ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 9 اکتوبر، 2020

✔ ● اقبال ‏جب ‏اتا ‏ہے ‏/ ‏کالم۔ لوح غیر محفوظ





اقبال جب آتا ہے                     
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)



کچھ لوگ دنیا میں پیدا ہی خاص مقاصد سے کیئے جاتے ہیں جن کے آنے سے جانے تک کی ہر گھڑی کسی خاص تاریخ کو رقم کرتی چلی جاتی ہے۔ 
شیخ نور محد اور فاطمہ بی کی جوڑی بھی ایک ایسی جوڑی تھی جن کی جھولی میں ان کا ایک خواب حقیقت بن کر 9 نومبر 1877ء  اقبال کی صورت آن گرا
 اور پھر اسی تارے نے آسمان کی بلندیوں تک کا سفر طے کرنا تھا ۔ بچپن میں ایک پرہیز گار باپ اورمتقی ماں کی گود نصیب ہوئی تو میر حسن جیسے گوہر شناس استاد  کا ان کے سر پر دست شفقت انہیں دین کیساتھ دنیاوی علوم کے سفر پر نصیب ہوا ۔ بہترین نمبروں سے اپنے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور شعرو شاعری سے شغف ہوا تو اپنے زمانے کے سب سے بڑے اور مانے ہوئے شاعر داغ کے آستانے پر جا پہنچے ۔ جہاں استاد داغ نے انہیں یہ کہہ کر روانہ کر دیا کہ میاں سیکھنے کی گنجائش ہوتی تو ضرور سکھاتا لیکن آپ تو خدا دا صلاحیتوں سے سکھائے ہوئے ہیں ۔ اس لیئے مذید کی گنجائش نہیں سمجھتا ۔ لیکن اس کے باوجود اقبال و داغ ایکدوسرے کی چند روزہ استادی شاگردی پر تاحیات متفخر رہے ۔
لاہور میں ہی اپنے ایم اے کی پڑھائی مکنل کرتے ہیں کئی کالجز میں عربی اور انگریزی کے استاد بھی رہے ۔ اور پھر 1905ء میں مزید اعلی تعلیم کے لیئے انگلستان کا رخ کیا ۔ جہاں سے وکالت کی تعلیم حاصل کی ۔ ایک اقبال وہ تھا جو غلام بھارت میں وطنیت ہی کو سب کچھ سمجھتا تھا ۔ جو دین کو عمل سے الگ کرتا تھا ۔ لین یورپ سے لوٹنے کے بعد ایک نئے اقبال کا جنم ہو چکا تھا ۔ یہ اقبال وطنیت سے امہ تک کا سفر ان تین سالوں میں طے کر چکا تھا ۔ 1908ء میں اقبال کی مشترکہ  ہندوستان واپسی نے مسلمانوں کی سیاسی راہ متعین کرنے کا آغاز کر دیا ۔ ایک ریوڑ کو قوم بنانے کے کام کا آغاز ہو گیا ۔ اقبال کے فلسفے اور آفاقی شاعری نے اپنا رنگ دکھانا بلکہ جمانا شروع کر دیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے ان کہ دوستی کا آغاز ہوا ۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اقبال کے الہ آباد میں پیش کیئے گئے اپنے خواب اور دو قومی نظریئے نے مسلمانوں کو اپنی منزل کا نشان دیدیا ۔ 
اقبال کی شاعری اور پرجوش خطابات نے مسلمانوں کے جمے ہوئے خون کو گرما کر رگوں میں دوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اپنے وقت کے بہترین علماء،  شعراء ، اساتذہ اور سیاست دانوں کیساتھ ان کا تعلق رہا ۔ نہایت سادہ زندگی گزارتے ۔ تکلفات کے قائل نہ رہے ۔ کبھی کسی سے کوئی امید نہیں لگائی۔ اپنی محنت اور لیاقت کے بل پر اپنا نام اور مقام بنایا ۔ دنیا بھر میں اقبال کے کلام کے تراجم شائع ہوئے ۔ مقالات لکھے گئے ۔ پی ایچ ڈیز ہوئیں ۔ 11 نومبر 1938ء کو سیالکوٹ کا  یہ سورج لاہور میں غروب ہو گیا ۔ ان کا مزار لاہور میں موجود ہے ۔ جہاں ہر پاکستانی ہی نہیں دنیا کا ہر باشعور انسان جانا اور سلام کرنا باعث افتخار سمجھتا ہے ۔ 
چاہے اقبال کو پاکستان بنتے دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔ لیکن اس قوم نے اپنے محسن کے خواب کو اپنے سینے سے لگائے رکھا آج دنیا سے جانے کے 82 سال بعد بھی اگر ہم اقبال کو یاد کر رہے ہیں تو  ان کے کردار و فن اور ان کی سیاسی رہنمائی اور بصیرت کا اس سے بڑا اعتراف اور کیا ہو سکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کی خودی کے پیغام کو عملی طور پر اپنایا جائے ۔ تاکہ ان کے مقاصد اور سوچ کو عملی جامہ پہنایا جا سکے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/