ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 30 نومبر، 2014

میراہاتھ اسکی ناک / ممتازملک ۔ پیرس

                                          

                                   میراہاتھ اسکی ناک
                                   ممتازملک ۔ پیرس



اللہ پاک نے انسان کو حیران کر دینے والی صلاحیتوں کیساتھ دنیا میں بھیجا ۔ اسے مختلف رنگ روپ دیئے اسے جدا گانہ نین نقش دیئے ، اسے کتنی مختلف آوازوں سے نوازہ ،اسے ایک سے بڑھ کر ایک خوبیاں عطا کیں. اسے بڑے سے بڑا غم جھیلنے کی ہمت دی اسے بڑی سے بڑی خوشی کو سنبھالنے کا حوصلہ دیا ، ایک چھوٹا سا دل بھی دیا جو کبھی نہ کبھی ضرور اپنی من مانی کرنے کو ایک بچے کی طرح مچلتا ہے ۔ اب اس کی ننھی ننھی خواہشوں کو اگر قابو کر لیا جائے اور جائز اور ناجائز کی حدود میں باندھ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کی بے ضرر خواہشات کو پورا بھی کر لیا جائے .جیسا کہ نبی پاک ﷺنے بھی فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ''لوگو تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے ۔'' اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حق کا دائرہ وہاں پر ختم ہو جاتا ہے جہاں کسی اور کے حق کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یعنی یہ کہنا بلکل ٹھیک رہے گا کہ آپ کے ہاتھ کی پہنچ وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے اگلے کی ناک شروع ہوتی ہے ۔ آج کل نیٹ کا زمانہ ہے اس ٹیکنالوجی کو اور آگے سے آگے بڑھنا ہے ، بہت سے پردے ہمارے آنکھون سے ہٹ رہے ہیں۔ یہ نیٹ انہیں بھی میسر ہے جو دن رات ہر طرح کے کاموں میں ملوث ہیں اور انہیں بھی جو مشکل سے اسے آن کرنا ہی جانتے ہیں ۔ اس صورت میں کیونکہ سب لوگوں کا آئی کیو لیول ایک سا نہیہں ہوتا اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے ملک میں ویسے بھی خواتین کا ہر کام کرنا ایک ہوّا بنا لیا جاتا ہے ایسے میں فیس بک کی دنیامیں خواتین کو دیکھنا  ان کے لیئے ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ٹافیوں کی دکان پر بے شمار ٹافیاں پڑی ہوں ،دکان کا مالک انہیں نظر نہ آ رہا ہو اور کوئی سمجھ لے کہ اسے دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں ہے ،لہذا جتنی چاہے ٹافیاں اٹھا کر فرار ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مالک کسی خفیہ مقام سے ان پر نظر رکھے ہوئے ہو اور پتہ اس وقت چلتا ہے جس اس کی گردن پر ایک زور کا ہاتھ پڑتا ہے ۔ ان میں اکثر زنانہ نام تو زنانے مردوں نے فرضی طور پر اختیار کیئے ہوتے ہیں ،جنہیں ہم فیک اکاؤنٹس کہتے ہیں یہ وہ زنانے کردار ہیں جو خاتون بنکر کسی بھی مرد کی بینڈ بجانے کا کام کرتے ہیں ۔ اس میں ان کا مردوں سے نازیبا گفتگو ، گھروں کے حالات تک رسائی ،ان کے اغوا اور اب تو قتل کی وارداتوں تک بات پہچ چکی ہے ۔ لیکن اس کے لیئے ٹیکنالوجی ذمہ دار نہیں ہے یہ تو ختم کبھی نہیں ہو گی بلکہ  مذید جدید شکل اختیار کرتی جائی گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے اسے سڑک پر کھڑے ہو کر بات کرنا ہی خیال کیا جائے اپنے بیڈ روم یا کسی نیٹ کیفے میں چھپ کے اس پر بات کرنے کو یہ نہ مسمجھ لیا جائے کہ کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا یا کوئی آپ کو نہیں پڑھ رہا یا نہیں پکڑ سکتااور آپ جو چاہیں گل کھلاتے رہیں ۔ یاد رکھیں یہ وہ اعمال نامہ ہےجو ہم اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے ہیں ۔ اور یہ وہ کمبل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔"  کسی بھی خاتون کو یہ کہنا تو آپ کو بڑا کمال لگتا ہے کہ" میں آپ کو بیسٹ فرینڈ بنانا چاہتا ہوں" لیکن جب اس سے یہ پوچھا جائے کہ" کیا یہ سہولت آپ نے اپنی بہن کو بھی مہیا کر رکھی ہے" تو فورََا حضرات کی دم پر ایسا پاؤں پڑتا ہے کہ الامان اور الحفیظ ۔ ایک منٹ میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ مرد کس ذہنیت کا مالک  ہے ۔ بھئی اپنے کام کی بات کرو کام سے مطلق سوال کرو اور اپنی عزت اپنے ہاتھ میں رکھو ۔ اپنے ہاتھ کو دوسرے کی ناک تک پہنچاؤ گے تو جواب تو سننا ہی پڑیگا. ان لوگوں کو جب کسی دوسرے میں ڈھونڈنے پر بهی کوئ عیب نہ ملے تو یہ فوراً دوسرے کی فزکس پہ جملہ بازی فرمانے لگیں گے. یہ کالا ہے یہ موٹا ہے. .یہ ناٹاہے .یہ لمبا ہے.یہ.بهینگا ہے بلا بلا بلا. جب بهی کوئ آپ کی ذات پہ ایسی بات کرے تو فوراً سمجه جائیں کہ انہیں آپ میں کوئی اور عیب نہیں مل سکا. اور اپنی جلن مٹانے کے لئیے یہ سب کہہ رہے ہیں. ویسے بهی انگور کهٹےہوں تو انسان کامنہ تھوڑی دیر کے لیئے تو سکڑ ہی جاتا ہے. جب تک آپ ایسے مردوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہیں یا خاموش رہیں یہ خواتین کو میم ، میڈم، محترمہ کہتے رہیں گے جیسے ہی آپ نے انہیں کسی بات سے منع کیا تو فوراً سے پیشتر اپنی اوقات آپ کو دکها دینگے.  اور اپنی زبان سے اپنے خاندان کا تعارف بهی پیش کر دینگے. .لہذا ہم تمام خواتین کو یہ بات زہن نشین کر لینا چاہیئے .کہ جھوٹی تعریف میں کبهی اپنا دماغ خراب نہیں ہونے دینا چاہیئے..اور بے مقصد اور بے تکی باتوں کا جواب دینے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے. تاکہ کسی کا بهی ہاته ہماری ناک تک نہ پہنچ سکے.اور ہم بھی اپنا ہاته انکی ناک سے دور رکھیں. 
                                        ....................

جمعرات، 27 نومبر، 2014

● (21)کیسا نصف ایمان / کالم۔ سچ تو یہ ہے

                                    
          (21) کیسا نصف ایمان
             تحریر:ممتازملک۔ پیرس


بحیثیت ایک مسلمان کے ہم سب بچپن سے ایک حدیث پاکﷺ اکثرہی سنتے رہے ہیں کہ ''صفائی نصف ایمان ہے'' لیکن اس بات کا بهید تب کھلتا ہے جب ہم مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی کبھی بهی پبلک ٹائلٹ کا استعمال کرتے ہیں. پهر چاہےجہاز ہو یا ٹرین ،کسی ریسٹورنٹ کے ٹائلٹ ہوں یا سینما کے اور تو اور ہاسپٹل میں بلکہ کسی سکول یا مسجد کے ٹائلٹ ہی جا کر دیکھ لیں کہ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر باقاعدہ شک ہونے لگتا ہے ۔ غرض کوئی بهی جگہ ہو، بس کسی پاکستانی کے وہاں سے نکلنے کے بعد ایک نظر اس ٹائیلٹ یا واش روم پر ڈال لیں وہ جگہ خود چیخ چیخ کر بتائے گی کہ وہاں سے کون ہو کر آیا ہے. اور تو اور واش بیسن کے استعمال کے بعد اس کی حالت ان پر آنسو بہا رہی ہوتی ہے. ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جس صفائی کو ہمارا نصف ایمان فرمایا ہے اس نصف ایمان تک پر ہم پورا نہیں اترتے تو باقی نصف کہاں سے مکمل ہو گا. کیا ہمارا دین خود پسندی کی کوئی گنجائش رکھتا ہے ۔ اس کا جواب نہیں ہے تو ہم یہ کیسے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نماز کی نام پر زمین پر ماتھا رگڑ لیں گے یا ہر لغو بات کیساتھ صبح سے شام تک روزے کے نام پر فاقہ کر لیں گے یا لوگوں کو دکھانے کے لیئے حج کا ٹیگ ماتھے پر لگا لیں گے تو ہمارا ایمان مکمل ہو جائے گا ۔ جب کہ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جسے ایمان کا اتنا بڑا حصہ قرار دیا گیا ہو ۔ یہ سب فرائض ہیں جو ہمارے ذاتی مفاد کی باتیں ہیں جو کسی کمی کے بعد بھی انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتیں لیکن جو چیز ہمیں ایمان سے خارج کرتی ہے اس میں حقوق العباد کو اہم ترین قرار دیا گیا جو کہ ساری دنیا کے انسانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد ہمیں صفائی کی جانب متوجہ کیا گیا اس قدر سختی کیساتھ اسے ہمارے ایمان کا آدھا حصہ بنا دیا ۔ جس تک ہم اس پر عمل نہیں کریں گے ہم مسلمان ہی نہیں ہو سکتے اور یہ حکم ہمیں صرف اپنے گھروں کے باتھ روم ٹائلٹس ہی صاف رکھنے کے لیئے نہیں دیا گیا ہے بلکہ اسے ہماری پوری زندگی پر محیط کر دیا گیا ہے ۔ لیکن ہم لوگ اپنے پورے ملک اور عوام کے کسی بھی طبقے پر نظر ڈالیں افسوس صد افسوس  کہ ہمیں لگے گا کہ صفائی سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے ۔ اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھر کے آگے ڈال دینا ، گھروں کا کچرا سو روپے کسی جمعدار کو نہ دینے کے لیئے گھر کے قریب کسی بھی پلاٹ میں یا کسی ندی میں پھینک کر اسے نالہ بنا دینا ،  ہمارے لیئے کبھی بھی باعث شرم نہیں رہا ۔ کیونکہ باعث شرم تو وہ کام ہوتا ہے جو سب نہیں کرتے کوئی ایک آدھ ہی کر رہا ہو جبکہ جہاں سب ہی ایک کام میں برابر کے شریک ہیں تو پھر شرم کیسی وہ تو رواج ہو گیا نا ۔ پبلک پلیس پر لگے کوڑا دان اول تو کوڑا ڈلنے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور اگر شومئی قسمت کسی کوڑے دان کو بھرنا نصیب ہو بھی جائے تو مجال ہے کہ صفائی والی گاڑیاں کبھی بھی باقاعدگی سے آ کر اس کوڑا دان کو خالی کرنے کی تکلیف گوارہ کر لیں جب تک کہ اس میں کوڑا اُبل اُبل کر باہر گرنا نہ شروع کر دے یا علاقے کے لوگ ناک پر رومال باندھ کر صفائی والوں کو گالیاں دیتے ہوئے گزرنا شروع نہ کر دیں ۔ لگتا ہے ان گاڑیوں کو سال میں ایک دو بار ہی صفائی کی تنخواہ دی جاتی ہے ان کے ہاں ایک دو دن بعد کا کوئی ٹائم ٹیبل کم از کم ہم نے تو کبھی کہیں نہیں دیکھا ۔ اس گندگی میں صرف مرد ہی نہیں ہماری خواتین بهی کسی لحاظ سے کم نہیں ہیں. کیا واش روم کے استعمال کے بعد خواتین کو اس بات پر کبھی شرم محسوس ہوئی کہ وہ واش روم کو کس حالت میں چھوڑ کر جا رہیں ہیں اپنے بچوں کے نیپی جنہیں استعمال کرنا اور پھینکنا ہی نہیں آتا وہ محترمائیں بھی نیلی پیلی لپ اسٹک پوتنا نت نیا فیشن کرنا تو جانتی ہیں لیکن یہ نہیں جانتی ہیں کہ بچے کو کیسے صاف کیا جائے ، اس کے نیپی کیسے رول کیئے جائیں اور انہیں کہاں پھینکنا ہے ؟ اور تو اور انہیں تو شاید اتنی بھی تمیز نہیں ہوتی کہ واش روم پبلک پلیس کا بلکل یہ مطلب نہیں ہے کہ اب یہاں سے دنیا کا کوئی اور بندہ نہیں گزرے گا ، یا  اسے کسی بھی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور وہاں اپنی نشانیاں لوگوں کو دکھانے کے لیئے چھوڑ آئیں ۔ کہ  دیکھو یہاں سے کس گندے آدمی یا یا عورت کا گزر ہوا ہے ۔ ایک بات کوئی بھی حرکت کرتے ہوئے یاد رکھیں کہ ایک خاتون کی بے شرمی یا گندگی سبھی خواتین کی بے شرمی اور گندگی سمجھی جاتی ہے اسی طرح ایک مرد کی گندگی اور ، بےحیائی کو بھی سبھی مردوں کی گندگی اور بے حیائی سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ہم اپنے آسانی سے مکمل ہونے والے ایمان کے آدھے حصے کو ہی مکمل نہیں کر سکتے تو باقی ایمان کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء
●●●

                  



جمعہ، 21 نومبر، 2014

ضد کا تالا



                                       ضد کا تالا
                                    ممتازملک ۔ پیرس


انسان کی فطرت ہے کہ وہ جو بات سمجھنا چاہیے بس وہی سمجهتا ہے اور جو بات نہ سمجھنا چاہے وہ اسے دنیا کا بڑےسے بڑا حکیم لقمان ہو یا عالم فاضل پروفیسر یہاں تک کہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو نہیں سمجها سکتا . کیونکہ سمجھنے کے لئے سمجھنے کا ارادہ ضروری ہے ۔ جبهی توآپ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کهولیں گے۔ جب کھڑکی کھلے گی تو ہی دماغ نامی گهر میں تازہ ہوا جائے گی ورنہ اس گهر میں گندگی اور بدبو کا ہی راج رہے گا. آپ کتنی بهی خوشبو چھڑک لیں لیکن یہ خوشبوئیں تازہ ہوا کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتیں. یہ ہی حال انسانی سوچ اور سمجه کا بهی ہے ۔ انسان وہیں پر زہنی ترقی کرتا ہے جب وہ اپنےنظریات اور سوچ کو ضد نہیں بناتا بلکہ اس میں دوسروںسے اچھی باتیں بآسانی لینے اور اپنی اچھی بری باتیں چهانٹنے کا عمل کھلے دل سے جاری رکھے ۔ جبهی اس کا شمار کامیاب انسانوں میں ہوتا ہے ۔ ورنہ سوچ کے گهر کو ضد کا تالہ لگا ہو تو وہاں انا پرستی اور ناکامی و تنہائی کے آسیب بسیرا کر لیتے ہیں. اللہ پاک نے بهی اپنے کلام پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ !
" ہدایت انہی لوگوں کو ملتی ہے جو ہدایت لینا چاہتے ہیں" یاہدایت مانگتے ہیں یعنی جو انسان سمجهناچاہتا ہے رب بهی اسی کو سمجھاتا ہے. ورنہ وہ چاہتا تو ہر ایک کو سمجھنے اور اس کی بات ماننے پر مجبور کردینا کیا اس کے لئے کچه مشکل تها؟
اللہ پاک نے عقل تو ہر انسان کو عطا کی ہے. دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی بهی ڈاکٹر یا سرجن نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے کسی زندہ انسان کی کهوپڑی دماغ کے بغیر پائ ہو. جبکہ ہمیں اس بات کی بے شمار مثالیں آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں جب دماغ رکھتے ہوئے بهی لوگ عقل سے عاری ہوتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کے پاس کوئی گهاس کاٹنے کی مشین تو ہے لیکن وہ اس سے گهاس  کاٹنے کا کام نہیں لیتا . اور وہ مشین زنگ کها جاتی ہے.  تو نتیجے میں اس کا باغیچہ بهی ہر طرح کی خودرو جھاڑ جھنکار کا بدہیئت کچراگهر بن جائے گا.جبکہ یہ ہی مشین استعمال کرنے والا اپنے باغیچے کو آئے دن مرضی کی شکل دیتا
. .اور مرضی کے پهول اور بوٹے اگاتا نظر آئیگا. اور اس کی مشین بهی بہترین حالت میں رہے گی. یہ ہی حال لوگوں کا بهی ہے لوگ دماغ کے بغیر نہیں لیکن عقل کے بغیر ضرور گھومتے نظر آئیں گے. ان کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ بےمقصد بحث کریں گے. .کوئی اپنی بات کے ہزار دلائل دیے لے لیکن انکے مرغے کی ایک ہی ٹانگ ہو گی . یہ بغیرعقل گهومنے والے ایک ہی کام شوق سے کرتے نظر آتے ہیں دوسروں کو گھمانے کا..وہ بهی انتہائ بے شرمی اور ڈھٹائی کیساتھ.
ایسے لوگوں کو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اپنےدماغ کےگهر پر لگا ضد کا تالا نہیں کهولیں گے. سمجھ کی ہوا اس گهر سے نہیں گزرے گی. تب تک آپ کی سوچ کبھی تازہ نہیں ہو گی بلکہ اس گلی سڑی سوچ کی سڑاند آپ کو لوگوں کے احترام سے تو محروم کرے گی ہی ،لیکن آپ کی اپنی ذات اس کی بو سے فنا ہو جائے گی.  ہمارے اردگرد ایسے لوگ بهی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جن کی باتوں سے ہم بظاہر اتفاق نہ بهی کریں تب بهی ہمارا ضمیر ہمیں دل میں ان کا احترام رکھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے . انا پرستی کی دوڑ میں ہم ان کی سچائی کو اعتراف کرنے سے اور خاص طور پر مخلوق کے سامنے اعتراف کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کسی کو موقع دینے والا کسی کی بات کی سچائی کا اعتراف کرنے والا اور  کسی کو راستہ دینے والا کسی کی سچی تعریف کرنے والا اللہ کی جانب سے نہ تو دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے آخرت کی ذلت اٹھانی پڑے گی ۔ اگر انسان سیکھنا اور سمجھنا چاہے تو غور کریں ہم اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے جملوں  سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ بلکہ اپنے دشمنوں کے منہ کی بات کو اگر مثبت انداز میں لینے کی عادت ڈال لیں تو ہمارا دعوی ہے کہ ہمارے اکثر کام ہمارے دشمن ہی آسان کر دیتے ہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ!
"عقل مند اور سمجھدار وہ ہے جو  کبھی بھی یہ نہیں دیکھتا کہ!
 کووووووون کہہ رہا ہے بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کیاااااااااااااااااااااا کہہ رہا ہے۔" ۔ 
                                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

منگل، 18 نومبر، 2014

● (20) بین المذاہب شادیاں/کالم۔سچ تو یہ ہے



(20)بین المذاہب شادیاں 
تحریر: ممتازملک۔ پیرس



ایک وہ وقت تھا جب اسلام نیا نیا دنیا میں اپنی پہچان بنا رہا تھا تو صحابہ رض کی ٹولیوں کو مختلف ممالک میں دین کی ترویج و تبلیغ کے لیئے بھیجا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں سفر کی سہولیات آج جیسی نہیں تھیں ۔ سفر تجارت پر بھی جانے والے مہینوں اور کئی بار تو سالوں بعد گھروں کو لوٹا کرتے تھے ۔ تو گویا اپنے عزیزوں سے اسے طرح مل کر نکلتے تھے جیسے آخری بار مل رہے ہوں ۔ کیوں کہ زندگی میں اب وہ دوبارہ واپس آئینگے یا نہیں۔ کوئی کٓچھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔ اسی بنیاد پر جب دنیا میں وفود کے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں اس بات کی اجازت بھی نبی پاک ﷺکے زمانے ہی میں ملنے لگی کہ وہ جہاں آباد ہوں گے وہیں کے نومسلم نیک نام خاندانوں میں شادیاں بھی کرتے جائیں ۔ تاکہ ان علاقوں میں انہیں جان پہچان بھی مل سکے اور لوگوں کا ساتھ بھی میسر آسکے ۔ اور اسی میل ملاقات میں انہیں اپنا کردار ان آبادیوں کے سامنے پیش کرنے کا موقع بھی ملیگا اور اسلام تیزی سے  وہاں اپنی جگہ بنائے گا ۔  مسلمان مردوں کو تو ایک قدم اور بڑھکر اجازت ملی کہ جو خواتین اہل کتاب ہیں  اور اسلام کی جانب راغب نظر آتی ہیں اور آپ خود بھی باعمل مسلمان ہیں تو ایسی خواتین سے بھی نکاح کریں ۔ تاکہ آپ کے اعلی کردار سے متاثر ہو کے انہیں بھی اسلام کی روشنی اور رہنمائی نصیب ہو ۔ لیکن اب نہ وہ زمانہ رہا نہ ہی وہ مسلمان رہے۔ بلکہ اب تو مسلمان ہی اسلام کے نام پر دھبہ بن چکے ہیں ۔ یہاں اس اجازت کو استعمال کرنے والے اہل افراد ہی موجود نہیں ہیں۔ تو اس پر عمل کرنے کا بھی کسی کا کوئی حق نہیں بنتا ۔ یہاں تو ایسی مسلم خواتین بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جنہوں نے صرف نکاح نامے پر خانہ پری کرنے کے لیئے مولانا صاحب کے سامنے غیر مسلم لڑکے کو بٹھا کر کلمے کے الفاظ دہرا دیئے جسکا اسے مطلب بھی  معلوم نہیں ہو گا  کہ چلو جی ہمارے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ رہے باقی دیکھی جائے گی ۔ یا پھر ایسے مرد  بھی دیکھے ہیں جنہوں نے 18 ، 18 سال یا اس سے بھی ذیادہ وقت غیر مسلم خواتین کے ساتھ نکاح کر کے گزار دیئے اور انہیں تو کیا کردار سے متاثر کرتے ـ( کردار ہوتا تو متاثر بھی کرتے ۔) الٹا رہا سہا ایمان بھی گنوا بیٹھے ، نماز سو کبھی پہلے عید کے عید پڑھ لیتے تھے اب اس سے بھی گئے ۔ روزہ جو کبھی خدا کے خوف سے نہیں لوگوں کے خوف سے ہی رکھ لیتے تھے اس سے بھی گئے اور بڑی ڈھٹائی سے فرمائیں گے کہاں جی یورپ میں کون سا روزہ ۔ یعنی اپنے بدکرداری کا ملبہ سارے یورپ میں رہنے والے مسلمانوں پر ڈال دینا، (جبکہ یورپ کا مسلمان  اور پاکستانی، پاکستان میں رہنے والوں سے کہیں ذیادہ اسلامی تعلیمات کی پابندی کرنے کی کوشش کرتا ہے)۔  غیر مسلم بیگم ایک برتن میں سؤر پکاتی ہیں تو موصوف اسی دیگچی میں حلال حلال کھیلتے پائے جاتے ہیں ۔  پیگ بھی بیگم کیساتھ مل کر پیتے پائے جاتے ہیں ۔ ایک بار ہم نے ایسے ہی ایک موصوف سے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے اپنی بیگم کو اپنی زبان کیوں نہیں سکھائی تو موصوف بولے ، چھوڑیں جی اب پاکستان سو باتیں فون پر میں کرتا ہوں اچھا ہے نا کہ نہیں سمجھتی ۔ ورنہ کس کس بات کا جواب دیتا ۔ (واہ کیا تاویل پیش کی ہے ۔ اتنا ہی ڈر اللہ کو جواب دینے کا بھی ہوتا تو شاید موصوف یہ گُل نہ کھلا رہے ہوتے ۔) لہذا ایسی تمام شادیوں کو اسلام کی ڈھیل نہ سمجھیں اس پر شدید گرفت کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔ پہلے خود کو باعمل مسلمان بنائیں کہ کوئی آپ کے کردار کو دیکھ کر اسلام پر طعنے نہ کسے بلکہ اسلام میں داخل ہونا خوش نصیبی سمجھے ۔ ورنہ پھر ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ ایک ہاتھ میں رنگین بوتل ایک میں نامحرم عورت کا ہاتھ اور ڈھونڈتے ہیں حلال گوشت کی دکان ۔ ( بندہ پُچھے جب کرنا حرام، بھرنا حرام ، اٹھنا حرام بیٹھنا حرام ، کمائی حرام، جمائی حرام، سونا حرام، جاگنا حرام ، پینا حرام تو بھیا  کھا بھی حرام لو ) چھوڑو یہ تکلف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
●●●

جمعہ، 14 نومبر، 2014

خوشبو کے بھبھکے / ممتازملک / پیرس



                              خوشبو کے بھبھکے
                                  ممتازملک / پیرس



انسان جہاں جاتا ہے جن  لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے. ان کی کچھ نہ کچه عادات اور خیالات ضرور اپنے ساتھ لے کر آتا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کو ئ مکهی جب گندگی پر بیٹھتی ہے تواپنے پروں اور پیروں ميں چاہے نہ چاہے وه گندگی نہ صرف اٹهاکرلیجانی ہے ۔ بلکہ اسےجہاں جائے گی اور بیٹهے گی وہاں وہاں پھیلائے گی ۔ اسی طرح جب یہ ہی مکھی پھول پر بیٹھے گی تو انہیں پروں میں پھول کے بیج چپکا لائے گی اور اسی پھول کی پنیری بنانے کاسبب بھی بن جائے گی ۔
 بچپن سے سنا کرتے تھے کہ کوئلہ بیچنے والوں کے پاس بیٹھو گے تو کوئلے بیچو نہ بیچو دامن پر کالک ضرور لیکر اٹھو گے ۔ جبکہ عطر والوں کے پاس بیٹھو گے تو عطر خرید سکو یا نہ خرید سکو خوشبو کے بھبکے تو لیکر ہی اٹھو گے  اس وقت یہ باتیں ہمارے لئے جانے کس جہاں کے قصّے ہوتے تهے لیکن آج خود زمانے کے سرد گرم دیکه کر ہم اس مقام پر ہیں جہاں دوسرے ہمارے لہجے کی سختی کبھی ہمارے دنیا سے پروائی کا گلہ کرتے ہیں ۔ کبھی ہمیں سب کو خوش رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو کبھی ڈپلومیسی  کا نام دیکر منافقت کق پرچار کرو اور خوش رہو کا فارمولا سکھایا جاتا ہے ۔ انہیں یہ نہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ لفظوں کی سختی اصل میں اس تجربے یامشاہدے  کایقین ہوتا ہے یا خود زندگی کے تجربات کے بعد آنے والا بهروسہ ، اپنے لفظوں پر اعتبار ہوتا ہے جسے ناسمجھ لوگ ہم جیسے ناسمجھوں کو بدنام کرنے کے لیئے سخت مزاج یابدمزاج کاٹیگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.
انسان کے دوست بهی مکھی کےپروں سے چپکی گندگی یاپهولوں کے بیج جیسے ہوتے ہیں .ان کی صحبت بهی کوئلے کی کالک یا خوشبو کے بھبکے جیسی ہوتی ہے .ہم اکثر اپنے بہن بهائوں سےوہ باتیں نہیں بانٹ سکتے جو ہم اپنے دوستوں سے بانٹتے ہیں۔ .حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بهی بهائ کو سونا تو دوست کو ہیرا کہا ہے .
 دوست کو دوست کا آئینہ کہا جاتا ہے.
 دوست کا مشورہ خلوص پر جبکہ بهائ کا مشورہ مفاد پر مبنی ہوتا ہے.
 دوست کا جھگڑا کسی نقطے اور دلیل پر ہو گا جبکہ بہن یابهائ کا جھگڑا ضد اوز ضرورت پر ہو گا.
 اسی لیے کہا گیا کہ اچها دوست جتنی بار روٹھے اسے اتنی بار منا لینا چاہیئے کیونکہ موتیوں کی مالا یاتسبیح جتنی بار ٹوٹتی ہے موتی اتنی ہی بار پھر سے چُن لیئے جاتے ہیں پھر سےتسبیح بنا لی جاتی ہے.
حکیم لقمان نے بیٹے کو وصیّت کی کہ دنیا سے جانے کے وقت تک تمہارے دو مخلص دوست بهی تم نے پا لئے تو جان لینا کہ تم نے دنیا کی زندگی بیکار نہیں گنوائی. اس سے معلوم ہوا کہ ایک اچها دوست کس قدر کرانقدر سرمایہ ہے ۔دنیا کی دولت روپے پیسے کی تو آپ حفاظت کرتے ہیں جبکہ دوست ایسی دولت ہے جو خود آپکی آپکے وقار کی حفاظت کرتے ہیں.
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعرات، 6 نومبر، 2014

جنت کس کے ٹھیکے پر۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے






      جنت کس کے ٹھیکے پر               (ممتازملک / پیرس)


بڑا ہی کمال کیا ہے ان لوگوں نے ، جنہیں خود تو اسلام کی الف بے کا پتہ نہیں ہے ۔ اپنے ماں باپ سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے، اپنی بہنیں بیٹیاں جوئے میں ہار کے آ جانا جن کی عادت ہو ، گھر کے سامنے مسجد میں ماتھا ٹیکنے کے لیئے جنہیں کبھی خدا یاد نہیں آیا ۔جو اپنے سگے بچوں کو مار مار کر کتے جیسی حالت کر دیتے ہیں ، جنہیں تیسرا تو کیا دوسرا کلمہ مطلب چھوڑیں رٹا ہوا بھی نہیں آ تا، جنہیں زندگی بھر میں اللہ  کی پاک کتاب کی ایک آیت تک کا مفہوم معلوم نہیں، جس نے کبھی زندگی کاایک دن کسی کو گالی دیئے بنا نہ گزارا ہو، جس نے کبھی ایک پورا دن پاک صاف اور باوضو نہ گزارا ہو ۔ جس نے کبھی اپنے محلّے کی عورت کو تاڑنے پر شرم نہ  محسوس کی ہو ایسا جی ہاں ایسا ہی ہےہمارا آج کا ان پڑھ ،جاہل اسلام کا گلی گلی محلّے محلّے بیٹھا ہوا ٹھیکے دار ۔ 
جس کا جب جی چاہتا ہے جہاں جی چاہتا ہے کبھی بھی کسی غیر مسلم کو گھر سے بھگا کر یا دھمکا کر مسلمان بنانے کا ڈرامہ کر کے خدا کو دھوکا دیکر جنت میں چور دروازے سےداخل ہونا چاہتا ہے تو کبھی کسی کے بھی خون سے اس لیئے ہاتھ رنگتا ہے کہ وہ ویسا مسلمان نہیں ہے جیسا میں چاہتا ہوں ۔ گویا ہمیں کیسا مسلمان ہونا ہے ،ہونا بھی ہے یا نہیں ہونا ہے، یہ بات اب کوئی بھی انسان خود طے نہیں کریگا بلکہ اسے ہمارے علاقے کا کوئی بھی جاہل ، کم علم لُّچّہ لفنگا۔ بدمعاش آ کر طے کریگا ۔ 
اور جب اس کی من مانی نہیں چلے گی تو وہ اسے اٹھا کر کبھی قتل کر دیگا یا زندہ جلا دیگا ۔ کہاں ہے پاکستانی قانون کہاں ہیں ہمارے انصاف کے اندھے گونگے بکاؤ ٹھیکیدار۔
 کہیں تو پتّہ ہلنے پر سوو موٹو ایکشن اور کہاں لاہور جیسے شہر میں اٹھارہ گھنٹے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور ایک ایف آئی آر تک نہیں کٹتی، اور کہاں پر کوئی بھی بے دین ، جاہل منہ اٹھا کر اسلام کا ٹھیکے دار بن جاتا ہے ۔ اور کتنی توہین اس ملک کے نام نہاد مسلمان اسلام کی اور نبی پاک ﷺ کی کرینگے گے ؟ اب تو دنیا کے دل بھی، اپنے پاکستانیوں کے دل بھی آپ لوگوں کے لیئے پکے ہونے لگ گئے ہیں اور تواور ہم جیسے موم کا دل رکھنے والے بھی اپنے دل کو سمجھا کر آپ کے غموں اور خدائی آفتوں کو آپ کے لیئے حق بجانب سمجھنے لگے ہیں ۔ 
کیوں بدنام کیا جارہا ہے نبیپاکﷺ کی سنّتون کو اسلام پھیلانے کے ٹھیکے دار بنکر ۔ کب پھیلایا تھا ہمارے پیارے نبی ﷺنے اسلام اس طرح ۔ کہاں طائف کے بازاروں میں اپنے ہی لہو میں اپنے ہی پاؤں ڈبوئے کھڑا رحمت اللعآلمین  ۔ کہاں اپنے پیارے چچاکا کلیجہ چبانے والی بد بخت عورت کو بھی معاف کردینے والا نبیﷺ، اور کہاں آج کا یہ نام نہاد دو نمبر مسلمان ۔ خالی ہاتھ غیر مسلموں کو زندہ جلانے والے ،اس گروہ کو بھی ایسی ہی عبرت ناک سزا ملنی چاہیئے کہ دنیا اس کی مثال دیا کرے ۔ اصل میں توہینِ اسلام کسی غیرمسلم نے کبھی نہیں کی ،کیونکہ توہین وہ کرےگا جسے اس چیز سے کوئی عقیدت ہو یا وہ اسکا ماننے والا ہو ، جسے اس کتاب یا اس کے نبیﷺ پر اعتقاد ہی نہیں اسکی بات کو توہین کہنے کا کیا عقلی جواز ہے ۔ کیا اس غیر مسلم کو اپنی درندگی دکھا کر ہم بڑے رستمِ دین بن جائیں گے۔ اس کے بجائے اگر ہم اپنے کردار پر توجہ دیں کہ جس کی بنیاد پر ہمارا رب ہم سے اس زندگی کا حساب کتاب طلب کریگا ،تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا ۔ اس پوری  غیر مسلم آبادی سے جو پاکستان میں کبھی بھی کسی بھی پاکستانی یا خاص طور پر کسی بھی مسلمان پاکستانی سے اذیت اٹھا چکا ہے ہم تہہ دل سے معافی چاہتے ہیں اور حکومت پاکستان سیاسی بنیادوں پر تو سرعام لوگوں کا قتل عام کر کے سینہ چوڑا کر کے گھومتی ہے ،اسے اگر غیرت کی رمق اپنے اندر محسوس ہوتی ہے تو اس چیلنچ کوقبول کرے اور پاکستان میں لوگوں کو زبردستی خود کا دوسرے سے بڑا مسلمان ثابت کرنے والوں اور لوگوں کو جبری مسلمان بنانے والوں  کو قرار واقعی سزائیں دلوا کر جلد از جلد انہیں ان کی خیالی اور افیمی جنت تک پہنچانے کا بندوبست کریں ۔ کیونکہ حقیقی جنت میں جانا شاید خدا نے ان کے مقدر میں لکھا ہی نہیں، جنہیں اللہ کی مخلوق سے پیار نہیں خدا کو بھی ایسے کچرے کو اپنی جنت میں بٹھا کر اس جنت کی توہین کرنا کبھی منظور نہیں ہو سکتا ۔   کیونکہ جنت صرف پاکیزہ لوگوں کے لیئے ہے اور زانی اور قاتل کبھی پاک نہیں ہو سکتے ۔                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 4 نومبر، 2014

لو کل لو بات ۔ کالم




لو کل لو بات 
تحریر:
(ممتازملک۔ پیرس)



ہر روز کی ایک نئی کہانی اور نئی چخ چخ ہم سب کی زندگی کا حصہ ہے لیکن یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ اس چخ چخ کے زمہ دار اکثر ہم لوگ خود ہی ہوتے ہیں ۔ یہ تمام نہیں تو کم از کم 80 فیصد مسائل ہمارے اپنے پیدا شدہ ضرور ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکے والے تو جو حرکتیں کرتےہیں، سو کرتے ہیں اس کا تو انہیں بے شرمی سرٹیفیکیٹ مل ہی چکا ہوتا ہے ، لیکن کیا کریں کہ لڑکی والے بھی جو جو کمالات دکھا رہے ہیں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔ لڑکیوں کی ماؤں کی تربیت ہی اچھی نہیں ہے جبھی تو لڑکیاں بھی ایسی ایسی توقعات شادی کے نام سے وابستہ کر لیتی ہیں کہ جو اس جنم تو کیا کسی بھی جنم میں پوری نہیں ہو سکتیں ۔ ہر گھر میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد رشتوں کے انتظار میں بال سفید کر رہیں ہے ۔ لیکن انہیں اپنے بلند فرمائشی پروگرام سےفرصت ہی نہیں  یا انکی ماؤں کا دماغ ہے کہ انکا گھر آباد ہو کے ہی نہیں دے رہا ۔ 
زرا فرمائشی فہرست نوٹ فرمالیں ۔ اور کوئی ایسا سپیشل پیس مارکیٹ میں دستیاب ہے تو ہمیں بھی ضرور مطلع فرمائیں ۔ شاید اسی بہانے ہمیں بھی کو ئی انوکھا نمونہ دیکھنے کو مل جائے ۔ 
لڑکا خوب پڑھا لکھا ہونا چاہیئے  ۔ (اپنے ابا جی نی ان پڑھ ہو کر بھی انہیں ڈاکٹر انجینیئر اس لیئے بنایا کہ اب وہ اپنی سے ایک کلاس کم پڑھے کو بھی ان پڑھ سمجھنے لگیں ۔ کیا بات ہے ۔ )
ہینڈسم اور گڈ لکنگ ہونا چاہیئے ۔(خود صاحبزادی کو میک اپ کے بغیر دیکھ لیں تو بھوتنیاں بھی حسین لگیں ۔)
قد تو 6 فٹ سے کم بلکل نہیں ہونا چاہیئے ۔(چاہے ہماری بٹیا رانی 4 فٹ کی ہی کیوں نہ ہو ۔ )
 25 ، 26 سال کا ہی ہونا چاہیئے ۔ (چاہے لڑکی 36 کی ہو ۔)
ڈبل ماسٹر ز تو ضرور ہی کیا ہونا چاہیئے ۔ (بی بی میاں چاہیئے یا ٹیوٹر۔)
بڑا سا گھر بنا چکا ہو ۔(خود چاہے کرائے کے گھر میں یا دو کمرے کے مکان میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں )
 خوب روپیہ پیسہ ہو بلا شرکت غیرے ۔(خود چاہے ساری عمر ہزار کا نوٹ بھی  نہ دیکھا ہو ۔)
نئے ماڈل کی گاڑٰی تو ضرور ہی ہونی چاہیئے ۔ (اپنے پاس چاہے انیس سو ڈوڑھ کی گاڑٰی ہو۔)
بہن بھائی نہ ہی ہوں تو بیسٹ ہے ۔(خود کے اماں باوا نے چاہے گھر میں بچوں کا جمعہ بازار لگایا ہو ۔)
اور ہاں سنئے اگر اماں باوا بھی جہاں سے رخصت ہو چکے ہوں تو اور بھی اچھا ہے ۔ اب کون ان کی آئے دن کی بک بک سنتا رہے ۔ ایسا ہو جائے بہن تو میں تمہیں سونے کے کڑے پہناؤں گی ۔ (یہ اور بات کہ بیچارے یا بیچاری میچ میکر کو کڑے تو کیا اسکی مقررہ فیس ادا کرتے ہوئے بھی ان کی اپنی جان نکلتی ہے اورفیس ادا کرنے کے بجائے اسے پہچاننے سے بھی انکار کر دیں ۔)
اب آپ ہی بتائیں کہ کہ کیا ایسا رشتہ اس دنیا میں ممکن ہے ۔اس کے لیئے تو یقینا انہیں آنکھیں بند کر کے صرف خواب میں ہی بیاہ کرنا پڑیگا ۔ اور تو اور یورپ میںتو یہاں تک حال ہو گیا ہے کہ لڑکیوں کے دماغ میں ماؤں نے کیا زہر بھرا ہوا ہے کہ لڑکا 2،3 سال سے زیادہ بڑا ہے تو فورا بیٹی صاحبہ کی ناک بھوں چڑھی رائے سنائی دے گی کہ اتنا بوڑھا ااااااااااااا کتنی عجیب بات ہے کہ انہیں کی مائیں ان کے جن باپوں کے ساتھ زندگیاں گزار چکی ہیں وہ ان سے دس سے بیس بیس سال تک بڑے تھے ۔ لیکن انہوں نے ان کے ساتھ 40 ، 40 سال خوشی سے گزار دیئے ۔ انہیں باپوں کو یہ اپنی ماؤں کے لیئے آئیڈیل شوہر کہتی ہیں ۔
 دنیا کا مثالی مرد پوچھیں تو جھٹ سے جواب آئے گا میرے پاپا ۔
 لیکن اپنے بچوں کو کیا یہ لڑکیاں ایسا مثالی باپ نہیں دینا نہیں چاہتیں ۔ لیکن بیٹی صاحبہ کو 2 سال سے زیادہ بڑا لڑکا نہیں چاہیئے ۔ ایسی کسی بھی بیٹی صاحبہ  کو تو یہ ہی مشورہ ہے کہ کوئی لڑکا گود لے لیا کریں پہلے آپ اسے پالیں پھر وہ( آپ کے نصیب میں ہوا تو) آپ کو پالے گا ۔
  ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیٹی اچھے گھر میں جائے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اسے خوابوں کے ایسے جزیرے میں قید کر دیں کہ اس کے پاس وہاں سے نکلنے کے لیئے امید کی کوئی کشتی اور سمجھوتے کا کوئی چپُّو ہی نہ رہے ۔ 
اگر ہمیں واقعی اپنے بچوں سے  محبت ہے تو ہمیں ان کو حقیقت کی دنیا میں لا کر ذمّہ دار بنانا چاہیئے نہ کہ اکثر والدین خصوصََا مائیں جنہیں اپنی زندگی میں 30 سال بعد بھی جو نہیں ملا ہوتا، وہ اپنی بیٹیوں کے دماغ میں انہی خواہشات کے ناگ پالنے لگتی ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ یہ ناگ انہی کی بیٹیوں کو ڈس ڈس کر ہلاک کر ڈالیںگے ۔
 اسی طرح لڑکیوں کے باپ بھی اپنا دماغ زمین پر رکھیں اور اپنی شادی کے وقت کی اپنی اوقات اور حیثیت کو یاد رکھا کریں اور اپنے دامادوں سے اس بات کی توقع نہ کریں (کہ جو کچھ آپ نے چالیس سال کی محنت کے بعد بنایا ہے وہ آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے والا شادی کے وقت ہی لا کر آپ کی  بیٹی کے قدموں میں ڈھیر کر دے )تو سوچیئے اگر یہ ہی سوچ آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیتے وقت آپ کی بیوی کے والدین کی بھی ہوتی تو یاد رکھیں کہ آپ بھی آج بال بچوں والے نہ ہوتے کہیں بیٹھے اپنے نصیبوں کو رو رہے ہوتے یا بد کاریوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ۔ عورت کا مقدر ہی فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر بنا دیتا ہے ۔ شادی سنت رسول ہے اسکا راستہ اپنی اولادوں کے لیئے تبھی آسان بنایا جاسکتا ہے جب ہم خود بھی حقیقت پسند بنیں اور اپنی اولادوں کو حقیقت پسند بنائیں ۔اور انہیں اپنے مقدر پر یقین کرنا اور اسے آزمانا سکھائیں ۔ جو چیز ہمارے مقدر میں ہے وہ ہمیں ڈھونڈتی ہوئی خود ہم تک آن پہنچتی ہے اور جو چیز ہمارے مقدر میں نہیں ہے وہ ہمارے پاس ہو کر بھی ہماری نہیں ہوتی ۔  
بیٹے بیٹیوں کو گناہ کی دلدل سے بچانا ہے تو انہیں جلد از جلد اپنے گھروں کا کریں ۔ ماں باپ کچھ بھی کر لیں اپنی اولاد کی تربیت تو کر سکتے ہیں اسے اچھے مقدر کی دعا تو دے سکتے ہیں لیکن ان کے مقدر کی گارنٹی نہیں دے سکتے ۔ لہذا یہ کام اللہ کے ہیں اور اللہ پر ہی چھوڑ دیں تو ہی اچھا ہو گا ۔ ہم خدا سے وہ مانگتے ہیں جو ہمیں اچھا لگتا ہے جبکہ اللہ پاک  ہمیں وہ دیتا ہے جو ہمارے لیئے بہتر ہوتا ہے ۔ رشتوں کے انتظار میں ماں باپ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کب بیٹا یا بیٹی گناہ کے رستے پر چل پڑا ۔ اور اس سارے جرم میں بطور والدین آپ کا کردار کہیں بھی معافی کے لائق  نہیں ہو گا ۔ اور آپ دنیا میں تو بدنام ہوتے ہی ہیں آخرت کو بھی اپنے ہاتھوں تباہ کر بیٹتے ہیں ۔ 
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/