ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 18 جون، 2025

فوزیہ اختر ردا کی کتاب روپک پر۔ تبصرہ ممتازملک

فوزیہ اختر ردا کی کتاب "روپک" پر تبصرہ

فوزیہ اختر ردا کی نئی کتاب "روپک" کا پی ڈی ایف مجھ تک پہنچا۔ اسے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ویسے تو آن لائن مشاعروں میں فوزیہ اختر ردا کی شاعری سننے کا موقع ملتا رہا اور بہت خوشی ہوتی ہے کہ اس عمر کے شعرائے کرام کو جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑی دلجمی کے ساتھ اردو ادب کے لیے اپنی محبت نچھاور کرتے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔  یقینا نوجوان نسل میں فوزیہ اختر ردا کا نام ایک بڑا خوبصورت آگے بڑھتا ہوا نام ہے۔  ان کی شاعری بلا شبہ مختلف جذبات کی ترجمان ہے۔  جس میں ان کی عمر کے حساب سے ان کے تجربات اور جذبات ہر جا بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔  شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب تک دل پر چوٹ نہ لگے۔  یہ اندر سے کوئی بات باہر نہیں آنے دیتی۔  واقعی شاعری ایسی ہی بلا ہے۔  کوئی کتنا بھی ماہر ہو، کوئی کتنا بھی بڑا لفاظ ہو، کوئی کتنی بھی بڑی ڈگری رکھتا ہو، لیکن اگر اس کے دل سے کوئی چوٹ گزری نہیں، جسے اکثر لوگ کہا کرتے ہیں عشق کی چوٹ،
 لیکن صرف عشق زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے، عشق زندگی نہیں ہوتی، کوئی ایک انسان آپ کی زندگی پر حاوی نہیں ہو سکتا، اس کے مختلف مدارج ہوتے ہیں۔ یہ رشتے بھی ہو سکتے ہیں ۔ یہ دوستیاں بھی ہو سکتی ہیں ۔ یہ تعلق بھی ہو سکتا ہے۔  یہ امیدیں بھی ہو سکتی ہیں۔  جو جب ٹوٹتی ہیں، دل پر چوٹ پڑتی ہے اور ان کی کرچیاں جب آپ کے کومل سے دل کو زخمی کرتی ہیں تو اس سے رسنے والے لہو سے جو شاعری مرتب ہوتی ہے یقینا وہ دوسرے دل تک جا کر اپنی جگہ بنا ہی لیتی ہے۔  عمر کے ساتھ ، تجربات کے ساتھ،  مشاہدات کے ساتھ ، وقت گزرتا ہے تو آپ کی شاعری میں مزید پختگی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔  ہم بہت سے شعراء کو پڑھتے ہیں، جو کم عمری میں بہت بڑے بڑے کلام کہہ گئے لیکن پھر وقت نے دیکھا کہ انکی عمریں اتنی ہی کم نکلیں اور وہ دنیا سے بہت جلد رخصت ہو گئے۔  کیونکہ ان کے اندر جو کچھ تھا اس کم عمری کے اندر ہی ان کے تجربات کی شدت کے ساتھ وہ نکل چکا تھا۔  وہ اتنا درد اٹھا چکے تھے۔  وہ اتنی تکلیفیں اٹھا چکے تھے۔  کہ اب ان کے اندر ایسا کچھ نہیں رہا تھا ۔ جو مزید دنیا کو دیا جاتا۔  سو وہ اس دنیا میں نہ رہے۔  لیکن بہت سی ایسے شعراء ہیں ، جو وقت کے ساتھ ایک ایک سیڑھی چڑھتے ہوئے اپنی جگہ بناتے ہیں۔  اپنا مقام بناتے ہیں اور دنیا ان کے کام کو سراہتی ہے۔  فوزیہ اختر ردا اور ان جیسے شعراء کرام یقینا ایک ایسی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔  جو ایک ایک قدم اٹھاتے ہوئے اپنا سفر طے کر رہے ہیں۔  اور ان سے بہت ساری اچھی  امیدیں ہیں کہ یہ بہت آگے تک جائیں،  بہت ترقی کریں۔  اپنا بلند نام اور مقام بنائیں۔  اردو ادب کی دنیا میں اپنے آپ کو منوا سکیں ان کی شاعری کے مختلف لہجے ہیں ۔  کہیں وہ نسائی لہجے میں بات کرتی ہیں۔  کہیں وہ درد دل رکھنے والے ایک ایسی انسان کے طور پر دکھائی دیتی ہیں۔  جو دوسروں کی تکلیفوں پر تڑپتا ہے اور بہت کچھ کرنا چاہتا ہے،  اور جب کچھ نہیں کر پاتا تو بے بسی سے ہاتھ ملتا ہے۔  فوزیہ اختر ردا کے اس مجموعہ کلام "روپک" کے لیے تہہ دل سے میں اپنی جانب سے اپنی تنظیم "راہ ادب فرانس" کی جانب سے مبارکباد پیش کرتی ہوں.  بہت ساری دعائیں ان کے لیئے، بہت ساری نیک خواہشات بھی ہیں، اور امیدیں بھی ہیں کہ یہ بہت آگے تک جانے والی شاعرہ ہیں۔  فوزیہ اختر ردا بہت با ادب ہیں اور بہت ہی باوقار انداز میں اپنے کام کو آگے لے کر بڑھ رہی ہیں۔ انکے کام میں اوچھا پن نہیں ہے۔  دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر اگے بڑھنے کی جلدی دکھائی نہیں دیتی ۔ اس لیے ان کی کام میں نفاست ہے۔  سکون دکھائی دیتا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ فوزیہ ردا صاحبہ کا
یہ مجموعہ کلام بھی قارئین سے پسندیدگی کی سند حاصل  کر پائے گا۔ 
خود کو نہ روک پائے تیری بندگی سے ہم 
کیسے بھلا یوں دور رہیں رو شنی سے ہم
 کب تک نبھائیں ایسے غلط ادمی سے ہم
 قسمت کو کوستے ہیں بڑی بے بسی  سے ہم
۔۔۔۔۔۔۔
جس سے شعور ذات کی ہم کو ملی نوید 
ڈرتے رہے سدا ہی اسی اگہی سے ہم 
 اس کو تو ایک خوبرو چہرے کی آس تھی
 بس مات کھا گئے ہیں اسی اک کمی سے ہم
 زخموں کا میرے کوئی نہیں رہ گیا علاج
 دل کو لہو جو کر رہے ہیں شاعری سے ہم
۔۔۔۔۔۔۔
مل گیا مجھ کو اک سرا میرا 
 شخص کوئی ہے ہم نوا میرا 
 ٹوٹ بیٹھا جو سلسلہ میرا 
اس نے توڑا ہے ضابطہ میرا
 اس سے ملنے کی دل میں چاہت تھی
 دیکھتا تھا جو راستہ میرا
۔۔۔۔۔۔۔
کیسے دریا کو پار کرنا ہے 
مجھ سے پوچھے ہے حوصلہ میرا
۔۔۔۔۔
روز انے کا عہد کرتا ہے 
 اور بہانے سے ٹالتا ہے کوئی
۔۔۔۔۔۔
اے بحر جفا دیکھی ہے طغیانی بھی تیری 
طوفان سے ہوتا نہیں نقصان ہمارا
۔۔۔۔۔
 جو کچھ دل میں چھپایا جا رہا ہے
 اشاروں سے بتایا جا رہا ہے
یہ کس سے دل لگایا جا رہا ہے 
 کسے اپنا بنایا جا رہا ہے
نہیں ہے اصل میں منظر وہ ایسا 
ہمیں جیسا دکھایا جا رہا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرف دیکھیے ہے اہ و بکا 
 میں جہاں ہوں وہ کربلا تو نہیں 
۔۔۔۔۔۔
تیری بے رخی بھی ہے بے مثل ٹھہری 
 تیری کج ادائی کے چرچے بہت ہیں
۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں ٹھہرا ہوا لمحہ بکھر جائے گا 
 وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا 
پھر تسلسل میری سوچوں کا بکھر جائے گا 
وہ تصور میں میرے ساتھ ہی مر جائے گا 
جس کی خاطر ہے کیا میں نے سفر صدیوں کا 
کیا میرے واسطے کچھ پل وہ ٹھہر جائے گا 
پھر جدائی کے اسی خوف نے آ گھیرا ہے
 اب کسی طور بھی اس دل سے نہ ڈر جائے گا 
ما سوا میرے کوئی اور کہاں ہے اس کا 
مجھ سے روٹھا بھی کسی دن تو کدھر جائے گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھول پر پہرا لگا ہے خار کا 
حال مت پوچھو دل بیزار کا 
مجھ کو میرے دل نے بتلایا کہ می تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔
جی
                  ۔۔۔۔۔۔۔
دعاگو
ممتازملک
پیرس فرانس 
اردو پنجابی زبانوں کی شاعرہ ، کالمنگار، ادیبہ، نعت خواں، نعت گو، کوٹیشنز رائٹر، کہانی کار،  افسانہ نگار، ٹک ٹاکر۔ بلاگر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/