ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 17 فروری، 2020

علی یاسر روٹھ گیا


علی یاسر روٹھ گیا 

علی یاسر نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ انسان تھا بلکہ بہت ہی مہذب ، منکسرالمزاج ، مہربان اور ملنسار انسان تھا ۔ اس سے میری ملاقاتیں زیادہ تو نہیں ہوئیں ۔  اسلام آباد اور راولپنڈی میں تین یا چار  ادبی پروگرامز  میں اس سے ملنا ہوا ۔ بہت ہی عزت دینے والا انسان تھا ۔ بہت اہم موضوعات پر ان کی تحریریں سامنے آ رہی تھیں  ۔ فیس بک پر انکی آخری پوسٹ 16 فروری 2020ء ان کی ذہنی کیفیات کو کھل کر بیان کر رہی ہے کہ 
ہے آج بھی مصروف گماں کچھ نہیں بدلا 
اے شہر غلط فہم یہاں کچھ نہیں بدلا
چہروں کے بدلنے کی روایت ہی نہیں ہے 
بینائی ہوئی روبہ زیاں کچھ نہیں بدلا
ایک بہت ہی پیارا اور مخلص انسان بہت جلد دنیا سے روٹھ گیا ۔ ایک اچھی دنیا کو چن لیا اس نے ۔ 
ایک دم سے بھریا میلہ چھوڑ کر یوں چلدینا کوئی کیسے بھول سکتا ہے ۔ علی یاسر جہاں رہو اللہ کی رحمتوں کے سائے میں رہو ۔ آمین
  ( ممتازملک.پیرس)

عقل عمر سے نہیں /کوٹیشن




عقل عمر سے نہیں ،
                    تجربے سے

  پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربےسے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
 (چھوٹی چھوٹی باتیں )(ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com



عقل عمر سے نہیں /کوٹیشن



عقل عمر سے نہیں
                  تجربے سے

  پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربے سے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
  ( چھوٹی چھوٹی باتیں )
        (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

مردوں کے پانچ عیب / کوٹیشن

 

      مردوں کے پانچ عیب 

1- اکثر اپنی کمائی چھپانا😲
2-اپنی بیوی کوکمتراوربیوقوف ثابتکرنا😩
3-اکثرلمبی لمبی چھوڑنا. 👣👅
4- اکثر بدزبانی  کو اپنا حق سمجھنا..🙊
5- اکثرمنافقت کرنا.میرا کچھ تیرا کچھ 🙉
6-اکثر شکی  ہوتے ہیں .🙈
7-اکثراحساس برتری کا شکار ہوتے ہیں 💂
8-اپنی بات کو حرف آخرسمجھتےہیں💪
9-اکثرشارٹ کٹ کے چکر میں رہتے ہیں💃
10-اکثرانکا دل انکے دماغ پرحاوی رہتاہے.❤❤❤👣
او تیری ی ی ی😥 یہ تو پانچ سے بھی زیادہ ہو گئے.گویا مرد اس معاملے میں بھی خواتین سے جیت گئے.🙌
(چھوٹی چھوٹی باتیں)(ممتازملک پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com


سچ اور لات / کوٹیشن


   سچ اور لات

سچ اور لات کا چولی دامن کا ساتھ ہے
ادھر سچ بولا 😥
ادھر لات پڑی 😁😁😁😁💃
  ( چھوٹی چھوٹی باتیں )
       (ممتازملک. پیرس )
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
 




مرد کی زبان / کوٹیشن



   مرد کی زبان

مرد کی زبان وہ خار دار جھاڑی ہے جس میں پارسا سے پارسا عورت کا دوپٹہ لمحوں میں تار تار ہو جاتا ہے .
   (چھوٹی چھوٹی باتیں )
         (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

اللہ کی سنت / کوٹیشن




    
      اللہ کی سنت


اللہ پاک کی سنت ہے کہ اللہ انسان کو وہ نہیں دیتا جو اسے پسند ہوتا ہے بلکہ وہ دیتا ہے جو اس کے لیئے بہتر ہوتا ہے. اور ہر باضمیر لکھاری اسی سنت کو نبھانے کےکوشش کرتا ہے. اسے اپنی ڈگڈگی کا بندر مت سمجھیں .
    (چھوٹی چھوٹی باتیں )
         (ممتازملک. پیرس)
MumtazMalikParis.BlogSpot.com

الفاظ کے زخم / کوٹیشن



الفاظ کے زخم


الفاظ کے زخم معذرت کے مرہم سے ہی مندمل ہوتے ہیں
اور
 تلافی کی پٹی سے شفا پاتے پیں .
  (چھوٹی چھوٹی باتیں )
      (ممتازملک. پیرس )
MumtazMalikParis.blogsp
ot.com 





دل اور دھرتی

ہفتہ، 15 فروری، 2020

اردو پڑھو

اردو پڑھو

ہمارے وزیراعظم عمران خان کو اس بات کیلیئے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا کہ انہوں نےاپنی قوم کویہ یقین دلا دیا کہ بیٹا انگریزی بولنے سے بندہ پڑھا لکھا نہیں ہوجاتا 😂😂

اس لیئے اپنی قومی زبان اردو  بولنے اور پڑھنے کی عادت ڈالو کیونکہ عزت اور کامیابی اپنی زبان میں علم حاصل کرنے سے ملتی ہے نہ کہ دوسرے کی زبان کے رٹے لگانے سے ۔۔۔🤔

  (چھوٹی چھوٹی باتیں)                         (ممتازملک.پیرس)  


■● سلام ۔ سلام بھیجا ہے ۔ اے شہہ محترم



سلام بھیجا ہے
(کلام/ممتازملک.پیرس)

میں نے آقا سلام بھیجا ہے  
حال دل کا تمام بھیجا ہے

کس طرح اس کا شکر کر پاؤں
جس نے خیرالانام بھیجا ہے
  
رحمت العالمیں بنا جس نے
رحمتوں کا پیام  بھیجا   ہے

معاف کر کے خطاؤں کو میری 
چاہتوں کا انعام بھیجا ہے

پھر بلایا ہے اپنی محفل میں
پھر سے بخشش کا جام بھیجا ہے

ان کی امت میں کر دیا پیدا
دے کے اعلی مقام بھیجا ہے

رب اعلی کا دلنشین لہجہ
اپنا دلکش کلام بھیجا ہے

میرے آقا کا دین ہے ممتاز
اک مکمل نظام بھیجا ہے
●●●
۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com



جمعہ، 14 فروری، 2020

قبض اور شکایتیں / چھوٹی چھوٹی باتیں


   قبض اور شکایتیں 
   
انسان کی قبض اور شکایتیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں جب تک نکل نہ جائیں آرام نہیں آتا ۔۔۔۔😖😖😖
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک.پیرس)

جمعرات، 13 فروری، 2020

سرکاری کوارٹرز یا زمینی قبضہ/ کالم


  سرکاری کوارٹرز یا زمینی قبضہ
        (تحریر: ممتازملک.پیرس) 


ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کے لیئے گھروں کی  الاٹمنٹ  کا سلسلہ بہت پرانا ہے ۔تقریبا سبھی سرکاری محکمے اپنے ملازمین کو ان کے سکیل کے حساب سے رہائشی کوارٹرز الاٹ کرتے ہیں ۔ اکثر ایسے کواٹرز کا زمینی حساب لگایا جائے تو یہ  ایکڑوں کے حساب سے بنتی ہے ۔ یہ سب  سنگل گھر زمین پر دو یا تین ڈبہ ٹائب کمروں کی شکل میں بنے ہوتے ہیں ۔ ان کواٹرز کا غیر معیاری طرز تعمیر اور اس میں رہنے والے لوگوں کا غیر معیاری زندگی گزارنے پر مجبور ہونا انتہائی افسوسناک ہے ۔ یہ صرف ارباب اختیار کی نااہلی یا پھر ان زمینوں پر قبضے کی جانب ہی ایک واضح اشارہ ہے ۔   اب جبکہ شہروں میں  آبادی کے سونامی سے  زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔  وہاں پر کھربوں روپے کی یہ زمین نہ صرف ملک بھر کے شہروں میں بلکہ وفاقی دارلحکومت  اسلام آباد میں بھی سرکاری کوارٹرز کے نام پر چند ہزار لوگوں کے تصرف  میں ہیں  ۔ آج جبکہ فلیٹ سسٹم کے تحت ان بے ڈھنگے اور بے طریقہ بنے ہوئے مکانات کی جگہ  تین چار کمروں کا ان سے بہتر اچھے نقشے کیساتھ بنا ہوا گھر انہیں سرکاری خزانے پربوجھ کم کرتے ہوئے دیا جا سکتا ہے تو پھر ہزاروں ایکڑز پر مشتمل ان زمینوں کو فارغ کیوں نہیں کروایا جاتا ؟  پچاس کوارٹرز جس زمین پر جھگیوں کی طرح پھیلا کر بنائے گئے ہیں جس میں  دو سے تین سو لوگ ایک برا طرز زندگی گزارنے پر مجبور ہے ، بہت زیادہ زمین گھیر کر بیٹھے ہیں ،  اس کی جگہ  اگر اسی زمین کی آدھی جگہ پر شاندار سی کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کر دی جائے جس میں تمام جدید سہولیات بمعہ لفٹ کے دیدی جائیں اور بقایا زمین پر ایک خوبصورت سا پارک ، سکول ، کالج اور مسجد اسی عمارت کے لوگوں کے لیئے بنا دیا جائے تو یہ کس قدر صحت بخش منصوبہ ہو گا ۔  اس میں اس عمارت میں بسنے والے سبھی لوگوں کے لیئے مین گیٹ لگنے سے ان کی (خصوصا خواتین اور بچوں کی ) حفاظت بھی بہت بہتر ہو جائیگی ۔ حکومت پاکستان کو اپنے سرکاری ملازمین کو دی جانے والی سہولیات کے لیئے ایک الگ سے وزارت کا اہتمام کرنا چاہیئے  تاکہ ان سے متعلق رہائش ، پنشن ، بیماری ، ان کے بچوں کی تعلیم ،شادیاں اور ایسے ہی تمام مسائل پر باقاعدہ تحقیقات آسان ہو سکیں اور ہر حقدار کو اس کا جائز حق درست انداز میں اور درست وقت پر مل سکے ۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ ملازمین اپنے ان ذاتی مسائل سے بے فکر بھی ہو سکیں گے اور زیادہ سکون اور  ایمانداری کیساتھ اپنے تمام پیشہ ورانہ فرائض بھی ادا کر پائیں گے ۔ ان میں ان تمام مسائل کے باعث پیدا ہونے والی لالچ کو روکنے میں مدد ملے گی اور کرپشن اور رشوت کی لت کو کم کیا جا سکے گا ۔  اور جو بعد بھی کرپشن میں ملوث  ہوئے  انہیں بلا چون و چرا پھانسی دیدی جانی چاہیئے ۔ 
 ملک کی ہزاروں ایکڑ زمین واگزار کروائی جا سکے گی ۔ صفائی کے معیار میں بہتری آئے گی ۔ خواتین اور بچوں کیخلاف جرائم میں بھی کسی حد تک کمی آئیگی ۔ 
 صحت کا معیار بھی بلند ہو گا ۔ اور شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو گا ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 12 فروری، 2020

طویل سفر

قطعہ

طویل اتنا لگا ہمکو زندگی کا سفر 
وگرنہ لوگ جوانمرگ یاد کرتے رہے

ہمیں تو سانس بھی فرصت کی مل نہیں پائی
جبھی تو ہر گھڑی ہم سوورگ یاد کرتے رہے ۔۔۔
 
 ( کلام:ممتازملک.پیرس)

جمعہ، 7 فروری، 2020

مظلوم بننے کا خبط

مظلوم بننے کا خبط

ہمارے ہاں کی عورتوں کو مظلوم بننے کا بڑا خبط سوار ہوتا ہے ۔ کاش وہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا بھی حوصلہ کر لیں کہ ان کی کون کون سے حرکتیں ہیں جو ان کی سب سے بڑی تعداد کو جہنم کے گڑھے تک پہنچانے کا سبب بننے جا رہی ہیں ۔
    (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک.پیرس)

بدھ، 5 فروری، 2020

قاتل عورتیں اور کشمیر/ کالم۔ خواتین


       قاتل عورتیں اور کشمیر
     (تحریر:ممتازملک.پیرس)

دکان پر کھڑے ہو کر جو خواتین انڈین کپڑے ،  جوتے، جیولری ، مصالحے اور بہت کچھ خریدتے وقت، بھارتی فلمیں دیکھتے وقت ،  بھارتی مصنوعات پر اپنا پرس اور کریڈٹ کارڈ خالی کر رہی ہوتی ہیں وہ دراصل کشمیر اور ہندوستانی ہر مسلمان کے قتل میں برابر کی حصہ دار ہیں ۔ یہ وہی عورتیں ہیں جو ان معصوم شہیدوں کے قتل کے لیئے بارود خرید کر دیتی ہیں ، میزائل اور بم بنا کر دیتی ہیں ، بدکار بھاری فوجیوں کی کھیپ وہاں پہنچاتی ہیں  ، معصوم کشمیری عورتوں کا ریپ کرواتی ہیں ، ان کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے انکی ماوں بہنوں کو بے آبرو کرواتی ہیں ، انہیں یتیم و یسیر کرواتی ہیں ، ان کے گھروں کو آگ لگواتی ہیں ، ان کی آزادی کی ہر صبح کو بے نور کرتی ہیں، ہر روز  ان کی منزل کو ان سے دور کرتی ہیں ۔ یہ خود کو پاکستانی کہنے والی دردمند عورتیں جو چاہیں تو ایک ہی مہینے میں بھارت کو بنا ایک گالی دیئے بھی دھول چٹا سکتی ہیں اسے برباد کر سکتی ہیں  صرف اپنی خود پسندی اور بے حسی کو لگام ڈال کر ، اپنے پرس اور کریڈٹ  کارڈ سے بھارتی چیزوں کی ، فلموں کی، سٹج شوز کی ٹکٹوں کی خریداری کا بائیکاٹ کر کے ۔۔ صرف انکی مصنوعات کو رد کر کے۔
کیونکہ اج لڑائی بندوقوں سے نہیں جہتی جاتی ۔ بلکہ نوٹوں سے ھیتی جاتی ہے ۔ نوٹ ہی وہ ایندھن ہیں جو ہم بھارت کو دی دیکر کشمیریوں کے لہو کی دریا بہا رہے ہیں ۔ گھر بیٹھے یہ لڑائی لڑی بھی جا سکتی ہے اور جیتی بھی جا سکتی ہے ۔ کتنا آسان اور چھوٹا سا کام ہے ۔ لیکن کتنی پاکستانی اور آذاد کشمیر کی  عورتیں کشمیریوں  
کے قتل عام میں اپنا حصہ اپنی جیب سے ڈالنے سے باز آئینگی ؟
مجھے تو نہیں لگتا کہ میری اس تحریر سے ان میں سے کسی کو بھی غیرت آئے گی ۔ اور غیرت کوئی بازار سے ملنے والی چیز بھی نہیں ہے کہ میں ان قاتل عورتوں کو خرید کر تحفے میں بھیج سکوں۔۔ تو پھر مجھے اور مجھ جیسی بے چین روحوں کو  کیا کرنا چاہیئے ؟  
میں نے ان سب چیزوں کے بائیکاٹ کے لیئے ہر موقع پر لکھ کر، بول کر ،یہاں تک کہ خود عملی طور پر کر کے آواز اٹھائی ہے ۔۔میں سالہال سے کوئی بھارتی مصنوعات استعمال نہیں کرتی ۔ کوئی دکاندار مجھے بھارتی چیز آفر کرے تو میں اس سے بحث کرتی ہوں، احتجاج کرتی ہوں کہ بھائی اپنی چیزوں کو پروموٹ کرو لیکن وہ فرمائینگے باجی کیا کریں اسی کی ڈیمانڈ ہے ۔ جبکہ انکی کوئی چیز نہ ہماری مصنوعات سے اچھی ہوتی ہیں نہ ہی پائیدار ۔ اور ڈیمانڈ ہوگی کن کی جانب سے ہے ۔ انہیں سو کالڈ پڑھی لکھی خواتین کی جانب سے ۔  یہ ہی  یورپ ، امریکہ ، انگلینڈ،  اور پاکستان میں مقیم عام سے لیکر   بہت سے بڑے بڑے نام اور عہدوں والیاں  ۔۔۔ جب بھارتی دوروں پر جاتی رہی ہیں ان کی سب سے پہلے رال ٹپکتی ہے ہائے بنارسی ساڑھیاں ، ہائے اللہ شالز ، ہائے اللہ یہ ، ہائے اللہ وہ ۔۔۔
اور انکی آوازیں سنیں تو یہاں  کشمیریوں کو رونے والوں  میں بھی سب سے بلند ہونگی ۔ 
ہم منافق لوگ جہاں بھی پٹے ہیں اپنی منافقت کے ہاتھوں ہی پٹے ہیں  ۔  
اللہ پاک ہمارے حالوں پر رحم فرمائے۔ اور ہمیں کشمیریوں کے قتل عام اور آبروریزی میں حصہ دار ہونے سے بچائے۔ ۔۔۔  آمین
                         ۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 4 فروری، 2020

شادی سے فرار / کالم



            شادی سے فرار
        (تحریر:ممتازملک۔پیرس )

ہر زمانے میں کچھ آسانیاں ہوتی ہیں اور کچھ مسائل ، جن سے ہمیں بہرحال نبٹنا پڑتا ہے ۔ ایسے ہی آج بھی ہمیں بہت سے مسائل درپیش رہتے ہیں ۔ ان میں ایک مسئلہ وقت پر شادیوں کا بھی ہے ۔ درست وقت کونسا ہے؟ جب ایک نوجوان کو اپنا گھر بسا لینا چاہیئے تو ظاہر ہے اکثریت  کا جواب تقریبا یہی ہو گا کہ جب لڑکے اپنی تعلیم مکمل کر لیں اور برسر روزگار ہو جائیں ۔ بلکہ اب تو لڑکیوں کے لیئے بھی اسی اصول کو بہتر سمجھا جاتا ہے ۔ تاکہ وہ اپنی زندگی میں معاشی مشکلات کا شکار نہ ہوں ۔ اس اچھی سوچ اور آج کے زمانے میں پہلے سے کہیں زیادہ اچھے مواقع ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ خاص طور پر لڑکے وقت پر شادیوں کے لیئے رضامند نہیں ہوتے ؟ مائیں سالہا سال دنیا بھر کی لڑکیوں  کے گھروں میں جھانک جھانک کر انہیں مسترد کرتی ہیں یہ تو سنا ہی ہو گا لیکن لڑکے باآسانی شادی کے لیئے تیار کیوں نہیں ہو رہے ۔ انہیں ایسی کونسی مخلوق کی تلاش ہے جو انہیں آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی فرصت بھی نہیں دیتی ۔ لنگور جیسی شکل کے لڑکے حور جیسی لڑکیوں میں نقص نکال نکال کر انہیں مسترد کر رہے ہوتے ہیں ۔ اب کوئی یہ کہے کہ رشتے تو آسمانوں پر بنتے ہیں اور اس کا وقت مقرر ہے تو یقینا یہ درست ہے لیکن یہ اسی طرح درست ہے جیسے موت کا وقت تو اللہ کے ہاں مقرر ہے تو پھر لوگ خودکشی کر کے کیوں مرتے ہیں؟  جبکہ اللہ نے ہی خودکشی حرام بھی قرار دے رکھی ہے ۔ تو اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات بھی آپ کی نیت کے منتظر ہوتے ہیں ۔ جنہیں گھر بسانا ہوتا ہے وہ دوچار لوگوں سے ملتے ہیں ، اور  ان میں سے کسی کو چن کر چند ماہ میں ہی رشتے جوڑ لیتے ہیں ۔ لیکن 
جو لڑکے چار چار، پانچ پانچ بار منگنیاں ،  نکاح  یا  شادیاں کر کے توڑ چکے ہوں ان کے بارے میں غور کیجیئے کہ ان کی مائیں بہنیں کس مزاج کی خواتین ہیں جو کسی لڑکی کو بہو بنا کر گھر لانے کی نوبت نہیں آنے دے رہیں ؟ یا کہیں وہ لڑکا خود ہی شادی کے بندھن سے باغی تو نہیں ؟
کہیں وہ لڑکے ہم جنس پرست تو نہیں ؟ 
کیونکہ ایک نارمل لڑکا جو اپنی تعلیم سے فارغ ہو چکا ہو ،  برسر روزگار ہو ، مناسب کما رہا ہو ، وہ ہمیشہ یہ چاہے گا کہ جلد ہی وہ اپنا گھر بسا لے ۔ اپنی اولاد کو کھلائے، 
یہ ہی بات لڑکیوں میں بھی غور طلب ہے ۔ گو کہ اس کی شرح لڑکوں کے مقابل بہت کم ہے لیکن یہ ماننا پڑیگا کہ کہ بدلتے زمانے کے عذابوں میں سے یہ بھی ایک عذاب ہے جو ہمیں جھیلنا پڑتا ہے ۔  ان وجوہات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ ان لوگوں کو کسی نفسیاتی ماہر سے مشاورت بھی ضرور کرنی چاہیئے ۔ دین سے دوری اور مادر پدر آذاد طرز زندگی بھی اس کی بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہیں ۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ہی اپنے والدین سے اس حد تک قربت ہونی چاہیئے کہ وہ ان سے کھل کر اپنے مسائل پر بات اور جذبات کا اظہار کر سکیں ۔ اب یہ کرو اور یہ مت کرو کا زمانہ نہیں رہا ۔ شرم ، حیا ،جھجھک  اب تقریبا  قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں ۔ اس لیئے زندگی کی اہم باتوں پر والدین کو بھی  اپنی اولادوں کیساتھ سیدھے الفاظ میں اور کھل کر بات کرنی چاہیئے ۔ لڑکی کو اپنی ماں اور بہن کیساتھ  جبکہ لڑکے کو اپنے والد اور بھائی کیساتھ اپنے مسائل پر مشاورت کرتے رہنا چاہیئے ۔ اور سچ پوچھیں تو بہن اور بھائی سے بھی زیادہ بھروسہ آپکو اپنے والدین پر ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ وہی آپکو ہمدردانہ مشورہ دے سکتے ہیں ۔ وقت پر شادیاں جہاں طبی لحاظ سے ضروری ہیں وہیں  معاشرتی طور پر بھی آپ اپنی جوانی اور صحتمندی کے وقت میں ہی  اپنی اولاد کو اپنے سامنے جوان ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کے بڑے ہونے کے وقت کو دوستوں کے طرح پرلطف انداز میں جی سکتے ہیں ۔  اب اس عمر میں بچے گود میں لیکر گھومنے کا کیا فائدہ جب دیکھنے والے اسے آپ کا بچہ ماننے کے بجائے آپ کا نواسہ یا پوتا سمجھ رہے ہوں اور آپ کھسیانے انداز میں خود کو ان کے سامنے جوان ثابت کرنے کہ کوشش کر رہے ہوں ۔ آپ کے بچے آپ کے ہی بچے لگیں تو ہی اچھا لگتا ہے ۔ باقی آپ کی مرضی ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 2 فروری، 2020

کردار کا فیصلہ/ کوٹیشن




   کردار کا فیصلہ
کوئی بھی رشتہ جب اپنے مفادات کی کسوٹی پر آپ کے کردار کو طے کرنے لگے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کسی حصے میں کینسر پھیل جائے اور اس کا علاج اس حصے کو کاٹ کر پھینکنے  کے سوا اور کچھ نہیں ۔ شروع میں درد تو ہو گا لیکن یہ سوچ کر قرار آ جائیگا کہ ناقی جسم کو تو بچا لیا گیا ہے ۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
              (ممتازملک.پیرس)




رشتے کو دیمک / کوٹیشن


       رشتے کو دیمک

جب آپ کے کردار کا فیصلہ آپ سے وابستہ مفادات سے کیا جانے لگے تو جان لینا کہ آپکے رشتے کو دیمک لگ چکی ہے ۔ 
          (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                 (ممتازملک.پیرس)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/