ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 26 مارچ، 2015

بنگلے یا بھوت بنگلے ۔ ممتازملک ۔ پیرس



بنگلے یا بھوت بنگلے
ممتازملک ۔ پیرس


دنیا میں ایسے بے شمار لوگ رہتے ہیں جو ساری عمر شدید جِدوجہد کے بعد بھی بمشکل دو وقت کی روٹی یا زندگی میں ایک مکان بنانے کی خواہش پورے کر سکے ۔ اور جب یہ مکان بنانے کی آرزو پوری بھی ہوتی ہے تو ان کا اپنا اس مکان سے دوسرے جہان جانے کا سفر شروع ہو جاتا ہے ۔ یوں وہ درو دیوار پھر سے اولادوں میں اینٹ اینٹ کر کے یا تو بک جاتے ہیں یا پھر بانٹ دیئے جاتے ہیں ۔  اور سفر وہیں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں سے کبھی پہلے مکان بنانے والے نے شروع کیا تھا ۔ 
لیکن دوسری جانب ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں کتنا بھی بڑا گھر کنال تو کیا ایکڑز میں بھی مل جائے تو بھی کم ہی لگتا ہے ۔ ہم نے اکثر ایسے گھر بلکہ مکان دیکھے ہیں جہاں کسی مکین کا سالہا سال تک کوئی گزر نہیں ہوتا ۔ ایسے گھروں میں یا تو تالے لگے ہوتے ہیں یا ان میں ملازمین کی فوج آباد ہوتی ہے۔ اتنے بڑے مکان بنانے کی  یہ  وبا پہلے نمبر پر تو ہمارے نودولتیوں اور افسر شاہی اور وزراٰء میں پائی جاتی ہے اور دوسرے نمبر پر اس مرض کا شکار ہوتے ہیں بیرون ملک مقیم پاکستانی ۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے بچپن میں انہیں رہنے کو گھر نصیب ہی نہیں ہوئے ۔ اور جن کا بچپن زیادہ تر دربدری میں گزرا ۔ چھوٹی عمر کی ان محرومیوں نے بڑے ہو کر صرف گھر اور بڑے سے بڑا گھر بنانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ۔  اولادیں ملک سے باہر تھیں جو کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان جاتے بھی بہت کم ہیں لیکن گھر ہیں کہ بنائے ہی جا رہے ہیں ۔  کبھی ان گھروں پر قبضہ مافیا کی موج ہوتی ہے ، تو کبھی ان گھروں پر رشتہ داروں کی اجارہ داری ہوتی ہے  ۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ ان گھروں کی دیکھ بھال کے نام پر ہر ماہ اچھی خاصی رقم بھی اینٹھ لی جاتی ہے ۔ فرمائشی کھاتے الگ سے کھلتے ہیں ۔ اور اگر کوئی بات ان سے پوچھ تاچھ میں کر بھی لی جائے تو باقاعدہ  مفت میں رہنے والے کی جانب سے آپ کو یہ جتایا جائے گا کہ بھائی شکر کرو ایک تو ہم تمہارے گھر میں رہتے ہیں اوپر سے تم ہم سے سوال جواب بھی کرتے ہو ۔ اگر ان گھروں کو بیچنے کی کوشش کی جائے تو بھی یہ ہی رشتہ دار اس میں سب سے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ بنتے ہیں ۔ یا ان گھروں کو اونے پونے ہتھیانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔ اس کی یہ وجہ تو ہے کہ ہمارے ملک میں مالک مکان کو کوئی بھی قانونی تحفظ حاصل ہی نہیں ہے ۔  دوسری جانب ایسے بھی مکان دیکھے کہ ان میں دو یا تین افراد ہی رہتے ہیں  ۔ اتنے بڑے بڑے لانز بلکہ سچ پوچھیں تو ان لانز کے نام پر اتنی اتنی زمین ہوتی ہے کہ ان میں فصل کاشت کی جائے تو سینکڑوں لوگوں کا سال بھر کا غلّہ کاشت کیا جا سکتا ہے ۔ اتنے بڑے گھر کا کیا فائدہ کہ اس میں انسان ڈر ڈر کر اور گھٹ گھٹ کر مر جائے ۔ اپنے ہی گھر کے باہر شام ہوتے ہی جاتے ہوئے انسان گھبرانے لگے تو اس گھر سے باہر والی زمین کی ملکیت کا کیا فائدہ ۔ جہاں کسی کو کسی گھر والے کا نہ آتے ہوئے چہرہ نظر آئے نہ ہی جاتے ہوئے پتہ چلے ۔ جہاں اپنے ہی گھر والوں سے ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ہفتوں بعد اتفاق سے ہی ملاقات ہوتی ہو ۔ایسے  گھر کی دیکھ بھال کرنا بھی گویا سفید ہاتھی رکھنے کے برابر ہی ہو تا ہے ۔ جہاں پر گھر کو سنبھالنے کے لیئے گھر کے افراد سے زیادہ گھر کے ملازمین کی تعداد ہوتی ہے ۔ ایکڑز پر پھیلے  یہ گھر ، گھر کے مالک کو انہیں سنبھالنے کے لیئے ہر حرام ،حلال ،جائز ،ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان گھروں کو شام کے بعد دیکھنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کسی قبرستان سے گزر رہا ہو ۔ ویسے سچ ہی تو ہے اتنے بڑے گھروں اور قبرستان میں ایک ہی قدر تو مشترک ہوتی ہے،  وہاں کی ویرانی اور سناٹا۔ انسان چاہے امیر شہر ہو یا فقیر شہر دونوں کی آخری منزل بھی ایک سی ہوتی ہے اور آخری لباس بھی ایک سا ہی ہوتا ہے ۔ پھر اتنا بڑا گھر بنانا بھی کیا کوئی نفسیاتی مرض نہیں ہے کہ جس میں جن گھر والوں کا نام لیکر تعمیرات ہوتی ہیں انہیں  کو دیکھنے کے لیئے آنکھیں ترس جاتی ہوں ۔ دیواریں بھی ہمیں حسرت سے دیکھتی اور پوچھتی نظر آتی ہیں کہ
                  مکان پوچھتے ہیں کہ تیرے مکیں ہیں کہاں 
سچی بات تو یہ ہی ہے کہ گھر اینٹوں سے نہیں گھر والوں اور گھر والوں کی محبت سے بنتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے انہوں نے بڑے بڑے گھروں کی بیماری  کا جھنجھٹ پالا ہی نہیں ۔ یہاں بہت بڑے سٹارز بڑے گھر لیتے ہیں تو انہیں سنبھالنے اور شوق پورا ہونے کے بعد وہ بھی انہیں بیچ کر جان چھڑاتے ہیں ۔ چھوٹے مکانوں میں اور فلیٹس نے یہاں کی زندگی کو بہت ساری پریشانیوں سے نجات دی ہے ۔ کیونکہ گھر جتنا بڑا ہو گا اس کے اخراجات بھی اتنے ہی زیادہ ہوں گے ۔ یہاں پر زیادہ بڑے لانز کا بھی کوئی رواج نہیں ہے ۔ یہاں گھروں کا کام خود کرنے کی وجہ سے بھی بڑے بڑے گھروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اور سچ پوچھیں تو پاکستان میں بھی گھروں کا کام خود کرنا پڑ جائے تو ہمیں پورا یقین ہے کہ وہاں بھی گھروں کے سائز خود بخود چھوٹے ہو جائیں گے  ۔ اور ہاں ان نفسیاتی مریضوں کا تو ہم نے ابھی ذکر کیا ہی نہیں جنہیں ملک کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر شہر میں ایک گھر بنانے کا مرض ہوتا ہے ۔ اسے ہم ہوموفوبیا کہیں گے ۔ جو ساری عمر اسی جنون میں گزار دیتے ہیں لیکن انہیں گھر تو کیا اپنے ہی گھر والوں کیساتھ رہنا بھی کبھی نصیب نہیں ہوتا ۔ ان کے لیئے ہم سب مل کر اجتماعی دعا کرتے ہیں شاعر سے معذرت کیساتھ کہ 
میرے خدا انہیں اتنا تو معتبر کر دے 
یہ جس مکان میں رہتے ہیں اسکو گھرکردے 
                                               آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




پیر، 23 مارچ، 2015

عجیب حال ہے دل کا ۔ ممتازملک ۔ پیرس




                                  عجیب حال ہے دل کا   
ممتازملک ۔ پیرس





جانے کتنی بار واہگہ بارڈر کی پرچم اترائی کی تقریب دیکھ چکی ہوں لیکن ہر بار اس میں جا کر ایک نیا جوش اور ولولہ محسوس ہوتا ہے ۔ یہ تقریب کبھی بھی مجھے پرانی نہیں لگی ہر بار آنکھ کیا سوچ کر نم ہوتی ہے خدا جانے ۔ بنا کسی عمر کی تخصیص کے ہر ایک کے لہو کو گرما جاتی ہے یہ تقریب ۔ آج بھی ٹیلیویژن پر یہ تقریب دیکھتے ہوئے یہ ہی حال تھا ۔  عجیب حالت ہوتی ہے دل کی جسے لفظوں میں بیان کرنے سے ہمیشہ ہی قاصر رہتی ہوں ۔ 
شاید ان جاں بلب عاشقوں کے تصور سے کہ جنہوں نے اپنی ساسنسیں رب کعبہ سی  ضد کر کےاس سرحد کو چومنے کے لیئے ملک الموت سے بھی ادھار مانگ لی تھیں ۔ آخری سجدہ اس سرزمین کی مٹی کو چوم کر کرنے کے لیئے ۔ یہ کِیا اور کیسی دیوانگی ہو گی کہ دو سو کا قافلہ لیکر چلنے والے بھی دم آخر فقط دو یہاں پہنچے اور ایک نے دوسرے کی آنکھوں کے سامنے اس مٹی کو چوما سجدہ کیا اور جان جان آفرین کے سپرد کر دی ۔
 خدایا وہ ارواح عاشقان وطن وہ ارواح مقدّسہ جو اسی سرحد پر کھڑی رہ گئیں کہ کوئی ناپاک نظر اس کی جانب نہ اٹھا سکے ۔ انہی کی عرش کو ہلاتی دعائیں اور صدائیں ہی تو ہیں جو ہر آفت کو اس سے ٹکرا کے  پلٹنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔
 ہم اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے لیکن اہم اپنے پڑوسیوں کو اپنے عمل سے یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ تمہارے ہر ستم نے ہمیں ایک قدم اور آگے کی جانب دھکیلا ہے یہ ہمیں پیچھے کبھی نہیں لڑھکا سکے ۔ تو جب تمہاری دشمنی ہمیں آگے ہی جانے پر مجبور کرتی ہے تو کیوں نہ ایک دوسرے کو اپنی مرضی اور وقار کیساتھ جینے کی اجازت دیکر اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ جسے خود ہم پڑوسیوں کے بیچ فساد کا بیج بونے والے بھی تسلیم کرتے ہیں اور بارہا کرتے ہیں کہ اگر اس خطے کے ان دو ممالک میں دوستی یا امن ہو گیا تو ان جیسی ذہین قوم پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی ۔ پھر وقتی فوائد کے لالچ میں ہم اپنے ابدی فوائد کو کس طرح پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ یہ کام سیاستدانون نے تو کیاخوب ہی کیا ہے جس کا دل چاہتا ہے اپنے ذاتی فائدے کے لیئے کوئی بھی قانون بنوا لیتا ہے یا مٹوا دیتا ہے ۔ ان دو ممالک کے عوام کی سادگی کیساتھ یہ جذباتی مذاق ہوتا رہیگا ۔ جب تک ان ممالک کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے اور سچ اور انصاف کی باتوں پر ساتھ دینے کے لیئے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے ۔
پچیس سال تک سری لنکا میں خانہ جنگی کروانے والے بھی ان کی ہمتوں اور ثابت قدمی کے سامنے ریت کا ڈھیر ہی ثابت ہوئے ۔ ہم بھی اپنی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے آج چودہ سال پورے کر رہے ہیں ۔ ہم میں بہت سی کمیاں اور خامیاں  بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ہیں لیکن ہماری ایک خوبی ان سب باتوں پر حاوی ہو جاتی ہے وہ یہ کہ ہم گرتے ہیں ، روتے ہیں ، چلاتے ہیں لیکن پھر جلد ہی کپڑے جھاڑ کر نئے عزم سے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ۔
نہیں یقین تو دیکھیئے ہمارے شہیدوں کے اہل خانہ کے چہروں کو ، دیکھئیے سانحہ پشاور کے گھر والوں کی صورتوں کو ۔ جواب خود بخود مل جائے گا ۔ بس ضرورت ہے تو اپنی راہوں کی صحیح سمت متعین کرنے کی ۔
       وگرنہ!
                              پلٹنا چھپٹنا چھپٹ کر پلٹنا 
                              لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اتوار، 22 مارچ، 2015

گریباں چاک کر ڈالو ۔ کالم



گریباں چاک کر ڈالو
ممتازملک ۔ پیرس


عالمی اخبار میں آج کل مردوں پر خواتین کی صلاحیتوں کو دبانے کے حوالے سے جو بحث چل نکلی ہے  ہم سمجھتے ہیں کہ اس پر بات کرنا واقعی بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ یہ بات تو ایک حد تک ہضم ہوتی ہے کہ کچھ خواتین اپنے اندر کی ٹیلنٹ کی کسی بھی کمی کو پورا کرنے کے لیئے نازو انداز اور عشوہ طرازیوں کا سہارا لیتی ہیں ۔ اور مرد انہیں دو نمبر ترقیاں دلوانے کے لیئے ان کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں کیونکہ بہر حال دونمبر کام دونمبر طریقے سے ہی ہو گا ۔ لیکن تکلیف اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی خاتون صلاحتیں بھی رکھتی ہو ، محنت کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہو ، آگے جانے کا حوصلہ اور خوبی بھی رکھتی ہو اور ایسے میں اسے بھی جان بوچھ کر واضح اور غیر واضح انداز میں یہ پیغام بھیجا جائے کہ جو ہماری مرضی سے نہیں چلتا ہم ہر جگہ اس کا راستہ بھی روکتے ہیں اور استحصال بھی کرتے ہیں ۔  ہم سب کے تجربے میں ایسی کوئی نہ کوئی متاثرہ خاتون کسی بھی شعبے کی ضرور ہو گی جو سیدھے راستے سے اپنی منزل تک پہنچنا اور کامیاب ہونا چاہتی ہے لیکن کہیں اسے باقاعدہ منصوبے کے تحت بدنام کر دیا گیا کہ اپنی عزت سمیٹنے کی فکر میں یہ سوچ کر کہ "جو باقی بچی ہے وہ بھی برباد نہ ہو جائے " سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی کونے میں چھپ جاتی ہے اور کہیں انہی لوگوں میں شامل ہو کر ان کے دونمبر گروہ کا حصہ بن جاتی ہے ۔ لیکن ایسی خواتین کے لیئے بھی یہ سوچنے اور مقابلہ کرنے کی گھڑی ہے کیونکہ اگر دودہ کی بالٹی میں غلاظت کی ایک بھی چھینٹ پڑ جائے تو پھر اس میں سے بچانے کا کچھ نہیں رہتا ۔ لہذا اگر وہ کچھ بچائے گی تو کیا بچائے گی ۔ اس لیئے  "جو ہونا تھا ہو گیا" جان کر انہیں اپنے پاؤں مضبوطی سے جما کر ایسے مافیا کا منہ توڑنے کی ضرورت ہے نہ کہ کونے میں چھپنا کوئی علاج ہے ۔ 
بات جب گھر سے باہر کے مردوں کی ہو تو کبھی ہم پیشہ افراد ، کبھی سینئیرز ، کبھی راستے میں کھڑے خودساختہ عاشق، توکبھی کوئی اور روپ عورت کو تاڑنے اور اس پر داؤ لگانے کے لیئے کسی گدہ کی طرح نظریں جمائے بیٹھے ہیں ۔ کہ کہاں اس خاتون کی کوئی کمزوری ان کے ہاتھ لگے اور کب وہ اس خاتون کا شکار کریں ۔ لیکن گھروں میں جھانکیں تو بدقسمتی سے وہاں بھی حالات پاکستانی عورت کے لیئے خاص طور پر اتنے سازگار دکھائی نہیں دیتے ہیں کہ ہم خاموش ہو جائیں ،  کہیں باپ بن کر ہمارے ہاں بیٹیوں کے تمام قانونی اور شرعی حقوق اپنے نام کروا لیئے جاتے ہیں تو کہیں بھائی بن کر بہن کو کاری کرنا اپنے لیئے حق سمجھا جاتا ہے ۔  کہیں شوہر بن کر نہ صرف اس کی کامیابی سے حسد کرنے لگتے ہیں بلکہ ہر ایک کے سامنے اسے ذلیل کر کےاور نیچا دکھا کر اپنے کمینے پن کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے ۔  نہ کہیں کسی باپ اور بھائی کے ہاتھوں ہونے والے ظلم پر کوئی آنکھ اشکبار ہوتی ہے نہ کوئی ہاتھ امداد کو اس خاتون کی جانب اٹھتا ہے ۔ جہاں بات ہو گی اسی خاتون میں عیب ڈھونڈنے اور درپردہ مرد کی مردانگی کے کیڑے کو پالنے کی ہی بھرپور کوشش کی جائے گی ۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ کوئی گناہ یا غلطی اگر عورت سے انجانے میں بھی ہو جائے تو اس پر اسے سنگسار کرنے کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں اور کہیں مرد جان بوجھ کر بڑے سے بڑا گناہ کر لے تو اسے "مٹی پاؤ مٹی پاؤ" کہہ کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اور جو خاتون ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش بھی کرے تو سب سے حیران کن معاملہ وہاں دیکھنے میں آتا کہ اس خاتون کی تباہی اور بدنامی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے والی آواز بھی کسی نہ کسی خاتون کی ہی ہوتی ہے ۔ کیونکہ شاید اس مخالفت میں اٹھنے والی  آواز کو اٹھانے والی خاتون کو " لوگ کیا کہیں گے " کی دھمکی دیکر اپنی بقاء کے لیئے بزور اس جنگ میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو قانون کے نام پر ہمارا ملک نت نئے قوانین بنانے کے ریکارڈ قائم کر رہا ہے تو دوسری جانب یہ عالم ہے کہ ہر گھڑی تیزاب سے جھلسی عورتوں اور بدفعلی کا شکار ہونے والے بچوں اور آنر کلنگ کے مظلوموں کی تعداد میں دن دونی اور رات چوگنی اضافہ ہو رہا ہے ۔ کیوں کہ  محض قانون بنانے سے کہ " اس غلطی ہر ایک چانٹا اور اس غلطی پر دوسرا چھانٹا پڑنا ہے " کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بار بتانے کے بعد دوسری بار سچ مچ وہ چانٹا اور چھانٹا پڑنا چاہیئے تاکہ اس کی گونج اور اس کی تکلیف اسے برسوں اپنے کرتوں کی یاد دلاتی رہے ۔  لیکن ہائے افسوس کہ خواتین کو زلف و رخسار کے قَِصّوں میں الجھانے والے مرد جب کسی اور کی عزت نہیں کرتے تو" وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ " کا راگ الاپ کر  اپنے مجروح بلکہ مردہ ضمیر کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن کب تک ؟ موت کے وقت ہاتھ جوڑ جوڑ کر انہی خواتین سے معافیاں مانگنے سے کیا تلافی بھی ہو جاتی ہے ؟ کیا آپ اس دنیا میں قانون کو چکر دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک اور عدالت بھی ہے جہاں کوئی تعلق ، کوئی سفارش نہیں چلے گی ۔ وہاں چلے گی بلکہ دوڑے گی تو صرف مظلوم کی آہ اور اسی کی آواز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                                     .....................................

منگل، 3 مارچ، 2015

فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ ممتازملک ۔ پیرس


                                    
فرانس میں خواتین کے ووٹ کی تاریخ
   (تحریر/ممتازملک ۔ پیرس)
                     
                         

یوں تو اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب ، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات ، تعلیم ، حقوق انسانی ، سیاسیات ، غرضیکہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے  دنیا میں عروج حاصل کیا ۔   لیکن مالی بے ضابطگیوں اور بڑھتے ہوئے شاہی   من مانی  کے دستور نے اس زمانے کے انہیں باکمال لکھاریوں اور مفکرین  کے  ذریعےعوام کے ذہنوں میں انقلاب کی راہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ 1789 میں  "خزانہ خالی ہے اور اسے بھرنے کے لیئے عوام مذید قربانیاں دیں "کے جیسے بیانات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا 

 ہے کہ اس دوران   14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔
نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی ۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا سہا اقتدار بھی ختم ہوگیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور 
کا نفاذ ہوا
 20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21 جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو  جبکہ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو خدائی عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔  اس کے بعدفرانس میں کسی کی گردن محفوظ نہ تھی۔ ۔ 
94۔1793 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 
آخر کار 8 جون 1795ء کوفرانس کے ولی عہد  کو بھی قتل کردیا گیا۔  یوں صدیوں کی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ۔  مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔
دنیا بھر کی خواتین کی طرح فرانس کی خواتین کو اپنے ماں بیوی اور بیٹی کے رول کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔ اس لیئے یہاں بھی خواتین  نے بھی اپنے حقوق کے لیئے بیسویں صدی میں بے مثال جدو جہد کی ۔ یوں تو فرانس 
میں شاہی ادارے  نےصدیوں لوگوں پر حکومت کی ۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی اور ایوان  شاہی کی بڑھتی ہوئی من مانیوں کا زور جب ناقابل برداشت ہونے لگ گیا تو عوامی غصے نے بلآخر اسے انقلاب  فرانس پر منتج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا  ۔ اور شاہ کو لوگوں کے غضب کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے اختیارات کا دامن سمیٹ کر عوام کو ملکی فیصلوں میں شامل کرنا ہی پڑا ۔ انقلاب فرانس ابھی عوامی  حقوق کی ادائیگی کا نقطہ آغاز تھا ابھی اور بہت سے اختیارات منشور کا حصہ بنائے جانے تھے ۔ 
 انقلاب کے دوران خواتین کو بلکل ہی غیر فعال اور ناکارہ سمجھا گیا ۔ اس کے باوجود کہ اس وقت 1791 کا تیار کردہ آئین (جسے "کون دوغسے '' کا نام دیا گیا ) کے مطابق  خواتین کے ووٹ کے حق کی شق موجود تھی ۔ اپیل کے باوجود بھی انہیں یہ حق نہیں دیا گیا ۔ جو کہ انہیں سیاسی شہریت دینے سے انکاری ہونے کے برابر بات تھی  ۔   انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں ووٹ کا حق صرف مالی حیثت کی وجہ سے زمین کے مالکان یا اس کے جائیدا کے وارثان کو ہی دیا گیا ۔ 
خواتین کو علماء پر غیر ضروری انحصار اور مذہبی اعتقاد رکھنے اور فیصلہ کرنے میں جلد بازی کی عادت کی وجہ سے اس حق سے محروم کیا گیا ۔  
اسی سسلے میں (1882 ) میں "فرانسسی لیگ"
اور"فرانسسیسی یونین" کے "SUFFRAGETTETS KI" سُفغاژیٹ کی "
"OLYMPE dE GOUGES  " اولامپ دُو گوز"
"خواتین کے حقوق اور شہری اعلامیئے " (1791)(1905)
اور کئی اور تنظیموں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔اور مذید  کئی مراحل حقوق کے حصول میں درپیش رہے ۔ 
لیکن فرانس کی خواتین کی قسمت کے اس فیصلے میں سب سے زیادہ روشن اور تاریخ ساز دن اس خبر کیساتھ شروع ہوا جب 1935ء میںJuliot Curie  جیولیٹ کیوری نے دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ کیمسٹری جیسے  مشکل شعبے میں 
اپنے نام کیا ۔ یہ ایوارڈ حاصل کر کے فرانسیسی خواتین نے دنیا کو فرانس کی خواتین کی صلاحیتیں ماننے پر مجبور کر ہی دیا ۔ 
فرانسسی مزاحمتی ہیرو پی ایغ بروسولیٹ کی بیوہ گلبرٹ بروسولیٹ  کے بےمثال کردار نے اس جدو جہد کو بلآخر بیلٹ بکس تک پہنچا ہی دیا ۔  
 اس کامیابی نے خواتین کے ووٹ کے حق کی بحث اور ضرورت کو عروج پر پہنچا دیا اس کے باجود اس سفر کو منزل تک پہنچنے میں  مزید 10 سال لگ گئے ۔ 
1944ء21 اپریل میں جنرل چارلس ڈیگال نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت فرانس میں  خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کا اعلان کر دیا گیا ۔اور اس بات کو قانونی شکل دیدی گئی کہ خواتین نہ صرف ووٹ میں مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں بلکہ خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے 
برابر مساوی حقوق کی ضمانت دیدی گئی ۔
 یوں اگلے سال  1945ء 21اکتوبر بمیں خواتین نے پہلی بار اپنے حق رائے دہی کو استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خواتین میں اپنی اہمیت اور وقار کے احساس کو اجاگر کیا ، اور انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ فرانس کی ترقی میں کردار ادا کرنا شروع کیا ۔سچ یہ ہی ہے  کہ جب آپ کی صلاحتیوں کا اعتراف کیا جاتا ہے تو آپ میں اپنے کام کو مذید نکھارنے کو آگے لیجانے کی نہ صرف خواہش پیدا ہوتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔
فرانس زندہ باد ۔پاکستان پائندہ باد                        ........



اتوار، 1 مارچ، 2015

ڈنمارک سیمینار 2015 مارچ




السلام علیکم دوستو

انشاءاللہ ڈنمارک میں خواتین کو ووٹ کا حق ملنے کے سوسالہ تقریبات کا آغاز 
اسی ماہ مارچ سے ہونے جا رہا ہے. اسی سلسلے کی کڑی کا یہ ایک بڑا سیمینار   
  اور متعلقہ پروگرامز ہوں گے. یہ پروگرام عالمی نوعیت کا ہے. اس میں مجھے
   ( ممتاز ملک ) اور پیرس میں ہماری معروف شاعرہ محترمہ سمن شاہ صاحبہ
 کو بهی خصوصی طور پر مندوبین میں شامل کیا گیا ہے  ہیں .امید ہے ان پروگرامز کی 
کامیابی کے لیئے ہمیں آپ کی بهرپور تائید اور دعائیں حاصل رہیں گی .

بہت شکریہ


ممتاز ملک
پیرس



شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/