ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 22 ستمبر، 2015

19ستمبر 2015 میلہ عید الاضحی



19ستمبر 2015 میلہ عید الاضحی
رپورٹ / ممتاز ملک ۔ پیرس


آصفہ ہاشمی ،ناصرہ خان ،شہلا رضوی اور انکے گروپ نے  پیرس کے علاقے لاکورنیوو میں ایک عید میلے کا اہتمام کیا . جس میں پاکستانی ،انڈین، موریشین  ،عرب اور یورپین خواتین  نے بھی شرکت کی . اور کھانے پینے ، ملبوسات ،جیولری، میرج  بیورو ،بیگز ،چنا چاٹ ،مٹھائی ، دہی بڑے ،گول گپے،پکوڑے سموسے اور بہت سے دوسرے لوازمات کے سٹالز لگائے گئے . چھوٹا سا سٹیج پروگرام بھی تیار کیا گیاجس میں نور نے تلاوت کلام پاک پیش کی ممتاز ملک نے نعت رسول پاک پیش کی .  طاہرہ سحر نےبچوں کا ایک خاکہ پیش کیا . خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے اس میلے میں شرکت کی اور اس میں لگائے گئے سٹالز میں گہری دلچسپی کا اظہارکیا . اور ایسے پروگرامز کو دوسری کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کرنے پر مبارکباد بھی پیش کی .  اور میڈیا کے ساتھیوں کا اسے بھرپور کوریج دینے پر شکریہ بھی ادا کیا .

دفاع پاکستان مشترکہ کاوش

دفاع پاکستان مشترکہ کاوش
ممتازملک -پیرس

20 ستمبر 2015 بروز اتوار





پیرس کے علاقے لاکورنیوو کے ہال میں یوم دفاع کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا . جس کے مہمان خصوصی سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب تھے . اس پروگرام میں ان کے ساتھ  سفارت خانے میں تعینات ان کے عملے کے اراکان نے بھی شرکت کی جن میں ڈیفنس اتاشی فواد حاتمی ،گروپ کیپٹن  عامر بشیر، آرمی نیول اتاشی راشد محمود، ایچ او سی عمار امین، محترمہ عائشہ صاحبہ شامل تھیں 
ان میں سے دو کے والد صاحبان بذات خود 65 اور 71 کی جنگ میں حصہ لے  چکے تھے اور یہ دونوں بھی پاک افواج کے دلیر سپوت رہ چکے تھے . اس کے علاوہ ان میں وہ سپوت بھی شامل تھےجنہوں نے سوات آپریشن  میں شاندار کارنامے انجام دیئے اور شدید زخم بھی کھائے . سال بھر اسی سلسلے میں زیر علاج بھی رہے اور بعد میں پیرس ایمبیسی میں تعینات کیئے گئے . 
اس پوری سفارت خانہ گروپ کی اس پروگرام میں شمولیت  بہت ہی خوش آئند تھی . 
پروگرام کی نظامت یاسر قدیر نے کی . ترانہ نوجوان امیش خان نے پیش کیا .
جبکہ شبانہ عامر کیساتھ آئے بچوں کا نے بھی ملی نغمہ پیش کیا.  
ویسے تو جب سے سیاسی جماعتوں نے فرانس میں ڈیرے ڈالنے شروع کیئے ہیں عوام کی جوتیوں میں دال  یہاں بھی بٹنے  لگی ہے . پاکستان کی خدمت کیا کرتے  ،جس کی جیب میں جتنے زیادہ نوٹ ہوتے ہیں اس کے پاس اتنی ہی بڑی عہدے کی کرسی بھی ہوتی ہے .  اس لیئے تبھی سے کبھی بھی کوئی قومی پروگرام ایک ہی پلیٹ فارم پر دیکھنے کا موقع نہیں ملا . یہ اعزاز بھی سفیر پاکستان کو ہی جاتا ہے کہ ان کے مطالبے پر تمام جماعتوں اور تنظیمات  نے پہلی بار ایک ہی پلیٹ فارم  سے یہ پروگرام پیش کیا . جو کہ انتہائی خوش آئیند بات ہے. 
سفر پاکستان نے اپنے مختصر خطاب میں پاکستانیوں پر یوم دفاع کی اہمیت کو اجاگر کیا اور ان پر زور دیا کہ وہ اپنے غیر ملکی اور فرنچ دوستوں کو یہ بات باور کرائیں کہ پاکستان میں لڑی جانے والی جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی سلامتی کی جنگ ہے اور اس میں انہیں اپنا حصہ مالی نہیں تو کم از کم اخلاقی طور پر ضرور ڈالنا چاہیئے . کیونکہ اس جنگ کو ہارنا اس دنیا کے امن کو ہارنے کے برابر ہے .  جس کا متحمل ہم میں سے کوئی بھی نہیں ہو سکے گا . 
اس انتہائی خاص پروگرام میں ہائے پروفائل مہمانوں کو بلانے کے باوجود کسی قسم کے خاص تیاری کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی .ہمارے معزز بھائیوں کو اکثر یہ خوش فہمی ہوتی ہے کہ اچھا سا سوٹ پہن لیا ،ٹائی لگا لی ، مہنگی گھڑی قیمتی موبائل اور لمبی مہنگی گاڑی ان کو دانشور بھی بنا دیتی ہے ،ان کو لیڈر بھی بنا دیتی ہے ،ان کو مقرر بھی بنا دیتی ہے ،ان کو اینکر بھی بنا دیتی ہے . یعنی دوسرے لفظوں میں آپ کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں کیوں کہ آپ کی جیب بھری ہوئی ہے یا آپ کی پی آر او بہت اچھی ہے . 
بہت ہی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مائیک پر آنے والے  دو تین لوگوں کو چھوڑ کر کسی کو بھی اپنی قومی زبان  اردو بولنے کا شاید کوئی تجربہ نہیں تھا . اور وہ سب کسی خاص موقع پر ہی اردو کی ڈوز زکام کی دوائی  سمجھ کر ہی لیتے ہوں گے . 
اکثر نے مائیک کو بھی شاید اپنے چار دوستوں کی بیٹھک کا کھیل سمجھ کر اس سے کھیلا .  نہ تو ان میں سے اکثر کو موقع کی اہمیت کا احساس تھا اور نہ ہی ان میں کسی کو یہاں آنے سے پہلے اس موضوع پر پڑھنے کی کوئی ذحمت  محسوس ہوئی . جسکے جو منہ میں آیا اس نے وہاں منہ سے نکال دیا . ہمیں تویہ ہی محسوس ہوا. 
نعرے لگانے والے بھائی صاحب نے خوب جوش اور ولولہ دکھایا . کئی بار ان کے اچانک نعرے  نے ہمارا واقعی" ترا" نکال دیا .( ہم شاید ان کے نعرے  سے پہلے کسی اطلاع کے انتظار میں تھے.)
بچوں کے ٹیبلو کے لیئے جس خاتون کی آمد تھی وہ ہماری بڑی پیاری اور معزز بہن ہیں لیکن ان کے ساتھ آئے بچوں کی تیاری بھی متاثرکن نہیں تھی یا شاید انہیں تیاری کا وقت ہی نہیں ملا . لیکن اتنے خاص موقع اور خاص مہمانوں کے سامنے ایسے کچے پکے پروگرام پیش کرنے کی آخر کیا ایمر  جنسی تھی ہم سمجھ نہیں سکے. بچوں کے پروگرامزکی جب تک بہترین تیاری نہ ہو. انہیں ایسے پروگرام میں شامل نہیں کیا جانا چاہیئے .  
کچھ ہماری بہنوں کو شاید موقع کے حساب سے تیار ہونے کی بھی اتنی سینس نہیں ہے . جو شاید ہر موقع کو شادی کا موقع بلکہ اپنی شادی کا موقع سمجھ کر ہر میک اپ برانڈ خود پر آزمانا  ضروری سمجھتی ہیں . انہیں اگر سالوں ایسے اجتماعات میں شامل ہونے کے باوجود لباس اور میک اپ کا پتہ نہیں چلا تو پروگرام کے منتظمین کو چاہیئے کہ موقع کی مناسبت سے انہیں ڈریس کوڈ بلکہ میک اپ کوڈ کی بھی نشاندہی کروائیں  .تاکہ وہاں مجمع میں انہیں  کارٹون بننے سے بچایا سکے.
میڈیا کے تمام بہن بھائیوں نے خوب محنت سے اپنا فرض نبھایا. جن میں جیو،اے آر وائے، وقت اور دوسرے کئی شامل تھے  .
. اس پروگرام کو  دیکھنے اور اس میں شرکت کرنے کے بعد کچھ باتوں کا شدت سے احساس ہوا جسے ہم یہاں واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے تمام بہن بھائیوں سے امید کرتے ہیں کہ اسے کوئی بھی اپنے اوپر ذاتی حملہ نہیں سمجھے گا بلکہ ایک ہمدرد ساتھی کی ہمدردانہ صلاح سمجھے گا . تاکہ آئندہ ایسے کسی پروگرام کو مزید بہتر بنایا جا سکے . 
پہلی بات تو یہ ایسے پروگرام کا وقت چھٹی ہی کے دن لیکن شام سات بجے کے بعد رکھا جائے تاکہ مزید لوگوں کی  آمد کو بھی یقینی بنایا جا سکے.
دوسری بات . تمام جماعتیں اور تنطیمات ہر سال قومی پروگرام ایک ساتھ کریں تو بڑے سے بڑا ہال لیا جائے . تاکہ جتنی بھی عوام کی  تعداد  آئے اسے یہاں اچھے سے بٹھایا جا سکے.
تیسری بات . سٹیج پر صرف آنے والے مہمانوں کو اور سٹیج سیکٹری کو ہی بٹھایا جانا چاہیئے . جب کہ باقی خاص مہمانوں یا شرکاء کو اگلی  محفوظ کی گئی کرسیوں پر بٹھایا جائے .
چوتھی بات . مائیک پر آنے والے ہر شخص کے بولنے کی صلاحیت کا آپ کو خوب اندازہ ہونا چاہیئے . ایسے مواقع پر مائیک  ٹیسٹنگ  والوں کو مائیک سے دور رکھا جائے .
میڈیا نے بھرپور انداز میں سارے پروگرام کی کوریج کی جن میں صاحبزادہ عتیق الرحمن، علی اشفاق، فیصل شیر،اور دوسرے بہت سے ساتھی شامل تھے . جبکہ سٹیج  اور پروگرام کی تیاری میں عاکف غنی۔ آصف  جاوید ۔۔حاجی ابرار اعوان۔ عاطف مجاہد۔ یاسر قدیر ،سجاد ڈوگہ نے خصوص طور پر بھرپور حصہ لیا .  
پروگرام کے منتظمین  کو یہ درخواست پیش کرتے ہیں کہ آئندہ ایسے خصوصی پروگرام سب مل کر پیش کریں تو ان کے لیئے زیادہ بڑے ہال کا انتظام کیا جائے تاکہ کسی کو جگہ نہ ہونے یا بیٹھنے کی جگہ نہ ملنے پر مایوس واپس نہ لوٹنا پڑے . ایسی کوششوں کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں . اور اس میں اخلاص  سے کوشش کرنے والوں کو بھی دل سے سراہتے ہیں .
                         .........

پیر، 21 ستمبر، 2015

حج بنا جو حاجی ہو گئے۔ افسانہ۔



حج بنا جو حاجی ہو گئے
ممتازملک ۔ پیرس


وہ اس دن بے حد خوش تھا اس کی سالوں کی مراد بر آئی تھی . اس کا حج پہ جانے کا خواب پورا ہونے جا رہا تھا . آج قافلے کے رہنما سے اس کی فیصلہ کن بات  ہو گئی تھی اور کل اسے تمام رقم رہنما کو ادا کرنا تھی. وہ ابھی سے خود کو مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں گھومتا ہوا محسوس کر رہا تھا .
یہ رقم اس کی سالوں کی جمع پونجی تھی جو اس نے دن رات کی محنت کے بعد بچائی تھی . 
اپنے گھر کے دروازے پر پہنچتے ہوئے اسے ساتھ کے گھر سے گوشت بھوننے  کی خوشبو آئی . اسے معلوم تھا گھر میں آج گوشت نہیں بنا تو اس نے بلا سوچے سمجھے ہی پڑوسی کے دروازے پر دستک دی . ایک نوجوانی کی آخری دہلیز پہ کھڑی لڑکی نے پردے کی اوٹ سے پوچھا کیا بات ہے چچا جان . ..
بیٹا آپ کے گھر سے گوشت بھوننے کی خوشبو آئی تو رہ نہ سکا . کیا کچھ بھنا گوشت ملے گا میں کل گھر  میں پکوا کر لوٹا دونگا.اس نے لجاجت سے کہا 
لڑکی سوچتے ہوئے رندھی  ہوئی اواز میں
بولی . 
لیکن یہ گوشت آپ کیسے کھا سکتے ہیں . یہ تو ہمارے لیئے حلال  اور آپ کے لیئے حرام ہے. 
کیا.مطلب بیٹا ہم ایک ہی دین کےماننے والے ہیں تو جو چیز آپ کے لیئے حلال ہے وہ میرے لیئے حرام کیسے ہو سکتی ہے . 
لڑکی کی آنکھوں سے آنسو گر کر اس کے پھٹے ہوئے دوپٹے میں جذب  ہونے لگے . 
کچھ دیر توقف کیا پھر بولی آپ جانتے ہیں ہمارے والد صاحب کافی عرصہ سے بیمار ہیں ہم بہنیں ہی مزدوری سے گھر چلاتی ہیں . کافی دنوں سے کوئی کام نہیں ملا تو گھر میں فاقے ہونے لگے .آج ایک ہفتے کے فاقے کے بعد مجبور ہو کر باہر سے مرے ہوئے گدھے کا گوشت لائی ہوں کہ اسے کھا کر کم از کم ہم زندہ تو رہ سکیں . لیکن یہ آپ کیسے کھا سکتے ہیں ہمیں تو اپنی زندگی کی ڈور کو سلامت رکھنے کے لیئے یہ کھانا پڑا . ہم میں سے کسی کی شادی اسی غربت کی وجہ سے نہ ہو پائی ورنہ شاید ہم اس قدر تنگ دست نہ ہوتے . 
یہ سنتے ہی وہ سناٹے میں آگیا . اس کی آنکھوں ہی میں نہیں دل میں بھی طوفان سا آ گیا . جن کے در کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنانے چلا ہوں ان کی تو پہلی بات ہی پوری نہ کر سکا کہ "جس کا پڑوسی بھوکا ہو اور وہ پیٹ بھر کر سو گیا تو وہ ہم میں سے نہیں .
یا اللہ یہ کیا ہو گیا یہ گھرانہ ہفتے بھر سے بھوکا تھا میرے گھر سے ہر پکوان کی خوشبو یہاں تک آتی رہی اور یہ مجبور بھوک سے تڑپتے رہے .
میں پیٹ بھر کر سو گیا اور یہ فاقہ زدہ اس حال میں تھے .
میں جس خدا کے گھر کا حج کرنے جا رہا ہوں  اس نے تو بیٹی کو آباد کرنا اس کی شادی کر کے اسے اپنے گھر کا کر دینے کو ہی حج کر دیا ہے اور میں بے خبر رہا . 
وہ الٹے پیروں لوٹا اپنے گھر سے حج کے لیئے رکھی رقم اتھائی اور اس لڑکی کے والد سے مل کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی کہ میں معافی چاہتا ہوں آپ کے حال کی خبر نہ رکھ سکا اب آپ اسے قرض حسنہ سمجھ کر قبول کریں اور اپنی بیٹیوں  کی رخصتی کا انتظام کریں . 
اسی رات اس وقت کے سب سے بڑے عالم نے خواب دیکھا کہ خانہ کعبہ پر دو فرشتے آپس میں بات کرتے ہوئے پوچھتے ہیں. بتاو بھلا اس سال کتنے لوگوں کا حج قبول ہوا تو دوسرے نے کہا اس سال اللہ پاک نے یہاں آنے والے تمام لوگوں کا حج اس ایک آدمی کی محبت میں قبول کر لیا ہے جو کہ حج کرنے آیا ہی نہیں اور وقت کے اس عالم کو اس عام سے مزدور کا چہرہ دکھا دیا گیا . جسے ڈھونڈ کر اس سے پوچھنے پر انہیں اس کہانی کا علم ہوا اور حج کی مبارکباد بھی پیش کی . 
لیکن ہمیں کیا ہم تو تیرہ لاکھ کا بیس لاکھ کا بیل خرید کر پورے علاقے میں اس کے میڈیا میں اپنے نام کی دھوم کیوں نہ مچائیں . پڑوس میں ، عزیزوں میں  کسی کی بیٹی محض پچاس ہزار میں بیاہی نہیں  جا رہی تو کیا ہوا اس کا نصیب . کسی کے گھر میں مہینوں سے گوشت نہ پکا ہو تو ہمیں کیا. کسی کا چولہا نہیں جلا تو میرا مسئلہ نہیں ، کسی کو کئی دن سے کام نہیں ملا تو میں ذمہ دار تھوڑا ہوں ، میری ہی گلی میں کوئی دوا نہ ہونے پر ایڑیاں رگڑ رہا ہے تو خدا اس کو صحت دے ، میں کیوں ٹینشن لوں عید سر پر ہے جی سب سے قیمتی لاکھوں میں تو بیل  ہی چاہیئے جو میرے دروازے پر بندھا تو پورے علاقے میں میری بےجا بےجا  ہو جائے .آخر کو چار لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے .
ٹی وی بند کرو بھائی کیا ہر وقت دکھڑے سناتا رہتا ہے. فاقہ زدہ مخلوق دکھا کر سارے کھانے کا مزا خراب کر دیا۔
                   ●●●

بدھ، 9 ستمبر، 2015

بلاوجہ.بھی دورہ کیجیئے . ممتازملک. پیرس






کتنا عجیب ہے انسان بھی نہ کسی کو زندگی دے سکتا ہے نہ کسی کو اپنی مرضی سے موت دے سکتا ہے . نہ کسی کا رزق لکھ سکتاہے، نہ کسی کی قسمت بدل سکتا ہے ،نہ کسی کی خوشی بن سکتا ہے، نہ کسی مچھر تک کو غم دے سکتا ہے، بنا اس ذات باری تعالی کی اجازت و حکم کے .مگر پھر بھی خود کو آقا، مالک ،مولا،سائیں ،شاہ اور جانے کیا کیا کہلاتا ہے . یہ ہی اس کے پست ہونے کا ثبوت ہے کہ وہ اعلی ہونے کا دعوی کرتاہے . یہ جانے بنا کہ شاید اس کی نظر کا کوئی کمتر اللہ کے ہاں اس سے کہیں زیادہ بلند و بہترین مقام پر فائز ہو. اس روحانی مرض کے علاج کو چند مقامات کے دورے تجویز کر رہے ہیں شفا یاب ہونے کی گارنٹی رب کریم دیتا ہے .
ہر انسان کو کبھی نہ کبھی ضرور  کسی یتیم خانے کا دورہ کرنا چاہیئے تاکہ اسے معلوم ہو کہ جن کے رب کے بعد پالنے والے نہیں رہتے ان کی زندگی میں کیا کیا کمی اور حسرتیں رہ جاتی ہیں اور پھر انہیں پورا کرنے کے لیئے اللہ پاک کیسے کیسے انتظام و اسباب پیدافرماتاہے اور اسے کن کن مراحل سے گزار کر کن کن مدارج  پر فائز فرماتاہے . گویااظہار  فرماتاہے کہ جسے اپنے بعد انسان کا رب بنایا یعنی اس کا پالنے والا بنایا اگر اس کے بغیر میں ایک گوشت کے لوتھڑے  لو یہاں تک پہنچا سکتا ہوں تو گویا کیا نہیں کرتا اور کر سکتا . جنہیں ماں باپ کے بنا پال لیا تو دنیا میں کچھ بھی ہو سکتاہے کہ وہ (اللہ) کر سکتاہے . 
ہمیں کبھی نہ کبھی بلا وجہ بھی  کسی ہسپتال کادورہ کرنا چاہیئے یہ دیکھنے کے لیئے کہ میرے پاس وہ کیا ہے جس کی کمی نے ان لوگوں کو مریض کی صورت  یہاں پہنچایا اور جو میرے پاس ہے صحت کے روپ میں، میں نے اسے کتنا اس  کے دینے والے رب کی خوشی کے لیئے استعمال کیا ہے . کیا سونا جاگنا، کھانا پینا ہی ہماری زندگی کا اس صحت کا حق ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں . یا کسی اور اچھے کام کے لیئے بھی اس صحت کو کام میں لانا ممکن ہے ؟
کبھی کبھی ہمیں کسی پاگل خانے کا  دورہ بھی ضرور کرنا چاہیئے . جہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو لوگ ایک ہی رخ پر سوچتے ہیں جو اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے کے لیئے اپنے ہی پیاروں کے مقابل آ گئے انہیں یہیں آنا پڑا . جن لوگوں نے یہ سوچے بنا اکڑ دکھائی کہ اکڑنا تو مردے کی نشانی ہے، وہ جیتے ہوئے بھی دنیا کے لیئے مر گئے . جنہیں یہ گمان رہا کہ دنیا ان کی انگلی کے اشارے پر ناچتی ہے انہیں خود اپنے اشاروں کی سمجھ رہی نہ خبر رہی. کہ خبیر  اور کبیر تووہی  ہے جو ہمیں یہاں لانے سے بچا سکتاہے کہ علیمی  اور خبیری  کی دعوے داری اسی کو زیب دیتی ہے.
کبھی کبھی ہمیں بلا وجہ ہی قبرستان بھی چلے جانا چاہیئے کہ وہاں ان سب سے عبرت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے کہ جنہیں بہت گمان تھا کبھی کہ یہ دنیا ان کے بل پر چلتی ہے . اور اس دنیا کا ان کے بعد کیاہو گا . اسی ڈھیر میں ایک ڈھیری کل ہمارے نام کے کتبے سے بھی آراستہ ہو گی اور دنیا اپنے اپنے ہنگاموں میں مست یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرے گی کہ کوئی ہمارے نام کا بھی ان کے درمیان موجود تھا کہیں . کسی کو یہ یاد بھی نہ ہو گا کہ اس نے ہمارے ساتھ بھی کبھی پیار اور وفا کے پیمان باندھے تھے . ہمارے نام کی بھی مالا جپی تھی  .کسی کو یاد بھی نہ ہو گا کہ ہمیں سوئی چبھنے پر انہیں خنجر سا درد محسوس ہوتا تھا. کہ اب اس شہر خموشاں میں ہمیں اپنی جگہ کو صاف اور آرام دہ بنانے کے لیئے ہمارے اپنے ہی اعمال کی ضرورت ہو گی . کوئی اپنی نیکی میرے نام نہیں کر سکتا اور کوئہ اپنا گناہ میرے سر نہیں تھوپ سکتا . کہ یہاں حساب اپنا اپنا چلتاہے اور کھرا کھراچلتا ہے .  جیتے جی یہاں کا دورہ کرنا شاید یہاں کی ضروریات سے ہمیں آگاہ کر دے کہ گھر  لیتے وقت یہ جاننے کے لیئے کئی دورے کرنے والے کویہ جانناہوتا ہے کہ یہاں کا فرنیچر اور سازوسامان کیسا ہونا چاہیئے اسی طرح یہ قبرستان بھی ہمیں یاد دلاتاہے کہ یہاں کے گھر کو آرام دہ کرنے والا  سازوسامان اپنے اعمال بھی ساتھ لیتے آنا . یہ نہ ہو کہ خالی ہاتھ چل دو . یہاں سے واپسی ہونی نہیں اور سفر بھی آسان نہیں . کہیں پچھتانا  نہ پڑے . 
                                                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                          

ہفتہ، 5 ستمبر، 2015

اک پھول تیرتا ہوا / شاعری ۔ کالم

 
        اک پھول تیرتا ہوا
     کلام: (ممتازملک. پیرس)


گلدستہ ٹوٹ کر یوں  سمندر میں گر گیا
اک پھول تیرتا  ہو ا ساحل پہ آ گیا

کیسی ہے بے بسی میرے اللہ کیا کروں
خنجر نشانہ لے کے میرے دل پہ آ گیا

شملہ سجا تھاجو کبھی اجداد پہ میرے
ٹھوکر  میں گر کے اب سر قاتل پہ آ گیا

اعزاز تیرے در کی طرف دیکھتا رہا
لیکن تیری وجہ سے وہ باطل پہ آ گیا

ممتاز جیتے جی نہ ہوئے سیر لب کبھی
اتناپیا کہ مرگ مقابل ہی آ گیا

یاد کیجیئے ہم سب نہیں تو اکثر یہ بات بچپن میں اپنے ماں باپ سے سنا کرتے تھے کہ بیٹا کمی اور خاندانی ہمیشہ پہچانے جاتے ہیں .اور ہم اپنی سمجھداری اور عملیت کا رعب  ڈالنے کے لیئے کہتے کہ کہا کہہ رہے ہیں آپ؟  دنیا بہت آگے چلی گئی ہے .آپ پتہ نہیں کس زمانے میں جی رہے ہیں .
لیکن آج دنیا کی اقدار دیکھ کر پھر سے وہ باتیں دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیں کہ پھول کی لاش تیرتے ہوئے ساحل پر اوندھی  پڑی ہے .  بے شمار کے جسم زندگی کی تلاش میں موت کی دھاروں  پر بہہ نکلے.  اور دنیا کے چند دہائیوں پہلے تک کے بھوکے ننگے بددوں نے اپنے محلوں میں کئی کئی گز کے دسترخوانوں سے شکم سیر ہو کر مہنگے ترین جبے پہن کر ہزاروں کی پرفیوم  و عطر خود پر چھڑک کر  کروڑوں کے گھروں  سے نکل کر  لاکھوں کی چمچماتی کاروں میں بیٹھ  کرسونے چاندی سے جڑی ہوئی( عظیم الشان نہیں،   کہ یہ لفظ ان مساجد کے قیام اور انتظام  پر پورا نہیں اترتا ) مہنگی ترین   مساجد میں ایک دوسرے کو چومتے چمواتے  ان عربوں نے  بہت ہی بڑی قربانی دیتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ  چند سو کلو میٹر پر واقع مسلم عرب  ملک شام کے مسلمانوں  کے لیئے  ( کہ جنہوں نےیہاں  ہونے والے جنگ و جدل ا ور قتل عام سے بچنے اور اپنےمصصوم بچوں کو زندہ رکھنے کی خواہش گناہگارانہ میں زمینوں کے دروازے نہ کھلنے پر سمندروں کو اپنا آپ سونپ دیا ) درد مندانہ دعائیں کیں کہ "یا اللہ ان مسلمانوں کی مشکلات کو دور کر دے .یا اللہ یورپ والوں کو ان پر رحم آ جائے . یااللہ مسلمانوں کے مسائل حل فرما . ان کو امن دے ان کو رزق دے . اسلام کو سربلندی عطا فرما . ........"
اور میرے کانوں میں  سائیں سائیں سا ہونے لگا کہیں دور سے ابا کی آواز کانوں میں آ رہی ہے بیٹا" کمی وہ ہوتا ہے جو سونے کے پہاڑ اور تیل کے کنووں کا مالک بھی ہو جائے تب بھی کسی کو دھیلے  کی مدد دینے سے پہلے سودا کرے گا کہ اسے اس کے بدلے میں کیا ملے گا ، اور خاندانی وہ ہوتا ہے جو چار دن کی بھوک اور روزے  کے بعد  اور بے روزگاری کے بعد  بھی دن  بھر پیٹ پر پتھر باندہ کر مزدوری کرنے کے کے بعد بھی سوکھی روٹی میسر آ جائے اور کوئی ضرورت مند، کوی سائل اس کی چوکھٹ پر صدا لگا دے  تو بھی خالی نہیں جاتا .خود پانی سے حلق تر کر کے اسے اس روٹی سے نواز دیگا .  "
"جو فاتح خیبر اور شیر خدا ہونے کے باوجود اپنے منہ پر تھوکنے  والے کو اس لیئے معاف کر دیتا ہے کہ اگر اب میں نے اسے مار ڈالا تو خداکے  نام پر شروع ہونے والی لڑائی کو میری ذاتی جنگ سمجھ لیا جائے گا "
ہاں ہم نے دیکھ لیا کمی اور پشتی  کا فرق.  بڑے سچ کہتے تھے . آج خزانوں  پر سانپ کی طرح کنڈلی مارے عربی ہے یا عجمی ہر ایک کمی ہے اور خاندانی اپنی سفید پوشی کا بھرم لیئے قدرت کے اس پھیر کو دیکھ رہے ہیں . اور سوچ رہے ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں ان مظلوموں کے لیئے کہ ہماری آواز تو نقارخانے کے طوطی سے بھی زیادہ بے وقعت ہو چکی ہے  . کہ فیصلے خاندانی لوگ نہیں بلکہ کمی لوگ کر رہے ہیں اپنے دماغ اور عقل کے اوپر کے فیصلے .
جن کے دماغ عورت ،شراب ،کم سن بچوں ، اونٹوں کی دوڑوں ،تیتر  اور ہرن  کے شکار، بڑی بڑی عمارتوں اور  پرتعیش نئے ماڈل کے جہازوں  ،حرم کے نام پر بنے عیاشی خانوں سے باہر نکلیں  تو انہی یہ سمجھ بھی آئے کہ تاریخ ان کے منہ پر روز ایک نئی کالک ملتے ہوئے رقم ہو رہی ہے .
ماں باپ گریبان چاک کیئے اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہے ہیں اور معصوم پھولوں کی لاشیں سمندر پر تیر رہی ہیں . جو خدا سے یہ تو پوچھتی ہی ہو ں گی کہ پروردگار ہمیں اس جہاں میں بھیجنے پر تجھے کیا ملا؟
میری بے بس لاچار موت پر کسی تیل کے کنویں میں آگ نہ لگی اور نہ ہی کوئی سونے کا پہاڑ پھٹا . ایک میں ہی تڑپا ، اک میں ہی چیخا لیکن کسی بھی موسیقی کی دھن پر تھرکتے طوائف کے ننگے بدن پر نوٹوں  کی بوری لٹاتے نہ عربی کے کان پر جوں رینگی نہ عجمی کی غیرت کو جوش آیا . سب بھول جائیں گے. ایک اور اور نیا حادثہ انہیں پچھلے حادثے کی یاد سے بیگانہ  کر دیگا . میں کسی کو یاد نہیں رہونگا.
لیکن ہاں مجھے یقین آ گیا کہ یہ دنیا میرے قابل نہیں تھی جہاں قیامت کی نشانی بننے والے خود اس پر فخر رہے ہیں .
انا للہ وانا الیہ راجعون      
                    ................                   
.

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/