ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 28 اکتوبر، 2012

بھید کی مٹھی / BHEID KI MOTHTHI


 بھید کی مٹھی

[ ممتاز ملک ۔پیرس ]
آج پھر ایک بیوی اپنے نشہ باز شوہر سے پٹ کر لائن میں آٹھ بچے کھڑے کر کے اپنے غم کی کہانی سناتی ہوئ نظر آئ ۔ میاں نے اسکی آواز پر ایک اور الٹا ہاتھ گھما کر اس کی پشت پر رسید کیا ۔اور غراتے ہوۓ بولا تیرے باپ کا کھاتے ہیں جو میرے بچے گن رہی ہے ۔ میں جتنی مرضی لمبی لائن لگاؤں اپنے بچو ں کی ۔تمہیں اسسے کیا ۔ ایک راہگیر سے یہ سب سن کر صبر نہ ہو سکا تو اس نے بھیبیوی کو پیٹتا ہوا ہاتھ جھٹکا دیکر پکڑ لیا ۔اور اس کی بیوی  اس کے چنگل سے      چھڑاتے ہوۓ بولا،،،،،،،،،،،،،،،                                     
بڑا افسوس ہے آپ کی بات پر ۔ آپ نے کیا خود کو بابا آدم سمجھ لیا ہے یا پھر ہر عورت کو اماں حوا سمجھ کر اسے بچے پیداکرنے کا سامان بنا لیا ہے ۔ کھانے کو دو وقت کی روٹی تو مرد پیدا کر نہیں سکتا اس کے لیۓ بھی اپنی بیوی کو گھروںمیں پوچھا لگانے تک بھیجتا ہے تو اپنی مردانگی کی نویں نشانی بھی ساتھ چپکا دیتا ہے ۔اسے بھی زبردستی خوش خبری  کا نام دے دیتا ہے خود نالیوں کے کنارے بیٹھا اسی بیوی کی مزدوری چھین کر دھویں میں اڑا رہا ہوتا ہے ۔،[ تو کہیں پر اونچےدرجے میں پہنچ جاتا ہے تو اپنی ترقی کے لیۓ اپنی ہی بیوی کو اپنے افسر کو خوش کرنے کے بھی بھیج دیتا ہے ] یہ نو بچے جنکو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا تن ڈھانپنے لائق کپڑا نہیں ملتا سکولوں میں مرد استادوں اور مولویوں سے جنسی بد فعلی کا شکار ہو کرخوف اور بیچارگی میں پروان چڑھتے ہوۓ عمر کی دسویں منزل پر بمشکل قدم رکھنے جاتے ہیں تو دس سال کی عمر تک یہبدقماشوں کا روپ دھار چکے ہوتے ہیں ان بچوں کے اندر ایک شیطان بدروح پیدا ہو چکی ہوتی ہے ۔                                                         
جو صرف روٹی اور کپڑے کی لالچ کے لیۓ کوئ بھی قیمت ادا کرنے کے لیۓ تیار ہوتے ہیںاب وہ قیمت کسی کا سر ہو یا ان کا اپنا جسم ۔                                                            
اور بار بار جو مولوی صاحبان یہ راگ الاپ کر ان پڑھ ۔،جاہل قوم کو یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ ھر انسان اپنا رزق لے کر آتا ہے ۔ تو یہ کیوں نہیں پڑھاتے کہ رزق ڈھونڈنے بھی اس انسان کو ایک عمر ،ایک تعلیم اور تربیت کے بعد جانا ہوتا ہے گھر
بیٹھے منہ میں نوالہ تو پیغمبروں کے بھی خدا نے کبھی نہیں ڈالا ۔ یہ مولانا صاحبان خود بھی گھر میں ہی کیوں نہیں بیٹھ جاتے  کہ ان کا رزق بھی خدا نے تو لکھ ہی دیا ہے منہ میں    بھی خود ہی پڑ جاۓ گا ۔                                              
اللہ پاک نے ہر کام کو ایک سسٹم کے تحت رکھا ہے ۔اس سسٹم سے باہر یا خلاف جو بھی جاتا ہے تباہ ہوجاتا ہے ۔اللہ نے کسی زمانے میں اونٹ کو حرام کیا تو کسی میں حلال کر دیا ۔کیوں ،،،، کیوں کہ جب اونٹ دنیا سے نایاب ہونے لگا تو اللہ پاک نے اس کا کھانا حرام قرار دیکر اس کی نسل کو بچانے کا سامان کیا جب اس کے نسل خوب پروان چڑھی تو اس کو کھانا بھی حلال کر دیا تاکہ جیسے جیسے اس کی نشونما ہو گی اسی  طرح اسےانسان استعمال بھی کرتا رہے گا ۔                       
اسی طرح جب جب انسان کی تخلیق کے بعد آبادیوں کو آباد کرنا تھا انسان کو زیادہ اولاد کی ضرورت بھی رہی ۔لیکن اس وقتہمارے ضروریات بہت محدود تھیں ۔دوٹائم کی سادہ خوراک جس میں ایک ٹائم گھر کا بنا اچار بھی چل جاتا تھا سال
بھر میں دوجوڑے سادے سے عیدین پر اور بہت ہوا تو ایک جوڑا سال بھر کے لیۓ سکول کا دو جوڑے جوتے کے ۔
لو جی سال خوشی سے گزر گیا ،آج ہم میں کوئ ان چیزوں پر سال گزار کر تو دکھاۓ ۔ تو جیسے جیسے زندگی گزرنے کے اسباب بدلے تو بہت ساری باتیں جو کل ضروری نہیں تھیں آج ضروریاتکا روپ دھار چکی ہیں ۔آج ٹی وی بھی ضروری ہے تو فون کے بنا بھی گزارا مشکل ہے نیٹ بھی ضروری ہے
تو گاڑی کے بنا بھی کہیں جانا بہت مشکل ہے تو کہیں جہاز کے بنا سفر ناممکن ہے اعتراض کرنے والے مولوی
حضرات معذرت کے ساتھ آج بھی کم ازکم حج ہی کرنے کے لیۓ اونٹ پر سفر کیوں نہیں کرتے
کیوں کہ یہ ان کے لیۓ آج کے زمانے کی آسانی ہے۔
تھوڑے وقت میں بہت سا کام کرنے کے لیۓ وقتی سہولتوں کو استعمال کرنا ان کے لیۓ مفید ہے تو اسی طرحہر وہ چیز جو آج کے زمانے میں خدائ احکام سے ٹکراۓ بغیر ہمیں آرام پہنچاۓ ہم سب کے لیۓ بھی وہ اتنی ہی اچھی ہے ۔ اور جب اللہ نے خود فرما دیا کہ اس نے اس کائنات میں انسان کے لیۓ مختلف راز پوشیدہ کر رکھے  ۔ ہیں تو اسے ڈھونڈنا تو گویا
 انسان کے لیۓ اللہ کا حکم ہے ۔جب حکم ہے تو آپ کیسے ڈھونڈیں گے کیا کندھے پر پوٹلی
باندہ کر ناک کی سیدھ میں چلتے ہوۓ ۔نہیں ،،،،،،،،،بلکہ اسکے لیۓ آپ نے جو ڈھونڈنا ہے اس کے متعلق باقاعدہ
علم حاصل کریں گے ۔اور اس علم کی روشی میں خدا کے چھپے ہوۓ رازوں کو جاننے کا کام کریں گے اور جب آپ کی
محنت کو رب تعالی قبول فرماۓ گا ،
تو اس کی رحمت مسکرا کر اپنے بھید کی مٹھی آپ کے سامنے کھول دے گی ۔
بس آپ کا نام کامیاب لوگوں میں لکھ دیا جاۓ گا کیوں کہ اللہ نے آپکی محنتوں کو قبول کر لیا ۔ یہ ہی جذبہ لیکر جب بھی
کوئ مسلمان چلنے کا ارادہ کرتا ہے ہمارے ہی میر صادق اور میر جعفر انگریزوں کے زرخرید بن کر اسے راستے سے ہٹانے کےلیۓ سرگرم عمل ہو جاتے ہیں ۔کہیں ان پرعزم لوگوں کو زہر دے دیا جاتا ہے کہیں گولی مار دے جاتی ہے کہیں معزول کر دیا جاتا ہے کہیں ان کی اتنی کردار کشی اور تذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دوبارہ وہ شخص کسی بھی اچھےکام کے لیۓ خواب میں بھی نہ سوچے ۔
کہیں اسے دھمکیاں دی جاتی ہیں تو کہیں رشوتیں ۔ یعنی ان بدمعاش قوتوں سے جو بن پڑتا ہے وہ کرتی ہیں ۔ اگر یہ شیطانی قوتیں اس قدر متحد ہو سکتی ہیں تو کیا بات ہے ایمانی قوتیں کیوں اکٹھیہو کر اچھے کام کرنے والوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتیں ۔ ملالہ یوسف زئ پر جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نےاوبامہ کو اپنا آئیڈیل کہا تھا یہ اس کا جرم ہے تو بچے تو چاند کو بھی چندا ماما کہتے ہیں ۔کیا ان پر بھی فتوی  لگا دیا جاۓ ۔                                                               
کئ لوگ تو کے ایف سی پر لگی بابا جی کی فوٹو کو اپنا نانا جان تک کہہ دیتے ہیں ۔کیا انہیں سولی پر چڑھا دینا چاہیۓ ۔
یہ ہر بچے کی اپنی اپنی وقتی سوچ ہوتی ہے ۔جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے ۔ہمارے مولانا حضرات بچوں
کی باتوں پر جلنے کی بجاۓ اپنا طرز عمل اوراپنی زندگی کو اتنا خوبصورت آسان نمونہ بنائیں کہ ہمارے بچے ان کے
کہنے کی بغیر ہی ان جیسا بننے کی آرزو کریں ۔ کوئ بھی کسی کا آئیڈیل ڈنڈے کے زور پر نہیں بن سکتا ۔
ایک اور دوووووووووووووووووووووووووووووور
کی کوڑی لایا کہ جیسے حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ
سفر کے دوران حضرت موسی علیہ السلام نے یہ کہہ کر ایک بچے کو مار دیا ، کہ کل کو یہ بچہ زمین پر فساد برپا کرے گا ۔
تو اسی طرح ہم نے بھی اس بچی کو اس لیۓ مارا کہ آئندہ کے لیۓ یہ بچی فساد کا باعث بنے گی ۔تو کوئ پوچھے اس نیم
حکیم سے کہ بھائ تمہاری اوقات کیا ہے۔ تم موسی ہو یا پھر خضر کہ تمہیں یہ فیصلہ کرنے کا اختیار مل گیا کہ کون
فساد برپا کرے گا اور کون امن قائم کرے گا ۔ پھر اس قانون کے تحت تو سب سے پہلے اس کہنے والے کے ساتھیوں کو چاہیۓکہ اس کا خاتمہ کر دیں کہ اس کہنے والے کی وجہ سے تو سب سے زیادہ زمیں پر فساد برپا ہے ۔اور یہ تو ہر کوئ جانتا ہےکہ اللہ نے قرآن میں واضح طور پر فرما دیا کہ
،،اللہ زمین پر فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں  کرتا۔،
لہذا علم کے راستے پر کوئ بھی چلے ۔کسی کو حق نہیں ہے کہ اگر وہ اسکا راستہ آسان نہیں کر سکتا تو اسے
اس کی راہ میں کانٹے بچھانے کا اختیار بھی کسی قیمت پر نہیں دیا جا سکتا ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،        

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/