ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 20 ستمبر، 2019

بھارت کا اصل کردار ٹوپی ڈرامے سے باہر دیکھیں




بھارت کا اصل کردار
ٹوپی ڈرامے سے باہر دیکھیں


مجھے ایک ہندو دوست کی جانب سے  ایک ویڈیو ان بکس بھیجی گئی ۔ جس کی سرخی تھی کہ "بھارت کا اصل کردار دیکھنا ہے تو اس ویڈیو میں دیکھیئے" جس میں بھارتی علاقے بہار کے ایک علاقے کا بتایا گیا جہاں کوئی مسلمان نہیں رہتا لیکن وہاں ایک پرانی مسجد ہے جسے علاقے کے لوگ صاف ستھرا رکھتے ہیں اور ریکارڈڈ  آذان بھی مائیک سے دی جاتی ہے ۔  میں نے اس ویڈیو کو دیکھ کر پہلی بات تو یہ سوچی کہ آخر اس علاقے کے مسلمان اتنے پرامن اور محبت بھرے ماحول سے پھر چلے کیوں گئے ؟ ایک بھی مسلمان نے یہاں پر خود کو محفوظ تصور کیوں نہ کیا؟ تو عقلی طور پر یہ بات سمجھ میں آئی کہ
یہ مسجد دنیا کو دکھانے کے لیئے ایک  سیکولر اشتہار کے طور استعمال کرنے کو قائم رکھی گئی ۔ وگرنہ پورے بھارت میں مسلمان جس حالت میں زندگی گزارتے ہیں وہ بہترین تو چھوڑیں بہتر کیوں نہیں ہے ؟
معذرت کیساتھ جناب میں  وہاں اصل بھارت کا کردار دیکھوں، جہاں ایک بھی مسلمان نہیں  چھوڑا گیا
لیکن ایک مسجد کو محض "شگن" کے لیئے رکھا گیا ہے،
لیکن میں وہاں بھارت کا اصل کردار کیوں نہ دیکھوں جہاں کروڑوں مسلمانوں کو انہیں کی وادی کشمیر میں اپنی لاکھوں کی فوج اور غنڈوں کو لائسنس ٹو کل اور لائسنس ٹو ریپ اور ٹیررازم دیکر بھیجا گیا ہے ۔ 72 سالوں سے ان کی نسل کشی جاری ہے، جہاں ان کے ہر تہوار پر انہیں انہی کے لہو میں نہلا دیا جاتا ہے۔ جہاں انکی مرضی کے خلاف جبرا تہہ تیغ کیا جاتا ہے ۔
جہاں ان کے جنازے تک پر گولیاں برسائی جاتی ہیں ۔ لاشیں پامال کی جاتی ہیں ۔ معصوم بچیوں سے لیکر ستر سال کے مائیں دادیاں نانیاں تک ریپ کی جاتی ہیں ،
جہاں" کشمیر چاہیئے کشمیری نہیں" کے بھارتی ناپاک نعرے کیساتھ ہلہ بولا جاتا ہے ،
جہاں گوری کشمیری لڑکیوں کو بندر کی شکلوں والے غنڈوں اور درندوں کے آگے چارہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ،
جہاں کسی غیر مسلم سے رشتہ نہ ہو تو آپ پورے بھارت میں ترقی کا ت بھی نہیں سوچ سکتے ۔ پھر چاہے وہ شاہ رخ خان اور سلمان خان ہی کیوں نہ ہو۔ ذرا انہیں غیر مسلم رشتے داروں سے خارج کر کے دیکھیئے یہ بھی کہیں ٹائلٹ صاف کر رہے ہوتے یا پھر کلرکی کر رہے ہوتے ۔ 
سچ بہت کڑوا ہے جناب
عمارتوں کی پوجا کرنے سے انسانوں کا لہو،  ان پر ظلم معاف نہیں ہو جاتا ۔
آج کسی بھی قوم کو جبرا اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنا اور خصوصا اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے لہو میں غسل کرنے کا شوق ہر یہود و ہنود کی اولین ترجیح ہے ۔ اقوام متحدہ کا کردار مسلمانوں کی حفاظت میں محض غیر مسلموں کے طوائف جیسا ہے ۔ جسے محض ایک ربڑ سٹیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور مسلم حکمرانوں کو خرید خرید کر انہیں عیاشی کروا کروا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے ۔
نہ ان نام نہاد انصاف پسندوں کے نزدیک مسلمان ممالک کی تباہی غلط ہے اور نہ مسلمان کا خون ناجائز ہے ۔ "ان کا کتا ٹومی اور ہمارا کتا کتا ہے" کی مثال یہاں حرف بحرف لاگو ہوتی ہے۔ مسلم ممالک سے راتوں رات اپنے غیر مسلم مجرم اٹھا کر انہیں اپنے ممالک میں اعزازت سے نواز کر بیشمار بار یہ بات ثابت کی جا چکی ہے ۔ کہ ہمارے کدو حکمران جھوٹ بول بول کر  ہمارے عوام کو ٹھنڈا کرنے اور مسلم دشمنوں کو حلوہ بنا کر پیش کیئے جانے کے لیئے ہیں ۔ ان مسلم کش ممالک کو جو خود کو انصاف کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں اور ہمارے ممالک میں موم بتی مافیا کے آقا و موجد ہیں، کی زر خرید موم بتیاں کشمیر کی لٹتی بیٹیوں اور کٹتے ہوئے جوانوں کے لیئے کیوں نہیں جلتیں ؟
معصوم کشمیری بچے جو آج ڈیڑھ ماہ سے دودہ ، دوائیوں  اور خوراک کو ترس کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ماوں کی گود میں جان دے رہے ہیں ،ان کے لیئے کیوں نہیں جلتیں ؟
کیونکہ بھارت کا اور اقوام متحدہ کا اصل کردار دیکھنا ہے تو ٹوپی ڈرامے سے باہر آ کر دیکھیئے ۔
یہ یورپی و امریکی ممالک میں  سیکولر منڈوا محض اپنے ممالک میں امن و آشتی قائم رکھنے کے لیئے سجایا جاتا ہے ۔ ورنہ ان کے ممالک سے باہر نہ انہیں انصاف کی ضرورت ہے نہ احساس۔ جبکہ ان کی پشت پناہی کے بل پر بھارت کی غنڈہ گرد پالیسیز کو تو کسی منڈوے کی اپنے ملک کے اندر بھی کبھی کوئی ضرور محسوس نہیں ہوئی ۔ جہاں ایک گائے کے بدلے بیسیوں مسلمان ذبح کر دینا ان کا دھرم گنا جاتا ہے ۔ وہاں اسے ٹوپی ڈرامے کی بھی قطعا کوئی ضرورت اب محسوس نہیں ہوتی۔ وہ اعلانیہ کل بھی غنڈہ تھا ، آج بھی غنڈہ ہے اور اپنے خاتمے اور تقسیم در تقسیم تک غنڈہ ہی رہیگا ۔ اس کے سامنے ہر غیر ہندو ہی کیا اپنے ہی ہندو چھوٹی ذاتوں کے لوگ بھی جو اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں وہ ہے بھارت کا اصل کردار۔۔۔۔۔
سچ پوچھیں تو دنیا اس وقت تک پرامن تھی جب تک اس پر منصف مسلمان حکمرانوں کی حکومت رہی ۔ جیسے ہی اس دنیا پر غیر مسلم قبضہ ہوا یہ تب سے یہ تباہ و برباد ہو گئی۔
                    ۔۔۔۔۔۔

منگل، 17 ستمبر، 2019

بے ہنر ڈگریاں / کالم


بے ہنر ڈگریاں 
تحریر:
(ممتازملک.پیرس)

ہمارے ہاں تعلیمی نتائج میں  آجکل گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر ہی حاصل کرنے کا فیشن چل رہا یے ۔ اس کے باوجود ہمارا طالبعلم بیس تیس سال پرانے  ساڑھے آٹھ سو میں  سے ، پانچ سو اور ساڑھے پانچ سو نمبر لیکر پاس ہونیوالے کا ذہانت میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ ہمارا تعلیمی معیار ہے جو اس حد تک گر چکا ہے  جو شاید باقاعدہ سکول کالج سے وابستہ طالبعلم( ریگولر  سٹوڈنٹ) کو محض  اس وابستگی کی وجہ سے ڈھیروں ڈھیر نمبر ٹھیکے پر دے رہا ہے کیوں کہ اس سکول کالج سے پرچوں کی جانچ کے دوران انہیں شاید کچھ لفافے اور فوائد کا ایک پیکج بھی مل جاتا ہے کہ ہمارے سو میں سے دو چار بچے فیل کر دیجیئے گا باقی سب کو بہترین نمبروں سے پاس کر دیا جائے۔ یوں جسے دیکھو نمبروں کی لوٹ سیل سے مستفید ہو رہا ہے ۔ جبکہ علمی لحاظ سے نہ بچوں کو ڈھنگ کی اردو لکھنی پڑھنی آتی ہے نہ ہی بولنی۔ نہ انہیں انگریزی پر عبور حاصل ہے اور نہ ہی حساب میں انہیں مہارت ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ پرچے کون چیک کر رہا ہے ؟ اس استاد کی اپنی تعلیمی قابلیت ، اپنے مضمون پر دسترس کتنی ہے؟  اس کا بولنے کا لب و لہجہ اس قابل ہے کہ اس کا شاگرد اس کے نقش قدم پر چل سکے ۔ اکثر سکولوں میں پرائیوٹ کہہ کر ہزاروں روپے کی فیس اکٹھی کرنے کے باوجود صرف اور صرف رٹے باز طوطے پیدا کیئے جا رہے ہیں ۔ ڈگریوں کے حصول کے لیئے امتحانات کے دوران والدین کی ایڑی چوٹی کا زور اس بات پر صرف ہوتا ہے کہ ان کا بچہ فیل نہیں ہونا چاہیئے اور اس کے نمبر 90 فیصد سے کسی طور کم نہیں ہونے چاہیئیں ۔ آتا جاتا چاہے اسے ککھ نہ ہو ۔ بس ڈگری ہونی چاہیئے ۔ بالکل ہمارے ایک سیاہ ست دان کے بقول ڈگری اصلی ہو یا نقلی ڈگری ڈگری ہوتی ہے ۔ 
اور اسکے بعد شروع ہوتا ہے یا تو بیروزگاری کا سفر یا پھر کوئی نوکری خریدنے کی دوڑ دھوپ۔ 
کیونکہ ہمارے ہاں لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ ہر سوکھی ڈگری والا کسی کرسی پر نہ تو افسر بن سکتا ہے اور نہ ہی ہر ایک کو وائٹ کالر جاب مل سکتی ہے ۔ جبکہ دنیا پروفیشنل تعلیم میں نام بنا رہی ہے ۔ وہاں ہمارے لوگ ساری عمر کی جمع پونجی سے بچوں کے لیئے بے ہنر اور بیروزگاری کی ضمانت والی ڈگریاں خرید رہے ہیں ۔ 
جبکہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی وہ نوجوان اپنے لیئے دو وقت کی روٹی کمانے کے لائق نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ اس کے ہاتھ میں کوئی پیشہ ورانہ ڈپلومہ نہیں ہے ۔ ہنر نہیں ہے ۔ اس نے تو اب تک صرف اور صرف کتابوں کے رٹے لگائے ہیں ۔ اسے کام سیکھنے کا کہو تو اب اس کی شان کے خلاف ہے ۔ اپنے باپ دادا کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے کا کہو، ان کی کوئی دکان سنبھالنے کا کہو تو برخوددار کی ناک کے نیچے یہ سب جمتا نہیں ہے ۔ 
ان پڑھے لکھوں کی کھیپ  میں سے ایک بھی اپنے باپ کے کاروبار یا پیشے کی عزت نہیں کرتا لیکن اسی پیشے کہ کمائی سے اس باپ کا خون چوستا رہتا ہے ۔
اگر بیٹا یا بیٹی ان پڑھ ہے تو اسے ہنر سکھا کر ماہر تو بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن جب وہ اپنی زندگی کے سولہ سال بنا کسی ہنر یا پیشہ ورانہ تعلیم کے عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو وہاں صرف مایوسیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں ۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ بچے کو مڈل کلاس کے بعد ہی پروفیشنل تعلیمی سسٹم میں داخل کیا جائے ۔ جہاں وہ جس بھی کام میں دلچسپی رکھتا ہے اسے اسی کام میں سپیشلائز کروایا جائے۔ تاکہ اگلے آٹھ سال میں وہ تھیوری اور پریکٹیکل کے ساتھ اپنے ڈگری اور ڈپلومے مکمل کرے اور معاشرے میں ایک قابل فخر ، باروزگار ، مفید اور بااعتماد نوجوان بن کر نکل سکے ۔ وہ اپنے گھر والوں کا مددگار بن سکے نہ کہ مایوسی  نشے اور بری صحبت کا شکار ہو کر معاشرے کے لیئے عذاب بن جائے۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 13 ستمبر، 2019

◇ صبح ہونا مقدر ہو چکا ہے۔ نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا



صبح ہونا مقدر ہو چکا ہے 


میں اپنے ناتواں کندھوں پہ کتنا بوجھ سہہ پاوں 
میری ہر آرزو حسرت میں ڈھلنے جا رہی ہے
میرا ہر خواب ٹکڑے ہو رہا ہے
میرا ہر ایک سچ بیچا گیا ہے
میری امید کا ہر باغ تیزابی ہوا ہے
میری ہر آرزو کا،خواب کا،خواہش کا لوگو
جو میرے سامنے لاشہ پڑا ہے  
برائے نام ہے امت جہاں میں 
جو ٹھیکیدار ہے دنیا میں اس کے 
انہیں عیاشی سے فرصت نہیں ہے 
وہ سوچیں امت مسلم کی خاطر 
انہیں اس بات کی ہمت نہیں ہے 
سروں پر باندھ کر صافے 
دماغوں کو یہاں دم دے رہے ہیں 
نگاہوں پر بڑی ہی بےحیائی سے کسی پٹی میں اپنے 
بے ایماں ہونے کا وہ احساس کیا کم دے رہے ہیں 
میرا کشمیر جو خوں رو رہا ہے
جوان و پیر و طفل و زن جو خود کو کھو رہا ہے 
ہمارا حکمراں جا کر کرے سودا حیا کا 
تو پھر اس قوم پر لازم ہے پڑھنا انا للہ 
میرے کشمیر آذادی تو ہے تیرا مقدر 
بھلے سے رات یہ کالی بہت ہے 
مگر یہ یاد رکھنا کہ
اجالا بھی اسے تاریکی کے پیچھے چھپا ہے 
صبح ہونا مقدر ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔
                        ●●●


 

منگل، 10 ستمبر، 2019

دوسرا پہلو۔ کالم



                 دوسرا پہلو
      (تحریر: ممتازملک.پیرس)



جس طرح ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح ہر انسان کی شخصیت کے بھی دو پہلو ہوا کرتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم سب کو دکھائی دیتا ہے اور ایک وہ جو پشت پر موجود ہے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن اس انسان سے منسلک لوگوں پر اس کا ظاہری اور باطنی دونوں ہی پہلو اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں ۔ سامنے والا ظاہری پہلو کی برائیوں سے تو خود کو بچانے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن باطنی اور پوشیدہ وار سے خود کو بچانا بیحد مشکل اور کبھی کبھی تو ناممکن ہو جاتا ہے ۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ آپ کے سب سے قریبی رشتے کا فرد ہو ۔ 
جیسا کہ شادی کا رشتہ ۔ جسے ایکدوسرے کا لباس کہا گیا ۔ اور ظاہر ہے کسی بدن کی خوبی و نقائص اس کے لباس سے زیادہ کس پر عیاں ہو سکتی ہیں ۔ یہ وہ رشتہ ہے جو ایک مرد اس وعدے پر کسی عورت کیساتھ باندھتا ہے کہ وہ اس کی عزت کی حفاظت کریگا ، اس کی ضروریات کو پورا کرنے کی تگ و دو کریگا اور اس کی خواہشات کی تکمیل میں حتی الوسع اسکا ساتھ دیگا ۔ اور اس سے وفادار رہیگا ۔  جبکہ وہ عورت اس سے اس کی عزت کی حفاظت  ، گھر بار سنبھالنے، اسے آرام پہنچانے اور اس کی اولاد کی پیدائش و پرورش کا ذمہ اٹھاتی ہے۔ اس سے وفاداری کا عہد باندھتی ہے۔ 
اکثر مردوزن اپنے وعدوں کی پاسداری کو پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ جو نہیں کر سکتے اس کی مختلف وجوہات اور تاویلیں پیش کی جاتی ہیں ۔ 
اس وقت ہم ایک ہی پہلو پر بات کریں گے جو شاید اکثر ہی نظرانداز ہو جاتا ہے ۔ وہ ہے مردوں کا شادی شدہ ہونے کے بعد بھی  اپنے بہن بھائیوں کو ناجائز حد تک اپنے ہر رشتے پر مسلط کر دینا ۔ یہ مرد فطرتا بزدل اور بیوفا ہوتے ہیں ۔ یہ پیدائشی طور پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے غلام ہوتے ہیں ۔ ان میں سوچنے اور خود سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت برائے نام یا پھر ناپید ہوتی ہے ۔ ان کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے بیوی اور پھر بچوں کی پل پل کی خبریں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو پہنچا کر اپنے شوہر اور باپ ہونے کی حیثیت کی تذلیل کرتے ہیں ۔ وہ صرف اچھے بیٹے اور اچھے بھائی بننے کا میڈل لینے کے چکر میں اپنی ہی بیوی کے جاسوس شوہر اور اپنے ہی بچوں کے مخبر باپ بن جاتے ہیں ۔ یہ کبھی پکڑے جائیں تو جھوٹی قسمیں اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ کبھی اپنے چوری نہیں مانتے ۔ ان کے پاس اپنے گھر کا کرایہ دینے کی رقم یا بجلی کا بل بھرنے کی آخری تاریخ پر کسی بہن بھائی کا فرمائشی پروگرام آ جائے تو یہ اپنا میٹر کٹوا لیگا ، اپنے گھر کے کرائے کی ادائیگی پر جرمانہ چڑھا لیگا لیکن اس کی فرمائش ضرور پوری کریگا ۔ اسے اول خویش بعد درویش میں اپنے بیوی بچے کبھی بھی "اول خویش" نہیں لگیں گے بلکہ وہ ہمیشہ "بعد درویش" کے مقام پر ہی رہیں گے ۔ 
ایسے لوگ ساری عمر اپنے بیوی بچوں کی نظروں میں مجرم کی سی زندگی گزارتے ہیں ۔ اور ایک وقت آتا ہے جب وہ تنہا رہ جاتے ہیں ۔ جو کہ اصل میں ایسے غلاموں کے ان عزیزوں کی خواہش ہوا کرتی ہے جن کے لیئے یہ ساری عمر اپنے زندگی میں تلخیاں گھولتے رہے ۔ اور جب انہیں اس خطرے کا احساس دلایا جائے تو یہ بڑے ڈھیٹ پنے کیساتھ ہر نقصان اٹھآنے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اپنی اصلاح کرنے یا خود کو اس نقصان سے بچانے کی کوشش ہر گز نہیں کرتے ۔ ان باتوں کو خاتون پر بھی لاگو کر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اصل میں ایسے ہی  مردوزن اپنے  بہن بھائیوں کی محبت میں اپنی زندگی کا  توازن کھو بیٹھتے ہیں ۔ اور ان کی حیثیت گھر میں ایک گدھے جیسی ہوتی ہے ۔ جس پر صرف اور صرف وزن ہی لادنا ہے ، ڈنڈے ہی برسانے ہیں ۔ ان زندگی میں سکون ، اعتماد اور خوشی کا تناسب بہت ہی کم ہوتا ہے ۔ اگر آپ میں ان سب میں سے کچھ جھلکیاں خود میں نظر آئی ہیں یا کسی دوست میں دکھائی دیتی ہیں تو اس کی مشاورت کیجیئے ۔ یا اسے کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے ک مشورہ ضرور دیجیئے۔ ہو سکتا ہے آپ کی چھوٹی سی کوشش کسی انسان کو اس کے گھر میں بیوی (شوہر) بچوں کی طرف ایمانداری سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر راغب کر سکے  اور اسے اول خویش اور بعد درویش کا حقیقی معنی سمجھا سکے ۔ 
                    ۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 9 ستمبر، 2019

منقبت ۔ حسین بننا کمال ٹہرا/ اے شہہ محترم


منقبت
حسین بننا کمال ٹھہرا 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)




یزید بننا رزیل ٹہرا
 حسین بننا کمال ٹہرا

میری نبی  کی جھلک ہو جس میں
 حسین کا وہ جمال ٹہرا

بہت بڑا فرق ان میں ہے گر
نظر میں تیری نہ بال ٹہرا

حسین دے دے کے بھول جائیں
 یزید سکے اچھال ٹہرا

جواب جس کا نہ دے سکیں وہ
نہ ایسا کوئی سوال ٹہرا

جہاں پہ حق مستند کھڑا ہو
وہاں پہ باطل محال ٹہرا

چلے ہیں ممتاز جس سفر پر
عروج کو نہ زوال ٹہرا
          ........


منگل، 3 ستمبر، 2019

تقریب دعوت

دعوت نامہ💐

3ستمبر 2019ء
بروز منگل
سہہ پہر 4 بجے،
پیرس میں مقیم نامور شاعرہ ' ادیبہ ' صحافی ' کالم نگار' اینکر پرسن  محترمہ ممتاز ملک کے  اعزاز میں ایک خصوصی نشست منعقد  کی جارہی ہے۔ جس میں  انکی چوتھی کتاب اور پہلے نعتیہ مجموعہ کلام
اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ)کی رونمائی بھی کی جائے گی۔
آپ تمام دوستوں کو  شرکت کی دعوت دیجاتی ہے ۔
منتظر میزبان :
فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
ایم ذیڈ کنول،چیف ایگزیکٹو جگنو انٹرنیشنل،
محمد جمیل،اکیڈمی آف لیٹرز
پتہ یہ ہے :
Pakistan academy of letters
22 J Gullberg -3 .
Near Firdos Market. Lahore.
0333 4305319
(جمیل صاحب (لاہور))

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/