ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 27 نومبر، 2012

[48] معرکۂ حق و باطل //// MARKA E HAQ O BATIL


[48] معرکۂ حق و باطل
ممتاز ملک ۔ پیرس

واقعہ کربلہ کو اقتدار کی جنگ یا دو شہزادوں کی لڑائ 
کہنے والوں کو اپنی عقل پر بھر پور ماتم کرنا چاہیۓ کیوں کہ
حضرت امام حسین علیہ السلام کے مقابلے پر کھڑا ہونے والا بنام یذید کوئ شہزادہ نہیں تھا
بلکہ ایک زانی ،اور بدکار ، بد قماش اپنے باپ کے نام پر پُھدکنے والا انسان جسم میں ایک
سؤر فطرت  وجود تھا جسے شیطان نے اپنی بھرپور فرزندی میں لے رکھا تھا ۔جس نے اپنے باپ کے
کندھے پر سوار ہو کر اقتدار کی کرسی حاصل کی ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی تمانچہ
ہے ان تمام لوگوں کے چہروں پر جو آج خود کو بڑے فخر کے ساتھ ڈپلومیٹ کہتے ہیں ۔یہ قربانی وہ فرق ہے جو تا قیامت سچ
اور جھوٹ کے بیچ برقرار رہے گا ۔ یہ قربانی وہ حقیقت ہے جو بتاتی ہے کہ سچ بولنے والے کے لیۓ حق بات کرنے والے کے لیۓ
کبھی بھی نہ تو ر استےآسان ہوتے ہیں نہ ہی ذندگی پھولوں کا ہار ہوتی ہے ۔۔یہ معرکہ تھا انصاف اور بے انصافی کے بیچ ،
کردار اور بے کرداری کےبیچ ،اچھائ اور برائ کے بیچ ،کیوں کہ اسی معرکے نے ان سب باتوں کے بیچ کے
فرق کو روز رزشن کی طرح عیاں کر دیا ۔اور حسینی لہو نے حق و باطل کےدرمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ۔
یہ جنگ کل بھی جاری تھی آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہیگی ۔ ہر وہ شخص جو واقعہ کربلا
کو یا حسین علیہ السلام کے غم کو کسی ایک فرقے کا غم کہتا ہے وہ شخص نہ صرف کم علم ہے ۔ بلکہ بخیل ترین بھی ہے ۔
یہ واقعہ اس بات کا کھلا ثبوت ہےکہ خباثت اور ظلم کی اگر کوئ حد مقرر نہیں ہے تو قربانی
دینے والے بھی ہر حد سے بے نیاز ہوتے ہیں ۔ اس معرکے میں ایک گروہ تو اپنے نیزوں بھالوں سے تیر ترکش سے مرصع
نظر آتا ہے تو دوسرا گروہ ایثار اور قربانی کی دستاریں سجاۓ اس بات کی عملی تصویر نظر آتا ہے کہ
،، ادھر آستم گر ہُنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں ،،
اس ذات پاک نے کہ جس کی کی ایک دعا سے کائنات کا رنگ بدل سکتا ہے ، لاکھوں کی قسمتیں بدل سکتی ہیں ۔
انہوں نے دنیا کے اس سب سے بڑے ظلم کی گھڑی کو ٹالنے کے لیۓ اپنے کنبے کی حفاظت کے لیۓ دعا کے لیۓ ہاتھ
کیوں نہیں اٹھاۓ ۔ تو اس کا ایک ہی جواب ہمیں نظر آتا ہے کہ اگر سر داران جنت اپنے کنبے کے لیۓ رحم
کی اپیل کر دیتے تو قیامت تک کے لیۓ آپ پر یہ تہمت لگا ئ جاتی کہ یہ سرداری تو نانا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے صدقے میں آپ کو مل گئ ۔ کیوں کہ آپ پر تو قربانی کا وقت آیا توآپ قربانی ہی ںہ دے پاۓ
۔۔ گویا حسین علیہ السلام نے ثابت کیا کہ اگر نانا جان بے مثال تھے تونانا کا نواسہ ہونے کا حق ادا کرنے میں
حسین علیہ السلام کسی طور بھی پیچھے نہ رہے ۔بلکہ قیامت تک کے لیۓ یہ ثابت کر دیا کہ
حسین علیہ السلام جیسی قربانی دینا تو دور کی بات کوئ اس غم کو سننے کی بھی تاب نہیں لا سکتا ۔
جب کہ صبر کا یہ مقام کہ ماں کی گود سے لیکر سجدہ گاہ قتل تک یہ بات سنتے ،جانتے بوجھتے ہوۓ بقائم ہوش و حواس خود
کو اور اپنے کنبے کو اس کے لیۓ پیش کر دیا ۔ اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی
کہ ایک نیک ،متقی ،ایماندار ،اعلی نسب ،باعلم ،بامرتبہ شخص کسی بھی قیمت پر ایک زانی ،شرابی ،بدکار ،بدکردار ،
اور خدا کے نافرمان کی اطاعت کرنا تو کیا اطاعت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اسی معرکے نے یہ بات بھی
ثابت کر دی کہ ایک غلط یا خود غرضانہ فیصلہ آپ کو قیامت تک کے لیۓ معتوب کروا سکتا ہے ۔ حضرت امیر معاویہ
کی زندگی بھر کی نیکیوں پر اپنے بیٹے کی محبت میں اُٹھایا ہوا ایک غلط فیصلہ ان کے کردار پر ایک نہ مٹنے والا
کالا دھبہ بن گیا ۔ جنہوں نے نہ صرف باپ کے بعد بیٹے کے اقتدار کو مسلمانوں میں رواج دیا بلکہ اپنے اختیارات کے
ناجائز استعمال کو بھی ایک ابتدائیہ دے دیا اور اس کے لیۓ اپنے ساری زندگی کے کردار کو طاق پر رکھ
کر ایڑی چوٹی کا زور لگا ڈالا ۔اسی اقتدار کی بھوک اور خواہش نے مسلم حکمرانوں میں ہوس کی وہ آگ جلائ ،
جس نے آج تک پوری اُمت مُسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس آگ کا دھواں آج تک مسلمان ممالک
سے اٹھ رہا ہے ۔ اگر اس وقت مسلمانوں نے امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا ہوتا ۔ اور غیرت ایمانی کا مظاہرہ
کیا ہوتا تو آج مسلمان دنیا میں یوں ذلیل و خوارنہ ہوتے ،اور دنیا کے عشق میں یوں گرفتار نہ ہوتے ۔ اور بے شک
حسین کا غم ہر مذہب ، ہر ذات پات رنگ اور نسل سے بالا ہو کر ہر سچ بولنے والے کا غم ہے ،
ہر انصاف پسند ،اور ہراُصول پسند کا غم ہے ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

[47] اُٹھو جہاں بدل دو // OTTHO JAHAN BADAL DO

[47]   اُٹھو جہاں بدل دو
ممتاز ملک ۔ پیرس
 

وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی 
جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ مثلا کل تک ہمارے ہاں جو خاتون گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیاا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی خریداری میں کسی بھی چیز ک لیۓگائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،
دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائ ، شوہر یا بیٹے کی کمائ سے ہمدردی نہیں کر سکتی ہیں ۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیۓ بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائ میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائ جاۓ ۔گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔ یہ سب کیا ہے ۔کوئ مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی کچھ کر رہی ہیں لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئ تردد نہیں کرے گا ۔اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیۓ کمانے لیۓ کیا کیا محنت کی گئ ہے ۔ ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیۓ لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔ کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔رشتہ لینے کے لیۓ تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے لیکن کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًﷺمحلوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہفتہ، 17 نومبر، 2012

● [46] خُدا جانے/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


                                                       [46] خُدا جانے

KHUDA JANEY

زندگی مختصر سی ہے یارو
zindagi mukhtaser si hai yaro
پھر ملیں نہ ملیں خدا جانے
phir milein na milein khuda
jane
ہیں زمانے ہواؤں کی زد پر
hain zamane hawaon ki zad pr
کیا دکھاۓ گی یہ ہوا جانے
kia dikhae gi ye hawa jane
اپنے ملتے ہیں اجنبی کی طرح
apney miltey hain ajnabi ki tarah
اجنبی کی تو اب بلا جانے
ajnabi ki to ab bala jane
دستکوں پر بہار کی جو کُھلے
dastakoon pr bahar ki jo khule
کب خزاؤں میں در ہو وا جانے
kab khizaon mein dr ho wa jane
جس مسیحا کو دیکھ جیتے تھے
js masiha ko deikh jitey the
کھو گئی ہاتھ سے شفا جانے
kho gai hathsey shifa jane
جتنی رشتوں کی آج وقعت ہے
jitni risjtoon ki aaj wuqqat hai
یہ تو ممّتاز برملا جانے
ye to Mumtaz bermala jane
●●●
کلام:ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے
 اشاعت: 2011ء
●●●

 

● [45] بارشیں محبّت کی/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


                                                       [45] بارشیں محبّت کی

BARISHEIN

کاش میرے آنگن میں
kaash mere aangan mein
بارشیں محبّت کی
barishein mohabbat ki
اِس برس برس جائیں
is bras bras jaein
سارے غم کے طوفاں اب
sare gham k tofan ab
گھر کا رستہ تکنے کو
ghar ka rasta takne ko
اے خدا ترس جائیں
ay khuda tras jaein
کیا ہے ہاتھ زخمی ہوں
kia hain hath zakhmi hon
جو دل کے راستے سارے
jo dl k raste sare
خوشبوؤں میں بس جائیں
khushboun mein bas jaein
ایک جسم و جاں بن کر
eik jism o jan ban kr
لے کے سانس دکھ سُکھ کی
le k sans dukh sukh ki
ایک ایک نس جائیں
eik eik ns jaein
سب سیاہ راتوں کو
sab syah ratoon ko
ممّتاز کڑوی باتوں کو
Mumtaz karwi batoon ko
کر ختم عبس جائیں
kr khatam abas jaein
●●●
کلام:ممتازملک
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے
اشاعت:ء2011 
●●●
 

● [44] پُل صراط/ شاعری ۔مدت ہوئی عورت ہوئے



                 

        [44] پُل صراط 

PUL SIRAT

سوچوں کا پُل صراط ہے چلنا ضرور ہے
sochoon ka pul sirat hai chalna zoroor hai
چاہوں نہ چاہوں اس سے گزرنا ضرور ہے
chahoon na chahoon is se
guzarna zoroor hai
پلّے نہ میرے کچھ بھی رہے اس پہ یہ عالم
palley na mere kuch na rahe is pe ye aalam
رگ رگ میں اپنے کیسا اُبلتا غرور ہے
rag rag mein apne keisa ubalta ghuroor hai
تسبیح توڑ کر کہا موتی بکھیر کر
tasbeeh torh kr kaha moti bikheir kr
اے جوڑنے والے سبھی تیرا قصور ہے
aye jorne wale sabhi tera qosoor hai
خوش رنگ پرندوں کی طرح سوچ کر تو دیکھ
khush rang prindoon ki tarah sooch kr to deikh
مِٹّی کے گھونسلوں میں بھی کتنا سرور ہے
mitti k ghonsloon mein bhi kitna suroor hai
صنّاعی میں خدا کی ملاوٹ نہ کیجیئے
sannai mein khuda ki milawat na kijiye
اسکی نقل سے  ابھی صدیوں تُو دور ہے
is ki naqal se abhi sadyon tu door hai
ممّتاز شرمسار ہوں میں اپنے آپ سے
Mumtaz sharmsar hoon main apne aap se
ننھا پرندہ مجھ سے زیادہ شُکور ہے
nanha parinda mujh se zyda shukoor hai
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس
 مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے 
اشاعت:2011ء
●●● 

 

● [43] گریباں/ شاعری ۔مدت ہوئی عورت ہوئے پ





    [43]  گریباں

GARIBAN

کر کے گریباں چاک خاک سر پہ ڈال کے
میں چل پڑی ہوں سینے سے دل کو نکال کے
kr ke gariban chak khak sr pe dal k
main chal pari hoon sine se dl ko nikal k 

پہلے ہی پاؤں زخم زخم چُور چُور ہیں
جو ہو سکے تو کانٹے نکالو سنبھال کے


pehle hi paon zakhm zakhm choor choor hain
jo ho sake to kante nikalo sanbhal k

جرّاحی میری روح کی کرنے کے واسطے
نِشتر چبھو رہے ہو کیوں لفظوں میں ڈھال کے
jarrahi meri rooh ki kerne waste
nishter chubho rahe ho kyon lafzon mein dhal k

آئے ہیں بڑی دور سے تم حال تو پوچھو
تم چل پڑے ہو بات ہنسی میں اچھال کے


aye hain bari dour se tum haal to pucho
tum chal pare ho baat hansi mein uchal k

کتنے سمندروں کا سفر کر کے بالآخر
لاۓ ہیں ہم تو سیپ سے موتی نکال کے
kitne samandroon ka safar kr k bilakhir
laye hain hum to seep se moti nikal k

ممّتاز اب بھی رہتے ہیں کچھ لوگ مُنتظر
کفّار کی دنیا میں اذانِ بلال کے


Mumtaz ab bhi rehtey hain kuch loog mntazir
koffar ki dunya mein azan e Bilal k
●●●
کلام:ممتازملک
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے 
اشاعت:2011ء
●●●
 

● [42] احساس/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


       (42)    احساس        

EHSAS

کیوں وقت کی رفتار کا احساس نہیں ہے
kiyon waqt ki raftar ka ehsas nahi hai
جس شے کی ضرورت ہے میرے پاس نہیں ہے
js shey ki zaroorat hai mere paas nahi hai
جس تیزی سے پہلو کو بدلتا ہے زمانہ
js tezi se pehlo ko badalta hai zamana
پیہم کوئی اُمید کوئی آس نہیں ہے
peham koi ummid koi aas nahi hai
درجات کا تفریق کا آتا ہے زمانہ
darjat ka tafriq ka aata hai zamana
بس ایک روایت ہے علم پیاس نہیں ہے
bas eik riwayat hai ilm pyas nahi hai
قدموں میں کسی کے ہوں نچھاور بھلا کیسے
qadmoon mein kisi k hon nichawer bhala keise
پہلے سی کوئی پھولوں میں بُو باس نہیں ہے
pehley si koi pholoon mein bou baas nahi hai
کس کے لئے بیکل ہوں مجھے خود نہیں معلوم
ks k liey bekal hon mujhe khud nahi maloom
کیوں دل کو میرے کوئی خوشی راس نہیں ہے
kiyon dl ko mere kio khushi raas nahi hai
پہلے تو اِرادے بڑے بھرپور تھےمیرے
pehley to irade bare bherpoor they mere
ویسے ہی مصمّم ہیں کوئی یاس نہیں ہے
wese hi musammam hain koi yaas nahi hai
یہ تو ہے وہی بات کہ ممّتاز تو کہہ دے
ye to hai wohi baat k Mumtaz tu keh de
ہیرا ہے ارے یہ کوئی اِلماس نہیں ہے
heera hai are ye koi ilmas nahi hai
●●●
کلام:ممتازملک۔ پیرس
مجموعہ کلام: 
مدت ہوئی عورت ہوئے 
اشاعت:2011ء
●●●

 

● [41] اثر/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


                                                                      [41 اثر

                    ASAR


نگاہوں میں تکبر دل میں کینہ پروری ہر دم
nigahoon mein takabbur dl mein keena perwari hr dam
جبھی تو اب دعاؤں میں اثر باقی نہیں رہتا
jabhi to ab doaon mein asar baqi nahi rahta
ضرورت سے زیادہ دیں اگر پانی زمینوں کو
zrorat se ziada dein agar pani zaminon ko
جبھی تو پھر ہرا کوئی شجر باقی نہیں رہتا
jabhi to phir hara koi shajar baqi nahi rahta
جہاں ہو احترامِ آدمیّت ذہن میں زندہ
jahan ho ehtaram e admiyat zehn mein zinda
کہیں کوئی بشر پھر تو کبھی شاکی نہیں رہتا
kahin koi bashar phir to kabhi shaki nahi rehta
اندھیروں میں اگر جگنو کو بھی پابند کر ڈالیں
andheiron mein agar jugno ko bhi paband kr dalein
تو راتوں میں تمناۓ سحر باقی نہیں رہتا
to ratoon mein tamannaye sahar baqi nahi rehta
جہاں نقلی جواہر پر سدا تکیہ کیئے   رکھیں
jahan naqli jawaher pr sada takya kiye rakhein
وہاں کوئی کبھی اصلی گوہر باقی نہیں رہتا
wahan koi kabhi asli goher baqi nahi rehta
اگر بے فیض لوگوں کو بھری محفل نوازیں گے
ager be faiz logoon ko bhari mehfil nawazein ge
ہُنرمندوں کا پھر کوئی ہنر باقی نہیں رہتا
huner mandon ka phir koi huner baqi nahi rehta
بھلا ممّتاز بِینا اور نابینا کہاں یکساں
bhala Mumtaz beena aur nabeena kahan yaksan
اگر جو ہوں چراغِ راہ کُہر باقی نہیں رہتا
agr go hon charagh e rah kuher baqi nahi rehta
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت 
2011ء
●●●

 

● [10] حسنِ خیال / شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


حسن خیال

            

           (10) حسنِ خیال      

HUSN E KHAYAL

اے میرے دل آج چلتےہیں وہیں
ay mere dl aaj chalte hain wahin
ہوں صدائیں قُمریوں کی دلنشیں
hon sadaein qumrion ki dlnasheen
کوئ ہم کو نہ پریشاں کر سکے
koi hum ko na parishan kr sake
غم جہاں پر ہوں نہیں پردہ نشیں
gham jahan pr hoon nahin perda nasheen
پُرسکوں ہوں ہر طرف خاموشیاں
pur sokoon hoon hr traf khamoshian
ساعتیں ہوں بس حیاتِ آفریں
saetain hoon bus hayat e aafrin
گُل سے بُلبل جب کریں اٹھکیلیاں
gul se bulbul jb karain athkaelian
نہ ہوس گیری ہو اور نہ بے یقیں
na hawas giri ho aur na be yaqeen
پھول سے کر دیں جُدا کانٹوں کا غم
phool se kr dain juda kantoon ka gham
کوئ اندیشہ چُبھن کا ہو نہیں
koi andaesha chubhan ka ho nahin
کس قدر ممّتاز دلکش ہے خیال
ks qader Mumtaz dlkash hai khayal
بادلوں پر چل رہی ہوں میں کہیں
badloon pr chal rahi hoon main kahin
●●●
کلام:ممتازملک 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے 
اشاعت:2011ء
●●●

 

جمعرات، 1 نومبر، 2012

● (6) خون جگر/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے





(6) خون جگر


وہ جسے خون جگر دے کے تھا پالا میں نے
اپنے ہاتھوں کا بنایا جسے چھالا میں نے

ایک وہ وقت بھی آیا کہ اپنے ہاتھوں سے
درد کی لہروں میں لیجا کے اچھالا میں نے

یہ گماں مجھ کو رہا میں نے کمی کوئی نہ کی
مشکلوں میں تیری حل کوئی نکالا میں نے

تیری آنکھوں سے کوئی اشک نہ گرنے پایا
تیری ہر ایک ہنسی کو تھا سنبھالا میں نے

پھر بھی کیا بات ہوئی فاصلے ایسے آئے
دل کا دریا بھی کئی بار کھنگالا میں نے

تیرےہونٹوں کا تبسم کہ ہو آنکھوں کی ہنسی
تیری کس بات کو بتلا کہ تھا ٹالا میں نے

کر کے خود اپنی خوشی تیری محبت پہ فدا
خود کو من چاہے تیرے روپ میں ڈھالا میں نے

تیری خوشیوں کے تحفظ کے لیئے ہی ممتاز
اپنے دل کا نہ سنایا کبھی نالا میں نے
●●●
کلام:ممتازملک 
:مجموعہ کلام
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●



 

● (19) رات کےدشت میں/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(19) رات کےدشت میں
RAAT K DASHT MEIN 




ساری دنیا کو بتاتا ہے ایک گھر اپنا
ایک اپنا ہی گھر تھا جس کو وہ گھر کر نہ سکا
sari dunya ko btata hai aik the apna
aik apna hi ghr the jisko wo ghr kr na ska

جس نے افلاک پہ ڈالی تھیں کمندیں لیکن
رات کے دشت میں کچھ دیر سفر کر نہ سکا
Js ne aflaq pe dali theen kmandein lekin
Raat k dasht mein koch deir sfr kr na ska

دوسروں کے لیۓ واضح تھے اشارے اسکے
ان اشاروں پہ وہ اپنا ہی گزر کر نہ سکا

dosroon k liye wazeh they ishare os k
On isharoon pe wo apna hi guzer kr na ska
کیوں یہ بےچینیاں طاری ہیں رگ وپے میں تیرے
صبح کی رات تو پھر رات سحر کر نہ سکا
Kyon ye bechnyan tari hain rag o pay mein tere
Sobh ki raat to phir raat sahar kr na ska

دوسروں کے لیئے جو جھوٹ پروتا تھا بڑے
سچ کی دہلیز پہ وہ صرفِ نظر کر نہ سکا
Dosron k liey jo jhoot pirota tha bre 
Sach ki dehleez pe wo srf e nzr kr na ska

معاملے جتنے بھی جلدی میں بگاڑے تو نے
لاکھ تاویلوں سے بھی ٹھیک اثر کر نہ سکا
Mamle jitne bhi jldi mein bigare tu ne
lakh taweelon se bhi thik asr kr na ska

وہ جو ممّتاز کہیں کھو گئے ماہ و انجم
ڈھونڈا کرتا ہے انہیں دن میں مگر کر نہ سکا
wo jo Mumtaz kahin khoo gaye mah o anjum
dhonda krte hain inhein dn mein mgr kr na ske
●●●
کلام:ممتازملک 
:مجموعہ کلام 
میرے دل کا قلندر بولے
2014ء :اشاعت
●●●



 

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/