ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 27 اپریل، 2015

ملک سے باہر سیاسی جماعتیں چاہتی کیا ہیں ؟/ ممتازملک ۔ پیرس



ملک سے باہر
 سیاسی جماعتیں چاہتی کیا ہیں؟ 
ممتازملک ۔ پیرس




کافی دنوں سے ہم یہ مطالعہ کر رہے تھے کہ کن کن ممالک کی سیاسی جماعتیں کس کس ملک میں کام کر رہی ہیں تو یہ جان کر حیرت بھی ہوئی کہ کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جس کی سیاسی جماعت کسی اور ملک میں ونگز بنائے عوام کو بانٹنے میں مصروف ہو ۔ ویسے تو کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جو کام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا وہ بھی ہمارے ہاں فخریہ پیکش کے طور پر کیا جاتا ہے ، تو یہ کون سا ایسا مشکل کام ہے کہ جو نہیں ہو سکتا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تو ان سیاسی جماعتوں کا وجود پاکستان سے باہر قائم کر کے ہم پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کو کوئی اچھا پیغام دے رہے ہیں یا کوئی بھلائی کا کام کر رہے ہیں تو پھر تو واقعی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن معاملہ اس کے بلکل برعکس ہے پاکستانیوں کو پہلے ہی اس بات کی عادت بھی ہے اور شوق بھی کہ کب ،کہاں، کسے گرا کر آگے بڑھا جائے اور کہاں کس کی گردن پر پاؤں رکھ کر اپنے قد کو اونچا کیا جائے وہاں یہ جماعتیں اپنے اپنے قد کو اونچا کلرنے کے سوا کسی کام کی نظر نہیں آتی ہیں ۔ نہ ہی ان کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی میں کوئی اتحاد پیدا ہو رہا ہے بلکہ سچ پوچھیں تو انتشار مزید بڑھتا جا رہے ۔ اب تو حال یہ ہورھا ہے کہ گھر میں آئے ہوئے سمدھیوں سے بھی اس بات پر منہ ماری شروع ہو چکی ہے کہ ایک کہتا ہے میری پارٹی اچھا کام کرتی ہے اور دوسرا اپنے قائد کو قائد اعظم ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا ہوتا ہے ۔ آئے ہوئے اچھے بھلے رشتے اس لیئے مسترد کیئے جا رہے ہیں کہ دونوں گھرانوں کے سیاسی عقائد نہیں ملتے ۔ خاص طور پر ان گھرانوں کے مردوں کو ان سیاسی پارٹیز کے نام پر اگر بڑھکیں مارنے کا شوق ہے تو سمجھ لیں کہ اب وہ اپنے بچوں کے ہی دشمن بن جائیں گے اور انہیں کہیں بھی دوسرے خاندان میں شامل ہونے کے لیئے آسان راستہ مہیا نہیں کریگا یہ بات اس وقت اور زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے جب لڑکی کے والد یا بھائی ڈائیریکٹ پارٹی بازی میں ملوث ہوں ۔ گھروں میں جھانکیں تو میاں بیوی میں بھی پارٹی کے نام پر جھگڑے بڑھتے بڑھتے بے سکونی کی اور کہیں تو طلاق کی وجہ بن جاتے ہیں ۔ ہم ملک سے باہر روزی کی تلاش میں اور پاکستان کا نام عزت دار ملکوں کی فہرست میں ڈالنے کے لئیے نکلے تھے اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں اور کاروباری میدان میں بلکہ اخلاقی میدان میں بھی ایک بلند معیار اپنائیں۔ جس کے لیئے اگر ضروری ہے تو ہم یہاں کی مقامی سیاست پر نظر رکھ کر اور شمولیت کر کے اپنی کمیونٹی کے مسائل کو بہتر انداز میں متعلقین تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ لیکن افسوس ہم جب بھی کوئی کام کرتے ہیں اس میں بے تکی چھلانگ لگا دیتے ہیں ۔ نہ اس کے لیئے کوئی تربیت حاصل کرتے ہیں نہ ہی کوئی ہوم ورک کرتے ہیں ۔ شاید ہمارے لیئے ہی کسی نے کہا ہے کہ 
کمال ڈریور نہ انجن کی خوبی
خدا کے سہارے چلی جاری ہے 
تو کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان کے مسائل کو پاکستان میں رہنے والوں کے اوپر چھوڑ دیا جائے کہ وہاں جن مسائل سے وہ دوچار ہیں وہی اس بات کا بہترین ادراک رکھتے ہیں کہ اسے کیسے حل کیا جائے ۔ ہم یہاں دور بیٹھ کے عالمی تناظر میں کوئی اچھا مشورہ تو دے سکتے ہیں ، مالی مدد بھی کر سکتے ہیں ، لیکن یہاں انہی پارٹیز کے بت بنا کر انہیں پر آئے دن نت نئی لڑائیاں شروع کر کے انہیں کے لیڈران کے نام پر ایک دوسرے کی بات کو برداشت کیئے بنا محاذ کھول کر ہم اپنی کمیونٹی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟ ہر آدمی اپنے اپ کو دنیا کا مصوم ترین انسان سمجھتا ہے اور اپنی پارٹی لیڈر کو دودھ سے دھلا ہوا ۔ قوت برداشت زیرو رکھنے والی قوم کو پہلے اپنے اخلاقی معیار بہتر بنانے پر پورا زور صرف کرنا چاہیئے اس کے بعد ہی ہم کسی  پارٹی کے لیئے آواز اٹھائیں تو ہی مناسب ہو گا ۔ اور اپنے لیڈران کے بت پوجنے کے بجائے اگر ہم انہیں بھی ایک عام انسان ہونے کا فائدہ دیتے ہوئے ان کے کردار اور قول و فعل پر بھی کڑی نظر رکھنے کا اصول اپنا لیں تو دیکھیئے گا نہ تو کوئی سوئیس بینک بھرنے کی جرات کریگا نہ ہی کسی کو جہاز اسے سودے بازی کر کے بھاگنے کے لیئے اڑان بھرنے کی اجازت دیگا نہ تو کوئی اخلاقی کمزوریوں پر اترائے گا اور نہ کوئی مذہب کا نام لیکر حلوے بانٹنے اور تھال چاٹنے کا کام کرے گا ۔ 

(نوٹ ۔ یہ تحریر کسی بھی خاص فرد کو نشانہ بنا کر نہیں لکھی گئی ہے ۔ بلکہ اس کا مقصد صرف بیرون ملک پاکستانیوں کی آپسی رنجشوں کو بڑھانے والے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالنا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کسی کی دلآزاری ہوئی ہو تو پیشگی معزرت چاہتی ہوں ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 12 اپریل، 2015

بے مقصد مقابلہ بازی / ممتازملک.پیرس



بے مقصد مقابلہ بازی

ممتازملک.پیرس




بے مقصد مقابلہ بازی

ممتازملک.پیرس




فیس بک پر آج ایک پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا .یہ ایک لطیفہ تھا کہ ایک آدمی 
نے بیوی کی چادر سے ناک پونچھا تو اس کی بیوی نے کہا کہ میری چادر گندی 
ہو گئ جبکہ ماں کی چادر سے ناک پونچھی تو اس نے کہا میں دوسری چادر لا 
دیتی ہوں یہ تو میلی ہے .
صاحب پوسٹ نے اپنی طرف سے ماں کو اعلی اور بیوی کو کمتر ثانت کرنے 
پر پورا زور قلم صرف کر دیا .حالانکہ ان دونوں رشتوں کا کبھی کسی بھی 
لحاظ سے کوئ تقابل بنتا ہی نہیں. 
بلکہ سچ کہیں تو مردوں کے غلط مقابلہ بازی نے ان دو پیارے رشتوں کو آمنے 
سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے .اور خود مرد سارے فتنوں کی جڑ ہو کر بھی 
معصوم بن جاتا ہے .بھلا بتائے کوئ کہ ماں کا بیوی سے اور بیوی کا ماں سے 
کیا مقابلہ .ماں آپ سے بیس پچیس سال بڑی ہوتی ہے .آپ کی ذمہ داری لیتے 
ہوئے آپ کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے .جبکہ بیوی آپ سے بھی دس دس بیس 
بیس سال چھوٹی ہے .اس کے باوجود آپ کے خاندان کا بوجھ اٹھاتی ہے آپ کی 
اولاد کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے . میرے خیال میں دنیا کا کوئ احمق آدمی ہی 
ماں اور بیوی کا مقابلہ کریگا. ماں ماں ہوتی ہے اور بیوی بیوی ہوتی ہے بیوی 
کے لاڈ اٹھانا آپ کی کوئ مجبوری نہیں ہوتی .نہیں اٹھانا تو مت کیجیئے شادی۔
ماں اپنے بچے کو اپنی زمہ داری پر جنم دیتی ہے اسے پروان چڑھاتی 
ہے اس کے ناز نخرے اٹھاتی ہے   جبکہ  شوہر اپنی بیوی کی زمہ داری سارے 
سماج کے سامنے اٹھاتاہے .جو کہ سب سے بڑی سنت ہے یہاں تک فرمایا گیا 
ہے کہ بیوی کے منہ میں محبت سے نوالہ رکھنا سب سےبڑی نیکی ہے اور 
صدقہ سے بھی بہتر ہے ۔
اپنی ماں کے بیٹے بنئے اپنی بیوی کے بیٹے بننے کی کوشش کریں گے تو 
ساری عمر دکھی ہی رہیں گے.

                     .............................





بدھ، 8 اپریل، 2015

مخلصانہ مشورہ






مخلصانہ مشورہ
ممتازملک ۔ پیرس



عزت عزیز ہےتوسارے مردوں کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ عورتوں کی لڑائیوں سے دور رہیں ۔یہ لڑائی چاہے ساس بہو کی ہو ، نند بھاوج کی ہو، دیورانی جٹھانی کی ہو یا پھر دو بہنوں کی ۔ کیونکہ ان دو میں کوئی ایک ضرور ہی جھوٹ بول رہی ہوتی ہے ۔ یا ادھوری بات پیش کر رہی ہوتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ عورت جب خود دل سے چاہے دوسری عورت کے ساتھ سارا جھگڑا منٹوں میں رفع دفع کر لے گی ۔ لیکن اس جھگڑے میں کسی بھی طور سے حصہ لینے والے مرد ایک تو اپنا منہ کالا کروا لیتے ہیں ۔ دوسرا تاحیات دشمنی کا بیج بو جاتے ہیں ۔ جو بعض اوقات انکے بعد انکی نسلوں تک زہر پھیلاتا رہتا ہے۔جیل جانے والے اکثر مردوں کا ریکارڈ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان کے جیل یاترا کے بندوبست میں سب سے بڑا کردار کسی  نہ کسی عورت نے یا عورت کے جھگڑے نے ہی ادا کیا ہے ۔ 
دور نہ جائیں دنیا کا پہلا جھگڑا بھی عورت ہی کے کارن ہوا ۔ اور لگتا ہے قیامت کا اعلان بھی کسی عورت کے جھگڑے کو ہی قرار دیا جائے گا ۔ پیارے بھائی کسی نہ کسی کی محبت کے پلڑے میں اپنی حمایت کا وزن ڈالتے ہوئے اپنے دماغ کے لاکر کو تالا لگا کر اس کی چابی ایسی جگہ پھینکتے ہیں کہ پھر چاہتے ہوئے بھی یہ لاکر کھولنا چاہیں تو بھی چابی ان کے ہاتھ آنے تک جذبات کے لٹیرے اردگرد کے سارے رشتوں کا خزانہ لوٹ چکے ہوتے ہیں ۔ اس جھگڑے سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہی ہے کہ گھر میں خواتین کی جنگ چھڑتے ہی گھر کے مرد گھر سے باہر کا رخ کریں ۔ اور واپسی پر بھی کوئی بھی خاتون چاہے ماں ہو بہن ہو یا بیٹی  یا بیوی ہو ،اگر آپ کے کان میں صُور پھونکنا چاہے  تو اسے مضبوط لہجے میں بتا دیں کہ خبردار مجھے عورتوں کے کسی جھگڑے کی رپورٹ نہیں چاہیئے ۔ اور اگر ان خواتین نے انہیں اس میں الجھانے کی کوشش کی تو آپ گھر سے باہر رہنے کا کہیں ٹھکانہ کر لیں گے ۔ ایسی صورت میں ان کا خرچہ پانی بھی بند کر دیجیئے ۔  اور اگر کبھی خدا نخواستہ ایسا سچ مُچ کرنا بھی پڑ جائے تو ضرور کیجیئے ۔ نتیجہ چند روز میں آپ کے سامنے ہو گا ۔  ساری اکڑفوں اور ساری بددماغیاں اصل میں بیکار بیٹھنے کی وجہ ہی سے ہوتی ہیں اگر یہ ہی خواتین یا پڑھ رہی ہوتیں یا کہیں کام کر رہی ہوتیں یا کوئی اور مصروفیت رکھتیں تو ایسے پھڈے کبھی ہوتے ہی کیوں ۔ خیر اس میں بھی آپ مردوں کو ہی بہت شوق ہوتا ہے کہ زرا زرا سی بات پر ناک کٹ کر ہاتھ میں آ رہی ہوتی ہے ۔ گھر کی عورت کہیں پڑھائی کریگی تو ناک کٹ جائے گی کہیں نوکری کرے گی تو ناک کٹ جائے گی ۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ایک مرد کی زندگی میں دو ہی چیزیں  اہم ہوتی ہیں ایک اسکی ناک اور ررررررررررردوسری دوسری بھی اس کی ہی ناک ۔ 
چچا غالب سے معذرت کے ساتھ 
ناک نے تم کو نکما کر دیا 
ورنہ سنا ہے آدمی تم بھی تھے اس سے پہلے کام کے 
واہ واہ واہ کیا بات ہے ۔
خواتین کی اکثریت کو عادت ہوتی ہے خوامخواہ مظلوم بننے کا ۔ کسی نے انہیں پھول سے مارا یہ تو وہ آپ کو ایسے سنانے بیٹھیں گی جیسے کسی نے ان کی گردن کاٹ ہی کاٹ دی ہو ، جب کہ جسے انہوں نے گملا اٹھا کر دے مارا ہو یا سر منہ کھول کر موچی سے ٹانکے لگوانے کے لائق بھی نہ چھوڑا ہو اس کا ذکر بھی ایسی فرمائیں گی جیسی کم بخت خود ہی تو اپنے آ پ کو روئی سے مار رہا تھا اپ ایسے پڑا ہے جیسے ٹرک کے نیچے آ گیا ہے ۔ 
لہذا پیارے بھائیوں پھر وہی بات کہ عزت عزیز ہے تو خواتین کے ہر طرح کے جھگڑوں سے دور رہیں ۔ کیا خیال ہے ؟
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 2 اپریل، 2015

مہمان نوازی ۔ ممتازملک ۔ پیرس




مہمان نوازی ، پھول اور بچے
ممتازملک ۔ پیرس


ڈنمارک کے کوپن ہیگن ائیر پورٹ پر اترتے ہی 35 منٹ چلتے چلتے بے حال ہم پہنچے سامان کے پٹے پر ۔ جلد ہی  اپنا سوٹ کیس دکھائی دیا تو خوشی ہوئی کہ مزید انتظار نہیں کرنا پڑیگا ۔ ٹرالی پر سامان ٹکایا اور باہر جانے والے دروازے سے نکلتے ہی سرخ کوٹ میں خوشی سے ہاتھ لہراتی ہوئی صدف مرزا ہمارے سامنے تھیں لپٹ کر محبت سے گلے ملیں، پیار سے چہرہ چوما، اور یوں لگا کہ ہم کہیں اور نہیں بلکہ اپنی ہی بہن کے گھر اپنی ہی عزیز ہستی کے گھر آ گئے ہوں ۔ ان کے ساتھ میں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ کیساتھ یہ ہماری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی ۔ جو بہت ہی پیار سے ملیں ۔ معلوم ہوا کہ ایک اور فلائیٹ سے پیرس سے ہماری معروف شاعرہ ثمن شاہ صاحبہ بھی آ چکی ہیں انہیں کا انتظار ہے ۔ پندرہ منٹ میں انہیں بھی سامان کی ٹرائی کیساتھ باہر آتے ہوئے دیکھا تو سبھی محبت سے ایک دوسرے سے ملے بلکل ایسا لگ رہا تھا جیسے سکول کالج کی بچیاں کسی ٹرپ کے لئے اکھٹی ہوئی ہیں ۔ سب کی خوشی دیدنی تھی ۔ سہارا ٹائمز کے کیمرہ مین اور صدف صاحبہ کے کولیگ  زبیر بھائی  نے ہمیں اپنی گاڑی میں  صدف جی کے گھر تک پہنچایا ۔ اور رخصت لی ۔ گھر پہنچتے ہیں ہمیں وارننگ ملی کہ کڑیو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہے اس میں کھانا بھی کھانا ہے اور تیار ہو کر آج کے پروگرام میں بھی پہنچنا ہے ۔ ہمارے فریش ہونے تک صدف جی نے کھانا جو میز پر لگایا تو ہم حیران رہ گئے کہ اس قدر مصروف خاتون نے کیا تھا جو نہیں بنا رکھا تھا ۔ دوسروں کے گھر میں فرش پر بھی گدا ڈال کر سو جانے والی صدف مرزا اپنے گھر میں اس قدر لوازمات سجائے بیٹھی تھیں اور بصد اصرار ایک ایک لقمہ کھانے پر مصر تھیں کہ کہنا پڑا کہ بی بی کیا بچے کی جان لو گی کِھلا کِھلا کر ۔                  
بھاگتے دوڑتے گاڑی کے آنے کی خبر سنتے ہیں فلیٹ سے نیچے کو لپکے۔ پروگرام سے واپسی پر رات دس گیارہ بجے پھر وہی مدارات ۔  اور تو اور دو دن کے لیئے کروز نامی شپ میں ہم چاروں خواتین کا قیام ، ناروے کا دورہ کروانا ہو یا جتنے روز بھی ان کے ہاں ہمارا قیام رہا ہر لمحہ ہمارے کھانے پینے کا خیال ، سونے کا خیال ، ٹرانسپورٹ کا انتظام غرض کہ ہمیں کسی بھی بات کے لیئے نہ تو سوچنا پڑا ، نہ ہی کوئی تردّد کرنا پڑا . پروگرامز کے دوران بھی ہر مہمان کی عزت اور مرتبے کا پورا پورا خیال رکھا ۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ ہماری اوقات سے زیادہ ہمیں عزت دی ۔ یہاں ہمیں وہ بونی عظیم ہستی بھی یاد آئی کہ جو دو دو ماہ قبل منّتیں کر کے پروگرام کروانے کے لیئے کسی کو تیار کرتی ہیں ۔ اس کے نام پر مہمان اکٹھے کرتی ہیں اور عین پروگرام کے دوران اس میزبان کو نہ صرف پہچاننے سے انکاری ہوتی ہیں بلکہ سٹیج پر اس لیئے اس کی کرسی تک نہیں لگواتی کہ کہیں اس کی بونی ہستی کا وزن اور ہی کم نہ ہو جائے ۔ اس لیئے صدف مرزا صاحبہ کے لیئے یہ ہی کہوں گی کہ انہوں نے حق میزبانی سے بھی بہت زیادہ کیا ہم سب کیساتھ ۔ وگرنہ میرے سامنے تو ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں خود کو عظیم ثابت کرنے والی بونی ہستیاں دوسرے ملکوں سے مہمان بلا کر انہیں مدعو تو کرتی ہیں ،مگر نہ تو انہیں پہنچنے کا مقام بتایا جاتا ہے نہ ہی کوئی پروگرام کا شیڈول دیا جاتا ہے اور تو اور کئی تو انہیں ٹیلفون پر بھی سلام دعا کرنے سے غائب ہو جاتی ہیں اور کئی تو گھر آنے کی دعوتیں دیکر گھر سے ہی غائب ہو جاتی ہیں یا پھر دروازوں کے پیچھے چھپ کر گھر پہ ہی نہ ہونے کا بھی سوانگ رچاتی ہیں ۔ ایسے زمانے میں خود اسقدر مصروف ہستی ہونے کے باوجود اس طرح گھر بلا کر مہمانوں کی ہر ہر بات کا خیال رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ جسے دیکھ کر یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے کردار کی بلندی دیکھنا ہو تو اس کی میزبانی کا جائزہ لے لینا چاہیئے ، اور اس میزبانی میں صدف مرزا صاحبہ کو بلاشبہ پورے نمبر دیئے جا سکتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ کام کرنے والی خواتین یا لکھنے والی خواتین ایک اچھی گھردار نہیں ہو سکتی ہیں تو ان کے لیئے تو ایسی تمام خواتین ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم کو جاری رکھا اپنی اولاد کو بہترین پرورش بھی دی اور اعلی تعلیم بھی دلوائی اور انہیں لڑکا اور لڑکی کے فرق کے بغیر مکمّل گھرداری بھی سکھائی ۔ جس کی وجہ سے بیٹی آج چوبیس برس کی عمر میں اپنا گھر بھی کامیابی سےچلا رہی ہے اور شادی کے بعد ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوں اپنی میڈٰیکل کی تعلیم بھی مکمل کر چکی ہیں اور مزید تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جبکہ بیٹا بھی یونیورسٹی کا ایک لائق طالب علم ہے ۔ لیکن ماں کی ایک ایک بات کی فکر کرنے اور خیال کرنے والا پیارابرخوددار بھی ہے ۔  ایسے گھر تبھی بنتے ہیں جب مائیں اپنی خواہشیں اور معمولات کو اپنے مچوں کی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیتی ہیں ۔ وگرنہ خود رات کے دو دو بجے مخلوط محفلوں میں بیٹھی خواتین اپنی اولادوں کو اپنی ہی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتی تو اکثر ہی دکھائی دے کھاتی ہیں ۔ اور انہیں یہ کہنے کا بھی موقع نہیں مل پاتا کہ 
                     اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت 
 اولادوں کی پرورش کوئی مذاق نہیں ہوتا اس کے لیئے خون جگر ہی نہیں دینا پڑتا بلکہ اپنے دماغ کا پانی بھی پلانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر اولاد نامی پودے تندرستی سے پروان چڑھتے ہیں ۔ یہ نہ ہو تو انہیں مرجھاتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی اولادوں کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق اور سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین 
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   

بدھ، 1 اپریل، 2015

ڈنمارک فائل/ کانفرنس






حضور آ گئے ہیں
ممتازملک ۔ شاعرہ

حضور آ گئے ہیں حضورآ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی 
نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
نگاہوں کا میری غرور آ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

کہ جن کے لیئے یہ زمیں آسماں بھی 
جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی 
وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے 

وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی
جو سب کی عقیدت کی وجہہ بنی تھی
وہ حسن و عمل کا شعور آگئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آگئے ہیں

،،،،،،

مقالہ

فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ
ممتازملک ۔ پیرس
                     
                         

یوں تو اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب ، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات ، تعلیم ، حقوق انسانی ، سیاسیات ، غرضیکہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے  دنیا میں عروج حاصل کیا ۔   لیکن مالی بے ضابطگیوں اور بڑھتے ہوئے شاہی   من مانی  کے دستور نے اس زمانے کے انہیں باکمال لکھاریوں اور مفکرین  کے  ذریعےعوام کے ذہنوں میں انقلاب کی راہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ 1789 میں  "خزانہ خالی ہے اور اسے بھرنے کے لیئے عوام مذید قربانیاں دیں "کے جیسے بیانات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا 

 ہے کہ اس دوران   14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس 

میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔

 نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ 

نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی ۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس

 واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے 

ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا 

سہا اقتدار بھی ختم ہوگیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور 

کا نفاذ ہوا

 20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ 

اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 

جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو  جبکہ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی 

عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو 

خدائی عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔  اس کے بعدفرانس میں کسی کی گردن 

محفوظ نہ تھی۔ ۔ 94۔1793 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 

آخر کار 8 جون 1795ء کوفرانس کے ولی عہد  کو بھی قتل کردیا گیا۔  یوں صدیوں 

کی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ۔  مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار 

آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔

دنیا بھر کی خواتین کی طرح فرانس کی خواتین کو اپنے ماں بیوی اور بیٹی کے 

رول کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔ اس لیئے یہاں بھی خواتین  نے 

بھی اپنے حقوق کے لیئے بیسویں صدی میں بے مثال جدو جہد کی ۔ یوں تو فرانس 

میں شاہی ادارے  نےصدیوں لوگوں پر حکومت کی ۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ 

انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی اور ایوان  شاہی کی بڑھتی ہوئی من مانیوںکا 

زور جب ناقابل برداشت ہونے لگ گیا تو عوامی غصے نے بلآخر اسے انقلاب 

فرانس پر منتج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا  ۔ اور شاہ کو لوگوں کے غضب کا اندازہ 

لگاتے ہوئے اپنے اختیارات کا دامن سمیٹ کر عوام کو ملکی فیصلوں میں شامل کرنا 
ہی پڑا ۔ انقلاب فرانس ابھی عوامی  حقوق کی ادائیگی کا نقطہ آغاز تھا ابھی اور 

بہت سے اختیارات منشور کا حصہ بنائے جانے تھے ۔ 

 انقلاب کے دوران خواتین کو بلکل ہی غیر فعال اور ناکارہ سمجھا گیا ۔ اس کے 

باوجود کہ اس وقت 1791 کا تیار کردہ آئین جسے کون دوغسے  '' کا نام دیا گیا ، 

 کے مطابق  خواتین کے ووٹ کے حق کی شق موجود تھی ۔اپیل کے باوجود بھی 

انہیں یہ حق نہیں دیا گیا ۔ جو کہ انہیں سیاسی شہریت دینے سے انکاری ہونے کی 

بات تھی  ۔   انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائیل میں ووٹ کا حق صرف مالی 

حیثت کی وجہ سے زمین کے مالکان یا اس کے جائیدا کے وارثان کو ہی دیا گیا ۔ 

خواتین کو علماء پر غیر ضروری انحصار اور مذہبی اعتقاد رکھنے اور فیصلہ کر 

نے میں جلد بازی کی وجہ سے اس حق سے محروم کیا گیا ۔  

اسی سسلے میں (1882 ) میں فرانسسی لیگ

اور فرانسسیسی یونین کے "SUFFRAGETTETS KI " سُفغاژیٹ کی "

"OLYMPE dE GOUGES  " اولامپ دُو گوز"

"خواتین کے حقوق اور شہری اعلامیئے " (1791)(1905)

اور کئی اور تنظیموں نے بڑا کردار ادا کیا ۔اور مذید  کئ مراحل حقوق کے حصول 

میں پیش پیش رہے ۔ 

لیکن فرانس کی خواتین کی قسمت کے ااس فیصلے میں سب سے زیادہ روشن اور 

تاریخ ساز دن اس خبر کیساتھ شروع ہوا جب 1935ء میںJuliot Curie  جیولیٹ 

کیوری نے دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ کیمسٹری جیسے  مشکل شعبے میں 

حاصل  کیا ۔ یہ ایوارڈ حاصل کر کے فرانسیسی خواتین نے  دنیا کو فرانس کی 

خواتین کی صلاحیتیں ماننے پر مجبور کر ہی دیا ۔ 

فرانسسی مزاحمتی ہیرو پی ایغ بروسولیٹ  کی بیوہ  گلبرٹ بروسولیٹ  کے بےمثال 

کردار نے اس جدو جہد کو بلآخر بیلٹ بکس تک پہنچا ہی دیا ۔  

 اس کامیابی نے خواتین کے ووٹ کے حق کی بحث اور ضرورت کو عروج پر 

پہنچا دیا اس کے باجود اس سفر کو منزل تک پہنچنے میں  مزید 10 سال لگ گئے ۔ 

1944 ء 21 اپریل میں جنرل چارلس ڈیگال نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے 

ایک حکم جاری کیا جس کے تحت فرانس میں  خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کا 

اعلان کر دیا گیا ۔اور اس بات کو قانونی شکل دیدی گئ کہ خواتین نہ صرف ووٹ 

میں مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں بلکہ خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے 

برابر مساوی حقوق کی ضمانت دیدی گئ ۔

 یوں اگلے سال  1945 ء 21اکتوبر بمیں خواتین نے پہلے بار اپنے حق رائے دہی 

کو استعمال کیا  ۔  یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خواتین میں اپنی اہمیت اور وقار کے 

احساس کو اجاگر کیا ، اور انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ فرانس کی ترقی 

مین کردار ادا کرنا شروع کیا ، سچ یہ ہی ہے  کہ جب آپ کی صلاحتیوں کا اعتراف 

کیا جاتا ہے تو آپ میں اپنے کام کو مذید نکھارنے کو آگے لیجانے کی نہ صرف 

خواہش پیدا ہوتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔

                         فرانس زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد
                                     .......................



شہر دغا
 city of betrayers

کلام / ممتاز ملک

POETES / MUMTAZ MALIK



وہ تجھے پیار کے بولوں سے دیوانہ کر کے

They will make u crazy with their sweet talks

چھوڑ جائے گا کسی روز بہانہ کر کے

   one day they will leave u make an excusse

زہر بنیاد میں تھا شہد چٹایا برسوں

poison was in his basse years  of years irock them honey

پھر اسے منہ میں رکھا اس نے زُبانہ کر کے

then he keep in the mouth by name of tongue

جانے کتنے تهے مسافر جنہیں منزل نہ ملی

many were travlers who can't  find  the destination

میں بھی آیا یہ کہا جن کو روانہ کر کے

i am also coming say whom after sending


سادگی دیکھ تیری مجھکو بھی رونا آیا


i weaped to see your simpelsity

فطرتیں کون بدل پایا زمانہ کر کے

nature can't change after years too



بھول جا اسکو تیری یاد کے قابل وہ نہیں

forget him he can't able to memorise

کیا ملے گا یوں اسے یاد روزانہ کر کے
what will u get to memorise him daily

ہم فسانے کو بھی سچائ سمجھ کر روئے
we  weaped on fiction like a reality
بات سچی بھی وہ کرتا ہے فسانہ کر کے
he talk about reality like a fiction

         قہقہے پهیل  گئےاسکے ہوا میں اکثر  
his lafter spreed in the air often  
سسکیاں جس نے دبائ ہیں خزانہ کر کے    
                        who hide there sob like a treasures                 
                           
 ان میں جرات نہ تھی کہ  ہم سے مقابل ہوتے
they can't dear to compeat me
                       بات اوروں سے کہی ہم کو نشانہ کرکے                          
    he talk to another and make target me 


دوستی نام ہے ٹھوکر پہ نئی ٹھوکر کا 

friendship is the name of knock after new knock
جو بھی آیا وہ گیا مجھ کو سیانہ کر کے
whatever came ، he went ،to gave me a wisdom

تو منافق نہیں ممتاز یہ ہے شہر دغا
 u r not hypocrite Mumtaz this is the city of betrayers 
ہو جا بےفکر تو اس دل کو توانا کرکے
unconcern about  it ،make heart strong
......................





نوحہ غم ہے
wailing grife
کلام / ممتازملک
 poetes/ Mumtaz malik



نوحہ غم ہے اس پہ کیا کہئیے
this is wailing grife what i say on this
ہر گھڑی آنکھ نم ہے کیا کہئیے 
the eye is moist in every moment what i say

چیرتی جا رہی ہے روحوں کو
it is ripping  the souls 
 درد جتنا ہو کم ہے کیا کہئیے
how many pain is bit now what i say

زہر لفظوں میں گُھل گیا اتنا
poison micksed in my words
 چاشنی اب عدم ہے کیا کہئیے 
how many suger is  nill now what i say



ہائے آوارگی کا کیا شکوہ 
 ah what is the complain about wandring 
 سب کا شکوہ ستم ہے کیا کہئیے
all complains r oppress what i say  

اتنے پهولوں پہ خاک ڈالی ہے 
how many flowers buried
میری گردن بهی خم ہے کیا کہئیے
my neck is falldown what i say

ہم نہ پہچان پائے لاشے کو
we can't recognize the body
دوستی سرقلم ہے کیا کہئیے
friendship is severed head what i say

گھر میں میرے ہو روشنی کیسے
how can light in my house
کب چراغوں میں  دم ہے کیا کہئیے
when the power in the lamps

ماتمی شور کر گیا بہرا
the noise of mourning make me deaf
 اور بصارت الم ہے کیا کہئیے
 and the vision is another pain  what i say
جس کی چادر چهنی اجالے میں
who  lost theire onner in the light
 زندگی شام غم ہے کیا کہئیے
life is sorrow evning for him what i say

جو بهی اٹھتا ہے امن کی جانب
whatever arise towards the peace
لڑکهڑاتا قدم ہے کیا کہئیے
it's floundring step what i say

 منزلوں تک پہنچ نہیں پاتا
can't reache on the destination
 سوچ میں ہی سُکم ہے کیا کہئیے
the fault in the thinking whats i say



اب تو ممتاز دل کی تختی پر
now Mumtaz on the bord of my heart
درد ہی تو رقم ہے کیا کہئیے
the write only pain what i say

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




مدّت ہوئ عورت ہوۓ 


مجھ سے سہیلی نے کہا
my friend say to me

ممتاز ایسا لکھتی جا
Mumtaz write something like this

جس میں ہوں کچھ چوڑیوں
whatever anounce the voice of bangeles

چھنکارکی باتیں
talk of their sound

کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے
some mentions about fola  


اِظہار کی باتیں
talks of expretion

اُڑتے سنہری آنچلوں میں
 in the golden flying sckarf

موتیوں کی سی لڑی
like string of pearls


پہلی وہ شیطانی میری
my first naughty

پہلی وہ جو میری ہنسی
my first lafght

بالی عمر کی دِلکشی
attraction of young age


وہ بچپنے کی شوخیاں
pranks of chaildhood

خوابوں میں خواہش کے سراب
wisheland in the dreams

دھڑکن کی وہ سرگوشیاں
 conspirecy of heat beat


گوٹا کِناری ٹانکتے
make embroidery and lasess


اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن
stuknuss of needle in the fingur


دانتوں میں اُنگلی داب کر
prees the fingur in the teeth

ہوتی شروع پھر سے لگن
  start again that dedication


پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب 
when was sound first


یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
this heart ،do u remember

وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
wrold of colors and  perfumes

اب بھی کیا آباد ہے
still alive


میں نے کہا میری سکھی
i said my friend

دنیا کیا تو نے نہ تکی
u don't saw this wrold


مصروف اِتنی زندگی
the life was so busy

کہ چُوڑیاں پہنی نہیں
i don't wear bangels

جو چُنریاں رنگین تھیں
colorfull scarfs

وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں
  flying after took sunlight

میری عمر کی تتلیاں
butterflies like my age

اب اور جانِب مڑ گئیں
they move another sides

اب دوپٹوں پر کبھی نہ
now never on the scarf

گوٹا موتی ٹانکتی ہوں
make me embroidery

سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب
not stuk the needle in my fingur

د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں
i sew my heart

خوشبوؤں کے دیس سے
to the wrold of perfumes

میں دُور اِتنی آگئ
i  came to far

جینے کی خاطر
for servaival

 مرد سا
like a man

انداز میں اپنا گئ
i change my self


رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے
fulfill the relations


فرض ادا کرتے ہوۓ
and done my duties

تُو نے جو چونکایا لگا
u startled me

مدّت ہوئ عورت ہوۓ
long time passed when i was a women

MUDDAT HOI AURAT HOEY

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سربستہ راز

سربستہ راز

سربستہ رازوں کو اب میں جان رہی ہوں  
  چھپے ہوۓ لہجوں کو اب پہچان رہی ہوں

    سیدھے رستوں کی متلاشی رہی ہمیشہ
   اس کے ہر اک موڑ سے میں انجان رہی ہوں

   اپنا لکھا آپ جو پڑھنے بیٹھی جانا  
 میں تو سب کے غم کا اک دیوان رہی ہوں  

 جس کی دیواروں میں درد بسیرا کر لیں 
  میں خاموش سا ایسا ایک مکان رہی ہوں 

   مجھ میں آوازوں کی گونج سنی جاتی ہے 
  صدیوں سے ہی شاید میں ویران رہی ہوں

   کبھی یہاں نقارے گونجا کرتے تھے  
  حیرت کا اب لوگوں کے سامان رہی ہوں   

ہر اک چوٹ کے بعد قدم جماۓ پھر سے 
  جینے کا میں ہر باری امکان رہی ہوں  

 کبھی خوشی کا اوڑھ لبادہ کبھی غموں کی چادر 
 ہر اک رنگ مِیں مَیں تو بس مہمان رہی ہوں 

  روشن امیدوں کو قأیم رکھنا ہو گا  
  ہمت والوں کی میں تو مسکان رہی ہوں 
  
 اب اک ہی افسوس مجھے مُمتاز رہے گا
 دیر بہت کر کے میں یہ سب مان رہی ہوں 
....................
بنا تیرے بھی مکمل ہے


بنا تیرے بھی مکمل ہے یہ حیات میری
اسی سفر مین رواں ہے یہ کائینات میری

ادھوری چھوڑ گئے تم جو اک زمانے میں
اکیلے آج مکمل کروں گی بات میری

فلک کے چاند ستاروں نے حال دیکھا ہے
حیات کس نے کی دنیا میں بے ثبات میری

ہوا کے رخ کو بھی میں اپنے حق میں کر لوں گی
بڑے عذاب لگائے ہوئے ہیں گھات میری

جو مجھ سے واسطہ رکھے اسے پتہ ہو گا 
میں تم کو عیب بتاؤں یا پھر صفات میری

جنہوں نے نام سے ممتاز پہلی بار کہا 
 وہ سن چکے تھے کسی طور مناجات میری



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو میرے رُخ


یہ جورُخ پہ میرے ملال ہے
یہ تیری وفا پہ سوال ہے

مجھے غم نہ تم نےکبھی دیا
یہ محض تمہارا خیال ہے

میں تیرے لیئے ہی بکھر گئی 
تو نہ جان پایا کمال ہے

یہ جو ساز زیست ہے بج رہا 
نہ ہی سر ہے اب نہ ہی تال ہے

ممتاز اس کو یہ کہہ بھی دو
تیرا ساتھ ہے یا وبال ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عورت

یاد رکھنا کہ اک عورت سے ہوئے ہو پیدا
یاد رکھنا کہ اک عورت ہی کی آغوش میں ہو 

اب تیرے ہاتھ سے محفوظ نہیں وہ عورت
کیا کیئے جاتے ہو بتلاؤ تو کچھ ہوش میں ہو

پہلے ہی گھر میں چراغوں کی بڑی قلت ہے
کیوں دیئے گھر کے بجھانے کیلیئے جوش میں ہو

ساری دھرتی کو نہ آآ کے یوں ناپاک کرو
جانے بربادی کی کس لہر میں کس دوش میں ہو

رحم آتا نہیں کھلتی ہوئی کلیوں پہ جنہیں 
باغ ویران ہوئے خوابئہ خرگوش میں ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 



کبھی ملی نہیں بے فکریاں


کبھی ملی نہیں بے فکریاں زمانے کی
تگ و دو ہم نےبڑی کی تھی انکو پانے کی

نہ بچنا جس کامقدر تھا کیسے بچ پاتا
بھلے سے کی تھیں بڑی کوششیں نبھانے کی

مجھے منانا کوئی اسقدر گراں تو نہ تھا 
ہے دیر اب بھی بھلے تیرے اک بہانے کی

ازل سے معاف کیئے جا رہے ہیں ہم انکو
پڑی ہے آج ضرورت یہ کیوں جتانے کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



قدرت کے تحا ئف ہیں



قدرت کے تحا ئف ہیں



قدرت کے تحا ئف ہیں تیری ذ ات میں شامل
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل

دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ہے
جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل

اے ماں تیری ہستی میں میرا نام چُھپا ہے 
یہ بات الگ ہے تیرے درجات میں شامل 

خدمت ہو محبت ہو کہ قُربانی کا جذبہ
کچھ خاص ہیں یہ تیرے کمالات میں شامل

کیسی ہے عجب بات تیرے بعد بھی اب تک
ہائے ماں میرا کہنا بھی وظیفات میں شامل

ہر چوٹ میں لب سے ہے تیرا نام نکلتا 
ہے ذکر تیرا میری عبادات میں شامل 

مُدت ہوئی بچھڑے ہوئے پرسوچ میں اب بھی 
جیسے ہو یسیری سی خیالات  میں شامل

مُمتازاس کے ساتھ بجے چین کی بنسی
بعد اسکے زندگی بھی ہے ظلمات میں شامل

کلام/ممتازملک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھوک

اے کاش ایسا ہوتا  
 تصویر دیکھکر ہی 
کاغذ پہ بھوک مٹتی
کوئی بھوک سے نہ مرتا
کوئی دودھ کو نہ روتا
کوئی جاں سے نہ گزرتا
نہ کہیں پہ  جسم بکتا
نہ ہی رقص مرگ ہوتا
کوئی جرم بیگناہی 
کی سزا کبھی نہ بھرتا 
کوئی آنسوؤن سے اپنے 
یوں گلے کو تر نہ کرتا 
کوئی خون میں کسی کے 
ہاتھوں کو تر نہ کرتا
کوئی مجرموں کے گھرکا
پانی کبھی نہ بھرتا 
بم باندھ کر بدن سے
بچہ کبھی نہ مرتا 
راشن کی لائنوں میں 
کوئی ماؤں کو نہ ہرتا
اور رات کے قہر میں
 ماں نہ تلاش کرتا
بجلی جو اس پہ گرتی
ماں کے لیئے نہ ڈرتا
عزت کے دشمنوں سے 
سودے کبھی نہ کرتا
نہ کہیں قرار لٹتا 
نہ کہیں مزار ہوتا
نہ ہی میں بھی ہوتی عورت
نہ ہی تو بھی یار ہوتا
نہ میں بیچتی حیا کو
 نہ تو بے قرار ہوتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



خاموشی دکھ کے دریچوں سے گزر کر اکثر 
میرے دل کے کسی ویرانے میں بس جاتی ہے 

کسی سہمے ہوئے معصوم سے بچے کی طرح 
بے وجہ اپنے ہی دکھ پہ خودی ہنس جاتی ہے

منتظر آنکھ ہمیشہ سے کسی دید کو ہے
پر کبھی دید بھی آنکھوں کو ترس جاتی ہے 

جو کوئی پیار سے اس دل کو دلاسا دیدے
بس اسی لمحے بنا سوچے برس جاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


محبت بانٹنے نکلے



محبت بانٹنے نکلے

محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے

ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے

جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے

لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں 
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے

وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آذما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے

قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنو
 عورت سے لڑنے کی
 کبھی کوشش نہیں کرنا
اگر یہ ہار جاتی ہے 
تو حیرت اس پہ مت کرنا 
کہ رونے بیٹھ جاتی ہے
مگر جب جیت جاتی ہے 
تو تب حیران کرتی ہے 
کہ رونے بیٹھ جاتی ہے
بھلا کیوکر یہ سمجھو گے
کہ وہ جو ہارنے والا تھا 
وہ بھی اس کا اپنا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



سُن محرم ميرے 


سُن محرم ميرے آج زار
تو ركھ لے ميری لاج زار

نہ رول مجهے مطلب كے لئے
تو بن جا صحيح سرتاج زار

سن باتيں جاہل لوگوں کی
نه مجهکو کر محتاج زرا

یه دنیا اڑیل ٹٹو ہے
نه سمجه انہیں الحاج بڑا

گر میری نظرمیں رہنا ہے
تک چهوڑکے جهوٹا سماج ذرا

کوئی آنکه نہ مجھ پر اٹھ پائے
کر غیرت کا اندراج زرا

ممتاز نه جس میں ره پائے
کس کام محل یه تاج زرا


.......








شہر دغا
 city of betrayers

کلام / ممتاز ملک

POETES / MUMTAZ MALIK



They will make u crazy with their sweet talks



   one day they will leave u make an excusse



poison was in his basse years  of years irock them honey



then he keep in the mouth by name of tongue



many were travlers who can't  find  the destination



i am also coming say whom after sending




i weaped to see your simpelsity



nature can't change after years too





forget him he can't able to memorise


what will u get to memorise him daily


we  weaped on fiction like a reality

he talk about reality like a fiction

          
his lafter spreed in the air often  
   who hide there sob like a treasures                 
                           

they can't dear to compeat me
                                                 
    he talk to another and make target me 




friendship is the name of knock after new knock

whatever came ، he went ،to gave me a wisdom


 u r not hypocrite Mumtaz this is the city of betrayers 

unconcern about  it ،make heart strong
......................





نوحہ غم ہے
wailing grife
کلام / ممتازملک
 poetes/ Mumtaz malik




this is wailing grife what i say on this

the eye is moist in every moment what i say


it is ripping  the souls 

how many pain is bit now what i say


poison mixed in my words

how many suger is  nill now what i say




 ah what is the complain about wandring 

all complains r oppress what i say  


how many flowers buried

my neck is falldown what i say


we can't recognize the body

friendship is severed head what i say


how can light in my house

when the power in the lamps


the noise of mourning make me deaf

 and the vision is another pain  what i say

who  lost theire onner in the light

life is sorrow evning for him what i say


whatever arise towards the peace

it's floundring step what i say


can't reache on the destination

the fault in the thinking whats i say




now Mumtaz on the bord of my heart

the write only pain what i say

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




مدّت ہوئ عورت ہوۓ 



my friend said to me


Mumtaz write something like this


whatever anounce the voice of bangeles


talk of their sound


some mentions about fola  



talks of expretion


 in the golden flying sckarf


like string of pearls



my first naughty


my first lafght


attraction of young age



pranks of chaildhood


wisheland in the dreams


 conspirecy of heat beat



make embroidery and lasess



stuknuss of needle in the fingur


prees the fingur in the teeth


  start again that dedication



when was sound first



this heart ،do u remember


wrold of colors and  perfumes


still alive



i said my friend


u don't saw this wrold



the life was so busy


i don't wear bangels


colorfull scarfs


  flying after took sunlight


butterflies like my age


they move another sides


now never on the scarf


make me embroidery


not stuk the needle in my fingur


i sew my heart


to the wrold of perfumes


i  came to far


for servaival


like a man


i change my self



fulfill the relations



and done my duties


u startled me


long time passed when i was a women

MUDDAT HOI AURAT HOEY



...........................







مدّت ہوئ عورت ہوۓ 


مجھ سے سہیلی نے کہا

ممتاز ایسا لکھتی جا

جس میں ہوں کچھ چوڑیوں

چھنکارکی باتیں

کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے

اِظہار کی باتیں

اُڑتے سنہری آنچلوں میں

موتیوں کی سی لڑی

پہلی وہ شیطانی میری

پہلی وہ جو میری ہنسی

بالی عمر کی دِلکشی

وہ بچپنے کی شوخیاں

خوابوں میں خواہش کے سراب

دھڑکن کی وہ سرگوشیاں

گوٹا کِناری ٹانکتے

اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن

دانتوں میں اُنگلی داب کر

ہوتی شروع پھر سے لگن


پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب 

یہ دل تجھے کچھ یاد ہے

وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا

اب بھی کیا آباد ہے


میں نے کہا میری سکھی

دنیا کیا تو نے نہ تکی

مصروف اِتنی زندگی

کہ چُوڑیاں پہنی نہیں

جو چُنریاں رنگین تھیں

وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں

میری عمر کی تتلیاں

اب اور جانِب مڑ گئیں

اب دوپٹوں پر کبھی نہ

گوٹا موتی ٹانکتی ہوں

سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب

د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں

خوشبوؤں کے دیس سے

میں دُور اِتنی آگئ

جینے کی خاطر
 مرد سا
انداز میں اپنا گئ

رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے

فرض ادا کرتے ہوۓ

تُو نے جو چونکایا لگا

مدّت ہوئ عورت ہوۓ
                                   MUMTAZ  MALIK

                                                  .........................



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 































































































































شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/