ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 28 اپریل، 2019

راہ ادب پہلی سالگرہ۔ رپورٹ




  راہ ادب کی پہلی سالگرہ کی تقریب
   (رپورٹ ممتازملک.پیرس)







ہفتہ 27 اپریل 2019ء کو ایک مقامی ریسٹورنٹ میں فرانس کی پہلی پاکستانی نسائی ادبی تنظیم راہ ادب  کی پہلی سالگرہ کی خوشی میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ جس  میں مقامی تنظیمات میں  اہل سخن سے ایاز محمود ایاز ، نبیلہ آرزو اور عاکف غنی ، پنجابی سنگت سے عاشق رندھاوی ، اور عظمت نصیب گل نے شرکت فرمائی۔  اس کے علاوہ شاز ملک صاحبہ نے خصوصی شرکت فرمائی۔ جبکہ ٹیم راہ ادب سے ممتازملک اور شمیم خان صاحبہ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔
راہ ادب کی بانی اور صدر محترمہ ممتازملک نے تمام احباب ، شعراء کرام اور ادبی تنظیمات کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان پر اور ان کے ارادوں پر اعتماد کیا ۔ ہر پل ان کا ساتھ دیا اور آج پیرس میں پہلی بار بنا کسی اختلاف، بنا کسی رد و  بدل  اور ناچاقی کے کسی تنظیم خصوصا خواتین کے کسی گروپ نے اپنا ایک سال مکمل کامیابی کیساتھ مکمل کیا ۔ جبکہ ہماری آرگنائزر محترمہ روحی بانو صاحبہ اپنے نجی دورے پر آجکل پاکستان میں ہیں ۔ جنہیں ان کی غیر موجودگی میں  مبارکباد پیش کی گئی۔ 
 پروگرام کے پہلے حصے میں فرانس میں اردو کی بقاء اور  ترویج پر سبھی شرکاء نے اپنے مفید مشوروں سے نوازہ ۔ اور اس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ ہماری ماوں کو اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا ۔  اپنے بچوں سے اردو زبان میں بات کرنا ہی اپنی زبان اور کلچر سے محبت کا پہلا ثبوت ہے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں سبھی شعراء کرام نے اپنے اپنے کلام سے مہمانوں کو محظوظ کیا ۔ جبکہ تیسرے حصے میں مہمانان گرامی کے لیئے پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔
یوں ہنستے مسکراتے اس خوبصورت محفل کا اختتام ہوا ۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 26 اپریل، 2019

یس مائی لارڈ ۔ کالم


        
                 یس مائی لارڈ
                  (تحریر/ممتازملک.پیرس)


ابھی دو تین روز پہلے کی بات ہے ۔ مجھے پاکستان میں اپنے بینک سے سٹیٹمنٹ چاہیئے تھی ۔ میرے بھائی کے ذریعے معلوم ہوا کہ میں وہاں کے مینیجر یا نمائندے کو ایک ای میل کر دوں تاکہ ان کے پاس ثبوت رہے کہ میری اجازت سے میرے بھائی کو میری بینک سٹیٹمنٹ دی گئی ہے ۔ میں نے انہیں میل کر دی ۔ اگلے روز میرے بھائی نے بتایا کہ بینک کے نمائندے نے فرمایا ہے کہ ملک صاحب باجی نے میل اردو میں کر دی ہے،  وہ نہ ہم سے پڑھی جاتی ہے نہ ہی سسٹم اسے قبول کر رہا ہے سو باجی سے کہیئے کہ اسی درخواست کو یا انگلش میں میل کر دیں یا پھر رومن اردو میں ایک میل کریں ۔ 🤔
میں حیران پریشان رہ گئی کہ یا اللہ میں نے جس ملک میں میل بھیجی ہے وہ پاکستان ہی ہے ؟
کیا واقعی اس کی قومی زبان اردو ہی ہے ؟
اگر یہ جواب مجھے اردو میل کے بدلے میں امریکہ، فرانس ، چین اور جاپان سے آتا تو نہ مجھے حیرت ہوتی نہ ہی افسوس ۔۔
مگر دکھ ہوا تو اسی بات پر کہ میرے ملک میں ، میرے لیئے بنائے گئے سسٹم میں ، میری ہی زبان کے لیئے کوئی جگہ نہیں ہے ، کوئی قبولیت نہیں ہے ۔ 
کیا اس گونگی قوم کے لیئے(جو کرائے کی زبان کے حصول کے لیئے پاگل ہوئی جاتی ہے)ترقی کے دروازے کھلیں گے؟
یہ چاند پر کمندیں ڈالے گی؟
یہ دنیا کو اپنا مدعا ان کی زبان میں ترجمہ کر کے سنائے گی ؟
میں نے  میل تو انگلش میں کر دی، لیکن نیچے انہیں ان کی اس اعلی کارکردگی پر  ایک شاباش بھی بھیج دی کہ
(مجھے یہ جان کر شدید افسوس ہوا کہ آپ اردو میں لکھی ہوئی میری میل نہیں سمجھ سکتے۔)
(شاباش پاکستان)
حکومت پاکستان کی وہ کون سے گھنٹی بھائی جائے جو اسے اس ملک کی حمیت کا احساس دلائے  ؟  جس کا جو جی چاہتا ہے وہ وہی زبان سیکھے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ لیکن پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اسی کو ہماری تعلیمی ، دفتری اور قانونی زبان بھی ہونا چاہیئے۔ یہ شکایت ہم کس ملک میں جا کر جمع کرائیں کہ دنیا میں ایک ملک ہے پاکستان، جس کی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ مل کر اپنی ہی قوم کو پھتو بنانے کے لیئے ایک غیر ملکی زبان کو آلہ بنائے ہوئے ہیں ۔ جو ہمیں ہماری ہی زبان بولنے نہیں دیتی ، لکھنے نہیں دیتے ، پڑھنے نہیں دیتی ، ہمارا ہی ملک کہ جس میں میں دس فیصد سے بھی کم تعداد اپنی من مانیاں کرنے کے لیئے نوے فیصد قوم کو گونگا بہرہ اور احمق بنا کر انہیں ڈگڈگی کا بندر بنائے ہوئے ہیں ۔ خدا کے لیئے کوئی آو اور ہمارے گونگے پن کا علاج کرو ۔
ہمارے سب سے بڑے انسانی حق کو ہمیں دلاو۔ درخواست انگلش میں ، شاباش انگلش میں ، سبق انگلش میں ، امتحان انگلش میں ، بولنا اردو اور مقامی زبان میں اور سوچنا اپنی زبان میں لیکن لکھنے کا حکم انگریزی میں ۔ اور سامنے والا انگریزی میں بات نہ کرے یا نہ کرنا چاہے تو اسے گردن اکڑا کر یوں دیکھنا جیسے کوئی بڑا ہی لارڈ صاحب اپنے کسی جوتے صاف کرنے والے کو دیکھتا ہے ۔ جبکہ وہ  خود کو لارڈ سمجھنے والا اصل میں خود ٹیڑھا منہ کر کے  آقائی زبان بول کر اس کے کتے نہلانے والے ٹاوٹوں اور غلاموں کی روایات کی یاد تازہ کر رہا یے اور یہ اعلان کر رہا ہے کہ
           یس مائی لارڈ 
                 یس مائی لارڈ 
                        یس مائی لارڈ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 25 اپریل، 2019

● آپ کی بات/ رقیہ غزل کو انٹرویو












آپکی بات ڈاٹ کام
خصوصی سلسلہ
*"پرسنیلٹی آف دا ویک"*
انچارج: رقیہ غزل
کہنے کو یہ ایک سلسلہ ہے لیکن دراصل یہ ایک کاوش ہے ! ملک کے لکھاریوں اور علم و ادب کے موتی بکھیرنے والے نامور شخصیات کو ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کرنے کی ! اور اس کی بنیاد چند سوالات ہیں ۔آپ کے جوابات آپ کے فن اور خدمت فن کا حوالہ بنیں گے اور نئے لکھنے والے احباب کیلئے مشعل راہ اور ترغیب کا باعث ہونگے ۔
سوال : آپ کو نثر نگاری یا شعر گوئی کا خیال کیسے آیا یا یہ کہ آ پ ایک لکھاری بننے کیلئے کیسے آمادہ و تیار ہوئیں؟
وہی پرانی لیکن سچی بات کہونگی کہ فنکار ، شاعر،  لکھاری ، مصور سب  پیدائشی ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ پالش کر کے نکھارا جا سکتا ہے ۔ انہیں بنایا نہیں جا سکتا ۔ بچپن میں کورس کی کتابیں خریدتے ہی دو تین روز میں ہی ساری پڑھ لیا کرتی تھی ۔ صرف یہ ہی ہوتا تھا ذہن میں کہ اس میں  نیا کیا لکھا ہے ۔ یوں جو کتاب سامنے آتی اچھا برا ، بڑوں کا چھوٹوں کا کوئی بھی موضوع ہوتا بلالحاظ و تفریق پڑھنے بیٹھ جاتی تھی ۔ اسی مطالعے نے مجھے بولنے کے لیئے الفاظ کا ذخیرہ عطا کر دیا ۔ جو بعد میں میرے قلم کی سیاہی بن گیا ۔
زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا ایک ایک بندے کیساتھ کھپ کھپ کے اور اس کے ساتھ بحث کر کے اسے کسی بات پر  قائل کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ میں اسے لکھ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے بیک جنبش قلم پیش کر دیا کروں ۔ کچھ لوگ مخالف ہونگے تو وہ اس پر سوچیں گے ۔ اور جو اس بات کے حامی ہونگے وہ اسے مزید آگے بڑھائینگے ۔ سو جناب  2008ء میں ایک مذہبی ادارے کی جنرل سیکٹری منتخب ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ مائیک کسقدر اہم ہے جسے لوگ مفاد پرستی اور منافقت کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اسے بہت پاورفل انداز میں مثبت تبدیلیوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سو میں نے بطور جنرل سیکٹڑی کیساتھ سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ تین گھنٹے کا پروگرام مکمل مطالعے کے تحت کسی ایک ہی موضوع پر  ہوتا ۔ جس میں اس موضوع پر آیات و احادیث  و واقعات تجربات ،مشاہدات سبھی کچھ شامل ہوتا تھا ۔ جس کے لیئے میں ایک یا دو پروگرامز کے لیئے سارا مہینہ دیوانہ وار تیاری کیا کرتی تھی۔ بس یہ سمجھیں وہ میرا لکھاری بننے کی جانب ایک بڑا بھرپور اور  یقینی قدم تھا ۔
سوال : آپ کتنے عرصہ سے اس میدان میں طبع آزمائی فرما رہی ہیں ؟
بچپن سے کچھ نہ کچھ لکھا ۔ لیکن میں اپنے سکول کے دنوں میں انتہائی شرمیلی سی شرارتی بچی ہوا کرتی تھی ۔ جو کسی کے بھی اپنی جانب متوجہ ہونے پر گھبرا جایا کرتی تھی ۔ اس لیئے اپنی کوئی تحریر کسی کو سنانے کی کبھی جرات نہیں ہوئی ۔ نہ ہی کبھی چھپوانے کا سوچا ۔ ابو جی بھی بہت سخت مزاج تھے ۔ جن کی وجہ سے یہ شوق دل ہی میں کہیں دفن رہا ۔ ان تحریروں کو  سنبھالنے کا خیال بھی تب ہوتا جب وہ مجھے خود بھی اہم لگتا۔ اور یقین ہوتا کہ میں انہیں کبھی کہیں شائع کروا پاونگی ۔ لیکن یہ جراثیم تب سے ہی مجھ میں موجود رہے ۔
لیکن باقاعدہ آغاز 2008 ء ہی میں ہوا۔
سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں جنہوں نے آپ کو اس مقام پر پہنچنے کیلئے جنونی یا ہمہ تن مصروف بنا دیا ہے ؟
جب مئی 2010 ء میں ایک مذہبی ادارے میں ہی میری مدت  عہدہ بطور جنرل سیکٹری  مکمل ہوئی ۔ اور مجھے لکھنے لکھانے کی پروگرامز  تیار کرنے کی عادت پڑ چکی تھی ۔جبکہ دوسری جانب میرے مخالف گروپ میں خواتین کا وہ گروہ جن سے میری کامیابیاں اور مہمان خواتین کی جانب سے میری  پذیرائی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، نے ادارے کے  انتظامی معاملات پر قابض اپنے باپوں بھائیوں ، شوہروں ، کے ذریعے میرا پتہ کاٹنے اور عہدے عہدے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ حاسدین اور منافقین کے اس گروہ کا مقصد مجھے بے نام کرنا تھا ۔ لیکن ایک مخلص دوست کو جب میں نے  کہا کہ میں  اتنی محنت کی عادی ہو چکی ہوں ۔ تو اب یہ تو میرے کام سے فائدہ اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتیں تو  میں کیا کروں گی ۔؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔۔ جس خدا نے تمہیں اتنی صلاحتیں دی ہیں وہ تمہیں اس سے بھی اچھا ان صلاحتیوں کو بروئے کار لانے والا کام بھی دیگا ۔ اور واقعی وہ بات ایک ہی ماہ میں سچ ہو گئی ۔ جب مجھ سے  میری شاعری کو شائع کروانے کی فرمائش کر دی گئی ۔۔اور اسکے  6 ماہ بعد ہی مجھ سے کالمز لکھنے کا اصرار ہوا تو مجھے ہمت کرنا ہی پڑی ۔ 
سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں کہ جب جب آپ کی حوصلہ شکنی ہوئی یا یہ کہ کسی سینئر لکھاری نے آپ کے فن کی بد تعریفی کرتے ہوئے ۔آپ کو بد دل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے کیا رویہ یا انداز اپنایا ؟
جب 2011ء میں میری پہلی کتاب (مدت ہوئی عورت ہوئے ) کی جلد اشاعت کا اعلان ہوا اور کچھ پروگرامز میں مجھے کلام پڑھنے کے لیئے بھی دعوت دی گئی ۔ بارسلونا ریڈیو پر بھی مجھے ٹیلی فونک مہمان بنایا گیا ۔ تو فرانس میں ایک ہی خاتون کا نام بطور شاعرہ کے زیادہ سنا جاتا تھا ۔ انہیں یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی جو کہ بعد میں میں کافی عرصے تک خود بھی محسوس کرتی رہی کہ بطور شاعرہ ان کو میرا کام کرنا ہضم نہیں ہو رہا ۔ ایک دوسری خاتون جو کہ بطور کالمنگار کے کام کرتی رہی ہیں اور میری شروع میں انہوں نے ہی بہت ذیادہ حوصلہ افزائی کی ۔ یا سمجھیں مجھے گھسیٹ کر اس میدان میں اپنی شاعری لانے پر مجبور کیا لیکن جیسے ہی مجھے کالمز لکھنے کی دعوت ملی تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور مجھے لگے لپٹے اس بات پر قائل کرنے لگیں کہ کہ آپ کی شاعری سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی تو آپ کالمز کی جانب مت جائیں ۔ کیونکہ یہاں شاید انہوں نے مجھے اپنا مدمقابل سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔ میں نے انہیں ایک ہی بات کہی تھی کہ نہ تو میں شاعری سوچ سمجھ کر پروگرام بنا کر کرنے بیٹھتی ہوں اور نہ ہی کالم  ۔۔۔
جبکہ میں ذاتی طور پر نہ کل نہ آج کسی کے مد مقابل تھی اور نہ ہوں ۔ ہر ایک  کے کام کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا انداز بیاں ہوتا ہے ۔ اور ہمیں ان سب کی عزت کرنی چاہیئے اور ہر ایک کو اپنا کام پیش کرنے کا موقع دینا چاپیئے اور اس کی کامیابیوں کو بھی خندہ پیشانی کیساتھ قبول کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہییے ۔
سو اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی اور خوامخواہ کی نمبرداری گیم سے خود کو باہر ہی رکھا ۔ فیس بک زندہ باد جس پر مجھے ہزاروں قارئین مل گئے ۔ جو ایک کلک پر میرے ساتھ  موجود تھے ۔ سو میں نے کسی کی منتیں کر کے اپنا کام بھیجنے کے بجائے جن لوگوں نے خود سے مجھ سے رابطہ کیا ، کام بھیجینے کی درخواست کی، انہیں کو کام بھیجا ۔ اور جو ملا اسے خوشی سے قبول کیا ۔ سو آج کی ممتاز ملک اسی مستقل مزاجی اور قناعت کے ساتھ مذید حوصلہ اور جرات لیئے آپ کے سامنے ہے ۔ 
سوال : آپ کوئی سے چند ایسے احباب کا تذکرہ فرمائیں جنھوں نے اس ادبی میدان میں سرگرداں رہنے کے لیے آپ کی سر پرستی فرمائی ؟
مجھے اس میدان میں لانے کی کوشش کرنے والی خاتون کو فرانس میں سبھی جانتے ہیں ان کا نام لینا میں اس جگہ مناسب نہیں سمجھتی   کیونکہ سرپرستی کرنے  والی یہاں  کوئی کہانی نہیں تھی ۔ انہوں نے مجھے  واحد شاعرہ(اپنی مخالفت میں ) کی چپقلش میں اس میدان میں  اتارا جبکہ میرے کالمز کی ابتداء سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں کہ  فرانس کی واحد کالمنگار  خاتون کا مرتبہ اب ان سے چھن گیا ہے ۔ اس لیئے کسی کی جانب سے ایسی کوئی مدد یا راہنمائی مجھے حاصل نہیں رہی ۔ بلکہ  میرے کام کو جب پذیرائی ملنے لگی تو مجھے لانے والی خاتون خود بھی تحفظات کا شکار ہو کر میری راہ میں ہر قدم پر روڑے اٹکانے اور میرے خلاف لوگوں کو بھڑکانے والے کاموں میں مصروف ہو گئیں اور  یہ مخالفت آج تک جاری ہے
سوال : آپ چند ایسے لکھاریوں کا ذکر فرمائیں جن کی ادبی خدمات یا انداز یا شخصیت سے متاثر ہیں اور اس سے آپ کے فن میں کیا نکھار یا تبدیلی پیدا ہوئی ؟
شاعری میں بڑے ناموں کو تو ہم سب نے ہی پڑھ رکھا ہے اور پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے خصوصا جن کے کلام نے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے ان میں حبیب جالب روایت شکن اور انقلابی نظریات لیئے ہوئے ہیں تو محسن نقوی سچ کا آئینہ یوں  دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا اپنے عکس سے بھی انجان لگتا ہے ،منیر نیازی جب لفظوں کی مالا پروتے ہیں تو پڑھنے والا ملنگ ہو ہی جاتا ہے ۔ 
اشفاق احمد کی زندگی کے تجربات ہمیں  روشنی کا مینارہ  دکھاتے ہیں ۔ تو مشتاق احمد یوسفی اور  یونس بٹ کی تحریروں سے تھکی ہوئی  زندگی  کے اندھیرے میں ڈسکو لائٹس کا سواد آ جاتا ہے ۔ یہ سب مجھے متاثر کرتے ہیں ۔ اور مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک ہی دور میں موجود ہوں ۔ اور ہمیشہ  گنی جاونگی ۔ 
سوال: آپ اپنے چند اہم اور یادگار شعر یا کالم کا تذکرہ فرمائیں جسے بہت زیادہ سراہا گیا ؟
میرے پہلے شعری مجموعے   کی ٹائیٹل نظم "مدت ہوئی عورت ہوئے" بہت زیادہ سراہی گئی۔ اس کے سوا اسی کتاب سے غزل 
جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئے ڈر جاتے ہیں 
اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے ہی گھر جاتے ہیں 
یوں نہ مغرر ہو تو اپنی مسیحائی ہر
زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں
اسی طرح
*
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے
تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے
                           *
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا
اب توگرگرکے سنبھلنے کا روادار نہیں
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی  کر
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا
۔۔۔۔
کالمز میں بہت زیادہ سراہے گئے جو  
 ہائے بیچارہ مرد، بابائی وبا، بہو ڈھونڈنے کی آڑ میں ۔ علم+روزگار=زندگی۔ نتھ بنی نکیل شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب۔ اسلام کے چوکیدار۔۔۔اور بہت سے دوسرے کالمز 
سوال: کہا جاتا ہے کہ شعر گوٸی قلبی واردات سے مشروط ہے ۔کیا آپ متفق ہیں  ؟
جی ہاں جو بات آپ کے دل تک نہیں پہنچتی آپ کی روح کو  نہیں جھنجھوڑتی وہ کسی اور پر کیا اثر چھوڑے گی ۔  لیکن اگر اس کا اشارا عشق وشق کی ناکامی کی جانب ہے تو میں  اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتی۔ پیغمبر پر وحی خدا کی دین ہے تو شاعر پر شعر اللہ کی عطاء ہے ۔ وہ چاہے تو آپ کے دل کو حساسیت کے ساتھ   الفاظ کی ترتیب و ترنم عطاء فرمادیگا۔
وہ نہ دے تو کوئی شعر کوئی نغمہ ترتیب نہیں پا سکتا ۔  
سوال : آپ کس صنف سخن کو اپنے لیے سہل اور موافق طبع پاتی ہیں ؟
میری شاعری اور نثر نگاری دونوں شروع سے ہی  ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ کون سی صنف میرے لیئے زیادہ سہل ہے یا موافق ہے اس کا فیصلہ میرے لیئے مشکل ہے ۔ اپنی سمجھ سے بنا کر کریں تو دونوں مشکل اور آمد ہو تو دونوں آسان ۔۔
سوال:اس وقت حکومتی اور نجی سطح پر جو مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں ان کے بارے آپ کی کیا راٸے  ہے  ؟
پاکستان میں تو مجھے سرکاری مشاعروں میں جانے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔ اس لییے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی ۔ ہاں فرانس میں ہماری ایمبیسی کے تحت جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو اس میں ان کے من پسند قصیدہ گو ہی بلائے جاتے ہیں ۔ جو کہ میں نہیں ہوں ۔
بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کے نام پر بھی جو دو چار پروگرام ایمبیسی کے تحت ہوئے بھی ان میں فرانس  میں اردو شاعروں اور لکھاریوں میں سے کوئی نمائندگی نہیں تھی
 ان پروگراموں میں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ہمارے سفیر صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ جو یہاں پر بادشاہ سلامت کا رول ادا کر رہے ہیں۔ 
سوال : آپ اپنی چند ایسی تخلیقات کا ذکر فرمائیں جو ُآپ کو بہت پسند ہوں ؟
مین سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہوں ۔ آپ مجھے معاشرتی اور گھریلو مسائل پر بات کرتے ہوئے ذیادہ پائیں گی ۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی
تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالمنگار کی ذمہ داری ہے ۔ جو میں بھی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ اسی سلسلے میں میری گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر میرے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ جیسے کہ
بچے ،بچپن اور تحمل ۔ پاس نہیں قریب رہو ۔ مائیں بور نسلیں تباہ ۔ گھروں کو گھر ہی رہنے دیں ۔ اور بہت سے دوسرے کالمز میرے دل کی آواز ہیں ۔ 
سوال : اگر آپ کا کالم  یا ادبی شہ پارے پرنٹ ہوتے ہیں تو ان کا نام بتائیں ؟
میرے کالمز چالیس (40) سے زیادہ ویب نیوز پیپرز میں جاتے ہیں ۔ جن میں جنگ اوورسیز، آذاد دنیا،ڈیلی پکار ، سویرا نیوز ، جذبہ نیوز۔ دی جائزہ ، ڈیلی میزبان ، عالمی اخبار اور بہت سے دوسرے۔۔۔
میری اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے
(شعری مجموعہ۔2011ء)
2۔میرے دل کا قلندر بولے
( شعری مجموعہ 2014ء)
3۔سچ تو یہ ہے
مجموعہ مضامین۔2016ء)
اس سال انشاءاللہ نعتیہ مجموعہ متوقع ہے ۔
سوال :آپ پاکستانی سیاست کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں اور کیا ہمارے وزیراعظم  کرپشن سے پاک پاکستان کا عہد پورا کرنے میں کامیاب ہو جاٸیں گے   ؟
پاکستانی سیاست میں جب تک اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی ختم نہیں ہو گی ۔ اور جادوئی فیصلوں کی جگہ منصفانہ اور میرٹ پر  فیصلے نہیں ہونگے تب تک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہیگی۔ وزیر اعظم صاحب سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں ۔
سوال:پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔آپ کی جاٸے پیداٸش پاکستان ہے ۔پاکستان میں خواتین کی جو حالت ہے اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں  مگر اب آپ پیرس میں مقیم ہیں اور مغربی خواتین کسی حد تک آزاد ہیں  تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی خواتین مغربی خواتین کی نسبت مغربی اپنے حقوق کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ؟
پاکستانی خواتین کو پاکستان میں  اگر کچھ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں یورپئین خواتین کے مقابلے میں بے شمار سہولتیں اور  فوائد حاصل ہیں ۔ معاشی بوجھ بھی ان کے کندھوں پر اتنا زیادہ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں اگر پاکستانی خواتین ہر شعبے میں ہنر مند نہ ہوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اور
عملی میدانوں میں نام پیدا نہ کریں  تو نہایت افسوس ہو گا ۔ اور یورپ میں زیادہ تر آفس ورک یورپی خواتین ہی کرتی ہیں جو مجھے بہت اچھا لگا ۔ پاکستان میں خواتین کو سکولز کے علاوہ بینکنگ ،پولیس ،ہاسپٹلز،اور باقی تمام شعبہ جات میں بھی صرف آفس ورک کا ہی مکمل سٹاف بنا دیا جائے جن کی ہیڈ بھی اہل قابل خواتین ہی ہوں تو نہ صرف ہمارے آدھی آبادی کو بہترین روزگار میسر آئے گا بلکہ انہیں اپنی بھرپور ذہنی صلاحیتیں  جو کہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی ٹی وی دیکھنے فون پر چغلیاں کرنے، شاپنگ میں پیسہ اڑانے ،بیوٹی پالرز میں اور بوتیکس پر اپنے زندگی کے قیمتی گھنٹے اور میاں اور باپ کی کمائی اڑانے میں  ضائع کرتی ہیں ، کے بجائے موثر انداز میں ملک کی خدمت اور اپنے خاندان کے  لیئے آمدنی کا موثر ذریعہ بن سکتی ہیں ۔ اور فضول کاموں سے بچ سکتی ہیں ۔
رہی بات یورپ میں پاکستانی خواتین کی تو وہ بہت حوصلے اور ہمت والی ہوتی ہیں ۔ لیکن زیادہ تر ان کے گھروں سے ان کے شوہروں کی حمایت نہ ہونے کے سبب وہ اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر کبھی نہیں لا پائی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ ان خواتین کا زیادہ تعلیم۔یافتہ ہونا اور ان کے شوہروں کا کم پڑھا لکھا ہونا یا اکثر ان پڑھ ہونا بھی ہے ۔ پیرس اور یورپ کے نام پر ان کو پڑھی لکھی بیویاں تو مل گئی ہیں لیکن ان کا احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی کا احساس شدت اختیار کر چکا ہے ۔ جس کا ثبوت کام کرنے کی اجازت  تو چھوڑیئے اپنی پڑھی لکھی بیگمات کو بھی کبھی کسی پبلک پروگرام یا فیملی پروگرام میں بھی نہیں لیکر جاتے ۔ لیکن اب جب اپنی بیٹیاں پڑھ لکھ کر مختلف شعبوں میں کام کرنے کو نکل رہی ہیں تو اب فرماتے ہیں کہ کیا کریں جی وقت کی ضرورت ہے ۔ یعنی  کسی کی بیٹی بیاہ کر لائے تو اس کا کسی کے سامنے آنا بھی وقت کی ضرورت کے خلاف تھا جبکہ اپنے بیٹیاں اب جو مرضی کر لیں سب وقت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سچ یہ یے کہ اب یہاں کی پڑھی لکھی بچیاں اپنے فیصلے خود کرنا پسند کرتی ہیں ۔ جو کسی حد تک بہت اچھی بات ہے ۔ کہ ماں کی حالت دیکھ کر وہ اس حال کو پہنچنا یا اس جیسی زندگی گزارنا پسند نہیں کرتی ہیں ۔ وہ عملی میدان میں بھی اپنے ہنر دکھانا چاہتی ہیں ۔ 
سوال : نیا لکھاری آپ سے کوئی راہنمائی حاصل کرنا چاہے کہ وہ بھی آپ کی طرح معروف و مقبول بن سکے تو آپ کیا مشورہ دیں گی ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے نزدیک معروف ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور مقبول ہونا دوسرا ۔
۔اگر اپ کو معروف ہونا ہے تو قصیدے لکھیئے ۔
قصیدے کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں ۔
 اچھا اچھا بولیئے کریلے کے عرق کو جوس بولیئے،
لیکن اگر آپ کو مقبول ہونا ہے تو سچ بولیئے اور سچائی کی خاطر کبھی سمجھوتہ مت کیجیئے۔ اس میں ہو سکتا ہے آپ کو مال تو زیادہ نہیں ملے گا لیکن سکون کی دولت سے آپ کا دامن  کبھی خالی نہیں ہو گا ۔ 
کام کیجیئے پورے خلوص اور صبر کیساتھ  اور سیکھنے کے لیئے ہمیشہ تیار رہیئے ۔ یہ سوچے بنا کہ آپ کو کوئی مشورہ یا سیکھ دینے والا آپ سے جونئیر ہے یا سینئیر ۔ اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہ پے ۔ 
سوال : آپ نے اگر کوئی اعزازات ،انعامات یا اسناد حاصل کر لی ہیں تو ان کا ذکر فرمانا مناسب سمجھیں گی ؟

سنا ہی ایوارڈ و اسناد حاصل کرنے کے لیئے ہمارے ملک میں آپکی  بڑی واقفیتیں اور گٹھ جوڑ ہونے چاہیئیں ۔ ایوارڈ کی رقم میں حصہ داریاں دینے والے جلدی جلدی اعلی نام و مقام حاصل کر لیتے ہیں ۔
میری کیونکہ ایوارڈ دینے والوں سے ابھی ایسی کوئی شناسائی نہیں ہوئی اس لیئے جو خود سے ملے اس میں  چکوال پریس کلب کی جانب سے 2016 ء میں دھن چوراسی ایوارڈ۔ اور 2018ء میں ٹونی ٹی وی امریکہ کی جانب سے حرا فاونڈیشن نے ایوارڈ دیا ہے ۔
ممتازملک ۔ پیرس



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکی بات ڈاٹ کام
خصوصی سلسلہ
*"پرسنیلٹی آف دا ویک"*
انچارج: رقیہ غزل
https://www.apkibat.com

بدھ، 24 اپریل، 2019

شادی ہے یا کاروبار ۔ کالم



شادی ہے یا کاروبار؟
جہیز برا تو بری بھی عذاب
(تحریر/ممتازملک.پیرس)




کہتے ہیں عورت اگر کسی مرد سے مال کھائے تو اسے طوائف کہا جاتا ہے لیکن مرد اگر کسی عورت کا مال ڈھول بجا کر  کھائے اور تاحیات کھائے تو اسے دولہا کہا جاتا ہے۔
لڑکے والوں کا خیال اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ  لڑکی کے گھر والوں کے تن کے کپڑے تک اتروا لیئے جائیں ۔
ہم ایک ایسے خاندان کو بھی جانتے ہیں جہاں بیرون ملک سے لڑکی والے بیٹی کی شادی کے لیئے پاکستان آئے اور بھوکے فقرے لڑکے والوں نے آخر دم رخصتی تک نئی نئی فرمائشوں اور مطالبات سے تو لڑکی والوں کے ناک میں دم کیئے ہی رکھا ۔ اور انتہا یہ رہی کہ لڑکی رخصت کرانے تک ان کے گھر کے پردے تک اتروا کر ساتھ لے گئے۔ اور یہ سب جان کر ہمیں تو اس لڑکی کی بے حسی اور بے غیرتی  پر شیدید افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی آیا کہ ایسے لالچی خبیثوں کی مرمت کرنے کے بجائے وہ ان کیساتھ کیا سوچ کر اور کون سی اچھی امید لگا کر رخصت ہوئی ؟ کیا اس کا خیال تھا کہ یہ آخری ڈاکہ ہے اسکے بابل کے گھر پر ۔اسکے بعد سب چین ہی چین ہو جائے گا ۔ جبکہ شادی کے بعد بھی یہ حریص خاندان انہیں نوچتا رہا ۔ اور خاص بات یہ کہ لڑکے کو اپنی سسرال کو نوچنے کے سارے نئے نئے گر اس لڑکے کی اپنی والدہ ہی سکھاتی رہیں ۔
شاید لڑکی کے والدین کو زندہ بھی اس لیئے چھوڑ دیا جاتا یے کہ آگے بھی آہتسہ آہستہ ان کا خون چوسنے کا سلسلہ جاری رہے ۔ کبھی رسموں کے نام پر کبھی رواجوں کے نام پر ۔۔۔یہاں نہ تو وہ خود کو بےغیرت محسوس کرتے ہیں نہ ہی چھوٹا ۔ ایک لڑکی تاحیات اپنے آپ کو ایک مرد کی خدمت اور اطاعت میں پیش کر رہی ہے ۔ اپنی جوانی حسن، طاقت، صحت، عزت  سب کچھ اس پر وار دیتی ہے لیکن یہ سب کچھ ایسے بے غیرت خاندانوں کی نظر میں ہیچ ہے جب تک ان کے مطالبات کا کنواں بھرا جاتا نہ رہے ۔ جو کبھی بھی نہیں بھر پاتا ۔ جب تک کہ لڑکی خود بغاوت نہ کر دے ۔ یا اپنا گھر بچانے کو مرد کو خود اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا نہ ہونا پڑ جائے ۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو
اگر جہیز عذاب ہے تو لڑکے کی جانب سے ملنے والے تحائف اور سامان جسے بری کہا جاتا ہے اس بری کے نام پر ایک طوق لڑکے کی گردن میں بھی ڈال دیا جاتا ہے ۔ بری بھی لڑکوں کو سالوں کے لیئے مقروض کر دیتی ہے۔ بری کے نام پر ایک نوجوان جو ابھی نیا نیا کاروبار یا نوکری کا آغاز کر رہا ہے ، اس سے دس دس ، بیس بیس ، تولے کے طلائی زیورات،  دس ، بیس ہزار کا ماہوار جیب خرچ اور لاکھوں روپے کا حق مہر لکھوانا کس جہان کی شرافت ہے؟
کیا یہ کھلی بدمعاشی نہیں ہے ؟
 اس کے خلاف بھی آوا اٹھائی جانی چاہیئے۔ جہاں بیٹی والے جہیز سے جان چھڑانا چاہتے ہیں وہاں انہیں یہ بات بھی اپنی دماغ میں بٹھا لینی چاہیئے کہ ایک لڑکا تمام عمر عزت آبرو کیساتھ ان کی بیٹی کو بیاہ کر بیوی بنانے کو آیا ہے ۔ جو ساری عمر اس کے اخراجات خوشی غمی پوری کرنے کا وعدہ کر رہا ہے ، تو اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈال کر اس رشتے میں قرض اور پریشانیوں کا زہر مت گھولیں ۔
کیونکہ وقتی طور پر لڑکا  جب مقروض ہو کر یہ سارے چونچلے پورے کر بھی لے گا تو شادی کے بعد یہ ہی قرض اتارنے کا موقع اس جوڑے کے لیئے ایک دوسرے سے نفرت اور بیزاری کا باعث بن جائے گا ۔
لڑکے سے راستہ روکنے ، دودھ پلائی ، جوتا چھپائی اور جانے کون کونسی رسموں کے نام پر  منہ مانگی رقمیں بٹوری جاتی ہیں ، تو لڑکی سے قران کھولنے ، گود میں بچہ ڈالنے ، دیور کی گوڈا بٹھائی اور جانے کس کس ڈرامے کے نام پر موٹی رقمیں اینٹھ لی جاتی ہیں ۔
بزرگوں نے  یہ رسمیں شادی کے مواقع پر ہونے والے سٹیریس اور دباو کو کم کرنے کے لیئے ، ہنسی مذاق سے ان گھرانوں کو ریلیکس کرنے کے لیئے بنائی تھیں ۔ لیکن آج ہم لوگوں نے انہی چھوٹے چھوٹے ہنسنے مسکرانے اور چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق کے مواقعوں کو بھی مقابلہ بازی اور پیسہ کمانے کی موقع پرستی میں بدل کر اپنے لیئے اور دوسروں کے لیئے بھی سردردی میں بدل دیا ہے ۔ ہر گھرانہ سمجھتا ہے کہ یہ کاروبار اور اپنے اخراجات وصول کرنے کا سنہری موقع ہے سو دوسرے خاندان سے جو بھی خرچ نکلوایا جا سکتا یے نکلوا لیا جائے ۔سوچنے کی بات ہے کہ آخر اتنے اخراجات کیئے یا کروائے ہی کیوں جائیں کہ جو۔نکلوانے کے لیئے اتنے منصوبے بنانے پڑیں ۔  جو۔ہے جتنا ہے اسی میں خوشی کے موقع کی خوشی کو۔کیوں نہ دوبالا کیا جائے ؟
اس کے بعد چاہے وہ نیا جوڑا ساری عمر ایک دوسرے کو طعنے دے دیکر ہی چھلنی کرتا رہے ۔ انہیں اس کا اسوقت کوئی احساس نہیں ہوتا ۔ جبکہ ان حالات کو دونوں طرف بھگتنا سارے ہی خاندان نے ہوتا ہے ۔
نکاح کو آسان کرنا دونوں خاندانوں کی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی ایک کی۔
پھر رخصتی اور ولیمے کے موقع پر ایکدوسرے سے من چاہی تعداد میں مہمانوں کو لانے کا مطالبہ اور پھر من چاہے پکوانوں کی فرمائش ۔۔کونسی انسانیت اور شرافت یے یہ ؟  دوسرے کے ہاں اس کی طرف سے جو تعداد مہمانوں کی آپ سے کہی جائے ۔ کوشش کیجیئے اس سے بھی  دو چار کم ہی لیکر جائیں ۔ باقی مہمان آپکی اپنی دعوت میں بلا لیئے جائیں ۔ تاکہ دونوں گھرانوں کو آسانی مل سکے ۔ اپنے بچوں سے دوستی کیجیئے دشمنی نہیں ۔ یاد رکھیئے آپ کے آج کے فیصلے انہیں ساری عمر بھگتنا پڑیں گے ۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔







پیر، 22 اپریل، 2019

● (16) ہر آنکھ تماشائی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا



(16) ہر آنکھ تماشائی ہے

 
رنگ ہی رنگ ہے رعنائی ہی رعنائی ہے 
دیکھنے کو جسے ہر آنکھ تماشائی ہے 

جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے

کون کہتا ہے کہ محروم تمنا ہو جا
روشنی کے لیئے ترسی ہوئی بینائی ہے 

خوش نہیں تیری محبت میں یہ دنیا گم ہے 
  غم کہ کرنی تھی جسے بس وہی ہرجائی ہے

اے ہوا عشق میرا تیرا قرضدار ہوا
راستے سے  تُو میرے دھول اڑا آئی ہے

درد کی لہر میں دیکھے ہیں کبھی وہ لمحے
موت کے بین میں جب گونجتی شہنائی ہے

فیصلے سارے ہی انصاف نہیں پا سکتے
کچھ تو درپردہ خیالات کی شنوائی ہے

میری گلیوں میں کیا سورج نے چراغاں کرنا
جگنؤوں سے ہی میرے دل نے ضیاء پائی ہے

ہم حیادار تھے الزام یہی تھا تو سن 
بے حیا لوگوں سے ہم نے یہ حیا پائی ہے
اب نہ حیران ہوئی اور نہ نمناک ہوئی
آنکھ سے کتنے حوادث  کی شناسائی ہے

اب تو ممتازبدل جائے مقدر تیرا
ٹوٹنے کو تیرے حالات کی انگڑائی ہے
●●●
    کلام : ممتازملک
      مجموعہ کلام:سراب دنیا
اشاعت:2020ء
●●●


پاگل خانہ یا اقتدار۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


پاگل خانہ یا اقتدار



زنگ آلودہ تلواروں سے جنگیں جیتنے کا خواب دیکھنے والے دنیا بھر میں  پاگل خانے میں ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں اقتدار میں ہوتے ہیں ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک.پیرس )

اچھے مشورے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


اچھے مشورے 


اچھے مشورے اندھیرے راستوں میں چراغوں کی مانند ہوا کرتے ہیں ۔ جو گمراہ نہیں ہونے دیتے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
(ممتازملک.پیرس)

بدھ، 17 اپریل، 2019

اب تو ملتی کہاں ۔ شاعری ۔ سراب دنیا




اب تو ملتی کہاں
       (کلام/ممتازملک۔پیرس)


اب تو ملتی کہاں پر وفا ہے
دل لگانے کی شاید سزا ہے

مسکرا کر اسے دیکھ لینا
ٹوٹے دل کی یہ ہی اک دوا ہے

مجھ سے شاید کچھ ایسا ہوا ہے
جس کے بدلے ملی یہ سزا ہے

دوستوں کی نگاہوں سے جانا
کہ وفاؤں کا بدلہ جفا ہے

ہم نے جسکے لیئے خود کوچھوڑا
آج تنہائی اسکا صلہ ہے

رات بھر سو نہ پائے اگر ہم
پھر سے بجلی گری شور اٹھا ہے

تُو نے ممتاز امید باندھی
اب بھی امید پر وہ کھرا ہے
۔۔۔۔۔۔



● (19) میرا محور بدل گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(19) میرا محور بدل گیا



❤خواہش بدل گئی میرا زیور بدل گیا 
جب سے بنی ہوں ماں میرا محوربدل گیا


❤دکھ دوسروں کے مجھ سے جدا اب نہیں رہے
لہجہ بدل گیا میرا تیور بدل گیا


❤دھڑکن کی گونج میں بڑی طاقت سی آ گئی
انداز ہی دعاؤں کا یکسر بدل گیا


❤اللہ سے کچھ مزید ہی قربت سی ہو گئی
جیسے کہ دوستی کا تصور بدل گیا


❤بھرپور تھا مگر اسی اک پھول کے آتے
جیسے کوئی درخت تناور بدل گیا


❤مجھ کو یقین آنے لگا اپنی ذات پر
پہلے تھا بے یقین جو باور بدل گیا


❤گویا عبادتوں کا ثمر مجھکو مل گیا
چاہت بدل گئی میرا دلبر بدل گیا


❤بہتات تھی جووقت کی قلت میں ڈھل گئی
میری حیات کا سبھی منظر بدل گیا


❤ممتاز ذمہ داریاں بڑھنے لگیں میری 
رکھنا یہ میرے ہاتھ کا سر پر بدل گیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

منگل، 16 اپریل، 2019

پیرس کا جھومر۔۔ کالم


پیرس کا جھومر نوتغ دام
(تحریر/ممتازملک.پیرس)





 15  اپریل 2019ء بروز پیر دنیا کی تاریخ کا  ایک اور صدماتی دن ۔ فرانس کے دارلحکومت پیرس کے قلب میں واقع نو سو سال پرانا تاریخی چرچ( نوتغ دام )  Notre Dame کا بڑا حصہ اور کیتھیڈرل جل کر راکھ ہو گیا۔ پیرس میں ایک اندازے کے مطابق پیرس کا جھومر کہلانے والے اس  تاریخی چرچ کو دیکھنے کے لیئے ( دنیا کے ہر مذہب کا باشندہ ملا کر) سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ سیاح صرف اس  چرچ کا نظارہ کرنے کے لیئے آیا کرتے ہیں ۔ 
یہ صرف ایک چرچ نہیں ہیں ۔ نو سو سال کی تاریخ ہے، تعمیرات کا عظیم الشان شاہکار ہے ، اس میں قدم رکھتے ہی آپ صدیوں کا سفر لمحوں میں کرنے لگتے ہیں ۔  اتنی سیڑھیاں ہیں ۔اس میں کہ آپ چلتے چلتے تھک جاتے ہیں، لیکن نگاہیں تھکنے سے انکار کر دیتی ہیں ۔ 
اس کے دن کا نظارہ ایک الگ روپ رکھتا ہے تو شام ڈھلتے ہی رنگ برنگی روشیوں میں نہانے کے بعد یہ کسی اور دنیا کا نظارہ پیش کرتا ہے ۔ 
فرانس بھر کے عوام کے لیئے یہ ایک تاریخی نقصان بھی ہے اور صدمہ بھی ۔ ملک بھر سے ہر کمپنی نے اس کی تعمیر نو کے لیئے فنڈز دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ہو سکتا ہے جلد ہی اس کی تعمیر بھی دوباہ سے شروع  ہو کر اس کو پھر سے اپنی اصل شکل میں لایا بھی جا سکے ۔ لیکن اگر  اس میں رکھے نوادرات و تبرکات  کو۔کوئی بھی نقصان پہنچ چکا ہے تو وہ اب دوبارہ کبھی واپس نہیں لائے جا سکتے ۔ یہ تاریخی نقصان اب کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا ۔ 
نوتغ دام کا اردو مطلب ہے ہماری عورت ، اس کیتھیڈرل چرچ کی بنیاد  بشپ مورس ڈی سلی نے   1160ء میں شروع کروائی  اور اس کے بعد صدیوں میں اکثر اس میں اضافی تعمیرات ہوتی رہیں ۔  1260ء میں اسے  بڑی حد تک مکمل کر لیا گیا تھا. 1790ء  میں نوتغ دام کو بھی  انقلاب فرانس کے اثرات کا  سامنا کرنا پڑا۔  مذہبی فرقہ پرستوں نے اسے شدید  نقصان پہنچایا. 1804ء  میں گرجا میں  شہنشاہ فرانس کے طور نپولین کی تاجپوشی کی گئی تھی،  یہ چرچ ہنری کے بپتسما کا گواہ ہے ،1821ء میں Chambord کی گنتی  کا شمار اور فرانسیسی جمہوریہ کے کئی صدور کے جنازوں نے اسے وجہ شہرت بخشی تو وہاں اس گرجا کی مقبولیت میں بہت بڑا کردار معروف لکھاری وکٹر ہیوگو کے ناول "نوٹر ڈیم کا کبڑا "کے 1831ء میں ہونے والی  اشاعت نے ادا کیا . 
1963ء میں اس کی باقاعدہ صفائی کر کے اسے اس کے اصلی رنگ میں لایا گیا ۔ 
یہ گرجا پیرس کے شہر اور فرانسیسی قوم کے سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر معروف علامتوں میں سے ایک ہے.   نوتغ دام  پیرس میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی  یادگار ہے ۔ 
جو اب جل کر بہت بڑا مالی تاریخی اور جذباتی نقصان دے چکا ہے ۔ اور ہم اس کی تعمیر نو کے لیئے پرامید ہیں ۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 14 اپریل، 2019

اہم کتاب مگر انگریزی ۔۔۔کالم


اہم کتاب مگر انگریزی میں کیوں ؟
                  (تحریر/ممتازملک.پیرس)



کچھ عرصہ قبل  لاہور میں
(Anothwe prospective)نامی کتاب کی شاندار تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا ۔ اس کتاب کے مصنف ہیں کرکٹ کی دنیا کے معاملات سے وابستہ  ایک بڑا نام،  بین الاقوامی ماہر نشریات و اطلاعات،   کرکٹ پروموٹر ، ویلز کرکٹ کپ کے بانی ، تعلقات عامہ کی عالمی شخصیت
 جناب طاہر میمن صاحب۔ جنہوں نے 1977ء سے 1998ء تک کی کرکٹ  ان کہی تاریخ کو اس کتاب میں محفوظ کر دیا ہے ۔ 
لیکن حیرت و افسوس  یہ ہوا کہ انہوں   نے اپنے قیمتی تجربات قلمبند بھی کیئے تو انگریزی زبان میں ۔ یعنی  بائیس کروڑ لوگوں کے ملک میں سے بائیس ہزار لوگوں کے لیئے ۔ ان میں سے بھی شاید 22 لوگ ہی اسے خرید کر پڑھنے کی زحمت فرمائینگے ۔ ۔ 
ہر لکھنے والے کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ وہ کتاب کس ملک کے لیئے، کس زبان کے بولنے پڑھنے والوں کے لیئے لکھ رہا ہے ؟ کیا اسے اس ملک کی اکثریتی آبادی پڑھنے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے ؟  کیا اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اکثریت میں ہے یا اقلیت میں ۔ بہت سا پیسہ خرچ کر کے ،  بڑی سی محفل سجا کر ، بڑے بڑے معروف نام اکٹھے کر لینے سے کیا یہ کتاب عام آدمی کے مفاد میں اضافہ دینے لائق ہو جائے گی ؟ یہاں تحفے میں دو چار سو یا ہزار کتب تقسیم کر لینے سے کیا اس میں تحریر کردہ تجربات عام آدمی (جو بمشکل سرکاری سکول میں پڑھنے والے انسان ہیں )کی زندگی بدل دیں گی ؟ 
 میں نے آج تک کسی انگریز کو اپنے زندگی کے تجربات فرنچ میں لکھتے بیان کرتے نہیں دیکھا ، کوئی فرنچ جرمن زبان میں اپنے تجربات اپنی قوم میں بانٹنے نہیں آتا ۔ کوئی اٹالین اسپینش میں ، انگریزی میں اپنی قوم کو سبق پڑھانے نہیں آتا ۔ تو ہمیں اپنی قوم پر  کسی غیر زبان میں رعب ڈالنے کا مرض کیوں ہے ؟                               اگر ایسا  ہے تو جان لیجیئے کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ۔ 
برائے مہربانی ان تمام بہت ہی ذیادہ پڑھ لکھ گئے لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں تک لکھ کر، سنا کر جو بھی چیز پیش کرنی ہو،  تو اس کی اکثریت کی بولی اور سمجھی جانے والی زبان کو ہی ذریعہ اظہار بنایا جائے ۔ تاکہ پڑھنے اور سننے والے کو اس بات کی سمجھ آ سکے اور وہ اس پر غور بھی کر سکے ، ورنہ لکھنے والے کی سب ڈگریاں ، سبھی حیثیتیں محض شو پیس بنکر ہی رہ جا تی ہیں ۔
ہماری زبان اردو بہت خوبصورت اور جامع ہے ۔ ہمیں ہر کتاب ہماری اردو زبان ہی میں چاہیئے ۔
 انگریزی قلمکار اپنی کتابیں امریکہ اور انگلیڈ میں جا کر  انگریزی میں ضرور پیش کریں ۔ جناب طاہر میمن صاحب کو ان کی کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد ۔ لیکن جلد ہی اس کتاب کے اردو ایڈیشن کی امید کیساتھ ۔ 
                       ۔۔۔۔۔۔ 


ہفتہ، 13 اپریل، 2019

سلام جیسنڈا آرڈرن ۔ کالم



        سلام جیسنڈا آرڈرن
                   (تحریر/ممتازملک.پیرس)


 15 مارچ 2019ء بروز جمتہ المبارک نیوزی لینڈ کی سرزمین کا ایک سیاہ ترین  دن جب عبادت میں مصروف 60 سے زیادہ پرامن اور معصوم مسلمانوں کو کرائسٹ چرچ نامی شہر کی دو مساجد النور اور لن وڈ میں بیدردی سے نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا ۔ ایک آسٹریلوی عیسائی دہشت گرد نے مکمل منصوبہ بندی کیساتھ یہ کاروائی انجام دی ۔ ایسے خوفناک واقعات سے دنیا  میں انسانیت کی تذلیل کی جو مثال پیش کی گئی وہ کسی بھی ملک کے اپنے حالات کے لیئے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی  وہاں اتنے پریشان کن حالات میں
ایک اکیلی  عورت جیسنڈا آرڈرن جس کی انصاف پسندی ، اعتماد اور ہمدردی نے عورت کا مقام ان سینکڑوں حمکران مردوں میں بلند کر دیا ۔ جس نے مامتا، محبت اور سچائی کا پرچم تھام کر اپنے ناانصاف عالمی طاقتوں کے صدور اور میڈیا کے  سامنے  حق کی آواز کو بلند کر دیا ۔ بے خوف ، جراتمند ، پراعتماد عورت،  سچی عورت ، جسے دیکھ کر خوشبو، اوس ، جھرنا، مرہم ، جگنو جیسے الفاظ کے صحیح معنے سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔
دنیا میں عالمی طاقتوں کی سازشوں نے جہاں معصوم مسلمانوں کی زندگیاں  عذاب بنا رکھی ہیں ۔ ان کا لہو پانی سے ارزاں کیا جا چکا ہے ۔ ان کی عزتوں کو روندنا اپنی بڑائی مانا جا رہا ہے ۔ ایسے عالمی افق پر مسلمانوں کو اس سچی آواز نے یہ پیغام دیا کہ ہاں ابھی کچھ لوگ سچائی اور معصومیت کا ساتھ  دینے کو، اسے پہچاننے کو اور اسے تسلیم کرنے کو اسی دنیا میں موجود ہیں  ۔ وہ کام جو بڑی طاقتوں کو بڑا بناتیں، انہوں نے تو کرنے کا نہ حوصلہ دکھایا نہ ہی ظرف ، لیکن ایک چھوٹے سے امن پسند ، انسانیت نواز  اور محبت پاش قوم کی مہربان اور سچی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کر دکھایا ۔ مشکل کی اس گھڑی میں جہاں بڑے بڑے مرد لیڈران کے قدم کوئی فیصلہ کرتے ہوئے لڑکھڑا جاتے ہیں ۔ وہاں اس ثابت قدم خاتون نے لمحہ بھر میں ایسا فیصلہ کیا جس نے اسے رہتی دنیا تک تاریخ کے صفحات میں زندہ و جاوید کر دیا ۔ نیوزی لینڈ کی پوری  قوم اس خاتون کے بطور انکی وزیر اعظم انتخاب پر مبارکباد کی مستحق ہے ۔ اور جیسنڈا آرڈرن نے اپنے انتخاب کو اپنے عمل سے  اپنی قوم کا بہترین انتخاب ثابت کر کے دکھا دیا ۔ خدا کی  محبت کی وہ آواز جو آذان کی صورت  سیدھا دلوں میں ترازو ہو جاتی ہے ، جسے کم ظرف لوگ سننے سے انکار کرتے ہیں اس آواز کو اپنی پوری قوم کو سنا کر ان کے دلوں  کو نور کے راستے  کے لیئے کھول دیا ۔ 
جیسنڈا کے ان بہادرانہ اقدامات نے نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں بلکہ اپنے ملک میں موجود ہر کمیونٹی ، ہر مذہب کے لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب سے محفوظ ، سب سے عظیم اور سب سے باوقار ملک میں موجود ہیں ۔
 جہاں آپ تک پہنچنے والی کسی بھی مصیبت کو سب سے پہلے آپ کی حکومت سے ٹکرانا ہو گا ۔ آپ کے خاندان کسی بھی مشکل کی صورت میں بے آسرا اور لاوارث نہیں چھوڑے جائینگے ۔ بیشک بہادر قومیں ہی بڑے اور منصفانہ فیصلے لے سکتی ہیں ۔ میں ممتازملک اپنی پوری پاکستانی قوم کی جانب سے مادام جیسنڈا آرڈرن کو اتنے مشکل حالات پر کامیابی سے بہترین انداز میں قابو پانے پر تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔  اس امید کیساتھ کہ بہت جلد  اس عیسائی دہشتگرد کو عبرتناک سزا دی جائے گی ۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جائیگا کہ دہشتگرد کا کوئی بھی مذہب ہو وہ قابل معافی نہیں ہو سکتا ۔  آپ کی انصاف پسندی کو ، مشفقانہ طرزعمل کو کھڑے ہو کر سلیوٹ پیش کرتی ہوں ۔ اور اس بات کی خواہش کرتی ہوں کہ اگر اس سال کسی کو دنیا میں مہربانی ، مذہبی رواداری یا امن کا نوبل پرائز دیا جانا ہے تو اس کے لیئے جیسنڈا آرڈرن سے بڑھکر اور کوئی نام نہیں ہو سکتا ۔ میں اپنی پاکستانی قوم ،مسلم امہ اور انسانی معاشرے کی جانب سے آپ کے لیئے ڈھیروں دعائیں اور نیک خواہشات کے گلدستے پیش کرتی ہوں ۔ جو اس دنیا میں امن و آشتی اور بھائی چارے کی خوشبو پھیلائے رکھیں ۔ آپ پر اور آپ کی قوم پر سلامتی ہو۔  آمین 

جمعہ، 12 اپریل، 2019

● (23) کتنا اونچا مقام / نعت ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


(23) اونچا مقام
(کلام/ممتازملک۔پیرس)


کتنا اونچا مقام آپ کا ہے
آسمانوں پہ نام آپ کا ہے

جس جگہ پرٹہر گئے جبریل
اس سے آگے  قیام آپ کا ہے

جانے کب سے اجڑ گیا ہوتا
اس جہاں پر سلام آپ کا ہے

جو بھی سن لے سحر زدہ ٹہرے 
سب سے دلکش کلام  آپ کا ہے

بخت والےسمجھ سکیں ممتاز 
الوہی انتظام آپ کا ہے
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام: اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم 
اشاعت:2019ء 
●●●



MumtazMalikParis.BlogSpot.com 
......



✔ کچھ مختلف ہوں لیکن انسان تو ہوں میں ۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ


کچھ مختلف ہوں لیکن
انسان تو ہوں میں 
     (تحریر/ ممتازملک.پیرس)  



 ہر انسان میں اسکی جنس کے ہارمونز ہی اسے دوسری جنس سے مختلف صورت میں پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں ۔ جیسے میل ہارمونز ایک بیٹے کی صورت میں انسانی وجود عطا کرتا ہے تو اسے طرح فی میل ہارمونز بیٹی کی صورت میں دنیا پر ایک وجود کو لاتے ہیں 
 گویا کھیل ہے سارا ایکس اور وائی کروموسومز کا ۔ پھر جب کہیں یہ ہارمومونز اور کروموسومز اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے تو دنیا میں آنے والا بچہ  بطور انسان کچھ مختلف مزاج اور عادات اور کبھی جسمانی ساخت کی کسی کمی بیشی کیساتھ  تولد ہوتا ہے ۔
 اس  میں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت لڑکے کے وجود میں لڑکی کے ہارمونز کیساتھ پیدا ہوتا ہے یا پھر لڑکی کے وجود میں لڑکوں جیسے ہارمونل عناصر کو لیکر پیدا ہوتی ہے ۔ 
ان بچوں میں جو وہ دکھائی دیتے ہیں ان کہ عادات اور انداز اس سے  مختلف جنس کو ظاہر کرتی ہے ۔ یوں ان کا جسم اور ذہن دو دنیاوں کو لیکر سفر کر رہا ہوتا ہے ۔ 
ہم انہیں خواجہ سرا، ہیجڑا ، کھسرا ، کراس جینڈر کے ناموں سے پکارتے ہیں اور ایسے ناموں سے عجیب سے گھٹیا سی لذت بھی حاصل کرتے ہیں ۔ کیوں ؟  یہ بات آج تک ہمارے پلے نہیں پڑی ۔ کیا ان کا جسمانی اور روحانی  کشمکش کا یہ کھیل انہیں انسانوں کی فہرست سے خارج کر دیتا ہے ؟ کیا ان کی رگوں میں خون کا رنگ سرخ نہیں ہے ؟  کیا ان کے سینے میں بھی دل موجود نہیں ہے یا سر میں دماغ موجود نہیں ہے؟ انہیں بھوک نہیں لگتی یا انہیں چوٹ لگنے پر درد نہیں ہوتا ؟ انکی آنکھ سے تکلیف میں آنسو نہیں بہتے؟
ان کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی ؟
یا ان کی کوئی کمی انہیں اچھوت بناتی ہے جو آپ کو بھی لگ جائے گی ؟
یہ بات سارے معاشرے کو تو سمجھنی ہی چاہیئے لیکن سب سے پہلے یہ باتیں اس کے والدین کو سمجھ آنی چاہیئیں ۔ کہ کسی ایک عادت یا رویئے  یا جسمانی کمی بیشی سے اس کے باقی سب جذبات و احساسات سن نہیں ہو جاتے ۔ بلکہ وہ جس امتحان کیساتھ پیدا ہوا ہے اسے زیادہ تحفظ اور محبت کی ضروت ہے ۔ کبھی آزما کر دیکھیئے آپ کے بڑھاپے اور بیماری میں ساری نارمل اولادوں سے کئی گنا زیادہ یہ آپ کی خدمت بھی کرتے ہیں اور آپ سے محبت بھی کرتے ہیں ۔ 
ان بچوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر جس رخ پر ان کا جھکاو ہے اس سے بدل کر جس وجود میں وہ دکھتے ہیں، اسمیں لانے کے لیئے انہیں اسی طرح کے کاموں اور مشاغل میں  مصروف رکھنا بھی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔
ان کے حقوق کی حفاظت کرنا والدین اور بہن بھائیوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ 
ان بچوں کو بھرپور تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔تاکہ یہ معاشی طور پر بھی خود مختار ہو سکیں ۔ اور کسی کی بھی محتاجی سے محفوظ رہیں ۔ یہ دل کے بیحد نازک ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی دوسری خرابیوں میں یہ بھی سر فہرست ہے کیونکہ یہ بچے  دوسروں کی نظروں کے تیر بھی سہتے ہیں ، ان کے مذاق کو بھی جھیلتے ہیں ۔ شاید سامنے والے اپنے عورت اور مرد ہونے کو اپنا ہی کوئی کارنامہ سمجھتے ہیں  اور یہ ان کے لیئے کوئی لطیفہ ہے ۔ لیکن وہ والدین خصوصا والد جو ایسے بچے کو اپنے لیئے خدا کی رضا سے زیادہ اپنی بدنامی پر تعبیر کرتے ہیں ۔  وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ خود ان کے مرد ہونے میں بھی ان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے ۔ یہ بچہ خود سے اس کشمکش کی زندگی کو منتخب کر کے نہیں آیا ۔ آپ سے زیادہ وہ آزمائش میں ہے ۔ جو کبھی اپنی روح کو فالو کرنا چاہتا ہے اور کبھی اپنے جسم کو ماننے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسے بچوں کے والدین اور بہن بھائیوں کو ان کے ساتھ خاص محبت اور لگاو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں خود سے دور مت کیجیئے ۔ ورنہ ہمارا معاشرہ انہیں نہ تو کوئ عزت دیتا ہے اور نہ ہی تحفظ ۔ ان کو بھی نارمل بچوں کیساتھ پڑھنے کا پورا حق ہے ۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہو گا جب ہمارے معاشرے کے بالغ افراد اپنی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اولادوں کو یہ تربیت دیں کہ کسی کی کسی کمی پر، مذہب پر،  عقائد پر کبھی آپ بات نہیں کرینگے ۔ یا کہیں بات یو تو اس کا مذاق نہیں اڑائینگے۔ 
ہمیں اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ پیدا کرنے والے ماں باپ اپنی ہی اولاد سے کسی کمی یا اس کے کچھ مختلف ہونے پر اس سے  نفرت کیسے کر لیتے ہیں ۔ اللہ پاک نے یہ اولاد آپ کی تربیت اور آپ کی محبت پر برابر کے حق کیساتھ عطا فرمائی یے ۔ 
بلکہ کچھ مختلف بچوں کو آپ کی زیادہ محبت اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
 یہ اولاد آپ سے باقی اولادوں سے کہیں زیادہ محبت کرتی ہے ۔ آپ کے لیئے دعا گو ہوتی ہے ۔
 خدا کے لیئے انہیں دھتکاریں مت ۔ ورنہ یہ معصوم برے اور بدکار لوگوں کے ہتھے چڑھ کر کیسے کیسے کاموں میں ملوث کر دیئے جاتے ہیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔
یاد رکھیئے آپ کو خدا کے سامنے  اس اولاد کے بارے میں  بھی برابر کا جوابدہ ہونا ہو گا ۔ 
                         ۔۔۔۔۔

جمعرات، 11 اپریل، 2019

رو نہیں رلاو ۔ کالم


          رو نہیں رلاو  انہیں 
               (تحریر/ممتازملک.پیرس)


پچھلے سال گھر بھر کی کفیل جواں سال بس ہوسٹس کو ایک ٹھرکی نے جس طرح بس سٹینڈ پر گولی ماری اس کی پھانسی کا ابھی انتظار ہی ہے کہ کل رات ایک اور بس ہوسٹس کو بری طرح سے ہراساں کیا گیا اور ہمارے جواں سال مردوں کا جم غفیر اس بے بس روتی ہوئی مجبور  لڑکی کو یہ کہہ کر دلاسے دیتا رہا کہ
 ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگتے ۔ 
کاش کوئی دو تین اصیل ماوں کی اولاد ہوتے اور اس شخص کو مار مار کر دنبہ بناتے اور پولیس کے حوالے کرتے تو واقعی ان کی مردانگی کو داد دینے کو جی چاہتا ۔ لیکن نہیں جناب سنائی دیا بھی تو یہ مشورہ 
کہ خاموش ہو جاو۔
 یہ نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
گھر سے نکلو گی تو ایسا ہی ہو گا، وغیرہ وغیرہ وغیرہ
سلام ہے ایسے  غیرتمند مشیروں کو ہمارا ۔ 
ان میں سے کتنے ہونگے جو ایسے مجبور گھروں کی مطلقاوں  ، بیواوں اور یتیم بچوں کے گھروں کی کفالت کی ذمہ داری بلا کسی شرط اور بنا کسی مطلب کے اٹھائیں گے ؟ بنا کسی گندی نظر کے ان کے گھر اور گھر والوں سے ملے بنا ، نامحرمی کا لحاظ شرم رکھتے ہوئے ان کے بچوں کی تعلیم ،خوراک ، پوشاک ، کرائے، اور بیٹیوں کی شادیوں کے لیئے مالی مدد فراہم کریگا ۔۔ایک بھی نہیں ۔پھر بھی اپنی یہ مشاورت  کی جگالی ضرور کرتے رہینگے کہ 
ششششش خاموش ہو جاو،
 یہ نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
گھر سے نکلو گی تو ایسا ہی ہو گا، 
۔ بلکہ میں دو قدم اور آگے بڑھاونگی اس  بات کو کہ گھر بیٹھی باپ ، بھائی شوہر اور بیٹے کے سر پر عیش کرنے والی عورت کو کیا پتہ کہ جب سر پر مصیبت و افتاد آ پڑتی ہے ، جب ایک کی کمائی سے گھر کا چولہا جلانا ممکن نہ رہے تو گھر سے باہر کمانے کو نکلنا ہی پڑتا ہے ۔ اور 
 جب گھر سنبھالنے اور کمانے کے لیئے کمر کس ہی لی ہے تو اپنے آنسو ، اپنے جذبات اپنے گھر کے صندوق میں بند کر جاو اور  ایسے ماحول میں رونے کے بجائے اس خبیث مرد کو رلانے والی ہمت دکھائیں ۔
آپ جیسی خواتین جو  ملازمت کر رہی ہیں جہاں یہ نظر باز ، بدکار نگاہیں اور بدکار ہاتھ اپنے جسم کے ہر حصے سے زنا کا فریضہ سر عام انجام دیتے ہیں ۔ انہیں سبق سکھانا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے ۔ یاد رکھیں ایک کی ہمت ایک سو کو محفوظ کرنے کا باعث بنتی ہے ۔
ملازمت کرنے  والی خواتین پر پیٹ بھرے لوگوں کے اعتراضات اور  طعنے و تشنع کو بجا قرار دینے والے زرا  سوچیئے بطور سواری سفر کرتے ہوئے  بھی کیا عورت ان کے لیئے پکا ہوا پھل ہے اور 
 بسوں گاڑیوں کی سیٹوں میں سے ہاتھ گھسیڑ کر انگلیوں سے عورتوں کو چھونے والے، عورتوں کیساتھ بسوں میں ٹکرا ٹکرا کر  اور سونگھ سونگھ کر سفر کرنے والے یہ نفسیاتی بیمار اور ٹھرکی کیا کم اور چھوٹے کتے ہوتے ہیں ۔ ان کی بدمعاشیوں پر خاموشی ہی ان کو بڑھاوا دیتی ہے ۔ آپ اکیلی ہیں تو کیا ہوا ان خبیثوں کے ہجوم میں سے کوئی ایک تو غیرت مند ماں کا سپوت ضرور ہو گا جو آپ کی آواز میں آواز بھی ملائے گا۔  اسی حوصلے کیساتھ 
 اٹھیں سیٹ سے کالر دبوچ کر اس کا گلا پکڑیں ۔ 
اس کے منہ پر تھوکیں اور اس کی پیدا کرنے والی پر خوب لعنت بھیجیں اور ایسی ٹھکائی لگائیں کہ سالوں تک۔یاد رکھے اور اگر کوئی دوسرا لگا رہا ہو تو ثواب سمجھ کر چار جوتے آپ بھی جڑیں ۔ جب تک کہ وہ اس کرتوت کی آپ کے پیر پکڑ کر معافی نہ مانگے ۔ 
اپنی بہنوں اور بیٹیوں بیبیوں کو یہ بات سمجھا کر گھر سے باہر جانے دیں کہ بیٹا اپنے حلیئے کو درست رکھو ، لیکن جہاں کوئی ایسا کتا تم پر دانت پیسے تو پھر
 رو نہیں رلاو ان حرامیوں کو ۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 اپریل، 2019

● شمشاد سرائی / تبصرے


تبصرہ برائے شمشاد سرائی


**عالمی شہرت یافتہ شاعرہ "محترمہ ممتاز ملک۔۔میری نظر میں**
معروف نعت گو شاعرہ،ادیبہ ،کالم نگار اور ہمہ جہت شخصیت کی مالکہ ممتاز ملک ایک عرصے سے پیرس (فرانس) میں ملک کی نمائیندگی کرتے ھوئے سوشل ورکر اور ٹی۔وی پروگرام انچارج کے طور پر کام کررھی ھیں۔تین کتب"مدت ہوئی عورت ھوئے، میرے دل کا قلندر بولے اور سچ تو یہ ھے" منصہء شہود پر آ کر داد و تحسین سمیٹ چکیں ھیں اور آٹھ کتابیں منتظرِاشاعت ھیں۔ آپ نے خواتین کے حوالے سے بھی قابِل ذکر خدمات سر انجام دیں ھیں اور فرانس کی پہلی نسائی تنظیم "راہِ ادب" کی صدر بھی ھیں۔نہایت دردِ دل رکھنے والی رائٹر ھیں۔انسانیت سے محبت اور ملک و قوم کے وقار کی علمبردار ھیں۔آپکے کلام میں وہ تمام خصائص موجود ھیں جو کہ آج کے عالمی ادب کا بیانیہ ھے۔تمام اصناف ِ ادب پر دسترس رکھتی ھیں۔
نمونہء کلام ملاحظہ فرمائیں۔
قدرت کے تحائف ہیں تیری ذات میں شامل۔
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل
دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ھے
جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل۔
المختصر ممتاز ملک کا شمار ملک کے نسائی ادب میں ایک معتبر حوالہ ھے  
اللہ کرے زور ِ قلم اور زیادہ۔
مبصر۔۔
شمشاد سرائی 
(چیئر مین ادبی قبیلہ انٹرنیشنل ۔۔                                            پاکستان)
                          ●●●

ہفتہ، 6 اپریل، 2019

✔ ● ہم پاکستانی کدو ۔ کالم ۔ لوح غیر محفوظ


            ہم پاکستانی کدو
              (تحریر/ممتازملک.پیرس)



            ہم پاکستانی کدو
          تحریر: ممتازملک.پیرس 

ابھی ابھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ  ایک امریکی نوجوان کی پاکستان کے دورے پر مبنی تھی ۔ جسے  دیکھ کر ہمارا تو ہنس ہنس کر رونا ہی نکل گیا  سچ میں ۔ جس میں ہر دکاندار انہیں ہر چیز مفت میں بانٹ رہا ہے ۔ کیا قلفیاں  ،کیا ٹوپیاں ، کیا جوتے ، کیا ہی کھابے، کیا رکشے ، کیا سواریاں ۔
کہ اس نوجوان اور اسکے گروپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بتا رہا ہے کہ وااااااو پاکستانی کتنی مہان قوم ہے۔ یہ مہمانوں کی کیا بےمثال میزبانی کرتی ہے ۔ کیا ملک ہے پاکستان ۔۔۔۔ واقعی جناب پاکستان جیسا ملک دنیا میں اور کہیں نہیں ہو گا ۔
 لیکن پاکستانیوں جیسی ڈرامہ باز قوم بھی کہیں نہیں ہو گی۔ جو انگریزوں امریکیوں اور انڈینز کے آگے تو باقاعدہ حاتم طائی بن کر اپنے خزانے کے منہ کھول دیتے ہیں اور اس کے کیش کرائے 28 ہزار روپے بھی دس دن میں خرچ نہیں ہونے دیئے ۔ لیکن جناب یہ ہم پاکستانی مہمانوں سے پوچھیئے جنہیں ثواب سمجھ کر کند چھری سے ذبح کرنا بھی یہ ہی پیارے پاکستانی اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہم باہر ہوں تو بھی بریانی کی پلیٹ سے انصاف کرتا ہوا ملک میں بیٹھا ہوا پیارا یا پیاری فون کی گھنٹی سنتے ہیں باقاعدہ ماتمی انداز میں، ہائے میں رڑ گیا ، ڈوب گیا ، بھوکا مر گیا ،کے بین سنائے گا/گی ۔ اور وہاں سامنے بیٹھے یا بیٹھی کو آنکھ مار کر اپنی ایکٹنگ پر داد لینے کو  فخریہ مسکراہٹ اچھالے گا/گی۔۔ جبکہ بیرون ملک سے فون کرنے والے ہم جیسے احمق کدو گھر کے راشن کے پیسے بھی اٹھا کر فورا اپنی بیوی یا شوہر کو بتائے بنا ہی اسے منی گرام کرنے کو دوڑ پڑے گا کہ اف خدایا کہیں دیر ہو گئی تو واقعی کسی کے مرگ کی خبر ہی نہ آ جائے ۔ پاکستان جانے کے لیئے ایک ایک کے لیئے کوئی نہ کوئی تحفہ نہ رکھا تو گویا آپ کی شکل دیکھنا ان کے لیئے حرام ہو جائے گی ۔ ہم وہاں مہمان نہیں ہوتے بلکہ ہم ہی وہاں بیٹھوں کے میزبان قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ 
 بھئی آپ لوگ آئے ہیں تو ہماری بھی  آوٹنگ ہو جائے گی ھی ھی ھی ۔ ورنہ ہم کہاں جا پاتے ہیں کہیں، چلو بیٹا ماموں ، چاچا  تایا ، پھپھو آئی ہیں شاباش تیار ہو جاو ان کو کمپنی دینے کو۔ اور اس دس پندرہ لوگوں کی  کمپنی میں یہ ایک میزبان کدو ہوتا ہے جس کے سر پر اب پاکستان آنے کے جرم کی پاداش میں پوری پوری سزا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یعنی ہم جیسے باہر سے گئے پاکستانی کدو کا اب بھجیا بھی بنے گا اور حلوہ بھی۔ اس امریکی کے اٹھائیس ہزار بچانے والی قوم کے سیانے رشتہ دار اور ملاقاتیئے ہمارے ایک ماہ میں اٹھائیس لاکھ لگوا کر بھی ہم سے کبھی راضی نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہی تحفے کو" ایک ہی "گننے والے کو وہ ایک ہزار لوگ کبھی نظر نہیں آئینگے جنہیں یہ ایک ایک کر کے تحفہ نوازی کی گئی ہے ، اس کی شادی ہے ارے آپ باہر سے آئے ہیں کچھ دے دیجیئے گا پہلی بار مل رہے ہیں نا، ان کا عقیقہ ہے ارے کچھ دیدیجیئے نا آپ تو باہر سے آئے ہیں ، اس کی سالگرہ ہے ،یہ پیدا ہو گیا ہے ، وہ مر گیا ہے ۔۔۔۔بس کسی نہ کسی بہانے کچھ دیدیجیئے نا 
 اب بندہ پوچھے تم لوگ یہاں رہتے ہو ۔یہ تمہیں تمہارے مواقع پر لوٹائیں گے ہماری کونسی خوشی غمی یہ بانٹنے آئینگے کہ ہم ان کو دے دیکر جائیں۔  
 تو سمجھ میں آیا کہ ہم کدو ہی تو ہیں ان سیانے پاکستانیوں کی کمیٹیاں ۔ ہم سے ہزاروں روپے بھروائے جاتے ہیں جو بعد میں وہ رشتہ دار اپنے گھر کی تقریبات میں کمیٹی اور بی سی کے طور پر کھلوائیں گے ۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم گٹلیوں کے دام ۔ 
ہم تو ان کے موٹر سائیکل سے گاڑی اور تانگے سے رکشہ اور چنگچی کے کرائے اور پٹرول بھی بھرتے ہیں ۔ سارے گھر میں بیس بندوں کا راشن میں بھرواتے ہیں اور ہر روز ایک دو ہزار روپے  کہیں نہ بھی نکلیں تو مذاق ہی مذاق میں جھڑوا لیئے جاتے ہیں ، کس مد میں یہ آپ کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی ۔ بل آیا ہے تو ان کے ٹبر کا بل بھی آپ ہی بھریں کیونکہ آپ نے غلطی سے ان کے ہاں انٹری جو دے دی ہے ۔ سو گھر کی ساری گیس اور بجلی آپ نے چوس لی ہے جو اب آپ کو نچوڑ نچوڑ کا نکلوائی جائے گی ۔ آپکو گنے کی طرح دوہرا چوہرا کر کے خرچوں کی مشین میں سے گزارا جائے گا ۔ جب تک آپ کا پھوک بھی بکری کے کھانے کے لائق نہ رہے ۔ جب تک آپ کی جیب کی زبان باہر آکر لٹک نہ جائے یہ سب آپکو جونک کی طرح چمٹے رہینگے ۔ جیسے ہی آپ کی جیب سے "خالی ہے" اور کارڈ سے  "نو بیلنس" کا نعرہ بلند ہو گا سب اسی طرح اپنی تاثرات اور رنگ بدلیں گے کہ آپ کو گرگٹ بھی معصوم نظر آنے لگے گا ۔ 
اس ویڈیو میں جو چالاک ٹولہ بیان دیتا ہے کہ ہم پیسے کو کچھ نہیں سمجھتے ۔ ہم سمجھتے ہیں رشتوں کو ویلیوز کو  اور روایات کو ۔ تو اس فلمی ٹولے سے کہیں خدا کو منہ دکھانا ہے کیوں پیچھے سے جا کر دکانداروں کو پیسے دیتے ہو۔ اور دنیا کی آنکھ میں مرچیں جھونکتے ہو ۔ کبھی تو سچ بول لیا کرو ۔ اگر ہمدردی اور میزبانی ہی کرنی ہے تو اپنے پاکستانی مہمانوں کیساتھ بھی یہ مہربانی کر دیا کرو ۔ جن کا خون چوسنے کی کیا رشتہ دار ، کیا دوست احباب،  کیا ملاقاتیئے ، کیا ہی دکاندار سب نے ہی  قسم کھا رکھی ہوتی ہے ۔ اللہ کے ہاں  کسی انگریز اور امریکی کو مفتے بانٹنے پر انعام نہیں ملنا کیونکہ وہ کوئی غریب غرباء اور محتاج نہیں ہیں بلکہ اپنے پردیسی پاکستانیوں پر ترس کھانے اور ان کی میزبانی کرنے پر ملنا ہے ۔ اگر ہمارے یہ تجربات جھوٹے ہیں تو پلیززززز مجھے بھی اسی ویڈیو والے مفتے پاکستان میں جانا ہے ۔۔کوئی بھیجے مجھے اس کا پتہ پلیززززز
اور ہاں ہم جیسے سارے کدو 
اپنے بچے سرکاری سکولوں میں سرکاری وظیفے لے لیکر پڑھانے والے کدو یاد سے اپنے پچھلوں کے انگلش میڈیم سکولوں کی فیس بھروانا نہ بھولیں ۔ آخر کو آپ کی قبر ہر چراغاں یہ ہی بھانجے بھتیجے ہی تو کروائیں گے ۔ اپنی اولاد تو خیرات پر پل ہی جائےگی ۔ 
واپس جائیں اور اپنے اندر نوٹوں کا پیڑ اگائیں اور فون کی گھنٹی بجا کر یا اٹھا کر اپنا پھر سے حلوہ بنوائیں 😁😁😁۔
لیکن یاد رکھیں پاکستان کے کلچر کو، اس کے حسن کو آپ کے جھوٹے تڑکے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں یے ۔ یہ بےمثال ملک اپنی سچی خوبیوں ہی کی وجہ سے دوسروں کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ اسے جھوٹ کی بیساکھیوں پر کھڑا کر کے معذور مت کہلوائیں ۔ یہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونا جانتا یے ۔ ضرورت ہے پاکستانیوں کو اپنی حیا ، خود داری اور محنت کشی کو جگانے کی ۔  اور اپنی لالچ ، شارٹ کٹس ،حرام خوری اور مفت خوری کو سلانے کی ۔۔۔
پاکستان زندہ باد 
                        ●●●

                      





جمعہ، 5 اپریل، 2019

آقا دا شہر ۔ اےشہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پنجابی نعت



آقا دا شہر مدینہ 

کوئی وی مسجد نبوی دا قصہ جد سناندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے 

کوئی ٹھنڈی ہوا دا  روح نوں جھونکا  ہلاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے

کوئی وی کہہ کے جد  امی میرا ہاسا اڈاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے

جدوں لیکے  کوئی داغ یتیمی وینڑں پاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے

جدوں دھی نوں کوئی نفرت دی سولی تے چڑھاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے

کوئی ممتاز جدغربت زدہ دا دل دکھاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔            

  

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/