ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 11 مارچ، 2019

تبصرہ پنجابی سنگت ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم



فرانس پیرس میں شعراء کرام کی معروف تنظیم "پنجابی سنگت" کی جانب سے کیا گیا ایک ایک مشترکہ تبصرہ 
         بسم اللہ الرحمن الرحیم 
تمام حمد وثنا اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہے جس نے میرے ، آپ کے اور پوری کائنات کے رسول کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو احمد، محمود اورحامد بنا کر بھیجا جن کا وجود مسعود تمام عالموں کے لیے رحمت ہے۔

حضور آگۓ ہیں حضور آگۓ ہیں 
  حضور آگۓ ہیں حضور آگۓ ہیں

   وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی  
 نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
  نگاہوں کا میری غرور آگئے ہیں
   حضور آگئے ہیں حضورآگئے ہیں 

  وہ جن کے لیئے یہ  زمیں آسماں بھی
جھکائے ہیں سر اورسجی کہکشاں بھی  
 وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں  
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی  
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی

   وہ حسن و عمل کا شعور  آگئے ہیں
  حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں  

اس کلام میں محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت آسماں پہ چودہ  چاند کی طرح چمک رہی ہے ۔ ان کی اس نعت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اسلام سے دلی وابستگی ہے ۔ اور اسلامی رجحان کا پہلو ان کی تحریروں اور نعتوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے
احساسات و جذبات سے لبریز حقیقت پسند شاعرہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی  نظموں،  غزلوں ، قطعات اور نعتوں  پر مشتمل کلام " علمی، فکری، سماجی، سیاسی حقائق و مشاہدات، قومی و بین الاقوامی مدو جزر کا مجموعہ ہے۔ ان کے ہر شعری مجموعے میں ملکی و بین الاقوامی صورتحال اور طاقتور لوگوں کے ننگے ناچ کو حقیقت بیانی کے ساتھ الفاظ کے موتیوں کو دھاگے میں پرو کر غور و فکر کے لئے سنجیدہ لوگوں کے گلے میں ڈالنے کا کام کیا گیا ہے۔
سیاست، ظلم و بربریت، فساد، انتشار، تباہی و بربادی، فریب کاری، دھوکہ دہی، مہنگائی، بے روزگاری، رشوت خوری، بدعنوانی،عوام کی بے چارگی، حکومت کی کوتاہ بینی، لاقانونیت، خود غرضی، انارکی، انفرادی، اجتماعی اور ریاستی دہشت گردی، مسلمانوں کی پامالی، رسوائی اور جدو جہد، کیا کچھ نہیں ہے ان کی شاعری میں! ایسا لگتا ہے شاعرہ نے ان سارے مسائل کو سامنے لا کر عوام الناس کی آنکھیں کھولنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔
ان کی شاعری میں جگہ جگہ  اسلامی فکر کی جھلک نیز دنیا بھر میں مسلمانوں کی صورتحال سے واقفیت اور ان کے درد و غم میں شرکت اور حق گوئی کا خاصہ ان کے اسلامی رجحان کی علامت ہے ۔ وہ انسانوں اور خصوصا مسلمانوں کی حالت زار پر جہاں افسوس ظاہر کرتی ہیں وہیں انہیں اپنا طرز حیات بہتر کرنے اور اپنے قدم آگے بڑھانے کی دعوت دیتی بھی نظر آتی ہیں۔ یہی چیز انہیں ایک اسلامی شاعرہ کی پہچان بھی عطا کرتی ہے ۔
ان کے جلد منظر عام پر  آنے والے  ایک شعری مجموعے (سراب دنیا ) سے ان کے چند اشعار پیش ہیں :
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا 
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا 
اب تو گرگر کے سنبھلنے کا روادار نہیں 
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا 
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی کر 
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا 
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 الغرض پورا مجموعہ تعمیری اور فکر افزا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعرہ نے اپنے صحافتی تجربے کو شاعری میں بھی آزمایا ہے۔اس مجموعے کو پڑھنے کے بعد شاعرہ کے تعلق سے جو تصویر ابھرتی ہے اس سے لگتا ہے کہ شاعرہ نے ہم عصر ماحول اور مسائل کا نہ صرف نہایت سنجیدگی اور باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے بلکہ وہ تاریخ اور تہذیب و ثقافت کا گہرا ادراک بھی رکھتی ہیں۔ 
دور حاضر میں ایسی سنجیدہ شاعری پڑھنے کو بہت کم ملتی ہے۔ جس طرح سے محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے نعت گوئی میں ادب واحترام کا خیال رکھا ہے ٹھیک اسی طرح معاشرتی اور حقیقی شاعری میں بھی اپنا معیار برقرار رکھا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے تخیل میں مزید اضافہ کرے۔ اور ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ رکھے۔  آمین۔ 
تبصرہ نگار۔ 
 پنجابی سنگت
 پیرس ، فرانس

جناب مقبول الٰہی شاکر صاحب
جناب راجہ زعفران ظفر صاحب
جناب عاشق رندھاوی صاحب
جناب ممتاز احمد ممتاز صاحب
جناب راجہ دیوان صاحب
جناب عمران حیدر قریشی صاحب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/