عشق اور لوجک
ممتازملک[پیرس]
انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی جہاں اور بہت ساری باتوں میں انسانی
نظریات میں رنگا رنگی دیکھی گئ
تو وہاں پر دو گروہ بہت ہی واضح نظر آتے ہیں جنہیں ہم عام طور پر
کہتے ہیں مانوں یا نہ مانوں گروپ۔
پہلے گروہ یعنی ماننے والوں کے ہی گروہ کو اصل
میں عاشقوں کا گروہ کہا جاتا ہے جو محبت میں
اس درجہ فنا ہو جاتے ہیں کہ سوال کرنا بھی عشق کی توہین سمجھتے ہیں
۔انہیں کوئ بات سمجھ آۓ یا نہ
آۓ وہ آنکھیں بند کیۓ مست ملنگ بنے اس بات کو ماننا اپنا ایمان
سمجھتے ہیں ۔وہ خود کو اپنے محبوب کے
سامنے بچھا بچھا دیتے ہیں ۔اور اس بات میں زرا بھی شک نہیں کرتے کہ
یہ بات ان کے لیۓ باعث مذاق بھی بن سکتی ہے۔
یا کسی نقصان کا باعث بھی ہو سکتی ،ہے۔وہ تو بس اسی پر راضی برضاہو
جاتے ہیں کہ اگر ہمارے محبوب
کو ہمارے نقصان پر یا درد پر ہی تسکین ملتی ہے تو چلو یہ سودا بھی
مہنگا نہیں ۔ہمارا٬
مقصد تو اسے راضی کرنا ہی ہے ایسے ہو یا ویسے۔ ہمیں اس سے کیا۔ یہ
کیفیت اگر خدا کے ساتھ انسانی
معاملات میں ہو تو اسے ولی بنا دیتی ہے۔خدا کا قرب عطا کروا دیتی ہے
۔اس پر اللہ کی جانب سے غیب کے
راز کھول دیتی ہے ۔چوروں کو بھی قطب بنا دیتی ہے۔اسے غوث پاک کا درجہ
دلا دیتی ہے جنہیں سرکار کے
لعاب دہن کی خیرات میں زبان کا وہ جادو عطا کر دیتی ہے کہ ایک ہی
مجلس سے کئ جنازے اٹھوا دیتی ہے۔
اور ڈوبے ہوۓ بیڑے ترا دیتی ہے۔
یہ ہی عشق اگر دنیا اور دنیا کے معاملات سے ہو جاۓ تو انسان کے
ہاتھوں انسان کی تباہی کا سامان ہو جاتا ہے ۔
رشتوں کی پہچان اور توازن ختم ہو جاتا ہے۔میں میں میں کے سوا انسان
کو ہر چیز سے بیگانا کر دیتا ہے۔
وہ دوسرے رشتوں کی آڑ لیکر صرف اور صرف اپنے آپ سے محبت کرنے لگتا ہے
۔ پنجابی میں ایک کہاوت ہے
کہ۫،،،،،،،،،،،، روندی یاراں نوں لے کےناں پراواں
دے،،،،،،،،،،،اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ
اپنا ہی عاشق ہمیشہ کبھی ایک رشتے کی آڑ لے گاتو کبھی دوسرے رشتے کی
دہائ دے گا اور اگر غور کریں تو بڑا
صاف نطر آجاۓ گا کہ فائدے تو اپنی جھولی میں اکھٹے کر رہا ہے یہ اور
بات کہ یہ سب فائدے اپنے خاندان
کو برباد کر کے اپنے ملک وقوم کو ٹکے بھاؤبیچ کر بھی خود اس کے اپنے
نصیب میں بھی ہیں کہ نہیں ۔
اب دوسرے گروہ کو دیکھیں تو یہ ہی وہ گروہ ہے جو ہر
بات کو اپنی عقل کی ننھی سی کسوٹی پر پرکھتے ہوۓ یہ
بھول جاتا ہے کہ ایسی بھی تو کوئ ذات ہے نا جس نے ہمیں یہ عقل عطا کی
ہے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو چیز ان
کی عقل میں آگئ وہ تو ٹھیک ہے ورنہ ان کے نزدیک باقی سب جھوٹ ہے۔یہ
ہیں لوجک والے لوگ۔ انہیں ہر بات میں
حتی کہ خدائ معاملات میں بھی لوجکس کی تلاش رہتی ہے۔دنیاوی معاملات
میں لوجک ایک کمال کی بات ہے۔
لوجکس ہونے بھی چاہیئں ۔ تاکہ انسانی معاملات کو باآسانی سمجھا جا
سکے۔کیوں کہ
انسان کا معاملہ انسان سے ہوتا ہے اس لیۓ اس میں ہر بات واضح ہونی
چاہیۓ ۔تاکہ کوئ ہمیں چونا لگا کر
یا نوالہ تر سمجھ کر اپنا شکار ہی نہ بنا لے۔یہاں تک تو لوجکس کی بات
سمجھ میں آتی ہے ۔
لیکن جہاں معاملات خدا کے ہوں یا خدائ کےہوں تو وہاں ہماری ناقص عقل
یا لوجکس کو ایک جانب رکھ دینا ہی
بہتر ہوتا ہے۔کیوں کہ یہ بات ہے ایمان کی ۔اگرہم ہر بات پر لوجک
مانگنے لگیں تو ہمارا ایمان ہی
تو نہیں ہے اس بات کے اوپر کہ خدا ہے ۔اور اگرچاند کو دو ٹکڑے ہوتا
ہوا دیکھ کر بھی ،پتھروں کو کلمہ پڑھتے دیکھ کر بھی
درختوں کو سجدہ کرتے دیکھ کر بھی بادلوں کو آپ ﷺکے سرمبارک پر سایہ
کرتے دیکھ کر بھی لوگ لوجک مانگا کرتے تھے۔
کہ بھلا ایک ہی رات میں آپﷺ آسمانوں کی سیر پر کیسے جا سکتے ہیں
۔عیسی علیہ السلام پالنے میں کیسے بات کر سکتے ہیں
، مردوں کو کیسے ذندہ کر سکتے ہیں ۔
موسی علیہ السلام کے لیۓ دریا کو کیسے پھاڑا جا سکتا ہے اور پھر اسی
دریا میں فرعون کو کیسے غرق کیا
جا سکتا ہے۔نمرود کے ناک سے اس کے دماغ میں مچھر کو کیسے داخل کیا جا
سکتا ہے۔اور پھر مچھر سے نمرود کو
کیسے مارا جا سکتا ہے۔ابراہیم کے لیۓ آگ کو گل و گلزار کیسے کیا جا
سکتا ہے،بناماں باپ کے آدم کو کیسے پیدا
کیا جا سکتا ہے ، بنا ماں کےحوا کو کیسے پیدا کر لیا گیا،اور ایسی ہی
اور بہت سی باتیں جو کرنے والے خود کو
لوجک پسند کہلا کر کہہ بیٹھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہی
باتیں جہاں حد بھول جائیں ،
وہیں ہمیں ایمان سے خارج کروا دیتی ہیں اور ہمیں اپنے ایمان کی تجدید
کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
کیوں کہ خدائ معاملات میں اسی لوجک پسندی نے ابلیس کو فرشتے سے شیطان
بنا دیا ۔آدم کو جنت
سے زمین پر اتر وا دیا،ابو الحکم کو ابو جہل بنوا دیا۔
اور یہ عشق ہی تھا جس نے ابو بکر ؓکو صدیق بنا دیا،تو عمر ؓکو فاروق
بنا دیا ، اسی عشق نے عثمانؓ کو غنی
کر دیا تو علیؓ کو شیر خدا اور باب العلم بنا دیا ۔
اس لیۓ کہ خدائ معاملات میں ایمان ہی ہمیں بتاتا ہے کہ رب نے کہا ہو
جا تو ہو گیا ۔
اس زمین وآسماں کا سارا نظام قائم ہو گیا ۔
کہ خدا صرف حکم کرتا ہے اور پوری کائنات اس کے حکم پرعمل کرتی ہے
۔جہاں جہاں ہمیں کسی
کام میں آزادی دی تو اس کے حساب کتاب کا وعدہ بھی کیا۔اور جہاں اس رب
نے اپنا حکم چلایا
وہاں ہمیں حساب کتاب سے آزادی بھی دے دی۔ یہ ہی تو عشق ہے۔ جسے ایمان
کہا جاتا ہے۔ یہ اور بات
کہ ہم سب اس عشق اور ایمان کی کس کس سیڑھی پر کھڑے ہیں ۔یہ بندہ جانے
یا اس کا رب۔
کہ دلوں کے بھید تو بس وہی جانتا ہے۔ ورنہ ہم تو ہوا کو بھی پکڑ نہیں
سکتے مگر ہوا جب چلتی ہے
تو اپنے وجود کا بھرپور احساس دلا جاتی ہے ۔
آگ کو پکڑ تو نہیں سکتے مگر جب آگ جلاتی ہے تو درد کی شدت آگ کا وجود
ماننے پر مجبور کر ہی دیتی ہے۔
خدا کی ذات کو بھی ہم دیکھ یا چھو نہیں سکتے لیکن اس کی قدرت ،اسکی
طاقت ،اسکی رحمت ،
اسکی عظمت ،اسکے فضل ، اسکےکرم،اسکے جبر ،اسکے قہر،اس کی مغفرت کو ہر
ہر پل اپنے سامنے کھلا ہوا
پاتے ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علم کے شہر کا دروازہ کہا جاتا
ہے ۔اس کے باوجود انہوں نے
تیمم کے حکم کے آنے پریہ سوال کبھی نہ کیا کہ موزے کے اوپر سے مسح
کیوں کیا جاۓ
جبکہ موزے تو نیچے سے گندے ہوتے ہیں ۔کیوں کہ آپ علیہ السلام اچھی
طرح جانتے تھےکہ یہ حکم خدا ہے ۔
اگر یہ دنیاوی معاملہ ہوتا تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ شیر خدا اور
باب العلم اس پر خاموش رہتے ۔
زہن کی سنتے ہیں دنیا والے
عشق والے تو فقط دل کی سنا کرتے ہیں
پھول والوں کی گلی چھوڑ کے یہ
خود سے ہی کانٹوں بھری راہ چنا کرتے ہیں
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں