ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 13 اکتوبر، 2020

● فرانس میں اردو کا سفر/ کالم

      

       فرانس میں اردو کا سفر
           تحریر:  (ممتازملک.پیرس)





اردو زبان کا سفر فرانس میں اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب فرانس کے شہر ماغسائی میں پیدا ہونے والے نامور ماہر لسانیات اور ماہر ہندویات 
 گاغساں دے تاسے ( 20 جنوری 1794ء تا 2 ستمبر  1878ء  ) نے 1838 ء  میں ہندوستانی ادب کی تاریخ کے نام سے   اردو ادب کی تاریخ فرانسیسی زبان میں  مرتب کی اور کئی  اردو مجموعات کے فرانسیسی زبان میں تراجم کیئے اور  فرانس میں اس  زبان کی داغ بیل ڈالی ۔ اسی سال انسٹیٹیوٹ نیسونال دے  لونگ اے سیویلیزاسیوں اوغیانتال (INLCO) کی بنیاد رکھی گئی ۔ جہاں دوسری زبانوں کیساتھ اردو زبان بھی پڑھائی جانے لگی ۔ آج بھی اردو زبان کا اعلی سطح کا واحد ادارہ یہی انسٹیوٹ ہے ۔ جہاں ہر وقت دو اساتذہ جس میں ایک ایسو ایٹ پروفیسر ہوتا ہے اور ایک لیکچرر تعینات رہتے ہیں۔ جن کا تعلق عموما پاکستان سے ہوتا ہے ۔ 
گاغساں نے اس  زمانے میں تین جلدوں پر مبنی ہندوستانی ادب کی تاریخ کے عنوان سے فرانسیسی زبان میں سب سے پہلے اردو ادب کی تاریخ لکھی ۔ جبکہ اس وقت تک خود اردو زبان میں بھی ایسا کوئی تاریخی مواد موجود نہیں تھا ۔

فرانس میں اردو زبان کی ضرورت کا احساس پاکستانی نئی نسل کو اپنے کلچر اور تہذیب کیساتھ جوڑے رکھنے کی ایک شعوری کوشش تھی جسے یہاں والدین نے بڑی محنت کیساتھ نبھانے کی کوشش کی ۔ کچھ پاکستانیوں نے فرانس میں غیر سرکاری  طور پر مساجد اور اداروں میں بھی اردو زبان کی کلاسز کا اجراء کیا ہے ۔ جہاں ہر عمر کے بچے زبان سیکھنے کے لیئے آتے ہیں ۔ 
 یہ کوششیں پندرہ سال کی عمر تک تو ممکن تھیں لیکن اس کے بعد فرانس کے تعلیمی نظام میں اداروں اور سکولوں کے نظام الاوقات صبح 8 بجے سے لیکر تقریبا شام 5 بجے تک ہوتے ہیں جس میں بچوں کے آنے جانے کا دو سے تین گھنٹے کا دورانیہ مذید شامل کر دیا جائے تو ان کے پاس گھر میں سوائے رات کو کھانا کھانے اور سونے کے کوئی وقت نہیں بچتا ۔
 اس نظام الاوقات کے شروع ہونے کے بعد کم ہی بچے شوق سے لکھنے اور پڑھنے کے لیئے اردو کو وقت دے پاتے ہیں ۔ جس کے سبب وہ اردو بول تو لیتے ہیں لیکن لکھنے پڑھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں 
لیکن یہی بچے بڑے ہو کر اب اپنے بچوں کیساتھ اردو میں بات کرنا چاہتے ہیں  
 تاکہ وہ اظہار کی اس لذت کو محسوس کر سکیں جو صرف اور صرف اپنی ہی زبان میں محسوس کی جا سکتی ہے ۔۔ یاد رہے کہ فرانس انتظامی طور پر ریجنز میں تقسیم ہے۔ اس کے (26 )چھبیس ریجنز ہیں ۔ ال دو فغانس کے ریجن میں اکا دکا  ہائی سکولز میں بھی اردو کو اختیاری زبانوں کے مضامین میں شامل کیا جا چکا ہے ۔۔ 

ہماری پہلی نسل کی شادیاں جب مختلف ممالک کے لڑکے لڑکیوں کیساتھ انجام پائیں یا پاکستان سے بیاہ کر لائے گئے تو زبان کی ضرورت نے سر اٹھایا ۔ کیوں کہ انہیں اپنے شریک حیات کی زبان اور کلچر سے آگاہی اپنے بچوں کی پرورش اور شناخت کے لیئے اہم لگنے لگی ۔ 
اس کے لیئے انہوں نے اپنے شریک زندگی پر انحصار کرنے کے بجائے باقاعدہ طور پر اردو سیکھنے کے لیئے یونیورسٹی میں داخلے لیئے۔ جہاں دو تین اور چار سالہ اردو زبان میں  سرٹیفیکیٹ اور ڈپلومہ کروایا جاتا ہے ۔ فرانس میں پیدا ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کے علاوہ یہاں یورپیئن ، فرنچ، عرب ، افریقی خواتین  جو پاکستانی مردوں سے شادی کر چکی ہیں اردو زبان سیکھنے آتی ہیں ۔ تاکہ وہ اپنے شوہروں کیساتھ گونگی زندگی کے بجائے ایک بولتی اور  متحرک ساتھی کا کردار ادا کریں ۔ یا وہ فرانسیسی اور دیگر اقوام کے لوگ جو پاکستانیوں کیساتھ کام کرنا چاہتے ہیں یا مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے خود کو پاکستان کے ساتھ جڑا محسوس کرتے ہیں وہ بھی یہ زبان سیکھنا چاہتے ہیں ۔  اردو سیکھنے کی وجہ سے خواتین پاکستانی تہذیب کو بھی تیزی سے اپنانے لگتی ہیں کیونکہ جیسے  ہر زبان اپنی تہذیب اور ثقافت رکھتی ہے اسی طرح اردو بھی اپنے ساتھ بیحد حسین ثقافت اور رکھ رکھاو لیکر آپکی زندگی میں داخل ہوتی ہے ۔ میں بہت حیران ہوئی جب میری بوتیک پر کچھ عرب اور افریقی خواتین میرا اصل وطن پوچھتیں اور پاکستان کا نام سن کر مجھ سے ٹوٹی پھوٹی گلابی اردو میں بات کرنے کی کوشش کرتیں ۔ پوچھنے پر بتاتیں کہ ہم نے کسی پاکستانی سے شادی کی تھی شادی تو چلی یا نہیں چلی لیکن ہمیں اردو سے شناسائی بلکہ محبت دے گیا۔
 کیونکہ اردو بے حد مترنم زبان ہے ۔ اس زبان کے ساتھ وہ ہمارا پہناوا بھی پسند کرنے لگیں ۔ اپنے بچوں کو بھی اردو  سیکھنے کی ترغیب دیتیں ۔ جبکہ وہ اپنے شوہروں کو چھوڑ بھی چکی تھیں لیکن اردو کو نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں ۔
کچھ خواتین و حضرات نے بتایا کہ ہم بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں وہیں سے ہندی کے نام پر انہیں یہ اردو سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ۔ یہ سچ ہے کہ نہ صرف فرانس بلکہ ساری دنیا میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہندی کہہ کر ہی سہی بھارتی سنیما  نے اردو کو گھر گھر تک پہنچانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ وہ کردار جو ہماری پاکستانی حکومتوں ، فلم انڈسٹری ، سفارتخانوں  اور عوام کو ادا کرنا چاہیئے تھا کیونکہ ہم اس زبان کی وراثت اور قومی رابطہ زبان ہونے کے سب سے بڑے دعویدار بھی ہیں ۔ 

سال  2015ء میں مائیگرنٹ کرائسس کے تحت  آنے والے مہاجرین کے بڑے ریلے میں فرانس میں بھی تقریبا دس لاکھ کے  قریب مہاجرین کا داخلہ ہوا ۔ فرانس کے  مضمون نگار شاہ زمان حق (جو انلکو  پیرس میں شعبہ جنوبی ایشیا اور ہمالیہ 
 ڈیپارٹمنٹ کے کو ڈائیریکٹر ہیں )
لکھتے ہیں کہ ان مہاجرین سے انکے مسائل کے سلسلے میں جب انہیں تجزیہ کرنے اور رپورٹ بنانے  کا موقع ملا تو وہاں پریشان کن حالات میں ان پاکستانی ، افغانی، بنگلہ دیشی مہاجرین کے لیئے اردو  سب سے اہم رابطہ زبان ثابت ہوئی جو ان کے اجنبیت کے احساس کو کم کرنے کا باعث بنی۔ 
ویکیپیڈیا پر اس وقت فرانس میں اردو بولنے والوں کی تعداد بیس ہزار درج ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ فرانس میں اسوقت پاک سفارتخانے کے مطابق تقریبا ایک لآکھ پچیس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی آباد ہیں  ۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی کسی بھی علاقے سے ہوں آپس میں ملتے ہیں تو ان کی سب  سے پہلی ترجیح اردو زبان میں ہی بات کرنا ہوتی ہے ۔ وہ پڑھے لکھے ہوں یا نہ ہوں اردو بولنا پسند کرتے ہیں ۔ اور ان سب میں سے 90 فیصد افراد بہت اچھی یا کم اچھی اردو بول سکتے ہیں ۔ اور پاکستانی نوجوانوں سے شادیاں کرنے والے نوجوان کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہیں اپنے شوہر و بیوی کے ساتھ اس کی زبان میں بات کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیئے ڈپلومہ کورسز کرتے ہیں اور بھارتی فلموں سے بھی اردو سیکھتے ہیں ۔ اور کافی اچھی اردو بولتے ہیں ۔ اس لحاظ سے فرانس میں اردو بولنے والوں کی تعداد صرف پاکستانی لحاظ سے بھی دیکھی جائے تو کم از کم ایک لاکھ کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر اس میں افغانی (جو کہ یہاں ہجرت کر کے آنے والوں میں تعداد میں پہلے نمبر پر ہیں خوب روانی سے اردو بولتے ہیں۔)کو ملاکر نیپالی ، بھارتی موریشیئنز ، بنگلہ دیشی ، مڈگاسکر والوں شامل کر لیا جائے جو کہ اردو کو رابطے کے لیئے پہلی ترجیح دیتے ہیں ۔اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانیوں کے ساتھ  بیاہتا افراد کی تعداد جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطے کے لیئے یا پاکستان کے دورے کے لیئے یہ زبان سیکھتے ہیں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد کم ازکم دو سے ڈھائی لاکھ تک باآسانی چلی جاتی ہے۔ 
یہاں پر آن دیسی ٹی وی کے نام سے ویب ٹی وی کا آغاز چند سال قبل کیا گیا ہے ۔ جو کہ وسائل کی کمی کے سبب ابھی تک 
کیبل پر نہیں جا سکا۔ لیکن کام کر رہا ہے ۔ یہاں کوئی اردوریڈیو یا باقاعدہ ٹی وی چینل موجود نہیں ہے ۔ جبکہ مقامی طور پر اردو اخبارات نہیں چھپتے  لیکن ویب اخبارات  اردو زبان میں موجود ہیں جیسے کہ ڈیلی پکار ، دی جائزہ ، تاریخ انٹرنیشنل ، گجرات لنک ، آذاد دنیا اور بہت سے ۔۔۔یہاں کتابوں کی چھپائی بہت مہنگی پڑتی ہے اور اس کے پاکستانی سپانسرز بھی میسر نہیں ہیں اس لیئے لکھنے والے اپنی جیب سے پاکستان سے ہی کتب چھپواتے ہیں ۔ 
پاکستانیوں  کی کئی ادبی تنظیمات یہاں اپنے پروگرامز مرتب کرتی رہتی ہیں جن میں شرکاء کی مخصوص تعداد شرکت کرتی ہیں ۔ ان تنظیمات میں دو دہائی پہلے حلقہ احباب کے نام سے ادبی تنظیم کام کیا کرتی تھی جو کہ ابھی فعال نہیں ہے  جبکہ اس کے بعد پیرس ادبی فورم ، اہل سخن ، لے فم دو موند اور راہ ادب  نامی تنظیمات یہاں ادبی اور کلچرل پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں  جن میں کتابوں کے اجراء ، مشاعرے ، کانفرنسز ، اور شعراء کرام اور لکھاریوں  سے ملاقاتیں  شامل ہیں ۔ یہاں اردو کے حوالے سے خوبصورت کام تخلیق ہو رہا ہے ۔ جس میں شاعری ، کالمز ، افسانہ ، ناول  سبھی کچھ شامل ہے ۔ اردو لکھنے والوں میں خواتین میں ممتازملک  ، شازملک ، شمیم خان اور سمن شاہ کے نام نمایاں شامل ہیں  جبکہ 
مرد لکھاریوں میں ایاز محمود ایاز ، عاکف غنی ، آصف جاوید آسی، عظمت گل ، سرفراز بیگ ، اشفاق،  مقبول الہی شاکر ، ممتاز احمد ممتاز ، وقار بخشی نمایاں نام ہیں ۔ اور یہ سبھی خواتین و حضرات  اہل کتاب ہیں ۔ جبکہ اسکے علاوہ بھی نئے لکھنے والے اس میدان میں قدم رکھ رہے ہیں اور ان کی کتب آنے کا ابھی انتظار ہے ۔ 
ان سب باتوں کے علاوہ ابھی ہماری  اردو زبان کے لیئے سرکاری طور پر باقاعدہ زبانوں کے مضامین میں شامل کرانا ، کتابوں کی دکانوں پر کسی ریک کی تلاش ، مقامی اردو ریڈیو اور ٹی وی چینل ،اور مقامی طور پر اردو پروگراموں کی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے ۔ جس کے لیئے ہم کوشاں ہیں۔      
                            ۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/