ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 4 جون، 2016

غلام سوچیں / ممتازملک ۔ پیرس



غلام سوچیں 
ممتازملک ۔ پیرس



اکثر آپ نے ہم سب نے دیکھا ہے کہ لوگ اپنے عادت یا عادات  کو اگر کبھی نہیں بدلتے تو ہم انہیں ڈھیٹ بھی کہتے ہیں.  انا پسند،  خود پسند اور فرعونی مزاج کہتے بھی اور سمجھتے بھی ہیں .
اسے تکبر کہتے ہیں .
لیکن وہاں کیا کیا جائے کہ جہاں ہمیں حکم ہے کہ اپنی ناکامیوں سے سیکھو . دوسروں کو اپنے سے اچھا سمجھ کر اپنے کاموں کو اپنی عادات اور مزاج کو بہتر بناؤ.  جہاں جو بات کہو اس کی ذمہ داری قبول کرو . جہاں کسی کی دل آزادی ہو، وہاں فورا معذرت کر لو. اللہ کی پکڑ سے پہلے انسانوں سے اپنے رویئے کی تلافی کر لو . یہ آپ کو عظیم  بناتا ہے . کہیں آپ کو گھٹاتا نہیں ہے .
چند روز قبل کسی سے بات کرنے کا موقع ملا تو ان کی زبانی کچھ گلے سن کر بے حد حیرت ہوئی . جو کچھ یوں تھے ...
پہلے آپ نے فلاں کو اچھا کہا پھر برا بھی کہا .. 
فلاں کے پہلے آپ  مخالف تھیں بعد میں انہیں کیساتھ بیٹھ کر آپ نے تصاویر بھی بنوائیں اور انہیں  اچھا بھی کہا . ...
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو آپ کیساتھ بیٹھا ہے وہ اچھا ہے اور جو آپ کیساتھ نہیں  بیٹھا تو وہ اچھا نہیں ہے ..وغیرہ وغیرہ 
میں یہ سن کر حیران بھی ہوئی اور مجھے بات کرنے والے کی عقل پر  بھی شبہ ہوا . سورج مشرق سے نکلتا ہے نہ یہ جھوٹ ہے، اور سورج مغرب میں ڈوب جاتا ہے یہ بھی جھوٹ نہیں ہو سکتا . اسی طرح انسان کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ جب وہ کسی کے ساتھ کسی کام میں شامل ہوتا ہے تو یا تو وہ اس کی عادات اور نظریات سے آگاہ ہوتا ہے یا متفق ہوتا ہے یا اچھا سمجھتا ہے . ..
لیکن جیسے ہی اسے اسکے  ساتھ کام کا تجربہ حاصل ہوتا ہے  تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یا اس کی عادات کو مناسب نہیں سمجھتے یا نظریات نہیں ملتے یا اس سے متفق نہیں ہے یا اسے اس کے اصولوں سے یا عادات پر اعتراض ہے ...
اس بنا پر اگر آپ کسی کیساتھ اپنا راستہ بدلتے ہیں تو ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے اس میں آپ کو یا ہمیں  کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اس کے فیصلے پر اعتراض کریں یا اس پر نقطہ چینی کریں . اعتراض اور نقطہ چینی کسی کی حق تلفی  یا کسی کے ساتھ ناانصافی پر ہونا چاہیئے . جو کہ ہمیں کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ...
کیونکہ ہم سب سے متفق ہونے کے ڈرامے میں  یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم منافق ہو چکے ہیں . 
ہر روز ہمیں اپنا احتساب کرنے کا حکم ہے. ہرروز ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے .  یہ ہی زندگی کا اصول ہے . میں نے کل جسے اچھا کہا تھا وہ اس وقت تک میرے نزدیک اچھا کام کر رہا تھا جب اس کے کاموں میں منافقت نظر آئی تو میں نے اپنا راستہ بدل لیا تو یہ میرا فرض تھا میں نے ٹھیک کیا . ورنہ ہم اپنے ضمیر کو کیا جواب دیں ؟
ہمیں یہ سوچنے کے بجائے کہ لوگ کیا کہیں گے کیا یہ سوچنا زیادہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ سے کیا کہیں گے؟؟؟ 
تو جس کے نزدیک اللہ کا خوف غالب ہے وہ لوگوں کو خوش کرنے کا کبھی کوئی فیصلہ نہیں لے گا کیوں کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی کل خدا کو میرے کسی فیصلے کے لیئے کا جوابدہ نہیں ہو گا . اس لیئے اگر آج میں نے یا ہم نے اپنے کل کی جانے والی کسی غلطی کی تصیح کی ہے تو اس کے لیئے نہ تو ہم شرمندہ ہیں اور نہ ہی معذرت خواہ . اپنے اچھے فیصلوں پر اپنے راستے کے صحیح تعین پر ہمیں فخر ہونا چاہیئے اور اللہ کا شکر گزار بھی کہ اس نے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائی.

کوئی بھی انسان نہ تو سو فیصد صحیح اور مکمل ہوتا ہے اور نہ ہے سو فیصد غلط اور نامکمل ہوتا ہے ۔ اس لیئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک بات پر کسی سے متفق ہیں اور پھر کسی وقت میں اسی سے کسی بات کی مخالفت بھی کر رہے ہیں ۔ بلکہ یہ بات اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے پاس بھی ایک دماغ موجود ہے اوت آپ بھی اپنے دماغ کا استعمال بھی کرتے ہیں اور پانے فیصلوں کا اختیار بھی رکھتے ہیں ، ویسے بھی ذہنی طور پر غلام انسان میں ایسی صلاحیت ہو ہی نہین سکتی وہ کسی کی اطاعت کریگا تو بنا سوچے سمجھے کرتا ہی کچلا جائے گا ۔ اور مخالفت کرنے پر آئے گا  تو کچھ سوچے سمجھے بنا ہی مخلفت کرتا چلا جائے گا ۔ جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس کا وجود ہی نہیں ، اس کی سوچ بھی غلامی کا طوق پہنے ہوئے ہے ۔
                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تجربے ہار جاتے ہیں





تجربات ہار جاتے ہیں 
ممتازملک. پیرس





انسان ہرروز ایک نئی بات سیکھتا  ہے.  ہر آنے والا پل اس کی زندگی کو نئے تجربات سے روشناس کراتا ہے . ہماری پیدائش سے لیکر ہماری موت تک ہم بے شمآر خواہشات سے بھی دوچار ہوتے ہیں اور تجربات کی بھٹی سے پک پک کر بھی نکلتے ہیں یہ نظام قدرت ہے کہ دنیا ان تجربات سے فائدہ بھی اٹھاتی ہے اور ہمیں اپنے آپ کو سیکھنے سے لیکر سکھانے تک کے مراحل سے گزرنا خود بھی بے حد سکون دیتا ہے اور بارآوری کے احساس سے ہمکنار کرتا ہے .
 پندرہ برس تک بچپن، تیس برس تک نوجوانی ،پنتالیس  برس تک جوانی  اور پچپن برس کی عمر کے بعد کا عرصہ بڑھاپا کہلاتا ہے . بچپن میں ہر چیز نئی لگتی ہے . نوجوانی میں ہمیں لگتا ہے ساری دنیا بیوقوف ہے اور خاص ہمی سیانے پیدا ہو گئے ہیں جو اللہ کا اس دنیا پر الگ سے احسان ہے . جوانی میں ہم اسی دنیا میں اپنے لیئے جگہ بناتے بناتے کئی بار کبھی اپنے دل سے لڑتے ہیں اور کئی بار اپنی عقل سے ہار جاتے ہیں کہ سامنے کئی اور سورما میدان میں ہمیں پچھاڑنے  اور لڑانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں .
ادھیڑ عمری میں ہمیں لوگوں کے لب و لہجے اور اندازوآداب زندگی کی سمجھ آنے لگتی ہے اور ہم اس سے بہتر انداز میں نبرد آزما ہونے لگتے ہیں . دنیا بھر میں اس عمر کے لوگوں کو معتبر جانا جاتا ہے اور انہیں باوقار اور پراعتماد سمجھا جاتا ہے . کیونکہ ان کے پاس دنیا کو سکھانے کا مواد آ چکا ہوتا ہے اور اسے  وہ بہتر انداز میں دوسروں تک منتقل کر سکتے ہیں . یہاں تک کہ پیغمبر کے پیغبرانہ  اعلان کے لیئے بھی اللہ پاک نے چآلیس سال کی عمر تک پہنچنے کا حکم دیا. وجہ یہ ہی کہ تب تک تم دنیا کو اور دنیا تمہیں جان جائے سمجھ جائے .
دنیا کے بڑے بڑے رائٹرز ،شاعر، اداکار، مصور  وغیرہ وغیرہ وغیرہ سب کے سب بڑی بڑی عمر کے خواتین و حضرات ہیں اور ان کی بے حد عزت و احترام اور قیمت ہے . لیکن ہمارے ہاں یا ہمارے ملک میں ہمیشہ ہی گنگا الٹی بہتی ہے . ہمارے ہیں جوان اور ناتجربہ کار لوگوں کو فیلڈ میں لاکر ان کی پشت پناہی کرنے والے فورا اسے اس کرسی پر بٹھانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں کہ جس کے کرسی سے زمین تک ابھی قدم بھی پورے نہیں پہنچ رہے ہوتے . اور ان کے سامنے ان لوگوں کو بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہیں کہ جنہوں نے اس دشت کی سیاحی  میں اپنا آپ کھو دیا ہوتا ہے .
خود کو ہتھیلی پر سرسوں جمانے والا جوان ، جسم تو طاقتور  لے آتا ہے لیکن اس میں بڑھاپے کا اعتماد ، علم اور تجربہ بھرنے کی کوشش بھی شروع کر دیتا ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے قدرتی کھاد سے تیار ہونے والی فصل جو تیار ہونے میں زیادہ وقت لیتی ہے لیکن لذت اور تاثیر میں بےحد فائدہ مند ہوتی ہے جبکہ دوسری جانب کیمیکل اور مصنوعی کھادوں کے زور پر راتوں رات پیدا کی جانے والی فصل جو سائز میں شکل ضرورت میں بہت بڑی بھی ہو گی اور خوبصورت بھی ہوگی لیکن لذت اور طاقت میں صرف بھس کے برابر.
اس تمہید سے آپ کو یہ تو اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ ہم بات کو کس رخ پر بیان کر رہے ہیں . آج کل ہماری عمر کے لوگ کہ جن کی اولادیں ٹین ایج میں یا جوانی میں داخل ہو چکی ہیں ان کی سوچی سمجھی یا ناسمجھی  منصوبہ بندی نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہم بحیثیت قوم کے ہمیشہ ہی تنزلی کا شکار کیوں رہتے ہیں تو ایک ہی بات سمجھ پائے کہ جس عمر میں دنیا اپنے لوگوں سے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے لگتی ہیں اس عمر میں ہمارے ہاں رواج ہے کہ آپ اب گھر بیٹھیں ہم نیا خون میدان میں لا رہے ہیں . سو ہم خون ہی لاتے ہیں تجربات کو لانے یا استعمال کرنے کا نہ ہمیں شوق ہے اور نہ ہی شعور . لہذا دنیا کامیاب ہو رہی ہے اور ہم ناکام .... اس لیئے کہ پرانے تجربات پر نئے نخرے اور انداز بازی مار جاتے ہیں . تجربات ہار جاتے ہیں .......

                                     ..........................

بدھ، 1 جون، 2016

پیارے بھائیوں کے نام





آج کا دن ہمارے بہت ہی معزز اور پیارے بھائیوں کے نام


بھیگا بھیگا پیرس اور پیارے پیارے دو بھائی
یورپ بھر میں اپنی خدمات کا اعتراف کراتے ہوئے ، ڈنمارک سے میڈرڈ اور میڈرڈ سپین سے پہنچے آج صبح پیرس
ڈنمارک Copenhagen سے
Sadaf Mirza g
لاڈلے مہمان آن پہنچے
جواہر لعل یونیورسٹی کے مایہ ناز پروفیسرز
محققین اور اردو زبان کے فروغ میں پیش پیش
خواجہ اکرام بھائی اور ڈاکٹر رضوان رحمان بھائی
کیساتھ ایک یادگار دن گزرا . جو سنا دونوں دوستوں کو اس سے کہیں بڑھ کر منکسر المزاج اور بہترین انسان پایا . خوش رہیں. سلامت رہیں.
ممتازملک. پیرس

منگل، 31 مئی، 2016

عید میلہ 16


3 روز کی ہماری ان تھک محنت ہمارا حوصلہ لیکن 28 مئی 2016 یوم خواتین اور یوم تکبیر کے موقع پر  پاکستان پیپلزپارٹی خواتین ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ نے عید میلہ کے عنوان سے ایک مینا بازار کا اہتمام کیا.
اور معروف سوشل ورکر محترمہ روحی بانو صاحبہ کی کتنی کمال محنت ہے. ہم اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں . جو ایک کامیاب عید میلہ کی صورت سامنے آئے . جس کا انعقاد خاص  طور پر یوم تعبیر اور خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کیا گیا.  جس میں پیرس میں موجود تمام معروف متحرک افراد اور برانڈذ نے حصہ لیا .
پاکستانی ایسوسی ایشن " لے فام دو موند" کی صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ نے بھی اپنا سٹال لگایا .
جنہیں  Best Mother 2016 کا ایواڈ دیا گیا.
خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے بھرپور انداز میں اس میلے میں شرکت کی . جس کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ تھیں اور مہمان خصوصی سارسل  کے میئر کی بیگم مادام شاربے تھیں .
پروگرام میں رنگا رنگ فیشن شو کا انعقاد بھی کہا گیا . جس میں مختلف ڈیزائنرز نے حصہ لیا . خوبصورت کیٹ واک نے سماں باندھا . جس میں نیناں  خان صاحبہ کو پہلا انعام ملا . مختلف شعبہ جات سے منتخب افراد کو انعامات دیئے گئے .ممتاز ملک کو بھی بہترین شاعرہ کہہ کر انعام سے نوازہ گیا جو کہ ہم خود کو بلکل بھی نہیں سمجھتے . میزبانوں کی ذرہ نوازی ہی کہا جا سکتا ہے . میلے میں سبھی دوستوں سے ملاقات ہوئی . ایک ہی جگہ پر فوڈ فیسٹیول کا سا مزا بھی ملا . یہ ایک جمنازیم ہال تھا . سو جگہ کی کوئی تنگی نہیں تھی اور انتظامات بھی بہترین تھے . ہم روحی بانو صاحبہ اور شمیم خان صاحبہ اور تمام انتظامیہ کو کامیاب پروگرام کی مبارکباد پیش کرتے ہیں . اور آئندہ بھی ایسے پروگرامز کے منتظر رہیں گے .

ہفتہ، 21 مئی، 2016

لمحہ فکریہ


لمحہ فکریہ برائے
بیرون ملک مقیم پاکستانی
ممتازملک. پیرس

مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ  ہم اپنے ملک سے باہر کیا سوچ کر آئے ہیں . پہلے ہمارا نعرہ تھا کہ ہم بیروزگاری  سے ستائے ہوئے ہیں اور مفلسی دور کرنے آئے ہیں . اس بنیاد پر ہم نے اپنی نئی زندگی کا بیرون ملک اغاز کیا . پھر جب ہمارا پیٹ بھر گیا تو ہمیں بڑے بڑے گھروں کے لئے بہانے ملے ، جب گھر بھی بن گئے تو پھر ٹیکس چرانے اور دو نمبر طریقے سے پیسہ اسلیئے اکھٹا کرنا شروع کیا کہ اپنے پنڈ کے سب سے امیر آدمی کا مقابلہ کرنا ہے اور اس کالے دھن سے یہاں اور وہاں کاروبار شروع ہوئے اور جب ہر طرف سے کالے دھن نے انڈے دینے شروع کر دیئے تو ان انڈوں میں سے" سیاسی کارندے"نام سے چوزے نکالنے کا کاروبار شروع ہوگیا اور پھر ان کالا دھن پیدا  کرنے والی مرغیوں نے سیاسی پولٹری فارم تیار کر لیا.  اور اب انہیں سیاسی چوزوں نے ہر جگہ گھر باہر، آتے جاتے ،کے دامن پر" بیٹھ "کرنا شروع کر دیا ہے . اور ان مرغیوں کو اس گندگی سے کوئی غرض نہیں ہے کہ  اسے صرف اپنے انڈوں اور چوزوں سے ہی مطلب ہے .
ویسے توہم ہر کام میں ہی نرالی قوم ہیں لیکن کبھی کبھی یہ نرالا پن ہمارے لیئے عذاب اور بدنامی  کا باعث بھی بن جاتا ہے . جیسے کہ
   دنیا کے کسی ملک کی کوئی سیاسی پارٹی اپنے ملک سے باہر گروپ اور ونگز بنائے کام نہیں کر رہی . صرف پاکستانی ہی وہ  واحد قوم ہے جس کے افراد نے، عہدے اور کرسی کی عیاشی اور چودہراہٹ کا نشہ پورا کرنے کے لیئے اپنا کالا پیسہ پاکستان سے باہر بھی خاص طور پر فرانس میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے . کہیں مزدوروں پر ظلم، کہیں خواتین کی ہراسمنٹ، ان کے ساتھ ہر ممکنہ پلیٹ فارم  سے بدزبانی  ،بدتمیزی اور بدمعاشی کے نئے طریقے رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے . اور تو اور یہاں سائبر کرائمز میں بھی یہ لوگ ملوث ہیں جو ہر عورت اور ہر پاکستانی لڑکی کو بدنام کرنے کی مہم پر روانہ ہیں . اس سے پہلے بھی یہاں ایک معروف خاتون کیساتھ ایسی ہی گھناؤنی حرکت کی جا چکی ہے اور معاملات پولیس اور عدالت تک جا چکے ہیں . لیکن اب اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو اس میں بڑے بڑے نام نہ صرف پولیس میں بے نقاب ہونگے بلکہ سڑکوں پر بھی یہ معاملہ گھسیٹا جائیگا. اور اس کا سب سے پریشان کن معاملہ یہ ہے کہ اس میں پیرس اور فرانس میں رہنے والے چھڑے (فیملی کے بغیر اکیلے مرد ) سب سے زیادہ استعمال کیئے جا رہے ہیں جن کے دماغ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی گندگی پک رہی ہوتی ہے یا پکائی جا رہی ہوتی ہے . اور ان کی خوش فہمی بھی یہ ہی ہوتی ہے کہ جی ہمارے کون سے بیوی بچے ہیں یہاں پر کہ جنہیں ہمارے کرتوت بھگتنے پڑیں گے . جبکہ انہیں آسرا دینے والوں نے انہیں یہ ہرے باغ دکھائے ہوتے ہیں کہ کوئی بات نہیں بیٹا "چڑھ سولی پر رام بھلی کرے گا "
لیکن ان لوگوں کی عقل میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ انہیں حرکتوں پر اگر یہ پاکستان ڈیبوٹ کر دیئے گئے تو وہاں بھی انہیں اپنا "گھرکا "یا بدمعاش  ہی بنا کر استعمال کیا جائیگا.کوئی وزیر اعظم نہیں بنا دیا جائیگا . اور وہاں کے ایسے کارندے جو خوب گناہ اور قتل و غارت اور بڑے کاموں میں استعمال کرنے کے بعد انہیں کے جیسے  دوسرےکارندوں کے ذریعے مروا دیئے جاتے ہیں . تو یاد رکھیئے یہ معاملات جو شروع میں انہیں بڑے دلکش اور ہیجان خیز نظر آ رہے ہوتے ہیں وہ انہیں ایک بھیانک دلدل میں اتار دیتے ہیں .
  اگر ہم نے آج ان کے زہریلے دانت نہ توڑے تو کل کو یہ ہمارے بچوں کی زندگی عذاب کر دینگے . سب فرانس کے پاکستانیوں کو اس مہم میں ہمارا ساتھ دینا ہو گا کہ فرانس سے ہی نہیں بلکہ پاکستان سے باہر تمام ممالک سے، تمام پارٹی ونگز کا قلع قمع کیا جائے . کیونکہ یہ ہی سیاست بازیاں ہم تمام پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے کاٹنے اور دشمنیاں ڈالنے کا سبب بن رہی ہیں . ہماری چھوٹی چھوٹی سی کمیونٹی ہر ملک میں ان کی وجہ سے انتشار کا شکار ہو رہی ہے. آج کا انتشار کل کے فسادات کا سبب ہی نہ بن جائے . میں نے آواز اٹھا دی ہے . آیئے میرا ساتھ دیجیئے. ورنہ آئندہ چند سال میں ہی یہاں کمیونٹی فسادات کا ایک نیا سو نامی جنم لے لے گا  . اور اس کی تباہی سے کوئی گھر محفوظ نہیں رہیگا . 
ممتازملک. پیرس

منگل، 10 مئی، 2016

& ماں کی چھاؤں سلامت تھی / افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی





 ماں کی چھاؤں سلامت تھی
ممتازملک ۔ پیرس


See original image

نثارصاحب کے چاروں بچے اب اپنے پاوں پر کھڑے ہو چکے تھے .
 دونوں بیٹیاں اچھی جاب بھی کر رہی تھیں اور اچھے گھروں میں بیاہی جا چکی  تھیں اور بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھیں . بیٹے بھی اچھے عہدوں پر فائز اور شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو چکے تھے . تین کمروں کا اپارٹمنٹ اب دونوں میاں بیوی کے لیئے کافی تھا. اچانک نثارصاحب کی وفات سے اب ان کی ماں اکیلی ہو گئی تھی ،بلکہ وہ آمدنی جو میاں کی دکان سے آتی تھی اب ختم ہو گئی تھی  . 
انکے بچوں کا خیال تھا کہ ابا کافی جمع پونجی چھوڑ گئے ہیں، اس لیئے ماں کو کوئی تنگی نہیں ہے لیکن گھر کا ٹیکس ،چارجز، یوٹیلٹی بلز یہ سب ادا کرنے کے لیئے اب ماں کے پاس کچھ نہیں تھا۔
 زیورات کے نام پر کوئی سونا چاندی بھی وہ سفید پوشی میں بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہوئے  بنا نہ پائی تھیں کہ اسی کو بیچ کر کچھ عرصہ گزارہ کیا جا سکے . گھر کا کچن  جو ہر چیز سے بھرا رہتا تھا وہ نعمت خانہ اور سٹور روم بھی چارماہ دس دن کی عدت کے دوران ختم ہو چکا تھا .
 اپنی وضع داری کا بھرم رکھنے کو یہ ماں اپنی اولاد سے بھی یہ نہ کہہ سکی کہ مجھے ماہانہ کچھ رقم دے دیا کرو یا ان اخراجات کی ادائیگی کر دیا کرو .
 ایک روز چھوٹے بیٹے نے اس کی طرف چکر لگایا . ماں کو گلے لگایا . خیریت پوچھی اور یہ کہہ کر روانہ ہو گیا کہ "ماں اپنا خیال رکھنا "پھر آؤنگا۔۔۔۔۔۔
چار روز بعد بڑے بیٹے نے بھی ماں کے گھر آ کر خیریت پوچھی اور "پھر آؤنگا "کہہ کر روانہ ہو گیا . بڑی بیٹی نے فون پر ایک آدھ منٹ بات کر کے" ماں اچھی ہو " کہہ کر فون رکھ دیا.
چھوٹی بیٹی کا ماں کے گھر جانے کا آج ارادہ ہوا، سوچا آج ماں کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پلاؤں  گی .
ماں سے گلے مل کر خیریت معلوم کی اور اسے بٹھایا کہ میں آپ کے لیئے چائے بناتی ہوں .

ماں نے پوری کوشش کی کہ وہ اس کے باورچی خانے  میں نہ جائے لیکن وہ نہ مانی .
 اس نے کچن کیبنٹ کھولی تو ٹی بیگ ندارد . 
وہ سٹور روم میں چائے لینے گئی تو وہ سٹور روم جہاں ان کے باپ کے ہوتے اس قدر کھانے پینے کا سامان ہوتا کہ پاؤں رکھنے کو جگہ نہ ہوتی اب وہاں کھانے کو دانہ نہ تھا .
ماں کایہ سوچ کر حال خراب ہونے لگا کہ آج بھرم کی سنبھالی ہوئی چادر تار تار ہونے کو ہے .
 اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا .
ماں کیا کرتی ہیں آپ نے گروسری بھی نہیں خریدی ابھی تک. 

لیکن ماں تو صوفے پر اکھڑی ہوئی سانسیں لے رہی تھی ۔
اس کے تو ہاتھ پاوں پھول گئے . امّاں امّاں کیا ہوا.

بولیں نا...
اس نے ماں کو بمشکل پڑوسن کی مدد سے اپنی گاڑی میں ڈالا کہ وہ ایمبولینس کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی . 

فورََا قریبی ہسپتال میں ان کا چیک اپ  ہوا ، 
وہ بے چینی سے ہسپتال کے ایمرجنسی روم کے باہر ٹہل  رہی تھی . اور سوچ رہی تھی امّاں بابا کے جانے کے بعد ان کے غم میں بہت کمزور ہو گئی ہیں .
 اتنے میں ڈاکٹر نے باہر آ کر اس سے پوچھا 
آپ کی ماں اتنے روز سے بھوکی کیوں ہے ؟
  تین چار روز سے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہو گئی تھی اب انہیں کچھ کھلا دیں تاکہ دوا دی جا سکے .
وہ فورا اپنی ماں کے پاس پہنچی جو اب ڈرپ لگنے کے بعد قدرے ہوش میں تھی .

 آپ نے کھانا کب سے نہیں کھایا ؟اور کیوں نہیں کھایا ؟
وہ بس وقت نہیں ملا ۔۔۔
کس بات کا؟
کھانا کھانے کا امّاں ؟؟
نہیں وہ گروسری کرنے کا ؟ 

وہ منمنائی
امّاں آپ سارا دن گھر میں ہوتی ہیں کام بھی کوئی خاص نہیں ہے پھر یہ کیا وجہ ہوئی کہ گھر کے سامنے کے سٹور سے گروسری کا وقت نہیں ملا آپ کو؟
ماں نے آنکھیں موند  لیں. 
اماں مجھے پتہ ہے آپ جاگ رہی ہیں مجھے جواب دیں
جانے کہاں سے موٹے موٹے آنسو ماں کی بند آنکھوں کناروں سے باہر لڑھک گے
شاید سب کچھ کہہ گئے
بیٹی نے اپنے منہ پر شدت غم سے نکلتی چیخ کو روکنے کے لیئے ہاتھ رکھ کر پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا
اس کے ذہن میں پچھلے چار دن کی فلم چلنے لگی
آفس لنچ ، گھر  پر دو روز سے ہونے والی دعوتوں اور پھر بہت سا کھانے کا سامان مسجد میں بھی بھیج دیا تھا . 

اور یہاں اس کی ماں چار روز سے بھوکی تھی . 
ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ ہم بہن بھائی ساتھ بیٹھ کر ماں سے پوچھتے کہ امّاں آپ کی مالی حالت کیسی ہے .؟
ہم آپ کو مالی طور پر کیسے تحفظ دے سکتے ہیں ؟
یا ہم سب آپ کا جیب خرچ طے کر دیں تاکہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو.
یہ سب بہت آسان تھا ان کے لیئے ، لیکن ماں کی غیرت نے ان سے یہ سب کہنا سننا گوارہ نہ کیا .

ہمیں یہ خیال خود سے ہونا چاہیئے تھا کہ ہماری شہر بھر میں کی جانے والی نیکی میں سب سے بھاری نیکی کو ہم نے قابل اعتناء ہی نہ جانا اور محروم رہے ۔ 
اس نے  فون پر بہن بھائیوں کو فورََا اسپتال  پہنچنے کی تاکید کی اور بہن کو گھر سے کھانا لیکر آنے کی تاکید کی ۔ 
آج وہ ارادہ کر چکی تھی کہ اپنی بہن بھائیوں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر  اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آئند ایسی صورتحال کبھی پیدا نہیں ہونی چاہئیے کہ ہماری ماں کو کسی بھی چیز کی کمی ہو۔ وہ مانگیں  یا نہ مانگیں, وہ استعمال کریں یا نہ کریں,  وہ لاکھ منع کرتی رہیں، لیکن ایک اچھی رقم  ان کے اکاؤنٹ میں ہر مہینے خود بخود بھیجی جانی چاہیئے۔ وہ بھائیوں کو بھی پابند کرنا چاہ رہی تھی اور آج اس نے اپنی بہن کے ساتھ بھی یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ بھی اور اس کی بہن بھی جنہیں  اللہ تعالی نے، بے حد نواز رکھا تھا،  اسی ماں کے پروان چڑھانے پر، ان کی تعلیم و تربیت پر آج وہ اس قابل تھے کہ اچھے گھروں میں رہتے تھے۔ اچھی جگہ ان کی شادیاں ہوئی تھیں۔ اور زندگی ان پر مہربان تھی، تو اس زندگی کو ان کی ماں پر بھی مہربان ہونا چاہیئے۔ یہ فیصلہ کرتے ہی جیسے اس کے دل میں سکون کی ایک لہر اتر گئی۔ اس نے یہاں تک سوچ لیا اگر باقی بہن بھائی نہ بھی مانیں ۔ بالفرض ان میں سے کسی نے اپنی آنکھیں ماتھے پر بھی رکھ لیں اور بھول گئے کہ یہ ان کی ماں ہے،  تب بھی وہ اپنی ماں کی ذمہ داری خود اٹھائے گی، اور بغیر کسی تردد کے، بغیر کوئی احسان جتائے خاموشی سے اپنی ماں کے اکاؤنٹ میں ہر مہینے اتنا ضرور بھیجے گی کہ اس کی ماں کو کبھی کسی سے، کسی چیز کی حاجت نہ رہے۔
ایمرجنسی وارڈ میں وہ اپنی ماں کے سرہانے کھڑی سوچنے لگی کہ
 ماں اپنے بچوں کی ہر ضرورت بنا کہے جان جاتی ہے اور اولاد اتنی بے خبر کیسے ہو سکتی ہے ۔ 
ایک عمر کے بعد ماں باپ اور اولاد کی جگہ بھی بدل جاتی ہے شاید ۔ پہلے ماں باپ ہمارا خیال رکھتے ہیں اور پھر بچوں کو اپنے ماں باپ کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ 
یہ ہی اس رشتے کا حسن ہے ۔
اس نے بہن کے آنے سے پہلے کینٹین سے سینڈوچ منگوا کے ماں کو دھیرے سے پکارا 
امّاں ۔۔۔۔ آنکھیں کھولیں 
آپ کو میری قسم ۔۔۔۔۔
ماں نے ڈبڈباتی آنکھوں سے نقاہت سےاسے دیکھا  
منہ کھولیں جلدی سے 
اس نے ماں کے منہ میں پیار سے لقمہ رکھا 
اس ایک لقمے کے ماں کے منہ میں جاتے  ہی آج اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ اپنے پیاروں سے بے خبری کیوں معاف نہیں ہوتی۔
 اس کی آنکھوں سے دو آنسو گرے اور ماں کے دوپٹے میں جذب ہو گئے ۔ اس نے اللہ کا  شکر ادا کیا کیا کہ بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور اس کے سر پر اسکی ماں کی چھاؤں سلامت تھی ۔
                       ۔۔۔۔۔

پیر، 2 مئی، 2016

سائبر کرائم کے نام پر کالا قانون


سائبر کرائم کے نام پر کالا قانون
ممتازملک. پیرس

ہمارے ملک میں جب بھی حکمرانوں کی گردن پھنسی ہے کہیں تو وہ فورا کسی نئے قانون کی آڑ میں انہیں پھنسانے والوں کے خلاف انتقامی کاروائی کا آغاز کر دیتے ہیں . اس کی نئی مثال.... آج تک سوشل میڈیا کی وجہ سے جو لوگ اغوا ہوئے، قتل ہوئے، لڑکیاں  گھروں سے بھاگیں  یا انہیں ریپ کیا گیا ....یا ڈاکے ڈالے گئے یا دہشت گردوں نے ہزاروں معصوم ذہنوں کو بہکایا، انہیں دہشت گرد اور بمبار بنایا ،یا مذہب کے نام پر دہشت پھیلائی ان سب پر بار بار کے مطالبے کے باوجود نہ تو کوئی قانون سازی ہوئی اور نہ ہی کوئی عملی اقدام کیئے گئے ، کسی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی. لیکن اب ایسا اچانک کیا ہو کہ  حکومت بھگوڑی ہوکر ملک سے غائب ہو گئی ،لیکن ان کے چیلے  اسمبلی میں بیٹھے سائبر کرائم کے نام پر عام آدمی کی آنکھ، کان ، ہاتھ اور زبان کاٹنے کی منصوبہ سازی ، قانون سازی کے نام پر کرتے رہے .
وہ بھی ایسے بھونڈے  انداز میں کہ جس کے بھونڈے پن کو ہم صرف حکومتی اجارہ داری ہی کہہ سکتے ہیں . قارئین آنکھیں اور کان کھولیئے اور پچھلے چند روز میں کیا ایسا ہوا یاد کیجیئے . جی ہاں پاناما لیکس. ..
حکومت پر جب براہ راست ایک خاندان کی ملک سے باہر جمع کی گئی  دولت کے کمانے کے ذرائع پر سوال اٹھایا گیا اور سوشل میڈیا نے اس پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ایک خاندان کو ملک سے فرار ہو کر اس ملک کے لٹیروں کیساتھ مل کر صلاح مشورہ کرنا پڑا کہ کیسے فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر سائیڈز پر اجارہ داری قائم کی جائے اور انہیں فیس بک پر ان لٹیروں کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دی جائے  ... تو ان کو سائبر کرائم کا نام بھی یاد آگیا اور اس پر قانون سازی کا ڈرامہ بھی شروع ہو گیا ... لیکن ان بے وقوف مشیروں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ میاں جی
"بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی" 
کیونکہ اس میں جو شقیں شامل کی جارہی ہیں وہ کہیں بھی متوازن اور مکمل نہیں ہیں .اس کی ہر شق  کی زد میں آپ کے گھروں کے افراد ہی سب سے زیادہ جیل جائیں گے کیوں کہ ایک عام آدمی تماشا دیکھنے کو خاموش ہو بھی گیا تو اس کے گھر میں آٹھ افراد میں ایک آدمی اگر یہ سائیڈز اپنی آواز کے لیئے استعمال کرتا ہے تو آپ کے گھر کے تو ایک ایک کے ہاتھ میں  فون اور لیپ ٹاپ موجود ہیں جو کبھی آف نہیں ہوتے . آپ کی مخالف کے منہ پر باندھی گئی پٹی آپ کے حق میں بھی زندہ باد نہیں بول سکے گی. کیونکہ اس سے اگلے گروپ کو بھی اعتراض ہو گا. گویا اعتراض برائے اعتراض اور زباں بندی کی یہ ناکام کوشش عوام کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کی کوئی سوچی سمجھی سازش تو نہیں ہے . فوری طور پر اس قانونی مسودے کو ملکی سلامتی کو خطرے کی گھنٹی  سمجھ کر اس کامطالعہ کیجیئے. جس میں کسی کے ہتھیار دکھانے لوگوں کو ورغلانے  اور اوپر بیان کی گئی پریشانیوں کے لیئے کوئی تجویز ماسوائے (فحش مواد کی تشہیر کے ) شامل ہی نہیں ہے . لہذا اب حکومت کے اس سازشی بل کو بنا.ترمیم کے منظور نہیں ہونے دینا چاہیئے چاہے اس کے لیئے کسی بھی سطح پر جا کر آواز اٹھانی پڑے اٹھائیے . جس سے ہم تمام لکھنے والوں کو بھی سرکاری قصیدہ گو بنانے کی کاروائی کا آغاز ہونے جا رہا ہے . مل کر اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھایئے . سائبر کرائم کا قانون دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی پر ہونا چاہیئے، ملکی سلامتی کے خلاف کاموں پر ضرور ہونا چاہیئے ، نہ کہ حکومت پر تنقید یا" ان کافون کسی نے چھو لیا "یا" ان کا کارٹون کسی نے بنا دیا" یا "ان کی زیادتی پر آواز کسی نے اٹھا دی" ...یہ کیا شرمناک باتیں ہیں . میاں صاحبان آپ کی انہیں شہنشاہ اور بادشاہ بننے کی خواہشات نے اور اکیلے بولنے کے  اور ہر ایک کا اختیار  اپنے ہاتھ میں لینے کے شوق نے پہلے بھی دو بار آپ کو شرمندہ کروا کر اس منصب سے فارغ کروایا  . اب تیسری بار بھی آپ نے ہر روز  ایک نئی کوشش جاری رکھی . کچھ ایماندار لوگوں کی وجہ سے نہ آپ کا یہ  خواب پہلے شرمندہ تعبیر ہوا اور نہ ہی اب ہو گا انشاءاللہ.  سچ بولنے والے کل بھی زندہ تھے ،جب انہیں مصلوب کیا گیا ،انہیں کوڑے لگائے گئے ،ان پر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیئے گئے، لیکن انہوں نے اپنی زبان ،قلم اور ضمیر نہ کل بیچا تھا نہ آج بیچیں گے . قصیدہ گوئی کا شوق اپنے اچھے کاموں سے پورا کیجیئے نہ کہ ہر بار اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے لاشریک بننے کے کفر میں مبتلا ہو کر خدائی عذاب کو دعوت دیکر...کیونکہ
"زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو"
                     .......................

اتوار، 1 مئی، 2016

صفا و مروہ

صفااورمروہ ایک ماں کی محبت اور سچی تڑپ کی وہ نشانی ہےجو اپنی اولادکو اپنےاللہ کےمقابل بھی تنہا نہیں چھوڑتی.اور اللہ کو یہ ادائےممتا اتنی بھائی کہ قیامت تک کیلیئے اپنے ایمان والوں پر فرض کردیا کہ اسکے گھر میں جب خدا کے قریب ہونے کو جاو تو ایک ماں کو اسی جیسی بیچین دوڑ کیساتھ سلام عقیدت پیش کرو .ورنہ اسکےبنا اللہ نےاپنی ملاقات اور اپنے حج کوبھی نامکمل قراردیدیا.
ممتازملک
پیرس

اتوار، 24 اپریل، 2016

میرے وطن تیری جنت


میرے وطن تیری جنت
ممتازملک. پیرس

تحریک انصاف کے بیسویں یوم تاسیس  کے موقع پر  23 اپریل 2016 بروز ہفتہ لاہور ریسٹورنٹ میں تحریک انصاف کشمیر ونگ کی کوآرڈینیٹر محترمہ شہلا رضوی صاحبہ اور جنرل سیکٹری عمران چوہدری صاحب نے ان کے صدر جناب زاہد ہاشمی صاحب کی فرانس میں غیر موجودگی میں انکی ہدایت پر ایک خصوصی پروگرام کا اہتمام کیا . جس میں اپنے کل اور آج پر ایک نظر ڈالی گئی . اس بات پر زور دیا گیا کہ ہمیں صرف اپنی خوبیوں پر ہی نہیں اپنی خامیوں پر بھی پوری نظر رکھنی ہو گی . جبھی ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں . پروگرام میں شامل تمام شرکاء کو بات کرنے کا موقع دیا گیا . اور ہر ایک نے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار بغیر کسی لگی لپٹی کے بھرپور انداز میں کیا .اور اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے بھرپور انداز میں اٹھایا جائیگا . اور کشمیر  کی آزادی تک یہ سفر جاری رہیگا . شرکاء میں سے  ہر ایک نے اپنی جانب سے مفید مشورے پیش کیئے اور اپنی کسی بھی کوتاہی کو نہ دہرانے کا عہد کیا . اور اس بات پر زور دیا گیا کہ لیڈرز سے محبت ضرور کی جائے لیکن انہیں انسان سمجھاجائے نہ کہ انہیں فرشتہ بنا کر ہر کوتاہی اور کمی سے پاک قرار دے دیا جائے . اسی طور ہم اپنے رہنماوں کو سیدھی راہ پر رکھ سکتے ہیں . کیونکہ ہمارا اصل مقصد ہمارے وطن پاکستان سے محبت اور اسکی کامیابی کے لیئے کوشاں ہونا ہے . یہ ملک ہے تو ہم ہیں ورنہ کچھ بھی نہیں ہے . ہمارا جینا مرنا سب اسی ملک کی خوشیوں اور کامیابیوں سے وابستہ ہے .
تحریک انصاف کا قیام بے شک ہر پاکستانی کے لیئے بلا تفریق و تضاد خوش آئند اور مبارک تھا اور ہے کہ جس کے قیام سے پاکستانی عوام کو دو پارٹیوں کے تسلط سے نجات ملی اور انہیں ایک تیسرا پلیٹ فارم بھی میر آ سکا جہاں سے وہ اپنے ملک میں کچھ اچھا کرنے کی امید کر سکتے ہیں . بطور ایک لکھاری کے کالمنگار کے میں نے کئی بار تحریک انصاف پر ان کے کاموں کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے جو ایک لکھاری کا پورا حق ہے کیونکہ ہم سیاسی ورکرز نہیں ہیں . تیسری آنکھ کے طور پر جو کچھ دیکھتے ہیں اسے پڑھنے والے تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں جسے ہمارے کئی کرم فرما پارٹیوں کی مخالفت کا نام دیتے ہیں . شاید ان کی سوچ کا دائرہ یہیں  تک محدود ہو گا . کل بھی ہم وہ لکھ رہے تھے جو حق تھا اور نظر آ رہا تھا آج اگر تعریف میں لکھا ہے تو بھی وہی جو حق ہے اور دکھائی دے رہا ہے . لہذا ہمیں اس پر فخر ہے کہ جب کہا سچ کہا . اور اپنے الفاظ کبھی بیچے نہیں ہیں . نہ ہی آئندہ انشاءاللہ کبھی کوئی ہمیں خرید سکے گا . جو بھی سیاسی پارٹی جب بھی اچھا  کام کریگی ہم اسے سراہیں گے اور جہاں وہ غلط کام یا رویئے میں ملوث ہونگے ہم ان کی پوری کھچائی کریں گے . اور ہمیں پوری امید ہے کہ پاکستان سے محبت کرنے والے چاہے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ہمارے اس اقدام پر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے . کیونکہ ہم سب پاکستان سے باہر رزق کی تلاش میں پردیسی اسے لیئے تو ہوئے کہ ہمارے وطن میں یہ راستے مسدود ہو چکے تھے . ہماری مجبوریوں اور ضرورتوں نے ہمیں ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیا . اپنی ماں سے دور کر دیا . صرف اس خواہش میں کہ کل دنیا ہمارے ملک میں ہمارے سمیت بسنے کا ارمان کرے ہم ہر کوشش اور ہر کاوش کرتے رہیں گے . یہ سوچ کر کہ
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
ستم شعاروں سے تجھکو چھڑائیں گےاکدن

               ...................

پیر، 11 اپریل، 2016

کوئی بحث نہیں




PUZZLE GLOBE : Stock Illustration

کوئی بحث نہیں
 بس سادہ سا سوال...
 ہمیں اپنی زندگی اخر کس
 اصول کے تحت گزارنی ہے ؟
1- دینی احکام و اختیار یا
2- روایتی اقدار اور 
رسم و رواج
 ممتازملک. پیرس

معافی دینے والے سے زیادہ






Image result for agreement and heartمعافی مانگنا بہادری

معافی دینے والے سے
زیادہ بہادر وہ ہے جو
اپنی غلطی کو قبول
 کرتے ہوئے معافی
 مانگنے کی ہمت 
رکھتا ہو.
 ممتازملک. پیرس

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/