ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 30 مئی، 2022

● فوری اور ضروری قانون سازی/ کالم

فوری اور ضروری قانون سازیاں
تحریر: 
(ممتازملک ۔پیرس)


25 مئی 2022ء  کو پاکستان میں ہونے والے ایک سیاسی جماعت کے تماشے نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔ عوامی و سرکاری املاک اور انسانی جانیں اس قدر سستی ہیں کہ جس کا جی چاہے دو چار ہزار جرائم پیشہ افراد کو لاکر جلاو گھیراو کریگا اور سپریم کورٹ کے ججز اس کے سامنے بچھتے چلے جائیں گے۔ اس کا فیڈر بنانا شروع کر دینگے۔ ان ججز کو جواب دینا پڑیگا کہ وہ اس عہدے پر اس قوم کو انصاف مہیا کرنے کے لیئے آئے ہیں یا کسی کی جماعت بنکر اسے خوش کرنے کے لیئے؟
کیا ان ججز کے نامناسب اور غیر حقیقی  فیصلوں نے ہی اس قوم کو آج کے حالات تک نہیں پہنچایا ؟ ان کو اتنا ہی شوق ہے سیاست کرنے کا تو ججز کے عہدے چھوڑیں اور کھل کر سیاست کریں قاضی جیسے محترم اور معتبر عہدے کو بدنام تو نہ کریں ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت  یا حکومت اس بات کا حق نہیں رکھتی کہ وہ عوامی مفادات اور ملکہ سالمیت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھائے ۔  
حکومت وقت فوری قانون سازی کرے کسی بھی شہر میں آبادی میں کسی بھی قسم کا سیاسی اور مذہبی جلسہ جلوس دھرنا بین کر دیا جائے۔ ہر شہر سے باہر کچھ زمین ان مقاصد کے لیئے مختص کر دی جائے۔ پھر کوئی وہاں جتنے دن بھی اپنے احتجاج ریکارڈ کروانا چاہے، بیٹھنا چاہے،  لیٹنا چاہے اس بات کی اجازت لیکر کرے۔ لیکن ملکی سرکاری  اور عوامی املاک کو نقصان پہچانے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دیکر نمونہ عبرت بنایا جائے۔ 
عدلیہ اور افواج پاکستان  کو حکومتی کاموں میں مداخلت سے باز رہنے کا حکم باقاعدہ قانون بنا کر  دیا جائے ۔
پرویز خٹک نے جس طرح وزیر اعلی کے بجائے عمرانڈوز بنکر پنجاب اور اسلام آباد پر چڑھائی اور قتل عام کا پروگرام بنایا اس کا زور ان کی بارود اور اسلحے کی بھری ہوئی گاڑیاں پکڑ کر کسی حد تک حکومت نے توڑ تو دیا لیکن اب اس کی جانب سے اعلان جنگ کا بھرپور جواب دینے کے لیئے ایسے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا جائے۔ ان کے سرکاری عہدے ان سے واپس لیئے جائیں۔ انکے خلاف غداری ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیئے جائیں اور فوجداری قوانین ان پر لاگو کیئے جائیں ۔ 
ایسے حالات میں  صوبوں کے بارڈرز سیل کرنے کا حکم دیا جانا چاہیئے ۔ یہ ملک کسی کے باپ کا اکھاڑہ نہیں ہے کہ یہاں کے عوام کی جانیں اور املاک ایسے ملک دشمنوں  کے لیئے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی جائیں ۔ لہذا سپریم کورٹ اور فوج اس جماعت اور اس کے لیڈر کی نیپیاں بدلنا بند کرے اور پاکستان اور پاکستانی عوام کے حق میں عدل کرنا سیکھے۔ اور اگر ہمارے ججز اور جرنیل اس قابل نہیں ہیں تو استعفے دیں اور جا کر اپنے لوٹے ہوئے خزانوں کے بل پر بنے محلوں میں عیش کریں ۔ خدا کے لیئے پاکستان کو تجربہ گاہ بنانے سے توبہ کر لیں کیونکہ الحمداللہ پاکستان کا برا چاہنے یا کرنے والوں کے مقدر میں صرف اور صرف ذلت اور رسوائی ہی آئی ہے۔ 
                  ●●●

منگل، 24 مئی، 2022

● ◇ فتنہ/ نظم/ جا میں نے تجھے آزاد کیا

فتنہ

اے فتنہ پرورو تم کو 
حساب ان سارے فتنوں کا 
خود اپنے گھر میں دینا ہے

یہ شر جتنا بھی پھیلے گا
لہو جتنا بہاو گے 
تم اپنے منہ کی کھاو گے

جو پوری نسل کو برباد کر دے 
عالمی سازش کا قصہ ہے 
یہ کاذب اس تباہی کا بڑا مذموم حصہ ہے۔۔۔۔
               ●●●
کلام:(ممتازملک۔ پیرس)

جمعرات، 19 مئی، 2022

جوش/ کوٹیشنز

              جوش

جوش اصل میں  وہ لمحہ ہے جس میں جس کے پاس جو ہوتا ہے اس کا بہترین باہر نکل جاتا ہے جیسے دودھ ابلتا ہے تو اپنی ساری ملائی اور کریم باہر گرا دیتا ہے جبکہ گٹر جب ابلتا ہے تو اپنا سارا کوڑا باہر نکال دیتا ہے ۔
 انسان کی پہچان بھی اسکے  غصے اور جوش کے وقت ہی ہوتی ہے۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
     (ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 14 مئی، 2022

پہچان/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


         پہچان


انسان پہچان کے گھر میں  اپنی گفتار کے دروازے سے داخل ہوتا ہے اور کردار کے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک۔پیرس)

دریچہ ادب پاکستان عالمی مشاعرہ


14مئی 2022ء
دریچہ ادب پاکستان 







√ مختصر تعارف ۔ ممتازملک



      مختصرتعارف  
      (ممتازملک۔پیرس)              

💛پیدائشی نام۔ ممتازملک 
💚قلمی نام۔ ممتازملک
💛تخلص۔ ممتاز 
💚ولد ۔ ملک خالد لطیف (مرحوم/ 23/12/1996)
💚والدہ۔ خورشید بیگم (مرحومہ/ 21/3/1999)
❤پیدائش ۔ 
راولپنڈی ،پاکستان 
💛تاریخ پیدائش۔ 
22 فروری 1971ء 
❤سکولنگ۔ 
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 2 ۔ مری روڈ راولپنڈی 
ٹاہلی شاہاں کے سامنے ۔ 
💔تعلیم۔
ایف اے ۔ بی اے پرائیویٹ ۔ 
مختلف ڈپلوماز 
💕ازدواجی حیثیت ۔ شادی شدہ۔ 7جنوری 1996ء
😍بچے۔ 3
دو بیٹیاں۔ ایک بیٹا
🧡ہجرت
7مارچ 1998ء سے فرانس میں مقیم ہوں.
💚میرے شعبہ جات ۔
پیرس فرانس  میں 1998ء سے لیکر 2014 ء تک  بحیثیت استاد ، 
 سماجی خدمتگار ، جنرل سیکرٹری۔ سٹیج سیکرٹری ، نعت خواں، منتظم  ایک مذہبی ادارے کیساتھ منسلک رہی ۔ 
💛2010 ء سے میں باقاعدہ شاعری اور لکھانے لکھانے کے ساتھ منسلک ہو گئی۔ اور اپنی پہلی شعری تخلیق بنام "مدت ہوئی عورت ہوئے" سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا ۔ 
❤️میں شاعرہ , کالمنگار , لکھاری, نعت خواں ہوں ۔
❤️2007ء میں راولپنڈی سے گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ سے بیوٹیشن کا باقاعدہ ڈپلومہ کیا ہے۔ 
❤️میزبانی
ٹی وی ہوسٹ(ondesi tv) 
 آن دیسی ٹی وی (ویب ٹی وی ۔ فرانس )  کی میزبان اور لکھاری۔ 
اس  پروگرام کی 29 اقساط یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہے ۔ جس میں مختلف سماجی اور اخلاقی موضوعات پر آسان ترین زبان میں ایک عام انداز فکر میں اصلاح معاشرہ کے نقطہء نظر سے بات کی گئی ہے ۔۔
💜 عملا
 سوشل ورکر ہوں۔
💚مصروفیات ۔ 
گھرداری، ویب ٹی وی ہوسٹنگ ( ondesi tv)
تربیتی لیکچرز دینا، پروگرام ہوسٹنگ ، شاعری،  کالمنگاری، کوٹیشنز لکھنا، نعت خوانی ، افسانے اور کہانیاں لکھنا ۔ عالمی مشاعروں کی نظامت و نقابت 
💖مجھے تلاش کیجیئے
اردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ "ریختہ "اور "اردو پوائنٹ" پر بھی میرا کلام موجود ہے ۔  فیس بک ۔ ٹک ٹاک ۔ یو ٹیوب ، گوگل ، انسٹاگرام ، ٹیوٹر بھی بھی مجھے ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔ 
💖تخلیقات۔
اب تک میری8 کتابیں شائع ہو چکی ہیں .
1- اردو شعری مجموعہ 
مدت ہوئی عورت ہوئے
 (2011ء)
2- اردو شعری مجموعہ 
میرے دل کا قلندر بولے 
 (2014ء)
3- کالمز کا مجموعہ 
سچ تو یہ ہے 
 (2016ء )
4- اے شہہ محترم 
(صلی اللہ علیہ وسلم) 
 نعتیہ مجموعہ کلام (2019ء)
5- "سراب دنیا " 
اردو شعری مجموعہ کلام (2020ء).
6. "او جھلیا "۔ 
پنجابی شعری مجموعہ کلام ۔ (2022ء)
7- "لوح غیر محفوظ" ۔
 مجموعہ مضامین (2023ء)
8۔ "اور وہ چلا گیا" ۔  
اردو شعری مجموعہ کلام (2024ء)

زیر طبع کتب: 8
 الحمداللہ  اس وقت 80 سے زیادہ ویب نیوز  سائیٹس پر میرے کالمز شائع ہو رہے ہیں جن میں 
جنگ اوورسیز ، ڈیلی پکار ، دی جائزہ ، آذاد دنیا،  عالمی اخبار ، اور بہت سے دوسرے شامل ہیں ۔ 
💚فرانس کے شہر پیرس میں پاکستانی خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب "  کی بانی اور اس کی صدر بھی ہوں ۔ 
💐 اعزازات ۔ 
 میری کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔ 
1 مقالہ بی ایس کے طالب علم مبین  نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے لکھا ۔سراب دنیا پر
1۔ دھن چوراسی ایوارڈ 
 چکوال پریس کلب 2015ء/
2۔حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
3۔کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
4۔ دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
 5۔عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
6۔ الفانوس ایوارڈ 2022ء/ گوجرانوالہ 
گلوبل رائیٹرز ایسوسی ایشن اٹلی۔ سند سپاس ۔ اکتوبر 2023ء
گلوبل رائیٹرز ایسوسی ایشن اٹلی ۔
شیلڈ 
 فروری 2024ء
  اور بہت سے دیگر اسناد۔۔۔۔
💙 بلاگر ہوں ۔ 
  انٹرنیٹ پر  ہمارا بلاگ سائیڈ آپ کے لیئے تمام شائع مواد مفت پیش کرتا ہے .
MumtazMalikPairs.BlogSpot.com
            ------
میری ویب سائیٹ 
MumtazMalikParis.com
             -------
میرے آفیشل پیجز فیس بک پر 
ممتازملک۔ پوئٹس
https://www.facebook.com/profile.php?id=100050262589168
             ۔۔۔۔۔۔۔
ممتازملک آفیشل کا لنک
https://www.facebook.com/profile.php?id=100050310646875
                   ۔۔۔۔۔۔۔
ممتازملک فیس بک پیج کا لنک
https://www.facebook.com/mumtaz.malik.714
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا ڈاک کا پتہ۔ پوسٹل ایڈریس
Mumtaz Malik
79avenue de Rosny
93250 Villemomble
Paris France
           ---------
برقی پتہ ۔ میلنگ ایڈریس
MumtazMalik222@gmail.com  
                  ●●●

جمعہ، 13 مئی، 2022

* گھر کر دو/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


                گھر کر دو 
کلام:
(ممتازملک ۔پیرس)

تھک چکی یوں یوں دربدر ہو کر
تم میرے نام کوئی گھر کر دو

تھوڑی عزت وقار دے پاو 
چاہتوں کا یہی نگر کر دو

گر صلہ کوئی دینا چاہو تو
اب مکمل میرا سفر کر دو

موت جیسی حیات کیا کرنی 
زندگی سے قریب تر کر دو

دیر اب بھی نہیں ہوئی کم تو
فاصلے سارے مختصر کر دو

چھوٹ جائے نہ منزل امید
اپنے قدموں کو تیز تر کر دو

جس جہاں میں نہیں سوا غم کے
اس سے ممتاز بے خبر کردو
                 ●●●             

● محبت لفاظی نہیں عمل / کالم


محبت لفاظی نہیں عمل 
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

مجھے ماوں کیساتھ ہونے والی زیادتیوں پر اکثر مردوں سے سننا پڑتا ہے کہ  ایسی بات نہیں ھے ماں کے قدموں میں جنت ھے بدنصیب ھے وہ انسان جو اپنی ماں کی خدمت اور احترام نہ کرے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا  صرف احترام سے ہی پیٹ بھر جاتا ہے ؟ بدن ڈھک جاتا ہے؟ دوا مل جاتی ہے؟
یہ تو وہی بات ہوئی کہ کسی کے سامنے سات رنگ کے پکوان پروس دیئے جائیں لیکن اس کے ہاتھ اور منہ باندھ دیا جائے۔کس کام کے پھر یہ پکوان اس بھوکے کے لیئے؟
جب بھی اپنی ماں اور اپنے بچوں کی ماں کے سر پر اس کے اپنے نام کی چھت کا مطالبہ کیا جائے تو 
کمال کا جان چھڑاو جواب ملتا ہے ہمیشہ کہ جناب سب کچھ اسی کے لیئے تو ہے ۔ جبکہ سوال وہیں قائم رہتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے فیصد اپنی بیویاں یا اپنی مائیں ایسی ہیں جن کے سر پر ان کے اپنے نام کی چھت ہے؟ کچھ نے کہا کہ 
 گھر اسے ہمارے باپ نے دے دیا تھا ۔ سوال پھر وہیں کا وہیں ہے کہ اپنے نام سے اس بیچاری کو کیا ملا؟ تمام عمر کی قربانیوں کے بدلے کبھی باپ کا گھر پھر میاں کا گھر پھر بیٹے کا گھر ۔ وہ تو  ہمیشہ غیر محفوظ اور خالی ہاتھ  ہی رہی۔  
سچ تو یہ ہے کہ محبت لفاظی نہیں عمل کی متقاضی ہے۔ 
سو جس ماں کے قدموں میں آپکی جنت ہے۔ اس کے سر پر اس کے  اپنے نام کی محفوظ چھت کیوں نہیں ہو سکتی؟
پھر مجھے (نہ جانے کیا سمجھ کر) پاکستان میں عورت اور خصوصا ماں کے رتبے پر بلند و بانگ دعوے سنائے جاتے ہیں ۔ اس کی عزت و وقار کے گن گائے جاتے ہیں ۔ تو عرض یہ  ہے کہ میں بھی اسی پاکستان سے آئی ہوں ۔ ہر کلاس کی عورت کو جانتی ہوں اور ان کی اس پرسنٹیج کو بھی ۔ جہاں بیٹیاں قران سے  بیاہنے والے جائیداد بچانے  کی فکر لیئے بیٹھے ہیں ۔ 
بھائی بہنوں کی جائیدادیں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ باپ بھائی بیٹی کو جہیز دیکر اس کے حصے کی شرعی ملکیت دبا جاتا ہے۔ بیوہ بھابیوں کا مال ان کے دیور جیٹھ ملائی سمجھ کر کھا جاتے ہیں ۔ مائیں گھروں میں بچے پلوانے تک نوکروں جیسی حالت میں رکھی جاتی ہیں  ۔یہ ہے ہماری نوے فیصد اصلیت ۔اس سے نظر مت چرائیں پلیززز۔ مانیں گے مرض
 تو ہی علاج کر پائیں گے اسکا ۔۔
والدین کا گھر صرف باپ ہی کے نام تھا نا۔ کتنے ہیں جن کی اپنی بیوی یا اپنی ماں کے نام کوئی گھر ہے؟
ڈرامے بازی نہ کریں تو  حقیقت کی زمین پر بیچاری گود سے گور تک دوسرے کے گھروں میں در بدر ہی رہتی ہے یہ ہے سچ۔۔۔
ایک بڑا اچھا نقطہ اٹھایا گیا کہ اگر ماں یا باپ کے نام کوئی گھر خرید کر دیا جائے تو باقی سارے مفت خورے بہن بھائی اسے وراثت بنا کر مفت کا حصہ بٹورنے کے لیئے عدالتوں اور قبضوں کے کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔ جبکہ اس مکان کی خرید کسی ایک بہن یا بھائی کے پیسے سے ہوئی تھی۔  اس کے علاج کے لیئے پاکستان میں سرکاری طور پر بھی قانون میں  کچھ تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ جس کے تحت کسی بھی گھر کی یا کسی بھی جائیداد کی خرید کے وقت کاغذات میں ایک خانہ موجود ہونا چاہیئے جس میں لکھا جائے کہ یہ جائیداد کون اپنے پیسے سے خرید کر اپنے والد یا والدہ کے نام کر رہا ، رہی ہے ۔ اور ان کی وفات کے بعد یہ جائیداد خود بخود خرید کر دینے والے  نام پر منتقل ہو جائے۔ اس کا مضبوط انتظام قانونی کاغذات سے مکان تاعمر انکے نام ہو ۔ انکی وفات کی صورت یہ مکان خرید کر دینے والے کو واپس منتقل ہو جائے ۔
 اور اگر وہ خریدنے والا نہیں رہا تو یہ جائیداد  اس کی بیوی یا شوہر کے نام ہو جائے ۔ اور اگر اس کی بیوی یا  شوہر بھی نہیں رہی، رہا (موت یا طلاق کی صورت) تو اس کی اولاد کے نام ہو جائے۔ ماں کے نام گھر ہو۔ وہ ساری زندگی بلا شرکت غیرے اپنی مرضی سے اسمیں رہے ۔ لیکن اگر وہ گھر اسکی کسی اولاد نے خرید کر دیا ہو تو وہ  گھر وہ کسی کو بھی نہ بیچ سکتی ہے نہ ہی کسی  کے نام کر سکتی ہے۔ اس کی وفات کے بعد یہ گھر جس نے خرید کر دیا اسی کی ملکیت میں واپس چلا جائے گا۔  خودمختاری یہ ہو گی کہ وہ اگر میرے خرید کر دیئے ہوئے گھر میں مجھے بھی نہ آنے دینا چاہے تو مجھے اس کی اس بات کا بھی احترام کرنا ہے ۔ زبردستی اس کی زندگی میں اس گھر میں گھسنے کہ کوشش نہیں کرنی ہے۔ وہ اس کے کسی حصے میں کرایہ دار بھی ساتھ رکھنا چاہے تو رکھ سکتی ہے ۔ اس کی آمدن کو اپنے لیئے استعمال کر سکتی ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ تحریر صاحب اختیار لوگوں تک ضرور پہنچے گی اور وہ اس پر قانون میں تھوڑا بہت ردوبدل کرتے ہوئے عوام کو آسانی مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ اس وقت تک جائیداد ماں کے نام کرنے والے خود قانونی کاغذات بناتے وقت یہ ضروری شق شامل کروا کر اپنی جائیداد کو محفوظ بنا سکتے ہیں اور عدالتوں میں فاضل مقدمات بننے کی راہ کو روک سکتے ہیں ۔ 
                  ●●●

ہفتہ، 7 مئی، 2022

شرک اور ہمارا تغافل۔ کالم



شرک اور ہمارا تغافل
(تحریر/ممتازملک.پیرس)

آج جب دین کو سمجھنا یا جاننا آوٹ ڈیٹڈ تصور کر لیا گیا ہے ۔ مذہب کو زندگی پر بوجھ سمجھ لیا گیا ہے ۔ ہر ایک خود اپنا اپنا دین ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ اللہ پاک کا بھیجا ہوا دین انہیں ان کی من مرضی کرنے میں رکاوٹ لگنے لگا ہے ۔ ان کی اوارگیوں اور غیر اخلاقی اعمال کو ایک عنوان بھی چاہیئے اور اپنے مردہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیئے دین کے نام پر کوئی جواز بھی مہیا کرنا ہے تو ہر من گھڑت بات کو بغیر کسی تصدیق کے اپنے من چاہے کے بیان پر دین کا نام دینے کی کوشش کرنا ایک تباہ کن  رواج بنتا جا رہا  ہے ۔ جس میں ساری دنیا محض مرد اور عورت کا جسم بن کر رہ جائے گی ۔ نہ کوئی رشتہ سلامت رہیگا اور اخلاقی تنزلی کا تو اب بھی کوئی پرسان حال نہیں رہا اور مذید  کیا تباہ ہو گا؟
 یہ بات ہم سب مسلمانوں کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  سمیت سبھی انبیائے کرام  اللہ پاک کے محبوب و محترم اور معصومین ہیں ۔ لیکن وہ خدا سے  آگے نہیں ہیں  اور خدا کو  ان کے مشورے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمارے تفرقے بازوں اور حلوہ خوروں اور کئی شعراء نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ بھی صحابہ اور اولیاء اللہ اور تو اور کئی نے علمائے وقت تک  کو اپنے اپنے لیئے مخصوص کر کے ان کی شان میں وہ وہ  قلابے ملائے ہیں کہ اگر اس پر غور کرنے کی توفیق مل جائے تو ہمیں کسی اور  کو مشرک کہنے کی قطعی کوئی ضرورت ہی نہ رہے ۔
ہر شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اپنی ہر محب ہستی کو نعوذ باللہ اللہ کے برابر کی کرسی پر بٹھانے کو بھی بےچین نظر آتا ہے ۔۔لیکن وہ شرک نہیں کرتا اس پر بھی اڑا ہوا ہے ۔۔۔خدا کے لیئے خالق اور مخلوق کے فرق کو سمجھو ۔ خالق صرف ایک ہے باقی دنیا کی اچھی سے اچھی اور حسین سے حسین مخلوق ہو ، چاہے بری سے بری اور  بدصورت سے بدصورت مخلوق ہو سب اس کی تخلیقات ہیں ۔ اگر کسی کی عزت اور مقام اللہ پاک نے زیادہ رکھا ہے تو بیان بھی فرما دیا ہے کہ اسکی وجہ صرف اور صرف اس کا تقوی ہے ۔ اور تقوی کیا ہے؟  تقوی یہ ہے کہ اچھائی اور  نیکی کے کاموں میں ایکدوسرے سے آگے ہونا ۔ اپنے قول فعل اور کردار میں بہترین ہونا ۔ حلال کاموں میں بھی جس میں ذرا سا بھی  اللہ کی ناراضگی کا شائبہ تک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنا ۔ یعنی ایک ہی مثال کو کافی سمجھیئے کہ انسان دنیا میں گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے ۔ اس کا کردار سفید لباس جیسا ہوتا ہے اور جب سفید کپڑوں میں انسان کیچڑ والی جگہ سے  مجبورا بھی گزرتا ہے تو اپنے لباس کو سمیٹ لیتا ہے۔ اپنے پائنچے چڑھا لیتا ہے تاکہ اس کیچڑ کا کوئی چھینٹا اس کے لباس کو داغدار نہ کر دے ۔ بس یہ ہی ہے ایک متقی اور اللہ کی محبت اور قرب پانے کا یہی ہے واحد طریقہ ۔ کہ دنیا کے کیچڑ میں اپنے کردار کے سفید لباس کو داغدار ہونے سے بھی بچایا جائے اور سفر بھی جاری رکھا جائے۔  اسے ہی تقوی کہتے ہیں جو اللہ پاک بار بار قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔ 
اس لیئے آج مسلمانوں کو اللہ پاک ، اور نبیوں کے مقام کو سمجھے اور شرک کا مطلب جاننے کی اشد ضرورت ہے ۔ 
اپنے محبوب سے محبوب ہستی سے محبت ضرور کیجیئے ان کا احترام بھی کیجیئے ۔ لیکن یہ یاد رکھیئے کہ پیغمبروں اور  نبیوں کے علاوہ دنیا کی کوئی نیک سے نیک ہستی ایسی نہیں ہے جو گناہوں سے یا غلطیوں سے پاک ہو ۔ یہ سب انسان ہیں ۔ اور اللہ پاک کے عطا کردہ بشری تقاضوں میں مجبور ہوتے ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی سمجھ اور ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
                    ●●●

جمعرات، 5 مئی، 2022

جاوید قمر جاوید کی کتاب رات کا مسافر پر تبصرہ/ تبصرہ۔ بھارتی شاعر


نوجوان شاعر جاوید قمر جاوید کا مجموعہ کلام رات کا مسافر پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ اندازہ ہوا کہ اس نوجوان کے کلام میں انسانی جذبات کے کئی رنگ نمایاں ہیں ۔ کہیں وہ اپنی محبت کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں زمانے کے ہاتھوں ستائے جانے پر شکوہ کناں ہے۔ حالات اس کے جذبات پر پورے طرح اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ 
جیسے کہ فرماتے ہیں 
زمانے کو ستانے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا 
مسلسل ظلم ڈھانے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا 

بچھڑ کر شاخ سے بھی مسکراتے انکو دیکھا ہے
گلوں کو مسکرانے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا 

نہیں ہے فرق کوئی لیڈروں میں اور طوائف میں
انہیں دولت کمانے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا 
میں سمجھتی ہوں اس مکمل کتاب میں یہ کلام ہی اس نوجوان کی سوچ اور کلام پر اس کی گرفت کو سمجھنے کے لیئے کافی ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ پاک اس نوجوان کے قلم میں بھرپور تاثیر و  توانائیاں عطا فرمائے۔ آمین
نیک تمنائیں ۔ 5مئی 2022ء
منجانب۔ ممتازملک 
شاعرہ ۔ کالمنگار
پیرس۔ فرانس 

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/