امید
مجھے امید ہے اک دن اندھیرے روٹھھ جائیں گے
نئ صبح طلوع ہو گی سویرے مسکرائیں گے
خراماں اور سبک رفتار ہواؤں کے تھپیڑے ہوں
نہ بنکر آندھیاں سر سے چھتوں کو یہ اڑائیں گے
چراغاں اب مزاروں کا مقدر ہی نہیں ہو گا
محلے اور گلی کوچے بھی اک دن جھلملائیں گے
نئ اب کونپلیں پھوٹیں نۓ پتے اگیں گے اب
درختوں کے لبادے بھی نیا جوبن دکھائیں گے
نہ پانی کا کبھی لہجہ کہیں سیلاب سا ہو گا
بھری ندیاں چلیں گی اور دریا گنگنائیں گے
ہمارا ہاتھ تو تھاما ہے قدرت نے فراغت سے
پسینہ لے کے ماتھے پر قدم آگے بڑھائیں گے
بہت ہی جلد ایسی بھی کوئ صبح طلوع ہو گی
جہاں جا کر اندھیرے اب سدا کو منہ چھپائیں گے
زرا ہمت کرو مُمتاز کہ اُمید زندہ ہے
ہمارے کھیت پھر اس شان سے ہی لہلہائیں گے
........................