ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 30 اکتوبر، 2022

شرکستان۔ بہت دور نہ نکلنا/ کالم

    بہت دور نہ نکلنا
    شرکستان ؟
تحریر:
       (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان بھر میں بے دینی اپنے عروج پر ہے ۔ شرک ، جادو ٹونہ بے راہ وی عام ہے ۔ دین کی اور حق کہ بات کرنا واقعی ہاتھ پر جلتا ہوا کوئلہ لیکر چلنے کے مترادف ہو چکا ہے
اور یہ سب کچھ اس حکومت کی چھتر چھایا میں ہو رہا ہے جو ریاست مدینہ کا لولی پاپ دیکر بے عمل اور بے کردار جوانیوں کو اندھے کنویں میں جھونکنے کا ایجنڈا بڑے زور و شور کیساتھ پورا کر رہے ہیں۔ یقینا دجا۔لی آقا خوش ہوا ۔۔۔۔
 پہلے پورے تزک و احتشام کیساتھ ویلنٹائن ڈے کو اس ملک میں  گھسایا گیا ۔ ہر لڑکی کی عزت چوراہے پر رکھے گلاب کے گلدستوں  میں باندھ دی گئی ہے جسے ہر صورت کل کوڑے دان میں پہنچنا ہی ہے ۔ ہر لونڈا دوسرے کی بہن بیٹی کو تاڑنے نکلتا ہے اور اس کی اپنی بہن کسی اور کے لیئے نوالہ تر بننے کی تیاری میں ہوتی ہے کیونکہ جو آپ کرنے جا رہے ہیں اسے آپ کے گھر بھی پہنچنے میں دیر نہیں لگتی اب یہ آپ خود جانتے ہیں یا آپکا خدا کہ آپ کیا اچھا کرنے کا ارادہ لیکر نکلے ہیں یا کیا برا کرنا چاہ رہے ہیں۔
کبھی چوکوں میں مسلمانوں کی عزتوں سے کھیلنے والوں کے بت آویزاں کیئے جاتے ہیں تو کبھی غیر مسلموں کو خوش کرنے کیلئے انکے بتوں کے چڑھاوے بڑے مزے لیکر تناول فرمائے جاتے ہیں بلکہ آ ج کی اس خوار نسل یا پوری قوم  کو یہ تک پڑھنے اور جاننے کی توفیق نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی بھی نام کی کوئی بھی چیز کھانا حرام ہے ۔ لیکن ہمیں اس سے کیا؟ کہیں رواداری کے نام پر کہیں فیشن کے نام پر کہیں بین الاقوامیت کے نام پر جس دین کی پہچان  ہمارے نام سے جھلکتی  ہے ہم اسی کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں ۔ اور یہی وہ خسارا ہے کہ جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہو رہا کہ ہم اٹھا رہے ہیں ۔ ہمارے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے ہم غیر مسلموں کیساتھ انکی خوشیوں میں شریک نہ ہوں یا انہیں اس پر نیک خواہشات نہ دیں ۔ مسئلہ یہ ہے اس سب میں ہمارے اپنے مذہب کو مذاق نہ بنا لیا جائے ۔ ہر مذہب کا اپنا اپنا دائرہ کار ، طرز زندگی اور قاعدے اور ضابطے ہوتے ہیں ۔ بالکل ویسے ہی جیسے گاڑی چلانے کے لیئے آپکو گاڑی چلانے کی تربیت اور گاڑی ہی چلانے کا لائسنس لینا ہو گا اس کے لییے آپ موٹر سائیکل یا جہاز چلانے کا لائسنس  پیش نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ وہ اجازت نامے گاڑی چلانے کے قواعد و ضوابط کو پورا نہیں کرتے ۔ سو اپنے مذہب کو ماننے کا عملی اظہار اس کے اصولوں کی پاسداری کیساتھ ہوتا ہے۔ زبانی کلامی باتوں سے آپ نہ تیتر رہتے ہیں نہ بٹیر۔ 
پھر "رے" پارٹیوں کو اپر کلاس سے رائج کیا جانے لگا جہاں منشیات کا ہر برانڈ اور بے راوی کا ہر طریقہ پوری مادر پدر آزادی کیساتھ پروموٹ کیا گیا ۔ پھر نور مقدم اور سارہ جیسی لڑکیوں کے انجام  رلانے کو مثال بن جاتی ہیں ابھی ایسے کتنے ہی عزتوں کے جنازے ہونگے جو ان رئیس زادوں اور حرام خوروں کے فارم ہاوسز سے ڈائیریکٹ بنا کفن کے بنا نماز جنازہ کے ان کے باغات کی مٹی کے نیچے بچھائے گئے ہونگے ۔  جن کے والدین آج بھی سوچتے ہونگے کہ انکی بیٹی جانے کس کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی ۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں  جو اس چنگل میں کبھی ماڈل بننے کے لیئے یا باس کو خوش کرنے کے لیئے یا ملازمت کے جھانسے میں یا پھر تگڑی رقم لیکر اپنے شوق پورے کرنے کے لیئے  بدن تھرکانے کو پہنچی ہونگی ۔ لیکن یہ بھول کر کہ اس شیطانی راستے پر آنے کی جانب تو دروازہ کھلتا ہے لیکن یہاں سے واپسی پر دروازہ کبھی نہیں کھلتا۔ 
ایسے میں تازہ مثال تعلیمی اداروں سے لیکر مخصوص طبقے کی سرپرستی میں اب ہیلوون کا دن منانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ 
  اب ہیلو ون کا وہ دن جسے مردوں اور جہنم کیساتھ وابستہ کیا جاتا ہے ۔ اسے ڈارامہ ٹائز اور گلیمرائز کر کے یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ جہنم تو ایک سیر گاہ ہے اس کا کیسا خوف۔  یہاں تو ہم مٹر گشتی کرنے جائیں گے ۔ کیا یہ وہی نسل تیار کی جا رہی ہے جس کے بارے میں ہم پڑھتے اور سنتے تھے کہ آخری زمانے کی ساری مخلوق پیدا ہی جہنم کا ایندھن بنانے کے لیئے ہو گی ؟ کیونکہ انکے لیئے جہنم عبرت کا مقام نہیں بلکہ ایک تفریح گاھ سمجھی جائے گی۔ ایسی مشرکانہ رسموں کو ہمارے ملک میں ایک نام نہاد ہی سہی اسلامی معاشرے میں رائج کرنے کی کوششوں کو کیا سجھا جانا چاہیئے؟ حکومتیں کہاں سوئی ہوئی ہیں علماء جو ملک سے باہر یورپ میں جون جولائی میں ٹھنڈا کر کے اسلام پھیلانے کو مٹر گشت کرتے ہیں یہ ان کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کی سچی تصویر پوری ایمانداری کیساتھ پیش کریں ۔کون دیگا اس قوم کی بے راہ روی کا جواب؟
                          ●●●    


ہفتہ، 29 اکتوبر، 2022

قرضدار/ کوٹیشنز ۔


قرضدار

تم کیا سمجھتے ہوں تم اپنے والدین کو پالتے ہو؟
نہیں۔۔۔ انہوں نے جو تمہیں پالا تم صرف ان کا  قرض چکانے کی کوشش کرتے ہو
 اور قرضدار کی آواز اونچی ہو، اچھا نہیں لگتا۔ اس لیئے اپنے والدین کے سامنے اپنی آوازیں نیچی رکھا کرو۔ کیونکہ انکے دل کانچ سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں ۔ خیال رکھا کرو۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
   (ممتازملک ۔پیرس)

اتوار، 23 اکتوبر، 2022

قیامت اور کیا۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں



قیامت اور کیا

دوست اخلاص سے خالی ہیں تو
 رشتے وفاوں سے عاری۔ 
ہر روز یہ قیامت بن کر ہمارے دلوں پر ٹوٹتے ہیں اور 
اب بھی ہمیں کسی اور قیامت کا انتظار ہے ؟
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک ۔پیرس)



پیر، 10 اکتوبر، 2022

روٹی سے سوٹی تک/ کالم


       روٹی سے سوٹی تک

انسان ہو یا کوئی اور جاندار ۔ رزق پر اسکی زندگی کا دارومدار ہے ۔ ہر جاندار  رزق کی تلاش میں اپنی عمر کا بیشتر وقت گزار دیتا ہے ۔
دنیا کا ہر جاندار پیٹ بھرنے کے بعد بے ضرر ہو جاتا ہے پرسکون ہو جاتا ہے ۔ مطمئن ہو جاتا ہے ۔
 لیکن انسان وہ جاندار ہے کہ پیٹ بھرنے کے بعد یہ دراصل خطرناک ہوتا ہے ۔ یہ جب تک بھوکا رہیگا جھکا رہیگا ۔ بےضرر رہیگا، لیکن جہاں اس کا پیٹ بھرا وہیں اس کے دماغ کی شیطانی رگیں پھڑکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کا اگلا مرحلہ اپنی حفاظت کے لیئے چھت کی تلاش پھر تعیش  اور اس کے بعد ہوتی ہے خود کو سب سے برتر منوانے کی جدوجہد کا آغاز۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی کی 95 فیصد خوشیوں کا انحصار مال و دولت پر ہوتا ہے ۔  ہماری  زندگی کے صرف  5 فیصد معاملات وہ ہوتے ہیں جنکا تعلق ہمارے جذبات سے ہوتا ہے لیکن یہ پانچ فیصد جذبات کا زہر اتنا منہ زور ہوتا ہے کہ زندگی کی مال و دولت سے بھری ہوئی دودہ کی بالٹی کو پل بھر میں برباد کر سکتا ہے۔ آج  آپ کسی پر بڑے سے بڑا احسان کر دیں بھلے سے اس کی جان بچا لیں لیں پھر بھی سب سے بڑا محسن اسی کو کہا جاتا ہے جو انسان آپکی مالی مشکلات کو کم کرنے میں آپکی مدد کرتا ہے وہی آپ کا سب سے بڑا محسن مانا جاتا ہے ، ہر ایک کی نظر میں ، ماسوائے اس کے جس پر آپ نے یہ احسان کیا ہو گا ۔ اس کی مہربانی کا بدلہ آپکی ممنونیت کی صورت میں ظاہر ہونا چاہیئے نا کہ آپ اپنی احسان فراموشی سے خود کو جذباتی زہر کا قطرہ بنا کر اس بات کو ثابت کر دیں جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو اور بچنے کی کوشش کرو۔
ہم اپنے جن عزیزوں کو دوستوں کو آگے بڑھانے کے لیئے اپنے کندھے پیش کرتے ہیں وہی اپنا قد بڑھانے کے بعد ان کندھوں کو توڑنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے آج کے حالات بھی اسی قسم کی صورتحال کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پہلے بھوک مٹانے کے لیئے دوسرے کے حقوق جان مال کھانا خود اپنی لغت میں اپنے ہاتھوں سے جائز لکھ لیا جاتا ہے تو اس کے بعد سر چھپانے کی جدوجہد میں محنت سے جان چھڑا کر قبضہ گیری اور رسہ گیری کو اپنا خودساختہ حق سمجھ لیا جاتا ہے ۔ جس نے جسے انگلی پکڑائی صاحب چال نے جھٹ سے اس کا پہنچہ پکڑنے میں دیر نہ لگائی ۔ کہیں آنسو بہائے گئے، کہیں قدموں میں دوپٹے گرائے گئے، اور کہیں پگڑیاں فرش پر بچھا دی گئی ہوں، کہیں ترلے منتیں وعدے وعید اور قسمیں اٹھائی گئی ہوں کتنی ہی لکھا پڑھی کی گئی ہو.
 غالبا خود کو سب سے زیادہ ضرورت مند ہی نہیں معتبر ثابت کرنے کے لیئے بھی کسی ڈرامے سے گریز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سامنے والا نرم دل بااختیار دار شخص بکرا بن کر آپکے دھوکے کی چھری کے نیچے ایک بار آ جانا چاہیئے بس ۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ ہو گا وہ اس کے کیا شاید ابلیس لعین کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا ۔ نمک حرامی کی وہ وہ مثالیں قائم کی جائیں گی اور احسان فراموشی کے وہ وہ ریکارڈ ٹوٹیں گے کہ نیکی و امداد کرنے والے کے چودہ طبق روشن ہو جائینگے ۔ 
لوگ پیٹ بھرنے کے بعد صاحب اختیار ہونے اور اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں وہ قیمت چاہے انہیں اپنی عزت کی صورت ادا کرنی پڑے یا کسی رشتے کی موت کی صورت چکانی  پڑے بس اختیار کی سوٹی ان کے ہاتھ لگنی چاہیئے ۔ لیکن ایک سوٹی ایک لاٹھی پروردگار کی ہوتی ہے جب وہ چلتی ہے تو بڑے بڑے سوٹیوں والے برج الٹتے ہوئے یہ دنیا ہمیشہ سے ہی دیکھتے آئی ہے ۔ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں 
اسے یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ اگلی باری اس کی بھی ہو سکتی ہے کہ ہر چڑھتے سورج کا اترنا تو بہرحال مقدر ہوتا ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہر شخص دیوانہ وار روٹی سے سوٹی تک کے سفر میں دیوانہ وار بھاگے چلا جا رہا ہے ۔ اخلاقی دیوالیہ پن کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی ۔ 
                           ●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/