ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 13 نومبر، 2019

لٹیرے معالج/کالم

     لٹیرے معالج 
(تحریر: ممتازملک.پیرس)
پاکستان میں جہاں اور بہت سے شعبوں میں زبوں حالی کا دور دورہ ہے تو وہیں کئی ایسے پیشے بھی اس تباہی کا شکار ہو چکے ہیں جن کا مقصد خالصتا انسان کی فلاح و بہبود پر مبنی تھا ۔ جیسے کہ ایک  شعبہ طب یعنی مسیحائی ۔ ایک معالج اپنی تعلیم اور تربیت کے کئی مراحل میں انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کی قسمیں  کھاتا ہے ۔ لیکن معالج یعنی ڈاکٹر بنتے ہی اس میں نجانے کہاں سے ایک قصاب کی روح  بیدار ہو جاتی ہے ۔ وہ ایک کاروباری کی طرح ایک بیمار کو اپنا گاہگ بنا لیتا ہے ۔ جس کی نظر صرف گاہگ کی جیب پر ہوتی ہے ۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنی پڑھائی کے خرچے کے بدلے لوگوں کی کھالیں اتار کر فروخت کرنا شروع کر دے ۔ تو دھوکے سے معصوم  اور لاچارلوگوں کو نام نہاد بیماریاں بتا بتا کر  انکے جگر ، گردے، آنکھیں اور جانے کیا کیا بیچنا شروع کر دیتا ہے ۔ مسیحا نما یہ قصاب اپنے سٹیٹس کو کے لیئے ، اپنے معیار زندگی کی بلندی کے جنون میں انسانوں کیساتھ قربانی کے دنبوں جیسا سلوک کرتا ہے ۔ نہ انہیں تڑپتے ہوئی ماوں کے ہاتھوں دم توڑتے بچے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اولاد کو جنتی ہوئی موت کی آغوش میں جاتی ہوئی ماں دکھائی دیتی ہے ۔ نہ اسے جوان لوگوں کے ہاتھوں ان کی زندگی کی ڈور چھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے نہ ہی بوڑھوں کی اذیت کا کوئی احساس ہوتا ہے ۔ وہ ہے تو بس ایک دکاندار ۔ مال دو تال لو ۔ 
منہ پھاڑ کر  بیماری پر مریض سے یوں لاکھوں روپے مانگے جاتے ہیں جیسے وہ مریض کا علاج نہیں کر رہے بلکہ کسی مشین کے پرزے خرید کر دے رہے ہیں جس کے ساتھ اسے بس ایک ہی بار میں تاحیات کی ضمانت مل جائے گی کہ اب وہ نہ کبھی بیمار ہو گا اور نہ یہ پرزہ ناکارہ ہو گا ۔ لاکھوں روپے کے تقاضے وہ لٹیرے ڈاکٹر تو اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں ۔ جو صبح کا وقت سرکاری ہسپتالوں میں دلاسے بانٹ کر حرام کی تنخواہ جیب میں ڈالتے ہیں تو شام کو ذاتی مطب یعنی پرائیویٹ کلینکس پر جا کر  مسکراہٹیں بانٹتے اور لاکھوں کا ٹیکہ لگا لگا کر شفا بانٹتے نظر آتے ہیں صرف مشاورت کا وقت لیکر  دو چار منٹ مریض سے ملنے کے عوض ہزاروں روپے فی کس وصول کیئے جاتے ہیں ۔ چاہے مریض کا علاج محض دس روپے والی ڈسپرین کی گولی ہی کیوں نہ لکھ کر دینی  ہو ۔ اپنے کاونٹر پر ایڈوانس میں ہزاروں روپے جمع کروا چکا ہوتا ہے ۔  ایسے میں سرکاری ہسپتال میں رلتے کھلتے غریب مریضوں کو بس دلاسوں کی خوراک دیکر ہسپتال کی راہداریوں میں دوڑا دوڑا کر موت کی میراتھن میں جبرا شامل رکھا جاتا ہے جب تک کہ اس کا دم نہ نکل جائے ۔ صرف اس لیئے کہ سرکار کا خزانہ اپنے وزیروں سفیروں کو اندرون و  بیرون ملک علاج کے نام پر موج کروانے پر خرچ ہو جاتا ہے تو بیت المال سے علاج کے لیئے کارڈ بنوانا اور اس پر دوا وصول کرنے والے کو اس قدر ہتک آمیز نگاہوں اور رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا معاشرتی طور پر  ایسا اشتہار لگایا جاتا ہے جیسے اس کی کم حلال  آمدنی اس کے لیئے ایک سنگین جرم بن چکی ہے جبکہ دوسری جانب بیشمار حرام کی کمائی والوں کو اٹھ اٹھ کر سلام کرنا اور اپنی خدمات پیش کرنا ان دکاندار کاروباری ڈاکٹروں کے ایمان کا حصہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معالجین کی کمائی پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کی مشاورت کی فیس کی حد مقرر کی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی حاضری اور موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ کمائی کی اندھی دوڑ میں انہیں انسانیت کا سپیڈ بریکر دیکھنے پر مجبور کیا جائے۔ 
ہمارے جیسے ممالک میں باقی عوام پر بھی عموما اور  ڈاکٹر پر  خصوصا ایک وقت میں ایک ہی گھر کی ملکیت رکھنے کی پابندی لگائی جائے۔ بے تحاشا دولت اکٹھی کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ نصاب تعلیم میں قرآنی اسباق کے حقوق العباد کے حصوں کو بطور مضمون ہر بچے کو بچپن ہی سے پڑھایا جائے ۔ تاکہ کل یہ بچہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائے تو جسم و جان کا سوداگر بن کر نہ جائے بلکہ ایک بہترین راہبر ، رہنما، ماہر ، اور معالج بنکر جائے۔ اسے معلوم ہی نہیں یقین بھی  ہو کہ زندگی ضرورت کے دائرے میں رہے تو عزت بھی دیتی ہے اور سکون بھی ۔ جب یہ تعیش کے بھنور میں داخل ہو جاتی ہے تو نہ اس میں ہوش رہتا ہے، نہ ہی قرار۔ دولت اتنی ہی کمائی اور اکٹھی کی جائے جو آپ کی زندگی کو عزت سے بسر کرنے کو کافی ہو۔ ورنہ لالچ کا منہ واقعی صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔ اور یقینا ہر مریض کی طرح ہر معالج کو بھی ایکدن موت کا مزا ضرور چکھنا ہے ۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ: یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی۔)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/