ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 28 جنوری، 2025

دھوکہ ‏کھا ‏بیٹھے ‏ہو ‏/اردو ‏شاعری۔ باردگر ‏


تم اک اچھے قصہ گو ہو 
لوگوں سے بھی کم ملتے ہو
 
کیسے دھوکہ کھا بیٹھے ہو
چودہ طبق جلا بیٹھے ہو

چہرے پر واضح لکھا ہے
دل کا درد دبا بیٹھے ہو
 
اور تمہارے پاس بچا کیا 
سارے اشک بہا بیٹھے ہو

اپنوں سے یوں دور ہوئے کہ 
غیروں کے سنگ جا بیٹھے ہو

کھو جانے کا خوف نہیں اب
جب سے مال لٹا بیٹھے ہو

اپنی جیب کے کھوٹے سکے
دنیا میں چلا بیٹھے ہو

وہی تمہاری ہڈیاں  بیچیں 
جنکو ماس کھلا بیٹھے ہو

بہروں کی سنوائی کو تم
سارا زور لگا بیٹھے ہو

دیواریں ممتاز  ہلی  ہیں  
قہر رب  بلوا بیٹھے ہو
            ●●●

کھڑا رکھا ہے۔ اردو شاعری۔ بار دگر




ایک شہباز کو چڑیا سے لڑا رکھا ہے 
وقت نے سبکو کٹہرے میں کھڑا رکھا ہے 

بارہا شکر میرے رب کا ادا کرتی ہوں 
ظرف میرا میرے دشمن سے بڑا رکھا ہے

آتے جاتے ہوئے نظروں کا تصادم تھا جہاں
اسی چلمن میں میرا دل بھی اڑا رکھا ہے

اپنی تیاری مکمل ہو وگرنہ سن لو
ممتحن نے وہاں پرچہ بھی کڑا رکھا ہے

زندگی نادر و نایاب سا الماس مگر
 دیکھ لے وقت کے پیتل میں جڑا رکھا ہے

جتنی جلدی ہو ثمر بار کرو بار دگر
صبر کا پھل وجہ تاخیر سڑا رکھا ہے

چاہے ظالم کہو چاہے ہو مہربان یہ وقت 
اس نے ہر پہلو پہ نظروں کو گڑا رکھا ہے

جانتا ہے وہ جبھی اپنے مفادات کے سنگ
اس نے ہر بات کا مخصوص دھڑا رکھا ہے 


آرزوؤں سے زیادہ ہی ملا ہے ممتاز
راہ مشکل ہے میرے سر پہ گھڑا رکھا ہے
           ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 27 جنوری، 2025

فیملی ویلاگنگ کا گند۔ کالم

فیملی ویلاگنگ کا گند 
تحریر:
      (ممتازملک ۔پیرس)

مانا کہ آج کا وقت سوشل میڈیا کا وقت ہے ۔ آج ہر چیز آن لائن ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہے۔ اس میں سوشل میڈیا بنانے والوں نے جس طریقے سے پیسے کا لالچ دے کر نئی نسل کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کیا ہے۔ وہ بہت ہی خوفناک تصویر ہے۔ اس میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا نوجوان پاکستان سے تعلق رکھتا ہے۔ جسے پڑھائی سے ویسے ہی چڑ ہے ۔ جسے کتاب سے ویسے ہی نفرت ہے۔ جو کہیں بھی علم حاصل کرنے کی کسی جدوجہد میں آپ کو  مصروف دکھائی نہیں دے گا۔ بوٹی مافیا پہلے ہی عام تھی۔ وہاں پر سب سے بڑا زہریلا ہتھیار ان کو سوشل میڈیا کی صورت میں دے دیا گیا، اور وہاں ان کو  اس بات کی ترغیب دی گئی کہ آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں،  نہ آپ کو ڈگریوں کی ضرورت ہے، نہ آپ کو پڑھائی کی ضرورت ہے، نہ آپ کو کوئی ہنر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بس آپ  ایک موبائل اٹھائیں ۔ کیمرے کے سامنے آئیں۔ آکر دو چار ٹھمکے لگائیں۔ الٹی سیدھی حرکتیں کریں ۔ گندگی پھیلائیں اور جتنا گند پھیلائیں گے۔ اتنے ہی زیادہ وائرل ہوں گے اور وائرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک ویو کے بدلے میں آپ کو کچھ نہ کچھ نوازا جائے گا۔  آپ پر پیسوں کی، ڈالرز کی برسات کی جائے گی۔ یہ اتنا خوفناک لالچ تھا جس میں دنیا کے باقی لوگ شاید اس طرح سے متاثر نہیں ہوئے جتنے پاکستان کے نالائق ترین طبقے نے پیسوں کی بارش میں نہانے کے لیے اس میڈیم کو استعمال کیا اور یہ میڈیم لڑکے لڑکیوں کی بے حیائی سے ہوتا ہوا، اس وقت ایک بہت بڑی دلدل بن گئی، جب لوگوں نے اپنی بیویاں ، بیٹیاں ، بہنیں اور اپنی مائیں تک اس میڈیم کے اوپر آ کر نچانی شروع کر دیں ۔ ان لوگوں کا کوئی پردہ نہیں رہا، کوئی شرم نہیں رہی، کوئی حیا نہیں رہی، جسے دیکھو ولاگنگ کے چکر میں پورے پورے گھر بیچ کر اپنی پوری پوری جائیداد بیچ کر گائیں بھینسیں بیچ کر کتنے چھوٹے چھوٹے علاقوں ،چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کے لوگوں نے اپنے کھیت کھلیان بیچ کر اس کے پیسے سے اپنے یوٹیوب چینلز بنائے۔  ولاگنگ شروع کی اس میں ان سے بے شرمی بے حیائی کے جو کنٹینٹ بن سکتے تھے، انہوں نے بنائے اور اس کے بدلے میں ڈالرز اٹھائے ، لیکن اس میں جتنا قصور ان ولاگرز کا تھا جنہوں نے اس گندگی کو پھیلایا، لوگوں کو پروس کر اپنے گھروں کی عورتیں پیش کیں، اپنے گھروں کے ہر پردے کو پیش کیا، اپنی مائیں بہنیں پیش کیں، اپنی بیویاں اور اپنے بیڈ روم ان کے سامنے کھول کر رکھے اور پیش کر دیئے ، انہوں نے بڑے بڑے پیٹ کے ساتھ اپنی بیویاں لا کر  پیسے کمانے کے لیئے آپ کو ولاگنگ کے بہانے فیملی وی لاگنگ کے بہانے سکرین پر سجا کر پیش کر دیں۔ گویا انہوں نے اپنی ہر غیرت شرم حیا بیچ کر چوک میں رکھ دی کہ ہمارے ساتھ کچھ بھی کر لو جو مرضی نظر ہم پر ڈال لو آنکھوں کا زنا کر لو،  لیکن کلک ضرور کرو،  ایک بار آن کرو تاکہ تمہارے نام سے وہ پیسہ ہمارے اکاؤنٹ میں آئے ۔ بدلے میں ولاگرز نے اس پیسے کے ساتھ کیا کیا ۔ کہتے ہیں حرام کا پیسہ جس طرح سے آتا ہے ۔ اسی طرح سے نکل جاتا ہے۔ آج ولاگنگ بند ہو جائے۔  آج اگر کچھ مسائل پیدا ہو جائیں۔ یہ لوگ جس طرح پیسہ حرام کے کام میں وی لاگنگ سے کما چکے ہیں۔  جن کے پاس معلومات نہیں ، علم نہیں، کچھ نہیں لیکن انکی دکانیں انکے گھروں کی عورتیں تھیں جو انہوں نے مارکیٹ میں پیش کر دیں ۔ گندے کام، نشے تماشے، بے حیائی، جنسی بے راہ روی کنٹینٹ کے نام پر  پروس دی۔ جو کرنے والا بے غیرت تو تھا ہی لیکن دیکھنے والا اس سے بڑا بے غیرت تھا ۔ جو ایسا کنٹینٹ کھول کر بیٹھتا تھا اور اس کے بعد وہی کنٹینٹ دیکھنے والا  اسی ترسی ہوئی حسرت کے ساتھ جا کر وہی پیش کی ہوئی گندی حرکات معاشرے میں چھوٹی چھوٹی معصوم بچوں  بچیوں کے ساتھ عورتوں کے ساتھ کر رہا ہے وہاں سے سیکھے ہوئے سبق وہ معاشرے کو سکھا رہا ہے۔ گویا یہ امپیکٹ (اثرات) ایک آدمی کے (بغیر محنت کے) نوٹ کمانے کے لالچ سے شروع ہوا اور اس کے بعد پورے معاشرے میں زہر کی طرح سرایت کر گیا . اگر فیملی ویلاگنگ کو نہ روکا گیا۔ ان کے کنٹینٹ پر نظر نہ رکھی گئی۔ بے حیائی بے غیرتی کے اس چرچے کو عام ہونے سے بلاک نہ کیا گیا۔  تو جان لیجئے نہ تو ہمارا کوئی حال ہے اور پھر نہ ہی ہمارا اس جوان نسل کے ساتھ کوئی مستقبل ہے۔ یہ وہ بدکار نسل تیار ہوئی، جس بدکار نسل کے سامنے روپے سے بڑا کچھ نہیں ہے ۔ جن کے پاس دین نہیں، دنیا نہیں، علم نہیں، کوئی ہنر نہیں مگر ان کے پاس اگر کچھ ہے تو یہی بے حیائی اور بے غیرتی کا کچرہ ہے جو وہ معاشرے میں پروس کر اس پورے معاشرے کو کچرہ کنڈی بنا رہے ہیں۔ خدا کے لیئے غور کیجیئے ۔ ان کا بائیکاٹ کیجیئے ۔ ان ویلاگرز کو جب تک آپ دیکھنا نہیں چھوڑیں گے۔ جب تک ان کے خلاف آپ خود آواز نہیں اٹھائیں گے۔  یہ گند آپ کے بعد تحفتاً آپ کی نسل کو منتقل ہوتا چلا جائے گا ۔ نہ یہ دنیا آپ کی ہے،  نہ ہی آخرت میں آپ کا کوئی حصہ رہا۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 24 جنوری، 2025

دل سادہ ۔ اردو شاعری۔ باردگر


مشکل ہے تیرے واسطے جو اسکو نہیں ہے
جانے کے لیئے کرنا ارادہ دل سادہ


تیرے لیئے کچھ بھی نہیں پیمان سے بڑھ کر 
اس کے لیئے کچھ بھی نہیں وعدہ دل سادہ

  آیا نہ کرو سامنے ان لوگوں کے ہر روز
آتے ہیں بدل کر جو لبادہ دل سادہ

پہلے سے بنا لیتے ہیں اپنی کوئی رائے
کر دیتے ہیں امکان کو آدھا دل سادہ

جس جاء پہ نہیں ہے کوئی چاہت وہاں اکثر
ہوتا ہے پس و پیش بھی زیادہ دل سادہ

جو ذات سے اپنی نہ نکل پائے کسی طور 
وہ تیرا بڑھائیں گے پیادہ؟ دل سادہ

لہجے میں لحاظ ان سے توقع ہے بے معنیٰ 
رکھ لیں جو بھرم تیرا مبادا دل سادہ

صد شکر حیات اپنی نہیں رائیگاں گزری
جو اپنے مقدر میں ہے جادہ دل سادہ 

ان میں کبھی ممتاز نہ کرنا تو الہی
رکھتے نہیں جو دل کو کشادہ دل سادہ

جمعرات، 16 جنوری، 2025

سندمشاعرہ۔ ارباب سخن۔ نظامت ممتازملک

سند مشاعرہ

بزم ارباب سخن پاکستان کا 11 واں آن لائن عالمی اردو مشاعرہ پیش کیا گیا ۔گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی کے تعاون سے اس شاندار مشاعرے کے تمام شرکاء اور شعراء کرام کا تہہ دل سے شکریہ
  منتظمین
۔ محمد نواز گلیانہ اٹلی
۔ ملک رفیق کاظم بھسین لاہور 
نظامت کار۔ ممتازملک۔ پیرس فرانس
تاریخ ۔9 جنوری 2025 ء
دن۔ جمعرات
 وقت:
 پاکستان:رات 8 بجے 
انڈیا:رات.8.30 بجے
 یورپ: شام 4 بجے 
 صدارت۔
نسرین سید ۔کینیڈا 
فرخ ضیاء مشتاق ۔اسلام آباد
مہمان خاص
۔شمشاد شاد۔ انڈیا
۔ طاہرہ رباب۔ جرمنی
۔ نغمانہ کنول یوکے

تیکنیکی معان۔
کامران عثمان ۔ کراچی

 مجلس شعراء
۔شہناز رضوی۔ کراچی
 ۔سرور صمدانی ملتان
۔ امین اڈیرائی سندھ
 ۔ڈاکٹر ممتاز منور پونا انڈیا
۔رحمان امجد مراد۔ سیالکوٹ 
۔ اشفاق فاتح مدنی انڈیا
۔ نصرت یاب نصرت راولپنڈی
 ۔اختر امام انجم انڈیا
 ۔شبانہ خان شابی تار۔ کراچی 
۔مظہر قریشی انڈیا
۔طاہر ابدال طاہر۔لاہور
۔ اندراپونا والا شبنم انڈیا
۔ ڈاکٹر نور فاطمہ۔ انڈیا
۔کامران کامی۔ یوکے
۔کامران نذیر۔ لاہور
۔ بیباک ڈیروی ۔ڈی جی خان
۔ رضوانہ رشاد ۔دہلی ۔ انڈیا
۔ مجاہد لالٹین۔ انڈیا 
۔وفا تبسم۔لاہور
۔فوزیہ اختر انڈیا
💐❤️👏👏👏👏👏👏👏👏

ہفتہ، 28 دسمبر، 2024

کمی محسوس ہوئی ۔ کالم

  کمی محسوس ہوئی
تحریر:
   (ممتازملک۔پیرس)

تارکین وطن کا پی ائی اے سے شکایات اپنی جگہ پر، سالہا سال اس کے خلاف شکایتوں کے انبار اکٹھے کے کیئے جاتے رہے اور ان میں سے بہت ساری شکایتیں یقینا درست بھی تھیں، انتظامیہ کے بارے میں شکایتیں ، سٹاف کا رویہ، پھر کئی بار اوور ٹکٹنگ، جتنی سیٹس ہیں، اس سے زیادہ ٹکٹوں کا بیچ  دیا جانا، کئی بار کرایوں کے اضافوں پر شور اور بھی بہت ساری شکایتوں کے ساتھ پی آئی اے پاکستانیوں کے لیے کئی دہائیوں سے اپنی فضائی خدمات سرانجام دیتی رہی۔ پھر ایک ایسی حکومت آئی جس نے خود اپنے ہی ملک کی بہترین ایئر لائن کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کروا دیا ۔ انہیں نکما ثابت کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔ 40 40 سال سے جہاز اڑانے والے پائلٹس کو بے ہنر اور بے ڈگری قرار دے کر پی ائی اے پر تالے لگا دیئے گئے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ہر طرف سے فارغ ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی ۔ دنیا بھر سے پابندیوں کا شکار ہو کر بین کر دی گئی۔ اور پی آئی اے کے خلاف یہ سازش کسی غیر ملکی طاقت یا خفیہ ہاتھ نے نہیں کی بلکہ اس کے لیئے اپنے ہی گھر کی کالی بھیڑوں نے بھرپور کردار ادا کیا ۔ لیکن کچھ عرصے سے جب  پاکستان کا سفر کرتے ہوئے ان ڈائریکٹ فلائٹ سے آنا ہوا تو یقین مانیئے گھر سے چل کر اپنے گھر تک پہنچنے میں 22 سے 24 گھنٹے جن میں سے چار چار گھنٹے ایئرپورٹس پر چیکنگ کے بہانے،  پاسپورٹ کنٹرول اور دوسری اسی قسم کے کاموں میں کھڑے رہ رہ کر جب آپ کے ہاتھ پاؤں سوج ہے ، جب آپ کے اوسان خطا ہونے لگتے ہیں،  جب آپ کے اعصاب جواب دے گئے تو اس وقت پی آئی اے بڑی شدت سے یاد آئی۔ 
یہی سفر ہم 8 سے 10 گھنٹے میں طے کیا کرتے تھے۔ تو کبھی ہم اس کے کھانے پر شکایت کرتے تھے،  کبھی ان کے سٹاف کی بری کارکردگی، کام چوری اور جاتے ہی کھانا پانی بانٹ کر چھ گھنٹے تک  چپ کر کے  جا کر سو جانے پر اور پانی تک نہ پوچھنے پر ہم سب تڑپا کرتے تھے۔  لیکن سفر کی یہ صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ پی ائی اے کی وہ غلطیاں جو درست کی جا سکتی تھیں، ان غلطیوں کو اتنے بڑے ملبے کے نیچے دبا کر اس ملک کے کروڑوں تارکین وطن کو بدترین اذیت کا شکار کر دیا گیا۔  آٹھ گھنٹے سے دس گھنٹے میں ہونے والا سفر 15 سے 22 اور 24 گھنٹے پر محیط ہو گیا۔ یہ ایک تکلیف دہ سفر ہوتا ہے ۔ یا تو  آپ سیٹ کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں یا لائنوں میں چلتے جا رہے ہیں یا پھر آپ کھڑے کھڑے  اپنی ٹانگوں کا امتحان لے رہے ہیں۔ اپنی برداشت کو آزما رہے ہیں۔  نیند سے بے حال۔   اور ایسے میں اگر آپ نے غلطی سے بھی اپنے ساتھ کچھ سامان فالتو رکھنے کی کوشش کی تو گویا آپ نے اپنے آپ کو بالکل ہی تھکا ڈالا ۔ کوشش کیجیئے اپنے ساتھ دستی سامان کم سے کم رکھیں۔  ایک ٹرولی سے زیادہ اپنے ساتھ کچھ نہ رکھیں اور اس میں بھی صرف وہ چیزیں رکھیں جو آپ کو فوری ضرورت پڑ سکتی ہیں۔ مرد تو پھر بھی اس بات کا خیال رکھ لیتے ہیں لیکن خواتین اور بچے جن کے ساتھ ہم کسی بھی لالچ میں سامان کو لاد دیتے ہیں۔   ہاتھ کا سامان، پشت پر لدا ہوا سامان اور کئی بار ہم کپڑے اور بھاری کپڑے یا کچھ اور چیزیں بچوں کے اوپر یا خواتین اپنے اوپر صرف وزن کو تقسیم کرنے کے لیئے لاد لیتی ہیں جو کہ بے حد تکلیفدہ ہو جاتا ہے۔  کئی مراحل پر بچوں کو پریشانی سے تڑپتے ہوئے دیکھا۔ لائنوں میں گھنٹوں گھنٹوں کھڑے رہنے والے بچے جو اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کوٹ اور دوسرے ملبوسات تک سے تنگ تھے۔ پسینہ بہہ رہا ہے،  لیکن ماں نے وہ کوٹ اس لیئے پہنا رکھا ہے کہ اسے سنبھالیں کیسے ، اسی طرح سے ماؤں نے کئی بار کچھ کوٹ، کچھ بھاری شالز موسم ہے یا نہیں ہے یا کچھ اسی قسم کی چیزیں اپنے اوپر لاد لی ہوتی ہیں، تاکہ اگر وزن میں رکھیں گی تو وہ گنی جائیں گی،  اور یوں وہ اس وزن کو  آرام سے تقسیم کر سکیں گی۔جبکہ یہ آرام عذاب بن جاتا ہے۔  مرد تو ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ اٹھاتے ہیں یا ٹرولی لیتے ہیں اور آرام سے نکل جاتے ہیں۔ اچھا کرتے ہیں، لیکن خواتین اسی لالچ میں کہ کچھ زیادہ سے زیادہ چیزیں، زیادہ سامان اپنے ساتھ لے جا سکیں اکثر اپنے لیئے اپنے بچوں کے لیئے اور اگر وہ اکیلے سفر کر رہی ہیں تو بے حد پریشانی مول لے لیتی ہں۔ کہیں لمحے بھر کو رکنے یا بیٹھنے کی فرصت ملے تب بھی وہ اپنے سامان کی طرف سے فکر مند رہتی ہیں ۔ گم نہ ہو جائے، کچھ ٹوٹ نہ جائے سوچ کر وہ سفر کا لطف کسی بھی مرحلے پر نہیں لے پاتیں۔ اس دورے میں یاد آیا کہ پی ائی اے جو ایک جگہ سے بیٹھنے کے بعد دوسری جگہ اپنی منزل پر ہی اتارتا ہے اور آرام سے ہم اپنے ساتھ کا سامان وہاں تک پہنچا لیتے ہیں۔ تھوڑی سی زحمت کے ساتھ۔  لیکن ان ڈائریکٹ فلائٹس میں یہ کتنا بڑا عذاب بن جاتا ہے۔ سنا ہے  پی آئی اے کو سدھار کر پھر سے عوامی خدمت کے لیئے لانے کی خبریں گرم ہیں ۔ یہ  تو کئی ماہ سے گردش میں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آنے والا جنوری 2025 پی ائی اے کی کامیاب اڑان کی نوید لے کر آئے گا اور اوورسیز  کے لیئے یہ بہت بڑی خوشخبری ہوگی۔ ان شاءاللہ۔ کہ ہماری اپنی ایئر لائنز کچھ اچھی سروسز کے ساتھ وہ تمام چھوٹی چھوٹی شکایتیں جو ہمارے لوگوں کو تھیں ان سب کو دور کرتی ہوئی پھر سے دنیا میں ایک بہترین سروس دیتی ہوئی مناسب کرائے کے ساتھ ہمیں پھر سے مہیا ہوگی۔  وہ سفر یادگار ہے جو اپنوں کے ساتھ ہے۔  جس کا ہمیشہ سے دعوی رہا ہے "باکمال سروس لاجواب لوگ" اور ہم انتظار کر رہے ہیں کہ پی آئی اے پھر سے ہوا بازی کے میدان میں آئے فضائی میزبانی کی بہترین مثالیں پیش کریں۔ بہت سال ہو گئے جہاز میں قدم رکھتے ہوئے ستار پہ بجتے ہوئے  پاکستانی دھنوں کو سنتے ہوئے  خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے چہرے دکھائی نہیں دیئے۔ باقی سبھی ائیر لائنز  بہت اچھی ہیں لیکن ہمارے اپنے وطن کی سروس، اپنی زبان اپنے میزبان ، اپنا ماحول کئی سال سے ہمیں میسر نہیں اور ہم اس کے لیئے ترس رہے ہیں۔ فالتو کی مشقتیں ہم جو بھگت رہے ہیں اب اس کا ازالہ ہونا چاہیئے۔ بہت ساری دعاؤں اور اچھی امیدوں کے ساتھ ہم پی ائی اے کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ مسافروں کی یہ پریشانی، طویل سفر میں ہونے والی یہ خواری،  بے آرامی یقینا شاید ہماری بھی سزا تھی ہم نے اپنی ایئر لائن کو درست کرنے کے بجائے اس کی رہنمائی کرنے کی بجائے ہمیشہ اسے بد سے بدترین قرار دینے کی کوشش کی اور اس کی سزا شاید پروردگار نے ہمیں یہ دی کہ ہمیں اس سے محروم کر دیا ۔ جب ہم کسی چیز کی حد سے زیادہ ناشکری کرتے ہیں تو خدا اسے ہم سے دور کر دیتا ہے، کیونکہ ناشکری نعمتوں کو گھٹا دیتی ہے۔ ہماری نعمتیں ہم سے چار سال سے چھن چکی ہیں لیکن اب پروردگار پھر سے ایک نئی راہ دکھا رہا ہے۔  پی ائی اے پھر سے میدان میں آ رہی ہے۔ انٹرنیشنل فلائٹس کے لیئے،  یورپ کے لیئے۔ ہماری دعائیں ہماری پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے ساتھ ہیں ۔ سفر کی تکلیفدہ یادوں کو یہ سوچ کر کم کیجیئے انشاءاللہ اپنی ایئر لائن ان تکلیفوں سے بچائے گی۔ 
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 20 دسمبر، 2024

کھیلا کیجیئے۔ اردو شاعری۔ باردگر




یوں نہ کاذب بنیں اور مکر و واویلا کیجیئے
راکھ ہو جاتے ہیں شعلوں سے نہ کھیلا کیجیئے

اپنے اعمال کو نیت سے پرکھنے والا
آپ صدقے میں بھلے سے کوئی دھیلا کیجیئے

ایسی لاچاری سی صورت پہ برستی کیوں ہے
چار اشکوں کو نہ سیلاب کا ریلا کیجیئے

ان کے دم سے ہے زمانے کے چراغوں میں یہ لو
سچے لوگوں کو نہ منظر سے دھکیلا کیجیئے

رونق بزم تو قائم اسی خلقت کے سبب
جب کوئی ہو گا نہیں کیسے یہ میلہ کیجیئے

جس کی تقدیر میں اللہ نے رونق لکھی
آپ جتنا بھی اسے چاہے اکیلا کیجیئے

وقت نے رکھے ہیں ممتاز کے حصے پاپڑ
جب نہ بن پائے ہے کچھ انکو ہی بیلا کیجیئے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 14 دسمبر، 2024

* زبر آب جلتے ہیں۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا۔ مصرعہ طرح




جلتے ہیں 

کیسی دھن ہے رباب جلتے ہیں
کچھ دیئے زیر آب جلتے ہیں

بارشیں بھی تو انکے آنسو ہیں 
بجلی گرتی سحاب جلتے ہیں 

بات اپنے نصیب کی ہے تو 
 کیوں وہ مثل کباب چلتے ہیں

کوئی انکو خبر کرے جا کر
پی کے خانہ خراب جلتے ہیں

چھوٹی چھوٹی سی لغزشوں کے عوض
عمر بھر کے ثواب جلتے ہیں 

اپنی چاہت سے دوریوں کے سبب
کیسے کیسے شباب جلتے ہیں

 سیپ میں جاتے پوچھ لیتے ہم
 کیا وہاں بھی حباب جلتے ہیں

ہو کے ممتاز کھو دیا اس نے
بن کے رحمت عتاب جلتے ہیں 
                ۔۔۔۔۔۔                 
فرخ ضیاء صاحب کے قافیے اور زمین پر طبع آزمائی
"نیند ائے تو خواب چلتے ہیں"

دھڑکنوں سے گفتگو ۔ اردو شاعری۔ باردگر





دھڑکنوں نے جب بھی کی ہے دھڑکنوں سے گفتگو
درد کی شدت گھٹی ہے ہو گئے جب روبرو

عشق کے معیار کو کیا جانیئے ہوتا ہے کیا 
 بات کرتے ہی نہیں عاشق جہاں پر بے وضو 

اسکو دعویٰ ہے سلیم الطبع ہونے کا مگر 
کوئی سستی سوچ بن سکتی ہے کیونکر آرزو

غیر سے شکوہ نہ کیجیئے وہ تو سب انجان ہیں 
دوست ہی آتے ہیں دشمن بن کے اکثر دوبدو

کس کو روئیں کس کو اپنے حال کا محرم کریں 
ہر تعلق کے جنازے ہم نے ڈھوئے چارسو

مرتبے دیکر  انہیں  ممتاز ہم نے کر دیا 
ڈولتے سنگھاسنوں پر روتے دیکھے ہیں عدو
۔۔۔۔۔۔۔۔


جمعہ، 13 دسمبر، 2024

چھوٹی چھوٹی باتیں۔ کوٹیشنز

سچی بات ہے
ہر مخلص خسارے میں ہے اور ہر مطلبی مزے میں۔۔۔یہی دنیا کا سچ ہے۔
چھوٹی چھوٹی باتیں
ممتازملک.پیرس فرانس 

بدھ، 4 دسمبر، 2024

اس دور کا ہر آدمی ضرب المثال ہے۔مصرعہ طرح

اس دور کا ہر آدمی ضرب المثال ہے 
مصرعہ طرح: اختر امام انجم۔ انڈیا

  کلام:
ممتازملک

خیرہ کرے نگاہ کو ایسا جمال ہے 
یہ جانتے ہوئے بھی جو اٹھے سوال ہے 

جسکے لیئے ہمارا لہو بھی حرام ہے 
واللہ اس کے واسطے ہر شے حلال ہے

کچھ سوچتے ہیں راستے بھی کھوجتے ہیں پر 
کھل کر بتائیں آپ بھی کیسا  خیال ہے

وہ واردات کرتا ہے لیکن کچھ اس طرح 
ہمدرد بن کے پھینکتا لفظوں کا جال ہے

جو وقت اس کے ساتھ بتایا زیاں کیا
اپنے اسی زیاں پہ مجھے تو ملال ہے 

پوچھا جو حال مدتوں کے بعد کہہ گیا
زندہ ہوں یار یہ کوئی چھوٹا کمال ہے

حالات سازگار ہوں تو روپ اور ہے
مجبوریوں کی تال پہ آتا جلال ہے 

اچھے برے کو چھوڑیئے بس غور کیجیئے 
اس دور کا ہر آدمی ضرب المثال ہے 

ممتاز ہونا بھی کوئی آسان کام ہے 
اتنی نگاہوں بیچ تو  جینا محال ہے 

ہفتہ، 9 نومبر، 2024

چوہے۔ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

ڈری ہوئی سہمی ہوئی مخلوق صرف چوہے پیدا کرتی ہے ۔ بہادر اور خومختار عورتیں ہی بہادروں کو جنم دیتی ہیں ۔ 
    (چھوٹی چھوٹی باتیں )
          ( ممتازملک۔پیرس)

مردہ معاشرہ۔ کالم

      مردہ معاشرہ 
   تشدد سے بہتر طلاق

کیا کوئی بتائے گا کہ یہ کونسا ملک ہے؟ یہ کونسا معاشرہ ہے؟ جہاں 
مرد بطور شوہرجب اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی سانس لیتی گوشت پوست کی انسان پر ہاتھ اٹھا رہا ہے یا کسی پنچنگ بیگ پر زور آزمائی کر رہا ہے ۔
وہ کسی لوہے پر لوہے کا ہتھوڑا برسا رہا ہے یا روئی دھنک رہا ہے۔  ہمارے معاشرے میں ایسے ہی قصاب سوچ والے مردوں نے کبھی مذہب کی آڑمیں اور کبھی معاشرے میں اسے بے امانی کا خوف دلا کر طلاق کو عورت کے لیئے ایسی گالی بنا دیا ہے کہ عورت  یا مرد قتل ہونے تک اس رشتے کو چوہے دان سمجھ کر اس میں قید ہو جاتا ہے ۔ خصوصا عورت جسے اپنے شوہر کے گھر سے مر کر نکلنے کا حکم سنا دیا جاتا ہے ۔ اور تو اور یہ گالی اور بلیک میلنگ ان خواتین کے لیئے بھی ایک پھندا بن جاتی ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہیں، مردکی محتاج نہیں ہیں ۔ پچھلے دنوں ہمارے ملک میں ہوئے گھریلو تشدد کے ایسے بے شمار واقعات دیکھے جا سکتے ہیں ، جہاں کہیں لڑکی نابالغ بڑی عمر کے مرد سے بیاہی گئی، کہیں وہ اچھا گھر کہہ کر بیاہی گئی، کہیں وہ اعلی تعلیم یافتہ اور  برسر روزگار ہے، تو کہیں مشہور مالدار میڈیا کی شخصیت ہے، سب کی سب اپنے شوہروں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا شکار ہو کر پٹ رہی ہیں۔ کہیں ماری گئی ہیں تو کہیں مرنے کے قریب پہنچا دی گئی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی شکایت کو اس مرد یا عورت کے ٹریک ریکارڈ کے مطابق ہینڈل کیا جائے ۔ اگر وہ جھوٹا اور منافق ہونے کا ریکارڈ رکھتا ہے تو اس کی فوری تحقیقات کا آغاز کرنے کے ساتھ زیادہ باریک بینی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ جبکہ اگر ایسی کوئی بات نہیں،  سائل یا سائلہ سچا اور اچھا انسان ہے، اس کی شہرت علاقے میں مثبت ہے تو اس کی شکایت پر فوری گرفتاری ڈالی جائے ۔ سائل کو فوری طبی معائنے کے لیئے بھیجا جائے اور اسکے زخموں کا فارنزک بھی فوری کروایا جائے، تاکہ انکے زخموں کا اصلی نقلی خودساختہ ہونا یا واقعی حملہ ہونا ثابت ہو سکے ۔ ہمارے تھانوں میں بیٹھے اکثریت بکاو پلسیئے، ایس ایچ اوز ، حتی کہ سی پی اوز ان مجرمان کے ہاتھوں اپنا دین ایمان بیچے ہوتے ہیں ۔ انہیں اپنی جیب کے سوا دنیا میں کچھ دکھائی دیتا ہے نہ ہی سکے کی چھنکار کے سوا کوئی آواز انکے کانوں تک پہنچتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں اوربچوں پر ہونے والا وحشیانہ تشدد دنیا بھر میں ہماری شرمناک پہچان ہے ۔
 اس پر ہمیں شرم نہیں آتی بلکہ ہم اس پر حیلے پیش کرنا اور عذر دینا زیادہ پسند فرماتے ہیں، بجائے اپنی کرتوں پر غور کرنے کے ۔ دنیا ہمیں ذہنی مریض کا سرٹیفکیٹ دیدے تب تک شاید ہم اس محاذ سے پیچھے کبھی نہیں ہٹیں گے۔ 
ہمارا ملک دنیا بھر میں عورتوں بچوں بلکہ مجموعی طور پر اخلاقی اور انسانی حقوق بلکہ ہر جاندار و بے جان کے لیئے سب سے خطرناک اور غیر محفوظ ملک کہا جائے تو قطعا غلط نہیں ہو گا ۔ یہاں پر یہ ثابت کرنے کے لیئے کہ میں مار دیا جاؤنگا۔۔۔ مر کر دکھانا پڑتا ہے ۔ یہاں انصاف کا حصول دودھ کی نہر نکالنے سے بھی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ سارا کا سارا عدالتی نظام صندوق بھر بھر کر وصول کرنے کے عوض  سیاسی پیشرووں کے جوتے صاف کرنے میں مصروف ہے ۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا رہا کہ ہم دنیا بھر  کے عدالتی نظام میں آخری نمبروں تک گر چکے ہیں ۔ کیونکہ فرق پڑنے کے لیئے باضمیر ہونا ضروری ہے ، جسے ہم کب کا کرپشن کا زہر پلا کر مار چکے ہیں ۔ اب دیکھیئے یہ عدالتی نظام حق و سچ کیساتھ کس حکومت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔ اور جو حکومت ایسا کر سکی وہ ہمیشہ کے لیئے تاریخ کے اوراق پر امر ہو جائیگی۔   
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 4 نومبر، 2024

معصوم بے گھر جانور ۔ کالم



      معصوم بےگھر جانور
      تحریر: (ممتازملک۔پیرس)

ویسے ہی تو دنیا کے بہت سارے کاموں میں پاکستان کو بدنامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کا سبب اس ملک کے لوگوں کی اپنی بےحسی، نالائقی اور غیر ذمہ داری ہوتی ہے ۔ خدا کا خوف منہ زبانی تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب یہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ انہی انسانوں کے ہاتھوں (جو اپنی مظلومیت کا رونا روتے نہیں تھکتے) معصوم جانور گلیوں  محلوں، میں بے انتہا ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ جانور جو بات نہیں کر سکتے، اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے، وہ آپ کی ہمدردی کے کتنے مستحق ہوتے ہیں۔  ہماری گلی کے کتے کو ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے ، شرارت اور مذاق کے طور پر اس کی ٹانگ توڑی جا چکی ہے۔ میں ایک مہینے سے، پہلے ہاسپٹل کے پتے ڈھونڈتی رہی، پھر گوگل سے سرچ کیا،  پہلے تو معلوم ہوا کہ یہاں پر اکا دکا ہاسپٹلز بھی ہیں تو بہت مہنگے مہنگے لینڈ لارڈز کے لیئے ہاسپٹلز ہیں کہ وہ اپنے جانوروں کے علاج کروا سکیں وہ 24 گھنٹے کھلے رہیں گے۔ لیکن یہاں پر جیسے عام انسان جانوروں سی زندگی گزار رہا ہے۔ ویسے ایک جانور جانے وہ کس طرح اس ملک میں زندہ ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے اس کے گلے میں رسی ڈال لے۔ اس کی ٹانگ توڑ دے۔ اسے گولی مار دے ۔ اس کے علاج کا یہاں کوئی بندوبست نہ ہونا  ایک بڑا سوال ہے کہ ہم کیسے مسلمان لوگ ہیں؟ جنہیں جانوروں سے ہمدردی کرنا نہیں آتا ۔ ان پر رحم کرنا نہیں آتا۔ لیکن اپنے لیئے وہ سب سے بڑے رحم کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ خدا ان پر کیسے رحم کرے گا ، جو دوسروں پہ رحم نہیں کرتا۔ ہمارا میڈیا ہمیں کبھی کسی ڈرامے میں یہ نہیں سکھائے گا، کسی پروگرام میں ، کسی ٹاک شو میں یہ نہیں سنیں گے کہ صرف پالتو جانور ہی نہیں باہر گھومتا پھرتا جانور بھی ہمدردی اور توجہ کا مستحق ہے، اسے کھلایا ہوا رزق بھی آپ کے لیے ثواپ کا باعث بنتا ہے، اگر وہ بیمار ہے تو اس کا علاج کرنا بھی آپ کے لیئے باعث ثواب ہے۔ لیکن یہاں اس کتے کی ٹانگ کے علاج کے لیے معلومات کیں  تو پتہ چلا جی کوئی 50 ہزار اور کوئی 60 ہزار روپے کا طلبگار ہے۔ میں یہ سن کر حیران رہ گئی کہ آپ نے معصوم جانوروں کے علاج کو بھی کتنا بڑا کاروبار بنا لیا ہے۔  کاروبار کرنے میں ہماری قوم کا کوئی جواب نہیں۔ سچ پوچھیں تو اگر چھ کروڑ لوگ جس ملک میں بیٹھ کر صرف ہاتھ آگے کرنے کی اور منہ بسورنے کی ایکٹنگ کر کے شام کو دودھ ملائیاں کھا کر عیش کر سکتے ہیں،  وہاں پر یہ معصوم بلی کتے گلیوں میں گھومنے والے اگر زخمی ہو جائیں تو انہیں اٹھانے ریسکیو کرنے کے لیئے کہیں گاڑی نہیں،  کہیں ڈاکٹر نہیں اور کہیں آپ سے اتنے پیسے طلب کیئے جائیں گے کہ آپ خاموشی سے ایک طرف ہو جاؤ گے۔
پھر بھی ہم مسلمان ہیں ؟
کیا ہمارا میڈیا واہیاتی،  عاشقی معشوقی ، ٹھرکیات سکھانے کے سوا بھی کوئی اخلاقی تربیت کا کردار ادا کر سکتا ہے؟ 
کیا ہمارے ملا اور علماء  کو یہ بات یاد ہے کہ چار شادیوں ، داڑھی اور ٹخنے سے اوپر شلوار ،سیاسی دھڑے بندیوں اور کرسی کی بلیک میلنگز  کے علاوہ بھی لیکچرز دینے کے لیئے بہت سے اخلاقی تربیتی موضوعات انکی توجہ کے طالب ہیں ۔ اور اسلام پندرھویں صدی میں بھی انکے پاس جانوروں کے اوپر رحم کرنے، انہیں کھانا کھانے، انکا علاج کروانے کا ذمہ دارںمبناتا ہے۔  گھر میں طوطا، مینا، چڑیا پالنے کے سوا بھی جانور ہوتے ہیں ان کو پالنا یا خیال رکھنا بھی اللہ کو محبوب ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے اور انکی دعائیں اور بدعائیں بھی ہماری زندگی پر اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ یہ سب انہیں اور کون سکھائے گا؟
اور اگر ہم ایسی انسانیت اور ہمدردی دکھانے کے قابل نہیں ہیں تو بہتر ہے اس کے لیئے بھی ہم بین الاقوامی این جی اوز یا مشنریز کا سہارا لیں جو بہت بہترین انداز میں بلا معاوضہ ان جانوروں کی دیکھ بھال اور شیلٹر کا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ اور کئی ممالک میں کر بھی رہے ہیں ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بدھ، 9 اکتوبر، 2024

اشتیاق عالم کی کتاب قندیل پر تبصرہ

 اشتیاق عالم کا اردو مجموعہ کلام 
قندیل

اشتیاق عالم صاحب ہندوستان کے  ایک ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر ہیں جنکا پہلا مجموعہ کلام قندیل آج ہمارے ہاتھ میں ہے۔
 ان کا کلام پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کو اپنی چھوٹی سی عمر میں بھی کتنی گہرائی میں دیکھتے ہیں۔ اس زندگی کو دیکھنے کے لیئے ان کا اپنا ایک نظریہ ہے ، اپنی ایک سوچ ہے، انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ اسے اپنے پیمانے پر کس طرح سے جانچیں گے۔ وہ بہت صاف گوئی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس پر دسترس بھی رکھتے ہیں ۔
جیسے ایک جگہ وہ فرماتے ہیں
 بے حیائی کے قصیدے پڑھ رہی ہیں تتلیاں
 برسر گلشن ہے آنکھوں سے حیا روٹھی ہوئی
 بد سلوکی کر رہے ہیں بچے اب ماں باپ سے
 ہے دعا سے یوں بھی تاثیر دعا روٹھی ہوئی
اسی کلام میں وہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں 
کہہ دیا تھا حال غم میں نے امیر شہر سے
 اس خطا پر مجھ سے ہے میری انا روٹھی ہوئی
 راستوں کی بھیڑ میں کھویا ہوا ہوں آج بھی 
منزل مقصد ہے مجھ سے رہنما روٹھی ہوئی
 ان کی کلام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف جسمانی طور پر جس دکھ اور تکلیف کو یا خوشی کو سہتے ہیں، روحانی طور پر ان جذبات کے بارے میں اسی گہرائی سے سوچتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ
 خون بہتا ہے دیدہ تر سے
 زخم جب لب کشائی کرتے ہیں
 جب زباں کھولتا ہوں میں اپنی
 سب کے سب لب کشائی کرتے ہیں 
چپ ہیں اہل ادب تو محفل میں
 بے ادب لب کشائی کرتے ہیں
 ان کا انداز گفتگو ہے غضب
 وہ غضب لب کشائی کرتے ہیں
 کیئے بیٹھے تھے جو زبانیں بند
 وہ بھی اب لب کشائی کرتے ہیں
 اسی طرح سے ان کے ایک اور کلام پر نگاہ ڈالیئے تو آپ کو چھوٹی بحر کے علاوہ بڑی بحر میں بھی بہت ہی خوبصورت اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جیسے کہ
 حقیقتوں کو جو کر رہے تھے رقم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
 لہو سے تحریر تربتر ہے قلم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
 اسی طرح آگے فرماتے ہیں کہ
 محافظوں کے حوالے کر کے مکان اپنا جو سو رہے تھے
 وہ لٹ چکے ہیں وہ رو رہے ہیں حرم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
 قبیلے والوں کو کیا ہوا ہے سمجھ رہے ہیں اسی قائد
 قیادتوں کے جنوں میں جس کے قدم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
 ان کے بہت سے اشعار آپ کو بہت خوبصورت شعراء کرام کے کلام کی یاد دلائیں گے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں
 ہو تناور لاکھ لیکن سر بسر خطرے میں ہے
 چل رہی ہے تیز آندھی ہر شجر خطرے میں ہے
 اب ہوائیں موت کا فرمان لے کر آگئیں 
 ہر نگر کو اب ہے خطرہ ہر نگر خطرے میں ہے 
آسماں پر اڑنے والے اب زمیں پر لوٹ آ 
  تو ہے خطرے میں تیرا ذوق سفر خطرے میں ہے
 ہر طرف چھائی ہوئی ہے تیرگی اس وقت تو
 کچھ نظر آتا نہیں شاید نظر خطرے میں ہے
 اسی طرح سے ان کے اگے کے چند اشعار  آپ حوالے کے لیئے ملاحظہ فرمائیں اور ان کو ان کی اس کتاب "قندیل" میں ڈھونڈ کر پڑھیئے۔ آپ بہت لطف لیں گے ۔
سو بار ستم توڑے گئے ہیں میرے دل
 پر سو بار میرے دل پہ ستم ٹوٹ چکے ہیں
 پینے کا پلانے کا زمانہ وہ نہیں اب 
پینے کے پلانے کے بھرم ٹوٹ چکے ہیں
 ایک اور کلام ملاحظہ فرمائیے
 مشکل نکلنا جس سے ہے ایسا ہے جال موت 
جس میں کسی شکار کی مرضی نہیں چلی 
سیلاب چشم تر سے یہ روکا نہ جا سکا 
اشکوں پہ آپشار کی مرضی نہیں چلی
گویا کہ ان کا کلام اپ کو اردو ادب کی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ دکھائی دیتا ہے میری بہت سی دعائیں اور نیک خواہشات اشتیاق عالم کے لیئے۔
دعاگو:
 ممتازملک
 پیرس فرانس
  شاعرہ ،کالم نگار، نعت خواں، نعت گو، افسانہ نگار ، کہانی کار، عالمی نظامت کار۔
بانی و صدر ادبی تنظیم
" راہ ادب فرانس" 
ڈائیریکٹر فرانس،
 گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی
Mumtazmalik222@gmail.com

جمعہ، 4 اکتوبر، 2024

بے صلاحہ۔ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

بے صلاحہ اور بے ہدایتا ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔ دونوں کو اکثر شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ 

پیر، 30 ستمبر، 2024

رپورٹ : ادبی نشت ۔ فاطمہ قمر کیساتھ لاہور میں

رپورٹ :
فاطمہ قمر 
*تحریک نفاذ اردو )

گزشتہ روز ہم نے پاکستان کی نامور ادیبہ محترم مسرت کلانچوی اور پیرس سے تشریف لائی ہوئی ادیبہ محترمہ ممتاز ملک کے اعزاز میں خصوصی نشست رکھی۔ جن خواتین نے ہماری دعوت کو شرف قبولیت بخشی ان میں نامور ادیبہ شیریں گل رانا' کنول بہزاد ہاشمی ' صباممتاز شامل ہیں تمام خواتین صحافت و ادب سے تعلق رکھتی ہیں مادری زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی اظہار خیال فرماتیں ہیں ۔مسرت کلانچوی صاحبہ کو ان کی ادبی خدمات پر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا ہے وہ سرائیکی و اردو میں اظہار خیال کرتی ہیں ۔ ممتاز ملک صاحبہ فرانس میں اردو اور پنجابی کی سفیر ہیں پاکستانیوں کی انگریزی غلامی سے بہت خائف ہیں وہ بارہا بتاتی ہیں کہ میں ایک عرصے سے پیرس میں ہوں یہاں تمام لوگ اپنی اپنی زبان میں بولنا فخر محسوس کرتے ہیں ۔یہاں کسی کو انگریزی بولنے کا بخار نہیں چڑھا ہوا۔ یہاں کہ لوگ اس شہری کی بہت عزت کرتے ہیں جسے اپنی مادری زبان پر عبور حاصل ہو' ممتاز ملک صاحبہ اردو و پنجابی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں ۔ محترم شیریں گل رانا' ایک انتہائی قومی سوچ کی حامل باشعور خاتون ہیں ۔ وہ جہاں غزلیں لکھنے میں کمال رکھتی ہیں وہاں وہ نعت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بھی بہت جذب و احساس سے لکھتی ہیں! 
 صباممتاز بانو ہماری نفاذ اردو کی دیرینہ اور مخلص ساتھی ہیں۔ وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں وہ شاعری ' صحافت' کالم نگاری' افسانہ نگاری میں اپنی شناخت رکھتی ہیں ۔ محترمہ کنول بہزاد ہاشمی ادبی محفلیں جما کر' ادب میں اپنے خوبصورت تخلیقی خیالات کا اظہار کر کے اردو کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں تمام خواتین اپنے شعبہ زندگی کی نمائندہ خواتین ہیں سب نفاذ اردو کی اہمیت کو جانتی ہیں اور اس عظیم مشن میں ہمارے ساتھ ہم ان سب دوستوں کی آمد اور نفاذ اردو کے عظیم مشن میں ہمارا ساتھ دینے پر تہہ دل سے ممنون ہیں' 
فا طمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رپورٹ :
ممتازملک 
(راہ ادب فرانس )

بہت بہت شکریہ محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ۔
 اردو کے لیئے آپ کی خدمات یقینا کسی تعارف یا تعریف کی محتاج نہیں ہیں۔ آپ بہت ہی جانفشانی کے ساتھ ساتھ سالہا سال سے نفاذ اردو کے لیے اپنا جو کردار ادا کر رہی ہیں یہ تاریخ کا ایک اہم حصہ ہوگا انشاءاللہ۔ اور آپ کے گھر پہ  بہت ہی ایک شاندار مختصر نشست جو منعقد ہوئی اس میں یقینا نایاب ہیرے آپ نے اکٹھے کئے۔
ان سب سے مل کر بے حد خوشی ہوئی اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ہوا اور بہت سارے نقاط ایسے ہم لوگوں نے آپس میں زیر بحث لائے جو کہ آج کل کے معاشرے میں مسائل میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے حل پر بھی ہم لوگوں نے بات کی اور اپنی طرف سے جو بھی ہم تگ و دو کر سکتے ہیں ، قلم کے ذریعے یا زبان کے ذریعے جس طرح سے بھی ہم لوگوں کو اس پہ موٹیویٹ کر سکتے ہیں ہم اس کے لئے کام کریں گے۔ انشاءاللہ اور یہی عزم لے کر ہم وہاں سے اٹھے آپ کی میزبانی کا بہت مزہ ایا 
ماشاءاللہ آپ نے بہت شاندار ریفریشمنٹ بھی دیا اور آپ کی گفتگو نے ہمارے علم میں اضافہ کیا۔
 میری بہت ساری دعائیں اپنی تمام بہنوں کے لیئے اور خصوصا مسرت کلانچوی صاحبہ کو صدارتی ایوارڈ پر میں ایک بار پھر سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور ان کی بہت ساری کامیابیوں کے لیئے, 
ان کی صحت کے لیئے دعا گو ہوں۔
 آپ سب لوگ اپنا ہمیشہ بہت خیال رکھیں کیونکہ آپ سب لوگ ہمارے معاشرے کا ہماری تہذیب کا قابل فخر حصہ ہیں ۔
 الحمدللہ
 ممتاز ملک 
(راہ ادب فرانس)

پیر، 2 ستمبر، 2024

تبصرہ ۔ بشری فرخ



کتاب۔ اور وہ چلا گیا 
شاعرہ۔ ممتازملک
تبصرہ۔ بشری فرخ صاحبہ




اس نیلے اسمان کی چھتری کے نیچے ایک وسیع و عریض کائنات اپنی لامحدود روشنیوں اور تاریکیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے اور اس کائنات آب و گل کا انمول ترین نگینہ بشر ہے ۔ جو اپنے اندر عجائبات کی ایک دنیا سموئے ہوئے ہے۔ یہ بشر جب اس آخرت کی کھیتی پر قدم رکھتا ہے تو اس جہان رنگ و بو کی کسی نہ کسی شے کی جستجو میں ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس بشر کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ودیعت کی گئی ہے اور اسی بنا پر اللہ جل شانہ نے اسے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا اور زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔
 یہی تلاش و جستجو جب اظہار کی متقاضی ہوئی تو انسان نے اپنے لیئے نت نئی راہیں استوار کیں کہ جن کے ذریعے باقی دنیا تک اپنا پیغام پہنچا سکے۔ کبھی ایجادات، کبھی دریافت، کبھی مصوری، کبھی موسیقی کی صورت اور جب جذبات و احساسات کی بات ہوئی تو قلم کا سہارا لے کر نثر اور شاعری کی بنیاد رکھ ڈالی۔ وطن عزیز میں اگر شاعری کی بات کی جائے تو ان 75 سالوں میں بہت بڑے بڑے نام ابھر کر سامنے ائے ہیں۔
 لیکن زیادہ تر حضرات کے۔ خواتین کا حصہ اس لیے کم کم رہا۔ کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا شاعری کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیئے شروع شروع میں خواتین مردانہ ناموں سے لکھتی تھیں۔  آہستہ آہستہ  معاشرے میں شعور بیدار ہونا شروع ہوا تو بہت ساری اہل قلم خواتین سامنے آتی چلی گئیں اور اج ادا جعفری سے لے کر کشور ناہید تک اور پروین شاکر سے لے کر شبنم شکیل تک آسمان ادب پر ستارے بن کر جگمگا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اپنی منفرد شاعری سے اپنا مقام بنا رہی ہیں۔
 ممتاز ملک کا شمار بھی ایسی ہی شاعرات میں ہوتا ہے جو علم و ادب سے والہانہ لگاؤ کے سبب شعر و سخن سے وابستہ ہیں اور اپنی منفرد پہچان بنا رہے ہیں ۔ 
سامعین کرام شاعری کی کوئی صنف بھی ہو اس میں اگر شاعر کے گہرے اور سچے جذبات کار فرما نہ ہوں تو شعر دل کی گہرائیوں میں نہیں اتر سکتا ۔
ممتاز کا اپنا اسلوب اور اظہار خیال اپنا پیرایہ ہے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرائی اور گہرائی لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے اپنے نہاں خانہ احساس سے ابھرنے والے دلکش اور عمیق خیالات کو سلیقے اور کرینے سے نفاست کے ساتھ قلم بند کیا۔ ان کی شاعری ان کے وسیع تجربے اور تیز مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ جس میں سلیس زبان اور سادہ الفاظ کی انتخاب میں ایک خاص روانی پیدا کر دی ہے۔ زندگی کی تمام تر تلخیوں حقیقت زمانے کی بے مروتی عداوت نفرت اخلاقی اقدار کی پامالی غرض کہ زمانے کے تمام منفی رویوں نے ان کے قلم کو روانی عطا کی ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے اس کے اصل روپ میں اپنے قاری کے سامنے رکھ دیا  کیونکہ ممتاز اپنی عملی زندگی میں بھی ایک بے باک،  صاف کو اور کھری انسان ہیں۔ اس لیئے ان کی شاعری بھی رنگ آمیزی کا عمل دخل نہیں ہے۔
 اپنے وطن سے دور پیرس میں بسنے والی اس شاعرہ کی شاعری میں اپنی دھرتی ماں سے محبت کی مہک، انسانیت کے دکھ ، معاشرتی مسائل اور وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ ایک سچا مسلمان ہونے کے ناطے اپنے رب اور محبوب رب کی محبت میں غرق ممتاز ملک کا کلام
" اور وہ چلا گیا" یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان کا آخری پڑاؤ نہیں ہے۔ 
ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں
 ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا میرے خدا ہو جا

 جب بھی سجدے میں سر جھکے تو لگے
 جنتوں کی کسی قطار میں ہوں

 یہ بگولوں نے دی خبر ہم کو
 دل کے صحرا میں رقص جاری ہے
 کھردری کھردری اداسی ہے 
مخملی مخملی خماری ہے

 اس نے لفظوں کا صور پھونکا ہے
 اب سنبھلنا تو اضطراری ہے

 بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
 میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھاری ہم پہ

 ممتاز مجھ پہ جانے پتھر کہاں سے برسے 
احساس کے شہر کا لہجہ تو ریشمی ہے 

خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
 ساتھ کیا دیں گے نظر مجھ سے چرانے والے

یہی نہیں بلکہ انہیں اس سے بہت آگے جانا ہے۔
ممتاز ملک کو مبارکباد اور بہت ساری دعاؤں کے ساتھ
 بشری فرخ
(پرائیڈ اف پرفارمنس)
 چیئر پرسن 
کاروان حوا لٹریری فورم 
پشاور پاکستان



بدھ، 28 اگست، 2024

& کیسی محبت ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی

       
            کیسی محبت


بہت سارے پیسے خرچ کر کے قرضے لیکر اور جانے کہاں کہاں کے دھکے کھانے کے بعد آخر کار وہ فرانس پہنچ ہی گیا۔
 گھر میں جب بھی فون پہ بات کرتا تو وہاں سے پیسے کے مطالبے کے سوا کوئی دوسری بات ہوتی تو صرف یہ اور سناؤ بھئی وہاں پہ کاغذ مل گئے ہیں۔
 امی جی  یہ کاغذ اتنی آسانی سے نہیں ملتے،  یا تو آپ نے یہاں شادی کی ہو یا پڑھائی کر رہے ہو یا کاروبار کر رہے ہو، تب یہاں کے کاغذات ملتے ہیں۔
 تو شادی کرنا کون سا مشکل ہے۔ پھنسا لو کسی میم کو۔
امی جی نے بڑا دانشورانہ مشورہ دیا۔
 امی جی یہاں میمیں  کوئی سڑک پہ نہیں پڑی ہوتیں،  جو ہر کسی کو گھاس ڈالیں۔
وہ جھلا کربولا
تو وہاں پر کسی پاکستانی کو دیکھ لینا ، کسی پاکستانی لڑکی کو پھنسا لے ، وہاں پر انہیں کون پوچھتا ہے؟ 
ہاں امی جی دیکھ رہا ہوں۔ کوشش کر رہا ہوں ۔دیکھو اب۔ دعا کرنا۔
 پچھلے دنوں کسی کی سفارش پر اسے ایک ریسٹورنٹ میں کام تو مل گیا جہاں فی الحال وہ ویٹر کے طور پر لوگوں کو چائے کافی سرو کرتا یا ٹیبل صاف کرتا۔
 ریسٹورنٹ کا مالک اچھا آدمی تھا۔ وہ اس کو اپنے بیٹے کی طرح عزت دیتا اور اس کا خیال رکھتا تھا۔ اس نے کافی عرصہ پہلے  فرانس میں آ کر اپنی فیملی کے ساتھ رہائش اختیار کی تھی ۔
آہستہ آہستہ اپنی محنت سے  ترقی کرتے ہوئے آج وہ ایک ریسٹورنٹ کا مالک تھا۔
 اس کی بڑی بیٹی ابھی 18 سال کی ہو رہی تھی اور یہاں کے مقامی سکول سے اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے آخری سال میں تھی۔ اپنے  لیسے سے چھٹی کے بعد وہ اکثر باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیئے ریسٹورنٹ بھی چکر لگا لیتی۔ 
 اس روز رشید کی نظر اس پر پڑی تو اس کے دماغ میں فورا ماں کا جملہ گھومنے لگا کہ کسی لڑکی کو پھنسا کر کاغذ حاصل کر لے تو نے کون سا ہمیشہ رہنا ہے اسکے ساتھ۔
 لیکن یہ لڑکی بھولی بھالی سی 18 سال کی سٹوڈنٹ ، جو اپنے گھر میں سب سے بڑی بیٹی تھی ۔ اسے اپنے لیئے ایک آسان شکار لگی۔
عام طور پر تو کوئی لڑکی یا مقامی عورت اس کے ہاتھ نہیں آئی۔ لیکن اس نے سوچ سمجھ کر  اس لڑکی کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔
وہ جب بھی آتی یہ جان بوجھ کر اس کے آگے پیچھے گھومتا۔
 اس کی خاطر مدارت کی کوشش کرتا ۔ اس کی تعریفیں کرتا۔  اس کے ساتھ لطیفہ گوئیاں کرتا ۔ رفتہ رفتہ وہ لڑکی اس کے ساتھ کچھ بے تکلف ہو گئی ، تو اس نے اسے شیشے میں اتارنا شروع کیا۔ 
 یہاں تک کہ اسے شادی کی دعوت دے ڈالی۔
 وہ لڑکی اس کی تعریفوں پر پہلے ہی پھولے نہیں سما رہی تھی۔  شکل صورت کا تو رشید اچھا تھا۔  لیکن تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ہنر بھی کوئی نہیں تھا اس کے پاس۔  بس عام سے لڑکوں کی طرح منہ اٹھا کر کسی نہ کسی طرح دھکے کھا کر فرانس پہنچ چکا تھا ۔
یہ بے وقوف، کم عمر، ناسمجھ، دیسی لڑکوں کی چالاکیوں سے بے خبر لڑکی آسانی سے اس کے جال میں پھنستی چلی گئی۔
 وہ اکثر اس کے لیئے چھوٹے موٹے تحفے لے آتا۔ اس کے دن رات قصیدے بڑھتا اس کی ایسی ایسی باتوں پر تعریف کرتا ۔جس کے بارے میں خود اس نے بھی نہیں سوچا تھا کہ اس میں بھی ایسی کوئی خوبی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ مکمل طور پر اس کے شکنجے میں پھنستی چلی گئی۔
 اس نے اس لڑکی عظمی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس کے ماں باپ کو پتہ چلا تو انہوں نے رشید کو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی۔
 لیکن عظمی اپنے ماں باپ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔
 رشید یہاں کام کرے یا کہیں بھی رہے۔ میں اسی سے شادی کروں گی۔
 ماں نے سمجھایا ۔
باپ نے سمجھایا۔۔
 گڑگڑائے روئے اس کے آگے ۔ لیکن وہ تو جیسے پتھر ہو چکی تھی ۔
جانے کون سا جادو پھونکا تھا اس رشید نے اس پر ،  کہ وہ ہر صورت میں اسی سے  شادی کرنے کے لیئے بے قرار تھی۔ اس کے لیے دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں تھا ۔
 ماں باپ نے سمجھایا۔
 دیکھو اس لڑکے کے پاس یہاں کے پیپرز نہیں ہیں۔ تعلیم نہیں ہے ۔ زبان بھی نہیں ہے۔  برباد کر دے گا تمہیں۔  بچ جاؤ اس سے ۔
 تمہارے لیے اچھے سے اچھا رشتہ یہاں موجود ہے اور یہاں نہیں تو ہم تمہیں پاکستان سے بہترین لڑکا  شادی کر کے لا دیں گے۔ 
 لیکن نہیں محبت میں وہ اندھی گونگی بہری ہو چکی تھی۔ اسے صرف رشید چاہیے تھا اور رشید اسے دن رات اسکے ماں باپ کے خلاف اکساتا رہتا ۔ 
دیکھو وہ تمہاری بات نہیں مانتے۔  دیکھو وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ دیکھو تمہاری کسی خواہش کا احترام نہیں کرتے۔  صرف میں ہوں جو تمہارے پیچھے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ 
 میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتا ہوں۔
 ایسی ہی فلمی باتوں سے وہ اس کی ہر کمی کو بھول کر اس پر فدا ہو چکی تھی۔
یہ فرانس میں جوان ہونے والی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔
 جو سب کچھ بھول کر اس کے ساتھ گھر بسانے کو تیار ہو گئی۔
 یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر اس لڑکی نے  رشید کے ساتھ نکاح کر لیا۔ 
اسکی ماں کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے تو  باپ صدمے سے نڈھال ہو گیا۔
 لیکن عظمی کو  اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
 اس نے جا کر رشید کے ساتھ ایک کمرے کا  فلیٹ کرائے پر لے کر اس کے ساتھ  فلیٹ میں رہائش اختیار کر لی۔
 نکاح کرتے ہی  رشید کے اطوار ہی بدل گئے۔
 اس نے دیکھا کہ اس کے ماں باپ نے تو اس کو اتنی آسانی سے چھوڑ دیا۔  جو کہہ چکے تھے دوبارہ اس گھر کا رخ نہ کرنا۔ تم مر چکی ہو ہمارے لیئے۔
 اب اس لڑکی کی دولت تو اس کے کام آ نہیں رہی تھی۔ وہ تو سوچ رہا تھا ۔ 
نکاح کرتے ہی وہ مجبورا اسے داماد قبول کر لیں گے اور وہ راتوں رات انکی حسین بیوقوف بیٹی کیساتھ  ان کے پیسے کا بھی مالک بن جائے گا اور ریسٹورنٹ کا بھی مالک بن جائے گا۔
 اب لڑکی تو اس کے ہاتھ آ ہی چکی ہے ۔جو اسے پیپر دلوا دے گی۔
لیکن پیسہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ نوکری بھی ہاتھ سے گئی اور خرچہ بھی بڑھ گیا۔
عظمی کو کام کرنے کی اجازت اس لیئے نہیں دیتا کہ جیسے اس نے اسے بیوقوف بنا کر جال میں پھانسا تھا اب اسے ڈر تھا کہ کوئی اور بھی اسے ورغلا کر اس کے ہاتھ سے نہ لے اڑے۔
 چند ہی روز میں اس نے اپنا اصلی دیسی رنگ دکھانا شروع کر دیا ۔
بات بات پر گالی گلوچ اور اب تو مار پیٹ بھی روز کا معمول بن چکی تھی۔
  چند مہینے کی مارپیٹ اور طعنہ زنی نے ہی عظمی کو پہچانے جانے کے قابل نہ چھوڑا تھا ۔ 
وہ لڑکی جسے والدین کے گھر میں کبھی کسی نے جھڑکا تک نہ تھا۔ اب وہ دن رات اپنی پڑھائی کے زمانے کے بجائے عذاب ناک وقت کو جھیل رہی تھی۔ 
 عظمی  امید سے ہو چکی تھی۔
 اب اس کی ہر بات ہر خوبی رشید کو زہر لگنے لگی۔ 
 اس کی ہر قربانی رائیگاں گئی۔
 رشید اسے ہر بات پر غلیظ گالیاں دیتا ۔ اسے کسی سے ملنے نہ دیتا اور جب دل کرتا اس کی کسی بھی بات کو بہانہ بنا کر اس کی اچھی خاصی مرمت کر دیتا ۔
 پہلے چانٹے سے شروع ہو کر باقاعدہ تشدد کے اوپر بات چلی گئی شادی کے دسویں مہینے اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔
 لیکن بچی کے ہونے کے بعد رشید کی تکلیف میں اور اضافہ ہو گیا۔
 ایک تو پہلے وہ اس لڑکی کو بہلا پھسلا کے گھر سے بھگا کے لایا تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
اوپر سے بیٹی پیدا ہو گئی ۔
اس پینڈو اور جاہل کے لیئے یہ ایک اور نیا تماچہ تھا بیٹی کا باپ بننا ۔
اس نے اس کی زندگی حرام کر رکھی تھی ۔
وہ  بچی بمشکل ابھی دو تین مہینے کی تھی کہ عظمی پھر سے امید سے ہو چکی تھی ۔
چھوٹی بچی کا ساتھ ، دوبارہ سے پریگننسی، کم عمر لڑکی دوسری بار یہ بوجھ اٹھا رہی تھی اور پھر گھر کا تشدد اس قدر بڑھ گیا کہ وہ کئی بار اس سے مار کھاتے کھاتے بے ہوش ہو جاتی۔
 وہ کسی سے بات کر لیتی تو وہ اسے اس کا عاشق قرار دے دیتا ۔
گھر سے باہر جانے نہیں دیتا کہ تم میری شکایت کر دو گی۔
 گھر کے اندر اسے ہر تنگی میں رکھ کر وہ جانے کون کون سی ذہنی اذیت دے کر اسے وہ اسے تل تل مار رہا تھا۔
 رشید کی حرکتیں بالکل ذہنی مریض جیسی تھیں ۔
عظمی رات دن  اپنے ماں باپ کو یاد کر کے شرم کے مارے رویا کرتی کہ
ماما مجھے معاف کر دیں ۔ میں نے کس جانور کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیئے اپنی محبت کرنے والے ماں باپ کھو دیئے۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب اس کی مرضی کے بغیر اس کی بیوی اپنے ماں باپ سے بھی ملے ۔
چھوٹی سی بچی بلکتی روتی رہتی لیکن وہ اس کے خرچ کے لیئے نہ پیسے دیتا نہ گھر کی ضرورتیں پوری کرتا۔
 کبھی کام کرتا اور کبھی فارغ ہوتا۔ جس دن کام نہ ہوتا اس دن کام نہ ہونے کا غصہ اس پہ اتارتا اور جس دن کام ہوتا اس دن تھکاوٹ کا کہہ کر اس پر اپنا غصہ اتارتا ۔
لگاتار دوسری پریگننسی کم عمری اور خوراک کی کمی نے اس میں خون کی کمی پیدا کر دی ۔
پریگنیننسی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا ۔
وہ اسے کہیں دوا دارو کے لیئے بھی لے جانے کو تیار نہ تھا ۔
ایک روز اس نے اسے اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔
 اس کے مار پیٹ کے شور کو سن کر ساتھ کے پڑوس میں سے کسی نے پولیس کو فون کر دیا ۔ 
پولیس کا سائرن سنتے ہی وہ تو گھر سے غائب ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ کبھی بھی کہیں بھی پکڑا جا سکتا ہے۔
 عظمی کی حالت بیحد خراب تھی۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں پولیس نے اسے وہاں سے ریسکیو کیا اور فوری طور پر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا ۔
 بیوی کے ہسپتال پہنچنے کا منظر اس نے  اپنی بلڈنگ کے باہر ہی دور سے ہی  دیکھ لیا کہ پولیس اسے لے جا رہی ہے۔
 اب اسے اپنی فکر پڑ گئی
 کہ میں سامنے گیا تو پولیس مجھے ضرور گرفتار کرے گی۔
 اس لڑکی کے بیان پر تو میں جیل چلا جاؤں گا۔
 لہذا اس نے گھر نہ جانا مناسب سمجھا ۔
لیکن چھپ کر ہر بات سے باخبر رہا۔
 ہسپتال میں کسی نے اس کے ماں باپ کو خبر کر دی کہ تمہاری بیٹی اس حالت میں ہے ۔
ماں تھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے شوہر کو مجبور کیا کہ جا کر اسے دیکھو۔ 
چلو میرے ساتھ۔
ہسپتال میں عظمی نے قبل از وقت  ایک بیٹے کو جنم دیا۔
عظمی کی ماں نے جب اپنی بیٹی کو دیکھا۔ اس کے زخموں کو دیکھا تو برداشت نہ کر سکی۔
 اسے سینے سے لگایا اور خوب روئی۔ 
دو سال میں دو بچے، جسم اور روح پر بیشمار زخم ، دل پر صدمات ۔۔
یہ تھی اس مجرم صفت دیسی کی کل کارکردگی ۔
 عظمی  بھی اپنی ماں سے لپٹ کر بری طرح روئی اور خوب معافی مانگی۔
 ماں سے منت کی کہ مجھے اپنے گھر لے جاؤ ۔
ہسپتال سے کافی روز کے بعد اسے فارغ کیا گیا ۔
ڈاکٹر نے اسے شدید احتیاط کا کہا اس کے ہاں اس مار پیٹ کے دوران ابھی وہ مشکل سے بیس سال کی نہیں تھی لیکن دو بچوں کی ماں بن چکی تھی ۔
 ذہنی طور پر بھی وہ بکھر چکی تھی۔
 اس کا اعتبار ٹوٹا تھا۔ اس کا یقین ٹوٹا تھا۔ اس کی عزت تو گئی تھی۔ لیکن اپنی نظر میں اس کی وہ قدر بھی نہ رہی۔
 وہ بہت کم بولنے لگی تھی۔
 ماں اسے دیکھتی اور کڑھتی رہتی۔
 وہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئی۔ لیکن اس روز بچی کے رونے پر وہ چڑ سی گئی۔
 ماں نے کہا بھئی بچے پیدا کرنے کا شوق تھا ۔ عشق لڑا رہی تھی تو سنبھالو اسے۔
 ماں کی یہ بات اس نے خاموشی سے سنی ۔ 
سر نیچے کیئے وہ کتنی دیر آنسو ٹپکاتی رہی۔
 بچی کو گود میں اٹھا کر اس نے بھنبھوڑ ڈالا ۔
وہ اسے اٹھا کر کہیں پھینک دینا چاہتی تھی۔
 کیونکہ وہ خود ابھی بچی تھی 20 سال کی وہ بچی جو ابھی خواب دیکھتی، ابھی یونیورسٹی جاتی۔ اپنی تعلیم مکمل کرتی۔ کچھ بننے کا عزم کرتی۔
 وہ لڑکی دو بچوں کے ساتھ باندھ دی گئی۔
 اس کی ماں نے بچی کو اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
وہ بستر پر پڑی جانے کتنی دیر روتی رہی۔
 اس کی ماں کے لیئے یہ دو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے سنبھالنے ، بالکل نو زائیدہ اور ایک سال بھر کی بچی آسان نہیں تھا۔
 اس کے بہن بھائی بھی ان کو دیکھتے لیکن وہ خود صبح جاتے اور شام کو سکولوں سے واپس آتے ۔
وہ زیادہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔
 پھر گھر سے بھاگنے کے بعد، من مانی کرنے کے بعد اس کی عزت دو کوڑی کی ہو چکی تھی۔
 وہ کسی سے نظر ملا کر حوصلے کے ساتھ بات نہیں کر سکتی تھی۔ خاموش رہتی تھی کھانا کھاتے ہوئے اسے شرم آتی تھی۔
 کھانے کی میز پر بیٹھی ہوئی اسے لگتا تھا شاید وہ  بھیک کی روٹی کھا رہی ہے۔
 اسے اپنے والدین کا اپنا  گھر اسے پرایا لگتا تھا۔
 لیکن آج ماں بیٹی میں اسی بات پہ  بحث ہوئی۔
 بحث بڑھتے بڑھتے  ماں نے کہا اگر اتنے ہی نخرے تھے تو اپنے میاں کے ساتھ ہی نبھا کر لیتی۔
 ہم تو برے تھے وہ تو تیرا من چاہا تھا نا۔ جب یار بنایا تھا تو ہم سے پوچھ کے بنایا تھا۔ رہتی اس کے ساتھ ۔ نبھا کر کے دکھاتی۔  زندگی گزار کے دکھاتی۔ ہمارے گلے نہ پڑتی۔
 ماں نے یہ کہا اور پیر پٹختے ہوئے اس کے کمرے سے باہر چلی گئی۔
 یہاں عظمی کے دماغ کی حالت غیر ہوتی چلی گئی۔
 ماں کا دیا ہوا طعنہ گولی کی طرح اس کے سینے پر لگا۔ اس کا دل اتھل پتھل ہو رہا تھا۔ بے عزتی کی ایک ایسی شدید لہر تھی جو اس کے رگ و پے سرایت کر گئی۔
 اس نے سوچے سمجھے بغیر کھڑکی کا رخ کیا۔
 کھڑکی کھولی اور گیارویں منزل سے کود گئی۔
 ماں جو بڑبڑاتی ہوئی کچن میں جا چکی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کی بیٹی اس کے ہاتھوں سے نہیں  بلکہ اس دنیا سے بھی نکل چکی تھی۔ 
 جب کافی دیر تک اسے بیٹی کا کوئی جواب سنائی نہیں دیا تو غصے میں اس کے کمرے کی طرف آئی۔
 میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتی۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا بچے کے رونے پر اس نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا.
 سارے کمروں میں دیکھا . سارے فلیٹ میں چھان مارا . لیکن اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا ۔ 
اتنی دیر میں اس کی پڑوسن بھاگتی ہوئی آئی اور زور زور سے دروازے کی گھنٹی بجائے جا رہی تھی۔
اس کے دروازہ کھولتے ہیں وہ بولی
 مادام  تمہاری بیٹی کہاں ہے؟
 اس نے کہا یہیں ہو گی۔ کیوں کیا ہوا کیا کہنا ہے اسے؟
 جا کر دیکھو نیچے کیا ہوا ۔
نیچے نیچے کیا ہوا۔۔
 اس پڑوسن کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اسے کیا کہتی ہے کہ تمہاری بیٹی کی لاش پڑی ہے نیچے۔
 اس نے کہا
 فورا نیچے جاؤ کافی دیر سے وہاں پولیس آئی ہے۔ 
  الہی خیر کہتے ہوئے 
 وہ جلدی سے لفٹ کے ذریعے نیچے اتری ۔
پہنچی تو ایک ہجوم تھا وہاں پر۔ پولیس بھی تھی۔
 اس نے کہا
 کیا ہوا 
کیا ہوا۔۔
 ایک پولیس افیسر نے اسے روکتے ہوئے کہا
 رک جاؤ
 آپ کون؟
 اس نے اپنا نام بتایا۔
 اس کی پڑوسن اس کے ساتھ تھی۔ انہوں نے کہا اسے جانے دو یہ اس کی ماں ہے۔
 پولیس نے اس کو ایک فاصلے تک جانے دیا 
لیکن یہ کیا اپنی بیٹی کی لاش دیکھ کر وہ اپنے اوسان خطا کر بیٹھی۔۔
 اف میرے خدا یہ کیا ہوا میں تو اس سے باتیں کر رہی تھی۔۔
 مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔
میں تو کچن میں اس سے باتیں کر رہی تھی کھڑے ہو کر، 
 اور یہ کس وقت کود گئی ۔۔
عظمی موقع پر ہی وہ دم توڑ چکی تھی۔
اسکی میت کو لیجایا گیا ۔ اسے غسل دیتے وقت جب ماں نے اپنی لاڈلی بیٹی اپنی پہلی اولاد کو جس نے اسے پہلی بار ماں کہہ کر پکارا اسے اس کے بدن کو دیکھا جہاں جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے ۔
وہ یہ سوچتے ہوئے غش کھا رہی تھی کہ اف خدایا میں میں اتنی بے حس کیسے ہو سکتی تھی۔ مجھے میری بیٹی کی آہیں سسکیاں سنائی کیوں نہیں دیں؟
 کیسے مجھے پتہ نہیں چلا کہ وہ ایک درندے کے شکنجے میں پھنس چکی ہے۔
 ہم ماں باپ اپنی بیٹیوں کو ایسے لاوارث کیسے چھوڑ سکتے ہیں ،
کیسے وہ اتنا ظلم اس پر کر  سکتا ہے۔
 وہ ذرا سا ہوش سنبھالنی اور پھر سے بے ہوش ہو جاتی۔
 اس کی ماں کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔
 اپنی لاٹری بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ، اس کی میت کو دیکھ کر اس کا خود مر جانے کو جی چاہا، لیکن اس کے بچے اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔
 اگر میں بھی نہ رہی ۔۔۔
اس کے شوہر نے کہا اگر تم بھی نہ رہی تو تم کیا سوچتی ہو ان بچوں کا کیا بنے گا۔۔
حوصلہ کرو۔ ہماری بیٹی نہیں رہی لیکن اس کے دوبچے ہماری گود میں ہیں ۔ انکا سوچو
  اپنی بیوی کو ذہنی اذیت کے لیئے اور اس پر گھریلو تشدد کے لیئے اس کے شوہر کو نامزد کیا گیا۔
پولیس نے اسے ڈھونڈ نکالا ۔
گرفتار کیا۔
 اس پر کیس چلا اور اسے جیل ہو گئی۔
سات سال کی جیل کاٹنے کے بعد باہر نکلتے ہی  اس نے اپنے بچوں کی کسٹڈی انکے نانا نانی سے دوبارہ حاصل کر لی ۔
نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کے نانا نانی کچھ نہ کر سکے۔ 
یہ کیسا قانون ہے بچوں کو انکی ماں کے قاتل کے حوالے کر رہا ۔

رشید نے اپنے سات اور آٹھ سال کے  بچوں کو پاکستان ایک دور دراز کے گاؤں میں لیجا کر اپنی ماں کے حوالے کر دیا۔
 اس کی ماں جو پہلے ہی اس کو یہاں سے احکامات بھیج کر چلایا کرتی تھی۔
 اس نے یہ سوچ کر وہ بچے اپنے پاس رکھ لیئے کہ بیٹا اسی بہانے ہر مہینے ایک موٹی رقم اسے بھجوانے پر مجبور رہے گا اور اس کے ساتھ بنا رہے گا۔
 گھر میں ان بچوں کی چچی بھی موجود تھی۔  یوں چچی جو رشید کی اپنی خالہ زاد تھی اور خالہ بھانجی نے جو ساس بہو بھی تھیں۔
مل کر ان بچوں کی ذمہ داری لی۔
 اسے میٹھے میٹھے سپنے دکھائے۔
 اپنا کلچر سکھانے کے بہانے، اپنی تہذیب سکھانے کے بہانے،  ان کو مسلمان بنانے کے بہانے،  انہوں نے وہ بچے اپنے پاس رکھے۔ 
سارا دن ان بچوں کے ذہن میں انکی ماں کی بدکرداری کا زہر بھرا جاتا۔
یہ معصوم بچے جو کسی کو اپنی ضرورت بھی ٹھیک سے نہیں بتا سکتے تھے لیکن ان بچوں کو اس کی ماں اور بھاوج نے لاٹری کا ٹکٹ سمجھا ۔
تھوڑے دن جب تک وہ رہا ان بچوں سے خوب لاڈ پیار ہوتا رہا۔
 اس کے بعد یہ بچے اس دور دراز افتادہ ایسے گاؤں میں جہاں ابھی تک بجلی بھی نہیں تھی اپنے بچے چھوڑ کر  آ گیا اور خود فرانس میں اپنی اسی صبح شام میں گم ہو گیا ۔
کسی نئے شکار کے انتظار میں ۔
اس نے زندگی کا آغاز کیا ۔
وہ بچے اس دور افتادہ گاؤں میں اپنی دادی اور چچی کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے رہے ۔
ان دونوں کو پورا کھانا تک نہ ملتا۔ ڈرے سہمے کسی بھی کونے میں سو جاتے۔
 سارا دن چچی اور دادی کی مار پیٹ کا شکار رہتے ہر بات پر انہیں طعنے دیئے جاتے۔
 ان کی ماں کو بھگوڑی کہا جاتا ان کی ماں کو عاشق مزاج کہا جاتا اور وہ معصوم لڑکی جو ان کے بیٹے کے ہاتھوں قبر میں جا سوئی۔ اسے گندے ناموں سے پکارا جاتا۔
 یہ بچے ذہنی طور پر دبتے چلے گئے۔
 کسی سے کھل کر بات نہیں کر سکتے تھے۔
 اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے تھے۔

وہ دونوں بچے ہسنا بھول چکے تھے۔
 آخر چھ سات سال کی فرانس میں کی ہوئی عیاشی کے بعد اسے جب لوگوں نے احساس دلانا شروع کیا کہ تم اپنے بچے کیوں نہیں بلاتے۔ شادی کیوں نہیں کرتے۔اپنا گھر کیوں نہیں بساتے۔
  اس کی ماں نے اس کا رشتہ اس کے گاؤں کے قریبی شہر میں پکا کر دیا ۔
یوں اس بار وہ پاکستان گیا تو دوستوں نے اسے صلاح دی 
 اگر تم اس بار اپنے بچے لے کر نہیں آئے، 16 سال کی عمر سے پہلے پہلے، تو یاد رکھو ان بچوں کے آنے میں مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔
 حالانکہ وہ بچے فرانس میں پیدا ہوئے ہیں لیکن بہت سے قوانین تبدیل ہوتے رہتے ہیں، تو بچوں کے لانے میں مشکل ہو جاتی ہے۔
 اس لیے بہتر ہے کہ انہیں لا کے یہاں سکول میں داخل کرواو۔
 لیکن وہ چھوٹے گھر کا ، چھوٹے علاقے کا، چھوٹی سوچ کا ایک ایسا آدمی تھا  جو اس چیز کو ہضم نہیں کر پا رہا تھا.
 کیونکہ جب وہ خود کسی اور کی بیٹی بھگا کر لایا تھا۔ اسے ہر وقت کے دھڑکا رہے گا کہ کوئی اس کی بیٹی بھگا کر نہ لے جائے۔
 مکافات عمل تو ہر وقت آپ کے پیچھے رہتا ہے۔
 لیکن بالاخر اسے شادی کا فیصلہ لینا پڑا ۔ ساری زندگی محض عیاشی پہ نہیں گزاری جا سکتی تھی۔
 اسے بھی اب گھر کا کھانا چاہیئے تھا۔ 
 بالآخر اس کی ماں کے کہنے پر اس نے نزدیک کے شہر سے ایک لڑکی کا رشتہ اس کے لیے پسند کیا۔
 لیکن وہ اس کے بچے اس کے ساتھ بھیجنا نہیں چاہتی تھی۔ بیوی کے لیئے دستاویزات بنانے کے بعد اس نے اسے اپنے پاس فرانس بلا لیا۔
 ڈیڑھ دو سال کی اسی کوشش میں اسکی ماں نے اسے بچے لے جانے سے منع کرنے کے لیے ہر زور لگایا۔ لیکن دوستوں کی بات اس کے ذہن میں سما چکی تھی ، 
کہ بچے یہاں لاؤ گے تو کئی سرکاری فائدے بھی تمہیں ملیں گے۔
 لیکن ابھی بھی وہ جب دوسری شادی کر رہا تھا تو اس کا خیال تھا۔
 میں اور بچے پیدا کر لوں گا مجھے ان بچوں کی کیا ضرورت ہے۔
 لیکن خدا کی لاٹھی بھی بے آواز ہوتی ہے۔
 جس معصوم لڑکی کی موت کی وہ وجہ بن چکا تھا اسے بچوں پہ بچے پیدا کرنے کی ایک مشین سمجھ چکا تھا۔ اب شاید قدرت اسے اس بات کا جواب دینے والی تھی۔
 دوسری بیوی شکل صورت میں اچھی تھی ۔خوبصورت تھی۔ لیکن  بیحد حاسدانہ مزاج رکھتی تھی۔
 پیرس کے نام پر وہ شادی کر کے تو آ گئی تھی لیکن وہ اس کے بچے کبھی بلانا نہیں چاہتی تھی۔
 اسے بھی اسی بات کا انتظار تھا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ یہاں اپنا گھر بنائے گی۔
 اللہ کی کرنی مہینوں پہ مہینے گزرتے چلے گئے لیکن اللہ نے ان کا دامن خوشی سے نہیں بھرا۔
 کرتے کرتے اس بات کو تین چار سال کا عرصہ گزر گیا اور اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔
 ڈاکٹرز نے جواب دے دیا 
سوری تم اولاد نہیں پیدا کر سکتی۔
 اب تو رشید کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
 اس نے جلد سے جلد پاکستان کی ٹکٹ کٹوائی اور پاکستان جا پہنچا۔
  اپنے بچے اپنے ساتھ  لیئے۔ ہر کسی کی مخالفت کے باوجود وہ انہیں مہینے بھر میں اپنے ساتھ واپس فرانس لے آیا۔
یہاں آ کر اس نے بچوں کے کو انکی عمر کے سکول میں (لازمی تعلیم کی سرکاری پابندی کے سبب) داخل کر دیا ۔
لیکن اب اس کی دوسری بیوی شاہانہ کے سینے پر یہ بچے سانپ بن کر لوٹنے لگے۔
 رشید کی بیٹی جو اب 17 سال کی ہو چکی تھی۔ وہ اتنے دکھ اپنی دادی اور چچی کے ہاتھ سے اٹھا چکی تھی اور اپنے بھائی کو اتنے ظلم سہتے ہوئے دیکھ چکی تھی کہ وہ ہر بات میں اپنا حق لینے کے لیے ہر ایک سے مقابلہ کرنے کو تیار ہو جاتی۔
 وہ دوسروں سے ہر خوشی چھین لینا چاہتی تھی ۔
اس کے منہ پر کبھی مسکراہٹ نہیں آتی تھی۔ کسی نے اسے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔
 ایک عجیب سی سختی اس کے چہرے پر تھی۔ دور سے دیکھنے پر اس کا چہرہ پتھر سے تراشہ ہوا لگتا۔
 دونوں بہن بھائی جیسے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔
 ظاہر ہے دونوں نے تکلیفیں جو ایک جیسی اٹھائی تھیں۔ دونوں کی محسوس کرنے کی حس، درد اٹھانے کی حس ، بھی ایک جیسا کام کر رہی تھی۔
 یہاں پر پڑھائی شروع ہوئی۔ اس نے شکر ادا کیا۔
 لیکن اب وہ جب بھی اسے دیکھتی اسے اپنی ماں اور  اپنی ننہیال یاد آتی۔
لیکن ماں کی موت کے بارے میں سننے کے بعد وہ اپنی ننھیال سے ملنے کے لیئے بھی تیار اس لیئے نہیں تھی کہ پہلے تو رشید انہیں ان کی طرف جانے نہیں دیتا تھا اور اگر کسی کے کہنے پر شرما شرمی جانا بھی پڑتا۔ تب بھی وہ اپنی ماں کی قتل کا ذمہ دار اپنی ننہیال کو سمجھ رہے تھے۔
 کیونکہ یہ زہر کتنے سال تک اس کی دادی اور اس کی چاچی نے ان کے کانوں میں بھرا تھا۔
 اس لیئے اس نے اپنا سارا غصہ اور غضب نکالنے کے لیے اپنی سوتیلی ماں شاہانہ کو ٹارگٹ بنا لیا ۔
 شاہانہ بھی کم نہیں تھی جو ایک رنگ کا سوٹ ایک کے لیئے آتا تو دوسری اس میں کٹ لگا کے یا استری رکھ کے بھول جاتی اور وہ اسے پہننا نصیب نہ ہوتا۔
 کبھی اٹھا کر اس کی کوئی چیز کھڑکی سے باہر پھینک دیتی ۔
کبھی ایک دوسرے کی چیزیں پھینکتے، کپڑے پھاڑتے  جلاتے ،گویا حسد کا ایک ایسا عذاب تھا جو رشید کو شام کو گھر آنے کے بعد دونوں کے فساد کی صورت میں سننا پڑتا۔
 بیٹی کو برا بھلا کہتا ہے اور کبھی بیوی کو ایک آدھ لگا دیتا۔
 لیکن یہ مقابلہ ختم ہونے پہ آتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
 آخر کار اس کے بیٹے نے بھی بنیادی پڑھائی کے بعد اپنا سکول چھوڑ دیا۔
 اور یوں زبان تو وہ سیکھ ہی چکا تھا اب  اسے آوارہ گردی میں مزہ آنے لگا۔
 اس کے لیئے پیرس کی ہوا بھی نئی نئی تھی۔
 نئی نئی اس نے موٹر سائیکل چلانا سیکھی۔
 زبان سیکھنے کے بعد وہ اپنے اپ کو بہت زیادہ خود مختار سمجھنے لگا۔
 پچھلی بندشوں کے بدلے اس نے اگلے رشتوں سے لینے شروع کیئے۔
 بہت سی بری صحبتوں کا شکار ہوا۔ جیل تک سے ہو آیا۔
  اس کی بیٹی جو ہر چیز سے بیزار ہو چکی تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے غصے کا شکار بناتی ۔
  رشید اب روز پستا تھا ۔ کبھی بیٹی کے ہاتھوں اور کبھی اپنی بیوی کے ہاتھوں۔
کئی کئی دن اپنے گھر نہیں جاتا اپنے دفتر میں ہی سوتا ہے ۔
 کیونکہ خدا نے سکون اس کی زندگی سے الگ کر دیا تھا ۔
وہ حرام حلال طریقوں سے مختلف کمپنیز بنا کر نوٹ تو بہت چھاپ رہا تھا۔
 لیکن سکون اور گھر کا بنا کھانا اس کا خواب ہو چکے تھے۔
 وہ یہی سوچتا کہ کاش وہ سکون اور گھر کے کھانے کی لذت  بھی پیسوں سے خرید سکتا۔۔۔۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔



منگل، 27 اگست، 2024

دوستا ۔ اردو شاعری

دوستا
کلام/ممتازملک۔پیرس 

ہم تیری یاد میں، کس جگہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا،  ہمیں دوستا

جستجو کے  سویرے، بسر ہو گئے
خواہشوں کی ہر اک، شام ڈھلنے لگی
دل سے آہوں کی صورت، اٹھا ہے دھواں  
آنکھ سے اشک بن کر، نکلنے لگی

ہم تو شاید یہاں، بے وجہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا ، ہمیں دوستا

مسکرانا ہماری تو، فطرت میں تھا 
اور ستانا تیری ،عادتوں کا ثمر
مسکرانا ہمارا ، قضاء ہو  گیا 
اور ستانا تیرا ، ہو گیا پر اثر

زندگی سے ہوئے، جب خفا آ گئے 
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا 

تجھکو احساس اسکا ، زرا بھی نہیں 
 بیوفائی ہے تیری،  کرامت نہیں 
جھوٹ کے پاوں ، ممتاز ہوتے نہیں 
دوستی کا نہیں سر، قیامت نہیں

خود سے آنے لگی، ہے حیا آ گئے
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا
۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 26 اگست، 2024

تبصرہ ۔ زرقا نسیم کی شاعری پر



زرقا نسیم لاہور میں رہتی ہیں۔ ایک ایسی شاعرہ جس کے کلام میں اسکے مشاہدات، اس کے تجربات اور اس کی دوسروں سے متعلق نیک خواہشات بولتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
 کہیں وہ کہتی ہیں
 وہ بھی جو میرا ذہن  تصور نہ کر سکا آنکھوں سے اپنی ہوتا ہوا میں نے دیکھا ہے

 وہ اپنی زندگی کے بہت سے صدمات کو لفظوں میں سمیٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جس کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں۔

 مت پوچھیے گزرتی ہے کیا دل پہ ہم نشیں
 ہوتے ہوئے کسی کو جدا میں نے دیکھا ہے

 زرقا نسیم کی شاعری ان کے دل سے نکلی ہوئی  ایسی آواز سنائی دیتی ہے جو سننے والے کو خود پہ گزرے ہوئے حالات پر ادراک دیتی ہے۔
 زندگی میں اپنے جیون ساتھی کے بہت جلد بچھڑ جانے کے دکھ کو وہ چاہیں بھی تو اکثر چھپا نہیں پاتیں۔
 دنیا کی بے ثباتی، حالات کی شتم ظریفی اور پھر اپنے ایک مخلص پیار کرنے والے جیون ساتھی سے جدائی ان کی تحریروں میں جا بجا سنائی دیتی ہے۔ جیسے کہ
 میری حرمت کا امانت دار ہوتا تھا کوئی
 میرے گھر کی چھت میری دیوار ہوتا تھا کوئی
یا پھر یہاں دیکھیئے

 وہ ہنس کے سارے رنج و غم اٹھاتا تھا
 میری خود داری کا اہل کار ہوتا تھا کوئی

  ایسے ہی اور بہت سے اشعار جو ان کے درد دل کو بیان کرتے ہیں۔
 ان کی روح میں سمائے ہوئے اس کرب کو بیان کرتے ہیں جو انہیں جا بجا زندگی میں کہیں اپنوں سے ملے اور کہیں اپنے جیسوں سے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کا وہ کلام جو میری نظر سے گزرا اس میں زیادہ تر حصہ اس کلام کا تھا جو انہوں نے اپنے جیون ساتھی کے نام کیا۔
 اس کے ساتھ بیتے ہوئے اچھے لمحات کو بار بار یاد کیا اور اس کے بعد گزری ہوئی تنہائی اور درد کو بیان کرتے ہوئے شاید اس درد کو اپنے اوپر بار بار گزرتے ہوئے محسوس کیا تو حلط نہ ہو گا۔
 جیسے کہ تم جو ملتے تھے مہک اٹھتی تھی میں
 رات کی رانی بھی رانی تم سے تھی
یا پھر اس میں ملاحظہ فرمائیں 

 میری سوچوں کا فقط مرکز سے تم
 میرے اس دل کی کہانی تم سے تھی

 زرقا نسیم نہ صرف ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں بلکہ بہت اچھی دوست ہیں ۔ مہمان نواز ہیں۔ اپنے بچوں کی ایک اچھی ماں ہیں۔ جنہوں نے انہیں بہترین تربیت کرنے کی ہر ممکن سعی کی اور اپنے بچوں کی کامیابی کی صورت اس کا پھل آج ان کے سامنے   ہے ۔
میری بہت سی دعائیں زرقا نسیم کے لیئے۔ اللہ تعالی ان کی اس کتاب کو بہت پذیرائی عطا فرمائے اور انہیں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین 

ممتازملک۔پیرس فرانس 
 ( شاعرہ۔ کالمنگار نعت خواں۔ نعت گو۔افسانہ نگار۔ کہانی کار۔ عالمی نظامت کار)

بیباک ادائیں ۔ اردو شاعری


بیباک ادائیں
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

اے میرے حسن کی بیباک اداؤں کے شکار 
تو نہیں جانتا کتنوں کے کیئے دل بیمار

یہ یقین ہے یا نگاہوں کی کرشمہ سازی
دوسرے اسکو نظر آتے ہیں ہر دم لاچار

سوچ کے پر کبھی آزاد نہیں ہو سکتے 
وقت کی قید نے زخمی کیئے جنکے دلدار

عارضی کے لیئے ابدی کا کیا ہے سودا
یہ حوادث کےہیں شیدائی بلا کے مکّار

عشق کے ہونٹ سلے رہنے دو اے دل والو
شور کرنے کو یہاں عقل نہیں ہے تیّار

لاکے چوٹی پہ تیرے ہاتھ اسی نے چھوڑے
جس کے کہنے پہ کیئے تو نے دل و جان نثار

ہر جگہ بِکنے کو تیار ہے ہر چیز یہاں 
اب نہ مکتب نہ ہی مسجد نہ جُدا ہیں بازار

وعظ ممتاز کسی وقت اٹھائے رکھو 
غیرت دین ابلنے کے نہیں ہیں آثار 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 24 اگست، 2024

& چاچا غیاث۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


             چاچا غیاث

وہ جب سے اس محلے میں آباد تھے۔ ان کی کھڑکی پر نشہ لینے والوں کی ایک لائن لگی رہتی تھی۔
 گھر میں ان کی بیوی بھی پڑیاں بناتی اور یہ کھڑکی کے ذریعے اسے سپلائی کرتے۔
 پورے محلے میں چاچا غیاث کی ایک دھاک تھی۔
دنیا  کہتی تھی وہ ایک منشیات فروش تھا ۔
لیکن عجیب بات تھی کبھی اس محلے کی کسی عورت، کسی بچی یا بچے  پر آنکھ اٹھا کر نظر ڈالنا بھی چاچا غیاث کے اصول کے خلاف تھا۔
 تمیز سے، نرم سے لہجے میں بات کرنے والا ،صلح جو،
 پھر وہ منشیات فروشی میں کیسے اپڑا ۔۔۔
بس ہمارے ہاں کی پولیس کا کمال کہ ایک بار کے چالان میں ان کی جیب میں دو پڑیاں ڈال کر اسے ہتکڑی لگی اور اس کے بعد اسے مجبور کیا گیا۔
 یہاں تک کہ وہ کمبل کو چھوڑتا تھا۔ مگر کمبل اسے چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔
 اسے مجبور کیا جاتا اور انکار کرنے کی صورت میں کئی کئی دن حوالات میں بند کیا جاتا۔
 مار پیٹ ہوتی۔ آخر جب جسم میں مزید سزا بھگتنے کی ہمت نہ رہتی تو اقرار کر کے پھر سے وہ غریب واپس باہر آ جاتا۔
یوں پھر سے وہ دھندا شروع ہو جاتا۔
 محلے میں جب تک چاچا غیاث رہے، اس کے باوجود کہ اس کی کھڑکی پر ہمیشہ نشئیوں کا ایک ہجوم رہتا مگر پھر بھی اس محلے کی عورتیں، لڑکیاں خود کو محفوظ  تصور کرتیں۔
کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی سامنے کی کسی بھی گلی پر یا ان کے ااڑوس پڑوس کی کسی عورت پر نگاہ ڈالتا  
جو بھی وہاں سے ، جو کچھ بھی خریدتا،  خاموشی سے سر  جھکا کر دور تک چلا جاتا۔
 آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔
 کیونکہ یہ چاچا غیاث کا محلہ تھا۔
 لوگ بدمعاشوں کو بدنام کرتے ہیں۔ لیکن وہ کیسا بدمعاش تھا ، جو اپنے محلے کی عورتوں کی چادر تھا۔
 ایک بار چاچا غیاث نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی اور کاروبار کی طرف منتقل ہو جائے گا چاہے اسے پولیس کو بھتہ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
 لیکن وہ اس گندے کاروبار سے خود کو نکالے گا۔
 جس میں جوانوں کی جوانیاں برباد ہو رہی ہیں۔
 انہوں نے  پیسوں کی سبیل کی ۔ جمع پونجی اور ادھر ادھر سے کر کے اس سے 15 یا شاید 20 بھینسیں خرید لیں ۔
ایک روز ہم بچے سکول سے واپس آئے تو محلے میں میکے کا سماں تھا ۔
 پیچھے کی خالی میدان میں انہوں نے ان کا ایک باڑا بنانے کے لئے تمبو لگائے۔
ان ساری بھینسوں کا پہلے سارے دن کا دودھ اکٹھا کیا اور شام تک وہاں دیگوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔
 بچے سکولوں سے آئے اور حیرت سے دیکھنے لگے
 گلی کے خالی میدانوں کے اندر دیگیں ہی دیگیں چڑھی ہوئی ہیں۔
 انہوں نے اپنے گھروں سے پوچھا کہ امی کیا آج گلی میں کسی کی شادی ہو رہی ہے
 انہوں نے کہا
 نہیں تو ۔۔۔پتہ نہیں 
چاچا غیاث کی طرف سے  پھر دو تین گھنٹے کے بعد لاؤڈ سپیکر پہ اعلان ہوتا ہے
 کڑیو منڈیو ونڈی دی کھیر لے جاؤ۔۔۔
 اور پھر یہ کھیر ٹوٹیوں میں نہیں بٹی بلکہ یہ کھیر لوگوں اور بچوں میں دیگچیاں دیگچے گھروں کی بالٹیاں جس کے ہاتھ جو بھی کچھ لگا وہ اپنے ساتھ لے کر گیا 
چاچا غیاث کا حکم تھا کہ کوئی کسی سے یہ نہ پوچھے کہ تم پہلے لے جا چکے ہو۔۔
 اور بھر بھر کر اس دن کی بھینسوں کا سارا دودھ 15 سے 20 بھینسوں کا سارے دن کا دودھ اس دن خیرات کیا گیا
  اس دودھ سے وہ کھیر کی بیشمار دیگیں چڑھیں۔
  ان دیگوں کے ذریعے سارے محلے کو اتنی گھیر بانٹی گئی کہ جہاں جہاں تک یہ آواز پہنچی بالٹیوں میں بھر بھر کے کھیر لوگوں نے کھائی۔
 چاچا غیاث زندہ باد
 آج تک زندگی میں اس واقعے کو شاید 30،  40 سال گزر چکے ہوں گے لیکن اس کے مقابلے پر کبھی کسی کی خیرات ایک فرد واحد کے ہاتھوں گلی محلوں میں بٹتے نہیں دیکھی۔
 نہ ہی یہ آواز دوبارہ سننے کو ملی اس محلے میں ہر ایک کے لیے لازم تھا کہ سر جھکا کر داخل ہوتا اور سر جھکا کے اکیلا کوئی بھی مرد جو اس محلے کا رہنے والا نہیں تھا داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
جب تک کہ اس سے کچھ خریدنا ہے تو سر جھکا کر آئے گا اور سر جھکا کر جائے گا۔
 پولیس کے لیے غیاث بدمعاش محلے کا چاچا غیاث کیا کمال کا انسان تھا۔
 اس کی بیٹی گلی کی لڑکیوں کے ساتھ سکول جایا کرتی ۔
دوسری تیسری جماعت کی وہ طالبہ اپنی اس دوست کے لیئے گھر سے دیسی گھی کی پنیاں بنا کر لے جاتی۔ کیونکہ محلے کی باقی بچیاں ان سے ڈرتی تھیں۔
 لیکن اس کی دوست جس کے والد بھی چاچا غیاث کو اچھی طرح جانتے تھے اور اس کی عزت کرتے تھے سوائے اس عیب کے اس میں کوئی عیب نہیں تھا کہ وہ منشیات فروش تھا۔
 لیکن وہ خود اتنے رعب دار تھے کہ محلے میں کوئی ان پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا
 کہ تم چاچا غیاث کے ساتھ دوستی میں کیوں ہو ۔
گھروں کا آنا جانا تو تھا بھی نہیں کسی کے ساتھ۔
 لیکن محلے میں باہر سے دعا سلام بہت اچھی تھی۔
 ان کی بیٹی بینو کے ساتھ چاچا غیاث کی بیٹی دل ناز مل کر سکول جاتیں۔
محلے کے کنارے پر ہی سکول تھا اور بینو کے حصے کے لیئے باقاعدہ دیسی گھی کی پنیاں بنا کر اس کا حصہ سکول میں دل ناز کے ہاتھوں جاتا ۔
دل ناز خود بھی دل کی بہت اچھی بچی تھی۔ محنتی تھی اور لائک تھی۔
 لیکن اس پر ایک ٹھپا تھا 
کہ وہ چاچا غیاس کی بیٹی ہے۔
 چاچا غیاس کے ایک عیب سے جو ان سے زبردستی کروایا جاتا۔
ان کی ہر خوبی کو داغدار کرنے کی کوشش کی جاتی۔
 کافی عرصے بعد جب بینو سکول بدل کر دوسرے سکول چلی گئی اور دل ناز اسی سارے ہنگامے میں کہیں گم ہو گئی تو پتہ چلا کہ
  15 سال کی عمر تک جب اسے میٹرک میں ہونا چاہئے تھا اس کی شادی کر کے غیاث چاچا نے اسے پولیس کے روایتی  کردار کے خوف سے اس گھر سے دور کر کیا ۔
 شاید اچھا ہی تو کیا ۔
یہاں ہوتی تو جانے کون کون اس پر کیا نظر ڈالتا ۔
لوگ اس کی کبھی شادی نہیں ہونے دیتے ۔
اس لیے انہوں نے انتظار نہیں کیا۔ خاموشی سے اس کا نکاح کر دیا ۔
 اسے رخصت کر دیا ۔
حالات بھی انسان کو کس کس نہج پہ کیسے کیسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔
چاچا غیاس کا یہ فیصلہ یقینا اپنے وقت اور اپنے حالات کے لحاظ سے بہت مناسب تھا۔
 اپنی بیٹی کی حفاظت کے لیئے یہی بہتر تھا۔
 بڑا بیٹا جو ویسے ہی سکول سے بھاگ چکا تھا۔
 ان سارے حالات اور لوگوں کی باتوں پر  چاچا غیاث اپنی شرافت بھی نہیں چھوڑتا تھا  نہ وہ پورا بدمعاش بن پاتا نہ پوری طرح شرافت میں آسے آنے دیا جاتا. 
 اس کے دل کا شریف آدمی اس کے نفس کا شریف آدمی اسے لتاڑتا رہتا۔
 پھر ایک روز معلوم ہوا 
چاچا غیاث خاموشی سے اپنا گھر بیچ کر اپنی دوسری چھوٹی بیٹی 12 13 سال کی راشدہ کو  اپنے پڑوس میں آباد اپنے بھائی کے بیٹے کے نکاح میں دے کر خود خاموشی سے وہ گلی چھوڑ گئے ۔
وہ کہاں گئے
 شاید یہ ان کی اپنی بیٹیوں کو بھی معلوم نہیں تھا
 لیکن وہ اب مزید اس کیچڑ میں لت پت نہیں رہنا چاہتے تھے ۔
 چاچا غیاث آج بھی یاد آتے ہیں۔
 بڑے اچھے لفظوں کے ساتھ جھکی ہوئی نظریں دھیمہ لہجہ۔
ہر بیٹی کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھنے والا چاچا غیاث۔
کاش ہمارے ذہنوں میں بدمعاش کا جو تصور ہے۔ آج کا بدمعاش جس گندگی میں لتھڑا ہوا ہے۔
 انہیں پتہ چلے کہ جب باعزت لوگ بدمعاش کی سیٹ پر بیٹھتے تھے تو وہ اپنی محلے کے پہرا دار بن جاتے تھے۔
 اپنے محلے کی عورتوں اور بچوں کے محافظ بن جاتے تھے۔ عورتوں کی عزتوں کے رکھوالے بن جاتے تھے۔
 چاچا غیاث ایک ایسی شخصیت جن پر جتنا جانا جائے کم ہے لیکن وہ جب یاد آتے ہیں۔
عزت سے محبت سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/