ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 25 فروری، 2019

بے حیا والدین کے نام


        بے حیا والدین کے نام 
                       (تحریر/ممتازملک۔پیرس)





اللہ پاک نے بیٹی کو رحمت بنا کر ماں کی کوکھ اور پھر باپ کی گود میں ڈالا . جہاں اسے قبول نہیں کیا جاتا وہ ظلم و ستم کی داستان تو اکثرسنائی دے جاتی ہے لیکن وہ گھرانے جہاں پر الٹرا  ماڈرن  ماں یا خود کو انگریزوں سے بڑا انگریز ثابت کرنے والا باپ گود کی بچی کے لیئے منی  اسکرٹ خریدتے ہیں . بغیر بازو اور ننگی کمر کے ملبوسات پہناتے ہیں . گود کی بچی  ہی کو کیا اکثر 10 ، 12 سال تک کی لڑکیوں کو بھی پاجامے پہنانا غیر ضروری سمجھتے ہیں انہیں نیکریں پہنائے گھماتے ہیں ۔ 
جون جولائی کے موسم میں جب لوگ  ہوا کو ترستے ہیں .  یہ ٹائٹ جینز اور چست مختصر شرٹس میں بیٹیوں  کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں. پھر برائے نام کپڑوں اور دوپٹوں سے بے نیاز یہ لڑکیاں  ہر جگہ جا کر اپنی نسوانیت کا اشتہار لگاتی ہیں تو یہ والدین خود کو ماڈرن ثابت کرنے کے لیئے اسے جائز ثابت کرنے کے لیئے   ایڑی چوٹی کا ذور بھی لگاتے ہیں . کبھی اسے اس کی مرضی قرار دیتے ہیں ،تو کبھی اسے اس کا حق قرار دینے میں زبان تھکاتے ہیں ، کہیں انہیں اپنا مذہب دکھائی دیتا ہے، نہ ہی اپنی معاشرت نظر آتی ہے ۔ جب ان لڑکیوں کیساتھ  کوئی شرمناک واقعہ پیش آ جاتا ہے تو پھر دہائیاں دینے لگتے ہیں کہ لوگ برے ہیں ، معاشرہ گندہ ہے ۔
ایک بچے کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔۔اسے جس ڈھنگ میں وہ چاہتے ہیں ڈھالتے ہیں ۔ جب شروع سے ہی اسے پورے اور ڈھکے ہوئے کپڑوں کا عادی بنائیں گے تو  وہ کتنے بھی آزاد معاشرے میں چلے جائیں، اپنی عزت احترام اور پردے کا مکمل خیال رکھیں گے ۔ کیونکہ یہ  معمول کی بات ان کی عادت میں رچ بس چکی ہو گی ۔ لیکن جب شروع سے ہی اسے لباس کے نام پر دھجیاں پہننے کی عادت ڈالیں گے تو جوان ہو کر تو یہ دھجیاں بھی انہیں بوجھ ہی محسوس ہوں گی ۔ 
 عورت کا مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے ۔ جب تک یہ چھپی رہتی ہے اپنی قیمت بڑھاتی ہے ۔ اور جیسے ہی بے حجاب ہو جاتی ہے تو کوڑیوں میں تل جاتی ہے ۔ 
کوئی ان سے پوچھے کہ بیٹی تو انہیں  رحمت بنا کر دی گئی تھی اسے چلتی پھرتی گناہوں کی دکان کس نے بنا دیا . ؟
تو افسوس صد افسوس  ہزار بار دل کے انکار پر بھی دماغ سے ایک جواب آتا ہے کہ ان بچیوں کے بےحیا اور  بے شرم والدین نے ...
ہمارے سامنے فل سپیڈ میں گاڑی آ رہی ہو اور سگنل بھی گرین تو کیا ہم بے دھڑک سڑک پر چلنے یا سڑک پار کرنے لگیں گے ....نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یقینا حادثہ ہو جائیگا . ... تو پھر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یا جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس کے بھی کچھ اصول اور ضوابط ہیں جو ہماری ہی حفاظت کے لیئے بنائے جاتے ہیں.  ہم ٹریفک کے اصولوں کو جان جانے کے ڈر سے تو فالو کرتے ہیں  لیکن معاشرتی اور مذہبی اصولوں کو فالو نہیں کرتے عزت جانے کے ڈر سے بھی...
کیا ہم اپنے ہی مذہب سے بھاگنا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگ معاشرے میں اس  بغاوت کو اپنی ذہنی تسکین کا زریعہ سمجھتے ہاں ...
ایسی صورت  میں معاشرے کی وہی بگڑی ہوئی اور بھیانک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے جس سے آج ہم سب نظر ملانے سے ہچکچا رہے ہیں .
کم لباسی میں آج ایسے مقابلے بازی شروع ہو چکی ہے جیسے کپڑے نہ ہوئے کوئی پنجرہ ہو گیا جس  سے رہائی آج کی عورت کا نصب العین بن چکا ہے یا کچھ والدین کی جانب سے اپنی بیٹیوں سے  محبت کا ثبوت ہی اپنی بیٹی کو کم لباسی کی اجازت  دینا ہے . 
پہلے آستین آدھے ہوئے پھر غائب ہی ہو گئے ،
پہلے گلے بڑے ہوئے، اب تو کندھے بھی کپڑوں سے آذاد ہو گئے، 
پہلے کمر کے نام پر پیٹ ننگے ہوئے پھر تو بلاوز ہی غائب ہو گئے اور کپڑوں کے نیچے پہنے جانے والے( زیر جامے) کپڑوں کے نام پر اوپر آ گئے ،
پہلے پشت سے گلے کم ہوئے پھر پوری پشت ہی غائب تو گئی ،
پاجامے پتلون بنکر ٹخنوں سے اونچے کیا ہوئے  دیکھنے میں وہ ایک لمبی نیکر ہی بن گئے ،
ایوارڈ شوز کے نام پر بے حیائی اور ننگے پن کا جو کنجر خانہ شروع ہوا ہے اس میں ان فنکاروں اور ان کے منتظمین کو ڈوب کر مر جانا چاہئیے جو ننگے  ہو کر اور ننگے کر  کے ایکدوسرے کو  دوسری زبان میں یوں سراہ رہے ہوتے ہیں جیسے اس نے پارسائی کا کوئی امتحان یا پل صراط کا سفر کامیابی سے پار کر لیا ہو ... شیطان کے یہ چیلے دن دہاڑے ہمارے سامنے محو رقص ہیں اور ہم منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں. کیا مجبوری ہے ہماری یا ہماری حکومتوں کی؟
اگر آپ  کو چلتی گاڑیوں کے سامنے اپنی بیٹیوں کو کھڑا کرنے کا شوق ہے ہی تو خدارا  حادثات کا شکوہ مت کیجیئے.....
سننے والے بھی کانوں پر ہاتھ رکھ لیں گے ۔ کیوں کہ مرنے اور لٹنے والی بصد شوق تباہی کی گاڑی کے سامنے آئی تھی ۔ سو افسوس کیسا ۔  
انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ 
حفاظت چاہیئے تو مذہب اور معاشرت کے دائرے میں آجاو ۔۔ورنہ اپنی زبان بھی کاٹ کر پھینک دو ۔ تاکہ شکایت نہ کر سکو۔ 
                    ۔۔۔۔۔

اتوار، 24 فروری، 2019

# موتی کونکلنا ہو گا ۔۔ سراب دنیا




موتی کو نکلنا ہو گا 
(کلام/ممتاز ملک / پیرس) 

ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی نکلنا ہو گا
سو چکے ہیں جو سبھی خواب جگاو لوگو 
دل کو تعبیر کی خواہش پہ مچلنا  ہو گا

اب تو گر گر کے سنبھلنے کا روادار نہیں
ٹھوکروں سے تمہیں  ہر بار سنبھلنا ہو گا

اپنے اعصاب کو،  جذبات کو فولادی  کر
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا

اک زرا چوک نہ کر دے کہیں  برباد تجھے
وقت کی لے پہ تجھے، جھوم کے چلنا ہو گا

بن جا تو اہل ہنر ،خود پہ بھروسہ کر لے
ورنہ تجھ کو بھی، کھلونوں پہ بہلنا ہو گا

چھوڑ جائے نہ زمانہ تجھے آدھے رستے
بن کے براق تجھے آگے نکلنا ہو گا

جان لے تو جو ہے ممتاز ہے  منزل کوئی
آرزووں کو سردست  کچلنا  ہو گا
.......


http://www.tewarnews.com/एक-शायरा-एक-ग़ज़ल-20/






جمعرات، 21 فروری، 2019

آذاد پرندوں کی طرح/ شاعری


انسانیت
(کلام/ممتازملک۔پیرس)




آذاد پرندوں کی طرح گھوم رہی ہوں 
سرشار ہوں فطرت پہ اور جھوم رہی ہوں 

پیسوں کے عوض کچھ نہیں بکتا ہے جہاں پر
کردار کی جب ہی تو میں  معصوم رہی ہوں 

انسانیت ہے نام میرا تجھکو پتہ کیا
دنیا میں تو اکثر ہی میں معدوم رہی ہوں 

درپردہ گناہوں کا ہے بازار سجایا
ہاں سامنے لوگوں کے میں مخدوم رہی ہوں

روکا نہیں جب تک کسی ظالم کے ستم کو 
اس پل تلک میں خود بڑی مظلوم رہی ہوں 

ممتاز میری روح میں ہلچل ہے یہ کیسی
شاید یہ اثر ہے کہ میں محکوم رہی ہوں 
۔۔۔۔۔۔

منگل، 19 فروری، 2019

ہے زندگی کا مقصد ۔۔۔



ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا 








ماشاءاللہ طارق جاوید صاحب اور فرح جاوید صاحبہ لاہور میں کرائے کے گھر میں مقیم،رکشہ چلا کر گزر بسر کرنے والے طارق جاوید صاحب ۔۔۔ 
  ایک ایسی جوڑی جس نے اپنے بے اولاد ہونے کے غم کو ان بچوں کو ہنر مند بنانے میں گم کر سیا جو اپنے والدین کے لیئے مالتو چیز اور بوجھ سے یادی اہمیت نہیں رکھتے تھے ۔ 
اس راتے مین نہ ان کے خالی ہاتھ رکاوٹ بنے نہ ہی ، اور نہ ہی خالی جیب ۔ 
کام آئی تو انکی نیت اور خلوص دل ۔ اور انہوں نے وہ کر دکھایا جو بہت سے کٹی پارٹیز ،نائٹ پارٹیز ، لنچ اور ڈنر پارٹیز کر کر کے، بلا ضرورت صرف ٹائم پاس کے لیئے شاپنگز کرنے والے ، اپنی بوریت دور کرنے کے نام پر ہر روز ہزاروں لاکھوں روپیہ اڑا کر بھی نہیں کر سکے نہ ہی کر سکتے ہیں ۔ جبکہ ان کے مقابل کرائے کے دو کمروں میں رہنے والے،  رکشہ چلانے والے طارق جاوید اور ان کی مخلص ہنرمند بیگم فرح طارق نے والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں جیسی زندگی گزارنے والے بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا عزم کیا اور اللہ کی مدد ان کے شامل حال ہو گئی ۔ دیکھیئے آج وہ ہم سب کے کیئے قابل تقلید مثال بن گئے ہیں ۔ آئیے  ان نیکیوں میں ہم اپنا بھی حصہ ڈالیں ۔     
طارق جاوید صاحب اور فرح طارق صاحبہ 
میں آپ کو کھڑے ہو کر سلیوٹ پیش کرتی ہوں ۔ آپ کی عظمت کو میرا دلی سلام پیش کرتی ہوں ۔۔۔👏👏👏

      ۔۔۔


پیر، 18 فروری، 2019

خود ترسی ایک مرض ۔ کالم



    خودترسی
              ایک مرض        
                   (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)                     


ایک شدید ذہنی مرض جس میں مبتلا  انسان خود کو دنیا کا سب سے زیادہ مجبور اور قابل ترس انسان سمجھتا ہے ۔ یہ مرض  مرد و زن دونوں ہی میں پایا جاتا یے ۔ اس مریض کا مالی طور پر کوئی طبقہ نہیں ہوتا ۔ یہ کروڑ پتی ہو یا بھکاری ۔ دونوں ہی صورتوں میں اس کے منہ پر بارہ ہی بجے رہتے ہیں ۔ 
خوشی کے مواقع پر بھی اسے اپنے رونے پیٹنے ، مرے ماروں ، اور غم و اندوہ کے واقعات سنانے کا موقع ڈھونڈنا خوب آتا ہے ۔ نہ یہ خوش ہوتا ہے نہ کسی کو ہوتا دیکھ سکتا ہے ۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے پر غم کی لکیریں اتنی واضح چھپ جاتی ہیں ۔ کہ ان کا چہرہ دیکھتے ہی سامنے  والا انا للہ پڑھنے کا ذہن بنا لیتا ہے ۔ 
ان میں مختلف ذہن  اور سوچ کے کوگ شامل ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ اکثر شادی شدہ لوگ غیر شادی شدہ کوگوں کو دیکھ کر خود ہر ترس کھاتے پائے جاتے ہیں کہ ہک ہائے کیا آزاد زندگی جی رہے ہیں یہ اور ہم کس عذاب میں پڑ چکے ہیں ۔ جبکہ وہ کنوارے یہ۔سوچ کر خود ترسی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ واہ بھئی کیا ٹھاٹھ اور لاڈ ہیں ان کے ۔ جو چاہیں منوا لیتے ہیں دوسروں سے ۔۔مالک یہ سوچ کر خود پر ترس کھاتا ہے کہ ملازم ہونا کتنا اچھا ہے۔۔ کیا کرنا ہے کیا لانا ہے ،کیسے پورا کرنا ہے ہر ٹینشن سے آزاد مہینے بھر مقررہ گھنٹے کام کیا، بندھی ہوئی تنخواہ اٹھائی اور مزے کیئے ۔ جبکہ اسی مرض میں مبتلا ملازم سوچتا ہے کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے بھلا، مالک کو دیکھو کتنا مال بناتا ہے ، کتنے لوگوں پر حکم چلاتا ہے ، کتنا خودمختار ہے ،کوئی کام نہیں کرتا ،سب ملازمین سے کرواتا ہے ۔ ۔۔
ایسے خود ترسوں کو سوئی چھبھ جانا کسی اور کو گولی لگ جانے سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور بڑا سانحہ ہوتا ہے (اسکی نظر میں )۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ سننے والا اپنی اصل پریشانی کو بھی معمول خیال کرنے لگتا ہے ۔ لیکن ان کا یہ ڈرامہ ان کے ملنے والوں اور جاننے والوں کوجلد ہی ان سے متنفر اور بیزار کرنے کا ہی باعث بنتا ہے ۔ اور ایک روز یہ اپنے جھوٹے اور خودساختہ قصوں اور  اپنی خود ترسی کیساتھ اکیلے ہی  رہ جاتے ہیں ۔غور کیا جائے تو خود ترسی بھی ناشکری کی ہی ایک  شکل ہے ۔ یعنی اپنے حال سے دونوں ہی ناخوش رہتے ہیں خود ترس بھی اور ناشکرے بھی ۔
ایسے  لوگوں میں ہی سب سے زیادہ شرح ڈپریشن یا مایوسی کا شکار ہونے والوں کی ہوتی ہے ۔ یہ عادت اگر وقت پر قابو نہ کی جا سکے تو خدانخواستہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے ۔ 
 ایسے لوگوں کو چاہیئے کہ کوئی ان کی اس عادت کی نشاندہی کروائے تو ناراض ہونے کے بجائے اپنی اس عادت پر غور کرے اور اپنے گھر باہر کسی اچھے دوست کو کہیں کہ وہ آپ کو اس کیفیت میں مبتلا ہوتے ہی کسی اشارے  سے روکے ۔  اس کے علاوہ  ان کے لیئے بہت ضروری ہے کہ اپنی ذات کے قید خانے سے بار نکل کر اللہ کی مخلوق پر نظر ڈالیں ۔ ان کی سنیں ۔ ان کے حالات میں ان چیزوں اور باتوں پر نظر دوڑائیں ۔ جو ان کے پاس نہیں ہیں لیکن اللہ پاک نے آپ کو عطا کر رکھی ہیں ۔ چاہے وہ علم ہو ،رتبہ ہو، ، صحت ہو، گھر بار ہو، رشتے ناطے ہوں ، وقت ہو، رزق ہو، یا فرصت ہو۔۔جب دوسرے کی کمی سے اپنی عطاء کا موازنہ کرنے کی عادت ہو جائے گی ۔ تو شکر گزاری آپ کے مزاج کا ایک خوبصورت حصہ بن جائے گی۔ جس کی روشنی آپ کی روح کو ہی نہیں چہرے کو بھی روشن ،حسین اور مطئن  بنا دیگی ۔ 
                       ۔۔۔۔۔


  

اک عذاب ہے مولا ../ شاعری / سراب دنیا


اک عذاب ہے مولا 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

❤نفل جن کے جانے پر شکر کے پڑھے ہم نے
ان کا لوٹ کر آنا ایک عذاب ہے مولا

❤جس نے زخم بانٹے تھے بزم میں اسے پا کر
دیکھ کے یوں مسکانا اک عذاب ہے مولا

❤سینت  سینت رکھا تھا سامنے رقیبوں کے
ٹوٹ کر بکھر جانا اک عذاب ہے مولا


❤ہم نے جن چوراہوں پہ زندگی گنوائی تھی
پھر وہیں بھٹک جانا اک عذاب ہے مولا

❤جب ندی چڑھی ہو تو انتظار  واجب ہے 
باقیات سہہ پانا اک عذاب ہے مولا

دوستی ہو طوفاں سے جسکی ہر قدم اس کا 
آنسووں سے ڈر جانا اک عذاب ہے مولا
❤ساتھ جنکا ہو ممتاز زندگی کے جیساتو
ان سے ہی بچھڑ جانا اک عذاب ہے مولا 
                       ۔۔۔۔۔۔
سراب دنیا 

ہفتہ، 16 فروری، 2019

حد نگاہ ۔سراب دنیا





حد نگاہ
(کلام/ممتازملک۔پیرس)
         
یہاں سے سورج غروب ہوتا
 جو میں نے دیکھا 
وہاں سے لیکن 
اسی گھڑی میں 
طلوع صبح کی نوید 
اس نے مجھت سنائی
نہ میں غلط تھی 
نہ وہ غلط تھے
نہ کذب میرا 
نہ جھوٹ اسکا
بس اپنے اپنے تھے یہ مناظر
بس اپنے اپنے یہ  فاصلے تھے 
۔۔۔۔۔۔                     


جمعرات، 14 فروری، 2019

Justice 4 Uzma



            Justice 4 Uzma 😢


اپیل ہر درد دل رکھنے والے سے 
خدانخواستہ کہیں اگلی باری آپ کی بچی کی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ 

عظمی اور عظمی جیسی ہر بچی کو انصاف دلائیں ۔ کیونکہ ہم اس کے اس ظلم کے گواہ ہو چکے ہیں 😡
ان سب بدمعاش قاتل  عورتوں کو اسی علاج کی ضرورت ہے اور اپنے معاشرے میں انہیں کھلا چھوڑنا  انتہائی خوفناک ہو گا ۔ انہیں تاحیات پاگل خانے میں بجلی کے جھٹکوں کی سزا ہی ان کا علاج بھی ہے اور سزا بھی ۔۔۔خدا انہیں اور ان جیسے مجرمان کو ہوش و حواس میں رکھتے ہوئے برباد کر دے ۔آمین
(ممتاز ملک ۔پیرس)

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=561020837699460&id=315152592286287



اتوار، 10 فروری، 2019

ماں جو ڈائن بن گئی


           ماں جو ڈائن بن گئی 
                (تحریر/ممتازملک ۔پیرس) 
   
ایک پڑھا لکھا انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت جب اپنے ذہنی انتشار کا خاتمہ مثبت انداز میں  نہیں کر سکتا تو وہ جرائم کا راستہ اپنا لیتا ہے ۔ اور ہر مجرم کے پاس اپنے جرم کی کوئی نہ کوئی تاویل بھی ضرور ہوتی یے ۔ جس سے وہ اپنے دل کو کھوکھلی تسلیاں دیتا رہتا ہے ۔ کہ وہ درست ہے، وہ ٹھیک ہے، باقی سب غلط ہیں ۔ ایسا ہی ایک خوفناک واقعہ پچھلے دنوں کراچی کے ساحل پر پیش آیا جہاں ایک ظالم عورت نے اپنی ہی اولاد کو دو سال کی معصوم بیٹی انعم کو اپنے ہاتھوں گلہ گھونٹ کر سمندر میں ڈبو کر مار ڈالا ۔ 
سنتے آئے ہیں کہ ڈائن بھی کلیجہ چباتے ہوئے سات گھر چھوڑ دیتی ہے ۔ لیکن یہ کیسی بدبخت عورت ہے جس نے ماں کے نام پر بھی کالک مل دی اور اپنا ہی کلیجہ نکال کر چبا ڈالا ۔ کوئی بھی اخلاقی، سماجی یا قانونی  شق اسے نہ تو تحفظ دے سکتی ہے اور نہ ہی اس کے جرم کی نوعیت  کی سنگینی کو کم کر سکتی ہے ۔ ۔ اپنی شادی شدہ زندگی کی کامیابی یا  ناکامی کو ان دونوں افراد کو برابر کا جھیلنا چاہیئے ۔  اس بدبخت باپ راشد کو، جو  اپنی بیوی کو عزت اور تحفظ نہ دے سکا ۔ اسے گھر کی چھت اور دو وقت کی روٹی تک نہ دے سکا ۔ اسے بھی برابر کی سزا ملنی چاہیئے ۔  اس عورت کو جو اپنے شوہر کیساتھ اپنی زندگی ابھی مطمن انداز میں سیٹل نہیں کر پا رہی تھی تو اس نے اس بچی کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ 
اگر کر ہی لیا  تو حالات اس قدر سنگین ہو گئے یا وہ اسقدر مجبور ہو گئی کہ اس بچی کو سنبھالنا اس کے لیئے ممکن نہیں رہا تو کیا اس شہر میں کسی اور بے اولاد کی جھولی میں یہ پھول نہیں ڈالا جا سکتا تھا؟ 
کیا کوئی اور ادارہ  یتیم لاوارث بچوں کا کفیل ہی اس کی کفالت کو موجود نہیں تھا ؟ 
کیا یہ پڑھی لکھی  عورت اس شہر میں  کسی کو نہیں جانتی تھی جو اسے کسی بھی معمولی سی ہی نوکری پر لگوا دیتا ۔ اور جب تک رہنے کا ٹھکانہ نہ ہوتا کسی دارالامان میں ہی اسے رہنے کو جگہ نہ مل پاتی ۔
ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ ماں جو اللہ کی تشبیہہ میں جنم دینے والی اور پالنے والی قرار دی گئی ۔ جس کی گھٹی میں مامتا کے نام پر مہربانی ، قربانی ،ایثار گوندھ دیا گیا ہے وہ اس قدر سفاک ہو جائے کہ محض اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے لیئے اپنی ہی کوکھ اجاڑ لے ۔ اپنی اولاد کی قاتلہ بن جائے ۔۔۔ایسی سفاک عورت کو اس معاشرے میں کسی قیمت پر کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ 
ایسی عورت کو سرعام پھانسی ہونی چاہیئے ۔ کیونکہ اگر یہ زندہ رہی  تو کس قدر خوفناک ڈائن ثابت ہو گی ۔ جو عورت اپنی کوکھ سے جنی اولاد کی نہ ہو سکی وہ اس معاشرے میں کسی بھی عہدے یا رشتے میں کس قدر خطرناک ہو گی ۔ یہ غیروں کیساتھ کیا کیا نہیں کرے گی ۔ اس عورت کو سر عام پھانسی کی سزا ملنی چاہیئے ۔  تاکہ آئندہ کے لیئے ایسے جرائم کا راستہ روکا جا سکے ۔ اس کے شوہر کو برابر کی سزا ہونی چاہیئے تاکہ ہمارے معاشرے کا کوئی بھی باپ اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہ  موڑ سکے ۔ مجرم مجرم ہوتا ہے اس کی نہ تو کوئی ذات ہوتی ہے ، نہ فرقہ ہوتا ہے، نہ اس کا کوئی مذہب ہوتا ہے ، نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا ہے، نہ اس کی کوئی نسل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی جنس ہوتی ہے ۔ وہ صرف مجرم ہوتا ہے ۔ اور اس کی سزا میں صرف اس کے جرم کی نوعیت کو ہی مد نظر رکھا جانا چاہیئے ۔ تبھی انصاف کے تقاضے پورے کیئے جا سکتے ہیں ۔  
چپ مت رہیں اس بات پر آواز اٹھائیں ۔ اس سے پہلے کہ  کل کو یہ جرم معاشرےکا چلن بن جائے ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

                


ہفتہ، 9 فروری، 2019

● نتھ بنی نکیل / شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب



شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب
   نتھ بنی نکیل
(تحریر: ممتاز ملک. پیرس) 




کسی بھی لڑکی کی زندگی کا سب سے اہم وقت وہ ہوتا ہے جب وہ بڑی امیدوں اور مان کیساتھ کسی فرد کو اپنی زندگی کا ساتھی بنا کر اس کے سنگ آنکھوں میں حسین سپنے سجائے اپنی دنیا بسانے کے لئے روانہ ہوتی ہے.  شادی اس کے لیئے نئی زندگی کا آغاز ہوتی ہے.  وہ اپنے  لیئے ایک سکھی اور مطمئن گھرانے کا خواب لیکر اپنے بابل کی دہلیز سے پاؤں باہر نکالتی ہے.  سچ پوچھیں تو اس کے اس خوبصورت گھرانے کے سپنے  میں اس کے ساتھ صرف  اس کا ہمسفر اور اس کی اولاد ہوتی ہے.  جنہیں وہ ہر سکھ دینا چاہتی ہے.  وہ اس سے منسلک رشتوں سے عزت اور خلوص کا تعلق بنانا چاہتی ہے.  لیکن ایک دیوار کے فاصلے کیساتھ.  وہ اپنے گھر کو اپنی مرضی سے بنانا اور چلانا چاہتی ہے.  
لیکن یہ خواب اکثر  ذیادہ طویل نہیں ہو پاتا کہ شوہر کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کسی نہ کسی بہانے اسے چند گھنٹے قبل نچھاور  ہونے والے  سسرالیوں کی جانب سے پہلا دھچکا پہنچا کر چکنا چور کر دیا جاتا ہے.  جب  نامعلوم وجوہات پر دلہن کے سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھتے ہی ایک کا منہ شمال کی جانب ہوتا ہے اور ایک کا منہ جنوب ک جانب.  اسے گھر دکھانا تو کیا اس کا کمرہ دکھانے کو بھی کوئی بخوشی تیار نہیں ہوتا.  اور اگر کوئی یہ فریضہ انجام دے بھی دے.  تو کمرے میں دولہا صاحب  کا داخلہ ایک اور ڈرامے کیساتھ ہوتا ہے .  اپنی زندگی  کی پہلی  باضابطہ ملاقات میں وہ لڑکی جو اس امید پر ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے اپنی محبت کا اظہار کریگا، اسے اپنے ساتھ زندگی کے سفر میں ہر اچھے برے وقت میں ساتھ ہونے کا اعتبار دلائیگا،  اس کی حفاظت کا وعدہ کریگا,  اسے پریشانیوں میں حوصلہ بن کر ساتھ رہنے کا یقین دلائے گا,  اس کی خوشیوں کا ضامن بننے کی امید دلائے گا.... لیکن یہ کیا ؟  وہ تو اکثر گھونگھٹ اٹھانے کی بھی زحمت نہیں کرتا اور  اس پہلی ملاقات میں اسے اس کے فرائض  کی ایک لمبییییییی فہرست سنانے لگا..
سنو میں آج جو کچھ ہوں اپنے والدین کی وجہ سے ہوں... انہوں نے میرے لیئے بڑی قربانیاں دی ہیں.  اب "تمہارا" فرض ہے کہ "تم "ان کا خیال رکھو.  ابّا جی صبح کی چائے چھ بجے پیتے ہیں اس کا خیال رکھنا انہیں ٹھنڈی چائے بالکل پسند نہیں ہے , امّی جی  نے زندگی میں بڑے دکھ اٹھائے ہیں  اب تم نے ان کا خیال رکھنا ہے امّی جی کو ناشتہ صبح آٹھ بجے تیار چاہیئے اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے.. میری بہن نے میرے لیئے بہت کچھ کیا ہے اب تم نے ان کا خیال رکھنا ہے ان کی اجازت کے بنا  گھر میں کوئی کام نہیں ہوتا.  تم بھی ان سے اجازت لیکر ہی ہر کام کرنا.  امّی جی کے سالن میں نمک کم اور ابّا جی کے کھانے میں مرچی کم ڈالنا.  میری بہن پر اس کے سسرال والوں نے بڑے ظلم کیئے ہیں تو وہ دل بہلانے کو مہینے میں اٹھائیس انتیس دن ہمارے پاس   گزار لیتی ہیں . بہت دکھی ہیں.  اس لیئے "تمہیں" ان کی ہر طرح سے دلجوئی کرنی ہے.  
اور ہاں میری دوسری بہن ابھی بچی ہے اس کا کسی بات میں دل نہیں دکھانا.  وہ تو اس گھر میں مہمان ہے اس  لئے  اسے خوامخواہ گھر کے جھمیلوں میں الجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ابھی پچیس سال کی بھی نہیں ہے امّی جی کی بہت لاڈلی ہے. (بائیس سال کی دلہن صم بکم سن رہی ہے)   اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات نہیں ہونی چاہئے.  امّی جی کی جان ہے اس میں.   ہمارے کمرے میں کوئی بھی آئے جائے اس پر میں  کوئی بھی  بات نہیں سنوں گا .. اور ہاں  یہ ذیور صبح ولیمے کے بعد امّی جی کے پاس رکھوا دینا.  محفوظ رہینگے.  اور شادی پر پہلے ہی بہت خرچہ ہو گیا ہے.  میں تو بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہوں اب تم میری بیوی ہو اور تمہارا کام ہے کہ مجھے ان قرضوں سے خلاصی دلاؤ.  وہ ایسے  کہ پہلے تو تم میرا حق مہر معاف کر دو تاکہ میں آج سکون سے سو سکوں. جس روز سے یہ  منحوس حق مہر طے ہوا ہے مجھے تو مالیخولیا ہو گیا ہے.  پلیز میرا حق مہر معاف کر دو میری پریشانی دور کرنا تمہارا فرض ہے.. 
جی ہاں یہ ہوتی ہے مکالمے بازی دیسی دولہا کی پہلی رات اپنی دیسی دلہن سے . یا یوں کہیئے دولہا کا اپنی شادی کی رات دلہن سے پہلا خطاب ...
جس کا اختتام ہوتا ہے اس جملے پر کہ سنو مجھے میری بات پر آگے سے جواب , تکرار یا بحث بالکل پسند نہیں ہے.. اس بات کا خیال رکھنا  😮
جی ہاں واقعی ہر دس میں سے سات گھروں میں یہ ہی سین  فلمایا جاتا ہے.. کیونکہ 
ہمارے معاشرے میں لڑکی پورے خاندان کی نوکرانی کے طور پر جو لائی جاتی ہے ناک میں نتھ کو نکیل کی صورت ڈال کر ...
انسان سمجھ کر لائی جاتی تو اسے بات کرنے کا بھی حق ہوتا اور اختلاف پیش کرنے  کا بھی . 
یہ ہی وجہ ہے کہ جب وہ ان معاملات میں ناک تک آ جاتی ہے تو خود کو مطمئن کرنے کے لیئے چور دروازے  تلاش کرنے لگتی  ہے ..
کبھی تعویذ گنڈوں کی صورت..
کبھی  منہ ماری کی صورت،
کبھی جھوٹ بولنے کی صورت ،
اور کبھی بےوفائی کی صورت ،
جبکہ مرد کھڑا سوچتا رہتا ہے کہ 
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے میرے گھر والوں کو جواب دیدیا..
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے میری بہن کو ناراض کر دیا..
ارے یہ بھی کوئی بات تھی کہ تم نے منہ پھلا لیا..
تم ہو ہی ناشکری عورت..
تمہیں کسی نعمت کی قدر ہی نہیں
لیکن یہ نہیں بتاتا کہ جو کچھ اس نے خود ساختہ طور پر نعمت قرار دیکر اس کے آگے پیش کر دیا ہے  وہ  اس کی شریک زندگی کے لیئے بھی نعمت ہے یا زحمت ہی زحمت ؟
وقت بدلتا ہے اور نظریات بھی  بدلتے ہیں لیکن اکثر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے..
یہ سب چیزیں اس وقت اس کا نظریہ بدلتی ہیں جب اس کی اپنی بیٹی کے آگے یہ ساری نعمتیں  پیش کی جاتی ہیں اور وہ خود ہی اسے زحمتیں قرار دے دیتا ہے ...
یقین کیجئے ہمارے معاشرے میں بہت کچھ بدل سکتا ہے اگر صرف مرد اپنی شادی پر وہ سوچ اور احساس اپنا لے جو وہ بیس پچیس سال کے بعد اپنی بیٹی کی شادی کےموقع پر  اپناتا ہے..  اس بیس سال میں  جو حق تلفیاں وہ کسی اور کی بیٹی کو اپنی بیوی بنا کر کر چکا تھا . وہ اس گناہ سے بھی بچ جاتا.  
(نوٹ:یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی)
                   ۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com 

جمعہ، 8 فروری، 2019

بابا تیری باہیں ۔ سراب دنیا


             بابا تیری باہیں
                          (کلام/ممتازملک ۔پیرس)


  بابا تیری باہوں کے سہارے پہ چلے ہم
لہجہ تیرا ہوتا تھا میرےواسطے سرگم  


جس دن سے سمجھنے لگا دنیا کے مسائل
  اس دن سے تیری قدر  بلندی پہ ہے ہر دم



  دنیا جو میرا دل کبھی ٹھوکر میں پٹختی
  تُو سر پہ میرے ہاتھ کو رکھتا بڑا مدھم  

 اور مجھکو اٹھا کر تُو کھڑا کرتا برابر  
کہتا کہ زمانہ بڑا بے رحم ہے جانم

  ابا کے لیئے  بڑھ کے کوئی تجھ سا نہیں ہے
  پر کیا کروں دکھلا نہیں سکتا میں اپنا غم

  جب باپ اپنے زخم دکھانے لگے تم کو
   بیٹا کبھی ہو سکتا نہیں دنیا میں سرگرم  

کونے میں کہیں جا کے میرے واسطے رویا
  پر سامنے میرے کبھی ہوتا نہ تھا برھم

  ممتاز جو طوفان  زمانے کے  چھپا کر
  بیٹے کے لیئے باپ ہے اک عزم مصمم 
                     ......


بدھ، 6 فروری، 2019

■ اسلام کے چوکیدار / کالم ۔ لوح غیر محفوظ




اسلام کو کسی چوکیدار کی ضرورت نہیں ہے 
                              (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

اسلام محبت اور بھائی چارے کا مذہب  ہے ۔ لیکن فی زمانہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے خوش نصیب ہی  ان بدنصیب لوگوں میں شامل ہیں جنہیں اسلام کے نہ بنیادی فرائض کا علم ہے اور نہ ہی اسلامی اصولوں کا ان کی زندگیوں میں کوئی گزر ہے ۔ ہم مسلمان ہیں اس لیئے کہ ہم مسلمان باپ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ 
زیادہ سے زیادہ ہم میں سے کوئی  کبھی کبھار یا دن  میں کبھی نماز ہی پڑھ لیتا ہے۔ پیسہ ہوا تو حج اور عمرہ ادا کر لیا ۔
 وہ بھی محض دنیا دکھاوے کے لیئے، ورنہ ہر سال 40 پچاس لاکھ مسلمان حج ادا کر کے بھی واپسی پر اپنے کردار میں کسی قسم کی کوئی مثبت تبدیلی کیوں نہیں لا پاتے ۔ کیونکہ انہوں نے یہ نماز ، حج اور روزے محض رسما ادا کیئے ۔ اس کی روح سے ناواقف اس کے فیوض و برکات سے محروم ۔ ہم اس وقت تک خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے جب تک ہمارے کردار ،قول و فعل سے متاثر ہو کر کسی غیر مسلم کو  اس مذہب کی جانب رغبت حاصل نہ ہو سکے ۔ 
 اس کی تازہ مثال ہالینڈ کا وہ ممبر پارلیمنٹ جو سالوں سے اسلام دشمنی میں پیش پیش رہا ۔ مسلم دشمنی میں ان کے  شدت انگیز بیانات جن کی شناخت رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ان اسلام مخالف خیالات کو کتابی شکل دینے کا آغاز کر دیا ۔ اسلام کے ہر نکتے پر اعتراضات ڈھونڈنے کے ارادے سے انہوں  نے اسلام کو پڑھنا شروع کیا ۔ جیسے جیسے اسلام میں اندھیرے ڈھونڈنے والے نے اس کے جس نکتے کو ہاتھ لگایا وہ ایک چراغ کی صورت اس کے دل میں روشن ہوتا چلا گیا ۔۔ اندھیرے کی یہ کتاب کیا مکمل ہوتی اس کی روح میں ایمان کا فانوس روشن ہو گیا ۔  
وہ خود اس بات پر حیران ہے کہ وہ کس ارادے سے اسلام کو پڑھنے بیٹھا اور کیا لیکر واپس لوٹا ۔ تو ثابت ہوا کہ دین کو پڑھنے اور سچے دل سے پڑھنے کی شرط بھی ہے اور ضرورت بھی۔  آپ کے دل و دماغ کیا آپکی روح تک میں پہنچنے کے سارے راستے وہ خود ہی بنا لیگا ۔ 
ہم پیدائشی مسلمان ساری عمر خود کو دوسرے سے بہتر ثابت کرنے کے گمان میں ہر ایک کو کافر قرار دینے میں گزار دیتے ہیں ۔ فرقہ بازیوں نے ہمیں کبھی اللہ کی کتاب کھولنے کی توفیق ہی نہ ہونے دی ۔ اور ہم نے اپنا دین مولویوں اور علماء کی زبانوں کے سپرد کر دیا ۔ گویا ہمارے حصے کا دین بھی انہوں نے پڑھنا ہے اور ہمارے حصے کی سزائیں بھی انہوں نے ہی کاٹنی ہیں ۔ بس جب وہ ہمیں آواز دینگے ہم اندھے،گونگے،بہرے بن کر، دین کے چوکیدار بن کر وہ جس پر کہیں اس پر حملہ کر دیں ۔ اسے کاٹ دیں ۔ اسے تباہ کر دیں ۔ کیونکہ 
 اس طرح ہمیں اللہ کے دین کی چوکیداری کے بدلے میں جنت ملے گی ۔ کیا واقعی ؟؟؟
جس اللہ نے کن کہہ کر یہ کائناتیں تخلیق کیں، وہ ہماری ہی چوکیداری کے سہارے اپنے دین کو بچائے ہوئے ہے ؟ 
وہ ابابیلوں سے ہاتھیوں کو مروانے والا ہم جیسے کمزور ایمان اور رنگ برنگے عقائد کے سوداگروں کے ذریعے اس دین کو باقی رکھے ہوئے ہے ؟
انا للہ وانا الیہ راجعون ہماری ایسی سوچ اور گمان پر بھی ۔۔
دنیا بھر میں آج بھی  جب بھی کوئی ایمان لاتا یے تو اسلام دشمنی ہی میں اللہ کے کلام کو کھنگھالنے بیٹھتا ہے اور پھر اس بحر بیکراں میں نایاب موتی چنتے چنتے اتنی دور، اتنی حسین اور مکمل دنیا میں گم ہو جاتا ہے کہ نہ اسے اپنی تاریک آذادیاں یاد رہتی ہیں اور نہ کھوکھلی خوشیاں ۔۔۔
سو ہم سب کو بھی اللہ کی کتاب کو خود سے کھول کر صرف اپنے ایمان کی اصلاح کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ تاکہ ہم بھی اس سمندر سے موتی نہیں تو نہ سہی کچھ سیپ ہی چن سکیں ۔ اس دین کو اللہ نے مکمل کر دیا ہے ۔ اس کی حفاظت کا وعدہ اس نے کیا ہے اور اس سے بڑھکر کوئی وعدے نبھانے والا بھی نہیں ہے ۔ اس لیئے اس کے دین کے چوکیدار بننے سے اچھا ہے کہ ہم اپنے ایمان اور کردار ، اپنے اعمال اور اپنے نفس کی چوکیداری کریں ۔ اسی میں ہماری بخشش و فلاح دونوں پوشیدہ ہیں ۔ 
                    ●●●



پیر، 4 فروری، 2019

گدی نشین مفت خورے۔کالم



        گدی نشین مفت خورے 
                     (تحریر/ممتازملک۔پیرس)



ہر سال اوقاف کے زیر انتظام ہونے کے باوجود ہزاروں درباروں خانقاہوں پر زائرین کی جانب سے چڑھایا جانے والا اربوں روپیہ کہاں جاتا یے ۔  اس کا حساب کتاب کون لیگا ۔ 
یہ وہ اربوں روپیہ ہے جس کی کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہے ۔ کبھی خاندان میں کسی ایک بزرگ نے اللہ سے لو لگائی، کم کھایا کم سویا ، تقوی اختیار کیا ۔ اور اللہ کی محبت میں لوگوں کو اپنے علم کا فیض بانٹتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اب خاندان کو فکر ہوئی کہ ابا جی نے جو شہرت اور عزت کمائی ہے ۔ مراقبے اور چلے کاٹے ۔ وہ سب ان کیساتھ ہی دفن ہو چکے ہیں ۔ باقی گھرانے میں سے شاید کوئی نماز کا پابند بھی ہو یا نہ ہو ۔ لیکن ابا جی  یا دادا یا نانا جی کی پگڑی کو کسی نہ کسی کے سر فکس کر دیا جائے تاکہ رونق میلہ لگا رہے ۔ لیکن ہاں اب یہ سب مفت میں نہیں ہو گا بلکہ کوئی صندوق بھی رکھا جائے جہاں ہر آتا جاتا اپنی خوشی سے کچھ نہ کچھ ڈالتا جائے ۔ تو پھر وہ بکسے بھرنے لگے ۔میلے ٹھیلے پر لوگوں کی توجہ مبذول کرا کے انکی تعداد بڑھائی گئی ۔ چرس اور گانچے کے شوقینوں کے لیئے بھی کئی ترکیبیں اختیار کی گئیں ۔ لنگر خانے بھی  کھولے گئے اچھا کیا ۔ لیکن اس لنگر خانے کی آڑ میں بھی ہر حکومت کے آئے گئے کو خصوصی خدمات پیش کی گئیں ۔
جس کا مطلب ہوتا ہے "سرکار آنکھیں بند رکھو "۔ کیوں کہ اس گدی دو گدی پر بیٹھنے والا گدی نشین نہ تو کوئی خاص دینی علم رکھتا ہے ، نہ اس کی کوئی روحانی حیثیت اور درجہ ہے ، نہ اس کا کوئی کوئی مثالی کردار ہے ، نہ کوئی چلہ نہ کوئی مراقبہ۔۔   یعنی وہ ایک پھوکا کردار ہے جسے اس پگڑی کے نیچے چھپا دیا گیا ہے ۔۔ 
اس لیئے حکومت سرکار آنکھیں بند رکھتی ہے کہ نہ کوئی اس صندوق اور صندوق کے نیچے بنے زیر زمین کمروں میں نوٹوں کی بوریوں کا حساب کتاب ہوتا ہے ،نہ اس پر ٹیکس لگتا ہے اور نہ ہی اس پیسے کو کسی فلاحی کام میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ گدی نشین خاندان اس مال مفت پر بنا محنت کے عیاشی کی  زندگی بسر کرتے ہیں ، اثررسوخ کے مالک بن جاتے ہیں اور لوگوں کو دینی بلیک میلنگ کا شکار کر کے جس سیاسی ٹولے کو چاہیں اس کے آگے قربانی کے دنبے کی طرح پیش کر دیتے ہیں ۔ بلکہ بیچ دیتے ہیں کہا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا ۔ 
ہمارے ملک میں جب بھی حساب کتاب کا شوراٹھتا ہے تو اسے صرف اور صرف سیاسی انتقام کے لیئے ایک پارٹی کسی دوسری پارٹی پر یا کوئی خاص طاقت کسی دوسری حکومت سے مخصوص مفادات کے حصول کے لیئے ایڑی چوٹی کا ذور لگانے پر خرچ کر دیا جاتا  ہے ۔ یوں جب وہ مفادات حاصل ہو جاتے ہیں تو کل کا چور پھر سے آج کا شاہ بنا دیا جاتا یے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ سارا سلسلہ محض مذاق بن کر رہ گیا ہے ۔ ہمارے ٹیکسیشن ،اوقاف نیب اور ایسے دوسرے اداروں کی توجہ  آخر باقی شعبوں میں ملک کو چونا لگانے والوں کی جانب کیوں نہیں جاتی ۔ جس میں سب سے بڑا کاروبار ان مزاروں کی مفت کی کمائی پے ۔ اس کمائی کا ایمانداری استعمال کیا جائے تو ملک بھر میں ہر یتیم اور بیواہ کو بہترین وضائف دیکر پڑھایا لکھایا اور اہل ہنر بنا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے ۔  ضرورت مندوں کو  اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیئے  کارخانے لگائے جا سکتے ہیں ۔ آسان بلا سود کاروباری قرضے دیئے جا سکتے ہیں ۔ غریب خاندانوں کو مفت راشن فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ دستکاری سکول اور سینٹر بنائے جا سکتے ہیں ۔ ہسپتالوں میں ہر شہری کو مفت ادویات و علاج فراہم کیا جا سکتا ہے ۔  غرض کہ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ لیکن اس مال پر دربار بنا کر چند خاندان مسلط ہیں ۔ اوراس مال کو جیسے چاہیں اڑا رہے ہیں ۔ خدارا اس جانب توجہ دیجیئے ۔ ملک بھر سے غربت کے خاتمے میں ان درباروں کی کمائی اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے ۔ 
لیکن اس کے لیئے ضروری ہے کہ ان حساب کتاب لینے والے محکموں میں بھی ایماندار لوگ تعینات کیئے جائیں جنہیں ان گدی نشینوں سے زیادہ خدا کو جواب دینے کی فکر اور اس کا ہی خوف بھی ہو ۔ جنہیں احساس ہو کہ اپنے ذاتی فائدے کے لیئے "سب اوکے" کی رپورٹ دیکر وہ اس ملک کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ سکنے والے ممکنہ فوائد کو ملیامیٹ کر کے دونوں جہانوں میں دوزخ کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ اس لیئے ایمانداری اور خدا خوفی کی شرط جتنی ان افسران پر لاگو ہوتی ہے ۔ اس کا انہیں بھرپور احساس دلانے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔   
                      ۔۔۔۔۔۔

اتوار، 3 فروری، 2019

آپ تو ایسے نہ تھے/ کالم ۔ میاں بیوی راضی


آپ تو ایسے نہ تھے 
ممتازملک.  پیرس 

ہمارے ہاں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے لڑکیاں اپنا خوب خیال رکھتے ہیں اور ٹپ ٹاپ رہنا پسند کرتے ہیں.  اپنے وزن کے لئے فکر مند ہوتے ہیں.  اپنی بول چال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں . 
لیکن یہ کیا  کہ جہاں ان کی شادی کی شہنائی بجی تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کے سارے رکھ رکھاؤ کا بھی بینڈ بج جاتا ہے 😀
گویا شادی ہی وہ دنیا کا سب سے ضروری اور بڑا معرکہ تھا جس کے لیئے یہ سارے تردّد کیئے جا رہے تھے.  وہ سر ہو گیا سو اب کیسا خیال کیسی دیکھ بھال... 
مردوں کی توند , گنج اور بدمزاجی اس کی بیفکری کو ظاہر کرتی ہے تو خاتون کی اپنے لباس اور حلیئے سے بے نیازی , چڑچڑاہٹ اور بدزبانی اس کے اطمینان کا سرٹیفکیٹ ہو جیسے... 
کیوں؟ کیا ان دونوں کا شادی کے بعد اپنے آپ سے جی اوبھ جاتا ہے یا پھر یہ دونوں اپنے آپ کو فاتح دنیا و دیں سمجھ لیتے ہیں ؟
شادی کرنے کا یا بچے پیدا کر لینے کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنے وجود سے بے خبر ہو جائیں یا سجنا سنورنا آپ کا حق نہیں رہا ہے. اسی لیئے ہم کہتے ہیں  کہ عورت بچے اتنے ہی پیدا کرے جتنے وہ سنبھال سکے ، پال سکے . ورنہ اکثر وہ سمجھتی ہے کہ زیادہ بچے پیدا کر کے اس نے اپنے میاں کو جکڑ لیا ہے.  جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے.  ہم نے اکثر ہی زیادہ بچوں والی عورت کو ہی زیادہ پٹتے اور زیادہ در بدر ہوتے دیکھا ہے.  زرا سی تحقیق کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ
جس عورت سے اس کا مرد شادی سے پہلے یا شادی کے وقت شدید محبت کرتا تھا اس نے تو خود کو کچن کے فرش کا پوچھا ہی بنا ڈالا ہے یا پھر بچوں کے پوتڑوں میں اپنی ذات گم کر دی ہے.  اپنے میاں کے لیئے خود اس نے ہی کوئی وقت رکھا نہ ہی جذبہ.  ...
تو ایسے میں اپنے شوہر کی جیب سے آگے اسے کچھ دکھائی دینا بھی بند ہو گیا... اب ایسے میں وہ صاحب باہر کہیں خوش پوشاک سجی سنوری خاتون سے بات کر کے یا تعلق استوار کر کے سکون کے چند لمحات  حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس میں مرد کو کسی طور بھی قصوروار نہیں سمجھا جا سکتا.  
بطور شوہر یا بیوی آپ کو اتنا ہی بوجھ اٹھانا چاہئے جو آپ آسانی سے اٹھا سکیں.  اپنے رفیق حیات کو اس کے جذبات کو نظرانداز کیئے بنا اپنی پرسنالیٹی کو برقرار ہی نہ رکھیں بلکہ تاحیات اپنی سیلف گرومنگ بھی کرتے رہیں .. ورنہ بعد میں بھیں بھیں کر کے رونے سے کچھ واپس نہیں آتا.  
یاد رکھیئے¡
جس طرح کسی بھی مشین کو چلانے کے لیئے تیل کی ,گریس کی , صفائی اور  مرمت کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح میاں بیوی کا رشتہ اصل میں دو چیزوں کی وجہ سے ہی پائیداری اختیار کرتا ہے وہ ہے رومانس اور حس مزاح..یہ دو چیزیں آپ کی شادی شدہ زندگی کو گریس مہیا  کرتی ہیں جبھی تو آپ
کا جوڑا گریس فل لگتا ہے 😊
خاتون خانہ آپ کا رومانس یقینا آپ کی بساند بھرے جوڑے اور جسم سے اور تیل کی مارکیٹ بنے سر سے تو پھوٹے گا نہیں.  شوہر کے گھر آنے سے پہلے اپنے گھر کے کام سمیٹ کے نہا دھو کے صاف ستھرے اس کی پسند کے حلیئے میں تیار ہو کر اسے مسکرا کر خوش آمدید کہیئے.  ایسی موقع پر ساس یا نند یا کوئی اور کوئی فضول جملہ بازی کرے تو اسے بے نیازی کیساتھ ایک کان سے سن کر دوسرے  کان سے نکال دیجئیے.  اور جان لیجیئے کہ وہ آپ کو ایک بار دو بار تین بار چلیئے تین سو بار بھی طنز و تشنع کریں گی تو  مجبوراً اپنے بیٹے سے ہی کسی روز جواب سن لیں  گی.  آپ کا شوہر خوش ہے تو باقی سب کے لیئے اس بات میں بہری ہو جائیں.  اسی میں آپ کا سکون بھی ہے اور محبت بھی. 
یہ بھی یاد رکھیں اگر دوسروں کی سنکر آپ کا شوہر آپ سے متنفر ہو گیا تو یہ ہی ساس نندیں اور دیگر آج جملے کسنے والیاں ہی پھر بھی زہریلے جملوں سے آپ پر ہی وار کریں گی.  کہ اپنا میاں تو سنبھال نہیں سکی اب روتی ہو بیٹھ کر..
بالکل یہ اصول شوہر نامدار یعنی صاحب خانہ پر بھی لاگو ہوتا ہے.  گھر سے باہر خوش لباس ,  مہذب تمیز دار اور باوقار  کے لیبلز رکھنے والے کے اپنے گھر میں داخل ہوتے ہی زبان پر کانٹے کیوں اگ آتے ہیں؟ منہ سے آگ کیوں نکلنے لگتی ہے؟ . آپ کو ہمیشہ اپنی بیوی سے ہر موضوع پر  کھل کر محبت سے واضح الفاظ میں بات کرنی چاہئے کہ آپ کو اپنے لیئے  کیا اچھا لگتا ہے اور کیا نہیں.  اور جہاں جہاں ضروری ہو وہاں ایکدوسرے کے لیئے لچک کا مظاہرہ بھی فراخدلی کیساتھ کیجیئے.
 یاد رکھئے زندگی کوئی دو جمع دو برابر چار کا حساب نہیں ہے.  اس میں کئی بار ہم بہت کچھ جیت کر بھی ہار جاتے ہیں اور کئی بار  سب کچھ ہار کر بھی جیت جاتے ہیں. ایک دوسرے کے لیئے اسی طرح سجیئے سنوریئِے جس طرح پہلی ملاقاتوں میں سج کر ملا کرتے تھے.  ہاں یہ ٹھیک ہے کہ زندگی  میں بہت سے نئے معاملات اور نئی مصروفیات  بھی شامل ہو جاتی ہیں جو  وقت کو بہت تنگ کر دیتی ہیں.  لیکن  اگر آپ دو  سب سے اہم رشتے میں سب سے اہم لوگ ایک خاندان کی بنیادی اکائی  ہی ایک دوسرے سے خوش نہ رہے ,مطمئن نہ رہے تو پھر یہ کہنے کا گلہ کرنے کا بھی آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ ارے آپ تو ایسے نہ تھے ۔
                          ●●●


جمعہ، 1 فروری، 2019

شکر خدا


شکر خدا
(تحریر:ممتازملک ۔پیرس)

لاہور کے عجائب گھر سے صیہونی دجالی نشانی والا مجسمہ ہٹا دیا گیا ۔  شکر خدا۔۔پاکستانیوں پارٹی بازیوں میں گھسنے کے بجائے اپنے خدا کے خوف اور اس کی مغفرت کو اپنے سامنے رکھو ۔ اور ہر بات پر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر مت بیٹھ جایا کرو ۔ زندہ ہو تو زندہ قوموں کی طرح اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا کرو۔ اچھی بات کو بلا امتیاز اچھا ، اور بری بات کو بلالحاظ برا کہا کرو۔ ورنہ کل کو ہماری نئی نسل انہیں ہندو دیوتاوں اور صیہونی دجالوں کے آگے پوجا پاٹ کرتے اور ان کی سالگرہیں مناتے نظر آئینگے ۔ اللہ پاک نے آپ کو والدین کے رتبے پر فائز کیا ہے تو اسکی کڑی جواب طلبی بھی ہونی ہے ۔ یونہی اولادوں کو تباہ ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے پر سستے میں نہیں چھوڑ دیئے جاو گے، معاف نہیں کر دیئے جاو گے۔ 
یاد رکھو۔۔۔۔
تقدیرکےقاضی کایہ فتوی ہےازل سے 
ہےجرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/