ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 28 فروری، 2016

سنت رسول یا زن مریدی





سنّتِ رسول ﷺ
 یا زن مریدی
ممتازملک ۔ پیرس






مولانا فضل الرحمن جا کر اپنا دین پھر 
سے پڑھ کر آئیں کہ جسے لیکر آنے والے نبی پاک صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو  بہترین شوہر بن کر دکھایا اور اپنی ساری زندگی میں کسی ایک بیوی پر بھی کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا  اور ان بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ سے پھٹے ہوئے کپڑے سیئے  . بکریوں کا دودھ دوہتے تھے .  گھر میں جھاڑو لگاتے تھے . اور یہاں تک فرمائے تھے کہ " تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں سب سے اچھا ہے "
کہیں فرمایا "بیوی کے منہ میں محبت سے رکھا ہوا نوالہ بھی تمہارے لیئے صدقہ جاریہ ہے"
آج کے ہندووں سے متاثر مولانا ہمیں بتاتے ہیں کہ عورت گھر کے مردوں سے پہلے کھانا کھائے تو جہنمی ہے . عورت مرد سے پوچھے بنا چھینک  مارے تو جہنمی ہے . عورت مرد سے اپنے لیئے خرچ مانگے تو جہنمی ہے اور جانے سانس بھی مرد سے پوچھے بنا لے تو کافر ہے . مولانا صاحب کسی بھی عورت کو  آپ کے راج میں  اپنی مرضی کا کوئی اختیار ہی حاصل نہیں ہے تو جایئے جا کر اسلام کا مطالعہ کیجیئے اور اپنا تجدید دین کیجیئے کہیں جہنم کی بکنگ آپ ہی کے نام پر نہ ہو چکی ہو . ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو جتنے حقوق ہمیں دیئے ہیں آپ جیسا بخیل  آدمی اس کا ہزارواں حصہ بھی ہمیمں دینے پر تیار نہیں ہے تو اسے یہ مذہب ہی چھوڑ دینا چاہیئے اور اپنی پسند کا وہ مذہب چن لیجیئے جو آپ کے اندر چھپے ہوئے بھیڑیے کو سکون فراہم کرے . کیونکہ نہ تو آپ جیسے بیمار سوچ والوں کو بدکار اور زانی مردوں کی سزائے موت کے لیئے آواز اٹھانے کی توفیق ہوئی ہے کبھی، نہ آپ اور آپ جیسوں کو بچوں کو ذبح کرنے والوں اور انکے   معصوم جسموں اور عزتوں  کو تار تار کرنے والے جانوروں کے خلاف کوئی جلسہ جلوس کرنے کی کبھی توفیق ہوئی ہے . کیا کبھی چولہے پھٹنے  سے قتل کی جانے والی کسی عورت کے قاتل کی سزائے موت مانگنے کی توفیق ہوئی ہے ؟ 
کیا کبھی تیزاب سے جھلسی عورت کے مجرم کو پھانسی لٹکانے کا مطالبہ کیا ہے آپ نے ؟ کیا کبھی کاری کاری کھیلنے والے، عورتوں کو قتل کرنے والے بہانہ باز قاتل مردوں کو آپ نے سزائیں دلوائی ہیں .
نہیں کبھی نہیں . 
کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہوتے یہ سب کچھ ہو سکتا تھا ؟ 
نہیں 
تو یہ ہی فرق ہے نبی سے محبت کرنے والوں میں اور محبت کا ڈرامہ کرنے والوں میں . 
آپ جیسا آدمی اپنی کرسی کے لیئے اور اپنے حلوے  کے لیئے اپنا دین بیچ دے تو کیا حیرت ہے  کہ ہماری ستر سال کی تاریخ میں آپ نے  اس کے سوا اور کیا بھی کیا ہے. 
آج کچھ غیرت مند اور باضمیر لوگوں کی وجہ سے عورتوں  اور بچوں کو کوئی تحفظ ملنے کی کوئی امید ایک نئے قانون کے تحت ہو رہی ہے تو آپ کے پیٹ میں خوب مروڑ اٹھنے شروع ہو گئے ہیں . 
لیکن آپ پر توہین رسالت کا قانون لاگو ہونا چاہیئے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیویوں سے جو رویہ رکھا آپ نے اسے نعوذ بااللہ، نعوذبااللہ، نعوذ بااللہ زن مریدی کانام دے دیا . لعنت ہے ایسا سوچنے والوں پر کہ جنہیں سنت رسول  کو ایسا نام دیتے ہوئے رتّی  بھرشرم نہ آئی . ایک بات یاد رکھیں اور آئندہ اس لفظ زن مرید  کو اپنی ڈکشنری سے پھاڑ کر پھینک دیں . کہ بیوی سے حسن سلوک شوہر پر بیوی کا اللہ کی جانب سے ملا ہوا حق ہے اور ہر مرد کا فرض ہے کہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرے کہ وہ اپنے نبی کی سنت پوری کرتا ہے . اور سنت میں بیاہ کرنا تو قبول ہے تو ایک قدم اور آگے آیئے اور اسی بیاہی ہوئی بیوی سے انسانوں والا سلوک کر کے اس کے دل میں اپنی عزت پیدا کریں بجائے اس کے کہ اس کے ذہن میں آپ کے ہونے سے خوف اور بے عزتی کا احساس پیدا ہو . اللہ پاک ہمیں مکمل ایمان عطا فرمائے.آمین 

                                       ..................

جمعرات، 25 فروری، 2016

بول مگر سوچ کر


بول مگر سوچ کر
ممتازملک ۔ پیرس


کچھ باتیں کچھ کام اگر مناسب وقت پر ہی منہ سے نکالے جائیں تو ہی بہتر ہوتے ہیں . لیکن ہمارا عمومی رویہ یہ ہی ہے کہ کام کرنے یا ہونے سے پہلے ہی اس کا اتنا ڈھنڈھورا پیٹ لیا جاتا ہے کہ وہ ہونے والا کام بھی اکثر نہیں ہو پاتا . اور ہمیں نا حق شرمندہ ہونا پڑتا ہے . حالانکہ ہم جھوٹ نہیں بول رہے تھے. لیکن جھوٹے کہلائے جاتے ہیں . اس لیئے تھوڑی سی احتیاط اور  اپنے دانتوں کے نیچے تھوڑی دیر کے لیئے اپنی زبان دبا لی جائے تو سوچیں ہم کتنی مشکلوں  سے بچ سکتے ہیں. زبان کا سوچ سمجھ کر استعمال ویسے بھی سمجھداری اور بردباری  کی نشانی ہے . خوشی ہو یا پریشانی جو لوگ اپنی زبان ہی نہیں سنبھال سکتے وہ کسی کے ساتھ اپنے معاملات کو کیسے سنبھال سکتے ہیں . انسان کی حکمت اس کی زبان میں پوشیدہ ہوتی ہے . انسان کا جیسے ہی منہ کھلتا ہے اس کا خاندان بھی سب کے سامنے کھل جاتا ہے اور جیسے ہی اس کی زبان کھلتی ہے اس شخص کی قابلیت، علم،اوقات،کردار سب کچھ کھل کر سامنے آ جاتا ہے . جیسے ایک انجن پر گاڑی کی حالت کا انحصار ہوتا ہے. اسی طرح گویا انسان کے پورے احوال ظاہری اور پوشیدہ کا بھید اور کنٹرول  اس کی زبان میں ہے.
ایک بار ایک شخص بہت قیمتی لباس اور تیاری کے ساتھ کر وفر سے سقراط کے سامنے آ بیٹھا اور کچھ دیر اسے اپنے رعب میں لانے کے لیئے ادائیں دکھاتا رہا تو سقراط نے اسے دیکھ کر تاریخی جملہ کہا کہ
" جناب اب کچھ بولیئے تاکہ میں آپ کی قابلیت  کا اندازہ لگا سکوں."
یہ بات اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ لباس اور طمطراق انسان کی اصلیت کے آئینہ دار کبھی نہیں ہو  سکتے.  بلکہ اس کی شناخت اس کی زبان اور اس کی گفتگو سے ہی ہوتی ہے . اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جیسے ماحول میں اٹھتا بیٹھتا ہے وہ بھی اس کے آداب گفتگو پر اثراندازہوتے ہیں . اس لیئے جب گھر میں کسی کی گفتگو کا انداز بدلنے لگے تو اس کی صحبت پر ضرور نظر ڈالیں کہ وہ شخص کن لوگوں میں بیٹھنے لگا ہے، کیسے پروگرامز دیکھ رہا ہے ، کن مصروفیات میں وقت گزار رہا ہے اور کیسا مواد پڑھ رہا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں مل کر ہی ایک انسان کی گفتگو اور کردار کی تعمیر کرتی ہیں . 
کاموں کے مکمل ہونے کا انتظار کیجیئے ۔ ویسے بھی پنجابی میں کہتے ہیں کہ
                        '' چن چڑھے کُل عالم ویکھے ''
 یعنی جب چاند نکلتا ہے تو ساری دنیا دیکھتی ہے ۔
جو عزت اور اعتماد آپ کو کام کو مکمل کسی کے سامنے پیش کرنے میں محسوس ہو گا وہ ادھورے کام یا ہونے والے کام کے بارے میں بات کر کے کبھی محسوس نہیں ہوگا۔
 لیکن اس کے برعکس کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی رائے یا رد عمل ظاہر کرنے میں اتنی دیر کر دیتے ہیں کہ تب تک اس بات اور عمل کی افادیت ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے اور منیر نیازی جیسا صوفی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں 
ضروری بات کرنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں 
 لہذا بات ضرور کیجیئے اور موقع پر کیجیئے - بے موقع بات کہنا بھی بے وقت کی نمازوں جیسا ہی ہے ۔ کہ وہ ادا تو ہو جاتی ہیں لیکن وقت پر پڑھی ہوئی نماز جیسا مقام کبھی حاصل نہیں کر پاتیں ۔ 
یا پھر  بقول شیخ سعدی کے
" انسان کو بولنا سیکھنے میں تو ایک سال لگتا ہے لیکن کون سا لفظ کہاں بولنا ہے یہ سیکھنے میں ساری عمر گزر جاتی ہے ". 
اور انسان کو یہ سیکھنے میں بھی زمانہ لگ جاتا کہ کہ کہاں کہاں خاموش رہنا ہے . 
کیونکہ خاموشی بھی کئی بھید کھل کر حالات کو آپ کے سامنے لانے کا موقع فراہم کرتی ہے.کئی جھگڑوں سے بچاتی ہے . خاص طور پر نئی جگہ پر،نئے لوگوں میں، نئے حالات میں سب سے بہتر مشورہ کسی کے لیئے بھی یہ ہی ہو سکتا ہے کہ بولیں کم اور سنیں زیادہ . کہ چند روز کی یہ خاموشی یا کم گوئی آپ کو آنے والے حالات کو سمجھنے کے بہترین ہنر عطا کریگی. آزمائش شرط ہے.

                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یادش بخیر . ایک شعر




یادش بخیر ایک شعر
ممتازملک. پیرس




آج ایک وال پرایک شعر کسی نے پوسٹ کیا  .
ویسے تو پوسٹ کرنے والے نے شعر کی حسب توفیق ہڈیاں ٹانگیں خوب توڑی تھیں لیکن اصل شعر بھی دھم سے ہمارے ذہن میں آن پہنچا
" اے رفیق زندگی اے مسافر الوداع
زندگی میں پھر ملیں گے جب کبھی موقع ملا"
یہ پچھلی صدی کی بات ہے .
ہمارے سکول کی اس روز گرمی کی چھٹیاں ہونے جا رہی تھیں .ہمارے ہائی سکول میں نویں جماعت کے دن تھے . اس روز سکول کا گرمی کی چھٹیوں سے پہلے کا آخری دن تھا  . 
ہماری شرارتی کلاس کی موج مستیاں عروج پر تھیں . سب چھٹیوں کے لیئے اپنے اپنے پروگرام ذوروشورسے بیان کر رہی تھیں .
کوئی بلیک بورڈ پر کسی ٹیچر کا کارٹون بنا رہی تھی ، تو کوئی اپنی کاپیاں کتابیں الماری سے نکالنے میں خوشی خوشی مصروف تھیں ،
کچھ اتنے دن کی جدائی پر اظہار  اداسی کر رہی تھیں اور ایک" میں" جسے یہ سوچ کر موت پڑ رہی تھی
کہ" لو جی ہن سارے گھر دا کم مینوں کرنا پے گا "ہائے ہائے کیا بتائیں ہمارا دل کیسے صدمے سے دوچار تھا . یہ نہیں کہ ہم کوئی کام چور ہستی تھے. لیکن اس لیئے کہ ہماری اماں حضور بلکل ہی ہاتھ پاوں چھوڑ کر ہمیں نیک پروین بننے کے تمام سنہری مواقع فراہم کرنے کے موڈ میں آ جاتی تھیں . 
یہ ہی سب سوچتے ہم نے بھی یہ ہی شعر بلیک بورڈ پر یہ دیکھے بنا جڑ دیا کہ اسکے عین نیچے ہماری پرنسیپل کا کارٹون بنا ہوا ہے .
شو مئی قسمت ہماری کلاس فیلوز نے سکول کے آخری پریڈ میں جو ہا ہا کار مچارکھی تھی اسے سن کر ہماری محترمہ پرنسپل مسز نذیر کی اچانک آمد ایسے ہی ہوئی جیسے کسی نے ہمیں بھنگ بیچتے ہوئے پکڑ لیا ہو . 
کیونکہ ہماری ساری کلاس کیا پورے سکول کی مشترکہ  حکیمانہ رائے تھی کہ عزرائیل کو تو اللہ پاک بھیجتے ہیں جان لینے کو لیکن ہم  (اپنی طرف سے معصوم )بچوں کی جان لینے کو مسز نذیر کو باقاعدہ تنخواہ ہی نہیں اس کے بعد پینشن بھی منظور کروا کر بھیجا گیا ہے . وہ نہ صرف بڑی دبنگ خاتون تھیں بلکہ اللہ نے انہیں گرجدار آواز اور فل والیم سے خوب نوازہ تھا. سکول کے ایک کونے سے ان کی دھاڑ  گونجتی تھی کہ 
"کیا ہو رہا ہے "
اس کے بعد گویا کسی کے چراغوں میں روشنی  کیا تیل ہی نہیں رہتا تھا.
پورا سکول اس آواز کے بعد گونگوں کے سکول کا منظر پیش کیا کرتا تھا .ڈسپلن کے معاملے میں شاید وہ اپنے بچوں کو بھی گھر سے باہر مرغا بنا دیتیں تو بھی ہمیں کوئی حیرت نہ ہوتی .
ہمارے ہوشربا شور شرابے میں ہمیں خبر بھی نہ ہوئی اور سناٹا اس وقت طاری ہوا جب باقاعدہ ایک آواز آئی 
"کدھر کو جا رہے ہیں تمہارے ڈولے"
لو جی اس دن پتہ چلا کہ
ڈولی چڑھدیاں ماریاں کیوں ہیر چیکاں ں ں ں ں ں 
شاید اس کا ڈولی کے دروازے  میں ہاتھ آ گیا تھا یا اس کی بھی پرنسپل نے چھاپا مار دیا تھا.  
کلاس ساری صم بکم
"کس نے لکھا ہے یہ بلیک بورڈ پر "
انہوں نے ہماری سانولی سلونی باریک سی مانیٹر ثمینہ سے پوچھا وہ بیچاری تھر تھر کانپتی کبھی مجھے دیکھے کبھی پرنسپل کو . کیونکہ ادھر کنویں ادھر کھائی کے مصداق مار اسے دونوں طرف سے پڑنی تھی . حالانکہ ہمارا کبھی کسی سے جھگڑا نہیں ہواتھا لیکن اللہ کے فضل سے اپن کا رعب بڑا تھا .
آخر کار پرنسیپل کی پھٹکار  کے بعد اس نے کھائ  میں کودنے  کا فیصلہ کر لیا. یعنی ہمیں بلی چڑھا دیا. اب پرنسپل نے ہمیں یوں گھور کر دیکھا جیسے کسی سبزی خور کو گوشت بلکہ گدھے کا گوشت کھاتے پکڑ لیا جائے . کیوں کہ اس سے پہلے ہماری معصوم صورت کی وجہ سے ہمارا ریکارڈ نہایت معصومانہ تھا . اس روز انہیں معلوم ہوا کہ
ہیں ںںں
"ممتازملک بھی شرارتی بچہ ہے"
بس جی ان کے آرڈر پر میں بڑی مجرم اور دو دوسری چھوٹی مجرمات ان کے آفس کے باہر انتظار میں کھڑی کر دی گئیں . 
بنا کچھ کہے بنا کچھ بتائے،
اب پانچ منٹ میں سکول کی بیل بجی سارا سکول رخصت ہو رہا تھا اور ہم اپنی پیشی کے انتظار میں سوکھ رہے تھے ہماری جونیئر کلاسز کی کچھ لڑکیوں نے گزرتے ہوئے پوچھا بھی کہ
" آپی آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں" ؟
تو ہم نے بھی کھسیانی ہو کر انہیں مرعوب کرنے کو کہا ہمیں پرنسپل صاحبہ سے ضروری کام ہےانہوں نے بلوایا ہے آپ جاو جاو شاباش.  
لیکن دل کا حال تو ہم ہی جانتے تھے . کہ ہمارے گھر کا رستہ  پندرہ منٹ کا ہے تو سولہویں منٹ میں اماں کا برقعہ ان کے سر پر ہو گا اور وہ ہماری تلاش کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی  . پھر حسب توفیق ہماری اتنی دھوم مچائیں گی کہ کیا ہی آج کل کے دھوم مچا دے گانے نے مچائی ہو گی.
ہم پرنسپل کے بلاوے کے انتظار میں تھے سکول کی تقریبا ساری لڑکیوں کے جانے سے پہلے ہمیں بلا ہی لیا گیا ہمیں " بڑی شرارتی" کا اعزاز دیتے ہوئے انہوں  نے ایک تاریخی ایگریمنٹ پر ہم سے سائن لیئے. جس پر ہمارے ہی مبارک  ہاتھوں سے لکھا تھا.
"آئندہ ہم کبھی ایسی شرارت نہیں کریں گے "
انہوں نے جب اپنی گھومنے والی کرسی کا رخ دیوار کی جانب کیا تو ہمیں پورا یقین ہے وہ خوب ذور سے ہنسی ہوں گی. 
لیکن ہمیں وہ ہنسی سننے کا ہوش کہاں تھا
ہم نے کودتے پھاندتے اپنی کلاس روم سے بیگ اٹھائے اور گھر کی جانب سرپٹ  دوڑ لگا دی .  
اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہماری سپیڈ نے اماں کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی ہمیں گھر پہنچا دیا . اور ہم مزید امّاں کی نظر میں خوار بلکہ رسوا ہونے سے بچ گئے . ورنہ جو ہوتا کم تھا.
                               
      ..................


جمعہ، 12 فروری، 2016

کندھے یا پیڑھے




کندھے یا پیڑھے
ممتازملک .پیرس






بچپن میں اپنی ماں سے ایک کہانی سنی تھی کہ
ایک گاوں میں ایک بڑا امیر اور متکبر شخص رہا کرتا تھا .گاوں والوں کی کسی خوشی غمی میں اپنے گھر سے کسی کو بھی شامل ہونے نہیں بھیجتا  تھا . ہاں موت والے گھر  میں ایک پیڑھا بھجوا دیتا . کہ یہ اس کی جانب سے شرکت کا اعلان ہوتا . کافی سال یہ سلسلہ چلا . پھر ایک روز اس کے ہاں بھی کسی کی موت ہو گئی. اس نے جب میت تیار کروا کر اس کی آخری  رسومات کے لیئے اپنے گھر کے باہر دالان میں جھانکا تو لوگوں کی جگہ پیڑھوں کاڈھیر لگا پایا . 
نوکر سے پوچھا کہ یہ کیا ہے .
 تو نوکر نے جواب دیا سرکار
" یہ دنیا کا دستور ہے کہ جیساکوئی کسی کے ساتھ کرتا ہے ویسا ہی اس کیساتھ بھی کیا جاتا ہے . آپ نے جو سب کو بھیجا وہ سب نے آپ کو لوٹا دیا ہے . آپ کے گھر کی ڈولی اور جنازہ یہ ہی پیڑھے  اٹھائیں گے . اگر آپ نے کندھے بھیجے ہوتے تو آج کندھے بھی مل جاتے''.
...........

بدھ، 10 فروری، 2016

ملاقات



پاکستان سے واپسی پر 6مارچ 2016 ایسوایشن فم دی موند  کی صدر اور معروف شاعرہ محترمہ شمیم خان . حق باہو وویمن ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ اور دیگر خواتین سے ایک.خصوص ملاقات کا اہتمام کیا گیا .




منگل، 9 فروری، 2016

پیرس میں پہلا عالمی مشاعرہ 7 جون 2015



 پیرس میں پہلا عالمی مشاعرہ
7 جون 2015


















پیر، 8 فروری، 2016

بڑے لوگ چھوٹے دل

کیا آپ کا اشارہ میری جانب ہے سر . میری تو ان کے ساتھ کوئی تصونہیں ہے ہاں ان کی آخری ملاقاتوں میں سے میرے ساتھ ہونے والی بھی وہ ملاقات شامل تھی . میرا تو ان سے ملنا ہی میرے لیئے ایک اعزاز کی بات تھی .  آپ لوگ بھی تو اپنے ابتدائی دنوں میں کسی کو کام کے حوالے سے پسند کرتے ہوں گے . ان سے ملنا چاہتے ہوں گے . ان کو دیکھنا چاہتے ہونگے تو اس کا ذکر بھی اس وقت کے میسر ذرائع سے کرتے ہوں گے . اس میں کیا عیب ہے . یہ آج کا زمانہ ہے یہاں آج کے انداز میں ہم سب اپنی خوشی کا تجسس کا اظہار کرتے ہیں . کیا یہ بڑی بات ہے؟؟کیا ساری دنیا میں ایسا ہی نہیں ہوتا؟؟

بہت شکریہ.  لیکن میں پھر بھی کہوں گی کہ جانے والا کوئی ایسا ویسا ہو تو کوئی کیا ذکر کریگا لیکن اگر جانے والا اتنا بڑا اپنے کام کا ماہر ہو تو ہر ایک اس کے نام سے کسی بھی حوالے سے جوڑنا چاہے گا . یہ انسانی فطرت ہے جناب . ہاں جو لوگ اس میں جھوٹ کا تڑکہ لگاتے ہیں . انہیں شرم آنی چاہیئے.

میری کیا جرات ہے جناب کہ میں آپ کی بات کو رد کروں . میں تو ایک.عام فطری رجحان کا ذکر کر رہی ہوں
آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں لیکن تصویر  کا دوسرا رخ آپ.کے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہی ہوں . معذرت کیساتھ . جو لوگ جھوٹ ملاتے ہیں وہ قابل لعنت ہیں . جانے والا خود تو اپنی سچائی بیان نہیں کر سکتا لیکن دنیا میں رہنے والا اس پر جھوٹ باندھ کر اس کی روح کو تکلیف پہنچانے کا موجب  ضرور بن رہا ہوتا ہے . اللہ ہمیں معاف فرمائے.

تو   بے حد احترام اور معذرت کیساتھ جن لوگوں کے جانے پر کوئی نہیں بولتا تو بھی آپ جیسے لوگ ہی فرمائے ہیں کہ دیکھو کیسا بے ضمیر معاشرہ ہے .
دوسری جانب نئے لکھنے والے یا بقول آپ کے" لالچی رائیٹرز " اگر یہ کہیں کہ آپ جیسے لوگ تعزیت کرنے والوں کی آڑ لیکر   نئے آنے والوں سے اپنا حسد اور بغض نکال رہے ہیں یا جانے والوں کا نام لیکر اپنے نمبر بنا رہے ہیں . تو اس میں کیا جھوٹ ہو گا ؟ کیونکہ ہمارے ملک میں جو آدمی کسی مقام  پر خاص طور پر لکھاری کسی مقام پر پہنچ جائے تو وہ چاہتا ہے بس اب اس رستے کی طرف آنے والے ہر آدمی کو بے عزت کر کے رکھ دو کیونکہ آخری طرم خان وہی تھا جو پیدا ہو گیا . اس قدر تکبر اور اس قدر خود پسندی کی کوئی مثال میں نے اور دنیا میں کہیم نہیں دیکھی. خود کو خدا سمجھنے سے اچھا نہیں ہے کہ ہمارے بزرگ رائٹرز خود کو اچھا انسان بھی ثابت کریں اور آنے والوں کو رہنمائی کریں ان کی حوصلہ افزائی کریں . ورنہ وقت تو انہیں آگے لے ہی آئے گا .
بہت بہت شکریہ  ان چند بڑے دل والے سینئیرز کا کہ سچ میں اگر آپ جیسے چند لوگ اس میدان میں ہمیشہ نہ ہوں تو  ہر شخص اس میدان میں پہلا اور آخری ہی ہوتا . کسی کو اپنا پہلا دن یاد ہی نہیں ہوتا کہ وہ بھی اسی طرح ایک روز نیا تھا .  بقول.ان لوگوں کے بونے تھے.کسی نے ان کی رہنمائی کی تو وہ اس کے لیئے راہبر ہو کر اچھے لفظوں میں جی گیا لیکن  جس نے اس کا راستہ روکا وہ یہ بھول گیا کہ راستے خدا بناتا ہے کسی انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ یا اس کا نام کسی کے لیئے راستہ بنے . جب تک کہ رب کائینات نے کامیابی یا نام اس کے مقدر میں لکھ نہ دیا ہو. یہ تو اللہ کی جانب سے ہمارے لیئے بہانے ہوتے ہیں .

جمعرات، 4 فروری، 2016

پرانا پاپی


پرانا پاپی 
ممتازملک ۔ پیرس




ملک بھر میں ہونے والے قتل عام اور چن چن کے اس ملک سے قیمتی ترین لوگوں کو قتل کرنے والے دوسرے کئی گینگز  کی طرح لیاری گینگ کا عذاب بھی کچھ کم تباہی پھیلانے کا سبب نہیں رہا . اسی کے سرغنہ عزیز بلوچ نے اپنی گرفتاری کا یقین ہونے پر ایسا مکارانہ  کھیل کھیلا ہے کہ جس سے اس کیس کو اور اس کے مجرم ہونے کو جہاں تک ہو سکے اس قدر کمزور اور مشکوک  کر دیا جائے کہ ہر سیاسی آدمی اپنی عزت بچانے کے لیئے اسے چھڑانے اور اپنا دامن بچانے کی فکر کرنے لگے . پیپلز پارٹی کا یہ پرانا کارندہ ایک ایسا اجرتی  قاتل ہے جو باقاعدہ گروہ بنا کر معصوم شہریوں کو  خود بھی لوٹتا رہا ہے اور سالہا سال تک ان سیاسی نمائندوں کو بھی پالتا  رہا ہے . پھر طریقہ واردات کسی کا قتل ہو ،کھالوں  کی لوٹ ہو ، صدقے فطرانے  کے نام  پر جگا ٹیکس ہو یا یا پھر اغواء برائے تاوان ،گو ہر طریقے سے اس نے اپنے مشن جاری رکھے . اس پر اس  نے ہر ہر موقع پر ہر نامی گرامی  شخصیت کیساتھ  اپنی تصاویر بھی ان کے جانے انجانے میں یوں بنا کر انہیں ایسے ایسے مواقع پر پیش کیا کہ ہر آدمی ہی مشکوک ہو جائے اور ہماری عدالتیں جو  پہلے ہی لولے لنگڑے فیصلے کرنے اور ایسے مجرموں کو آذاد کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں انہیں مذید عذر در عرض دے دیئے جائیں . کیونکہ ہماری عدالتیں سائیکل چور اور گاڑی کے چالان والوں کو تو سالہا سال لٹکا سکتی ہیں . لیکن قاتل چاہے ریمنڈ ڈیوس ہو ،شاہ ذیب ، یا کسی بھی نام سے ہو. اسی عدالت کی ناک کے نیچے سے وکٹری بناتا ہوا اس کی حرمت پر منہ چڑھاتا ہوا گزر جائے گا . کاش یہ رہائی ہماری عدالتوں میں معصوموں کے لیئے اتنی آسان ہوتی . لیکن یہ آسانی اور شکوک کے فائدے میسر بھی ہیں تو ایسے قاتلوں لٹیروں اور ڈاکوؤں کو . 
اس شخص نے نہ صرف ہر نامور شخصیت کیساتھ تصاویر بنائیں ان میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں سیاستدان ہوں یا کھلاڑی،  صحافی ہوں یا  میڈیا والے . اس کے وار سے کوئی بچا ہوا نہیں ہے. 
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے خلاف انکوائری میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ وہ کس شخص کیساتھ کس حد تک اور کس حوالے سے رابطے میں تھا ۔ وہ کون لوگ تھے. جو اس کے ایک ایک جرم پر پولیس سٹیشن فون کر کر کے اسے اور اس کے کارندوں کو نہ صرف چھڑایا  کرتے تھے بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولتیں اور پناہ گاہیں بھی فراہم کیا کرتے تھے ۔ 
یہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہے جس کا دماغ ایک وقت میں کہاں کہاں  کس کس کو ٹپکاتا تھا، کبھی اڑاتا  تھا اور کبھی غائب کرواتا تھا ، جس کی ہاتھوں نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ ہی کسی کی جان اور مال ۔ ایسے لوگ ہمیشہ ہی  سیاسی کارندے اور انکے خاص گلو بٹ رہے ہیں  . ان کا ہر طبقے کے لوگوں میں کھڑے ہو کر، بیٹھ کر سیلفی بنوانا یا تصویر بنوانا کوئی بڑی بات نہیں . ہمارے ساتھ دائیں بائیں جانے کون کون ہمیں اپنے کیمرے میں قید کر رہا ہے. یہ ہم نہیں جان سکتے . لیکن ہاں جو لوگ ان کے ساتھ  ان کے گھروں میں بیٹھے  ہیں، ان کے ہاں دعوتوں اور شادی بیاہ میں شریک ہوتے رہے ہیں. تو ہاں دال  میں کالا کیا کہیں پوری دال ہی تو کالی نہیں ؟؟؟؟؟؟
                  ----------

عجب میں ہوں ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا


عجب میں ہوں

عجب میں ہوں پاگل عجب میں نرالی
کیئے اپنے کام اور پھر گھر کی راہ لی

نہ کوئی غرض رکھی بازیگروں سے
ہمیں جیت پایا نہ کوئی کمالی

یہ موقع پرستوں کی رسمیں پرانی
کہ ہر راہ کے بدلے نئی ایک راہ لی

بھلائی کی چاہت کسی کو نہیں تھی
برائی نے آ کےجو گدّی سنبھالی

مجھے دینے والوں نےعزت جودی تھی
ہاں جتنا ہوا میں نے قیمت چکا لی

 ہمیں دوسروں کے لیئے اپنا ایماں 
بدلنا نہ آیا توجہ ہٹا لی

گندھی اپنی مٹی میں ایسی وفا تھی
نہ در در پہ جا کے  بنے ہیں سوالی

تعزُ تذلُ لکھا جا چکا ہے
بہت ہے جو ممّتاز عزت کما لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 2 فروری، 2016

اردو ادب کے انتظار حسین



اردو ادب کے   انتظار حسین 
ممتازملک ۔ پیرس


مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک



دنیائے ادب کے معروف لکھاری نے آج اس دنیا کو الوداع کہہ دیا . لیکن ہمیں اپنے علم و ادب کا بہت بڑا اثاثہ دیکر  رخصت ہوئے . انتظار حسین صاحب کو کچھ نہ کچھ پڑھ تو ضرور رکھاتھا . لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھاکہ ان سے آخری بار ملنے والوں میں مجھ ناچیز کا نام بھی شامل ہو گا . 
اوریئنٹل کالج برائے خواتین لاہور میں اپنےچند روز قبل ہونے والی 17جنوری 2016 کی اردو کانفرنس کے موقع پر جہاں اور بہت سی نایاب ہستیوں سے ملنے کا موقع ملا وہیں جناب انےظار حسین صاحب سے بھی ملاقات کا موقع ملا . موصوف نہ صرف بے حد اچھے لکھاری رہے ہیں بلکہ بے حد اچھے اور نفیس اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے نفیس انسان بھی تھے ..جس کا ثبوت انہوں نے آخری دم تک دیا . اپنی طبیعت کی ناسازی کے باوجود وہ اس کانفرنس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ہر ایک کے ساتھ خوشدلی سے بات چیت کرتے ہنسی مذاق کرتے اور تصاویر بنوانے رہے . مجھے وہاں ان کے رخصت ہوتے وقت یہ آخری تصاویر بنانے کا موقع ملا .  انہیں اردو ادب ہمیشہ فخر سے یاد رکھے گا.

مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک






مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 1 فروری، 2016

ہم کیسے لوگ ہیں ؟/ کالم . سچ تو یہ ہے






ہم کیسے لوگ ہیں ؟
ممتاز ملک ، پیرس



See original image
ہم کیسے لوگ ہیں ؟ شاید ہم ویسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہتے ہیں " کہ 
بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے" .
یا شاید ہم ویسے بھی تو لوگ ہیں جن کے لیئے بلے شاہ نے فرمایا کہ
وے بلیا اساں مرنا ناہی  
  گور پیا کوئی ہور 
دنیا کے قانون پر جائیں تو ہر اچھے ملک کا قانون انسانوں میں سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے .دین پر جائیں تو ایسا بے مثال منشور رکھتا ہے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے . یعنی امن تو کیا جنگ میں بھی کسے بوڑھے پر .عورت پر بچے پر یا جو نا لڑنا چاہے اس پر ہاتھ نہیں اٹھا یا جا سکتا . ان کے حفاظت کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد کر دی گئی.  یہ ذمہ داری خالی خولی زبانی نہیں ہوتی بلکہ اس میں عورت کی یا بچے کی مالی .ذہنی اخلاقی ہر طرح کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے .
لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ  ہمارا معاشرہ خصوصا بچوں اور خواتین کے لیئے مجرمانہ خاموشی اور منافقت کا رویہ اپنائے رہتا ہے. 
کوئی کسی کے لیئے کیا خود خواتین بھی کسی خاتون کے لیئے  یہ سوچ کر آواز نہیں اٹھاتی ہیں کہ مبادا انہیں اپنے گھر سے دیس نکالا نہ مل جائے .ان کا میاں انہیں نہ چھوڑ دے .کتنی عجیب بات ہے جو رشتے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں انہیں یہ سوچ کر ہم چلاتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا تو یہ چلے گا اور ویسا کیا تو نہیں چلے گا .اگر ایسا ہوتا تو ہم نے بے شمار ایسی خواتین دیکھیں جو حسین بھی تھیں سگھڑ بھی تھیں با ہنر بھی تھیں اور باوصف و باکمال بھی تھیں لیکن پھر بھی ان کے گھر ٹوٹ گئے ان کا ساتھ کسی وجہ سے نہ نبھ سکا . اور ہم نے ایسی بھی خواتین دیکھی ہیں جو بدشکل بھی تھیں ،بدتمیز بھی تھیں ،بدزبان بھی تھیں  ،بے انتہا پھوہڑ کہ انہیں گھر میں جھاڑو دینے کو بھی نہ رکھے لیکن وہ میاں کے ساتھ ساری عمر عیش کرتے گزار دیتی ہیں . اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں کو  ان کی مقررہ مدت سے زیادہ کون چلا پایا ہے اور اگر  لکھے ہیں  تو انہیں کون توڑ پایا ہے .لیکن یہ تو ہم تب مانیں جب ہمارا ایمان سلامت ہو 
.تو ایسے ماحول  میں جب کوئی ایسی خواتین  سامنے آتی ہیں چاہے گھر کے معاملات ہوں یآ گھر سے باہر ملازمتوں عہدوں یا خاص طور پر جب وہ لکھنے لکھانے جیسے شعبے سے وابستہ ہو اورجو اپنا ایمان اتنا مضبوط رکھتی ہیں کہ اس کے لیئے ہاں ہی نہیں نا بولنے کی بھی جرات رکھتی ہیں .تو انہیں جھٹ سے دو نمبر مرد ایک پلاننگ کے تحت بددماغ .بدزبان اور بدکردار  جیسے نام دینے لگتے ہیں .وجہ اس عورت کی خداداد صلاحیتوں سے خوفزدگی.  نام نہاد پڑھے لکھے سو کالڈ ادیب اور لکھاری سبھی اسے بہتی گنگا نہ بننے کے جرم کی سزا دینے کے لیئے میدان میں کود پڑتے ہیں . پھر وہ مرد یورپ کے متمدن معاشرے میں رہنے والا پی ایچ ڈی پروفیسر ہو یا معروف لکھاری اور براڈکاسٹر یا پھر شاعر عرف انٹیلکچوئیل یا کسی بھی شعبے  سے ہو .یہ سارے بہت سارے دوسرے ادبی دنیا کے بے ادب رخ کے وہ جوان و  بابے ہیں جن کی ٹانگیں تو قبر میں ہیں مگر یہ سوچ کر غلاظت پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ
منہ تے ہالی بار اے
میری اس تحریر کا قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ سارے مردوں کو ہم ایک جیسے لپیٹے میں لے رہے ہیں .بلکہ ہمیں تو ان  حقیقی مردوں کی مدد کی اشد ضرورت ہے جو اس ماحول میں اپنے گھر کی خواتین کو باہر لاتے ہوئے گھبراتے ہیں .  قابلیت ہوتے ہوئے بھی کئی در نایاب  اسی طرح دنیا سے چلے جاتے ہیں .
اور جو خواتین اس میدان میں قدم رکھتی بھی ہیں ان کے لیئے ہر قدم پر ایک نیا امتحان کھڑا کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے . یہ خاتون شادی شدہ ہے تو اسے طلاق دلوانے کا پورا انتظام کیا جائیگا اور اگر وہ پہلے ہی اس رشتے سے آذاد ہے تو پھر تو جس سے اس نے بات کی وہ اس کا ...... بنا دیا جائے گا .اور اس خاتون کا ٹھیکیدار بننے کی پوری کوشش کریگا اور اگر خاتون نے ایک دو بار زیادہ عزت سے مسکرا کر کسی بات کا جواب دیدیا توسمجھ لیں بس خاتون تو ان کے خیال میں ان پر مر ہی مٹی ہیں .خاتون مسکرا کر بات کرے تو بدکردار کا سرٹیفیکیٹ اور اگر سنجیدگی سے صرف نپاتلا جواب دے تو بددماغی کا لائیسنس. آخر کوئی بتائے کہ عورت کرے تو کیا کرے .بات کرتی ہے یا جرات مند ہے تو کوئی جینے نہیں دیتا بات نہیں کرتی  یا کچھ نہیں جانتی تو بھی اجڈ جاہل اور مغرور کے خطابات سے نوازی جاتی ہے.
وہ تمام مرد حضرات جو ان مگر مچھروں سے واقف ہیں ان کی گندی زبانوں سے واقف ہیں ان کی بدکرداری اور خواتین کو کی گئی  بلیک میلنگ سے واقف ہیں تو خدارا  ان پر اپنی یاری دوستی کا پردہ مت ڈالئے. بلکہ انہیں یہ سوچ کر بے نقاب کیجیئے کہ کل کو ان کے نشانے پر آپ کے گھر کی کوئی خاتون بھی ہو سکتی ہے ..صرف یورپ  کی خاتون ہی آخری نشانہ نہیں ہو گی . جس نے ان ٹھرکیوں کا سالہا سال لحاظ بھی کیا اور یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ کتے  کتنی دیر  بھونکیں گے . 
لیکن اب جب یہ کاٹنے کے لیئے تیار ہیں تو ان کے دانت توڑنے کا وقت بھی ہو گیا ہے .پبلک میں کام کرنے والی کوئی خاتون کسی کے بھی باپ کا مال نہیں ہے کہ  اسے راہ چلتا کوئی بھی بکواس کرتا اور کمنٹ پاس کرتا گزر جائے . بدکاری خواہ کوئی بھی ہو ، زبان کی ہو یا آنکھوں کی ہو ، سوچ کی ہو یا عمل کی، اسے کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بدکاری بدکاری ہی ہوتی ہے . اور یہ قانون قدرت ہے کہ مرد کی بدکاری ہمیشہ پلٹ کر اسی کے گھر کی عورت کو شکار کر جاتی ہے . پیشاب کی ایک چھینٹ ہی دودہ کی بھری بالٹی  کو ناپاک کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے. اور ہاں یاد رکھیں دنیا بدمعاشوں کی بدمعاشی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتی بلکہ شریفوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے .ہر دور میں انسانوں کی غیرت کا امتحان ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے .آج کی ادبی دنیا بھی اہسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کے الفاظ کاغذ پر بس واہ واہ کی سیاہی ہی بکھیرتے ہیں ان کی زندگی عمل کے یکسر خالی ہے ۔
ایسے لوگوں  کی شکلیں دیکھنے کے بعد ان کے کرتوتوں پر زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی . جیسا کہ پڑھ رکھا ہے کہ انسان کی جوانی کے کام بڑھاپے میں ان کی صورت پر آجاتے ہیں کبھی اچھے کام  نور بنکر تو کبھی برے کرتوت پھٹکار بنکر .  اب خاموشی کا وقت گزر گیا ہے تمام ماں بہنوں اور بیٹیوں والوں کی ہمت و جرات کا امتحان ہے کہ میدان میں آئیں اور ادب  کے نام پر ٹھرک بازوں اور بدکردار بلیک میلروں کے اس ٹولے کو سبق سکھائیں جو ہر جگہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں . ہم اپنے اچھے کاموں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہ خبیث اپنی کر توتوں سے ہمیں کھینچ کر ایک میل پیچھے دھکیل دیتے ہیں . ہمیں آپ سب کے ساتھ کی جتنی ضرورت  آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی.جب علم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر برابر فرض ہے تو اس کے عملی میدان پر بھی محض مردوں کی اجارہ داری کا کہیں کوئی حکم نہیں ہے .اس لیئے آگے آیئے. اپنے ضمیر کی آواز کو سنیئے .....
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/