ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 27 اگست، 2023

* جس میں خوشی کا نام نہ آیا ۔ مصرعہ طرح۔ اور وہ چلا گیا

مصرع طرح
جس میں خوشی کا نام نہ آیا
(سوہن راہی)

جشن کی ہلڑ بازی میں تو
ہاتھ ہمارے جام نہ آیا 

تو ہی لے جا ناکارہ دل 
اپنے تو یہ کام نہ آیا 

جان لٹا دی بے فیضوں پر
یاد کبھی انجام نہ آیا 

داد سمیٹی مفت بروں نے
کہیں بھی اپنا نام نہ آیا 

کوئی سودا ایسا نہ تھا
آڑے جسکے دام نہ آیا 

جیون کا کوئی ایک بھی لمحہ؟
جس میں خوشی کا نام نہ آیا

ڈوبا تھا کل شام جو سورج
کیا وہ صبح بام نہ آیا 

سب کچھ وار کے پھر بھی جانے
کیوں مجھکو آرام نہ آیا

دیکھ تبسم اس نے سمجھا
جیون میں ہنگام نہ آیا

اپنی پشتیں بھریں جبھی تو
ملک میں استحکام نہ ایا

اب ممتاز نے جان لیا ہے
صبح کا بھولا شام نہ آیا 
                ------

ہفتہ، 26 اگست، 2023

جنت ‏بچا ‏لی/ ‏افسانہ ‏۔ قطرہ قطرہ زندگی


شیزوفینیا کے مریضوں پر کہانی

جنت بچا لی

بیٹی نے سودا لیا اورباقی پیسے اپنے پرس میں رکھے ۔ 
وہ اکثر اپنی ماں کو حساب دینا ضروری نہیں سمجھتی تھی ۔ ماں خود سے یاد آنے پر پوچھ لے تو بتا دیا ورنہ بقایا اپنی جیب میں رکھ لیا۔ 
آج بھی اس نے ایسا ہی کیا ۔ نگار اب اپنے حال سے بے خبر ہو چکی تھی ۔ کوئی آکر  زبردستی منہ  ہاتھ دھلا دیتا تو ٹھیک ورنہ اکثر آتے جاتے وضو کر کے منہ ہی منہ میں کوئی نہ کوئی ورد بڑبڑاتی رہتی ۔ یہ بھی اس پر اللہ کا کرم ہی تھا کہ
شیزو فینیا نے اس سے ہر شناخت چھین لی تھی تب بھی اسے اپنی پاکیزگی اور اللہ کی یاد بخش رکھی تھی ۔ 
جب تک بال رنگتی تھی تو اپنی عمر سے آدھی دکھائی دینے والی نگار اب بیرنگ کھچڑی بالوں کے ساتھ صدیوں پرانی لگنے لگی ۔ کسی اولاد کو نہ اتنی توفیق تھی اور نہ اتنا شوق کہ مہینے بھر میں ماں کے بال رنگ سکے اسے سنوار سکے ۔ اس کے رکھ رکھاو کا خیال رکھ سکے ۔ 
کتنی عجیب بات ہے ماں باپ اپنے جس بچے کوسنوار سنوار کے تھکتے نہیں اور وہی اولاد  ان کا ہاتھ منہ دھلانا بھی خود پر بوجھ سمجھنے لگتی ہے ۔ 
آج بھی وہ بیٹی کے ساتھ سٹور سے باہر ہی اس کی گاڑی میں بیٹھی تھی ۔ بیٹی نے اس کے لیئے اسی کے پرس میں سے 50 یورو کا نوٹ نکال کر کچھ 10 یورو کی چیزیں خریدیں اور بقایا اپنے پرس میں رکھ لیا ۔ نگار کو اس کے گھر چھوڑا ۔
آج گھر واپسی پر جانے عجیب سی بیچینی اس کے حواس پر سوار تھی  ۔ اس نے ماں کے پیسے رکھ لیئے تھے ۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں بنا تھا ۔ اور آدمی ہوش میں ہو یا بدحواس کمبخت بھوک تو کبھی نہیں رکتی۔ یہ تو آدمی کو نچا کر ہی دم لیتی ہے ۔ ماما کے پرس میں ایک ہی تو نوٹ تھا جو میں نے نکال لیا تھا ۔ آج انہیں ڈاکٹر کے پاس بھی جانا تھا ۔ پتہ نہیں وہ کچھ کھا کر بھی گئی ہو گی یا نہیں ۔ 
اسکی غیر موجودگی میں اکثر نگار کی پڑوسن ہی اسے کسی بھی اپائنٹمنٹ پر لیجاتی تھی۔
 ماما دو نہ ۔۔ اپنے دو سال کے بیٹے کے منہ سے آواز سن کے وہ چونکی چمچ لیئے وہ اسے کھانا کھلانے بیٹھی تھی ۔ اسے بھی ماں ایسے ہی کھلایا کرتی تھیں ۔ کیسے کیسے تنہا کر دیا  تھا میں نے انہیں ۔ یہ سوچتے ہی اس کہ آنکھیں بھیگ گئیں ۔ 
جیسے تیسے اپنے بیٹے کو کھانا کھلاتے ہی اس نے گاڑی نکالی۔ پڑوسن کو فون کیا تو اس نے بتایا نگار تو آج شاید اکیلے ہی چلی گئی تھی میں نے کافی دیر دروازے کی گھنٹی بجائی لیکن کوئی جواب نہیں آیا تو میں واپس چلی آئی ۔ سوچا شاید وہ تمہارے ساتھ چلی گئی ہو گی ۔ لیکن اب تمہارے فون نے مجھے بھی پریشان کر دیا ہے  ۔ یہ سنتے ہی اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس نے گلی گلی گاڑی دوڑانا شروع کر دی جہاں جہاں ہو سکتا تھا وہ ہر بس اسٹاپ پر سڑک پر راہگیروں میں اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی ۔ ٹریفک سگنل پر رکے ہوئے اس کی نگاہ بھیڑ پر گئی جہاں اسے  نگار ایک قطار میں کھڑی دکھ گئی۔ 
اس نے گاڑی بڑی مشکل سے دور ملی جگہ پر پارک کی اور ماں کو جہاں دیکھا تھا وہاں دوڑ لگا دی ۔ 
اس نے دیکھا کہ ماں ویلفیئر والوں کی جانب سے لگائے ہوئے کھانے کے سٹال کے آگے لائن میں کھڑی تھیں جس میں غریب لاچار  لوگوں کے لیئے کھانا تقسیم کیا جاتا تھا ۔ اس نے آگے جانے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے اسے روک دیا ۔ ماں کو یہاں دیکھ کر وہ دکھ اور شرمندگی سے گڑھی جا رہی تھی ۔ اس نے ماں کو آواز دینا چاہی لیکن یہاں شور مچانے سے اسے انتظامیہ نے منع کر دیا گیا ۔ وہ فورا انچارچ کے کمرے کی جانب بھاگی کہ وہاں اسکی ماں ہے اسے باہر لایا جائے ۔
انچارچ ایک مہربان خاتون تھی اس نے اس سے اس کی تعلیم عہدہ اور آمدن کا پوچھا تو اس کے حلیئے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے بولی اگر آپ کو اپنی والدہ کی آپ کی لیئے قربابیاں اور محبتیں یاد ہوتیں تو آج وہ اس قطار میں کھڑی دکھائی نہ دیتیں ۔ آپ انہیں لے جائیے لیکن اگر آپ ان کا خیال نہیں رکھ سکتیں تو ہمیں بتائیے گا ہم ان کا خیال بھی رکھ سکتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی  کر سکتے ہیں ۔ لیکن بس آپ کو اپنی جنت کی دعویداری سے دستبردار ہونا پڑیگا ۔ 
ایک چوٹ کی تال اس کے دل پر پڑی اس کی گونج نے اس کے دماغ کو جھنجھنا کر رکھ لیا۔ 
اس نے انچارج کا شکریہ ادا کیا اور اس کے اجازت نامے کے ساتھ کھانے کے بڑے ہال میں داخل ہوئی ۔ بھرے ہوئے پانچ سو لوگوں  کے ہال میں ماں کو ڈھونڈنے میں وقت لگا کھانا کھاتے ہوئے لوگوں میں  دور سے  اسے نگار دکھائی دے گئی ۔ وہ بھاگم بھاگ ماں کے قریب گئی۔ اس کا پہلا نوالا ابھی اسکے منہ کے قریب تھا کہ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سور کے شوربے میں پڑا ہوا سبزی کا سالن اس  کے منہ میں جانے سے روک دیا ۔ نگار نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا اور  اس نے اپنی ماں کو کہا ماں یہ حرام ہے ۔ نگار کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا بس اتنا بولی بھوک لگی ہے ۔ پیسے نہیں ہیں ۔ 
اس نے اپنی ماں کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ آنسووں کا سیلاب بند توڑ کر نکل پڑا ۔ 
میری ماں کو میں سب کچھ خود لا کر دونگی ۔ چلیں میرے ساتھ ۔ 
دور سے اس پر نگاہ رکھے ہوئے ادارے کی انچارج نے اپنے چشمے کے نیچے سے بہتے ہوئے بے خبر آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے پونچے اور مسکرا دی ۔ آج ایک جنت کما لی گئی  یا بچا لی گئی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔۔

میں مائی تو بابا/ افسانہ


میں مائی تو بابا
افسانہ:
(ممتازملک ۔پیرس)


کافی دنوں سے کسی نے ہمارے ہاں چکر نہیں لگایا فضل دین نے رشیدہ سے سوال کیا ۔ میں کیا کہوں میاں ۔ ہم تم بڈھوں سے گپ لگانا آج کے لوگوں کو ہی نہیں اپنی جنی اولاد کو بھی وقت کا زیاں لگتا ہے تو انہیں اپنا قیمتی وقت گزارنے کے نت نئے مشغلے ہر زمانے میں مل ہی جاتے ہیں ۔ 
لیکن پہلے تو ایسا نہیں تھا رشیدہ ۔ ہم تو اپنے بڑوں کے پاس بیٹھ کر ان سے زندگی کی گھتیاں سلجھانے کا علم مفت میں حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر آج بوڑھوں اور بزرگوں کی باتیں بیکار کیسے ہو سکتی ہیں ۔
آخر ہم نے بھی اسی دنیا کے دشت کی سیاحی کی ہے جسے لوگ زندگی کہتے ہیں ۔ کیا ہمارے پاس جوانوں کو سکھانے کو دینے کو کچھ بھی نہیں ہے جو اس کھاٹ پر پڑے پڑے اپنی موت کا انتظار کرتے رہیں ۔
فضل دین کی آواز میں آنسووں کی نمی گھل گئی ۔ وہ خاموش ہوا تو رشیدہ نے اس کی چارپائی کی پائننی پر بیٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اسے دلاسا دیا ۔ اس کا کمبل اچھی طرح سے اوڑھا دیا ۔
کیوں ہر روز ایک سی باتیں سوچ کر اپنا دل جلاتے ہو۔ 
ہم بوڑھے میاں بیوی ہی ایکدوسرے کے دوست بھی ہیں اور غمگسار بھی ۔ ہمارا دو کمروں کا یہ کچا پکا جھونپڑا ہمارا مقدر ہے ۔ اگر اس کی جگہ عالیشان بنگلہ ہوتا تو ہمارے بچے بھی بھاگ بھاگ کر آتے بلکہ یہیں ڈیرا ڈال لیتے ۔ایکدوسرے کو اس بنگلے پر قبضہ کرنے کے لیئے مار ڈالتے ۔ عدالتوں میں گھسیٹتے ۔ ایکدوسرے کا حق کھانے کو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ۔ میں آج اگر زیوروں سے لدی ہوئی ہوتی، چار ملازم میرے آگے پیچھے جی حضوری کرتے تو میں مائی نہیں ہوئی ۔ میڈم ہوتی ماں جی ہوتی ۔ بیگم صاحبہ ہوتی۔ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں میں مائی اور تو بابا ۔ بس یہی ہماری اوقات ہے ۔ بہت گزر گئی تھوڑی باقی ہے وہ بھی کٹ ہی جائے گی ۔ 
رشیدہ  نے لکڑی کے چولہے پر  چڑھی ہانڈی میں پانی چڑھا رکھا تھا مگر اس میں ڈالنے کے لیئے اس نے ایک ایک ڈبہ الٹ دیا دال کے کچھ دانے بھی نہ پا کر پریشانی سے فضل دین کو دیکھا جو چارپائی پر گھسے ہوئے کمبل میں اپنے بوڑھے وجود کو گرمانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔
کافی دنوں سے اس کے چاروں کڑیل جوان بیٹوں کی جانب سے بھی انکی کوئی خیر خبر نہیں لی گئی تھی ۔ پاس پڑوس والوں کو بھی کبھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ آکر جھانک ہی لیں کہ انہیں کسی مدد یا چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ۔  پہلے لوگ کتنے اچھے ہوتے تھے ایکدوسرے کا حال سے باخبر رہنا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ نیکی کرنے کے مواقع ڈھونڈا کرتے تھےاور آج ۔۔۔فضل دین نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔ ایک ہوک سے اس کے دل سے نکل کے کہیں ہوا میں تحلیل ہو گئی۔
ہمدرد تو آج بھی ہیں لوگ لیکن فضل دین میں نے تو یہ جانا ہے کہ یہ بے اولاد بڑے فائدے میں رہتے ہیں ۔ لوگوں کی ہمدردیاں بھی انہیں حاصل ہوتی ہیں اور مدد کو بھی تیار رہتے ہیں ۔ ایک ہم اولاد والے ہی زیادہ دربدر ہوتے ہیں ۔
فضل دین نے اسے چونک کر دیکھا 
وہ کیسے رشیدہ؟
دیکھو نا بے اولاد کو لوگ بے سہارا سمجھتے ہیں حالانکہ نہ انہوں نے کوکھ میں اولاد کا بوجھ اٹھایا ،نہ انکی گندگیاں صاف کیں ، نہ ان پر اپنی جوانی اور پونجی لٹائی ، نہ ان کی خاطر آدھا پیٹ سوئے ۔ ساری عمر صرف اپنے اوپر ہی خرچ کیا ، اپنے لیئے جیئے اور پھر بھی زمانے بھر کی ہمدردیاں سمیٹ لیں اور ایک ہم ہیں اولاد والے جنہیں یہ سارے ستم سہہ کر خون پسینے سے اس اولاد کو پروان چڑہایا اور بڑہاپے میں آکر ان کی ملاقات کے وقت کا انتظار کرتے ہیں جیسے قیدی جیل میں اور بوڑھے زندگی میں ۔ کہ کسی کی دید ہو جائے ۔ کوئی ہمیں راشن پانی ہی ڈال دے کہ  جب تک ہم مر نہیں جاتے یہ کمبخت پیٹ تو کھانے کو بار بار مانگتا ہی ہے ۔ 
رشیدہ نے اپنے گھسے ہوئے ملگجے دوپٹے سے آنسو پوچھتے اور فضل دین سے  چھپاتے ہوئے کہا۔
کڑیل جوان اولادوں کا لیبل ہمارے ماتھے پر ایسا چپکتا ہے کہ سارا معاشرہ ہماری خبر لینی ہی چھوڑ دیتا ہے ۔ کوئی نہیں جاننے کی زحمت کرتا کہ ہم کس حال میں ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں اولادیں جوان ہو گئی ہیں اور  میاں بیوی خوب مزے اور آرام میں ہیں ۔ اور یہاں اولاد سمجھتی  ہے مائی بابا کو نئے کپڑے مت لے کر دینا کل کو مر گئے تو خوامخواہ ہی پیسے ضائع ہو جائینگے ۔کون پہنے کا انکے جوٹھے کپڑے ۔۔۔رشیدہ کے اس استفسار نے فضل دین کا دل دہلا دیا ۔


بابا فضل دین  نے چھت کی جانب نظریں اٹھائیں اور اللہ سے فریاد کی یا اللہ ہمیں بہت سا مال دے تاکہ اس بے بسی سے تو نجات ملے ۔ اپنے رشتے تو اس کی بو سونگھتے ہوئے یہاں پر دکھائی دیں ۔
کافی دیر سے خود کو روکے ہوئے مشکل ہو گیا تو باہر نکل کر اسے پیشاب کرنے کو جانا ہی پڑا۔  فارغ ہوتے ہی اس کی نظر وہاں  رکھے ایک مرتبان جیسے برتن پر نظر پڑی۔  اس کا ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو وہ ذیورات سے بھر ہوا تھا ۔
اس نے  ہنس کر آسمان کی جانب دیکھا اور جانے کس لمحے اور لہجے میں خدا سے مخاطب ہوا کہ الہی تو بھی مجھے بوڑھا اور لاچار بنا کر اب میرے ساتھ مذاق کرتا ہے تو جانتا ہے یہ مٹکا میں کیا ہم دونوں میاں بیوی بھی اٹھا کر  اپنے گھر تک نہیں لیجا سکتے  تو یہاں دینے کا کیا مقصد ؟  ترساتا یے تو بھی مجھے ۔ ان داتا دینا ہے تو دے مجھے۔ لاچار کرنے والے اس بستر تک محدود کرنے والے مجھے یہ سب چاہیئے پر میرے ہی بستر پر میری ہی چارپائی پر چاہیئے ۔ اور تو یہ کر سکتا ہے کیسے ؟ یہ میں نہیں جانتا ۔ 
یہ عجیب سی فرمائش کر کے فضل دین گھر کے دروازے کی جانب چل پڑا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہنستے ہوئے بیوی رشیدہ سے مخاطب ہوا 
یہ اللہ کو بھی ہم جیسے لوگوں کیساتھ مذاق کرنا اچھا لگتا ہے کیا ۔
کیوں بھی کیا ہو گیا ؟ 
تو بابا فضل نے مٹکے کی کہانی سنا ڈالی۔
دیوار کے پار سے ایک راہگیر نے ان میاں بیوی کی گفتگو سن لی۔ اسے مٹکے کی لالچ نے اس جگہ جا کر دیکھنے پر مجبور کیا ۔
وہاں واقعی مٹکا موجود تھا۔ اس نے جیسے ہی مٹکے کا ڈھکن اٹھایا بھڑوں کے گروہ نے اسے کاٹ لیا ۔ غصے اور درد کے مارے اس کا برا حال ہو گیا ۔ اس نے اس بابا سے بدلہ لینے کا سوچا اور مٹکا فورا ڈھانپ دیا ۔ اٹھایا اور بابا فضل کے جھونپڑے کی جانب چل دیا ۔ اس نے گھر میں داخل ہونے را راستہ دیکھا تو ایک چمنی دکھائی دی ۔ اسے بابا کی آواز اسے کے نیچے باتیں کرتے سنائی دی تھی۔ اس نے سوچا آج اس بابے کو بھی بھڑوں کے کاٹے سے جھوٹ بولنے پر سزا دونگا۔ 
ادھر بابا فضل نے رشید سے کہا بجلی لوگ کوئی دو چار لکڑیاں تو جلا دے اس انگیٹھی کو بھی آگ کی تپش یاد دلا دے ۔ 
رشیدہ  بولی لکڑی کا بھاؤ بھی معلوم ہے کیا ۔ ۔۔ بھول جاؤ کہ ہم کبھی انگیٹھی بھی گرم کیا کرتے تھے۔ ہاں کل سے یہ مٹی کا چولہا انگیٹھی کی جگہ پر رکھ دونگی اس ایک پنتھ دو کاج اسی طرح ہو جائے گا ۔ 
ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ اس راہگیر نے وہ مٹکا دھن کھسکاتے ہوئے چمنی پر الٹ دیا ۔۔
یہاں بابا جی پر چمنی سے چھنتے ہوئے سونے کے زیورات کی  بارش  ہونے لگی ۔ 
رشیدہ رشیدہ دیکھ تو دینے والے نے ہمیں نواز دیا ۔۔۔ رشیدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ راہگیر جو سزا دینے آیا تھا وہ مٹکا چمنی پر الٹا کر رکھتے ہی بھاگ چکا تھا اور مائی اور بابا کی قسمت بدل چکی تھی ۔
اللہ نے ہر ایک کا نصیب اسی کو دینا ہے کوئی کسی سے اس کا مقدر نہیں چھین سکتا۔ 
                 ........

جمعرات، 17 اگست، 2023

سرفہرست قومی مسئلہ۔ کالم

سرفہرست قومی مسئلہ
تحریر: 
       (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان کے اصل مسائل میں سرفہرست انگریزی ہے جس کا جبری استعمال اس ملک میں علم کو عام نہیں ہونے دیتا بلکہ رٹے بازی کے سبب علم سے بیزاری کا سبب ہے ۔ اردو کا نفاذ وہ بھی غالب کے زمانے کی اردو نہیں بلکہ آج کی رواں اور مروجہ زبان کو رائج کیجیئے ۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو آج بھی اپنی سو دوسو سال پرانی لغت کیساتھ رائج ہے ۔ اس لیئے اردو کے نفاذ کے لیئے کوشش کرنے والوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو خصوصاً اور عام لوگوں کو عموما مشکل الفاظ کے جھنجھٹ میں ڈال کر خود اس زبان کے نفاذ کے راستے میں کھڈے کھود رہے ہیں ۔جس انسان کے منہ کا دہانہ اٹھارہ سال کی عمر تک جن الفاظ کو ادا کرنے کا عادی نہیں ہوتا اس کے لیئے بھاری بھرکم الفاظ کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ہر زبان ترقی کا سفر طے کرتی ہے ۔ اردو زبان کا دامن بہت وسیع رہا ہے یہ ہر زبان کے لفظ کو اپنے اندر باآسانی جذب کر لیتی ہے۔ اس لیئے آج لاؤڈ سپیکر کو الہ مکبر الصوت نہ بھی کہیں تو اس سے اردو زبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا اس بات پر ضد کرنے کے بجائے اردو زبان بولنے کی خواہش رکھنے والوں کو آسانی دینے پر بات کیجیئے ۔یا پھر آوز بڑھاؤ اسکا اور آسان ترجمہ ہو سکتا ہے۔
اردو زبان کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ انہیں اردوئے معلی کے زمانے کے مشکل اردو اور متروک الفاظ نئے سرے سے سیکھنے پر مجبور  ہونا پڑیگا۔ جبکہ دنیا بھر میں زبان اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے ۔ آج جو اردو بول چال جو عام طور پر بولی سمجھی جاتی ہے ۔ لہذا جدید اردو زبان کے نفاذ پر کام کیا جائے۔ آج ہم جگ ،گلاس، پلیٹ کے الفاظ کو اردو زبان میں قبول کر چکے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔  کسی کو پرانی زبان پڑھنی ہے تو اسے اپنے شوق سے بطور مضمون پڑھ سکتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنی ہی زبان میں پڑھتے اور بولتے ہیں ۔۔وہ انکی اپنی زبان آج کی جدید زبان ہوتی ہے ۔ صدیوں پرانے الفاظ زبردستی سے بول چال میں شامل نہیں کیئے جاتے۔ متروک الفاظ کا ذخیرہ ہر زبان میں ہوتا ہے ۔ اسے زبان کی  بے عزتی نہیں سمجھنا چاہئے۔  
آسان اردو زبان میں سرکاری کاغذات کی تیاری احکامات عدالتی فیصلے اسناد ہونگے تو عام اور کم پڑھے لکھے آدمی کو بھی دھوکا دینا آسان نہیں ہو گا۔ وہ ہر بات کو زیادہ سے زیادہ سمجھ سکیں گے اور انگریزی زبان میں دی گئی چکر بازیوں سے بچ سکیں گے۔  زبان کسی بھی قوم کی سوچ ہوتی ہے اس کی تہذیب ہوتی ہے اس کا طرز زندگی ہوتی ہے اس کی مکمل شناخت ہوتی ہے ۔ گزشتہ دنوں عدالتی کاروائی کی براہ راست نشریات نے وکلاء کی قابلیت اور علمیت کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا ۔ کہ کیسے یہ انگریزی کی بیساکھیوں کے سہارے اپنے  سائلیں کو بلا وجہ سالہا سال تک عدالتوں میں رولتے ہیں ۔ بیگناہوں کو اپنی نااہلیوں کے سبب جیل کی کال کوٹھریوں میں سسک سسک کر مرںے پر مجبور کر دیتے ہیں جبکہ یہی کیسز کسی اہل وکیل کے ہاتھ میں ہو تو تو وہ ان بیگناہوں کو چار چھ پیشیوں میں ہی آزاد کروا چکا ہوتا ۔ جبکہ انگریزی کا پردہ سائلین کی آنکھوں پر ڈال کر یہ وکلاء معصوم لوگوں کواپنا بکرا سمجھ کر روز کاٹتے اور روز بیچتے ہیں۔ یہاں تک کہ دستاویزات میں ایسی ایسی چالبازی کے نکات مکاری کیساتھ شامل کیئے جاتے ہیں کہ عام ان پڑھ تو چھوڑیئے، اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں میں سے بھی شاید ہی کسی نے انکے وہ پلندے پورے پڑھے ہونگے ، سمجھنے کی تو بات ہی جانے دیں ۔ سائل سو فیصد اپنے وکیل پر اعتماد کے سہارے عدالت میں قانون کا سہارا لیتا ہے اور وکیل اکثر نہ صرف اپنے سائل سے منہ مانگی رقمیں بٹورتا رہتا ہے بلکہ جب چاہتا ہے مخالف پارٹی کو اس مجبور اور بے خبر سائل کا کیس بیچ دیتا ہے ۔ وہ سائل جو اپنے حق کی فتح کے لیئے انتظار میں ایک ایک دن کر کے اپنی زندگی کے قیمتی سال  گنوا رہا ہوتا ہے، اپنی صحت اپنا سکون ، اپنا پیسہ گنوا رہا ہوتا ہے، وہیں اسکا وکیل دھڑلے سے اپنا بینک بیلنس ، اپنی توند ، اپنے کوٹھی کا سائز ،اپنی زندگی کی رنگینیاں بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اسے حلال سے غرض نہیں مال سے غرض ہے۔  غور کیجیئے تو اس ساری واردات میں جس چیز کو ان واردتئے وکلاء نے استعمال کیا وہ کیا تھی ؟ وہ تھی زبان ۔ایک بیرونی زبان انگریزی میں اپنے لوگوں کی زندگیوں کو کبھی تل تل  سلگایا جا رہا ہے، کبھی دہکایا جا رہا ہے۔  چیف جسٹس صاحب ،قاضی القضاء صاحب 76 سال سے ہماری قوم کو اس زبان کی انگیٹھی پر  سلگانے والوں کو قرار واقعی سزا دیجیئے اور اس قوم کی اپنی قومی زبان کو اس کا درجہ اور حق دلوا کر اس زبان کے دھوکا جال سے ہمیں آزاد کروا دیجیئے، تو یہ قوم تاقیامت آپکی احسان مند رہے گی۔  ہر صوبے میں اس کے سائل کی مرضی کے مطابق اسے اپنی صوبائی زبان میں یا قومی زبان میں اپنے وکیل کو بات کرنے اور دستاویزات بنا کر دینے کا بھی پابند کیجیئے۔ تاکہ لوگوں تک انصاف بھی پہنچے اور پوری بات بھی پہنچے۔ اس زبان میں جو انکی ماں بولتی ہے، جو ان کا باپ بولتا ہے۔ جو ان کا استاد بولتا ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔

* بیاں ہوتی ہے۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


بیاں ہوتی ہے

لب نہ کہہ پائیں وہ آنکھوں سے بیاں ہوتی ہے
ہر محبت میں عقیدت یہ کہاں ہوتی ہے 

ہم نے محسوس کیا خود کو بھی بے بس اس جاء
والہانہ سی یہ زنجیر جہاں ہوتی ہے

دل کی دنیا کے ہیں دستور نرالے لوگو 
جو کہیں اور نہیں ہے وہ یہاں ہوتی ہے

کیا ضروری ہے اٹھے شور بلند و آہنگ 
بات الفاظ کے پیچھے بھی نہاں ہوتی ہے 

کچھ ملاقاتوں میں کھل جائیں حجابات تبھی
اصل کردار کی صورت بھی عیاں ہوتی ہے 

وہ تیری ذات کے آدھے کو مکمل کرتی
جسم کیساتھ جو پرچھائی گماں ہوتی ہے

ساتھ ممتاز ملے جسکو اگر من چاہا 
رات پھر اور بھی مخمور و جواں ہوتی ہے 
--------


منگل، 15 اگست، 2023

رپورٹ ۔ فرانس میں 14 اگست کی تقریب

اس سال بھی فرانس میں پاکستانی سفارتخانہ میں پرچم کشائی کی تقریب کا انعقاد روایتی جوش و خروش کیساتھ کیا گیا لیکن اس بار پاکستانی کمیونٹی کی سفارخانے کی تقریبات میں شرکت نے خوشگوار ریکارڈ قائم کیئے ۔
اس کی وجہ فرانس میں تعینات نئے سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب کی ملنسار حلیم طبع  اور دھیمی باوقار شخصیت ہے جو پہلی ملاقات میں ہی ہر ایک کو اپنے دل سے قریب محسوس ہوتی ہے۔ اسی سبب  سفارت خانے کے ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچی مرد و زن اور بچوں نے بھرپور انداز میں اس تقریب میں حصہ لیا ۔
پروگرام کا اغاز مقررہ وقت پر صبح دس بجے کر دیا گیا۔ فرانس میں چھٹی کا دن نہ ہونے کے باوجود پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت نے پروگرام کو یادگار بنا دیا۔ سب سے پہلے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب نے قومی ترانے کی گونج میں پرچم لہرایا۔
صدر و وزیراعظم پاکستان کے قوم کے نام پیغامات پڑھکر سنائے گئے۔ لیکن انگریزی زبان میں ان پیغامات کا سنایا جانا کیا مقصد رکھتا ہے ۔ کیونکہ انگریزی نہ تو فرانس کی قومی زبان ہے نہ پاکستان کی ۔ اس بات کا افسوس ہوا ۔ کہ یہ پیغامات جس ملک میں کوئی پروگرام ہو اس ملک کی زبان میں اور آسان اردو زبان میں ہونا چاہیئے ۔ تاکہ اسے سنانے کا مقصد ہمارے لوگوں تک پہنچ سکے۔ امید ہے اگلے کسی بھی پروگرام میں سفارتخانہ پاکستان اس بات کا خیال رکھے گا۔ بچوں نے ملی نغموں پر ٹیبلوز اور تقاریر پیش کیں۔  گلوکار ریاض جاوید نے ملی نغمے سنا کر حاضرین سے داد سمیٹی۔ پریس کونسلر دانیال عزیز صاحب اپنی مدت ملازمت کامیابی کیساتھ مکمل کر کے اپنی ذمہداریاں محترمہ سجیلہ نوید صاحبہ کو سونپ چکے ہیں ۔ جن کی کمیونٹی سے اس پروگرام میں پہلی باقاعدہ ملاقات بھی ہوئی۔ان سے ہم سب اچھی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ملنسار اور ہمدرد ذہین خاتون ہیں ۔ 
سبھی تعریفی خط وصول کرنے والے ادبی دوستوں کو دلی مبارکباد پیش کی گئی ۔ الحمدللہ ہم تمام ادبی تنظیمات نے شاز ملک صاحبہ کی قیادت میں جو تیرہ نکات کی ایک درخواست پیش کی تھی اس پر دانیال عزیز صاحب اور احسان کریم صاحب کی ذاتی کوششوں سے ہمارا تیسرا نقطہ منظور ہوا اور فرانس کی تاریخ میں پہلی بار ہماری ادبی خدمات کو تسلیم کیا گیا۔ عزت دی گئی اور اس پر تعریفی خطوط دیئے گئے ۔ شاز ملک صاحبہ کی ذاتی کوشش بھی لائق تحسین رہی ۔ ابھی بہت سا کام اس حوالے سے مزید ہونا ہے اور ان شاءاللہ ہم سب اس میں اپنی حیثیت کے مطابق کردار ادا کرینگے۔ پاک ایمبیسی کے منتظمین کا اور سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا۔ پروگرام کا اختتام بھی وقت مقررہ پر بارہ بجے کیا گیا ۔۔اس کے بعد مہمانوں کی تواضع گرما گرم حلوہ پوری نان چنے اور چکن تکہ اور چائے کافی سے کی گئی۔ یہ یادگار تقریب پاکستان کی سلامتی اور کامیابی کی دعاؤں پر اختتام پذیر ہوئی۔
پاکستان زندہ باد 🇵🇰💚
رپورٹ:ممتازملک.پیرس

تبصرہ۔انور کمال انور کی شاعری پر

شاعری کی نہیں جاتی بلکہ کروائی جاتی ہے ۔ہم جتنا چاہیں زور لگا لیں لیکن جب تک پروردگار اپنی مہربانی سے ہم ہر لفظوں کی ایک سریلی ترتیب نہیں اتارتا تو کوئی شعر وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس عطا کیساتھ ہر شاعر اپنے ارد گرد کے ماحول اور رویوں سے شدید متاثر ہوتا ہے وہ بات جو کسی عام فرد کے لیئے چٹکیوں میں اڑا دینے والی ہو وہی بات جب کسی شاعر کو پیش آتی ہے تو اس کے دل و دماغ کیساتھ چپک جاتی ہے اور جب تک وہ اسے شعر کے اوزار سے کھرج نہیں لیتا اسے سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔ یہی کیفیت ہمیں ابھرتے ہوئے شاعر انور کمال انور کی شاعری میں جا بجا دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی شاعری غم زندگی ، غم دوستی کیساتھ ساتھ وقت کی پلٹا بازیوں کو بھی بیان کرتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے ۔ ان کا کلام پڑھتے ہوئے جو شاعر نہیں ہیں انہیں بھی اپنے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انکی غزل
اشک الم ہیں دیدہ بیدار کے لیئے
مایوسیوں کی رات ہے فنکار کے لیئے 
ہی پڑھ کر دیکھ لیئے ۔ فیصلہ کرنا مشکل لگتا ہے کہ کس شعر کو اچھا کہیں اور کس شعر کو بہت اچھا کہا جائے۔ میری بہت سی دعائیں انور کمال انور کے لیئے۔ میں اللہ سے انکی کامیابیوں کے لیئےملتمس رہوں گی۔
والسلام
ممتازملک
(پیرس۔فرانس)
(شاعرہ ۔لکھاری۔کالمنگار۔ نعت گو۔ عزت خواں۔ بلاگر۔ ٹک ٹاکر)

منگل، 8 اگست، 2023

مصرع طرح ۔ تنقید کر کے دیکھتے ہیں اردو شاعری

مصرع طرح ۔۔
(اک آفتاب پہ تنقید کر کے دیکھتے ہیں)

پگھلتے ہیں یا ہمیں خاکستر یہ کرتا ہے
اک آفتاب پہ تنقید کر کے دیکھتے ہیں
 
کبھی کیا تھا کسی سوچ کے تحت تم سے
چلو اس عہد کی تجدید کر کے دیکھتے ہیں

ہمیں انوکھے تجربات سے محبت ہے
اسی ادا کو بھی تمہید کر کے دیکھتے ہیں

نشانے پر ہے سدا میری منزلوں کا پتہ
ہم اسکے تیر کی تائید کر کے دیکھتے ہیں

اثر بھی ہو گا مجھے اس کا کچھ گمان نہیں 
نگاہ نیک کی تاکید کر کے دیکھتے ہیں

سوائے ایک نئے زخم کے وہ کیا دیگا
بدوں سے اچھے کی امید کر کے دیکھتے ہیں

شگوفہ چھوڑتے ہیں وہ خبر کے نامے پر
گرفت ہونے پہ تردید کر کے دیکھتے ہیں 

انہیں بھی عقل سے ممتاز رب نوازتا ہے
ہم اپنے چھوٹوں کی تقلید کر کے دیکھتے ہیں
                  .......

سمندر انٹرنیشنل جرمنی کی جانب سے زوم آن لائن طرحی مشاعرہ ۔ 
اسحاق ساجد صاحب کی دعوت  پر ۔ 27/08/2023

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/