مردہ معاشرہ
تشدد سے بہتر طلاق
کیا کوئی بتائے گا کہ یہ کونسا ملک ہے؟ یہ کونسا معاشرہ ہے؟ جہاں
مرد بطور شوہرجب اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی سانس لیتی گوشت پوست کی انسان پر ہاتھ اٹھا رہا ہے یا کسی پنچنگ بیگ پر زور آزمائی کر رہا ہے ۔
وہ کسی لوہے پر لوہے کا ہتھوڑا برسا رہا ہے یا روئی دھنک رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے ہی قصاب سوچ والے مردوں نے کبھی مذہب کی آڑمیں اور کبھی معاشرے میں اسے بے امانی کا خوف دلا کر طلاق کو عورت کے لیئے ایسی گالی بنا دیا ہے کہ عورت یا مرد قتل ہونے تک اس رشتے کو چوہے دان سمجھ کر اس میں قید ہو جاتا ہے ۔ خصوصا عورت جسے اپنے شوہر کے گھر سے مر کر نکلنے کا حکم سنا دیا جاتا ہے ۔ اور تو اور یہ گالی اور بلیک میلنگ ان خواتین کے لیئے بھی ایک پھندا بن جاتی ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہیں، مردکی محتاج نہیں ہیں ۔ پچھلے دنوں ہمارے ملک میں ہوئے گھریلو تشدد کے ایسے بے شمار واقعات دیکھے جا سکتے ہیں ، جہاں کہیں لڑکی نابالغ بڑی عمر کے مرد سے بیاہی گئی، کہیں وہ اچھا گھر کہہ کر بیاہی گئی، کہیں وہ اعلی تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہے، تو کہیں مشہور مالدار میڈیا کی شخصیت ہے، سب کی سب اپنے شوہروں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا شکار ہو کر پٹ رہی ہیں۔ کہیں ماری گئی ہیں تو کہیں مرنے کے قریب پہنچا دی گئی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی شکایت کو اس مرد یا عورت کے ٹریک ریکارڈ کے مطابق ہینڈل کیا جائے ۔ اگر وہ جھوٹا اور منافق ہونے کا ریکارڈ رکھتا ہے تو اس کی فوری تحقیقات کا آغاز کرنے کے ساتھ زیادہ باریک بینی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ جبکہ اگر ایسی کوئی بات نہیں، سائل یا سائلہ سچا اور اچھا انسان ہے، اس کی شہرت علاقے میں مثبت ہے تو اس کی شکایت پر فوری گرفتاری ڈالی جائے ۔ سائل کو فوری طبی معائنے کے لیئے بھیجا جائے اور اسکے زخموں کا فارنزک بھی فوری کروایا جائے، تاکہ انکے زخموں کا اصلی نقلی خودساختہ ہونا یا واقعی حملہ ہونا ثابت ہو سکے ۔ ہمارے تھانوں میں بیٹھے اکثریت بکاو پلسیئے، ایس ایچ اوز ، حتی کہ سی پی اوز ان مجرمان کے ہاتھوں اپنا دین ایمان بیچے ہوتے ہیں ۔ انہیں اپنی جیب کے سوا دنیا میں کچھ دکھائی دیتا ہے نہ ہی سکے کی چھنکار کے سوا کوئی آواز انکے کانوں تک پہنچتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں اوربچوں پر ہونے والا وحشیانہ تشدد دنیا بھر میں ہماری شرمناک پہچان ہے ۔
اس پر ہمیں شرم نہیں آتی بلکہ ہم اس پر حیلے پیش کرنا اور عذر دینا زیادہ پسند فرماتے ہیں، بجائے اپنی کرتوں پر غور کرنے کے ۔ دنیا ہمیں ذہنی مریض کا سرٹیفکیٹ دیدے تب تک شاید ہم اس محاذ سے پیچھے کبھی نہیں ہٹیں گے۔
ہمارا ملک دنیا بھر میں عورتوں بچوں بلکہ مجموعی طور پر اخلاقی اور انسانی حقوق بلکہ ہر جاندار و بے جان کے لیئے سب سے خطرناک اور غیر محفوظ ملک کہا جائے تو قطعا غلط نہیں ہو گا ۔ یہاں پر یہ ثابت کرنے کے لیئے کہ میں مار دیا جاؤنگا۔۔۔ مر کر دکھانا پڑتا ہے ۔ یہاں انصاف کا حصول دودھ کی نہر نکالنے سے بھی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ سارا کا سارا عدالتی نظام صندوق بھر بھر کر وصول کرنے کے عوض سیاسی پیشرووں کے جوتے صاف کرنے میں مصروف ہے ۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا رہا کہ ہم دنیا بھر کے عدالتی نظام میں آخری نمبروں تک گر چکے ہیں ۔ کیونکہ فرق پڑنے کے لیئے باضمیر ہونا ضروری ہے ، جسے ہم کب کا کرپشن کا زہر پلا کر مار چکے ہیں ۔ اب دیکھیئے یہ عدالتی نظام حق و سچ کیساتھ کس حکومت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔ اور جو حکومت ایسا کر سکی وہ ہمیشہ کے لیئے تاریخ کے اوراق پر امر ہو جائیگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔