بلا ہے تنہائی
تنہائی اسے کاٹنے لگی تھی اتنا بڑا بنگلہ جو کبھی آوازوں سے گونجا کرتا تھا۔ اب سائیں سائیں کرنے لگا تھا ۔اس نے سوچا اس علاقے میں اور بھی تو ایسے گھر ہوں گے جہاں ان کے ساتھ دنیا اور اولادیں الگ گھر بسا چکی ہونگی اور وہ بھی ان کی طرح دیواروں سے باتیں کرنے پر مجبور ہونگے ۔
کیوں نہ اس بنگلے میں کچھ لوگوں کو آباد کر لیا جائے۔
یہی سوچ کر اس نے پہلے اپنی سہیلیوں سے رابطہ کیا ان میں سے بیوہ اور مطلقہ دوستوں کے ناموں کی فہرست بنائی۔
سب سے پہلے اس نے اپنی بچپن کی سہیلی نجمہ کو فون کیا۔
اس کی خیر خیریت دریافت کی پوچھا سناؤ کیسی گزر رہی ہے۔
اس نے بھی اپنے بچوں کی بے توجہی کی شکایت کی ، کہ سب اپنے اپنے گھروں کے ہو گئے کوئی اسے نہیں پوچھتا ، اکیلی اتنے بڑے گھر میں وہ گھبرا چکی ہے۔
غرض اس نے جس کو بھی فون کیا کوئی بہو سے خفا، کوئی بیٹے کی وجہ سے پریشان ، کوئی بیٹیوں کی وجہ سے ناراض اور کوئی آسودہ حال بھی تھی۔ تب بھی تنہائی کا شکار اور ڈپریشن کا سامنا کر رہی تھی۔
کچھ کی مالی حالت بے حد خراب تھی۔
کچھ کرائے کے گھروں میں رہ رہی تھیں ۔
اس نے سبھی سہیلیوں میں سے دو خاص مخیر سہیلیوں کو چنا اور انہیں دعوت دی کہ وہ آ کر کچھ روز اس کے ساتھ رہیں۔
یہ سن کر دونوں سہلیاں نجمہ اور شاہین بے حد خوش ہوئی کہ بہت سالوں کے بعد انہیں ایک چھت تلے گپ شپ لگانے کا موقع ملے گا اور وہ کچھ دیر ایک دوسرے کا ساتھ انجوائے کریں گی۔
ایک ہفتے میں اس نے اپنے گھر کا ایک کمرہ دو پلنگ لگا کر اور ضرورت کی کچھ چیزیں رکھ کر تیار کر لیا ۔
وہ چاہتی تھی کہ پہلے اس مہمانداری کے تجربے سے کچھ اندازہ لگائے کہ ایسا کرنا کیسا رہے گا۔
اگر بہت سی سہیلیاں ایک ہی گھر کے نیچے ایک ہی گھر میں رہیں تو کیا حالات ہو سکتے ہیں ۔
ایک ہفتے بعد حسب وعدہ نجمہ اور شاہین دونوں کی آمد ہوئی ۔
بچھڑی ہوئی سہیلیاں جو فون پر کبھی کبھار رابطے میں تھیں لیکن اتنے سال کے بعد اب ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔
خوب گلے ملیں۔ خوب شکوے ہوئے شکایتیں ہوئیں اور پھر خوب گپ شپ ہوئی۔ بہت سی یادیں تازہ ہوئیں ساتھ مل کر کھانا کھایا گیا۔
چائے پی ۔ عبادت کی اور پھر بڑے سے لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے بچپن کو یاد کیا گیا ۔
اپنی جوانی کے قصے دہرائے گئے ۔
گویا عید کا سماں تھا ان سب کے لیئے۔
دو تین روز کے بعد جب واپس جانے کا خیال آیا تو عائشہ بیگم نے نجمہ اور شاہین سے پوچھا
یہ کہو میرے ساتھ گزارے ہوئے یہ دن کیسے رہے۔
تو انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی وجہ سے انہیں اتنا خوبصورت وقت گزارنے کا موقع ملا۔ پتہ نہیں اب ہم دوبارہ کب اکٹھے ہوں گے ۔
انہوں نے اداسی سے بھرپور لہجے سے کہا
یہ سن کر عائشہ بیگم نے کہا دیکھو تم دونوں کے شوہر تو ہیں نہیں، جو تم پر اعتراض کریں یا روکیں گے۔ کہیں جانے یا رہنے سے۔
بچے اپنے گھر والے ہیں تم دونوں اپنے گھروں میں میری طرح تنہائی کا شکار ہو۔
اگر تم مناسب سمجھو تو کیوں نہ ہم اسی طرح ایک ہی گھر میں رہیں؟
میرے شوہر کی پینشن میرے نام پر ہے۔
بچے بھی جو بھیجتے ہیں اس میں میں تم لوگوں کی اتنی خدمت تو کر ہی سکتی ہوں کہ ہم اپنا کھانا پینا اور ادویات کے اخراجات پورے کر سکیں اور بدلے میں ایک دوسرے کو اچھی کمپنی دے سکیں۔
یہ سن کر نجمہ اور شاہین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بولیں
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ایک ہی جگہ رہیں؟
ہاں کیوں نہیں۔ ہم سب زندگی کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ اپنے فرائض ادا کر چکے ہیں۔ اب ہمیں اپنی مرضی سے اپنے دوستوں کے ساتھ یا اپنے کچھ شوق پورے کرنے کے لیئے ایک ساتھ رہنا ہے تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
لیکن ہم تمہارے ساتھ فری میں نہیں رہیں گے ۔
کیونکہ ہم جانتے ہیں گھر کے افراد بڑھتے ہیں تو اخراجات بھی بڑھتے ہیں۔ ہمیں مالی طور پر تو کوئی تنگی نہیں لیکن اگر تم ہمیں اجازت دو کہ ہم اپنی طرف سے تمہارے ساتھ اخراجات میں حصہ ڈالیں تو ہمیں بھی بہت خوشی ہوگی کہ ہم تمہارے ساتھ ایک ہی گھر میں رہیں۔
نجمہ اور شاہین دونوں کی رضامندی اس کے لیئے بہت حوصلہ افزا تھی۔ یوں ان تینوں نے صلاح کر کے اسی فہرست میں سے ایک دو سہیلیوں کو وہاں مدعو کیا اور پھر ایک ہفتے کے قیام کے بعد ان کی واپسی پر انہیں وہیں ٹھہرنے کا مشورہ بلکہ دعوت دی گئی۔
کچھ سہیلیوں کے مالی حالات بھی اچھے نہیں تھے۔
ان کے لیے تو گویا یہ موقع جہنم سے نکل کر جنت میں رہنے جیسا تھا۔
یوں دو کنال کا یہ بنگلہ آباد ہوتے ہوتے چھ ماہ کے اندر ہی سہیلیوں کا ایک خوشگوار سا خوابوں کا گھر بن گیا۔
اس کی اور اسکے شوہر کی پنشن کی رقم اور بچے جو کچھ بھیجا کرتے تھے ، اتنا تھا، کہ وہ باآسانی اس گھر کے سارے خرچے نکال کر ایک باورچی، دو ملازمین، ایک ڈرائیور اور ایک چوکیدار کی تنخواہیں نکال سکتی تھیں ۔
اس کے بدلے میں اس گھر میں بچھڑی ہوئی سہیلیوں کے بڑہاپے اور تنہائی کو قرار مل گیا تھا۔
وہ سب صبح کی نماز سے لیکر ناشتہ کی میز تک ، دوپہر کے کھانے اور دن کی نمازوں ، سہہ پہر کی چائے رات کے کھانے میں ایک ساتھ ہوتیں ۔
عشا کے بعد کچھ دیر ٹی وی پر خبریں اور کوئی پروگرام دیکھتیں۔
قرآن پاک کی تلاوت کرتیں اور ہر کمرے میں لگے چار چار سلیقے سے لگائے پلنگوں پر تسبیح کرتے اطمینان سے سوجاتیں ۔
ہر روز گھر کے نزدیک والے پارک میں سبھی سہیلیاں اگے پیچھے نکلتیں۔ دو دو تین تین کے گروپ میں۔
گھنٹہ دو گھنٹہ گپ شپ لگاتیں۔
چہل قدمی کرتیں۔
واپس آ کر سب اپنی مرضی سے اپنی پسند کا ناشتہ تیار کرتیں یا کوئی ایک دوست سب کی فرمائش پر ان کے لیئے کچھ نہ کچھ تیار کرتی۔
یوں ہنستے مسکراتے ناشتے کی میز پر رونق رہتی۔
اس کے بعد سب کمرے میں جا کر نہاتی دھوتیں۔
کپڑے بدلتیں۔ ہلکا پھلکا سا میک اپ کرتیں اور سب نے سوچا
کافی دن ہو گئے گپ شپ رونق میلہ لگائے ہوئے کیوں نہ ہم سب رضا کارانہ طور پر جو بھی کچھ جانتے ہیں وہ کام سکھانے کے لیئے گھر کے ایک کمرے کو مخصوص کر دیں۔ مختص کر دیں۔
ایک دوست جو بہت اچھی سلائی جانتی تھی۔ ایک بہت اچھی پینٹنگ جانتی تھی۔ ایک بہت اچھی اون کی بنائی جاتی تھی۔
انہوں نے سوچا
دن کے دو تین گھنٹے اگر ہم کچھ بچیوں کے لیے مفت میں کلاسز دے سکیں تو انہیں بھی ایک مفید مصروفیت میسر آ جائے گی اور کچھ بچیوں اور خواتین کو برسر روزگار بھی کیا جا سکتا ہے ۔
دھیرے دھیرے ایک دوست نے اس میں بیوٹیشن اور بیکنگ کی کلاسز کا بھی اضافہ کر دیا ۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب خوشی خوشی اپنے شوق کے کاموں میں اتنی مصروف ہو گئیں کہ انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ ان کے بچے کہاں ہیں یا وہ تنہا ہیں یا انہیں کسی کا انتظار ہے۔
آنے والی بچیوں میں خود انہیں بچوں کی سی محبت بھی ملنے لگی۔
انہوں نے سیکھنے والی لڑکیوں کی تعداد تھوڑی رکھی لیکن سب کو پوری توجہ ملتی۔
یوں باری باری کچھ سہیلیاں روز گروسری کے لیے نکلتیں ۔
کچھ کھانا بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کرتیں
صفائی کے لیئے رکھی ہوئی ملازمہ گھر کی صفائی ستھرائی کے بعد ضرورت کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی۔
عائشہ بیگم نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ہر مہینے ایک ڈاکٹر آ کر سب کا میڈیکل چیک اپ کرتی رہے۔
ان کی دوائیوں کے باقاعدگی اور کسی متوقع طبی مسئلے سے بچنے کے لیئے پہلے سے باخبر رہتی۔
لیکن جو مصروفیات وہ سب اپنا چکی تھیں۔ اس میں وہ چلتی پھرتی ہنستی بولتی اس قدر مصروف ہو چکی تھیں کہ تنہائی کیا ہوتی ہے کسی کو یاد نہیں رہا۔
دو سال ہو چکے تھے اب تو انہیں اپنے بچوں کی یاد بھی نہیں رہی۔ اب جب بچے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تو وہ ہنس کر کہتیں۔۔
بھئی جلدی جلدی بات کرو۔ اتنا ٹائم نہیں ہے ہمارے پاس کہ تم سے لمبی لمبی ہانکتے پھریں۔
ان کی اولادیں ان سے شکوہ کرنا چاہتیں کہ اماں، ماما آپ تو ہم سے ملتی رہیں۔ آپ ہمیں بھول گئی ہیں ۔
تو وہ یہی کہتیں۔
جب تم ہمیں بھول سکتے ہو تو ہماری امان اسی میں ہے کہ ہم بھی تمہیں بھول جائیں اپنی زندگیوں میں خوش رہو اور ہمیں عزت سے اپنی باقی زندگی گزار لینے دو۔۔۔
عائشہ بیگم اپنی تنہائی کے ساتھ بہت سارے لوگوں کی تنہائی دور کر چکی تھیں۔
وہ خوش تھی ۔ مطمئن تھی اور اللہ کی شکر گزار تھی کہ اس نے انہیں اس قابل کیا کہ وہ اتنے سارے لوگوں کے ساتھ زندگی کو پھر سے شروع کر سکتیں۔
-------