ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 20 نومبر، 2023

جشن ممتازملک رپورٹ ۔ حصہ دوم


موضوع :مختصر افسانہ حیات

بعنوان : "  مشرق کی بیٹی  "                
راولپنڈی کے شہر  کے ایک متومل و قدامت پسند  گھرانے  پیدا ہونے والی انتہائی شوخ  و چنچل لڑکی جس نے  گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سے سیکینڈری کی  تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد اس دور میں جہاں  ہزاروں لڑکیوں کی طرح  بیٹوں کو بیٹیوں پر ہمیشہ  فوقیت دی جاتی تھی ۔۔۔۔اور بیٹیوں کے تمام جائز حقوق بھی صلب کر دیے جاتے تھے ۔۔۔ وہی حال اس نازک اندام  دوشیزہ کا بھی ہوا ۔۔۔
معاشرے کی روائیتی انداز کو اپناتے ہوئے ماں باپ نے کالج میں داخلہ لینے سے منع کر دیا اور  گھر بٹھا دیا اور ساتھ یہ تنبیہ کی کہ  گھریلو کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹائے  کیونکہ  زندگی میں ہر لڑکی کو فقط امور خانہ داری میں  ہی ماہر ہونا  لازمی ہے ۔۔  کیونکہ ۔۔۔یہی کامیاب زندگی گزارنے کے  سنہری اصول ہیں  ۔۔۔
اس لڑکی نے ماں باپ کے حکم کو سر آنکھوں ہر رکھتے ہوئے اور  روایات کا بھرم نبھاتے ہوئے پرائیوٹ ہی اپنی باقی  تعلیم مکمل  کی  ۔۔  اور ۔ساتھ ساتھ
  گھر کے نزدیک  خواتین کے مستند  پارلر سے سے حسن و زیبائش  کے ہنر میں بھی باقاعدہ  تربیت  و سند حاصل کی 
ابھی مستقبل میں کچھ کرنے کے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے اپنی دنیا میں مگن تھی کہ۔۔۔ایک اور پہاڑ سر پر ٹوٹا ۔۔۔۔ اسے بنا اس کی مرضی جانے شادی کے بندھن میں باندھنے پر زور  دیا گیا ۔۔۔اور جیسا کہ عام طور پر ان موقعوں پر  والدین پیٹیوں کو اپنی پرورش اور اپنی عزت کا واسطہ دے کر انھیں  کچھ کہنے سے پہلے خاموش کرا دیتے  ہیں۔۔۔ اور اگر  کوئی لڑکی  پس و پیش کرے  یا اپنے حق کے لیے کچھ کہنے کی کوشش بھی کرے تو اردگرد کے لوگ  اور قدامت پسند معاشرہ اس کی  بھر پور مخالفت کرتے ہیں ۔۔۔اور  ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیاں دے کر اس  کی فریاد کو ان سنا کردیتے ہیں ۔۔۔ ۔ 
 سوچنے کی بات ہے کہ ۔۔۔۔ایک لڑکی کے لیے اس کے ماں باپ کا گھر ہی تو اس کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہوتا ہے اور جب اس قلعہ میں ہی اسے بندی بنا دیا جائے تو وہ کےکرے ۔۔۔کہاں جائے ۔۔۔
۔۔کس سے فریاد کرے ۔۔۔  کیونکہ روایات اور رسومات  پر احتجاج کرنے پر  ۔۔۔۔عورت کے  قانونی اور شرعی کو کی رد کرنے والا زمانہ  ۔۔۔اسے نافرمان ،نا شکری  اور بگڑی اولاد ۔۔۔۔ کے طعنے دیتا ہے۔۔۔۔۔  
۔۔۔ ایک انکار اور نفرتوں اور طعنوں کی بوچھار۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔پھر رویوں میں سرد مہری کا ماحول ۔۔۔۔ گزرتے وقت نے جہاں اتنے گھاؤ لگائے وہاں زندگی نے ایک نیا موڑ لیا ۔۔۔۔اور یہ اپنے حق کو منوانے کی ضد پر اڑی لڑکی   شادی کے بندھن میں بندھی۔۔۔۔  اس  لڑکی نے ازدواجی زندگی کی ہر خوشی اپنے ہمسفر کو دی  دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔۔۔اب ان کی پرورش ہی اس کی زمہ داری تھی ۔۔۔اس نے پوری جانفشانی سے ماں باپ کے  گھٹے ماحول سے نکل کر جیون ساتھی کی توجہ اور پیار نے اسے جینے کا حوصلہ دیا  ۔۔۔اور  ۔۔۔قدم قدم پر اس کا ساتھ نبھایا  ۔۔۔ ۔۔گو کہ اس کا دل ماضی کی یادوں سے  چھلنی تھا ۔۔۔۔مگر دھیرے دھیرے یہ زخم مندمل ہونے لگے ۔۔۔ 
۔۔۔وہ  اپنے مقدر کے لکھے کو نصیب جان کر  جیون کی بہتی دھارا میں اپنی زندگی کی ڈولتی کشتی پر سوار  پر ایک  پر سکون ساحل کی تلاش میں  آگے بڑھتی  رہی ۔۔۔۔  بابل کا آنگن چھوٹا ۔۔۔۔ پھر گلی چوبارہ چھوٹا ۔۔اور پھر دیس سے پردیس سدھار گئی۔۔۔ 
مغربی طرز کا نیا ملک ۔۔۔ نئے لوگ ۔۔۔ اطراف میں پھیلی زندگی نے ۔۔۔ اس کے اندر  دوبارہ جینے کا حوصلہ پیدا کیا 
۔۔۔بچے اب دھیرے دھیرے بڑے ہو رہے تھے ۔۔۔ گھر کے کام کاج کے بعد اس کے پاس جو بھی وقت تھا اس نے خود پر توجہ دی اور  اپنی شخصیت کو پوری تندہی و  محنت سے سنوارا ۔۔۔۔  علاقے میں ہونے والی دینی و  دنیاوی تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔۔۔ گو کہ یہ مغربی ملک تھا مگر یہاں آکر اسے پتہ چلا کہ عورت  کے حقوق کی وہاں کتنی عزت کی جاتی ہے  اور ۔۔۔۔۔  اپنے دیس میں  عورت کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔۔۔  ابھی تک کئی  پڑھے لکھے قدامت پسند گھرانے  تک بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔۔۔ ۔
پردیس آکر اس لڑکی نے جو اب ایک  ماں اور بیوی کے ساتھ ساتھ  ایک زمہ دار فلاحی ادارے کی بانی و سرپرست بھی بنی ۔ 
 دور بدلا 
 ۔وقت و حالات بدلے ۔۔۔اور ۔۔۔۔ دنیامیں اب الیکٹرانک میڈیا کی آمد پر لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں آگئے ۔۔۔  اور پھر دنیا گویا سکڑ کر گویا  ہتھیلی میں سما گئی ۔۔۔ ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کے علمی و ادبی گروپ بنتے گئے ۔۔۔

2010 ء سے اس خوصورت باوقار  خاتون خانہ نے  باقاعدہ شاعری اور لکھانے لکھانے کا آغاز کیا  اور اپنی پہلی شعری تخلیق بنام "مدت ہوئی عورت ہوئے" سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا ۔ نہ صرف  شاعری میں فن کے عروج کو چھوا بلکہ اپنے قلم کو تلوار بنا کر افسانے، کالم اور معاشرتی اقدار پر  کہانیاں لکھنا شروع کیں۔۔۔ وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔۔۔ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کی بنیاد پر  اب وہ ٹی وی چینلز پر اینکر اور کئی زمینی اور ان لائن پروگراموں اور ادبی محفل کی نظامت میں شب و روز مشغول رہنے لگی ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا بلاگ بھی بنایا جہاں  سماجی اور اخلاقی موضوعات پر آسان ترین زبان میں ایک عام انداز فکر میں اصلاح معاشرہ کے نقطہء نظر لیکچر بھی دیے 
ان تمام سماجی،فلاحی اور ادبی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو  زمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھا رہی ہے
 
 جی یہ تعارف  ہے آج کی شاندار شخصیت جن کے اعتراف کمال فن کے کیے آج ہم سب جشن منا رہے ہیں 
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ۔۔۔ تہہ دل سے خراج تحسین پیش کرتی ہوں 
۔۔۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی زندگی کی کہانی ان دیس پردیس میں بسی ان  سینکڑوں لڑکیوں کی کہانی جیسی ہے جو معاشرے میں محض عورت ہونے کی وجہ سے ہر شعبے میں  پیچھے دھکیل دیا جاتی رہیں ۔۔۔
  مگر کہتے ہیں نا کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔۔۔۔ اور ہر انسان کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔۔۔۔
۔۔  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ  نے بھی  حالات سے گھبرا کر ہار نہیں مانی بلکہ ۔۔۔ "دبنگ"ہو کر ہر مشکل اور  طوفان کا مقابلہ کیا ۔۔۔
اپنے غصہ اور تکلیفوں اور بیتے ماضی  کو اپنی شاعری اور اپنے تحریروں میں اتار دیا۔۔۔۔  
۔۔ گو کے ۔۔۔۔اب  آزمائشوں کا  وقت گزر گیا مگر اپنی بیتی زندگی کے تلخ  تجربات کو یاد کر کے آج بھی انکا لہجہ غمگین اور آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔۔
صنف نازک  کا یہی تو کمال ہے کہ اپنے دکھوں کو پال کر جیتی ہے۔۔ 
مگر اپنے عزم و حوصلے کو آگ کی تپش ہر بھی پگھلنے نہیں دیتی ۔۔۔



درج ذیل نظم کو پڑھ کر  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شخصیت پر یہ افسانہ "مشرق کی بیٹی " قلمبند کیا 
(عذرا علیم )

"ہائے"

میں تو پیدا ہوتے ہی
اپنے ہی ماں باپ کے ہاتھوں
دنوں میں بوڑھی کر دی گئی

بچپن کے سب کھیل کھلونے
بے فکری اور چنچل پن
میرا کوئی حق نہیں کہہ کر چھین لی گئی

پڑھنا مجھکو اچھا لگتا تھا تو میری ہر کتاب کبھی جلائی اور کبھی وہ پھاڑی گئی

رنگیں آنچل فیشن شوخی
چوڑیاں میک اپ 
پسند تھیں  لیکن مجھ پر حرام وہ کر دی گئی

اپنی مرضی سے جیون کا ساتھی چننا حق تھا میرا
وہ بھی چاہت مجھ سے چھین کے برتی گئی

جو ترکے میں حق تھا اس پر ماں جائے بھی نوچتے اور کھسوٹتے کتے
 ہر دم چارو چاری گئی

کسکو یہ ممتاز سنائے
ہائے میں کیسے روندی گئی
ہائے میں کیسے ماری گئی 
               ۔۔۔۔۔۔
تاج محل کو پیار نشانی کہنے والو 
عورت کو ہر سال سزا دی چاہت کی 

کیسا ہے یہ عشق کہ ساری عمر اس نے 
بچے جن جن قیمت دی ہے راحت کی 

مجھکو اپنی انسانی آزادی پیاری
نہیں تمنا مر کر ایک عمارت کی

 کیسے لوگ ہیں قبروں کو 
چاہت کی نشانی کہتے ہیں
اک عورت درد زہ میں مر گئی 
جسے پیار کہانی کہتے ہیں 

کیا اس پر بیتی چاہت میں 
کوئی نہ کبھی بتلاتے ہیں 

چاہت کے لاشے تاج محل میں کبھی گھمائے جاتے ہیں 

دولت کی نمائش کو مردے
 اندر دفنائے جاتے ہیں 
ممتاز کے غم کو دفنا کر 
پھر جشن منائے جاتے ہیں 

 قلم
ہمیں عزیز تھی حرمت قلم کی جس دم تک
تمام قوموں میں سرتاج سا مقام رہا

زمانے کے لیئے ہوتے ہیں راہنما وہ ہی 
قلم کا ہاتھ میں جن کے سدا قیام رہا

فروزاں  علم و عمل  کے جہاں چراغ رہے
زمانے میں انہیں قوموں کا احترام رہا 

جنہوں نے جان لٹا دی قلم کی حرمت پر
جہان لفظ میں انکے لیئے سلام رہا

سہل نہیں تھی وفاداری سمجھ کر ممتاز 
لبوں پہ جان نکلنے تک ابتسام رہا
---------------------------

ممتاز ملک صاحبہ ان چند خواتین میں سے ہیں جو زندگی کے مشکل  حالات میں بھی حوصلہ سے آگے بڑھیں اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب ہوئیں    ۔

اب تک آپکی  7 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں .
1۔مدت ہوئی عورت ہوئے(-شعری مجموعہ  2011ء)
2- میرے دل کا قلندر بولے 
 (  شعری مجموعہ    2014ء)
3-  سچ تو یہ ہے 
 (  کالمز کا مجموعہ 2016ء )
4- اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)  نعتیہ مجموعہ کلام (2019ء)
5-  "سراب دنیا " (اردو شعری مجموعہ کلام (2020ء).
6. "او جھلیا "۔ (پنجابی شعری مجموعہ کلام ۔ (2022ء)
7- "لوح غیر محفوظ" ۔مضامین کا  مجموعہ (2023ء)
زیر طبع کتب: 8
 الحمداللہ  اس وقت چالیس سے زیادہ ویب نیوز  سائیٹس پر آپکے  کالمز شائع ہو رہے ہیں جن میں 
جنگ اوورسیز ، ڈیلی پکار ، دی جائزہ ، آذاد دنیا،  عالمی اخبار ، اور بہت سے دوسرے شامل ہیں ۔  
💐 اعزازات ۔ 
 ممتاز ملک صاحبہ کی  کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔ 
1 مقالہ بی ایس کے طالب علم مبین  نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے لکھا ۔سراب دنیا پر
1۔ دھن چوراسی ایوارڈ 
 چکوال پریس کلب 2015ء/
2۔حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
3۔کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
4۔ دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
 5۔عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
6۔ الفانوس ایوارڈ 2022ء/ گوجرانوالہ 
  اور بہت سے دیگر اسناد۔۔۔۔
 ۔ 
  انٹرنیٹ پر   محترمہ ممتاز ملک کا بلاگ جو آپ کے تمام شائع مواد مفت پیش کرتا ہے .
MumtazMalikPairs.BlogSpot.com
آپکی  ویب سائیٹ 
MumtazMalikParis.com
              ●●●
اردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ "ریختہ "اور "اردو پوائنٹ" پر بھی ان کا  کلام موجود ہے ۔  فیس بک ۔ ٹک ٹاک ۔ یو ٹیوب ، گوگل ، انسٹاگرام ، ٹیوٹر پر انھیں  بآسانی  ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔

آپکے کلام سے  منتخب اشعار :
 ​​ 
سامان قہر رب ہے بپا جو نہ پوچھئے
    رشتے گزر رہے یوں دامن درید کر 
رفتار سست ہے تیری گفتار تیز ہے
دعووں میں کچھ عمل کااضافہ مذید کر
اپنے پروں پہ کر کے بھروسہ تو دیکھئیے 
اونچی اڑان کے لئے محنت شدید کر
         ____________ 

شیر و  مکھن میں نہ تھا حصہ کوئی 
میری خاطر  ماں نے لیکن چھاج رکھ لی

ہے محض ممتاز دھوکہ سوچ کا تو 
اک غلامی تھی بنام راج رکھ لی
________________

اسی دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے ہو زور قلم اور زیادہ ۔۔۔

عذرا علیم 
مسقط عمان

شاعرہ،ادیبہ،۔نظامت کار ،کالم نویس،افسانہ /افسانچہ نویس،تبصرہ /تجزیہ نگار 
  نائب مدیرہ
(مجلہ "افسانہ نما" )
                ۔۔۔۔۔۔



         

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/