ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 23 نومبر، 2023

نظر بد ۔ اردو شاعری۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا

نظر بد
کلام:
   (ممتازملک ۔پیرس)

خدایا ان پر بھی رحم فرما
جو نظر بد کا شکار ہو کر
تمام خوشیاں گنوا چکے ہیں
نگاہ حاسد کی مار ہو کر 

کہ نظر بد وہ بلا ہے جو کہ
لیجائے بندے کو قبر تک اور
ہیں اونٹ ہوتے کباب اس سے
بخیل نیت ہیں  دل کے یہ چور

خدا بچائے تمام لوگوں کو 
نظر بد کی تباہیوں سے
اسی کی لگتی ہے جسکا دل ہو
بھرا ہوا بس سیاہیوں سے

کہیں پہ مرچیں سلگ رہی ہیں
کہیں پہ صدقے دیئے گئے ہیں
معوذالتین اک علاج ربی 
ہے ہولناکی نظر بشر کی 

ہیں کامیابی سے جلنے والے
ترقیوں پر اچھلنے والے
ہے شوق ممتاز ہونے کا پر
بجائے محنت مچلنے والے

خدایا ان پر بھی رحم فرما
خدا ان پر بھی رحم فرما
   ۔۔۔۔۔

پیر، 20 نومبر، 2023

جشن ممتازملک رپورٹ ۔ حصہ دوم


موضوع :مختصر افسانہ حیات

بعنوان : "  مشرق کی بیٹی  "                
راولپنڈی کے شہر  کے ایک متومل و قدامت پسند  گھرانے  پیدا ہونے والی انتہائی شوخ  و چنچل لڑکی جس نے  گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سے سیکینڈری کی  تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد اس دور میں جہاں  ہزاروں لڑکیوں کی طرح  بیٹوں کو بیٹیوں پر ہمیشہ  فوقیت دی جاتی تھی ۔۔۔۔اور بیٹیوں کے تمام جائز حقوق بھی صلب کر دیے جاتے تھے ۔۔۔ وہی حال اس نازک اندام  دوشیزہ کا بھی ہوا ۔۔۔
معاشرے کی روائیتی انداز کو اپناتے ہوئے ماں باپ نے کالج میں داخلہ لینے سے منع کر دیا اور  گھر بٹھا دیا اور ساتھ یہ تنبیہ کی کہ  گھریلو کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹائے  کیونکہ  زندگی میں ہر لڑکی کو فقط امور خانہ داری میں  ہی ماہر ہونا  لازمی ہے ۔۔  کیونکہ ۔۔۔یہی کامیاب زندگی گزارنے کے  سنہری اصول ہیں  ۔۔۔
اس لڑکی نے ماں باپ کے حکم کو سر آنکھوں ہر رکھتے ہوئے اور  روایات کا بھرم نبھاتے ہوئے پرائیوٹ ہی اپنی باقی  تعلیم مکمل  کی  ۔۔  اور ۔ساتھ ساتھ
  گھر کے نزدیک  خواتین کے مستند  پارلر سے سے حسن و زیبائش  کے ہنر میں بھی باقاعدہ  تربیت  و سند حاصل کی 
ابھی مستقبل میں کچھ کرنے کے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے اپنی دنیا میں مگن تھی کہ۔۔۔ایک اور پہاڑ سر پر ٹوٹا ۔۔۔۔ اسے بنا اس کی مرضی جانے شادی کے بندھن میں باندھنے پر زور  دیا گیا ۔۔۔اور جیسا کہ عام طور پر ان موقعوں پر  والدین پیٹیوں کو اپنی پرورش اور اپنی عزت کا واسطہ دے کر انھیں  کچھ کہنے سے پہلے خاموش کرا دیتے  ہیں۔۔۔ اور اگر  کوئی لڑکی  پس و پیش کرے  یا اپنے حق کے لیے کچھ کہنے کی کوشش بھی کرے تو اردگرد کے لوگ  اور قدامت پسند معاشرہ اس کی  بھر پور مخالفت کرتے ہیں ۔۔۔اور  ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیاں دے کر اس  کی فریاد کو ان سنا کردیتے ہیں ۔۔۔ ۔ 
 سوچنے کی بات ہے کہ ۔۔۔۔ایک لڑکی کے لیے اس کے ماں باپ کا گھر ہی تو اس کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہوتا ہے اور جب اس قلعہ میں ہی اسے بندی بنا دیا جائے تو وہ کےکرے ۔۔۔کہاں جائے ۔۔۔
۔۔کس سے فریاد کرے ۔۔۔  کیونکہ روایات اور رسومات  پر احتجاج کرنے پر  ۔۔۔۔عورت کے  قانونی اور شرعی کو کی رد کرنے والا زمانہ  ۔۔۔اسے نافرمان ،نا شکری  اور بگڑی اولاد ۔۔۔۔ کے طعنے دیتا ہے۔۔۔۔۔  
۔۔۔ ایک انکار اور نفرتوں اور طعنوں کی بوچھار۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔پھر رویوں میں سرد مہری کا ماحول ۔۔۔۔ گزرتے وقت نے جہاں اتنے گھاؤ لگائے وہاں زندگی نے ایک نیا موڑ لیا ۔۔۔۔اور یہ اپنے حق کو منوانے کی ضد پر اڑی لڑکی   شادی کے بندھن میں بندھی۔۔۔۔  اس  لڑکی نے ازدواجی زندگی کی ہر خوشی اپنے ہمسفر کو دی  دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔۔۔اب ان کی پرورش ہی اس کی زمہ داری تھی ۔۔۔اس نے پوری جانفشانی سے ماں باپ کے  گھٹے ماحول سے نکل کر جیون ساتھی کی توجہ اور پیار نے اسے جینے کا حوصلہ دیا  ۔۔۔اور  ۔۔۔قدم قدم پر اس کا ساتھ نبھایا  ۔۔۔ ۔۔گو کہ اس کا دل ماضی کی یادوں سے  چھلنی تھا ۔۔۔۔مگر دھیرے دھیرے یہ زخم مندمل ہونے لگے ۔۔۔ 
۔۔۔وہ  اپنے مقدر کے لکھے کو نصیب جان کر  جیون کی بہتی دھارا میں اپنی زندگی کی ڈولتی کشتی پر سوار  پر ایک  پر سکون ساحل کی تلاش میں  آگے بڑھتی  رہی ۔۔۔۔  بابل کا آنگن چھوٹا ۔۔۔۔ پھر گلی چوبارہ چھوٹا ۔۔اور پھر دیس سے پردیس سدھار گئی۔۔۔ 
مغربی طرز کا نیا ملک ۔۔۔ نئے لوگ ۔۔۔ اطراف میں پھیلی زندگی نے ۔۔۔ اس کے اندر  دوبارہ جینے کا حوصلہ پیدا کیا 
۔۔۔بچے اب دھیرے دھیرے بڑے ہو رہے تھے ۔۔۔ گھر کے کام کاج کے بعد اس کے پاس جو بھی وقت تھا اس نے خود پر توجہ دی اور  اپنی شخصیت کو پوری تندہی و  محنت سے سنوارا ۔۔۔۔  علاقے میں ہونے والی دینی و  دنیاوی تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔۔۔ گو کہ یہ مغربی ملک تھا مگر یہاں آکر اسے پتہ چلا کہ عورت  کے حقوق کی وہاں کتنی عزت کی جاتی ہے  اور ۔۔۔۔۔  اپنے دیس میں  عورت کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔۔۔  ابھی تک کئی  پڑھے لکھے قدامت پسند گھرانے  تک بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔۔۔ ۔
پردیس آکر اس لڑکی نے جو اب ایک  ماں اور بیوی کے ساتھ ساتھ  ایک زمہ دار فلاحی ادارے کی بانی و سرپرست بھی بنی ۔ 
 دور بدلا 
 ۔وقت و حالات بدلے ۔۔۔اور ۔۔۔۔ دنیامیں اب الیکٹرانک میڈیا کی آمد پر لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں آگئے ۔۔۔  اور پھر دنیا گویا سکڑ کر گویا  ہتھیلی میں سما گئی ۔۔۔ ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کے علمی و ادبی گروپ بنتے گئے ۔۔۔

2010 ء سے اس خوصورت باوقار  خاتون خانہ نے  باقاعدہ شاعری اور لکھانے لکھانے کا آغاز کیا  اور اپنی پہلی شعری تخلیق بنام "مدت ہوئی عورت ہوئے" سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا ۔ نہ صرف  شاعری میں فن کے عروج کو چھوا بلکہ اپنے قلم کو تلوار بنا کر افسانے، کالم اور معاشرتی اقدار پر  کہانیاں لکھنا شروع کیں۔۔۔ وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔۔۔ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کی بنیاد پر  اب وہ ٹی وی چینلز پر اینکر اور کئی زمینی اور ان لائن پروگراموں اور ادبی محفل کی نظامت میں شب و روز مشغول رہنے لگی ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا بلاگ بھی بنایا جہاں  سماجی اور اخلاقی موضوعات پر آسان ترین زبان میں ایک عام انداز فکر میں اصلاح معاشرہ کے نقطہء نظر لیکچر بھی دیے 
ان تمام سماجی،فلاحی اور ادبی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو  زمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھا رہی ہے
 
 جی یہ تعارف  ہے آج کی شاندار شخصیت جن کے اعتراف کمال فن کے کیے آج ہم سب جشن منا رہے ہیں 
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ۔۔۔ تہہ دل سے خراج تحسین پیش کرتی ہوں 
۔۔۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی زندگی کی کہانی ان دیس پردیس میں بسی ان  سینکڑوں لڑکیوں کی کہانی جیسی ہے جو معاشرے میں محض عورت ہونے کی وجہ سے ہر شعبے میں  پیچھے دھکیل دیا جاتی رہیں ۔۔۔
  مگر کہتے ہیں نا کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔۔۔۔ اور ہر انسان کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔۔۔۔
۔۔  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ  نے بھی  حالات سے گھبرا کر ہار نہیں مانی بلکہ ۔۔۔ "دبنگ"ہو کر ہر مشکل اور  طوفان کا مقابلہ کیا ۔۔۔
اپنے غصہ اور تکلیفوں اور بیتے ماضی  کو اپنی شاعری اور اپنے تحریروں میں اتار دیا۔۔۔۔  
۔۔ گو کے ۔۔۔۔اب  آزمائشوں کا  وقت گزر گیا مگر اپنی بیتی زندگی کے تلخ  تجربات کو یاد کر کے آج بھی انکا لہجہ غمگین اور آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔۔
صنف نازک  کا یہی تو کمال ہے کہ اپنے دکھوں کو پال کر جیتی ہے۔۔ 
مگر اپنے عزم و حوصلے کو آگ کی تپش ہر بھی پگھلنے نہیں دیتی ۔۔۔



درج ذیل نظم کو پڑھ کر  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شخصیت پر یہ افسانہ "مشرق کی بیٹی " قلمبند کیا 
(عذرا علیم )

"ہائے"

میں تو پیدا ہوتے ہی
اپنے ہی ماں باپ کے ہاتھوں
دنوں میں بوڑھی کر دی گئی

بچپن کے سب کھیل کھلونے
بے فکری اور چنچل پن
میرا کوئی حق نہیں کہہ کر چھین لی گئی

پڑھنا مجھکو اچھا لگتا تھا تو میری ہر کتاب کبھی جلائی اور کبھی وہ پھاڑی گئی

رنگیں آنچل فیشن شوخی
چوڑیاں میک اپ 
پسند تھیں  لیکن مجھ پر حرام وہ کر دی گئی

اپنی مرضی سے جیون کا ساتھی چننا حق تھا میرا
وہ بھی چاہت مجھ سے چھین کے برتی گئی

جو ترکے میں حق تھا اس پر ماں جائے بھی نوچتے اور کھسوٹتے کتے
 ہر دم چارو چاری گئی

کسکو یہ ممتاز سنائے
ہائے میں کیسے روندی گئی
ہائے میں کیسے ماری گئی 
               ۔۔۔۔۔۔
تاج محل کو پیار نشانی کہنے والو 
عورت کو ہر سال سزا دی چاہت کی 

کیسا ہے یہ عشق کہ ساری عمر اس نے 
بچے جن جن قیمت دی ہے راحت کی 

مجھکو اپنی انسانی آزادی پیاری
نہیں تمنا مر کر ایک عمارت کی

 کیسے لوگ ہیں قبروں کو 
چاہت کی نشانی کہتے ہیں
اک عورت درد زہ میں مر گئی 
جسے پیار کہانی کہتے ہیں 

کیا اس پر بیتی چاہت میں 
کوئی نہ کبھی بتلاتے ہیں 

چاہت کے لاشے تاج محل میں کبھی گھمائے جاتے ہیں 

دولت کی نمائش کو مردے
 اندر دفنائے جاتے ہیں 
ممتاز کے غم کو دفنا کر 
پھر جشن منائے جاتے ہیں 

 قلم
ہمیں عزیز تھی حرمت قلم کی جس دم تک
تمام قوموں میں سرتاج سا مقام رہا

زمانے کے لیئے ہوتے ہیں راہنما وہ ہی 
قلم کا ہاتھ میں جن کے سدا قیام رہا

فروزاں  علم و عمل  کے جہاں چراغ رہے
زمانے میں انہیں قوموں کا احترام رہا 

جنہوں نے جان لٹا دی قلم کی حرمت پر
جہان لفظ میں انکے لیئے سلام رہا

سہل نہیں تھی وفاداری سمجھ کر ممتاز 
لبوں پہ جان نکلنے تک ابتسام رہا
---------------------------

ممتاز ملک صاحبہ ان چند خواتین میں سے ہیں جو زندگی کے مشکل  حالات میں بھی حوصلہ سے آگے بڑھیں اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب ہوئیں    ۔

اب تک آپکی  7 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں .
1۔مدت ہوئی عورت ہوئے(-شعری مجموعہ  2011ء)
2- میرے دل کا قلندر بولے 
 (  شعری مجموعہ    2014ء)
3-  سچ تو یہ ہے 
 (  کالمز کا مجموعہ 2016ء )
4- اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)  نعتیہ مجموعہ کلام (2019ء)
5-  "سراب دنیا " (اردو شعری مجموعہ کلام (2020ء).
6. "او جھلیا "۔ (پنجابی شعری مجموعہ کلام ۔ (2022ء)
7- "لوح غیر محفوظ" ۔مضامین کا  مجموعہ (2023ء)
زیر طبع کتب: 8
 الحمداللہ  اس وقت چالیس سے زیادہ ویب نیوز  سائیٹس پر آپکے  کالمز شائع ہو رہے ہیں جن میں 
جنگ اوورسیز ، ڈیلی پکار ، دی جائزہ ، آذاد دنیا،  عالمی اخبار ، اور بہت سے دوسرے شامل ہیں ۔  
💐 اعزازات ۔ 
 ممتاز ملک صاحبہ کی  کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔ 
1 مقالہ بی ایس کے طالب علم مبین  نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے لکھا ۔سراب دنیا پر
1۔ دھن چوراسی ایوارڈ 
 چکوال پریس کلب 2015ء/
2۔حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
3۔کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
4۔ دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
 5۔عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
6۔ الفانوس ایوارڈ 2022ء/ گوجرانوالہ 
  اور بہت سے دیگر اسناد۔۔۔۔
 ۔ 
  انٹرنیٹ پر   محترمہ ممتاز ملک کا بلاگ جو آپ کے تمام شائع مواد مفت پیش کرتا ہے .
MumtazMalikPairs.BlogSpot.com
آپکی  ویب سائیٹ 
MumtazMalikParis.com
              ●●●
اردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ "ریختہ "اور "اردو پوائنٹ" پر بھی ان کا  کلام موجود ہے ۔  فیس بک ۔ ٹک ٹاک ۔ یو ٹیوب ، گوگل ، انسٹاگرام ، ٹیوٹر پر انھیں  بآسانی  ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔

آپکے کلام سے  منتخب اشعار :
 ​​ 
سامان قہر رب ہے بپا جو نہ پوچھئے
    رشتے گزر رہے یوں دامن درید کر 
رفتار سست ہے تیری گفتار تیز ہے
دعووں میں کچھ عمل کااضافہ مذید کر
اپنے پروں پہ کر کے بھروسہ تو دیکھئیے 
اونچی اڑان کے لئے محنت شدید کر
         ____________ 

شیر و  مکھن میں نہ تھا حصہ کوئی 
میری خاطر  ماں نے لیکن چھاج رکھ لی

ہے محض ممتاز دھوکہ سوچ کا تو 
اک غلامی تھی بنام راج رکھ لی
________________

اسی دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے ہو زور قلم اور زیادہ ۔۔۔

عذرا علیم 
مسقط عمان

شاعرہ،ادیبہ،۔نظامت کار ،کالم نویس،افسانہ /افسانچہ نویس،تبصرہ /تجزیہ نگار 
  نائب مدیرہ
(مجلہ "افسانہ نما" )
                ۔۔۔۔۔۔



         

ہفتہ، 18 نومبر، 2023

عورت کیخلاف جرائم۔ کالم

عورت کے خلاف جرائم
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)

آئے روز ہمارے اردگرد کہیں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہے کہیں گولی مار کر اسے بدکردار ثابت کیا جاتا ہے، کہیں تیزاب گردی ہے اور کہیں اس کا اغوا اور آبرو ریزی، کہیں کاری تو کہیں (توہین قرآن کی سب سے بڑی اعلانیہ و فخریہ رسم) قرآن سے شادی،  آگ لگا کر مار ڈالنا،  کی خبریں اس تواتر کیساتھ سامنے آتی ہیں کہ سننے والے بھی اسے سن سن کر بے حسی کی اس منزل تک پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اب یہ جرائم زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہ تو جرائم لگتے ہیں اور نہ ہی قابل سزا۔
اور تو اور ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے اور بااثر اور بارسوخ کہلانے والے افراد بھی زیادہ تر ان جرائم میں ملوث ہیں ۔  اکثر ایسے واقعات میں ان کی رپورٹنگ اور ویڈیوز کے نیچے دی گئی آراء اور کومنٹس پڑھیں تو آپ پر یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عورت ہی بری تھی کیا ہوا اگر اسکی شادی اسکی مرضی کے خلاف اسکا باپ  کروانے جا رہا تھا ، پھر کیا ہوا اگر اسکا بھائی اس کی جائیداد پر حق جما رہا تھا اسے برداشت کرنا اور اسے معاف کر دینا چاہیئے تھا۔ یہ کیوں اپنے حق کا شور مچاتے کھڑی ہو گئی، بھائی کی غیرت کو کیوں للکارا ۔ پھر کیا ہوا  اگر اس کا شوہر اسے پیٹتا تھا یہ کیوں کسی کو بتانے گئی،  پھر کیا ہوا کہ اس کے بیٹے نے اسے مار ڈالا اسے اس بیٹے کی غیرت اور مرضی کے مطابق چلنا چاہیئے تھا ۔ 
ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا بس مرد ہی غیرتمند ہے، باکردار ہے اور عقلمند ہے ۔ جبکہ عورت ؟؟؟ اور اسی بے غیرت ، بدکردار اور بے عقل عورت سے وہ خود بھی پیدا ہوا ہے اور اپنے جیسے پیدا بھی کر رہا ہے۔۔۔ 
ہمارے معاشرے کی عورت کو سب سے زیادہ خطرہ ان مردوں سے ہوتا ہے، جن کے رشتوں سے انہوں نے انکار کیا ہو یا جن سے علیحدگی خلع یا طلاق کی شکل میں اختیار کی ہو ۔
یہ عورتیں ساری عمر ان ناکام مردوں کے نشانے پر رہتی ہیں ۔ان کا خیال آتے ہی انہیں اپنی نام نہاد مردانگی پامال ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ جب تک وہ ان کے رشتے میں رہیں انہوں نے انہیں اذیتناک زندگی دی اور جب وہ ان سے دامن چھڑا کر انہیں لات مار کر انکی زندگی سے نکل گئیں تو انکے لیئے ایک چیلنج بن گئیں ۔ کہ اس عورت کو مرتے دم تک چین سے نہیں رہنے دونگا ۔ 
یہ انکی کوئی محبت نہیں ہوتی کہ وہ انکے لیئے مرے جا رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ انکی وہ شرمناک سچائی ہوتی ہے جس کا کھلنا انہیں برداشت نہیں ہوتا کہ وہ نہ تو اچھا انسان ہے اور نہ ہی اچھا شوہر۔ یہ داغ دو طریقے سے دھویا جا سکتا ہے یا تو اس خاتون کا صفایا کر دو جو کہ انکی عزیمت کے لیئے تمام عمر کوشاں رہتی ہے اور دوسرا طریقہ وہ مثبت انداز فکر ہے جس کے تحت نہ صرف وہ خود زندگی کے اس موڑ سے آگے بڑھ جاتے ہیں بلکہ کسی اور کوشریک حیات بنا کر ایسی مثالی زندگی گزارتے ہیں کہ وہ چھوڑ جانے والی  کبھی سچی بھی تھی تو ساری دنیا کے سامنے جھوٹی ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ طرز عمل اپنانے والے مردوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ ماحول اور غلط تربیت ہے جس کے تحت مرد کے احساسات کو "مرد کو درد نہیں ہوتا، اور مرد روتا نہیں ہے، قسم کے  لایعنی تصورات کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کے لیئے اس درد کو بیان کرنے کا آسان طریقہ ایک ہی مل پاتا ہے وہ ہے کسی عورت کو اس کی زندگی میں ایک "پنچنگ بیگ" کے طور پر شامل کر دیا جائے ۔ وہ چیخ جو وہ کہیں نہیں مار سکتا اس عورت کو مغلظات کے طور پر اس پر دے مارے گا ۔ اور وہ مکا جو وہ اپنے کسی دشمن پر, رشتے پر نہیں برسا پاتا وہ پنچنگ بیگ بنام بیوی پر آ کر برساتا ہے ۔ اور اگر یہی مکے برسائے جانیوالا تھیلہ (پنچنگ بیگ) ہی آگے سے اپنے زندہ ہونے اور درد ہونے کی صدا بلند کرنے لگے تو وہ اسے کیونکر برداشت کر پائے گا ۔ پڑھائی میں ہی نہیں , سمجھ بوجھ میں بھی مردوں کی اکثریت اپنی بیوی سے کم ہوتی ہے، جس کے سبب وہ اسے اپنی غیرت پر تازیانہ شمار کرتا ہے۔ بدلے میں وہ اپنی قابلیت بڑہانے کے بجائے اپنی طاقت کو اپنی بیوی کی قابلیت تباہ کرنے پر مرکوز کر دیتا ہے ۔ اسی لیئے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو آپ جان جائیں گے کہ اپنی گھر کی، اپنے خاندان کی سب سے لائق فائق، سمجھدار، ذہین ترین لڑکی شادی کے رشتے میں بندھتے ہی کیوں اور کیسے چند برسوں میں ہی نکمی، بیوقوف ، پاگل اور ذہنی مریضہ قرار دے دی جاتی ہے کیونکہ وہ ایسی تھی نہیں بلکہ  بنا دی جاتی ہے ۔ اور اکثر اسی  "ذہنی مریضہ" بنائی گئی لڑکی سے وہ خودساختہ قابل ترین مرد اپنے جیسے قابل ترین بچے پیدا کرنے کی مہم پر بھی روانہ رہتا ہے ۔ گویا چنے کے جھاڑ سے آم اگانا چاہتا ہے۔  عورت کو مرد کے اندر کے اس شیطان سے بچانا ہی معاشرے کو ایک صحت مند ماحول اور نسل دے سکتا ہے ۔ یہ سب کچھ کرنا یا ہوتا دیکھ کر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا اور پھر اپنی بیٹیوں کے لیئے نیک نصیب کی دعا کرنا خدا کو دھوکا دینا ہے یا خود اپنے آپ کو ؟
                 ---------

جمعرات، 16 نومبر، 2023

جشن ممتازملک ۔ رپورٹ ۔حصہ اول

15 اکتوبر 2023ء

آج میری زندگی میں میرے نام کا پہلا جشن منعقد کیا گیا ۔ جس کا سہرا گلوبل رائیٹرز ایسوسی ایشن اٹلی اور بزم اصحاب قلم بدایوں بھارت کے سر رہا ۔ جس کی سرپرست اعلی محترمہ زیب النساء زیبی صاحبہ ، منتظم اعلی جناب چوہدری محمد نواز گلیانہ صاحب اور ڈاکٹر کمال اختر صاحب ،جناب ہدایت بدایونی 
آج محفل سجی ممتاز کی
آؤ باتیں کریں ان کے اعزاز کی
اپنے فن میں یہ ممتاز ہیں، کیا کہیں
ان کے اعلی نظامت کے انداز کی
دے رہے ہیں ہدایت انہں یہ دعا
دنیا چرچہ کرے ان کے پرواز کی
ہدایت بدایونی
               -------

[15/11, 20:15] +92 301 8202113: جشنِ ممتاز ملک۔۔۔  15/11/2023
‌خواتین و حضرات گلوبل ولیج کے تیزی سے بدلتے اختراعی منظر نامے میں اختصار  ہی اظہار کی کنجی ہے۔
ممتاز ملک کیلئے ایک سطر لکھنی ہو تو یہ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔
" ممتاز ملک ایک ہمہ جہتی شخصیت کی حامل انتہائی متحرک با اعتماد محبّ وطن قلم کار اور شاعرہ ہیں۔"
ممتاز کے منتخہ کلام سے۔۔۔
ہم تو ہیں خلوص کے شیدائی
یہ جذبوں کا بیوپار نہ کر
صدیوں میں بنائی ہے عزّت
لمحوں میں اسے بیکار نہ کر۔۔۔۔۔۔۔

اپنےپروں پہ کرکے بھروسہ تو دیکھیے
اونچی اڑان کے لیے محنت شدید کر
دنیا بدل رہی ہے میرے اے دروغ گو
جدٌت پسند بن تو بہانے جدید کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلم کی حرمت پر کہا!
فروزاں علم و عمل کے جہاں چراغ رہے
زمانے میں انھیں قوموں کا احترام رہا۔۔۔

مندرجہ بالا اشعار شاعرہ کے فکری آہنگ اور ادراک کی علامت ہیں۔
دریا کو کوزے میں بند کرنے کی حکمتِ عملی کے تناظر میں ممتاز کی شاعری پر غیر روایتی تبصرہ درجِ ذیل ہے۔

ممتاز کا اسلوب سادہ کاری پر محیط ہے۔ مضامین کو سہل اور اثر انگیز  انداز میں باندھنے کی کاوش گزار ہیں۔۔۔۔ اور کسی حد تک قاری تک ان کی کہی بات کا ابلاغ موثر طریقے پر ہوتا نظر آتا ہے۔ 
شعری نزاکتوں اور منجملہ محاسن کی بات کی جائے۔۔۔تو بات دور تلک جاتی نظر آتی ہے۔ عروض کے معاملات ماہر عروض جانیں۔ اگر شاعر مضامینِ نو کا ابلاغ موثر طریقے سے کرنے میں کامیاب ہو جاۓ تو قاری کی توجہ حاصل کر لیتا ہے ۔۔۔۔۔اور عمر چاہیے ریاضت کو زیست کم ہے۔۔۔۔۔سخن کی شہسواری کے لیئے۔
ممتاز کے ہاں برجستگی اس اداۓ وقار کے ساتھ ہے کہ وہ قاری کو اپنی سحر میں لینے کا ہنر جانتیں ہیں۔ اس جانکاری میں ان کے ذاتی زندگی کے واقعات، مشاہدات اور سماجی تجربات نے عمل انگیز  کا کام کیا ہے۔ کہ دانہ خاک میں مل کر گلِ گلزار ہوتا ہے۔ ان کا اسلوب اور شعری سفر ارتقائی منازل میں ہے ۔۔۔ تاہم یہ اپنے اندازِ بیان اور فطری تکلم سے شعری لطافتوں کو اس طرح رقم کرتی دکھائی دیتیں ہیں کہ شعریت میں ارتقائی نوید  ناقد بھی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
میں اس موقعے پر انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اپنے دعائیہ اشعار اس جشن کی مناسبت سے ان کے لیئے  موزوں کرتا ہوں۔

کبھی کرن کبھی تم آفتاب بن جانا
شبابِ گُل کبھی دلکش رباب بن جانا
سجانا گلشنِ ہستی کو غنچہ و گل سے
مہکنا ایسے کہ تازہ گلاب بن جانا
صمیمِ قلب سے الفت پیام لکھ لکھ کر
جہانِ تازہ میں تم ماہتاب بن جانا
ورق ورق جہان اخلاص ہو محبت ہو
تپاکِ جاں سے تم ایسی کتاب بن جانا
کبھی کسی کا دُکھانا نہ دل خیال رہے
خلوص و پیار میں تم بے حساب بن جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
شجاع الزّ ماں خان شآد
سعودی عرب ۔۔۔۔ ریاض
[15/11, 22:58] +1 (773) 505-4900: قطعہ تہنیئت
ناظمہ بے حد ہیں اچھی باخدا
شاعری میں انکا ہے اونچا مقام
ہے درخشاں انکے دم سے انجمن 
رکھئے ممتاز ادب ہی انکا نام
رشید شیخ شکاگو
               
                -------
میں اس مشاعرے میں شرکت نہیں کر سکی کہیں مصروف تھی لیکن یہ قطعہ آپ کے لئے ہے
مشہور ہیں مقبول ہیں ممتاز آپ ہیں
الفاظ ہیں شاعر کے تو آواز آپ ہیں 
چہرے پہ تبسّم ہے نگاہوں میں تکلم
لہجے میں کھنکتا ہوا اک ساز آپ ہیں
ر(خسانہ راحت) کراچی۔
 نعت گو نعت خواں ۔ شاعرہ
                -------
بزم اصحاب قلم بدایوں۔انڈیا
گلوبل رایڑز ایسوسی ایشن ۔اٹلی
کے زیر اہتمام ۔
بتاریخ 14 نومبر 2023

. . . . . . . .جشن۔ممتاز ملک ۔۔۔۔۔ 

فکرو فن کا گلستاں ممتاز ہے
شاعری کی روح و جاں ممتاز ہے۔

جس نے بخشسی ہے غزل کو زندگی
اب ادب میں نغمہ خواں ممتاز ہے 

شہپر  پرواز شل ہو جائے گا 
کوئی کیا پہنچے جہاں ممتاز ہے 

ہر ورق پر تیری فنکاری کے پھول 
داستاں در داستاں ممتاز ہے 

تو ہے تہذیب و ادب کی زندگی 
تو ہی میر کارواں ممتاز ہے 

کاش اس کی خیریت بہتر رہے 
شاعروں کے درمیاں ممتاز ہے 

وہ فن پاروں کا سرمایہ عظیم 
تجھ میں جو زور بیاں ممتاز ہے

ریختہ اردو پواینٹ میں رضی 
دیکھتے ہیں ضوفشاں ممتاز ہے

ڈاکٹر رضی امروہوی ۔انڈیا
              ۔۔۔۔۔۔
شعر کے کہنے میں ممتاز ہیں ممتاز ملک
آج کی صاحب اعزاز ہیں ممتاز ملک
شکر کرتی رہیں رب کا کہ ہے رحمت اسکی
رب کی بخشی ہوئی آواز ہیں ممتاز ملک
جشن ان کا جو مناتے ہیں حقیقت ہے یہی
سخن قلب کی پرواز ہیں ممتاز ملک
(محسن علوی ۔امریکہ)
              -------

جمعرات، 9 نومبر، 2023

& چاند ڈوب گیا ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


چاند ڈوب گیا
 تحریر: 
         (ممتازملک ۔پیرس)

نہ بھئی نہ لڑکی کی ناک دیکھی ہے طوطے جیسی۔  مجھے تو میرے بیٹے کے لیئے ایسی لڑکی دکھاؤ کہ ہر جاننے والے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔
سکندر کی ماں رقیہ نے لڑکی کی تصویر کو نخوت سے میز پر پٹختے ہوئے کہا ۔۔
رشتے دکھانے والی رضیہ تو جیسے جل بھن کر رہ گئی ۔ اس کے جی میں تو آئی کہ بی بی شہر کی پچاسویں لڑکی ہے جو ایک سے ایک خوبصورت اور قابل تعلیم یافتہ ہے تمہیں دکھا چکی ہوں اور تم ہو کہ پروں پر پانی ہی نہیں پڑنے دیتی۔ لیکن   پھر کچھ سوچ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ 
دیکھو رقیہ بہن میں جانتی ہوں کہ صرف میں ہی نہیں ہوں جس سے تم رشتے دیکھ رہی ہو ، بلکہ اس شہر کے ہر میرج بیورو اور ہر رشتے کرانے والی کے پاس سے تمہیں رشتے دکھائے جاتے ہیں ۔ اب تو لوگ تمہارا نام سنتے ہی پہلے ہی منع بھی کر دیتے ہیں کہ نہیں بھائی اس خاتون کو مت لانا اس سے ہم پہلے ہی مل چکی ہیں اس کے تو بہت نخرے ہیں ۔ 
آخر تم ایک ہی بار بتا دو کہ تمہیں اپنے بیٹے کے لیئے کیسی لڑکی چاہیئے ۔ پانچ سال سے تم اس شہر کا ہر گھر گھوم چکی ہو ۔ کہیں دوپہر کے کھانے کھاتی ہو  اور کہیں رات کی دعوتیں اڑاتی ہو۔  
رقیہ بیگم بھڑک کر ہاتھ نچاتے ہوئے بولی آئے ہائے میرا بیٹا کوئی گیا گزرا نہیں ہے چاند کا ٹکڑا ہے ۔اچھا کماتا ہے ۔ گھر بار والا ہے ایسے ہی کوئی بھی بن بتوڑی تھوڑی اٹھا کر لے آؤں گی اپنے بیٹے کے لیئے ۔ 
خدا کا خوف کرو رقیہ بیگم۔ اس تین مرلے کے گھر میں رہتی ہو۔ اور بنگلوں والی لڑکیاں تک تم مسترد کر چکی ہو ۔ بیٹا تمہارا رنگ روپ دیکھ لو تو دوسری بار کوئی ملنا نہ چاہے اور تم ہو کہ ہر ایک کی بیٹی میں عیب نکالتے نکالتے گھر میں بیٹے کو پینتیس سال کا کر چکی ہو۔
ارے پینتیس کا ہے تو کیا ہوا لڑکی تو میں بڑے گھر سے چاند کا ٹکڑا ہی لیکر آؤنگی ۔ جو کار کوٹھی ڈگری سب کچھ لیکر آئے گی اور ہاں دیکھ لینا ہاتھ باندھ کر میرے سامنے چاکری کرے گی ۔۔ بیس سے اوپر تو ایک دن کی بھی نہ ہو۔ ہاں نہیں تو ۔۔۔
ہائیں ۔۔۔
رضیہ کا تو حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا 
اسے پورا یقین ہو چلا تھا کہ رقیہ بیگم کا دماغی توازن جواب دے چکا ہے ۔ اس نے اپنی چادر سمیٹی اور پلیٹ میں رکھے تینوں سموسے ہاتھ میں اٹھائے اور چلتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا رضیہ بیگم کسی کارخانے میں تمہاری مرضی کی بہو آرڈر پر تیار ہو گئی تو مجھے بھی شادی کی دعوت دینا مت بھولنا۔۔ چلتی ہوں اللہ حافظ
رقیہ نے دروازہ بھیڑتے ہوئے چاہا تو کہ یہی دروازہ اس رقیہ کے سر پر دے مارے لیکن اپنی پیشہ ورانہ مصلحت کے سبب دل مسوس کر رہ گئی۔ 
اس کے جاتے ہوئے سامنے سے رکشے سے اترتا ہوا سکندر ملا ۔ سوکھا سڑا سا، پکا رنگ، اپنی عمر سے بھی دس سال بڑا دکھائی دیتا ہوا۔ یہ مرد اسے لڑکا تو کہیں سے نہیں لگا ۔اسے دیکھتے ہی رضیہ کی آنکھوں میں وہ تمام حسین و جمیل کم سن بہترین تعلیم یافتہ لڑکیوں کے سراپے گھوم گئے جنہیں ایک کے بعد سکندر کی ماں نے اپنے اس چاند سے بیٹے کے لیئے ٹھکرا دیا تھا ۔ جبکہ گھروں میں دو دو چار چار کنواری بیٹیوں کے بیٹھے ہونے کے سبب انکے والدین اس جیسی شکل و صورت اور حیثیت والے کو بھی داماد بنانے کو تیار تھے لیکن رقیہ بیگم شاید اپنے بیٹے کو بیاہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
پچھلے دس سال سے یہی بیٹا لیئے وہ ہر گھر میں کبھی دوپہر اور کبھی شام دعوتیں اڑا رہی تھی شادی کر دیتی تو پھر یہ دعوتوں کے مزے کہاں سے پورے ہوتے۔

رقیہ بیگم خدا کا خوف کرو جس بیٹے پر اتنا گھمنڈ کر رہی ہو اور دوسروں کی عزتیں اچھالتی پھرتی ہو کہیں وہ تمہارے دل کا روگ ہی نہ بن جائے ۔
رضیہ بیگم نے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو رقیہ ںی تو جیسے ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں۔
ارے جاؤ جاؤ بڑے آئے ہمیں روگ دینے والے ۔
منیزہ کی بیٹی کو دیکھ کر لٹکتی مٹکتی رقیہ بی  ہر بات میں کیڑے نکالتی ہوئی باہر نکلیں تو اس کی نظر سکندر سے چار ہوئی ۔
 گھر سے باہر کھڑے سکندر پر ایک نظر ڈال کر دوسری نظر جب اپنی بیٹھک کے پردے کے ساتھ لگی کھڑی اپنی حسین اور قابل بیٹی پر نگاہ پڑی تو جیسے کانپ کر رہ گئی ۔ کوئی جوڑ نہیں تھا ان کا انکی بیٹیاں پڑھ لکھ کر کسی قابل بننا چاہتی تھی اور عمیر صاحب کی آنکھوں میں  ان کا گھر بسانے کا سپنا انہیں سونے نہیں دیتا تھا ۔
 دو موٹے موٹے آنسو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ بہہ نکلے۔
مغرور رقیہ بیگم نے رکشے والے کو پیسے ادا کیئے اور سڑک پار کرنے کو مڑی ہی تھیں کی سکندر جو اپنے ہی خیالوں میں سڑک پار کر رہا تھا ایک تیرفتار گاڑی کی زد میں آ گیا ۔ گاڑی کی ٹکر سے وہ دور جا گرا رقیہ بیگم کے تو جیسے اوسان خطا ہو گئے ۔
وہ گرتی پڑتی ہانپتی کانپتی اپنے زخمی بیٹے تک پہنچتی کہ وہاں اکٹھی ہوتی بھیڑ میں سے کسی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ 
بیچارے کو گاڑی نے اڑا دیا۔ موقع پر دم توڑ دیا ہے ۔ پھر بھی اسے ہسپتال پہنچاؤ یار ۔۔
اس کے بعد رقیہ بیگم بیٹے تک پہنچنے سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی۔ 
دونوں کو ایک ہی ایمبولینس میں ہسپتال پہنچایا گیا اس کا غرور چور چور ہو کر لاش کے طور پر اسٹریچر پر تھا تو ماں اس کی موت کا غم اٹھانے کو بیہوش دوسرے سٹریچر پر۔ اس کا کالا مریل بد صورت چاند کا ٹکڑا ڈوب چکا تھا جس نے اسے پچھلے دس سال سے اس شہر کی ہر جوان لڑکی کے گھر کی آنکھ کا تارا اور مہمان خصوصی بنا رکھا تھا ۔ 
               -------

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/