ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 21 مارچ، 2025

ڈرو۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز


ڈرو اس شخص سے
 جو خود اپنے بارے میں بھی سچ بولنے لگے کیونکہ پھر اسے کسی کا خوف نہیں رہتا۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں) 
    (ممتاز ملک. پیرس)

ہفتہ، 15 مارچ، 2025

بےشرم۔ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

شرما شرمی کرتے کرتے کوئی معاملہ، کوئی مسئلہ، کوئی گتھی اتنی الجھ جائے کہ اس کے آگے صرف بربادی اور تباہی ہو تو وہاں بے شرم بن جانا چاہیئے ۔
بات پوری پہنچانے کے لیئے بے شرم بننا پڑے، کچھ گالیاں سننی پڑیں، تو یہ ہونے والے نقصان سے بڑا نقصان نہیں۔
    (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
         (ممتازملک. پیرس)


جمعرات، 13 مارچ، 2025

کب تک۔ کالم


کب تک؟
تحریر :
     (ممتازملک. پیرس)

کوئٹہ میں جعفر ایکسپریس  
ٹرین کے اغواہ میں ملوث سبھی دہشت گرد واصل جہنم کر دیئے گیئے ۔ الحمدللہ 
پہلے معلوم ہو ٹرین ایسے حالات میں روکی کیوں گئی۔۔۔ ان کے اوپر سے گزار کیوں نہیں  دی گئی؟
ہم تو سڑک پر گاڑی چلانے والوں کو ایسے علاقوں میں گاڑی روکنے سے منع کرتے ہیں جہاں لٹیروں کا رواج ہو۔ پھر ٹرین تو اتنی سپیڈ میں ہوتی ہے اسے سیکنڈ میں تو روکا نہیں جا سکتا ۔ تواس کے ڈرائیورز کی بھی کڑی تفتیش ہونی چاہیئے۔ اگر وہ زندہ ہے تو۔۔۔ ورنہ ان مجرموں کی روایت ہے کہ کام نکلوانے کے بعد سب سے پہلے اپنے جاسوسوں اور مددگاروں کی ہی گردنیں اڑایا کرتے ہیں ۔
ایسے حادثات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیئے ضرورت ہے ایک بیرحمانہ فوجی کاروائی کی جائے ۔ کیونکہ کوئی میں سول حکومت ایسے بکاؤ غداروں اور دہشتگردوں کا خاتمہ کبھی نہیں کر سکتی ۔ وہ اپنا اپنا مفاد بچانے کے چکر میں رہتے ہیں ۔ جبکہ فوج ملک بچانے کا عہد لیکر اپنی جان ہتھیلی پر لیکر سربکف نکلتی ہے ۔ 
ان کا علاج اب گفتگو نہیں بلکہ انکے علاقوں پر وہ کارپٹ بمباری ہے جو امریکہ نے پہلی بار میں ان کو سبق سکھانے کے لیئے ان پر کی تھی ۔ 
یہ ملک ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔ ہر علاقے کا کنٹرول ڈنڈے کے زور پر حاصل کریں اور ملک کی سلامتی کے خلاف بھونکنے والوں کو نام نہاد تیرہ کمروں والی جیل میں ڈال کر دیسی مرغے ، دیسی گھی کھلا کھلا کر مشٹنڈے بنا کر داماد کی طرح پالنے کے بجائے قید بامشقت ایک دہشتگرد جیسی اصل سزا دیں اور چوک میں لٹکا کر نشان عبرت بنایا ہوتا تو یہ کاکروج کے طرح کونے کھدرے سے نکلنے والے کب کے اپنی موت آپ مر چکے ہوتے۔ 
فوج کو کس بات کا انتظار ہے ؟
  قوم کے پچیس کروڑ  افراد فوج  سے اس سوال کا جواب طلب کرتے ہیں ۔۔۔۔ 

پاک فوج زندہ باد 💚🤍
پاکستان پائندہ باد 💚🤍
ہر قدم خیر🇵🇰🇵🇰🇵🇰
دم دم خیر 🇵🇰🇵🇰🇵🇰

                   ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 8 مارچ، 2025

یوم خواتین 2025ء ۔ کالم

            یوم خواتین 
                2025ء
     تحریر:
          (ممتازملک ۔پیرس)


8مارچ 2025ء۔۔ آج کا دن یوم خواتین کے طور پر ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم اور خاص دن، جس میں بہت ساری وہ باتیں جو کہ ہمارے ملک میں، معاشرے میں خواتین کے حقوق کے خلاف جاتی ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔  اس دن کو کچھ ایسی خواتین کے ہاتھ میں دے دیا گیا ، اب یہ پری پلین تھا یا حادثاتی طور پہ ایسا ہوا ، کچھ ایسی غیر ذمہ دار خواتین کو کہ جب آج سے تقریبا پانچ چھ سال پہلے اس تاریخ پر جو جلسے جلوس وغیرہ اور پروگرامز ہوتے تھے ۔ 8 مارچ کے حوالے سے اس میں "میرا جسم میری مرضی" کا جو نعرہ استعمال کیا گیا وہ نعرہ غلط نہیں تھا. ظاہر سی بات ہے آپ کے جس پر آپ کی مرضی ہونی چاہیئے کہ آپ اپنے جسم کو کس کے ساتھ کس طرح سے وابستہ کرنا پسند کرو گے، کس طرح سے استعمال کرنا پسند کرو گے، یا نہیں کرو گے ۔ یا کسی کو اپنے آپ کو کیسے چھونے کی اجازت دو گے، یا نہیں دو گے۔ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔  یہ نعرہ برا نہیں تھا مگر اس کو جس طرح سے بیان کیا گیا ، جس طرح سے پیش کیا گیا، پبلک میں آ کر جس واحیات اور بیہودہ طریقے سے اس کی تصویریں اور پوز بنا کے اور واہیات خواتین کے ہاتھوں یہ استعمال ہوا ۔ مادر پدر آزاد خواتین کے ہاتھوں استعمال ہوا۔  اس نے اس نعرے کی افادیت کو ختم کیا کرنا تھا بلکہ اسے کسی گٹر میں گرا دیا۔ 
 بالکل  میرا جسم میری مرضی آپ کا جسم آپ کی مرضی۔  یہ ایک انسانی بنیادی حق ہے اور یہ کوئی گالی نہیں ہے کہ  جب آپ حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں آپ کے بہت سارے انسانی حقوق ہیں۔ اس میں آپ رشتوں سے  جان نہیں چھڑاتے بلکہ ہر رشتے کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ صرف فرائض کے لیئے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ آپ کے حقوق بھی ہیں۔ جب آپ فرائض ادا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ دوسرے کے اوپر آپ کے حقوق لازمی ہو جاتے ہیں۔ تو وہ اسے ادا کریں۔
 پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک خواتین کے جتنے بھی حقوق ہیں ۔ پہلے تو پیدائش پہ اسکا پہلا حق کہ اسے بخوشی قبول کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسکی وراثت میں جائیداد میں اسے بھی اتنا ہی وارث سمجھا جائے جتنا کہ کسی بیٹے کو سمجھا جاتا ہے۔ زندہ رہنے پر بلکہ کھانے میں بھی جو بوٹیاں آپ اپنے بیٹوں کے لیئے بچاتی ہیں اور بیٹیوں کے لیئے شوربہ رہ جاتا ہے، اس چیز کو اس بخیلی سے نکلنے کے لیئے ضرورت اس بات کہ ہے کہ والدین یہ سمجھیں کہ اس بچے کو اسی طرح سے اتنی ہی توانائی کی ضرورت ہے جتنی اس لڑکے کو ضرورت ہے ، بلکہ اس لڑکے سے شاید کسی ایک جگہ پر زیادہ ضرورت ہے کہ کل کو اس نے ماں بننا ہے اس نے اس سارے تخلیقی مرحلے سے گزرنا ہے۔  ایک نئی اولاد کو دنیا میں لے کر آنا ہے، تو جسمانی طور پر، ذہنی طور پر، نفسیاتی طور پر اس بچی کو جس نے کل کو بڑا ہونا ہے، زیادہ طاقت اور توانائی کی ضرورت ہے تو اس طاقت کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اس کا حوصلہ بھی بڑھائیں۔ اس کو شروع سے اچھی تربیت میں رکھیں اس کو ہمیشہ یہ مت بتائیں کہ تم نے یہ کرنا ہے ،کرنا ہے، کرنا ہے، اسے یہ بھی بتائیں کہ  جہاں بیٹا آپ تھک جاتے ہو، جہاں پہ آپ چیخنا چاہتے ہو ،جہاں پہ آپ اواز اٹھانا چاہتے ہو۔ جہاں پہ آپ انکار کرنا چاہتے ہو، آپ کو ڈرنا نہیں ہے، آپ ہمارے سامنے بڑی جرات کے ساتھ اس کام سے، لوجک بتا کر، وجہ بتا کر،  آپ وہاں انکار کر سکتے ہو۔  یہ بہت بڑا حق ہے۔  ہمارے ہاں خواتین کو انکار کرنے کا حق نہیں دیا جاتا، اور تو اور کہ جب باقی سارے میدانوں کے بعد شادی کا بھی معاملہ آتا ہے، تو وہاں پر بھی رشتہ کرنے سے انکار کرنا مرد اپنی بہت بڑی توہین سمجھتا ہے کہ جی میں نے کسی کو رشتہ بھیجا،  اس نے مجھے انکار کر دیا۔  آپ نے رشتہ کسی کو بھیجا، یہ آپ کا حق تھا کہ آپ کسی کو پروپوز کریں، لیکن وہ آپ کو قبول کریں یا نہ کریں یہ اگلے کا حق ہے۔ اسے آپ تسلیم کیجیئے۔ آپ زبردستی گن پوائنٹ پر کسی کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتے۔  یہ بہت بڑا حق ہے، جو ہمارے ہاں سب سے پہلے چھیننے والے ہمارے اپنے ماں باپ بھائی بہن ہوتے ہیں، جو اپنے مفادات کی خاطر کسی کا رشتہ طے کر رہے ہوتے ہیں ۔ آپ انسان ہیں کٹھ پتلی نہیں ہیں۔  ایک عورت، ایک لڑکی کو اس بات کا حق ہے کہ اسے زندگی کس کے ساتھ گزارنی ہے، اس کا آخری فیصلہ اس لڑکی کا ہونا چاہیئے۔ آپ اس کے بھائی ہیں، آپ اس کے والد ہیں یا اگر  خاتون بیوہ ہے مطلقہ ہے وہ دوبارہ سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو اس کا ٹھیکیدار بن کر اس کا بیٹا نہیں کھڑا ہو جائے گا، وہاں پر آپ سب ایک دوسرے کے ساتھ مشورہ کریں گے۔ پوچھیں گے، لیکن اگر بیٹا خود ہی غیر ذمہ دار ہے، آوارہ ہے، لوفر ہے یا بھائی غیر ذمہ دار ہے، یا اسی طرح سے باپ کسی چکر میں پڑا ہوا ہے، وہ کس طرح سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ تم یہ شادی نہیں کر سکتی۔  تم زندگی کا یہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔ یہ بہت بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں، اور یہ سارے حقوق  اللہ نے جب دے رکھے ہیں۔ جو قوانین کے کاغذوں میں پنے کالے کئے گئے ہیں، تو عملی طور پر بھی خواتین کو ملنے چاہیئں ۔ دنیا بھر کی خواتین کو ہم اپنی ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس" کی جانب سے تہہ دل سے 8 مارچ 2025ء کے لیئے بہت ساری نیک تمنائیں اور نیک خواہشات پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس دن کے حوالے سے وہ تمام ذمہ داران وہ تمام مرد جو ذمہ دار عہدوں پر موجود ہیں۔ جو ایک اچھے اقدام میں اپنا عملی قدم اٹھا سکتے ہیں ۔کچھ اچھا کر سکتے ہیں۔ ان سب سے گزارش ہے کہ اس اقدام میں ساتھ دیجیئے اور آپ کی ماں بھی ہے، بہن بھی ہے، بیٹی بھی ہے، آپ کی بیوی بھی ہے اور سب سے زیادہ نظر انداز کی جانے والی حیثیت میں  وہ آپ کی بیوی کے طور پر ہوتی ہے۔ تو برائے مہربانی خواتین پر لطیفے بنانے کی بجائے خواتین کی ہر معاملے میں حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے ، ان کا حوصلہ بڑھائیئے۔ وہ آپ کی دنیا اور آپ کی آبادی کا آدھا ہیں۔ آدھی آبادی کو لولا لنگڑا کر کے، ایک کونے میں پھینک کر ،اس کی توہین کر کے، آپ دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ یہی فرق ہے آپ میں اور باقی دنیا میں۔ سوچیئے کہ آپ پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟
   (ممتاز ملک پیرس۔فرانس)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/