ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 18 نومبر، 2019

سینٹورس کی سیر/ رپورٹ



سینٹورس اسلام آباد
کی سیر
(تحریر:ممتازملک۔پیرس)
کئی دنوں سے سینٹورس کا نام سن سن کر اسے دیکھنے کا اشتیاق ہو چلا تھا لیکن بھلا ہو دھرنے والوں کا کہ اس طرف جانے والے میٹرو کی بندش  سے اور کبھی اپنے دوسرے پروگرامز کی مصروفیات کے سبب ہم جا نہ پائے ۔ لیکن 17 نومبر 2019ء بروز اتوار یہ شوق بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔
میٹرو سے ہی ہم سب پمس اسلام آباد  کے سٹاپ پر اس شاندار سی بلڈنگ کے سامنے اترے۔ باہر سے واقعی بلڈنگ بہت خوبصورت تھی ۔ لیکن اس کے سیکیورٹی انتظامات اور بھی اچھے تھے۔ یہ بالکل ایک بین الاقوامی سطح کا  کثیر المنزلہ شاپنگ مال ہے ۔ جس میں بہت سے انٹرنیشنل برانڈز بھی موجود ہیں ۔ کھانے پینے ، بوتیکس ، کراکری ، جیولری ،  بچوں کی تفریحات غرضیکہ ہر شے موجود ہے ۔ اکثر اشیاء کی قیمتیں یورو،  پاونڈز اور ڈالرز کے متبادل رکھی گئی ہیں جو کہ عام آدمی کی تو پہنچ سے باہر ہیں ۔ پھر بھی ہم 5، 6 ہزار روپے لٹا ہی آئے 🤔😜
مال اتنا بڑا ہے کہ ایک ہی دورے میں اس کی سیر ممکن ہی نہیں ہے اور شاپنگ وہ تو کئی دوروں میں بھی ناممکن 😜
پھر بھی مہذب سے ماحول میں سکون سے گھومنا بہت اچھا لگا ۔ سب سے اچھی بات یہ کہ یہاں اکیلے نوجوانوں کا بنا کسی خاتون کے ساتھ  کے داخلہ منع ہے۔ جس کے سبب ٹھرکیوں اور ٹائم پاس لوگوں سے فیملیز محفوظ رہ کر شاپنگ کر سکتی ہیں ۔ ویسے  میرا بس چلے تو میں یہ حکم سبھی بازاروں پر لاگو کر دوں ۔ ماسوائے ان بازاروں کے جہاں مردانہ شاپنگ ہوتی ہے۔
ایک اور بات، جتنا بڑا مال ہے اتنے ہی یہاں سوٹڈ بوٹڈ خواتین و حضرات کے چور گروہ بھی گھوم رہے ہوتے ہیں ۔ لہذا جب بھی کہیں جائیں تو چوروں اور جیب کتروں اور خود سے ٹکرا کر گزرنے والوں کو نوٹس کر کے "اپنے سامان کی آپ حفاظت" والا پیغام اپنے ذہن میں رکھیں ۔
ایک ہی منزل پر گھومتے ہوئے تھک گئے تو کرکرے اور کوک لیکر باہر نکلے اور خوبصورت فضاء میں سینٹورس کے باہر بنے بنچز پر بیٹھ کر دعوت اڑائی۔ ایک پیاری سی بلی ہم سے خوامخواہ ہی مانوس ہو گئی ۔ اور ہمارے ساتھ ساتھ ہی ہمارے اردگرد گھومتی رہی ۔ اور  ہم اسے کرکرے پیش کریں تو موصوفہ کو پسند نہ آئے ۔ اس کی پسند کا ہمارے پاس کچھ تھا نہیں ۔ پیسوں سے اسے شغف نہ تھا ورنہ کہتے جا بہن کچھ پیسے لے اور جا کر کچھ کھا لے 😁
یوں خوب تھک کر اور پھر آنے کا سوچ  کر میٹرو سے واپسی کی راہ لی۔
ایسے مالز پاکستان سے باہر اور ہمارے ہاں یورپ میں تو عام ہیں لیکن پاکستان اور خصوصا راولپنڈی اور اسلام آباد میں خوبصورت اضافہ ہیں ۔ جسے دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ بس ذرا سستا بھی ہو جائے تو کیا ہی بات ہے ۔
پیش ہیں چند تصاویر




بدھ، 13 نومبر، 2019

اعتدال پرملال / کالم



          اعتدال پرملال
    (تحریر:ممتازملک. پیرس)
       


اللہ حسین ہے اور وہ حسن کو پسند فرماتا ہے ۔ حسن کیا ہے ؟ حسن دیکھنے والے کی آنکھ کا ایک زاویہ ہے ، ذہن  کی کوئی اختراع ہے یا اعتدال اور توازن کا کوئی امتزاج ۔ تو یقینا یہ اعتدال و توازن کے میل کا ہی نام ہے ۔ اس کا ثبوت  اللہ کا اپنی مقدس کتاب میں بار بار اعتدال پر رہنے کا حکم ہے ۔ جب تک ہم نے اس حکم کی پاسداری کی ہماری زندگیوں میں سکون رہا ۔ جیسے ہی ہم اس حد کو پار کرتے ہیں، بے سکونی ، پریشانیاں اور جرائم ہماری زندگی میں ناگ کی طرح پھن پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے بجلی کے سوئچ کا احتیاط اور حفاظتی طریقے سے سوئچ بورڈ میں لگایا  جانا اس کے کرنٹ کو بحفاظت ہمارے آلات کو کام میں لاتا ہے تو وہی سوئچ بورڑ  اگر ڈائریکٹ  انگلیوں سے یا بے احتیاطی سے چھو لیا جائے تو وہی کرنٹ منٹوں میں کسی بھی چیز کو جلا کر خاکستر کر دیگا ۔ 
سمندر جب تک اپنی حد کے اندر رہتا ہے ہماری زندگیوں کے لیئے نعمتیں پالتا ہے جوں ہی یہ   اپنی حدود سے باہر نکلتا ہے تو سونامی برپا کر دیتا ہے ۔ جو ہر شے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ یہ ہی حال ہمارے رشتوں کا بھی ہے ۔ رشتے جب جائز حدود سے باہر جانے لگتے ہیں تو ذلت و تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔
مشرقی معاشروں میں جہاں اب آذاد خیالی کا چلن اس قدر عام ہو چلا ہے کہ اکثر برائیوں کو بھی کہیں فیشن اور کہیں مجبوری سمجھ کر ،کہیں ضرورت اور کہیں جدت سمجھ کر قبولیت کی  سند عطا کی جا رہی ہے . ہمارے معاشرے میں جہاں ہم مذہب کا دکھاوا بھی کرتے ہیں اور نیکی کا زبانی پرچار بھی خوب زوروں پر ہوتا ہے وہاں اب حرمت کی بات کرنا یا اللہ تعالی کی بتائی ہوئی حدود کا ذکر کرنا بھی گویا اپنے گلے جنجال ڈالنے والی بات بن چکی ہے . پہلے جہاں گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین و حضرات بے راہ روی اور ناجائز رشتوں کے عذاب میں مبتلا سمجھے جاتے تھے وہاں تو اب عام گھریلو خواتین  اپنے گھروں کے دروازوں میں شوہروں کے دوستوں اور ملاقاتیوں کو یوں بے دھڑک تن تنہا داخل کر رہی ہیں کہ ان کے کردار پر کوئی بھی دھبہ باآسانی قبول کیا جا سکتا ہے . . پردہ تو چھوڑیئے اب تو گھروں میں ہی باقاعدہ قحبہ خانوں جیسا ماحول بنتا جا رہا ہے .
ملک میں ہڈ حرام اور کام چور مردوں کا بڑی تعداد میں  اضافہ ہو چکا ہے .
جو کہیں بہن بھائیوں کا مال نچوڑ کر اس پر عیش کر رہے ہیں تو کہیں اپنی بیوی و بیٹیوں کو پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بنا کر ملائی کھا رہے ہیں . ایسے لوگوں کو پہچاننا قطعی مشکل نہیں ہے وہ مردوزن جو بنا کسی کاروبار یا روزگار کے بہترین پہننے کے مرض میں مبتلا ہیں ، بہترین ہوٹلوں اور کھانوں کے شوق میں مبتلا ہیں ، ہر دم بے مقصد و بیکار پائے جاتےہیں لیکن اس کے باوجود موج اڑا رہے ہیں
تو جان جائیے کہ یہ سب حرام کے راستوں سے حاصل کیا جا رہا ہے .
ان کی اولادیں انکی خوشی و رضا سے ہی گناہوں کے گٹر میں غوطے کھا رہی ہیں . ان میں اکثر کسی کے قتل اور ہنگامے کی خبر آتی ہے تو حیران مت ہوں یہ کسی غیرت کا شاخسانہ ہر گز نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی جلن یا مال میں حصہ داری کے کم ملنے کا نتیجہ ہوتا ہے .  ان کے نزدیک عزت تو گھر کی مولی ہے اسے کسی بھی وقت اگایا جا سکتا ہے جبکہ پیسہ ان کا ایمان ہے وہ کہیں سے آئے، کسی بھی قیمت پر آئے بس اس کا راستہ کھلا رہنا چاہیئے.۔۔
اس لیئے ضروری ہے کہ زندگی کو اعتدال پر لائیے ورنہ یہ بس ملال ہی رہ جائے گی ۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔

لٹیرے معالج/کالم

     لٹیرے معالج 
(تحریر: ممتازملک.پیرس)
پاکستان میں جہاں اور بہت سے شعبوں میں زبوں حالی کا دور دورہ ہے تو وہیں کئی ایسے پیشے بھی اس تباہی کا شکار ہو چکے ہیں جن کا مقصد خالصتا انسان کی فلاح و بہبود پر مبنی تھا ۔ جیسے کہ ایک  شعبہ طب یعنی مسیحائی ۔ ایک معالج اپنی تعلیم اور تربیت کے کئی مراحل میں انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کی قسمیں  کھاتا ہے ۔ لیکن معالج یعنی ڈاکٹر بنتے ہی اس میں نجانے کہاں سے ایک قصاب کی روح  بیدار ہو جاتی ہے ۔ وہ ایک کاروباری کی طرح ایک بیمار کو اپنا گاہگ بنا لیتا ہے ۔ جس کی نظر صرف گاہگ کی جیب پر ہوتی ہے ۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنی پڑھائی کے خرچے کے بدلے لوگوں کی کھالیں اتار کر فروخت کرنا شروع کر دے ۔ تو دھوکے سے معصوم  اور لاچارلوگوں کو نام نہاد بیماریاں بتا بتا کر  انکے جگر ، گردے، آنکھیں اور جانے کیا کیا بیچنا شروع کر دیتا ہے ۔ مسیحا نما یہ قصاب اپنے سٹیٹس کو کے لیئے ، اپنے معیار زندگی کی بلندی کے جنون میں انسانوں کیساتھ قربانی کے دنبوں جیسا سلوک کرتا ہے ۔ نہ انہیں تڑپتے ہوئی ماوں کے ہاتھوں دم توڑتے بچے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اولاد کو جنتی ہوئی موت کی آغوش میں جاتی ہوئی ماں دکھائی دیتی ہے ۔ نہ اسے جوان لوگوں کے ہاتھوں ان کی زندگی کی ڈور چھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے نہ ہی بوڑھوں کی اذیت کا کوئی احساس ہوتا ہے ۔ وہ ہے تو بس ایک دکاندار ۔ مال دو تال لو ۔ 
منہ پھاڑ کر  بیماری پر مریض سے یوں لاکھوں روپے مانگے جاتے ہیں جیسے وہ مریض کا علاج نہیں کر رہے بلکہ کسی مشین کے پرزے خرید کر دے رہے ہیں جس کے ساتھ اسے بس ایک ہی بار میں تاحیات کی ضمانت مل جائے گی کہ اب وہ نہ کبھی بیمار ہو گا اور نہ یہ پرزہ ناکارہ ہو گا ۔ لاکھوں روپے کے تقاضے وہ لٹیرے ڈاکٹر تو اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں ۔ جو صبح کا وقت سرکاری ہسپتالوں میں دلاسے بانٹ کر حرام کی تنخواہ جیب میں ڈالتے ہیں تو شام کو ذاتی مطب یعنی پرائیویٹ کلینکس پر جا کر  مسکراہٹیں بانٹتے اور لاکھوں کا ٹیکہ لگا لگا کر شفا بانٹتے نظر آتے ہیں صرف مشاورت کا وقت لیکر  دو چار منٹ مریض سے ملنے کے عوض ہزاروں روپے فی کس وصول کیئے جاتے ہیں ۔ چاہے مریض کا علاج محض دس روپے والی ڈسپرین کی گولی ہی کیوں نہ لکھ کر دینی  ہو ۔ اپنے کاونٹر پر ایڈوانس میں ہزاروں روپے جمع کروا چکا ہوتا ہے ۔  ایسے میں سرکاری ہسپتال میں رلتے کھلتے غریب مریضوں کو بس دلاسوں کی خوراک دیکر ہسپتال کی راہداریوں میں دوڑا دوڑا کر موت کی میراتھن میں جبرا شامل رکھا جاتا ہے جب تک کہ اس کا دم نہ نکل جائے ۔ صرف اس لیئے کہ سرکار کا خزانہ اپنے وزیروں سفیروں کو اندرون و  بیرون ملک علاج کے نام پر موج کروانے پر خرچ ہو جاتا ہے تو بیت المال سے علاج کے لیئے کارڈ بنوانا اور اس پر دوا وصول کرنے والے کو اس قدر ہتک آمیز نگاہوں اور رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا معاشرتی طور پر  ایسا اشتہار لگایا جاتا ہے جیسے اس کی کم حلال  آمدنی اس کے لیئے ایک سنگین جرم بن چکی ہے جبکہ دوسری جانب بیشمار حرام کی کمائی والوں کو اٹھ اٹھ کر سلام کرنا اور اپنی خدمات پیش کرنا ان دکاندار کاروباری ڈاکٹروں کے ایمان کا حصہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معالجین کی کمائی پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کی مشاورت کی فیس کی حد مقرر کی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی حاضری اور موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ کمائی کی اندھی دوڑ میں انہیں انسانیت کا سپیڈ بریکر دیکھنے پر مجبور کیا جائے۔ 
ہمارے جیسے ممالک میں باقی عوام پر بھی عموما اور  ڈاکٹر پر  خصوصا ایک وقت میں ایک ہی گھر کی ملکیت رکھنے کی پابندی لگائی جائے۔ بے تحاشا دولت اکٹھی کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ نصاب تعلیم میں قرآنی اسباق کے حقوق العباد کے حصوں کو بطور مضمون ہر بچے کو بچپن ہی سے پڑھایا جائے ۔ تاکہ کل یہ بچہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائے تو جسم و جان کا سوداگر بن کر نہ جائے بلکہ ایک بہترین راہبر ، رہنما، ماہر ، اور معالج بنکر جائے۔ اسے معلوم ہی نہیں یقین بھی  ہو کہ زندگی ضرورت کے دائرے میں رہے تو عزت بھی دیتی ہے اور سکون بھی ۔ جب یہ تعیش کے بھنور میں داخل ہو جاتی ہے تو نہ اس میں ہوش رہتا ہے، نہ ہی قرار۔ دولت اتنی ہی کمائی اور اکٹھی کی جائے جو آپ کی زندگی کو عزت سے بسر کرنے کو کافی ہو۔ ورنہ لالچ کا منہ واقعی صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔ اور یقینا ہر مریض کی طرح ہر معالج کو بھی ایکدن موت کا مزا ضرور چکھنا ہے ۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ: یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی۔)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/