ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 25 فروری، 2015

ستم کی حد ہے ۔ اور وہ چلا گیا


ستم کی حد ہے 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)




مجھ کو مرنے بهی نہیں دیتے ستم کی حد ہے
زہر کا جام محبت سے پلانے والے

اب تیرے ہاتھ سے امید شفا ہم کو نہیں
 پونچھ نہ اشک شب و روز رلانے والے

 شوق میرا تها میرے بعد میں کیونکر گهر کو
 کاسنی رنگ کے پھولوں سے سجانے والے
                       
خط کے لکھنے کی بهی تکلیف گوارہ نہ ہوئی
وقت رخصت کو میرا ہاتھ دبانے والے

 فائدہ کیا ہے جو آباد نہیں ہو پائے
آرزوؤں کا جہاں دل میں بسانے والے

سچ کی تعبیر سے ممتاز نظر کیسے ملے 
جھوٹ کے سر پہ جیئےخواب دکھانے والے 
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 16 فروری، 2015

سفر نامہ / زندگی گزارنے کا نیا ڈھب


سفر نامہ ( حصہ اول)
زندگی گزارنے کا نیا ڈھب
ممتازملک ۔ پیرس



ہم لوگوں نے اپنی زندگیوں کو سات پشتیں سنوارنے کی فکر میں ہی اپنی اکلوتی جان کو عذابوں میں گرفتار کر لیا ہے. اپنے اس پہلے اوراکلوتے  سیاحتی دورے نے ہمیں سکهایا کہ ہمارا دین ہمیں کم میں خوش رہنے اور کل کی فکر الله پرچھوڑنے کا جو درس دیتا ہے ۔ اس میں کس قدر بے حساب سکون اور اطمینان کا خزانہ چھپا دیا ہے . دنیا کے مال و متاع نہ جوڑنے  اور اولادوں کے غم نه پالنے کا جو سبق ہمارا دین دیتا ہے وہی اصل میں کامیابی کی کُنجی ہے۔ جب  فرانس کے اس علاقے کوغانسوں میں ہمیں چھٹیاں گزانے کا موقع ملا ۔  تو سوچا کہ اس  سفر کی روداد آپ سے بھی ضرور بانٹیں گے ۔
یہ سفرہمارے  علاقے کی میری جسے پاکستان میں شاید یونین کونسل کہتے ہیں کے تحت تھا جو کہ کم بجٹ میں اپنے علاقے کے لوگوں کے لیئے سیاحتی دوروں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ ہماری رہنمائی کے لیئے ہمارے سینٹر کی نوجوان 22 سالہ فرنچ نومسلم جولی تھی ۔ جو ایک بہت اچھی گائیڈ ، میزبان اور مہربان دوست  ہیں ۔ عملے کی تین خواتین نے تقریبا 60 سے 70 خواتین و حضرات جو کہ اپنی اپنی فیملی کیساتھ تھے کو بڑی ہی مہارت سے اس سات دن  کے سفر میں ہر ایک چیز کا خیال رکھ کر اپنے ذمہ دار ہونے کا پورا احساس دلایا ۔ تمام فیملی کے بچوں کو الگ سے اوروالدین کو الگ سے رہائشی کمرہ ایک بڑی اور بہترین عمارت میں ( جو کہ ہماری میری کی ہی ملکیت ہے ) رہائش فراہم کی گئی ۔ کمروں میں صاف ستھرے پلنگ پر صاف ستھرے پلنگ پوش بچھے ہوئے تھے ۔ ہر کمرے میں ہر فرد کے لیئے الگ سے دیوارگیر الماری نصب تھی ۔  سب نے اپنے اپنے کمروں میں اپنا سامان ترتیب سے رکھا ۔ کیونکہ ساری رات سفر کے بعد ہم صبح پہنچے لہذا آج سب کو ناشتے کے بعد دوپہر تک سونا چاہیں تو سونے کی اجازت تھی ۔ ہر کمرے میں صاف ستھرے باتھ روم اور ٹائلٹس موجود تھے ۔ ٹھنڈے اور گرم پانی کا بہترین انتظام تھا ۔ سب نہا دھو کر کپڑے بدل کر تازہ دم ہو گئے ۔  ہر صبح 8 بجے سے 10 بجے تک کھانے کے بڑے ہال میں ترتیب سے لگے میز کرسیوں پر جام ۔ جیلی ۔ مکھن، ڈبل روٹی ،  کارن فلیکس ،  پھل ،چائے ، کافی ، دودہ  کیساتھ ناشتے کا بھر پور انتظام ہوتا ۔ ہم لوگ گیلری والے کمروں میں بڑی سے گیلری میں کھڑے ہو کر  پوری وادی کا نظارہ کر سکتے تھے۔ صبح کا ابھرتا ہوا سورج دیکھنے کا جتنا مزا یہاں آیا سچ پوچھیں تو کبھی پاکستان میں یہ نظارہ دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوا ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سحر میں بیدار نہیں ہوتے بلکہ یا تو آبادیوں کے بیچ گھروں میں یا اگر کسی پہاڑی مقام پر چلے بھی جائیں تو خواتین کے نصیب میں صبح یہ نظارہ دیکھنا  نہیں ہوتا ۔ کہ اس کے لیئے باہر نکلنا ہو گا جو کہ پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا ۔ خیر اگست میں کیونکہ صبح 5 بجے ہی ہو جاتی ہے ۔اس لیئے فجر پڑھنے کیلئے اٹھ کر تسبیح کرتے ہوئے خنک سویر میں بڑی سی شال لپیٹے صبح کا سورج نکلتے دیکھنا بڑا ہی حسین لمحہ تھا ۔ سب لوگ اپنے کمروں میں ہیٹرز آن کیئے گرم بستر میں دبکے ہوئے تھے ۔ اور ہم بچوں کے ساتھ والے کمرے کے دروازے میں انہیں فورا اٹھنے اور نماز کی تیاری کا حکم دیکر بڑے سکون سے بڑی سی راہداری میں چہل قدمی کرتے ہوئے سورج میاں کا انتظار بھی کیا اور نظارہ بھی ۔ اور اسے اپنے موبائل فون کے کیمرے میں محفوظ بھی کر لیا ۔    
 یہ علاقہ پیرس سے تقریبا 7 گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ یہاں سے سوئیزر لینڈ کا بارڈر محض ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے ۔ یہاں پر دنیا کے ایسے  خطرناک ترین اور بہت ہی تنگ ترین پہاڑیی گزر گاہیں بھی ہیں ۔ جہاں ایک وقت میں ایک ہی گاڑی یا کوئی بس بامشکل ہی گزر سکتی ہے ۔اکثر کمزور دل خواتین و حضرات اس راستے سے یا تو سفر ہی نہیں کر سکتے یا پھر گاڑی سے اتر کر پیدل راستہ طے کرنا مناسب سمجھتے ہیں ۔

 ہر جگہ ان کی صفائی پسندی دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ شاید اس سرزمین پر ابھی آدم نے بھی قدم نہیں رکھا اور ہم ہی دنیا کے پہلے انسان ہیں جو یہاں پاؤں رکھ رہے ہیں ۔ کمال کی صفائی اور نفاست ہے ان لوگوں کے مزاج میں ، کمال کی شائستگی ہے ان کی گفتگو میں ،ان کا کمال کا احساس ذمہ داری ہے ۔ جس کی ایک سادہ سی مثال لے لیں کہ کبھی بھی کسی سے راستہ پوچھ کر دیکھیں ، مجال ہے کہ کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈال کر ٹھٹھہ لگائے اس وقت تک آپ کو راستہ سمجھائیں گے جب تک آپ خود یہ نہ کہہ دیں کہ بہت بہت شکریہ مجھے سمجھ آ گیا ہے ۔ اور اپنے ہر کام کو بھول کر اتنی توجہ سے سمجھائیں گے کہ گویا دنیا میں اس سے ذیادہ ضروری کام تو کوئی ہے ہی نہیں ۔ ہر آدمی نے زندگی میں کوئی ایک فلیٹ یا گھر قسطوں پر لے لیا 12 پندرہ سالوں میں ادائیگی مکمل اور آپ اسی گھر میں رہتے رہتے ہی مالک مکان بھی بن گئے ۔ یہ تو ہے فرانس کی عمومی بات، لیکن کوغانسوں کی خاص بات یہ رہی کہ ہمیں پاکستان کے سوات۔ کاغان، ناران سب یہاں دیکھنے کو مل گیا۔ ٹھنڈے شفاف پانی کے چشمے ، یخ ندیاں ، آبشاریں ، بلند ترین پہاڑ ، خوبصورت صاف ستھرے غار، شاندار چئر لفٹس جس میں ایک ہی وقت میں چھ سے آٹھ لوگ باآسانی بیٹھ سکتے ہیں پورے ایک کمرے جتنا سائز تو ہوتا ہے ان کا۔ مجال ہے کہ مقررہ تعداد سے زیادہ کوئی اس میں سوار ہو سکے ۔ یہاں یورپ بھر سے بھی اور فرانس سے بھی بے شمار لوگ چھٹیوں میں کبھی سکیٹنگ کے لیئے ، کوہ پیمائی کے لیئے پیرا گلائڈر سائیکلسٹ ، گیسی غبارے میں سفر کرنے کے شوقین یہاں جوک در جوک آتے ہیں ۔ اور ہم جیسوں کو بھی محظوظ ہونے کا پورا موقع دیتے ہیں کیونکہ یہ ساری اکٹیوٹیز اپنی آنکھوں سے موقع پر دیکھنے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے ۔  سردیوں میں یہاں لوگ یورب بھر سے سکیٹنگ کے لیئے آتے ہیں ۔ سچ کہیں تو اگر یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتے تو شاید کبھی یقین ہی نہ کرتے کہ ایسے دلفریب نظارے یہاں یورپ یا فرانس میں بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔ 
                                                              جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                               ممتازملک ۔ پیرس
                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 10 فروری، 2015

خدائی مہمان ۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے





(10) خدائی مہمان 
تحریر: ممتازملک۔ پیرس




کتنی عجیب سی بات ہے کہ وہ لوگ جو اپنے گھروں کے نرم بستر ، اپنی ماں کی گرم آغوش اور اپنے گھر کا لذیذ اور تازہ کھانا چھوڑ کر پانی کی ایک چھاگل اور جیب میں گڑ کی ڈلی اور چنے رکھے ساری ساری رات خطرناک ترین محاذوں پر آنکھ چھپکے بنا گزار دیتے ہیں کہ ہماری قوم سکون کی نیند سو سکے ۔ اور پھر اسی قوم کے چند کم ظرف لوگ اٹھ کر بڑے ڈھیلی زبان سے انہیں یہ انعامی جملے سوغات کریں کہ کیا ہوا یہ فوجی ہی تو ہے اور فوج ہماری نوکر ہے ۔ اسے ہم تنخواہ دیتے ہیں ۔ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ آپ فوج سے باہر کیوں ہیں؟ کیونکہ ان کا کام کوئی مشن نہیں ، محض نوکری ہے تو یا تو یہ نوکری کرنے والے بے وقوف لوگ ہیں یا پھر آپ  کو بھی  ان جیسی ایک آسان نوکری ضرور کرنی چاہیئے ۔ ایک چیونٹی بھی جہاں اپنے موسموں کے حساب سے اپنی رہائش اور خوراک کا محفوظ انتظام کرتی ہے تو وہاں کبھی ریت کے ٹیلوں پر، کبھی چٹیل میدانوں پر ، کبھی برف پوش چوٹیوں پر، یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ ان کی دوبارہ اپنے گھر والوں سے جیتے جی ملاقات ہو سکے یا نہ ہو سکے ، جو ہر بار اپنے گھروالوں سے آخری ملاقات کر کے ہی ہنستے مسکراتے  اپنے محاذوں پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ کون ہیں یہ لوگ؟ 
یہ وہی تو نہیں جنہیں اقبال نے کہا کہ  
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے 
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی 
دو نِیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ انکی ہیبت سے رائی
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو 
عجب چیز ہے لذت آشنائی 

یہ زمین پر لوگوں کی جانوں کی حفاظت سے عشق کرنے والے نایاب لوگ جو دکانوں پر نہیں بِکتے  ۔ جو دعاؤں سے مخصوص ماؤں کے ہاں جنم لیتے ہیں ۔ دنیا میں اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہیں اور غازی یا شہادت کا تاج سروں پر سجائے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ کہیں بوڑھی ماں رہ جاتی ہے ، کہیں معصوم بچے ان کی راہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ، کہیں دلہنیں ہاتھوں پہ رچی مہندی میں انہیں کھوجتی رہ جاتی ہیں ، کہیں بہنیں اپنی ڈولی کو کندھا دینے کی آس میں دروازے پرنظر گاڑے منتظر رہ جاتی ہیں ، تو کہیں باپ اپنی کمر کی ہڈی ٹوٹنے کی درد لیئے لاٹھی کی تلاش میں گرا رہ جاتا ہے ، لیکن یہ شہزادے اپنی الگ ہی شان لیئے بے پروائی کا سہرا سر پر سجائے مسکراتے ہوئے جاں سے گزر جاتے ہیں ۔اور اگر ہم جیسے کم ظرف لوگ انہیں یہ سنا کر اپنا سینہ پھلا لیتے ہیں کہ یہ ہمارا نوکر ہے ۔ تو لعنت ہے ایسی سوچ پر ۔ کام کا عوضانہ ضرور ہوتا ہے ، لیکن جان کا کوئی عوضانہ نہیں ہوتا ہے ۔ جو انسان اپنی جان ہتھیلی پر لیئے اسے ہماری حفاظت پر لٹا چکا ہے اس کے نام اور خاندان کے سامنے تو ہمیں نظر اٹھا تے ہوئے بھی کم از کم چار بار ضرور سوچنا چاہیئے کہ 
 کیا یہ اتنا آسان ہے ؟
 کیا یہ میں بھی کر سکتا ہوں ؟
کیا یہ بیوقوفی ہے ؟
کیا میں اپنے بیٹے کی لاش یوں اسی طرح اتنے آرام سے اٹھا سکتا ہوں ؟ 
فوجی کبھی بھی بنایا نہیں جا سکتا۔ انسان یا تو پیدائشی ذہنی طور پر ہی فوجی ہوتا ہے یا پھر ایک عام آدمی ہوتا ہے ، کیونکہ یہ جذبہ ماں کی کوکھ سے لیئے ہی انسان اس دنیا میں آتا ہے ۔  ایسے میں یہ ہماری سوچ کی کمزوری ہے کہ کسی کی جان کی قیمت کبھی بھی محض چند ہزار ماہوار تنخواہ ہو سکتی ہے ۔ ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ کہ فوجی صرف نوکری نہ ملنے کی وجہ سے فوج میں جاتا ہے تو یہ  ہماری خام خیالی بلکہ پست خیالی کا ثبوت ہے ۔ اگر ایسا ہو تا تو ہمارے نبی پاک ﷺ سرحد پر گزاری ہوئی پہرےداری کی  ایک رات کو ہزاروں راتوں کی عبادت سے بہتر  کبھی بھی  قرار نہ دیتے ۔ ہم انہیں اور کچھ نہیں دے سکتے تو نہ سہی ، لیکن کم از کم عزت تو دے ہی سکتے ہیں ۔ اور اپنی زبان کو بھی بات کرنے سے پہلے الفاظ تولنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ ہم کسی عام سے اپنے لیئے جینے والے انسان  کے لیئے بات نہیں کر رہے بلکہ ہم بات کر رہے ہیں خدائی مہمانوں کی ۔ جو ہمارے بیچ ہماری ہی حفاظت کے لیئے اللہ کے ہاں سے بھیجے جاتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ تنخواہوں پر جسم تو مل سکتے ہیں ۔ لیکن جذبے نہیں کیونکہ جذبوں کی کوئی قیمت  نہیں ہوتی۔
                       ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے 
اشاعت :2016ء 
●●●


نعت ۔ میرے آقا آ گئے ۔ اے شہہ محترم





آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
(کلام/ممتاز ملک۔پیرس)


آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

عبداللہ کی آنکھ کا تارا
آمنہ بی کا راج دلارا
فاطمہ بی کا بابا پیارا
چھا گئے جی چھا گئے 
کل جہاں پہ چھا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

بارہ ربیع الاول آیا 
ہر اک گھر میں خوشیاں لایا
ہر ماں کو بیٹا دلوایا
ماؤں کو بچا گئے 
غم سے بچا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے

سارے جہاں میں رحمت بنکر
سارے یتیموں پہ شفقت بنکر
عورت کے لیئے عظمت بنکر
آسرے دلا گئے
بستیاں بسا گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
آگئے جی آگئے میرے آقا آ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



بدھ، 4 فروری، 2015

عمر بھر کا روگ پولیو / ممتازملک ۔ پیرس

                                           


                         عمر بھر کا روگ پولیو     
                                      ممتازملک ۔ پیرس
                                           
والدین کی جہالت اور بے حسی کآ دنیا میں اولاد کے لئے سب سے بڑاعذاب یاتحفہ خوفناک بیماریوں کی صورت میں نازل ہوتا ہے. ہم بڑے حیران ہوئےجب اس بارپاکستان میں ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ایک پڑھی لکھی عورت کو دیکھا کہ جس  نے ہزار بار بهی گهرکی بیل بجانے پر یہ کہہ کر پولیو کے قطرے پلانےوالی ٹیم کی خواتین پر دروازہ نہیں کهولا کہ یہ قطرے ہمارے بچوں کو بانجه بنانے کے لیئے پلائے جاتے ہیں. اس په افسوس کہ اپنی پہلی بیٹی پر تین سال کی عمر تک نہ چل سکنے کی وجہ سے ہزاروں روپیہ خرچ کرنے والا شوہر بهی گهر میں بیوی کی ہاں میں ہاں ملا رہا تها  جو کہ خود بھی کوئی ان پڑھ دیہاتی نہیں ہے . یہ واقعہ کسی دیہات کا نہیں ہے بلکہ ایک بڑے شہر کے معروف علاقے کا ہے. دیہاتو ں میں رہنے والے تو نیم ملُاّؤں کے ہاتهوں کٹه پتلی بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن شہر وں میں رہنے والے ماں باپ کو کیا عقل بهی اب کوئ حکومت خرید کر دے گی.  اس بات کو میڈیا کے بهرپور ساته کی ضرورت ہے کہ اس بات کو اب بار بار اٹهایا جائے ،اشتہارات میں ,ٹاک شوز میں ,ڈرامواں میں ,کہ اپنی اولادوں کے دشمن بنکر انہیں ملک کے لیئے ایک ناسور اور اپنی ذ ندگی کے لیئے ایک امتحان نہ بنائیے.  اپنے بچوں کو تمام خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے پیدائش کے پہلے سال میں اور پانچ سال کی عمر تک تمام کورس مقررہ وقت پر لگوا کر انہیں زندگی میں تندرستی کا حسین تحفہ دیجئے ۔ کہ کسی بھی انسان کے لیئے دنیا میں صحت سے بڑا کوئی تحفہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ کسی ماں باپ کی ذمہ داری اولاد کو پیدا کرناہی نہیں ہوتا بلکہ اس بچے کی اچھے ماحول میں پرورش ، اس کی خوراک صحت ، تعلیم اور تربیت کا انتظام کرنا بھی ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں ۔ اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ابھی آپ اپنے بچے کو ان میں سے کچھ نہیں دے سکتے  تو اس بچے کے ساتھ آپ کی محبت کا اصل ثبوت یہ ہی ہے کہ آپ اسے اس دنیا میں لاکر  لولا لنگڑا ،بیمار ، جاہل ،بھوکا ،ننگا رکھنے کی بجائے اسے اس دنیا ہی میں نہ لائیں ۔ کیونکہ آپ نے یہ تو بہت سن لیا کہ بچے کی پیدائش کمانے والے دو ہاتھ ساتھ لاتی ہے لیکن آپ کو یہ نظر نہیں آتا کہ ان دو ہاتھوں کو کمانے کے لائق ہونے تک کم از کم بیس بائیس سال تک پالنا بھی پڑتا ہے اور اسکے ہاتھوں کو کمانے والے ہاتھ بنانے سے پہلے اسکے ساتھ کھانے والا منہ اور بھوکا پیٹ  ہوتا ہے ۔  اس پر آپ اسے اپاہچ ہونے کے عذاب میں بھی مبتلا یہ کہہ کر کر دیں کہ جی اللہ کی مرضی ، تو ایسی کوئی بات حق نہیں ہے کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ یہ انسان ہی ہے جو جانتے بوچھتے خود اپنے آپ کو مشکلوں اور تباہیوں میں ڈالتا ہے ۔ ویکسینیشن کے چند قطرے آپ کے گھر کے دروازے تک حکومت پلانے کو لے آئی ہے ۔ اب آپ اسے اپنے بچے تک نہ پہنچنے دیں تو آپ سے زیادہ بڑا دشمن اس بچے کا اور کوئی بھی نہیں ہو سکتا ۔ زندگی میں کبھی بھی اپنے بچے کے سامنے جب بھی آپ اس بات کا اعتراف کریں گے تو یاد رکھیں وہ آپ کو کبھی معاف نہیں کریگا ۔ اور اس کے معاف نہ کرنے پر خدا بھی آپکو کبھی معاف نہیں کریگا ۔ اپنے آپ کو اپنی اولاد کی نظر میں معتبر رکھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اپنے ہر میسر اور حلال ذرائع کو اپنی اولاد کی بہتر پرورش کے لیئے استعمال کریں ۔ اور انہیں زندگی میں جن جن برائیوں اور بیماریوں سے بچانے کے  جو بھی وسائل ممکن ہیں انہیں استعمال کرنے میں کوئی پس و پیش مت کیجیئے ۔ اچھے ماں باپ بنیئے ۔ اپنے فرائض ادا کیجیئے تاکہ آپ کی اولاد بھی آپ کے لیئے صدقئہ جاریہ بننے کی بھرپور کوشش بھی کرے اور خواہش بھی ۔
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/