ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 19 اکتوبر، 2012

کیسا بابا کیسے بچے // KEISA BABA KESY BACHCHY


 کیسا بابا کیسے بچے
ممتاز ملک ۔۔۔۔ پیرس
شیخ الاسلام جناب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مد ظلہ علیہ کی ڈنمارک کانفرنس میں مجھ ناچیز [ ممتاز ملک ] کو بھی ادارہ
منھاج القران پیرس کی جانب سے سابقہ جنرل سیکٹری کی حیثیت سے اپنی ساتھیوں سابقہ صدر محترمہ نگہت بٹ صاحبہ اور
سابقہ سیکٹری مالیات محترمہ صفیہ خواجہ صاحبہ کے ساتھ کوپن ہیگن میں نہ صرف کئ بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا ، بلکہ
شیخ الالسلام کو اپنی کتاب [ مدت ہوئ عورت ہوۓ ] پیش کرنے کا موقع بھی ملا ۔ آپ کی خصوصی دعائیں بھی ہمیں
نصیب ہوئیں ۔ مختلف ممالک کی خواتین سے ملنے اور ان کے ممالک میں پاکستانی خواتین کے فعال ہونے سے متعلق بھی
کافی معلومات ملیں ۔ کہ کیسے وہ سب اپنے اپنے ممالک میں اپنی کمیونٹی کے لیۓ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔قبلہ سے ملاقات
کے بعد ایک عجیب سی روحانی خوشی کا احساس ہرایک دل کو گھیر لیتا ہے۔بلکل اس طرح جیسے ایک بچہ اپنے باپ سے
ملنے کے بعد محسوس کرتا ہے ۔کیونکہ ان کےدعاؤں کے لیۓ اٹھے ہوۓ ہاتھوں اور درد مند گلوگیر لہجے نے ہر آنکھ کو پرنم کر دیا ۔
کوئ بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کی آنکھ سے آنسو نہ ٹپکا ہو ۔کتنا باوقار ہے یہ بابا جو اپنے بچو ں کو
سمجھاتا ہے کہ میرے بچویہ دنیا ہمیشہ کے لیۓ نہیں ہے ۔ ہر دن کو اپنا آخری دن سمجھ کر جس کا جو دینا ہے فورا
سے پہلے چکا دو کہ کہیں پھر ایسا نہ ہو کہ ہمیں اس کا موقع ہی نہ مل سکے ۔اور ہم اپنے نبی کے لیۓ رنج و غم کا باعث
بن جائیں ۔ جو کہتا ہے کہ سچ بولو کہ اس سے بڑی کوئ طاقت نہیں ہے ۔ اسی لیۓ نہ کہ نبی پاک ﷺ کا ہی فرمان کا مفہوم ہے
کہ جو شخص جھوٹ بول سکتا ہے وہ دنیا کا ہر برا کام کر سکتا ہے ۔اسی لیۓ اس بابا جان نے بھی کہا کہ سچ بولو ۔ لیکن
لوگ کہتے ہیں کہ کئ سچ بہت خطرناک ہوتے ۔ جبکہ میں کہتی ہوں کہ ہر سچ ہی خطرناک ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ کڑوا ہوتا ہے۔
اور کڑوا تو کسی کو بھی پسند نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن پھر بھی بیماریوں سے نجات کے لیۓ کڑوی دوائ کے گھونٹ بھی پینے
ہی پڑتے ہیں ۔ جو ماں یا باپ اپنے بچوں کو یہ دوا کے کڑوے گھونٹ پلاتے ہیں وہ کیا ان کے دشمن ہوتے ہیں ۫۔؟ نہیں ۔
بلکہ وہ ان تمام لوگوں سے زیادہ ان سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں جو ان کو اپنی مصنوعی محبت کے جھانسے میں لاکر دوا
پینے کی کڑواہٹ سے تو بچا لیتے ہیں لیکن کسی اور بڑے مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں ، یا پھر موت کے حوالے کر دیتے ہیں ۔
کیا جھوٹ بولنے سے انسان کی عمر لمبی ہو جاتی ہے ؟۔ہا پھر موت اس کے گھر کا راستہ بھول جاتی ہے؟
ایک مسلمان جب اپنے عقیدے کا اعلان کرتا ہے تو وہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ
اللہ ایک ہے اسکے سوا کوئ عبادت کے لائق نہیں ہے ۔محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں ۔آپ ﷺ کے بعد کوئ نبی
دنیا میں نہیں آۓ گا ۔ میں اللہ کے بھیجے ہوۓ تمام انبیاء پر ایمان لاتا ہوں ۔[یعنی تمام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی
تصدیق کرتا ہوں] ۔میں اللہ کی جانب سے نازل ہونے والی چاروں آسمانی کتابوں پر ایمان لاتا ہوں ۔ میں تمام
فرشتوں پر ایمان لاتا ہوں ۔ میں ایمان لاتا ہوں اللھ کی جانب سے مقرر ہماری تقدیر برحق ہے۔اور اس بات پر بھی کہ
ایک دن یوم حساب مقرر ہے ۔ اور ہم سب کو خدا کے ہاں اپنے اپنے کیۓ کا حساب بھی دینا یے ۔کہ جو مالک روز جزا ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہم شاید یا تو ان باتوں کوعربی میں رٹ کر پڑھ تو لیتے ہیں لیکن ہمارے دل اور روح میں کہیں بھی
ان الفاظ کی گونج نہیں ہوتی ۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہمیں ان الفاظ کا اصل مفہوم ہی معلوم نہیں ہوتا ۔
کیوں کہ اگر ہمیں ان آیات کا مطلب معلوم ہوتا تو پھر ہم کبھی بھی اپنی جان بچانے کے ارادے سے یا کسی نقصان سے بچنے کےلیۓ
کبھی بھی جھوٹ کا سہارا نہ لیتے ۔کیوں کہ پھر ہمیں اپنے مقدر کا بھی یقین ہوتا کہ جو نقصان ہمارے نصیب میں
لکھا ہے وہ ہونے سے کوئ بھی نہیں روک سکتا ۔ اور جو فائدہ ہمارے مقدر میں رب کائنات نے لکھ دیا ہے وہ لینے سے ہمیں
دنیا کی کوئ طاقت نہیں روک سکتی ۔ پھر کیا بات ہے کہ ہم اپنی چادر سے زیادہ پاؤن بھیلا کر کبھی پاؤں ننگے کر لیتے ہیں تو
کبھی چادر کے ساتھ کھینچا تانی میں اپنی عزت و وقار کی چادر کی بھی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔ لوگوں کو اپنی مصنوعی
شان و شوکت دکھانے کے چکر میں نہ تو رشتہ دیکھتے ہیں نہ موقع دیکھتے ہیں نہ ہی کوئ جگہ ۔بازار ہو یا مسجد
ہم ہر جگہ لوگوں کو اپنی چرب زبانی سے چونا لگانے کو تیار رہتے ہیں ۔ اور پھر اپنے ہی جیسے فراڈ ٹولے میں
بیٹھ کر سینہ تان کر دوسرں کوبیوف بنانے کے قصے شیئر کرتے ہیں ۔کہ واہ دیکھو میں نے اسے اتنے لاکھ کا چونا لگایا۔
دیکھو میں نے فلاں کو کیسا سبق سکھایا ۔ لیکن ان سب کے بیچ وہ یہ بھول جاتے ہیں ۔کہ خود ان سے بڑا بیوقوف تو کوئ ہےہی نہیں ۔
کیوں کہ یہ سب کہچھ جو انہوں نے اپنی قبر بھاری کر کے حاصل کیا وہ تو اللہ نے پہلے ہی ان کے مقدر میں لکھ دیا تھا ۔
ہم تو صرف اپنا مقدر ڈھونڈتے ہیں ۔کس کو کیا ملے گا یہ تو پہلے ہی اللہ پاک فیصلہ کر چکا ہے ۔
ہاں روز جزا تو ہمیں اس بات کا جواب دینا ہے کہ ہم نے اپنا مقدر کس راستے سے تلاش کیا ۔ حلال اور جائز راستے سےیا
پھر حرام اور ناجائز راستے سے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ
،،رزق بندے کو اس طرح تلاش کرتا ہے جس طرح موت انسان
کو ڈھونڈتی ہے۔،،
پھر یہ کیا بے یقینی ہے جو ہمیں پیسے کی دوڑ میں اندھا دھند دوڑنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ کیا ہمارے کفن میں جیب سلی ہو گی ؟
کیوں کہ وہاں پر رشوت میں دینے کے لیۓ یہاں سے لوٹے اور ہڑپے ہوۓ بنگلے گاڑیاں یا ہیرے جوایرات نہیں چلیں گے بلکہ ویہاں
کی کرنسی کا نام ہے اچھے اعمال ۔ اچھے اعمال کی کرنسی ہمیں ویاں کے محل اور باغات خریدنے کے لیۓ چاہیۓ ہو گی۔
تو سوچ لیجیۓ کہ ہمارے پاس اس کرنسی کا کتنا سٹاک ہے ؟اگر نہیں ہےتو ابھی سے جمع کرنے کی فکر کیجیۓ ۔جن کے پاس
اتنے اچھے بابا ہوں شیخ الاسلام جیسے ، جن کےپاس اتنے اچھے آقا ہوں نبی پاک ﷺجیسے، جن کا سب سے اچھا رب ہو پروردگار
اور ستر ماؤں جیساپیار کرنے والا ،معاف کرنے والا ،جھولیاں بھرنے والا،مرادیں پوری کرنے والا ،اور اس کی جیب
اچھے اعمال کی کرنسی سے خالی ہو توآپ ہی بتائیں ایسے شخص سے زیادہ بدنصیب کون ہو گا۔ فیصلہ آپ پر ہے۔
آئیۓ اچھے اعمال کی جستجو کریں اور بازی لے جائیں ۔ اور یہ سوچ کر سچ بولنے سے خوف نہ کھائیں کہ اس سے
ہماری عمر لمبی ہو جاۓ گی ۔کیوں کہ جو رات قبر میں لکھی ہے وہ باہر آنہیں سکتی ۔اور جو دن باہر لکھا ہے اسے کوئ
اندر نہیں کر سکتا۔ تو یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی ہزار
گنا بہتر ہے۔ زندگی گزارئیۓ ۔ بہادری کے ساتھ اور سچائ کے ساتھ ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/