ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 20 اپریل، 2020

بیڑیاں / شاعری


              بیڑیاں
       

پاؤں میں بیڑیاں میرے تو وزن دار نہ کر🌺
میں تو پہلے سے ہوں باغی مجھے بیزار نہ کر


🌺 دیکھ رکھےہیں ہراک رنگ کےناٹک میں نے
پیش اب سامنے میرے کوئی فنکار نہ کر


🌺مجھکو گم کردے طلسمات کی دنیا میں کہیں  
ظاہراً سامنے ایسا کوئی کردار نہ کر


🌺آنکھ میں رہنے دے کچھ دیر تو منظر اسکا
محنتیں برسوں کی لمحات میں بیکار نہ کر


🌺دوسرے کے کسی سورج سے متاثر ہو کر
اپنی سوچوں کے چراغوں پہ تو یلغار نہ کر

🌺قرض کے رنگ اترتے ہیں بڑی مشکل سے 
ایسے رنگین کبھی سادہ سے افکار نہ کر


🌺عادتوں میں میری شامل نہیں چاہت اتنی
اسطرح مجھ پہ عنایات کی بھرمار نہ کر


🌺درد خالق کے سوا تو نے کہا کیوں اس سے
وہ بھی مخلوق ہے مخلوق سے اظہار نہ کر


🌺میں نے ممتاز بہت بار یہ مِنّت کی ہے
حد سے زیادہ میری عزت میری سرکار نہ کر
         (کلام / ممتازملک. پیرس)p
                          ......

اتوار، 19 اپریل، 2020

حق چھین لیا ہے / شاعری




اس نے میری باتوں کا اثر اتنا لیا ہے 
سچ بولنے کا مجھ سے ہی حق چین لیا ہے

پوشیدہ ترازو میں تیرے ایسی کشش ہے
خود تولنے کا مجھ سے ہیحق چھین لیاہے
                (  کلام: ممتازملک.پیرس)


ہفتہ، 18 اپریل، 2020

● فرانس میں سفیر پاکستان تقابلی جائزہ/ کالم




فرانس میں
 سفیر پاکستان کا تقابلی جائزہ
    (تحریر:ممتازملک۔پیرس) 
 غالب اقبال صاحب/معین الحق صاحب 

تمام ممالک دنیا بھی میں اپنے ملک کی جانب سے ایک سفیر کی تقرری کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں پر موجود اپنی کمیونٹی اور اپنے ملکی  مفادات کا تحفظ کر سکے ۔ بدقسمتی سے  پاکستان کے سفارتخانوں  میں اکثر ایسے لوگوں کو بطور سفیر  تعینات کیا گیا ہے جن کو سفارتکاری کی الف ب سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی یا پھر ان کی اہلیت ہی اس عہدے کے مطابق نہیں تھی۔ اس صورتحال نے  ایک طرف تو تارکین وطن پاکستانیوں کو ہمیشہ ہی آزمائشوں سے دوچار رکھا ہے ۔ اور دوسری جانب ملکی مفادات کو بھی داو پر لگائے رکھا ہے ۔ کیونکہ وہ نااہل سفارتکار کسی نہ کسی سیاسی بنیاد پر یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر افراد کے ملکی منظر نامے سے ہٹنے کا وقتی جواز ہی ہوا کرتے تھے ۔ کہ جاو کھاو پیو سیر سپاٹا کرو اور چھٹی مناو،  جیسا دورانیہ گزار کر پھر سے پاکستان  آ کر کھیل وہیں سے شروع کرو جہاں سے چھوڑا تھا ۔۔ اسی قسم کے معاملات ہمیں 1998ء سے فرانس آنے کے بعد 2012ء تک دیکھنے کو ملتے رہے ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں یاد تک نہیں کہ اس دور میں فرانس میں ہمارے سفیران کون کون سی عظیم ہستیاں رہی ہیں اور انہوں نے کون کون سے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ۔ 
فرانس میں دو دہائیاں گزار کر ہمیں اپنے سفارت خانے کے حوالے سے اگر کسی پہلے سفیر کا نام یاد ہے تو وہ تھے جناب غالب اقبال صاحب (2013ء تا 2016ء)۔ جنہیں دیکھ سن کر ہمیں معلوم ہوا ، یہ احساس جاگا کہ ہم پاکستانی یہاں فرانس میں لاوارث نہیں ہیں ۔ ہماری آواز سننے والا بھی یہاں کوئی ہے ۔ دستاویزات  کی تیاری میں درپیش مسائل ہوں یا پھر اہم مواقع پر اپنی کمیونٹی کے سامنے آنا یا ان سے رابطہ کرنا بلاشبہ غالب اقبال صاحب اور ان کی ٹیم نے ہمیشہ ہی اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں انجام دیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کے فرانس سے جانے کے بعد بھی ان کا ذکر نہایت محبت اور احترام کیساتھ کیا جاتا ہے ۔ یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ عزت انہوں نے اپنے رویئے اور اپنی کارکردگی سے کمائی ہے ۔ 
ان کا اپنا ای میل ایڈریس پبلک کرنا ، ہر محفل میں کمیونٹی کو خود دعوت دینا اور اس بات پر اصرار کرنا  کہ میں آپ سے ایک کلک کی دوری پر ہوں ،  آپ کسی بھی وقت 24 گھنٹے،  ساتوں دن مجھے میل کر سکتے ہیں ۔ اپنے مسائل سے آگاہ کر سکتے ہیں ۔ اور نہ صرف کہنا بلکہ ہر میل کا ایک دو روز کے اندر جواب بھیجنا بھی انہیں کی خصوصیت رہا ہے ۔ جو انہیں ان سے پہلے فرانس آنے والے سفیران سے جدا پہچان دلاتا ہے ۔ اب اگر بات کریں ان کے بعد آنے والے سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب (2016ء تا اب تک جاری) کی تو بلاشبہ دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفیروں کے مقابلے میں فرانس میں متعین سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب نے جس طرح سے کرونا کرائیسس اور اس سے پہلے تارکین وطن کے دوسرے اہم مسائل پر اپنا کردار ادا کیا ہے بلاشبہ وہ لائق تحسین ہے ۔
بطور کالمنگار میرا کام قصیدہ گوئی کرنا ہر گز نہیں ہے لیکن اس میں حوصلہ افزائی کا عنصر بہر حال موجود ہونا چاہیئے ۔ پاک فرانس معاہدے ہوں یا دستاویزی معاملات، پاک کمیونٹی کی شکایات پر متحرک ہونا ہو  یا ان کی مدد کرنا ، پاکستانیوں کے اموات اور ائیر لائنز کے مسائل ہوں ،
معین الحق صاحب نے ہمیشہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔ بہت سی باتوں اور عوامی رابطوں میں وہ غالب اقبال صاحب جیسا رویہ نہیں اپنا سکے شاید اس کی وجہ ان کے گرد موجود مخصوص ٹولے کی ذہنی سطح ہو ۔ جس نے انہیں عام پاکستانی کمیونٹی کے قریب ہی نہیں ہونے دیا ۔ نہ ہی انہیں عام لوگوں کے مسائل سے براہ راست واقف ہونے دیا ۔ کیونکہ آج تک ان کا ذاتی رابطہ میل بھی کسی کے پاس موجود نہیں ہے ۔ اس لیئے ان تک اپنے مسائل پہنچانا ہر ایک کے بس میں بالکل نہیں ہے ۔ اور تو اور مجھ جیسی لکھنے والی تک کے پاس ان کا ای میل اور رابطہ نمبر نہیں ہے ۔  جس سے انہیں کسی معاملے کی آگاہی براہ راست  پہنچائی جا سکے ۔ اس لیئے جو کچھ ان تک ان کے مخصوص ذرائع سے پہنچتا ہے اس پر ان کا رد عمل ہمارے سامنے آتا رہتا ہے ۔ جو کہ کافی حد تک مثبت بھی ہوتا ہے ۔  ہم پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے سفیر پاکستان معین الحق صاحب کو ان کے اچھی کارکردگی پر مبارکبار پیش کرتے ہیں اور اس اچھی کارکرگی کو بہترین کارکردگی میں ڈھلتے ہوئے دیکھنے کے لیئے پر امید ہیں ۔ اس کے لیئے انہیں عام لوگوں کے قریب آنا ہو گا ۔ عام لوگوں کیساتھ ہر معاملے میں زیادہ موثر انداز میں  شامل کرنا ہو گا ۔ جو وہ کر سکتے ہیں تاکہ ان کا نام ان کے فرانس سے جانے کے بعد بھی غالب اقبال صاحب جیسے بہترین سفیروں کی فہرست میں زندہ رہے۔ 
          پاکستان زندہ باد  
         فرانس پائندہ باد                                      ۔۔۔۔
                   

ہفتہ، 11 اپریل، 2020

● عمر جیسا مسلمان ۔ شاعری ۔ پبلشڈ






دنیا میں تھا اللہ کی برہان ،کہاں ہے ؟
نہ جانےعمر(رض) جیسامسلمان،کہاں ہے؟

بھوکاتونہیں سویا میرےملک میں کوئی 
ہر لمحہ اسی پر ہو پریشان، کہاں ہے ؟

ہر ایک کےدر پہ گیاخادم کی سی صورت
جو پشت پہ لادے کھڑا سامان،کہاں ہے؟

جو رات کو بستر پہ کبھی سو نہیں پائے
بتلاو ایسا وقت کا سلطان، کہاں ہے؟ 

اسلام کی خاطر جسے اللہ سے مانگا 
آقا کی دعاوں کا وہ ارمان ،کہاں ہے ؟

ممتاز کسی طور دکھے موت سے پہلے 
کہہ پاوں عمر جیسا مسلمان ،کہاں ہے ؟
۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 10 اپریل، 2020

بےحیائی رفتہ رفتہ / کوٹیشن






عذاب بطفیل 
رفتہ رفتہ بےحیائی

بے حیائی یا بےغیرتی اچانک ہی ہم پر حملہ آور نہیں ہو جاتیں ،
بلکہ یہ آہستہ آہستہ ہم لوگوں کے ہی ذریعے کہیں فیشن ہے، کہیں رواج ہے ، کہیں ضرورت ہے  کہہ کر اپنی جگہ بنا لیتی ہیں ۔ اور کہیں تو یہ "ہمیں کیا " کی بیرحمانہ سوچ کے طفیل بھی ہماری زندگیوں میں داخل ہو جاتی  ہیں ۔ جس کی سزا ہمیں آخرت میں تو بھگتی ہی پڑیگی لیکن دنیا میں بھی اس کا خمیازہ ہمیں عذاب الہی کی مختلتف صورتوں میں  جھیلنا پڑتا ہے ۔ 
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 8 اپریل، 2020

ایک زندگی اور موت کا اختیار / چھوٹی چھوٹی باتیں



       ایک زندگی اور موت کا
                 اختیار 
ویسے تو زندگی اور موت کا اختیار صرف اور صرف اللہ سبحان تعالی ہی کے پاس  ہے ۔
                     لیکن
 ایک چیز ہے جس کی موت اور زندگی کا اختیار اس نے انسان کو دے رکھا ہے اور وہ ہے 
                  امید 
چاہے تو اسے زندہ کر دیجیئے 
چاہے تو اسے مار دیجیئے 
                    ۔۔۔۔۔۔
         (چھوٹی چھوٹی باتیں)                          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 1 اپریل، 2020

خیرات دینے والوں کی شامت / کالم


     خیرات دینے والوں کی شامت
        (تحریر:ممتازملک.پیرس)



کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ ان لوگوں کے لیئے تو آزمائش ہوتی ہی ہے جو لوگ اس آفت میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ آزمائش ان لوگوں کے لیئے اور بھی بڑی ہو جاتی ہے جب آپ کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو اور آپ اس آفت سے بھی محفوظ ہوں ۔ اللہ پاک نے جہاں اولاد کو آزمائش بنا کر انسان کی زندگی کا حصہ بنایا ہے تو وہیں اس کے مال کو بھی اس کے لیئے سب سے بڑی آزمائش قرار دیا ہے ۔ ساری کائناتوں کا خالق ، کیا اپنی جناب سے کسی کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا تھا ؟ 
جس نے آپ کو دیا وہ آپ کے سامنے سائل بنا کر کھڑے انسان کو نہیں نواز سکتا تھا ؟ 
کیوں نہیں ۔ لیکن رزق  تو اللہ پاک نے انسان کی پیدائش سے سالوں قبل اسکے نصیب میں لکھ چھوڑا تھا ۔ جب اس نے اس مانگنے والے یا محتاج کے نصیب ہی میں رزق نہیں لکھا تو میں اپنے مال میں سے اسے کیوں دوں ؟ 
درست فرمایا ، نصیب تو واقعی لکھا جا چکا تھا ۔ اس کے  نصیب میں آسائشیں بھی لکھی جا چکی ہیں اور آزمائشیں بھی ۔ اس کے نصیب کی آزمائش یہ ہے کہ اسے آپ کے سامنے مجبور نگاہیں اور پھیلائے ہوئے دامن کیساتھ کھڑا ہونا پڑا اور آپ کی آزمائش یہ ہے کہ آپ اللہ کے عطا کیئے ہوئے مال و دولت میں سے اللہ کی مخلوق کے لیئے کتنا حصہ نکالتے ہیں ؟ وہ چاہتا تو اس مانگنے والے کی جگہ آپکو بھی کھڑا کر سکتا تھا اور دینے والے کی جگہ وہ محتاج کھڑا ہوتا ۔ لیکن جوابدہی کے امتحان میں  آج آپ کھڑے ہیں کہ آپ ان سائلین کے لیئے کیا کرتے ہیں ؟
لیکن اس کے ساتھ ہمارا ایک قومی المیہ بھی تو ہے کہ 
دنیا بھر میں خیرات اور امداد کی رقوم ہر طرح کے ٹیکسز سے مبرا ہوتی ہیں اور ان آفات کے زمانوں میں اسی امداد کے  بہانے بہت سا کالا دھن عوام کی خدمت کے لیئے حکومتوں کو مددگار مل جاتا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں یہ حال ہے کہ زرا کسی کی مدد کے لیئے کچھ دیکر دیکھیں حکومت اور نیب کے نام پر بنے چودھری ان کی بوسونگھتے سونگھتے اس کی سات پشتوں کی کھال ادھیڑ دینگے اور انہیں اس بات پر نشان عبرت بنا دیا جائیگا کہ بھائی تیری ہمت کیسے ہوئی کہ تو کسی کی مدد کرتا ۔ اس زمانے کی رسیدیں طلب کی جائیں گی جس زمانے میں ہمارے ہاں پیدائش کا سرٹیفکیٹ بنانا بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔  اور پھر ہم کہاں کہاں سے ثبوت اکٹھے کرتے پھریں کہ جناب یہ مال  میری محنت کا ہے یا جائز ہے ۔ زرا ماضی پر نظر ڈال کر دیکھیں حکومت چاہے کسی کی بھی رہی ہو لیکن ٹیکس پالیسیز اور اپنی دولت کو مکمل طور پر ظاہر کرنیوالے کے لیئے قوانین اس قدر مضحکہ خیز اور  ہتھک آمیز ہیں کہ آپ چاہتے ہوئے بھی اپنا حق حلال کا مال بھی پورے کا پورا ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں حکومت وقت آپ کو کشکول پکڑا کر سڑک پر کھڑا کر دیگی کہ بس یہ ہے اس کا انعام ۔ان ٹیکسز اور ڈیکلریشن  کے بدلے اسے کونسی سہولیات ملتی ہیں ؟ کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں کم از کم ہماری نظر سے تو ابھی تک اہسا کوئی خوشنصیب نہیں گزرا ۔ ہم نے تو ایسا ایماندار بیچارہ بھی دیکھا ہے جس نے اپنی ہر چیز پچھلے سال ڈکلیئر کروائی ،  پانچ لاکھ روپے کا سالانہ انکم ٹیکس  پوری ایمانداری سے ادا کیا ۔ چند ہی ماہ میں اس کے کام کے حالات اچھے نہ رہے تو اپنے بچے کی بیماری پر سرکاری ہسپتال میں گیا تو اس بچے کو  ایک ڈسپرین کو گولی تک فری میں  دینے سے انکار کردیا گیا یہ کہہ کر کر کہ جناب آپ تو ٹیکس پیئر ہیں آپ کو کوئی دوا اور سروس فری میں نہیں دی جا سکتی ۔ اب بیچارہ پچھلے سال کے ٹیکس کی ادائیگی کا جرمانہ تل تل کر مقروض ہو ہو کر بھر رہا ہے ۔ اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اسے کس پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ پانچ لاکھ روپے کی رقم ڈکلیئر ادا کر آیا ۔ اس کے بدلے اس پر ہر آسانی کے دروازے بند ہو گئے کیونکہ اسے ٹیکس پیئر کا نمبر جاری نہیں ہوا بلکہ شاید مجرم نمبر جاری ہو چکا ہے ۔ 
یہ ہی حال کسی بھی شخص کے کہیں پر خیرات کرنے کی صورت میں اسے نشان عبرت بنانے کا بھی ہے ۔ جس قوم میں زلزلہ زدگان اور سیلابی متاثرین کے لیئے آئے ہوئے خیراتی کمبل اور اشیاء تک سوٹوں  والوں اور بوٹوں والوں کے گھروں سے برامد ہوتے ہوں، جہاں ہر صاحب اختیار یتیموں اور بیواوں کا مال کھانے کے لیئے اپنی ہی بیویوں اور بچوں کو یتیم اور بیوہ لکھوا کر کھانے کا رواج ہو ، جہاں بیت المال اور اوقاف کے مال پر دین فروشوں کی بدبخت اولادیں عیش کرتی ہوں ، دور نہ جائیں 
ابھی تازہ واردات زیادہ پرانی بات تو نہیں جب اربوں روپے قوم سے ڈیم کے نام پر اکٹھے کرنے والوں نے اسے مال مفت دل بیرحم کی طرح اڑایا ہو ، وہاں آج اگر خدا کا عذاب نہیں آئیگا تو کیا ہو گا ۔ دنیا بھر میں یہ آزمائش ہے لیکن پاکستانیوں پر یہ واقعی خدا کا عذاب ہے ان کے اعمال کے سبب۔ اور یہ بھی دیکھ لیجیئے گا کہ جس قوم کی اشرافیہ  کروڑوں کے گھر میں رہ کر چھ چھ ماسیاں اور ملازم رکھتی ہے لیکن آفت کے دنوں میں انہیں نوکریوں سے نکال کر بیروزگار کر کے سڑک پر  بھیک مانگنے پر مجبور کرتی ہے اسی لعنتی  اشرافیہ کے لیئے یہ خیراتی وینٹیلیٹرز  بھی استعمال کیئے جائینگے ۔ عام آدمی کو مرتے مر جائے لیکن اسے ان وینٹیلیٹرز کی سہولت کبھی نہیں پہنچائی جائیگی ۔  بالکل اسی طرح جس طرح پچھلی امداد میں ملے   ٹیسٹ مشینز کو چغتائی لیب جیسی جگہوں پر نوٹ چھاپنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔آج عوام سے پھر سے بھیک مانگنے والوں سے پوچھا جائے کہ پچھلا مال کدھر ہے ؟ 
پچھلی اپوزیشن کے ایک عالمی غبارہ لیڈر نے سچ ہی تو کہا تھا کہ جب قوم پر بے اندازہ ٹیکس لگیں ، ملک میں مہنگائی ہو  ، عام آدمی کی زندگی عذاب بن جائے تو سمجھ لو کہ حکمران چور ہے ۔۔۔۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔



شکوے


             شکوے

انکو میرے وجود سے شکوے تھے اسقدر
ہرلمحہ میری روح کو مضروب کر دیا 

دنیا جہاں کی خوبیاں اس میں سمٹ گئیں 
ہر  عیب میری ذات سے  منسوب کر دیا
 (ممتازملک.پیرس)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/