کمی محسوس ہوئی
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)
تارکین وطن کا پی ائی اے سے شکایات اپنی جگہ پر، سالہا سال اس کے خلاف شکایتوں کے انبار اکٹھے کے کیئے جاتے رہے اور ان میں سے بہت ساری شکایتیں یقینا درست بھی تھیں، انتظامیہ کے بارے میں شکایتیں ، سٹاف کا رویہ، پھر کئی بار اوور ٹکٹنگ، جتنی سیٹس ہیں، اس سے زیادہ ٹکٹوں کا بیچ دیا جانا، کئی بار کرایوں کے اضافوں پر شور اور بھی بہت ساری شکایتوں کے ساتھ پی آئی اے پاکستانیوں کے لیے کئی دہائیوں سے اپنی فضائی خدمات سرانجام دیتی رہی۔ پھر ایک ایسی حکومت آئی جس نے خود اپنے ہی ملک کی بہترین ایئر لائن کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کروا دیا ۔ انہیں نکما ثابت کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔ 40 40 سال سے جہاز اڑانے والے پائلٹس کو بے ہنر اور بے ڈگری قرار دے کر پی ائی اے پر تالے لگا دیئے گئے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ہر طرف سے فارغ ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی ۔ دنیا بھر سے پابندیوں کا شکار ہو کر بین کر دی گئی۔ اور پی آئی اے کے خلاف یہ سازش کسی غیر ملکی طاقت یا خفیہ ہاتھ نے نہیں کی بلکہ اس کے لیئے اپنے ہی گھر کی کالی بھیڑوں نے بھرپور کردار ادا کیا ۔ لیکن کچھ عرصے سے جب پاکستان کا سفر کرتے ہوئے ان ڈائریکٹ فلائٹ سے آنا ہوا تو یقین مانیئے گھر سے چل کر اپنے گھر تک پہنچنے میں 22 سے 24 گھنٹے جن میں سے چار چار گھنٹے ایئرپورٹس پر چیکنگ کے بہانے، پاسپورٹ کنٹرول اور دوسری اسی قسم کے کاموں میں کھڑے رہ رہ کر جب آپ کے ہاتھ پاؤں سوج ہے ، جب آپ کے اوسان خطا ہونے لگتے ہیں، جب آپ کے اعصاب جواب دے گئے تو اس وقت پی آئی اے بڑی شدت سے یاد آئی۔
یہی سفر ہم 8 سے 10 گھنٹے میں طے کیا کرتے تھے۔ تو کبھی ہم اس کے کھانے پر شکایت کرتے تھے، کبھی ان کے سٹاف کی بری کارکردگی، کام چوری اور جاتے ہی کھانا پانی بانٹ کر چھ گھنٹے تک چپ کر کے جا کر سو جانے پر اور پانی تک نہ پوچھنے پر ہم سب تڑپا کرتے تھے۔ لیکن سفر کی یہ صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ پی ائی اے کی وہ غلطیاں جو درست کی جا سکتی تھیں، ان غلطیوں کو اتنے بڑے ملبے کے نیچے دبا کر اس ملک کے کروڑوں تارکین وطن کو بدترین اذیت کا شکار کر دیا گیا۔ آٹھ گھنٹے سے دس گھنٹے میں ہونے والا سفر 15 سے 22 اور 24 گھنٹے پر محیط ہو گیا۔ یہ ایک تکلیف دہ سفر ہوتا ہے ۔ یا تو آپ سیٹ کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں یا لائنوں میں چلتے جا رہے ہیں یا پھر آپ کھڑے کھڑے اپنی ٹانگوں کا امتحان لے رہے ہیں۔ اپنی برداشت کو آزما رہے ہیں۔ نیند سے بے حال۔ اور ایسے میں اگر آپ نے غلطی سے بھی اپنے ساتھ کچھ سامان فالتو رکھنے کی کوشش کی تو گویا آپ نے اپنے آپ کو بالکل ہی تھکا ڈالا ۔ کوشش کیجیئے اپنے ساتھ دستی سامان کم سے کم رکھیں۔ ایک ٹرولی سے زیادہ اپنے ساتھ کچھ نہ رکھیں اور اس میں بھی صرف وہ چیزیں رکھیں جو آپ کو فوری ضرورت پڑ سکتی ہیں۔ مرد تو پھر بھی اس بات کا خیال رکھ لیتے ہیں لیکن خواتین اور بچے جن کے ساتھ ہم کسی بھی لالچ میں سامان کو لاد دیتے ہیں۔ ہاتھ کا سامان، پشت پر لدا ہوا سامان اور کئی بار ہم کپڑے اور بھاری کپڑے یا کچھ اور چیزیں بچوں کے اوپر یا خواتین اپنے اوپر صرف وزن کو تقسیم کرنے کے لیئے لاد لیتی ہیں جو کہ بے حد تکلیفدہ ہو جاتا ہے۔ کئی مراحل پر بچوں کو پریشانی سے تڑپتے ہوئے دیکھا۔ لائنوں میں گھنٹوں گھنٹوں کھڑے رہنے والے بچے جو اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کوٹ اور دوسرے ملبوسات تک سے تنگ تھے۔ پسینہ بہہ رہا ہے، لیکن ماں نے وہ کوٹ اس لیئے پہنا رکھا ہے کہ اسے سنبھالیں کیسے ، اسی طرح سے ماؤں نے کئی بار کچھ کوٹ، کچھ بھاری شالز موسم ہے یا نہیں ہے یا کچھ اسی قسم کی چیزیں اپنے اوپر لاد لی ہوتی ہیں، تاکہ اگر وزن میں رکھیں گی تو وہ گنی جائیں گی، اور یوں وہ اس وزن کو آرام سے تقسیم کر سکیں گی۔جبکہ یہ آرام عذاب بن جاتا ہے۔ مرد تو ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ اٹھاتے ہیں یا ٹرولی لیتے ہیں اور آرام سے نکل جاتے ہیں۔ اچھا کرتے ہیں، لیکن خواتین اسی لالچ میں کہ کچھ زیادہ سے زیادہ چیزیں، زیادہ سامان اپنے ساتھ لے جا سکیں اکثر اپنے لیئے اپنے بچوں کے لیئے اور اگر وہ اکیلے سفر کر رہی ہیں تو بے حد پریشانی مول لے لیتی ہں۔ کہیں لمحے بھر کو رکنے یا بیٹھنے کی فرصت ملے تب بھی وہ اپنے سامان کی طرف سے فکر مند رہتی ہیں ۔ گم نہ ہو جائے، کچھ ٹوٹ نہ جائے سوچ کر وہ سفر کا لطف کسی بھی مرحلے پر نہیں لے پاتیں۔ اس دورے میں یاد آیا کہ پی ائی اے جو ایک جگہ سے بیٹھنے کے بعد دوسری جگہ اپنی منزل پر ہی اتارتا ہے اور آرام سے ہم اپنے ساتھ کا سامان وہاں تک پہنچا لیتے ہیں۔ تھوڑی سی زحمت کے ساتھ۔ لیکن ان ڈائریکٹ فلائٹس میں یہ کتنا بڑا عذاب بن جاتا ہے۔ سنا ہے پی آئی اے کو سدھار کر پھر سے عوامی خدمت کے لیئے لانے کی خبریں گرم ہیں ۔ یہ تو کئی ماہ سے گردش میں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آنے والا جنوری 2025 پی ائی اے کی کامیاب اڑان کی نوید لے کر آئے گا اور اوورسیز کے لیئے یہ بہت بڑی خوشخبری ہوگی۔ ان شاءاللہ۔ کہ ہماری اپنی ایئر لائنز کچھ اچھی سروسز کے ساتھ وہ تمام چھوٹی چھوٹی شکایتیں جو ہمارے لوگوں کو تھیں ان سب کو دور کرتی ہوئی پھر سے دنیا میں ایک بہترین سروس دیتی ہوئی مناسب کرائے کے ساتھ ہمیں پھر سے مہیا ہوگی۔ وہ سفر یادگار ہے جو اپنوں کے ساتھ ہے۔ جس کا ہمیشہ سے دعوی رہا ہے "باکمال سروس لاجواب لوگ" اور ہم انتظار کر رہے ہیں کہ پی آئی اے پھر سے ہوا بازی کے میدان میں آئے فضائی میزبانی کی بہترین مثالیں پیش کریں۔ بہت سال ہو گئے جہاز میں قدم رکھتے ہوئے ستار پہ بجتے ہوئے پاکستانی دھنوں کو سنتے ہوئے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے چہرے دکھائی نہیں دیئے۔ باقی سبھی ائیر لائنز بہت اچھی ہیں لیکن ہمارے اپنے وطن کی سروس، اپنی زبان اپنے میزبان ، اپنا ماحول کئی سال سے ہمیں میسر نہیں اور ہم اس کے لیئے ترس رہے ہیں۔ فالتو کی مشقتیں ہم جو بھگت رہے ہیں اب اس کا ازالہ ہونا چاہیئے۔ بہت ساری دعاؤں اور اچھی امیدوں کے ساتھ ہم پی ائی اے کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ مسافروں کی یہ پریشانی، طویل سفر میں ہونے والی یہ خواری، بے آرامی یقینا شاید ہماری بھی سزا تھی ہم نے اپنی ایئر لائن کو درست کرنے کے بجائے اس کی رہنمائی کرنے کی بجائے ہمیشہ اسے بد سے بدترین قرار دینے کی کوشش کی اور اس کی سزا شاید پروردگار نے ہمیں یہ دی کہ ہمیں اس سے محروم کر دیا ۔ جب ہم کسی چیز کی حد سے زیادہ ناشکری کرتے ہیں تو خدا اسے ہم سے دور کر دیتا ہے، کیونکہ ناشکری نعمتوں کو گھٹا دیتی ہے۔ ہماری نعمتیں ہم سے چار سال سے چھن چکی ہیں لیکن اب پروردگار پھر سے ایک نئی راہ دکھا رہا ہے۔ پی ائی اے پھر سے میدان میں آ رہی ہے۔ انٹرنیشنل فلائٹس کے لیئے، یورپ کے لیئے۔ ہماری دعائیں ہماری پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے ساتھ ہیں ۔ سفر کی تکلیفدہ یادوں کو یہ سوچ کر کم کیجیئے انشاءاللہ اپنی ایئر لائن ان تکلیفوں سے بچائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔