ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 21 مئی، 2014

ڈیلی تاریخ کی شعبہ خواتین کی ٹیم / Shah Bano Mir 3 hrs · Edited ·




ڈیلی تاریخ کی شعبہ خواتین کی ٹیم

یورپ میں پہلی بار ایسی ذہین پڑہی لکھی گھریلو خواتین نے قلم کو تھاما ہے
ج پڑہی لکھی شائستہ ہیں ـ لیکن گھریلو ذمہ داریوں میں گم ہو کے اپنی صلاحیت کو مسلسل زنگ آلود کر رہی تھیں ـ
الحمد للہ چراغ سے چراغ جلا اور آج کئی خواتین اکٹھے ہو کر باقاعدہ حلف لے کر ایک متحد ٹیم کی طرح اپنی قوم اپنے ملک اور امت کیلیۓ میدان میں اپنے کام کے ساتھ دکھائی دے رہی ہیں ـ 
ٹیم ڈیلی تاریخ 
محترمہ شاہ بانو میر سرپرستِ اعلیٰ 
محترمہ روحی بانو صاحبہ ایڈیٹر 
شمیم خان صاحبہ ڈپٹی ایڈیٹر
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ ڈپٹی ایڈیٹر برائے یورپ 
محترمہ وقار النساء صاحبہ شعبہ خواتین 
محترمہ عاصمہ ذاکر علی شعبہ دین و دنیا 
محترمہ نگہت سہیل صاحبہ 
محترمہ انیلہ احمد صاحبہ 
محترمہ صفیہ خواجہ صاحبہ 
معاون خصوصی سرپرستِ اعلیٰ 
محترمہ روبینا آفتاب صاحبہ
محترمہ رفعت جہانگیر صاحبہ 
محترمہ شاہین مقصود صاحبہ 
محترمہ طاہرہ شہزاد صاحبہ

تعارف 
روحی بانو صاحبہ 
ایڈیٹر برائے ڈیلی تاریخ بہترین کپتان قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہستی ہیں ـ
پی پی پی کی شعبہ خواتین کی صدر ہیں 
حق باھو ٹرسٹ کی شعبہ خواتین کی صدر ہیں ـ
فی البدیہہ شاعری میں کمال حاصل ہے ـ اعلیٰ مقررہ بہترین شخصیت ہمدرد اوصاف کی مالکہ ہیں ـ 
معروف سماجی کارکن عرصہ دراز سے پاکستان کمیونٹی کیلیۓ بہترین مخلصانہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں ـ 
محترمہ شمیم خان صاحبہ

بزرگ خاتون ہیں سب احترام کرتے ہیں ـ شاعرہ ہیں ایک کتاب منظر عام ے آچکی ـ تحریری طور پے گزشتہ ایک سال سے اپنی شناخت بنا چکی ہیں ـ پاکستان کیلیۓ کام کرنا چاہتی ہیں ـ 2001 سے اب تک کسی نہ کسی طور پروگرامز میں شرکت کر کے پاکستان کیلیۓ اپنی ذمہ داری نبھاتی رہی ہیں ـ اب باقاعدہ ڈیلی تاریخ کے پلیٹ فارم سے پہلی بار ذمہ دار حیثیت سے سامنے آئی ہیں ـ
ممتاز ملک صاحبہ
ڈیلی تاریخ کی ڈپٹی ایڈیٹر برائےیورپ ہیں 
عرصہ دراز سے ایک مذہبی ادارے کے ساتھ دینی خدمات ادا کی ـ 
پختہ خیال مذہبی سوچ کی حامل شاعرہ ہیں 
دو کتابیں منظر عام پےآچکی ہیں ـ 
آرٹیکلز لکھتی ہیں گویا معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ پے ہاتھ رکھ دیا ہو ـ 
بہت حساس اور نازک مسائل پے بے دھڑک لکھتی ہیں ـ بہترین پاکستانی خاتون ہیں ـ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار

محترمہ وقار النساء صاحبہ
یورپ کے پہلے باقاعدہ پرنٹ میگزین برائے خواتین بانی شاہ بانو میر صاحبہ اور ایڈیٹر محترمہ وقار النساء صاحبہ نے بہت خوبصورتی کے ساتھ بنایا ـ بہترین کاوش "" در مکنون"" کی صورت سامنے آیا ـ 
محترمہ بہترین تخلیقی صلاحیتوں کی حامل سنجیدہ سوچ کی مالک ہیں ـ ادبی ذوق ورثے میں ملا ہے ـ تعلیمی شعبے سے وابستہ رہی ہیں ـ 
گھریلو مصروفیات نے علم کا سمندر قید کررکھا تھا جس کو ان باہر آنے کا جوہر دکھانے کا موقعہ ملا ہے ـ 
ڈیلی تاریخ میں ان کے آرٹیکلز پڑھے جاسکتے ہیں ـ

محترمہ عاصمہ ذاکر علی صاحبہ 
مذہبی اعتبار سے بہت پختہ سوچ رکھتی ہیں ـ پاکستانی کمیونٹی کیلیۓ بہت احسن کام کرنا چاہتی ہیں ـ تا کہ ہمارے ماحول میں بہتری لا کے نسلوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے ـ 
تحقیق اور علم حاصل کرنے کی جستجو ان کی گھٹی میں ہے ـ

محترمہ نگہت سہیل صاحبہ 
خوبصورت انداز کی مالک جیسی بذلہ سنج طبیعت ان کی ہے ویسی ہی شوخی سادگی معصومیت ان کی تحریر میں جھلکتی ہے ـ 
دو آرٹیکلز لکھ چکی ہیں ـ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ـ اعلیٰ سوچ رکھتی ہیں ـ پاکستان کیلیۓ مجاہدانہ سوچ کے ساتھ قلم کو تھام چکی ہیں ـ
ٹیم کی مضبوطی اور ایک ہو کرکام کرنے پے یقین رکھتی ہیں 
انیلہ احمد
گھریلو خاتون ہیں ـ ذہنی صلاحیتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کا خزانہ ہیں ـ مثبت ٹھوس اور جاندار تحریرکا عنوان ہیں ـ 
ان کے دو آرٹیکلز منظر عام پے آکے کافی پزیرائی حاصل کر چکے ـ ابتداء بتا رہی ہے کہ سفر کا آغاز بہت شاندار ہے اور مزید سفر اسی جوش و خروش کے ساتھ اسی طاقت کے ساتھ آگے بڑھے گا ـ
صرف یہ کہنا ہے ایسے ٹیلنٹ کو اگر ویب پے جگہہ یہ کہ کر نہ دی جائے کہ پختگی نہیں ہے ـ تو میں نہیں مانتی 
پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس وقت ایک ایک سوچ کی ـ جسم تو بہت ہیں پاکستان میں دماغ بہت کم ہیں ـ 
اللہ کا خاص احسان کہ اس نے دماغ عطا کئے جو تعداد میں کم ہیں لیکن ہزاروں لاکھوں پے بھاری ہیں کیونکہ یہ احساس ذمہ داری سے آشنا ہیں ـ
لیکن 
سنجیدہ کام اور مثبت وہ کم ہے 
مجھے جہاں قربانی دینی پڑی مزید دوں گی 
کیونکہ
مقصد بہت بڑا ہے الحمد للہ 
شاہ بانو میر
......................

بدھ، 14 مئی، 2014

ایک اچھے مسلمان سے ملاقات۔ ممتازملک ۔ پیرس




ایک اچھے مسلمان سے ملاقات
ممتازملک ۔ پیرس


بہت کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے بلکہ کچھ تیزی کیساتھ ہی وقوع پذیر ہو رہا ہے ۔ کب صبح ہوئی اور کب رات ہو گئی کب ہفتہ شروع ہو ااور کب ختم کب ہو گیا ۔ کب سال کی ابتداء ہوتی ہے اور کب سال کا اختتام ہو رہا ہوتا ہے ۔ گویا ایک ایک پل سمجھنے والے کو موت کے در کے قریب کر رہا ہے ۔ اور نہ سمجھنے والے کو عیاشی کا ایک اور موقع فراہم کر رہا ہے ۔ ایک خدا کے سامنے جواب دہ آدمی کے لیئے ہر لمحہ ایک اور نیکی کی کوشش کا جذبہ فراہم کرتا ہے تو ایک خدا فراموش کے لیئے کل کس نے دیکھا ہے  اور جانے  کل کس کے ساتھ کیا ہو، کی بے خوفی کیساتھ'' کھل کے جی لے آج کی شام مہربانوں کے نام'' کر کے گناہ کی دلدل میں دھنستا ہی جا رہا ہے۔ ہر ایک اپنے گناہ کو گناہ سمجھنتا ہی کب ہے بلکہ اسے کرنے کے بعد اس پر خوب خوب تاویلیں بھی رکھتا ہے ۔ سب کے پاس اپنے اپنے جرائم کی معقول وجہ بھی ہوتی ہے اور گناہ کرنے کا بہانہ بھی ۔ کسی نے صرف نماز ہی پڑھنے کو  جنت کا مکمل راستہ جان لیا ہے تو کسے نے نبی پا ک ﷺ کی شفاعت کے وعدے کو اپنے گناہوں
اورجنت کے بیچ ایک ایسی گارنٹی بنا لیا ہے جسے دیکھ کر عیسائیت کا یہ عقیدہ بھی نظر آنے لگتا ہے کہ'' عیسی علیہ السلام نے سولی پر چڑھ کر ہمارے سارے گناہ معاف کروا لیئے ہیں اب ہم کچھ بھی کریں جنت تو ہے ہی ہمارے لیئے'' ۔ کیا ہم اپنے نظریات کو گنو اتو نہیں رہے ؟ اگر یہ سب اتنا سادہ تھا تو روز محشر کی ضرورت ہی کیا ہے جواب و سوال کا کیا تذکرہ ۔ قیامت کا قہر کیسا ۔ سب نے اپنے وقت پر مر جانا ہے آقا ئے نامدار نے آ کر ہمیں معاف کروا لینا ہے اور ہم سم جھومتے جھامتے جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔ کسی کو بم باندھ کر پھٹ جانے پر جنت مل رہی ہے ۔ کسی کو اپنے بچے ذبح کرنے پر جنت مل رہی ہے ۔ کسی کو قبر کے مردے نکال کے ان کی بے حرمتی کے بدلےکوئی جاہل جنت دے رہا ہے ۔ کوئی انسانیت کو جاہلوں کی گود میں ڈال کر جنت کا طلبگار ہے ۔ اللہ پاک کی اصل کتاب، آخری کتاب ،کلام الہی یہ کیا کہہ رہا ہے اسے جُلدان سے نکالنے کا وقت ہی نہیں۔ اس پر سے ایک ادھ  مہینہ ہی گرد جھاڑی جاتی ہے سال بھر میں۔ اس کے بعد اسے ہر کسی کی پہنچ سے دور رکھ کے اپنے حساب سے جنت سنبھال کر رکھ دی جاتی ہے ۔ یہ باتیں اس لیئے لیئے بھی زہن کے پنجرے میں پھڑپھڑا رہی تھیں کہ بہت دنوں سے خواہش تھی کسے اچھے مسلمان سے ملاقات کی۔ کہتے ہیں کہ نیت اچھی اور ارادہ مضبوط ہو تو اللہ پاک راستے بھی پیدا کرتا ہے اور آسانیاں بھی ۔  پچھلے دنوں معروف عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب کو دیکھنے اور ان سے روبرو ملاقات کا شرف حاصل ہوا محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کے ہاں 10 مئی 2014 ڈیلی جائزہ کی ممبران خواتین کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام تھا جس میں محترم مولانا طارق جمیل صاحب سے ہماری ایک سرپرائزنگ ملاقات کا موقع بن گیا جسے تمام ساتھی خواتین نے اپنے لیئے ایک روحانی اعزاز جانا ۔ محترم کے ساتھ ان کی اہلیہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ نہایت ہی نفیس خاتون ہیں ۔ جنہوں نے نہایے محبت سے سب بہنوں سے تعارف لیا اور خود کو متعارف کروایا ۔ مولانا صاحب کی ایک بات نے خاص طور پر ہمیں بہت متاثر کیا کہ آپ صرف لوگوں سے ہی شفیق نہیں ہیں بلکہ اپنے بچوں کے ایک شفیق باپ اور اپنی بیوی کے ایک انتہائی مہربان شوہر ہیں ۔ جو انہیں اپنے ساتھ رکھنا اپنی عزت سمجھتے ہیں ۔اسے پردے میں ہوتے ہوئے بھی نمایاں مقام دیتے ہیں۔ ایک طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی بیویوں کو پردے میں رکھنے اور دوسروں کو بے پردگی میں لانے کے لیئے بے چین رہتے ہیں ۔ یہ ہی فرق ہے مسلمان ہونے اور مسلمان نظر آنے میں ۔ مولانا صاحب بیشک آپ بہت اچھے مسلمان اور بہت اچھے انسان بھی ہیں کیوں کہ آپ اپنےرشتوں کیساتھ بھی انصاف کرتے ہیں ۔ اپنے کام کو اپنے گھر والوں سے چھپا کر نہیں کرتے ، دین کو آسان بنا کر اور خود پر اطلاق کر کے دکھاتے ہیں ۔ محبت سے بات سنتے بھی ہیں اور اسے دلائل سے سمجھاتے بھی ہیں ۔ اپنے آپ کو لوگوں سے الگ کوئی چیز نہیں سمجھتے ، بلکہ خود کو لوگوں کے نزدیک تر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ سب دیکھ کر شدّت سے اس بات کا احساس ہوا کہ جو شخص لوگوں کے حقوق ادا نہیں کر سکتا وہ کبھی بھی اللہ کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔ عبادت کے لیئے خدا کے پاس فرشتوں کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں تھی اسے تو ایک ایسی مخلوق تخلیق کی تھی جس میں خیر بھی ہو اور شر بھی ۔ جو گناہ کرے تو توبہ بھی ۔ ذیادتی کرے تو شرمندہ بھی ہو ، جس کی آنکھ صرف اپنی ہی نہیں دوسروں کی تکلیف پر بھی روئے ۔ جس کا چہرہ اپنی ہی نہیں دوسروں کا کامیابی پر بھی تمتمائے ۔ جو اپنے سوا دوسروں کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے کی فکر کرے۔  اسی لیئے اللہ پاک نے اپنی ہر خوبی کی ایک ایک جھلک انسان کی مٹی میں بھی گوندھ دی ۔ لیکن آج انسان نے کیا کیا رحمن پر شیطان کی سنگت کو ترجیح دیکر نہایت خسارے کا سودا کر لیا ۔ کیا خوب فرماتا ہے تمام کائیناتوں کا رب کہ
'' عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے ۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور  نیک عمل کیئے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے'' ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





     

اتوار، 11 مئی، 2014

قدرت کے تحا ئف ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا


قدرت کے تحا ئف 


قدرت کے تحا ئف ہیں تیری ذ ات میں شامل
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل

دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ہے

جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل

اے ماں تیری ہستی میں میرا نام چُھپا ہے 

یہ بات الگ ہے تیرے درجات میں شامل 

خدمت ہو محبت ہو کہ قُربانی کا جذبہ

کچھ خاص ہیں یہ تیرے کمالات میں شامل

کیسی ہے عجب بات تیرے بعد بھی اب تک

ہائے ماں میرا کہنا بھی وظیفات میں شامل

ہر چوٹ میں لب سے ہے تیرا نام نکلتا 

ہے ذکر تیرا میری عبادات میں شامل 

مُدت ہوئی بچھڑے ہوئے پرسوچ میں اب بھی 

جیسے ہو یسیری سی خیالات  میں شامل

مُمتاز اس کے ساتھ بجے چین کی بنسی

بعد اسکے زندگی بھی ہے ظلمات میں شامل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 2 مئی، 2014

مزدور یا مجبور/ کالم




مزدور یا مجبور
ممتازملک۔ پیرس

مجھکو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ 
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

''مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اد کر دو'' ۔ ہم میں سے کون ہے جس نے یہ حدیث پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کبھی کہیں کسی نہ کسی موقع پر کبھی نہ سنی ہو لیکن ہم میں سے ہی کتنے ہیں جنہوں نے اپنی پوری اب تک کی ذندگی میں مزدور کی مزدوری اس کے مانگنے سے پہلے ادا کر دی ہو ۔ ہماری روایت رہی ہے کہ جب تک مزدور ہماری چوکھٹ پر تڑپنے لگے جھولیاں پھیلا پھیلا کر بددعائیں نہ دینے لگے تب تک ہمارا ہاتھ ہماری جیب میں جاتا ہی نہیں ۔ ہم سب کو گھروں میں، دکانوں میں ، فیکٹریوں میں ملاذمین تو چاہیئیں۔ بلکہ ہمارا بس چلے تو ہمیں کروٹ لینے کے لیئے بھی ملازم مل جائے ،لیکن بس مزدوری نہ مانگے ۔ ہمیں ہماری تنخواہ ہو سکے تو بغیر کسی محنت کے ملنی چاہیئے لیکن ہمارے پاس کام کرنے والے کو تنخواہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ملازمین اور خصوصا گھریلو ملازمین کے ساتھ تشدد اور بربریت میں کس قدر تیزی آئی ہے غریب لوگوں کے معصعم بچوں کو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت کام  کا جھانسہ دیکر اپنے گھروں میں ملازم رکھا جاتا ہے اسکے بعد ان کے سے اسقدر کام لیا جاتاہے کہ کسی بڑے آدمی کے بھی بھی بس میں وہ سارا کام اتنے وقت میں ممکن نہ ہو ۔ پھر ان بچوں کو ایسی سختیوں سے گزارا جاتا ہے جو کہ خرکار کیمپوں کے حوالے سے ہی سنی جاتی تھیں اور اس پر بھی اذیت ناک بات یہ کہ یہ سب کرنے والے کوئی اجڈ گوار نہیں ہوتے بلکہ خوب پڑھے لکھے ، الٹرا موڈ کہلانے والے  اور انتہائی ماڈرن لوگ ہوتے ہیں ان میں ڈاکٹرز بھی ہیں نامی گرامی وکلاء بھی ہیں تو بڑے بڑے بزنس میں بھی ہیں ۔ پچھلے کچھ عرصے کے ہی انڈوپاک کے اخبارات  اٹھا کر دیکھ لیں نیوز ہی سن لیں کہ کیسے کیسی امیر کبیر اور پڑھے لکھے لوگوں نے اپنے ملازمین کے ساتھ کیسی کیسی شرمناک حرکتیں کی ہین اور کیسی کیسی اذیتناک صورت حالات سے دوچار کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔  اور ہمارا قانون افیم کھائے سو رہا ہے ۔ نہ تو آج تک ان کے مجرمان کو عملی سزائیں ہوئی ہین نہ ہی کوئی شرمندگی ان کے چہروں سے نظرآئی ۔  ہم لوگ اب بھی خود کو انسان کہتے ہیں اور اس پہ طُرّہ یہ کہ مسلمان بھی کہتے ہیں ۔ ان گھروں میں یا دکانوں میں کام کرنے والے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ کیسی کیسی ذیادتیاں کی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ پیٹ بھر کھانا تک نہیں دیا جاتا ۔  ایک ایک پیسے کے لیئے انہیں کیسے تڑپایا جاتا ہے یہ سوچ کر ہی ان کی روح کانپ اٹھنی چاہیئے کہ ان کی جگہ ان کی اپنی اولاد ہوتی تو کیا ہوتا ۔ یہ آدھے پیٹ کام کرنے والے مذدور جو آپکے گھروں کو فیکٹریوں کو دکانوں کو رواں رکھتے ہیں یہ ہمیں اس بات کا ہر لمحۃ احساس دلاتے ہیں کہ جگہ بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ شکر کیجیئے پیدا کرنے والے کا کہ اس نے آپ کو دینے والوں میں شامل کر رکھا ہے ورنہ مانگنے والوں میں بھی کھڑا کر دیتا تو ہم اور آپ کیا کر لیتے ۔   اور یاد رکھیئے کہ یہ سب لوگ جو ہمارے ماتحت اللہ کی مشیعت سے کیئے گئے ہیں، یہ سب ہماری رعیّت میں شامل ہیں اور ہم انکی ایک ایک تکلیف اور ایک ایک آہ کے لیئے جواب دہ ہیں ۔ یہ آپ سے بھیک نہیں مانگتے اپنی محنت کا عوضانہ طلب کرتے ہیں ۔ تو دل بڑا کیجیئے اور ان سے کام لینے سے قبل اپنی حیثیت اور اپنی جیب میں جھانک لیجیئے کہ آپ میں ان کی اجرت دینے کی سکت موجود ہے ۔ کیوں کہ مذدوری کرنا بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہے اور آپ مزدور کی اجرت نہ دیکر کہیں سنت رسول کا مذاق تو نہیں اڑا رہے ۔ ہاتھوں کی لگائی یہ گرہیں خدا نہ کرے کہ ہمیں کہیں دانتوں ہی سے کھولنی  نہ پڑ جائیں ۔ گزرا ہوا وقت تو پلٹ کر کبھی نہیں آسکتا لیکن آج ہی ہمیں اپنے آپ سے عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ   جب بھی ہم کسی بھی شخص کی خدمات کسی بھی کام کے لیئے حاصل کریں گے اس کی اجرت اس کے کام شروع کرنے سے پہلے طے کریں گے اور مانگے بنا جو بھی ادائیگی طے ہو گی بنا کسی حیل و حجت کے اس کی ہتھیلی پر خوش دلی سے رکھ دیں گے ۔ یہ نہیں کہ 50 روپے پر بات طے ہو اور کام ختم ہونے پر اسکے ہاتھ میں 30 روپے  احسان جتاتے ہوتے بھیک کی طرح ڈال دیئے ۔ یہ ظلم بھی ہے ، تکبر بھی ہے اور وعدہ خلافی بھی ۔ یہ تینوں چیزیں خدا کے عذاب کو دعوت دیتی ہیں ۔ دوسرا گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور بچیوں کو بھی اپنی ہی ماں بیٹیوں جیسی نظر سے دیکھیں کہ انہوں نے آپ سے اپنی محنت کا سودا کیا ہے عزت کا نہیں ۔ ان کی عزت بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ آپ کے گھر کی عورت کی ۔ ان پر زہنی اور جسمانی تشدد سے پرہیز کریں کہ کہیں ان کے آہ آپکے خاندان اور اولاد ہی کو نہ کھا جائے ۔ یہ سزائیں فوری نظر تو نہیں آتی ہیں لیکن ملتی ضرور بالضرور ہیں ۔ اپنے دل میں رحم اور خدا کا خوف پیدا کیجیئے ۔  تاکہ خدائے پاک بھی آپ پر رحم کرنا پسند فرمائے ۔ کیونکہ

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
 خدا مہر باں ہو گا عرش بریں پر 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 1 مئی، 2014

دعوت نامہ ۔ ڈیلی تاریخ

1۔05۔2014  
 ڈیلی تاریخ انٹرنیشنل
  ایڈیٹر برائے یورب محترمہ روحی بانو صاحبہ 
 کی جانب سے خواتین ممبران کی ایک آفیشل میٹنگ کال کی گئی ہے جس میں تمام شعبہ کی ذمہ دار خواتین کو  سرپرست اعلی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ ، ریذیڈنٹ ایڈیٹر محترمہ طاہرہ سحر صاحبہ ، جوائنٹ ایڈیٹر محترمہ شمیم خان صاحبہ ،کالمسٹ اور بزم ادب کی ذمہ دار ممتاز ملک صاحبہ ۔اور انکی جوائنٹ محترمہ سلطانہ سہیل صاحبہ ، شعبہ دینی مسائل کی اسماء علی صاحبہ ۔ بچوں کی دنیا کی وقار النساء صاحبہ ، دریس ڈیذائینگ کے شعبے سے نینا خان صاحبہ کو شرکت کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ 
وقت میٹنگ ۔ دن 2 بجے تا چار بجے تک
لا کورنیوو سی غوت کے پاس کوئیک  میں میٹنگ کی جائے گی ۔ 
شکریہ 
 منجانب  
  روحی بانو
 ایڈیٹر ویمن یورپ تاریخ انٹرنیشنل

ڈیلی تاریخ ۔ ضوابط


ڈیلی تاریخ انٹرنیشنل        2014 ۔05۔ 1
وویمن ونگ فرانس
اصول و ضوابط

1۔ ایڈیٹر صاحبہ تمام ٹیم کو لیڈ کریں گی ۔ اور ضوابط کی پابندی کروائیں گی ۔ 
2۔ تمام شعبہ جات کی ذمہ داران کو اپنے شعبے کا کام تین ماہ بعد جائوہ لینے کے لیئے پیش کرنا ہو گا ۔ جس میں کام کا معیار اور مقدار دونوں کا جائزہ لیا جائے گا ۔ 
3۔ تمام ٹیم کو کسی بھی پروگرام ”ذاتی نہیں” میں دعوت ملنے کی صورت میں ایڈیٹر صاحبہ کو باخبر کیا جائے اور انکی مشاورت سے وہاں پر کسی ایک کا دو کا یا سب کے جانے کا مشورہ لیا جائے ۔
4۔ کسی مسئلے میں اگر مذید مشاورت کی ضرورت ہو تو سرپرست اعلی صاحبہ کی رائے لی جائے ۔ یا ان کے کہنے پر ڈیلی تاریخ انٹرنیشنل کے ذمہ دار سے مشاورت کی جائے گی ۔ اور ایڈیٹر صاحبہ اور سرپرست اعلی صاحبہ اس کی ضرورت محسوس  کریں تو ۔ ورنہ انہی کی رائے حتمی تصور کی جائے گی ۔
5۔ جب بھی میٹنگ کال کی جائے گی اس میں بغیر کسی جائز وجہ کے سب کا موجود ہونا لازمی ہے ۔
6۔ ہرمیٹنگ اور پروگرام میں وقت کی پابندی کا سختی سے خیال رکھا جائے ۔
7۔ کسی بھی قسم کے اختلافی معاملات پر لکھنے سے پرہیز کیا جائے ۔
 8۔ ہماری تحریر کا مقصد صرف اور صرف پاکستان ۔ اسلام اور اپنی کمیونٹی کی بھلائی ہونی چاہیئے ۔ 
9۔ ذاتی جھگڑوں کو یا اختلافات کو ہماری تحریر میں نہیں جھلکنا چاہیئے ۔
تمام ذمہ داران کو ایک دوسرے کی عزت اور عزت نفس کا ہر معاملےمیں خیال رکھنا ہے ۔
10۔ اپنے شعبے کے کام کو لگاتار نظر انداز کرنے پریا ضوابط کی پابندی نہ کرنے پر تمام ٹیم ممبرز اس ساتھی کے اپنے شعبے سے الگ ہونے کا مطالبہ کر سکتی ہیں ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




  

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/