمیشہ جان چھڑاو کام کرنا ہی پسند کرتے ہیں .
ایک چھوٹی سی مثال دیکھ لیں ہمیں جانے اپنے رشتوں کو اس کے رشتے سے پکارتے ہوئے کیا تکلیف ہوتی ہے . کہ ہر اپنا بیگانہ  انکل اور آنٹی کے ڈنڈے سے ہی ہانکا جاتا ہے . نہ کسی کی عمر جانتے ہیں نہ اس سے کوئی رشتے داری دیکھی جاتی ہے ...بس
جس کے دو بال سفید دیکھے
جس کا وزن ذیادہ دیکھا
جس کو ماں یا باپ کیساتھ دوست یا سہیلی دیکھا  تو سمجھ لیا بس یہ ہمارا آنٹی یا انکل ہی ہے .
کیا یہ کوئی قانون یا فارمولا ہے کہ آپ کی ماں کی دوست یا ابا کے دوست انہیں کی عمر کے ہی ہونگے ؟
کیا آپ کے والدین کے دوست آپ کے برابر یا آپ سے سے پانچ دس سال بڑے نہیں ہو سکتے ؟
پہلے پاکستان میں تھے تو اس لفظ کے فیشن میں سنا کہ انگریز اور یورپین سب کو  انکل اور آنٹی کہتے ہیں لیکن ہمیں تو آج انیس سال ہونے کو ہیں ہم نے اپنی کمیونٹی ہی میں یہ بیماری دیکھی ہے کسی بھی یورپین کو تو اس میں کہیں بھی مبتلا نہیں دیکھا .
ہم نے تو کسی کو یورپ میں آنٹی انکل کہتے نہیں سنا .
یہ وبا ہمارے پاکستانیوں میں ہی عروج پر ہے ..ہر انسان کا اپنا ایک  نام موجود ہے تو یہ زبردستی کے رشتے بنانے کا کیا مرض ہے؟ اصلی رشتے موجود ہیں انہیں اسی رشتے سے پکارا...یہ تو سمجھ میں آتا ہے پھر ہر جانے انجانے سے رشتے گانٹھنے کیوں چل پڑتی ہے ہماری کنفیوز قوم ؟؟
اتنے سال سے یورپ میں رہتی ہوں . آج تک کسی کو نہ کسی بھی یورپین، کسی بھی عمر کے مرد و زن سے نہ تو انکل آنٹی کہا نہ سنا ...
بڑی عزت سے سے نام لیتے ہی .اور جیسے ہی اپنی کمیونٹی میں داخل ہوتے ہیں ہر بوڑھی بن بیاہی ،اپنی عمر کی بچوں والی خاتون کو اور مرد کو انکل آنٹی کہہ کر یا تو اپنا احساس محرومی نکال رہی ہوتی ہے یا حسد اور جلن.
بھئی نام لینا اتنا ہی نامناسب لگتا ہے تو نام کیساتھ جی لگا دیں یا صاحب اور صاحبہ لگا دیں بہترین ہے ...
کل تک تو یہ انکل آنٹی برگر فیملیز کے چونچلے ہوا کرتے تھے لیکن اب تو
ہم نے گلی محلوں میں بھی یہ ہی حال دیکھا ہے. جبکہ اپنے رشتے سے کسی کو بلانے سے  اپنی ہی محبت اور اپنائیت جھلکتی ہے .
میں ایک سکول میں ایک کورس کے سلسلے میں کام کر رہی تھی ...وہاں پہلے روز تین سال کے معصوم سے بچے نے کہا
کیا ہم آپ کو مادام (جیسے آپ میڈم کہتے ہیں ) کہیں یا ممتاز ؟
تو میں نے کہا میرا نام ممتازملک ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ مجھے ممتاز ہی پکارا جائے ..
تو ان سب نے مجھے ممتاز اتنے پیار سے پکارنا شروع کیا کہ مجھے سچ میں ان سب بچوں اور بڑوں  سے محبت ہو گئی... 
ممتازملک

جمعرات، 5 جنوری، 2017

جج سے جرم تک


جج سے جرم تک. ...

اسلام آباد 30/12/2016

سیشن کورٹ جج راجہ خرم علی خان ....کاش میرا بس چلتا تو میں تمہیں جج کی کرسی سے گھسیٹ کر تمہاری بدمعاش بیوی سمیت  تاحیات سڑک پر بھیک مانگ کر پیاز کیساتھ روٹی کھانے کی سزا دیتی . اور ہر آنے جانے والے کو تمہیں ایک لات مار کر جانے کی سزا لازمی قرار دیتی . 

تمہارے جرائم....

دس سال کی معصوم بچی کو گھر میں ملازم رکھنا 

اسے بھوکا پیاسا رکھنا 

اس پر جسمانی اور ذہنی تشدد کرنا 

اس کو حبس بیجا میں رکھنا 

اس کے ماں باپ سے انسان کے بچے کی خریدوفروخت کرنا 

ایک انسان کے بچے پر ایک جھاڑو کو قیمتی سمجھ کر اسے فوقیت دینا 

ملازمہ دس سالہ بچی کو چولہے پر جلانا

اور اس کے جسم کو داغنا

کیا آپ بھی اہل دل ہیں ؟

اس ملک کا ایک  بصورت منسٹر اپنے گھر سے 70 ارب روپے کا مہا ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور دو ارب کی ہڈی منصف  یا ججہ بدمعاش کے منہ میں  ڈال کر باعزت و باکردار کا سرٹیفیکیٹ جاری کروا لیتا ہے اور ایک مجبور عورت اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیئے روٹی کا ٹکڑا یا دودہ کے دو گھونٹ کے  لیئے چند ٹکے چراتے ہوئے اس ملک کے ججے بدمعاشوں کے منہ پر چانٹے بننے کے بجائے 

مجرم اعلی بنا کر میڈیا پر پیش کر دی جاتی ہے . اور اس ملک کی عوام تماشے دیکھنے اور بنانے اور بننے کے شوق میں  ڈھائی ماہ کی معصوم بچی کا لاشہ اٹھائے سردی اور بھوک سے مرنے والی 

اور اسکی ماں کو عبرت کا نشان ہونا ہی چاہیئے....😢😢😢😢

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

یہ دیس ہے اندھے "منصفوں " کا

یہ تو ہوئے میرے یا مجھ جیسوں کے ذاتی جذبات ...

لیکن ہمارے ملک میں ہر پیشے کے لوگوں نے اپنی تنظیموں کے نام پر اپنے اپنے مافیاز بنا رکھے ہیں . 

ان میں آج کئی سالوں سے سر فہرست ہے وکیل مافیا اور جج مافیا .

کیا کوئی شخص ایسا ہے کہ جس کا واسطہ کبھی بھی قانونی یا عدالتی معاملات سے پڑا ہے وہ ان لوگوں کی کرپشن سے آگاہ نہیں ہے ...اور کسی بھی چور بازاری کی صورت میں یہ پولیس گردی کا عملی نمونہ پیش نہیں کرتے .

اس خاص کیس سے پہلے بھی ججوں اور وکیلوں کی ایسی ہی گھناؤنی حرکتیں  منظر عام پر نہیں آئی ہیں اور وہ سب کیسز کس کے اشارے پر دبا لیئے گیئے؟؟؟

اس کیس میں بچی کو بیچنے والے ماں اور باپ کو گرفتار کر کے دس دس سال کے لیئے جیل کیوں نہیں بھیجا گیا  ..

ایک نشئی آدمی کو نامرد کر کے اسے بچے پیدا کرنے سے معذور کیوں نہیں کیا گیا .کہ جنہیں وہ پال نہیں سکتا تھا انہیں دنیا میں گھسیٹ کر لا کر ان کا سودا کر کے نشہ کرنے کی عیاشی کا حق اسی کس نے دیا؟

اور بچے پیدا کرنے والی اس ڈائن کو ماں کی فہرست خارج کر کے یہ بچی اب تک کسی اچھے چائلڈ سینٹر کے  حوالے کیوں نہیں کی گئی؟

اس عورت کو ماں کے درجے کا مذاق اڑانے پر بیس سال قید با مشقت دی جائے . تاکہ یہ باقی عورتوں کے لیئے بچے پیدا کرنے سے پہلے انہیں پالنے والے باپ کی کمائی اور کردار کی گارنٹی بن سکے . کہ آیا اس کا شوہر بننے والا مرد اس کے بچے کا باپ بننے کا بھی حقدار اور اہل ہے یا نہیں ....

عدالت عالیہ سے گزارش ہے کہ خود کو بھی اس مقدمے میں پیش کیجیئے اور اپنے "پیٹی بند بھراوں" کو بچانے کی ناپاک  کوششوں کا قلعہ قمع کیا جائے .

اور مجرم وکیلوں اور ججوں کو قرار واقع سزائیں دیکر عوام کا اعتماد عدالتوں اور قانون کی عملداری پر بحال کیا جائے...

ممتازملک پیرس

اتوار، 1 جنوری، 2017

دعا خیر . 01/01/2017


اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا اللہ ہمیں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں  عطافرما . ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے . پچھلے سال ہم سے جو گناہ ہوئے ان کی معافی اور جو غلطیاں سرزد ہوئیں انکی تلافی کی توفیق عطا فرما.
یااللہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو دنیا اور آخرت کے ہر امتحان میں کامیابی عطا فرما.
ہماری عمروں میں نیکی کے بے شمار مواقع ،عمل کی توفیق کیساتھ برکت عطافرما.
یا اللہ ہمیں صحت ایمان اور عزت والی زندگی عطا فرما.
بے اولادوں کو نیک اور صالح اولاد عطا فرما.
شادی کے قابل لوگوں کو ہم ذہن اور ہم مزاج رشتے عطافرما .
نکاح کے ذرائع کو آسان فرما .
ہمیں ہماری زبانوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والا بنا .
یااللہ ہمارے اعمال ،اقوال  اور افعال کی حفاظت فرما. 

یا اللہ ہمیں حلال طیب اور پاکیزہ رزق روزگار فراغت کیساتھ عطافرما. 

ہمارے دسترخوان کو ہر حلال نعمت کیساتھ ہر اپنے بیگانے کے لیئے وسیع فرما دے. 
ہمیں تو اپنے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.
یا اللہ ہمارے تمام رکے ہوئے جائز کاموں کو باآسانی مکمل فرما دے .
ہمیں کم میں خوش رہنے والا، علم سے محبت کرنے والا ،دوسروں کو معاف کرنے والا، ہر ایک کے حقوق بنا مانگے دینے والا ، ضرورت مندوں کے کام آنے والا، نیک کاموں میں  ایکدوسرے پر سبقت لیجانے والا ، ہر کام صرف اور صرف تیری رضا کے لیئے کرنے والا بنا .
ہمیں گناہوں سے نفرت کرنے والا بنا .
ہمیں دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے والوں میں شامل فرما.
یا اللہ ہمیں ہمیشہ اپنی رحمتوں  کے سائے میں رکھ .
آخرت کی تیاری کا ہمیں  بہترین توشہ تیار کرنے کی توفیق  عطا فرما. 
یا اللہ ہمارے گناہوں  کو معاف فرما دے .
آمین
یا رب العالمین
متمنی دعا
ممتازملک. پیرس
01/01/2017 - بروز  اتوار

پیر، 26 دسمبر، 2016

نصاب،درسگاہ اور استاد۔ کالم


        نصاب ،درسگاہ اور استاد
تحریر:
          (ممتازملک ۔پیرس)


سنتے آئے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے .
لیکن جس گود میں یہ آنے والے وقت کے بچے پلنے ہیں اس بچی کے پیدا ہونے سے لیکر صاحب اولاد ہونے تک خود وہ بچی کن کن امتحانات سے گزاری جاتی ہے اور کیسے پروان چڑھائی جاتی ہے اس پر کوئی لب کشائی کرنا ضروری  نہیں سمجھتا . کہنے والے نے پھر بھی کہا کہ
" تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمہیں اچھی قوم دونگا "
لیکن  پھر بھی ہم ایشیائی   یا جنوبی ایشیا اور افریقہ کی عورت کو پیدائش کے بین اور بچپن کی گھرکیوں اور ٹھڈے جبکہ جوانی کا ایک جبری رشتہ بطور شوہر کے ہی ملا ...
اب اس جبری رشتے سے پیدا ہونے والی نسل کو کون کس خیال سے پروان چڑھائے گا یہ اندازہ  ہمارے معاشروں میں پھیلے ہوئے بے ترتیب، بے ڈھنگی، زندگی گزارتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ  کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے ...
پھر اس پر یہ غضب بھی ڈھایا گیا کہ جو کام حکومت کے ذمے تھا کہ اچھی قوم بنانے کے لیئے ان بچوں کو اچھا سکول سسٹم ،اچھا متناسب یکساں تعلیمی نصاب ، خوشگوار اور کارآمد تعلیمی ماحول ،مہربان ، شفیق اور قابل اساتذہ، پر اعتماد ہنر مند مستقبل ،
فراہم کیا جائے.  لیکن حکومتوں کی بے پروائی اور پرائیویٹ سیکٹر کی تعلیم کو کمائی کی انڈسٹری بنانے کی سوچ نے ہماری پوری نسل کو ایک چابی کا ٹٹو بنا دیا. نہ انہیں چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز ہے ،نہ ان میں مطالعے کا شوق ہے،نہ انہیں کوئی باخبر رہنے اور معلومات عامہ سے کوئی لگاو ہے  .اور کچھ کو منہ مروڑ کر انگریزی بولنا ہی دنیا بھر کے علم کا نعم البدل لگتا ہے .

ہمیں آج بھی یاد ہے کہ 80ء اور 85ء کے سن میں اگر 1100 میں سے بھی کوئی آٹھ سو نمبر لے لیتا تھا تو سمجھ لیں کہ سارے زمانے کا علم اور قابلیت اس کے پاس ہوتی تھی . اور آج جسے پوچھو وہ گیارہ سو میں سے پانچ یا دس نمبر کم لیکر ریکارڈ بنا رہا ہے لیکن ان سے سوال کیا جائے کہ
اقبال کا مزار کہاں ہے؟
یا
قائد اعظم کا اصل نام اور جائے پیدائش کہاں ہے ؟
تو جانئے جیسے ان سے جانکنی کے لمحات کی تفصیل پوچھ لی گئی ہو ...
کبھی ان سے جاں کنی کے مطلب پوچھ کر دیکھیئے گا ...
 سو واضح رہے کہ والدین کو پرورش کا ذمہ دار قرار دینے والے بھی جانتے ہوں گے کہ 
بچوں کی تعلیم اور تربیت صرف وہ والدین ہی اچھی کر سکتے ہیں جن کی اپنی پرورش محبت، سچائی اور اعتماد کی فضاء میں ہوئی ہو ...
ورنہ دوسری صورت میں انہیں  اپنے خوف، اپنے درد چھپا کر اور دبا کر اپنے بچوں کو  پروان چڑھانا ہوتا ہے .سو ان کے ہاں بھی اپنا نفسیاتی معائنہ اور رہنمائی لینا بے حد ضروری ہوتا ہے ...
اب یہ سب ہونے کے  بعد باری آتی ہے اساتذہ کی .
کیا وہ اتنے اہل ہیں؟ کیا وہ  پروفیشنل ٹیچنگ کے عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں ؟
سفارشی لوگ اور نوکری کہیں  نہیں ملی تو " چلو استاد بن جاؤ " کی سوچ رکھنے والے لوگ استاد کے نام پر دھبہ ہیں .
تیسری بات ہمارا نصاب جسے ازسر نو معنی اور مطالب کیساتھ ایک جیسا مرتب کرنا ہو گا . جو نیچے سے اوپر تک ہر بچے کے لیئے ایک سا ہو ،تبھی اس قوم میں یک رنگی اور ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے .
سو یہ نصاب کا فیصلہ ایسا ہی ہے جیسا بدن میں خون کا کردار ..
تو جب خون ہی فاسد ہو جائے تو اس بدن کو کیا تقویت دیگا، بلکہ  اسے موت تک لیجائیگا .اصل بات یہ ہی  ہے کہ 
دینی تعلیم کے لیئے سب سے بڑا نصاب تو ہمارے گھر کی سب سے اونچی شیلف پر سجے سجائے جلدان میں موجود ہے جناب ..
قرآن سے بڑا بھی کوئی نصاب ہو گا کیا؟ ...اور پھر احادیث کے لیئے صحیح مسلم و بخاری سے زیادہ کوئی مستند کتابیں نہیں ہیں ..
ہمارے ہاں اول تو مذہب کے ان ہی حصوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کے پیش کرنے والے کو اپنا کوئی مفاد اس میں نظر آئے. اس سلسلے میں پیش کرنے والے کو اپنے مطلب کی کوئی بات نہ ملے تو گھڑ کر سنانے میں بھی کوئی شرم حیا انہیں بلکل درکار نہیں ہے . اس لیئے کوئی بھی حدیث پاک یا آیات مبارکہ سننے کا موقع ملے تو صرف یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دین، دین فطرت ہے . اور جو بات فطرت سے ٹکرائے گی . وہ ہمارے دین کا حصہ ہو ہی نہیں سکتی . اسی لیئے
بہت سے واقعات مذہب کے نام پر گھڑے گئے ہیں . لوگوں کی عقیدت اور اندھے اعتقاد کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنے کے لئے انہیں ہر مذہب میں آلہ کار بنایا گیا ہے ..
لیکن یہ مشکل صرف اسلام کی نہیں ہے.
دنیا کے ہر مذہب کے ٹھیکیدار نے یہ کام کیئے ہیں اور دھڑلے سے کیئے ہیں ...

ہمارے ہاں دینی تعلیم کے نام پر ایک الگ ملا مافیا کام کر رہا ہے اور جدید تعلیم اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ لوگ دو سسٹم نہیں بلکہ چکی کے  دو پاٹوں میں پس رہے ہیں .
سرکاری سکولوں کو ہی دینی تعلیم کا پیریڈ رکھنا چاہیئے . اور ہنڈی  کرافٹ اور دستکاری کے پروفیشنل اساتذہ کیساتھ سکول کے آخری دو گھنٹے مخصوص کیجیئے .
اور سب سے اہم بات دین کا مذاق بند کر کے اپنے گھر کا سائیں بچہ اللہ کی راہ پر زبردستی لگا کر طالبان اور داعش پیدا کرنے کی بجائے . کم از کم میٹرک کے بعد دین کا شوق رکھنے والے بچے اور بچی کو اس راہ میں پڑھائی پر لگایئے . تبھی ہم اچھے مسلمان کی اصطلاح سے انصاف کرنے کا سوچ سکیں گے .
جس انسان کو دنیاوی علم سکھا دیا جائے ہنر سکھا دیا جائے . جس سے وہ عزت سے روزی کما سکے اور اپنی کنبے کو پروان چڑھائے تو اس کے ہر لقمے پر اس تعلیم کا انتظام کرنے اور کروانے والے کے لیئے بے شمار صدقہ جاریہ کا وعدہ ہے . بیشک اللہ پاک  ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین


■ محرم بنن لئی / پنجابی کلام ۔ او جھلیا


محرم بنن لئی

اک میرا محرم بنن لئی
کئی نامحرم تیار جے

پرجناں دے محرم اے ہوندے
نہیں اناں دے سچے یار وے

جتھے ایناں نوں ہوناں چاہیدا
اوتھے چولاں جاندے ماروے

اے کسے دے اپنے ہوندے نئیں
نہ کرن اے سچا پیار وے

چھڈن  لمیاں عشق اندر
اوتوں لمیاں لمیاں ماردے

ایہہ دو چھلاں نہ سہہ سکدے
نہ لان کسے نوں پار وے

سچ پچھو تے ہورکی دسیئے جی
نہ گھر دے نہ اے بار دے

ممتاز نہ کول جے قدر کوئی
کلے ہون تے واجاں ماردے
●●●

دوسری بیوی یا دوسری عورت۔ کالم





دوسری بیوی یا
 دوسری عورت
تحریر:
(ممتاز ملک. پیرس)





ہماری زندگی کا سچ یہ ہے کہ جہاں جذبات نہیں رہتے وہاں صرف روبوٹ رہا کرتے ہیں ..کسی نے کہا کہ جذبات بیکار شے ہیں ان کیساتھ زندگی نہیں گزاری جا سکتی .
آپ کی بات مان لیں کہ جذبات  ایک بیکار شے کا نام ہے جس پر کوئی نظام نہیں چل سکتا تو اللہ نے یہ بیکار جزبہ پیدا ہی کیوں کیا ؟عورت کو مسئلہ کہنے والا نہ انسان ہے نہ مسلمان. دنیا کی پہلی فرمائشی تخلیق عورت ہے ....
دنیا میں اللہ کے بعد تخلیق کی ذمہ داری عورت کو انہیں جذبات کے بل پر دی گئی . عورت ہی دنیا میں آنے کے بعد شفقت  اور محبت کی پہلی علامت کسی بھی انسان کے لیئے  ہوتی ہے اور اس کی بنیاد ہیں اس کے جزبات. ایک خاتون نے ایک بحث کے دوران  مرد کی دوسری تیسری اور چوتھی شادی کی بڑے دھڑلے سے وکالت کی کہ یہ اللہ کا "حکم" ہے اس میں عورت کو ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے . تو ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ وہ اپنے شوہر کے لیئے شادی بلکہ شادیوں کی ایسی مثال  اور " حکم" کی بات پر باقاعدہ برا بھی مان گئی اور ذاتیات ذاتیات  کا رونا رونے لگیں . تو ہم نے کہا کہ بی بی عورت کو ہلکان ہونے کی ضرورت اس لیئے ہے کہ سڑک پر بچوں کی لائن لیکر وہ کھڑی ہوتی ہے مرد نہیں . دربدر عورت ہوتی ہے مرد نہیں . برا نہ مانیں تو آپ کو بھی ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ نے اپنے میاں کی کتنی مزید شادیاں کروائی ہیں، دو دو یا تین تین ..آپ تو شاید کماتی بھی ہیں پھر دل تو کافی بڑا ہو گا آپ کا۔ ہم جیسی عام عورت مرد کو یہ حق دینے میں مجاز نہیں تو خلع لیکر اپنی زندگی اپنی مرضی سے کسی اور مرد کیساتھ شروع کرنے کا پورا پورا قانونی اور شرعی حق رکھتی ہے اور اس میں ہمارا کوئی باپ بھائی یا شوہر بات کرنے کے یا اعتراض کا کوئی حق نہیں رکھتا...
موصوفہ کے مطابق مردوں کو اس کی "اجازت کا حکم" ہے۔۔۔"اجازت کا حکم "تو  آپ کی نئی اختراع ہے ..اسے اپنی فرمائش کہیں تو اچھا ہے۔ دین کا حلیہ کیوں بگاڑ رہی ہیں . اور آدھی آیت یا آدھی حدیث بیان کرنا بڑی گمراہی ہے . اس آیت اور اس سے متصل آیت کے اگلے حصے کو مکمل کیجیئے..(اور نکاح کرو ایک ایک  دو دو اور تین تین لیکن عدل کیساتھ ... اور سمجھو تو تمہارے لیئے ایک ہی کافی ہے کیونکہ تم عدل نہ کر سکو گے )
یہاں اجازت دی گئی ہے . اور آگے اس اجازت کی شرائط بھی بیان کی گئی ہیں ..اسے کیوں بیان کرنے کی زحمت نہیں فرمائی  جاتی؟ وگرنہ معاشی اور اخلاقی اعتبار سے تو ایک بیوی اور دو تین بچے بھی سنبھالنے کے قابل نہیں ہے ہمارا آج کا مرد . جبھی اللہ پاک نے ہی  یہ فرما کر بات پوری کر دی کہ "اور میں جانتا ہوں کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے۔ سو تمہارے لیئے ایک ہی بیوی بہتر ہے "۔ اب اگر اسلامی مثال ہی دینی ہے تو ...
*کیا صحابہ کرام کی بیگمات نے بہت مالدار زندگی گزاری ؟
*کیا وہ اپنی بیویوں کو ماہانہ خرچ دیتے تھے؟
*کیا ان کے پاس ہر بیوی کو دینے کا ذاتی مکان تھا ؟
*کیا ان کے بچے ان کے خرچ پر بیس بیس سال تک تعلیم حاصل کرتے تھے ؟
اور سب  سے خاص بات ...
*کیا صحابہ نے جیسے صبر شکر پر بیویاں رکھیں ، کیا آج کی کوئی دوسری یا تیسری بیوی بننے کی شوقین خاتون بھی رہ سکیں گی ؟
*کیا یہ خود اپنی ذمہ داری پر کسی سے بچے پیدا کر کے اسے پالیں گی .
* بنا خرچہ مانگے.. اس کی پہلی بیوی کی مشقت سے بنائی جائیداد میں اپنا اور اپنے بچے کا حصہ ڈالے  بنا خوشی سے زندگی گزار لیں گی ؟
کیونکہ آج اگر واقعی کوئی خاتون  محض شوہر کا رشتہ نام کو ہی  مانگ رہی ہے تو کل کو اسے چوبیس گھنٹے وہ اپنے  قدموں میں بھی چاہیئے
* پھر وہ اسے روز فرمائشیں پوری کر کے دے .
*اس کو گھر لیکر دے .
*گاڑی بھی الگ لیکر دے،
*اس کو زیورات کے تحفے دے .
*اسے ماہانہ منہ مانگا خرچ دے .
(بڑے مطالبات اور رولےشروع ہو جاتے ہیں )
*پہلی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف عورت کا مرد کو دوسری شادی سے منع کرنا ہی نہیں ہے بلکہ  مرد بھی معاشی لحاظ سے  آج کسی بیوی کو کجھور اور حجرے میں تو نہیں رکھے گا نہ عورت رہے گی ...
*دوسری بات کہ کتنے مرد ہیں جو کم صورت ، ان پڑھ ، مطلقہ،  اپنے سے بڑی یا ہم عمر ہی سے  شادی ہر تیار ہیں؟
"دو چار نہیں مجھ کو فقط ایک دکھا دو
جس مرد کی آنکھوں میں کوئی ایسی حیا ہو
ہم  نے ایسی کئی تیس پینتیس سال کی خواتین دیکھی ہیں.جو کنوارے مرد کے علاوہ کسی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں . اب کوئی ان سے پوچھے کہ کتنے تیس سے چالیس سال کے مرد ان کو کنوارے ملیں گے ...
عموما اٹھائیس  تیس تک وہ بھی شادی کر چکے ہوتے ہیں .
اور دوسری شادی کے خواہشمند مردوں میں سب سے
* پہلا اور حقیقی حق بدکردار بیوی والوں کا...
*دوسرا حق
پہلی بیوی سے اولاد نہ ہونے والوں کا ہے .
*تیسرا حق بدزبان بیوی ہو جبکہ خود بااخلاق اور اچھے زبان و کردار کا ہو تو. ..
جو خواتین بڑے اونچے معیار کے آئیڈیل کی تلاش میں اپنی شادی کی عمر گنوا چکی ہیں انہیں دوسروں کے شوہروں پر حریص نظریں ڈالنے کی بجائے پہلے سے طلاق یافتہ ، رنڈوے یا بے اولاد دوسری شادی کے خواہشمند لوگوں کی جانب متوجہ ہونا  چاہیئے . اور اگر اولاد والے بھی ہیں تو اسے بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے .
دوسری شادی میں اگر خاتون یا صاحب پہلے سے کوئی اولاد رکھتے ہیں تو  نئے ساتھی کو اللہ کی رضا کے لیئے انہیں بخوشی اپنانا چاہیئے۔ کوئی کام تو محض اللہ کی خوشنودی کے لیئے ہونا چاہیئے . اور ان کے ارد گرد کے لوگوں کو بھی نئی ماں یا باپ کے سوتیلے پن کا خوف اور ہوا ان بچوں کے ذہن میں نہیں پیدا کرنا چاہیئے، بلکہ ان کے دل کو نئے رشتے کے لیئے محبت اور احترام کیساتھ نرم کر کے اپنے نیکی کے موقع کو اپنے نام سے اللہ کے ہاں درج کروانا چاہیئے . اپنی عمر سے دو چار سال  بڑے انسان کو اپنا کر خاتون اپنے لیئے نفسیاتی طور پر تحفظ محسوس کرتی ہے . شادی کی عمر پار کرتی خواتین کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے ناکہ بسے بسائے ہنستے مسکراتے گھروں پر ڈائن بن کر پنجے گاڑنے چاہئیں۔ انہیں باتوں کے سبب وہ دوسری عورت کے لیبل سے جان نہیں چھڑا پاتی کیونکہ اوپر بیان کی گئی وجوہات سے آنے والی عورت دوسری عورت نہیں کہلاتی . صرف بسے ہوئے گھر میں زبردستی داخل ہونے والی عورت تادم مرگ  دوسری عورت ہی رہتی ہے .

جمعہ، 16 دسمبر، 2016

● چھوٹا منہ بڑی بات/ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


چھوٹا منہ بڑی بات
تحریر: ممتازملک.پیرس 


کبھی کبھی بچوں کے منہ سے بھی اللہ پاک بڑی بڑی معرفت بیان کروا دیتا ہے . جیسا کہ ہمارے صاحبزادے سات برس کی عمر میں ایک دن اپنی ہی جون میں بیٹھے مخاطب ہوئے ...
ماما جی آپ کو پتہ ہے یہ دنیا کیسے بنی؟ ...
میں نے پوچھا کیسے بنی ؟
اور اس کے جواب کا انتظار کرنے لگی.
وہ بات جو شاید اس سے پہلے مجھے کوئی اتنی اچھی طرح نہیں سمجھا سکا وہ بات مجھے اس کی ایک بات سے سمجھا دی  ...
پہلے ایک لمحہ توقف فرمایا اور پھر بڑی متانت سے بولے ..
پہلے یہ دنیا صرف پانی کا ایک بلبلہ تھی، جب اللہ نے چاہا کہ اس پر دنیا بسائے .تو اس پر زمین کی (خاک کی)ایک تہہ بچھا دی. 🤔🤔🤔
●●●
                تحریر:ممتازملک۔پیرس
            مجموعہ: چھوٹی چھوٹی باتیں 
                         ●●●
 



ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

دعا ۔ ایسی مثال دے

             
ایسی مثال دے
کلام/ ممتازملک. پیرس)

ہر چیز تیرے عشق میں ایسی مثال دے
بجھتے دیئےمیں جیسےکوئی تیل ڈال دے

جب سوچتا ہے دل تیرے بے پایاں فضل کو
دھڑکن نکل کے وجد میں آکر دھمال دے

ہر ایک گام  پاؤں میں زنجیر ضبط کی
وہ ہی تو  مشکلات سے آ کر نکال دے

تجھ سے تیرے کلیم کا صدقہ ہی مانگ لوں
تجھ تک پہنچ سکے وہی لفظی کمال دے

نہ چھوڑ مجھ کو وقت کی دہلیز پہ تنہا
گرنےلگوں توبڑھ کے مجھے بھی سنبھال دے

میں ہوں سیاہ کار مگر تو ہے مغفرت
انصاف کی نہیں مجھے رحمت کی ڈھال دے

دامن ہے مختصر تیری رحمت دراز ہے
ممتاز کو کوئی بھی نہ ہلکا خیال دے

       ...........
                       
Add caption

اتوار، 4 دسمبر، 2016

کل اور آج کی دوری مٹائیں


اگر اپنے بچوں کو ہمیشہ اپنے نزدیک رکھنا چاہتے ہیں تو
انہیں اپنے عہد میں مت لے جائیں ،
بلکہ ان کے عہد میں جینا سیکھیئے ،
تاکہ آپ انہیں قدیم دور کی یادگار نہ لگیں بلکہ انکے دور کے ساتھی لگیں .جن سے وہ مشاورت کر سکتے ہیں اور جن کے تجربات کو آج  کے وقت میں جدید انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے.
ممتازملک. پیرس

ہفتہ، 3 دسمبر، 2016

ہمارے بچے ہمارا امتحان/ کالم




کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو یہ امید بھی ساتھ لاتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے ناامید نہیں ہوا ہے . تو گویا ایک انسان کی پیدائش رب کی امید لیکر آتی ہے اور یہ امید یقینا خیر کے کام کی ہی ہو سکتی ہے،  بے خیری کی تو ہو  نہیں سکتی . کیونکہ یہ امید تخلیق کار   کی اپنی تخلیق سے ہے . 
ہم بار بار اللہ کے بعد اسے دنیا میں  لانے والے کے حقوق تو زورشور سے بتایا ہی کرتے ہیں. لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آنے والا کوئی چھ فٹ کا کماتا  ہوا طاقتور جوان نہیں ہے بلکہ گوشت پوست کا ایک تین کلو کا معصوم سا وجود ہے جو اپنی ہر ضرورت کے لیئے آپ کی مدد کا محتاج ہے . تو اس کی مدد کیسے کی جائے ؟

اس بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے خود کو ذہنی جسمانی اور مالی طور پر اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کے لیئے تیار کیا جائے  اور بچے کو اندھیرے کا تیر سمجھ کر نہ چلایا جائے بلکہ اس کو اس معاشرے کا، بلکہ دنیا کا ایک بہترین فرد بنانے کے لیئے ہر ممکنہ سہولت دی جائے . محبت اور اعتماد کی کھاد اس کی جڑوں میں ڈالی جائے . انصاف کی فضا اپنے گھر سے میسر کی جائے .
جہاں اس کا حق اس کے مانگے بنا ملے گا اور کوئی بہن بھائی یا ماما  چاچا اس کی زندگی کا دخیل نہیں ہو گا تو بچہ بھی کل کو آپ کو ہی نہیں  ساری دنیا کو اس کے حقوق بنا مانگے دینے کا اہل ہو گا .
ہمارے ہاں ہمیشہ بچوں کو یہ سکھانے پڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ماں کے یہ حقوق ہیں، باپ کے یہ حقوق ہیں ، بہن بھائیوںکے یہ حقوق ہیں، 
تمہارے انکی طرف یہ فرائض ہیں،وہ فرائض ہیں ..
یہ نہ کیا تو جہنم میں جاو گے....
وہ نہ کیا تو برباد ہو جاو گے..
اور باپ کے حقوق تو مائیں ویسے  بھی بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتیں ہیں . حالانکہ ماں اگر جنت ہے  تو اس جنت کا دروازہ تو ہوتا ہی دراصل اس کا باپ ہے . اور ہماری مائیں اپنے بچوں کو بغیر دروازے کی جانے کون سی جنت میں داخل کرنے کا منصوبہ بناتی رہتی ہیں . جس کے لیئے باپ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے . اور تو اور ایسے میں کبھی کسی نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس بچے کے اس کے پیدا کرنے والے پر بھی کچھ حقوق ہیں . جو انہیں بھی جہنم میں لے جا سکتے ہیں .  آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہ کرتے ہیں. جبکہ عورتوں اور بچوں کے حقوق اور حفاظت کی بارہا تلقین فرمائی  گئی ہے . 
ہمارے ہاں بدقسمتی سے قرآن پاک کو تعلیمی اور تربیتی نقطہ نظر سے نہ کبھی دیکھا گیا ہے نہ ہی اس سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے . 
اسے صرف ڈرانے اور کم علموں کو دبا کر ان سے فوائد حاصل کرنے کے لیئے ہی استعمال کیا گیا ہے . ورنہ ہماری زندگی کا ایک ایک پل اس کی روشنی میں منور ہو سکتا ہے .
ہمارے ہاں عورت اور بچے جس قدر غیر محفوظ ہیں وہ ایک خوفناک صورتحال ہے . کسی بھی خاتون کو رات کیا دن میں کہیں اکیلا (لاکھ پردے میں ہی) کھڑا کر کے دیکھ لیں ....
کسی بچے کو کھڑا کر کے دیکھ لیں ...کیسے گوشت کی بو سونگھتے کتے کی طرح ان کے شکاری پہنچتے ہیں ...
بچے پیدا کرو، یہ تو  ہمیں معلوم ہے لیکن کتنے  پیداکرو ،کہ پال سکو،  یہ کہہ دے کوئی تو سمجھیئے، اپنا ہی سر منڈوانے والی بات ہے . تربیت تو بہت دور کی بات ہے . ہمارے ہاں بچہ ہماری ذمہ داری نہیں، ہماری جاگیر ہوتا ہے ..سو اسے جاگیر کی طرح ہی برتا بانٹا اور کاٹا جاتا ہے .
اللہ پاک ہمیں بچے کو دنیا میں لانے سے پہلے اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا شعور عطا فرمائے.
یاد رکھیئے ماں باپ کا حق بعد میں شروع ہوتا ہے اس سے پہلے ہم پر بچے کا حق لاگو ہوتا ہے .
جس میں یہ شامل ہے کہ ہم اسے محبت اور حفاظت کیساتھ اچھا طرز ذندگی اور تعلیم و تربیت دے سکیں .
اور اسے یہ بتا سکیں کہ کب ،کہاں کس ، سے ،کس طرح بات کرنی ہے اور کس سے کیسے اور کتنا تعلق رکھنا ہے . اس کی خوشیوں کو اپنی خوشی کی طرح محسوس کیا جائے اور  اسکی  پریشانیوں کو محبت سے  اپنے تجربات کی روشنی میں مشاورت سے حل کیا جائے. 
  ورنہ روز قیامت ہمارے گریبان کو ہمارے بچوں  کے معصوم ہاتھوں سے کوئی  نہیں بچا سکتا .
        ممتازملک. پیرس

جمعرات، 1 دسمبر، 2016

ادھوری اڑان

ادھوری اڑان
ممتازملک. پیرس

اس دنیا میں جہاں مرد طاقتور ہے ،خود مختار ہے ،عقلمند ہے ...
وہاں کتنی عجیب بات ہے کہ اسے کمزور ، بے عقل اور بیوقوف عورت سے ہی  کسی نہ کسی رشتے میں  معافی چاہیئے . اپنی اڑان کو اور اونچا  اڑانے کے لیئے ...کہ اڑان کو اس معافی کے بنا وہ مکمل ہی نہیں کر سکتا ...
☆کہیں باپ ہے تو اس کی بیٹی اس پر اپنی شادی اور زندگی گزارنے کا حق معاف کر دے.اس کے غرور کو بلند کرنے کے لیئے ....
☆کہیں بہن ہے تو اس پر اپنی جائیداد کا حق معاف کر دے ، بھائی کا شملہ اونچا کرنے کے لیئے ...
☆بیوی ہے تو اس کے ساتھ رہنے کے لیئے اپنا مہر معاف کر دے ....
اور اگر اس سے آزادی چاہتی ہے تو اس کے لیئے اس کا ہر محبت کے دعویداری لمحوں کا تحفہ اور تحفظ کے نام پر دیا گھر بار معاف کر دے ..
☆ماں ہے تو اپنے بچوں کے باپ پر بچوں کی زندگی کا ہر اچھا برا  فیصلہ معاف کر دے ...

اور اولاد کو اس کی ہر زیادتی اور گستاخی معاف کر دے ..
ہر بار ایک کمزور ایک طاقتور کو معاف کر دے تاکہ اس کی سلطنت قائم رہے ..یہ تو وہی بات ہوئی نا کہ جس مٹی سے اناج اگا کر ہم زندہ ہیں اسی مٹی کے کلیجے پر جب چاہے چھلانگیں لگا لیں پھاوڑے چلا لیئے .....
ممتازملک. پیرس

ہفتہ، 26 نومبر، 2016

تسلسل ۔ سراب دنیا



تسلسل
(کلام/ممتازملک ۔پیرس) 

میرے آنسو میرا سارا 
تسلسل توڑ دیتے ہیں 
کہیں کی بات کو جا کر 
کہیں سے جوڑ دیتے ہیں 
سنو 
وہ جاں بلب ہونے کا
اک لمحہ بہت ہے
کہ جس کے سامنے
سارے ہی گھٹنے 
موڑ دیتے ہیں
۔۔۔۔۔

اتوار، 13 نومبر، 2016

بھج گیا تے (دوڑ گیا تو)


کیوں سوچتے ہیں ہم کہ وہ مجھے چھوڑ کر "بھج" گیا تو....
جدھر  بھی" بھج" جائے عادتیں اس کی پرانے "کلے"(کھونٹا) کی ہی قائم رہیں گی .جبھی تو ہم نے شعر" مارا "ہے کہ

وہ جہاں بھی" بھجا" تھکا تو میرے پاس آیا
اک یہ ہی بات ہے اچھی میرے "بھجیارے " کی 😆😆

وہ تو آیا تھا نشانہ میرا لینے لیکن
میں نے بھی بینڈ بجا دی میرے ہتھیارے
کی 😆😆😆
ممتازملک. پیرس

وہ تو ۔۔ سراب دنیا




وہ تو آیا تھا 
(کلام/ممتازملک۔پیرس) 




جھانکتا  تھا مجھے ہر روز جو آتے جاتے
اینٹ بن جاوں نہ میں اسکے ہی چوبارے کی


ہائے کہنے کے بھی قابل نہیں رہنے والا 
سننے والا نہیں رہنا اسی دکھیارے  کی


اب اسے کون بتائے نہیں بٹنے  والا
بات جو کرتا ہے یوں عقل کے بٹوارے کی


جس سے لائے ہو ادھاری کا یہ چھلہ جھلے 
مجھ کو آئی ہے  شکایت اسی سنیارے  کی


یہ الگ بات کہ اب یاد نہ رہنے پائے
ہمتیں کس نے بڑھائیں تھیں تھکے ہارے کی


ہم نے آنکھوں میں لگائے تبھی بھر کر کاجل 
یاد آتی ہے کسی روز جو کجرارے کی



ہے ادھوری سی مگر پھر بھی مکمل نکلے
بات کرتی ہے جو حیران استعارے کی


جس جگہ بیٹھتے تھے ٹیک لگا کر اکثر
کتنی خستہ ہے وہ دیوار گردوارے کی


یہ زبان اب بھی تیرے ہاتھ کے پکوانوں کی
کر کے تعریف مزا لیتی ہے چٹخارے کی


دل کو آوارہ ہی رہنے دو نہ روکو اسکو
اس کی عادات ہیں جیسے کسی بنجارے  کی


اس کے منزل سے بھٹکنے کا اب امکان نہیں 
روشنی مل گئی ممتاز صبح تارے کی

۔۔۔۔۔۔



یہ جوان

آج کل کے جوان ہماری نہیں سنتے بس اپنی ہی کرتے ہیں 😲😲😲
دیکھیں تو ہر زمانے میں والدین اور اساتذہ کو ایسی ہی شکایات رہتی ہیں . وقت کیساتھ ساتھ یہ جوان جو ہوا کو مٹھی میں قید کرنے کے خیال میں پھدک رہے ہوتے ہیں اپنی ہوا نکلوا کر خود ہی لائن پر آ جاتے ہیں .😂😂😂
ممتازملک.پیرس

چھوڑ دینا آسان


صحیح کو کیوں چھوڑ  دیا جاتا ہے غلط کے لیئے ....
کیونکہ
چھوڑنا آسان جو لگتا ہے .اور قائم رہنا مشکل....
اور ہر انسان آسانی کے چکر میں ہی غلط کے ساتھ ہوتا چلا جاتا ہے . اور ایک دن آتا ہے اسے وہ غلط ہی صحیح لگنے لگتا ہے .اسے کہتے ہیں ضمیر کی موت
ممتازملک . پیرس

ہفتہ، 12 نومبر، 2016

دو سیانے


بقول سیانے آدمی کے ...
کہ کوئی حسین اور امیر  بڑھیا اگر ہو توعشق ضرور کیا جائے اس سے
بہت فائدہ ہوگا :)
اور بقول میرے ...
اگر بڑھیا خود ہی امیر ہو  تو...
اس نے گھاس ہی کھائی ہو گی اگر وہ کوئی دم چھلا کھاوں کھاوں اپنے ساتھ باندھے گی تو 😆😆😆😆
سوری ذاتی ریڈیو
ممتازملک

جمعہ، 11 نومبر، 2016

باپ کی کمائی


ہم سب اس بات کو مانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کی رفتار ہم سے زیادہ تیز ہے اور اور ہمیں ان کا ہر انداز بھاتا بھی بہت ہے لیکن آخر اس ترقی کے راز ہے کیا ؟
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز تو یہ ہے کہ ہر بچے  کو (لڑکا ہو یا لڑکی چاہے صدر اور وزیر کی ہی اولاد کیوں نہ ہو)  تیرہ سال کی عمر سے سکول کی چھٹیوں میں ایک ہفتہ سے ایک مہینہ کہیں بھی خود نوکری ڈھونڈنی  اور کرنی ہوتی ہے . بنا تنخواہ کے ..اور اس کا آپ کے اخلاق، بات چیت، تہذیب، وقت کی پابندی، صفائی ستھرائی گویا ہر ایک نقطے پر ایک گواہی کا سرٹیفیکیٹ لینا ہوتا ہے .
اس کے بنا آپ اپنا سالانہ امتحان پاس نہیں کر سکتے .
اس سے ان بچوں کو اپنے والدین کی کمائی کی ویلیو  اور محنت کا احساس پیدا ہوتا ہے  ...
جبکہ ہمارے ہاں تو ماشااللہ 
          بھی    P H D 
   والدین کی کمائی پر ہو رہی ہے .  تو پھر ہم دنیا میں  خود کو ان کے برابر کیسے کر سکتے ہیں . کیونکہ ہمارے اور ان کے تجربات اور احساسات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے .
ہمارے ہاں غریب لوگوں کے بچے زندگی میں  اکثر اپنا کوئی (ٹارگٹ) نشانہ بنا لیں تو مالدار لوگوں کی اولاد سے زیادہ بہتر انداز میں اسے حاصل  بھی کر لیتے ہیں  . اسکی وجہ بھی یہ احساس اور جذبہ ہوتا  ہے کہ انہیں محنت کرنا بھی آتی  ہے اور محنت کرنے  والوں کی قدر کرنا بھی آتی یے .
ویسے بھی جس انسان نے اپنے ہاتھ سے کبھی کوئی محنت  ہی نہ کی ہو.  کبھی کسی محنت کے کام میں پسینہ نہ بہایاہو وہ کسی اور کے پسینے کو بھی جم کے پسینے سے زیادہ کی اہمیت کیسے دیگا .
اکثر باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنی محبت کے مارے ہی بٹھا کر سست، کاہل  اور کام چور بنا دیتے ہیں . اور نتیجہ اس آرام طلبی میں وہ بہت آسانی سے بری عادات  کا شکار ہو جاتے ہیں . ظاہر ہے یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ مصروفیت تو بہرحال  چاہیئے ہوتی ہے . تو جب یہ مثبت  مصروفیت آپ یعنی والین اسے مہیا نہیں کرتے تو ماحول ،صحبت  اور سنگت انہیں مہیا کر دیتی ہے . اور آپ تک یہ سب صورتحال جب تک پہنچتی ہے تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے .
سو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو بے مقصد زندگی دینے کی بجائے محنت کرنے کے جذبے سے بھرپور صحت مند اور معاشرے کے لیئے فعال زندگی عطا کریں .
ورنہ کھانا پینا سونا جاگنا اور بچے پیدا کرنا تو دنیا کی ہر مخلوق جانتی ہے . انسان کو اگر اشرف المخلوقات کہا گیا ہے تو ہمیں اس بات کو  اپنی محنت  اور انسانیت سے ثابت بھی کرنا ہے کہ واقعی انسان اللہ کی بنائ ہوئی سب سے زیادہ شرف رکھنے والی مخلوق یے .
                     ................

تاجر یا رہنما

تاجر تب تک ہی تاجر رہے جب تک وہ حکومت کی کرسی پر منتخب نہیں ہوا تب تک تو زود ہضم ہے لیکن اس کرسی کے تشریف تک پہنچنے کے بعد اسے تجارت کرنے کا حق دینا گویا خود اپنی گردن پر خنجر چلانے کے مترادف ہے . کیونکہ دولت آزمائش ہے اور جو شخص پہلے ہی آزمائش (دولت کی) میں مبتلا ہو وہ قوم کا غم اور تکلیف کیسے دور کریگا.
ممتازملک .پیرس

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/