ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 26 اپریل، 2013

دیدوں کا پانی ۔ کالم


دیدوں کا پانی
ممتازملک۔پیرس


 ہم لوگ اس سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہمیں شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی یہ بات گھول کر پلا دی جاتی ہے  کہ اس دنیا مین کسی بھی لڑکی یا لڑکے  کی ایک ہی بیوی یا ایک ہی شوہر ہوتا ہے باقی دنیا مین کہیں بھی کوئی بھی کسی بھی عمر کا شخص آپ کا باپ یا بھائی ہی ہوتا ہے اور عورت ماں یا بہن ہوتی ہے ۔ لیکن آج دنیا کو کیا ہو گیا ہے ان بیس سالوں کے اندر کیا  لوگوں کے دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے ۔ کہاں ہیں ہماری وہ اعلی شان روایات ۔ کہاں ہے ہمارا وہ معاشرہ کہ جس پر انگریز بھی حیران رہ جاتے تھے کہ کیا ایسا بھی دنیا میں ہو سکتا ہے ۔ کہاں ہیں ہماری وہ پاکیزہ سوچیں ۔ جو غیروں کو ہمارے گھر کا بزرگ  اور بیٹا بنا دیتی تھیں ۔ ہماری مائیں، ہماری  نانایاں، دادیاں سارے محلے کو ایک ہی رعب میں کھینچ کر رکھا کرتی تھیں جہاں کسی پڑوسن کی خالہ جی سے بھی اونچی آواز میں بات کر جاتے تو ابا کے جوتے ہماری تواضع کو کافی ہوا کرتے تھے ۔ جہاں والدین قرآن پڑھانے والی چاچی جی  یا قاری صاحب سے کہا کرتے تھے یہ اب آپ کے حوالے ہے ۔ اس کی ہڈیاں ہماری اور کھال آپ کی ہے ۔   جہان پر میاں بیوی کی شدید سے شدید لڑائی کے بیج بد لحاظ سے بدلحاظ  میان بیوی بھی محلے کے کسی بھی بھائی بہن یا بزرگ کی ایک آواز پر زبان کو دانتوں تلے دبا لیا کرتے تھے ۔   جہاں پر محلے کی ایک لڑکی کی شادی میں سارے محلے کے لڑکے سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر بھائی ہونے کا حق ادا کیا کرتے تھے ۔ جہان ایک کے گھر مہمان آتا تھا تو بنا مانگے، بنا کسے خونی رشتے کے دوسرے پڑوسی کے گھر سے بستر آجایا کرتے تھے ۔ جہاں گھر چھوٹا ہوتا تو ہمسائیوں کی بیٹھکوں کے در اس مہمان کے لیئے کھول دیئے جاتے تھے ۔ جہان پر کوئی پڑوسی کسی پڑوسی کو چاہے چھوٹی سی قولی میں ہی سہی، کچھ بھیجے بغیر کبھی گھر والوں کے لیئے کھانا نہیں نکالتا تھا ۔ جہاں گلی میں مسجد  کے وظیفہ لینے والے کے لیئے سب سے پہلے تازہ روٹی اور سالن، جو بھی بنا ہوتا، نکال کر رکھا جاتا تھا ۔  جہاں پر گھر میں ایک ہی بزرگ جو چیز اپنی بیٹی کے لیئے پسند کرتا تھا تو وہی اپنی بہو کے لیئے بھی لانا اپنا فرض سمجھتا تھا اسی لیئے تو وہ صرف بیٹی کے ہی نہیبں خود بخود اس بہو کے بھی ابا جی بن جایا کرتے تھے ۔ جہاں کنواری بیٹی کو کنواری بیٹی کے آداب سکھایا کرتے تھے تو بیاہی بہو کو بیاہتا فرائض اور حقوق بن مانگے دئے جاتے تھے ۔ جہاں بہنیں بھائیوں کا مان بڑھاتی تھیں، تو بھائی بہنوں کی آبرو بڑھایا کرتے تھے ۔ جہاں کوئی کسی سے اسکی محبت اور خدمت کسی صلے کی تمنا میں نہیں کرتا تھا ۔ محبت تھی بس کیئے جاتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 کہنے کوتواس وقت ہم لوگ اتنے مالدار نہیں ہواکرتے تھے ۔ لیکن سکون سے سوتے تھے ۔ کہنے کو اسوقت ہم بہت پڑھے لکھے نہیں ہوا کرتے تھے ۔ لیکن آج سے کہیں زیادہ شائستگی رکھتے تھے ۔  کہنے کو اسوقت ہم بہت سمجھ دار نہین تھے لیکن آج سے زیادہ عزت دار تھے ۔ کیون کہ ہماری زندگی  کی ابتداء اور انتہاء بس ایک ہی بات تھی کہ
           ،، ایک کی بیٹی سب کی بیٹی ،اور ایک کی ماں سب کی ماں ،، 
 مجال ہے کہ کوئی اپنے علاقے کی کسی بھی عورت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لے ۔ حالانکہ اسوقت شاید انہوں نے ساری زندگی مین غور سے اس خاتون کی صورت بھی کبھی نہیں دیکھی ہو گی لیکن بس یہ پتہ ہے کہ یہ خاتون فلاں کے گھر سے آتی جاتی ہیں  اور یہ گھر ہمارے علاقے اور محلے کا حصہ ہے لہذا،، میں خود ساختہ طور پر اب اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ اس خاتون کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ تو اپنے علاقے کی ماں بیٹی کی عزت کی حفاظت نہ کر سکا یہ کیا اپنے گھر کا مرد  ہوا۔ یہ کیسے ہمارہی بیٹی بیاہ کر لے گیا  تو اس کی حفاظت کرے گا ،،۔ یعنی کسی اور خاتون کی حفاظت کرنا بھی اس کی مردانگی کے لیئے ایک پُرغرور اور فخریہ امتحان ہوا کرتا تھا ۔ جسے اس وقت کا ہر جوان خوشی خوشی دینے کو تیار رہتا تھا ۔ 
لیکن آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کیا ہوا آج تو سنا ہے ہم نے بہت مال کما لیا ہے ۔ لیکن ہمین نیند کیوں  نہیں آتی ڈھنگ سے  ۔ آج ہم سائیکل کی جگہ لیٹسٹس ماڈل کی گاڑی میں گھومتے ہیں لیکن ہر وقت کوئی نہ کوئی گلہ کرتے رہتے ہیں ۔ آج ہم پہلے  سے زیادہ پڑھ لکھ گئے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات کرنے کی تمیز ہی بھول گئے ہیں ۔ پہلے ہم بیٹیوں کو کسی بھی محلے دار کے وعدے پر بھیج کر پرسکون ہوتے تھے کہ وہ محفوظ ہوں گی ۔ لیکن آج ہم اپنی بہنوں بیٹیون کو لاکھ حفاظتی حصاروں میں بھی بھیجتے ہین تو تب بھی دل کہیں اٹکا رہتا ہے ۔ کیوں ؟؟؟
 یہ کیا بےکلی ہے ۔ کل کچھ بھی نہیں تھا اور ہم اپنے مان باپ کا دم بھرتے تھے ان کے فرماں بردار تھے  حالانکہ وہ زرا زرا سی بات پر ہماری کھال ادھیڑ دیا کرتے تھے ۔ لیکن پھر بھی ہم ان کے ایک اشارے پر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہا کرتے تھے ۔ لیکن  آج
 کیا بات ہے  کہ  ہمارے بیٹیاں بیٹےلاکھ سمجھانے اور سب کچھ منہ سے مانگنے سے پہلے ہی جھولی میں ڈالنے کے باوجود آج ہم لوگوں کے نہ تو تابعدار ہیں نہ ہی وفادار ۔  نہ ہی ہمارے دکھ درد سے خبردار ۔ آپ کیا سمجھتے ہین یہ سب کچھ یونہی بے سبب ہو رہا ہے ۔ نہیں ۔ خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں کچھ بھی کبھی بے سبب نہین ہوتا ۔ ہر بات کے پیچھے کوئی ٹھوس لوجک ہوتی ہے ۔ جب تک ہم دوسروں کی بھوک کا خیال کیا کرتے تھے خود ہم بھی کبھی مالی پریشانیوں کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں بھی کبھی یہ نت نئے عارضے لاحق نہیں ہوئے تھے ۔ جب تک ہم دوسرے کے مہمان کو بھی اپنا ہی مہمان سمجھتے تھے ۔ ان کی رحمتوں سے ہم بھی فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ کوئی بنا کسی رشتے کے بھی  اکیلاکبھی  نہیں ہوا تھا  ۔ جبکہ آج ہم نے اپنے ہی بہن بھائیوں تک کو بوجھ سمجھ کر ان سے میٹھی سچی بات کرنا چھوڑدی ہے، تو کیا ہوا بھرے مجمع میں خدا نے ہمیں اکیلا کر دیا ۔اتنے سارے نام نہاد دوستانوں میں بھی ہم کسی کو اپنے دل کا حال سنانے کے لیئے اعتبار نہیں کرپاتے ۔اپنے دکھ کو  کسی کندھے پر بے دھڑک سر رکھ کر آنسوؤں میں بہا نہیں سکتے ۔ جانے کون، کب ،کہاں ، ہماری کسی بھی دکھتی رگ کو اپنا تفریح طبع بنا لے ۔ کیوں کہ ہم نے لوگوں پر بہتان تراشیوں کو اپنا شیوہ جو بنا لیا ۔ ہم نے تہمتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا  بنا کر اسے اپنے لیئے ایک کے بعد ایک کو گرا کر خود کو خود سے ہی بادشاہ اور بادشاہ گر سمجھ لیا ۔ تو سب سے بڑے بادشاہ نے ہمیں زلتوں کے گڑھے میں دھکیل دیا ۔ ہمارا سکون غارت کر دیا ۔ جب تک ہم دوسرون کی عزتوں کی حفاظت کرتے رہے خدا نے اپنے کرم سے ہماری عزتوں کو بھی اپنی حفاظت  مہیا کی ۔ اور ہمارے دلوں کو ان کی حفاظت کی فکر سے آذاد کر دیا  ۔آج ہم نے دوسروں کی بیٹیوں پر گندی نظریں ڈالنا ۔ اور ٹھرک جھاڑنا  اپنا مشغلہ بنا لیا تو ہماری بیٹیوں کو دوسرے لوگوں کے لیئے خدا نے اسی کام کا بہانہ بنا دیا ۔ یہ ہی تو ہے خدا کا انصاف ۔ خدا پر کسی ایک فرد کی اجارہ داری تو نہیں ہے، جو وہ ایک کی سنے گا تو دوسرے کی ان سنی کر دیگا ۔ وہ سب کا ہے، سب کے دل مین رہتا ہے، سب کی نیتوں کو جانتا ہے ۔ تو جو کچھ آپ کسی کے لیئے پلان کر رہے ہوتے ہیں وہی پلاننگ کہیں کسی اور مقام پر کسی اور کے زہن میں اللہ پاک آپ کے لیئے بھی ترتیب دلوا رہا ہوتا ہے ۔ جلد یا بدیر اسے آپ کے سامنے لاکر آپ کو آپ کے ہی جیسے کسی اور کردار کے ہاتھوں آپ کے انجام تک پہنچانے کیلیئے ۔ کیوں  کہ
،،  آدمی جو دیتا ہے آدمی جو لیتا ہے
 زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں ،،  
 لہذا یقین مانیں اگر صرف ایک ہی چیز کی ہم نے نے حفاظت کر لی تو ہم لوگوں نے حفاظت کر لی تو اس نام نہاد ترقی یافتہ اور زہنی طور پر اخلاق باختہ بلکہ اخلاقی دیوالیہ دور میں بھی ہم بیفکر ہوکر میٹھی نیند سو سکتے ہیں ۔ بے دھڑک اپنی بہنوں بیٹیوں کو گھروں سے باہر بھیج کر ان کے عزتوں کی حفاظت سے بیفکر بھی ہو سکتے ہیں ۔ بہت ہی آسان بات ہے کہ ہم اپنے دیدوں کے پانی کی حفاظت کرنا پھر سے شروع کر دیں ۔  ہم اپنی نگاہوں اور اپنی زبانوں کو زمانے کی غلاظتوں میں لتھیڑنے سے پرہیز شروع کر دیں ۔ تو دیکھ لیجیئے گا کہ خدا آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھا ۔ خدا کے اس کائینات کو چلانے کے اصول آج بھی وہی ہیں جو لاکھوں سال پہلے تھے ۔ خدا کا کرم اس کی عنایت آج بھی وہی ہے جو کروڑوں سال پہلے تھی ۔ اور ہاں خدا کا غضب بھی آج بھی وہی ہے جو زمانوں پہلے تھا ۔ کیوں کہ یہ اسی کا حکم ہے کہ جو اپنے دو جبڑوں کے بیچ اور اپنی دو ٹانگوں کے بیچ کی حفاظت کر گیا تو گویا خدا اسکا اور وہ خدا کو ہو گیا ۔   
تو کیا خیال ہے آج سے ہی اس کی پریکٹس شروع کر دی جائے ۔ اب یہ فیصلہ آ پکا ہے اس زمانے کی نام نہاد تھڑک بازی کا حصہ بن کر بے سکونی چاہیئے یا ان دو چیزون کی حفاظت کر کے  جہاں بھر کے فکروں سے آزادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

● ایک تھی عورت / کالم


      

 ایک تھی عورت
ممتازملک۔ پیرس

۔ اپنے ملک میں جس کام کے لیۓ لوگ بھاری بھاری تنخواہوں پر بھی میسر نہیں ہوتے یہا ں فرانس میں اور بھی بہت سے ممالک میں بسنے والے بہت سے بہن بھائ صرف اور صرف پاکستان کی یاد میں اسکی کامیابی کی خواہش میں اپنا تن من دھن لیکر اس کے نام کی سربلندی اور اسکی شہرت کی خرابی کو دور کر کے اس کا نام اجالنے میں مصروف ہیں ۔ بنا کسی صلے اور بنا کسی قیمت کے ۔ لیکن وہیں پر کچھ ایسے شرپسند عناصر بھی ہمیشہ ہی سرگرم عمل رہے ہیں جن کے پاس نہ تو کبھی کوئ لکھنے لکھانے کے حوالے سے کوئ شوق تھا ۔ نہ ہی انہیں لفظوں کے حرمت سے کوئ واسطہ ہے۔  ان کے لیۓ لکھنے لکھانے سے وابسطہ ہر میدان راتوں رات شہرت حاصل کرنے کا ایک آسا ن زریعہ تھا ۔ صحافت کے نام پر اپنے تعلقات سے ایک بیج اور کیمرہ اپنے گلے میں لٹکا کر انہوں نےاسے اہم مقامات اور خاص لوگوں تک پہنچنے کا ایک زریعہ بنا لیا ۔ فرانس میں ایسے لوگوں کی کوئ کمی نہیں ہے جن کا تعلق بہت غریب بلکہ غربت کی سطح سے بھی نیچے کے گھروں سے  رہا ہے ۔ غربت کوئ جرم نہیں ۔ ان لوگوں نے اپنی محنت سے اپنا اور اپنے خاندانوں کا مقدر سنوارہ ہے ۔ جس کے لیۓ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ لیکن وہیں یہاں ایسے چھچھوروں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ جنہوں نے اپنے جوانی کی شہرت کے شوق کو پورا کرنے کے لیۓ اب بڑھاپے اور ادھیڑ عمری میں   ایسی گندی مچھلیوں سے روابط بناۓ جو نہ تو اپنے کردار میں پاکیزگی رکھتے تھے نہ ہی ان کی آنکھوں میں  حیا کا کوئ گزر ۔ یہ ہی وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر گندگی اچھالنے ، ان کی کردار کشی کرنے اور ایسے تمام شرفاء کا ناطقہ بند رکھنا چاہتے ہیں جو خاموشی سے سر   .جھکاۓ اپنے بامقصد کاموں میں مصروف ہیں  ان لوگون کو بطور خاص اگر وہ ایک خاتون ہین تو نہ صرف انہیں زبانی  تھریڈ کیا جاتا ہے   ۔ بلکہ ان پر  ان کے کردار پر بھی کیچڑ اچھالنے کا کوٰئی موقع ہاتھ سے نہین جانے دیا جاتا ۔ یہ سب کرتے بھی ایسے خواتین اور حضرات  جن کے اپنے کردار نہ صرف مشکوک ہوتے ہین بلکہ وہ انتہاٰئی گھناؤنے کردار کے بھی مالک ہیں ۔ ان لوگوں کے اپنے گھروں مین شاید عورت ایک ہی کام کرتی ہے اسی لیئے جب بھی کسی خاتون کو کسی بھی میدان میں سرگرم عمل دیکھتے ہین انہین بھی اپنے ہاں کی خواتین جیسا سمجھ لیتے ہین ۔ ۔ آج مہینہ بھر سے ان لوگوں نے اخلاق اور تہذیب کی ہر حد ہی پھلانگ لی ہے ۔    ان معزز خواتین کو نہ صرف  کام کی جگہون پر ہیراسمنٹ کا سامنا ہے بلکہ انہیں کھلے لفظوں مین دھمکایا جاتا ہے کہ  ۔یا تو ان کے ساتھ مل کر انہیں جیسے گندے ہو جاؤ یا پھر لکھنے کے میدان کو۔خیرباد کہہ دو  ۔ 
یہ کہانی ہے ایک ایسی عورت کی کہ جسکا جنون ہمیشہ سے پاکستان رہا ہے ۔ پاکستان سے دیادر غیر میں قدم رکھنے سے لیکر اپنے نواسے کو گود میں اٹھانے تک اس نے اپنے الفاظ کو کبھی بھی پاکستان کے پیراۓ سے باہر نہ نکلنے دیا  ۔لیکن  اب تو معاملہ یہان تک پہنچ گیا ہے کہ
 بیس سال سے فیلڈ میں کام کرنے والی اس خاتون کی آواز کے ٹیپ کیئے ہوئے  ٹکڑے  لیکر انہین مکسنگ کے زریعے  ایک انتہاٰئی گھٹیا سٹینڈرڈ  کا سیکس سکینڈل  بنا کر اسے سوغات کی طرح  لوگوں کو پہنچایا جا رہا ہے ۔   جگہ جگہ اسے بدنام کرنے اور اس کے زہناور قابلیتوں کے   توازن اور طاقت کو توڑنے کی انتہائی مذموم اور شرمناک حرکت کی گئی ہے ۔
 ہماری یہ بدنصیبی پہلے  ہی کیا کم ہے کہ ہماری آدھی آبادی کو تعلیم کے اس حق سے ہی محروم رکھا جاتا ہے ۔ جسے حاصل کرنے کا حکم  ہمیں ہمارا مزہب بھی دیتا ہے  ۔اور جو خواتین شومئی قسمت کہ تعلیم حاصل کر بھی لیتی ہیں تو انہین اپنی کسی بھی قابلیت کو اپنی کمیونٹی  کی فلاح کے لیئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔جہاں اتنی بڑی آبادی پہلے ہی گھرون میں بیٹھی اپنی ڈگریوں کا اچار ڈال رہی ہے  وہاں  کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں کسی خاتون کا نام مذاق میں  بھی کسی غیر مرد کیساتھ جوڑ دیا جاۓ  تو اسکے کتنے بھیانک نتائج نکل سکتے ہین طلاق ہو جانا تو معمولی بات ان کی بچوں  کے رشتے داؤ پر لگ جاتے ہیں ۔ ان کی  زندگی دوزخ بنا دی جاتی ہے اور تو اور غیرت میں آ کر انہین قتل بھی کر دیا جاتا ۔ ہے ۔ قارئین آپ ہی بتایۓ ایسے ماحول مین ہماری آدھی سے زیادہ آبادی اپنی تعلیم اور خدادا صلاحیتوں کو  زنگ لگا رہی ہے ۔    وہاں جو چند ذہن اپنی کمیونٹی کی سوچوں کو روشنی  دکھا رہے ہیں انہین بھی نیست و نابود کرنے کا آغاز ہو  چکا ہے ۔  یہ گندی مچھلیاں اور مگر مچھ آخر کب تک  عزت داروں کی پگڑیاں اچھالتے رہیں گے ۔  آج ایک عورت ان کے نشانے پر ہے ، کل کو میری باری ہو گی ، پرسوں آپ کا نمبر ہو گا ۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو یاد رکھیئے اس کے نتائج انتہائی خوفناک ہون گے ۔ کل کو غیرت کے نام پر یہان عورتیں اور مرد قتل ہونا بھی شروع ہو جائیں گے ۔ پہلے ہی پاکستانی کیا کم بدنام ہین دنیا میں ، کہ اب ایک نیا طوق اس کے گلے مین ڈالنے کی  منصوبہ بندی شروع کر دی گئی ہے ۔ اس سلسلے کو ابھی قانونی اور اخلاقی طریقے سے نہ روکا گیا تو مرد بھی جان لیں کہ کوئی بھی گندی مچھلی انہین بھی اپنے اشارے پر گندہ کرنے کے لیۓ کسی بھی خاتون کی آوازوں اور تصویروں کیساتھ جوڑ کر اسکے بیوی بچوں کے ساتھ  رشتوں میں دراڑ ڈال سکتی ہے ۔۔ آج میں اسے اپنے حقیقی صحافی برادری کیساتھ مل کر نہ صرف ایسا کرنے اور کروانے والے اور والیوں پر لعنت بھیجتی ہون بلکہ انہین چیلنج کرتی ہون کہ اگر دم ہے اور رتی بھر بھی شرم باقی ہے تو آئیں اور لکھنے اور پڑھنے کے میدان میں ہم سے مقابلہ کریں ۔ اور اپنے آپ کو ہم سے بہت آگے لیجائیں ، بصورت دیگر اپنے آپ کو اپنی حدود کے اندر رکھنے کا اہتمام کریں ۔  اور یاد رکھیں چاند پر تھوکا ہمہشہ تھوکنے والے کے ہی منہ پر آ کر گرتا ہے ۔ ۔ خدا کی لاٹھی  بے آواز ہوتی ہے اور فرانس کی پولیس کی کاروائی کو بھی غلطی سے  بھی پاکستانی پولیس کا معاملہ نہ سمجھنا ۔ کیوں کہ یہ معاملہ اگر پولیس مین چلا گیا تو سارے گندے اور گندیاں بے نقاب ہو جائیں گے ۔  اور معاملہ سائیبر کرائم تک چلا گیا تو پھر کسی کے بھی بس کا نہین رہے گا اور اس تمام کروائی کے ذمہ دار وہ بدبخت لوگ ہوں گے جو جیب سے پیسے لگا کر دوسروں کی عزتیں اچھالنا پسند کرتے ہین ۔ یہ ہی پیسہ خدا کے نام پر کسی اچھے کام میں کسی مسجد میں ، کسی یتیم کی شادی میں لگایا ہوتا تو مرنے کے بعد بھی اپنے لیئے صدقئہ جاریہ کا بہانہ بنا لیتے ۔ لیکن شاید سچ ہی کہتے ہین حرام کا مال حرام کی طرف ہی جاتا ہے ، اور مان باپ کے بے ادب لوگ دنیا مین بھی ذلیل ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی برباد۔ یہ سوال کسی ایک عورت کی عزت کا نہیں ہے بلکہ ہمارے مجموعی ملکی اور  اور مذہبی وقار کا بھی ہے ۔ عورت ہو یا مرد اگر وہ حلالی ہے تو اسکی عزت ایک جیسی ہی اہمیت رکھتی ہے ۔ ورنہ کسی بے غیرت کے لیۓ عورت کیا اور مرد کیا ۔اسے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔  آپ نے جنگلی گلاب تو دیکھے ہوں گے جو ایک ایک شاخ پر گچھے کے گچھے لگے ہوتے ہیں دور سے دیکھنے میں بہت خوبصورت بھی لگتے ہین لیکن ایک تو انکی عمر کم ہوتی ہے دوسرا وہ خوشبو سے بھی خالی ہوتے ہیں جبکہ اصلی گلاب بھی آپ نے ضرور دیکھے ہوں گےجو پورے پورے کاتٹون سے بھرے  پودے پر ایک ایک کر کے ہی کھلتے ہین لیکن ان کی خوشبو کو کوسوں دور سے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ اور یہ خوشبو  انکے شاخ سے ٹوڑنے کے بعد بھی کافی عرصے تک سب کو مہکاتی ہے ۔ اس کی عمر بھی ایک رات کی نہیں ہوتی ۔ بلکہ کئی دن تک ہوتی ہے ۔ جسے توڑ کر جہاں رکھیں گے وہ جگہ بھی ہمیشہ مہکتی رہے گی ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

اتوار، 7 اپریل، 2013

● (10) سچائی/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے


(10) سچائی




 لہجوں کے بدلنے میں بھلا دیر کیا لگتی
ہم نے تو نظارے بھی بدلتے ہوئے دیکھے

تُو آگ کی فطرت سے شکایت نہ کیا کر
پانی میں بھی پتھر ہیں پگھلتے ہوئے دیکھے

اجناس کی صورت ہمیں بکتے وہ دکھے ہیں
پھولوں کے بچھونوں پہ جو پلتے ہوئے دیکھے

عُشاق کو رستے کی مشقت سے بھلا کیا
بے فکر وہ انگاروں پہ چلتے ہوئے دیکھے

کچھ راز ہیں قدرت کی ہی اسرار پسندی
صحرا میں بھی چشمے ہیں ابلتے ہوئے دیکھے

ممتاز جنہیں زعم تھا خوش بختی پہ اپنی
ہاتھ ایسے سر راہ ہیں ملتے ہوئے دیکھے
                      ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

بدھ، 3 اپریل، 2013

کھاۓ لاہور اور روۓ پنجاب / ممتازملک ۔ پیرس



کھاۓ لاہور اور روۓ پنجاب
ممتازملک ۔ پیرس


پاکستان کا ایک بازو جن حرکتوں کی وجہ سےٹوٹا آج پھر ہم اپنے ملک کو اسی دوراہے پر لا کر کھڑا کر چکے ہیں ۔ اسوقت بھی الزام تھا کہ ملک کا ایک حصہ دوسرے حصے کے وسائل کو کھا رھا ہے ۔ افسوس آج بھی ملک کا ایک حصہ اپنے پورے صوبے کے وسائل کو ہڑپ کر کے اسے سارے ملک کے سامنے مجرم بنا کر کھڑا ہونے پر مجبور کر رھا ہے لیکن مجال ہے کہ کاغذی شیروں کے کانوں تک جہاں پناہ کے آگے کی کوئ صدا پہنچ رہی ہو ۔ حالانکہ وقت نے ان شہنشاہی پسند بھائیوں کو ایک سنہری موقع عنایت کیا کہ وہ ایک ہی صوے میں سہی مگر اتنا اچھا ترقیاتی کام کر کے دکھاتے کہ باقی تمام ملک اس بات کی خواہش کرتا کہ کاش یہ ہی پارٹی ان کے پورے ملک کا نظام بھی چلاتی ۔ اور حکومت میں آکر اس ملک کو کامیابی کی منزلوں تک لیجاۓ ۔ مگر نہیں یہاں تو معاملہ ہی الٹ گیا ہے ۫ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں پروان چڑھنے والا یہ پودا نہ تو دو دو بار حکومت میں آنے کے باوجود ملکی سطح پر عوام کے آگے اپنا کوئ قد کاٹھ بڑھا سکا نہ ہی اپنے دماغ کو لاہور سے آگے لیجا سکا ۔ پاکستان کی بڑی بدنصیبی یہ ہی ہے کہ ایک پارٹی لاڑکانہ کے نام پر سندھ کارڈ کی بدمعاشی کرتے نہیں تھکتی تو دوسری تخت لاہور کے شاہی محلوں سے آگے سوچنے کے قابل 30 سال بعد بھی نہ ہو سکی ۔اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق بنے دو گروپس 40 سال سےعوام کا خون چوسنے میں مصروف ہیں ۔ ایک نوجوان نے جب ہم سےیہ سوال کیا کہ کسی صوبے کو سب سے ذمہ دار عہدہ کون سا ہے تو ہم نے جواب دیا کہ وزیر اعلی ، اس پر اس نوجوان نے جواب دیا کہ نہیں نہیں بھئ وزیر اعلی تو پرانے کونسلر کی نئ تشریح ہے پنجاب کا تو 30 سال سے کوئ وزیر اعلی ہی نہیں ہے ایک شہر لاہور ہےجہاں وزیر اعلی ٹائپ کا کوئ کونسلر ہے جو کبھی کبھار نالیاں سڑکیں وغیرہ بنواتا ادھڑواتا رہتا ہے ۔ لیکن ہم بھی پنجاب میں رہتے ہیں ہمارا بھی کوئ ایسا ہی وزیر اعلی ہونا چاہیۓ ، ایک لمحے کو یہ بات شاید آپ کو مذاق لگے لیکن غور کریں تو یہ ہی بات کسی آنے والے خطرے کی گھنٹی بھی ہے جہاں لاہوری راج نے شدت سے اپنے ہی صوبے میں احساس محرومی پیدا کر دیا ہے ۔ پورے صوبے کے وسا ئل کوایک ہی شہر پر کسی نہ کسی بہانے خرچ کیا جا رہا ہے ۔ صوبہ بہاولپور پر اعتراض کرنے والے ڈریں اسوقت سے جب پنجاب کا ہر شہر اپنی بقا ء کے لیۓ خود کو صوبہ بنانےکی کوئ تحریک شروع کر دے لہذا ہر صوبے کی حکومت کسی بھی ایک شہر پر توجہ دینے کی بجاۓ ہر شہر اور گاؤں کی ترقی کے لیۓ تمام تر وساائل بروۓ کار لاۓ ۔اور اس احساس محرومی کا ازالہ کرے تاکہ عوام کو آۓ روز احتجاج کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس ہو ۔ جان مال اور عزت کا تحفظ کسی بھی ملک میں اس کی حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے کوئ احسان نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/