ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 9 نومبر، 2024

چوہے۔ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

ڈری ہوئی سہمی ہوئی مخلوق صرف چوہے پیدا کرتی ہے ۔ بہادر اور خومختار عورتیں ہی بہادروں کو جنم دیتی ہیں ۔ 
    (چھوٹی چھوٹی باتیں )
          ( ممتازملک۔پیرس)

مردہ معاشرہ۔ کالم

      مردہ معاشرہ 
   تشدد سے بہتر طلاق

کیا کوئی بتائے گا کہ یہ کونسا ملک ہے؟ یہ کونسا معاشرہ ہے؟ جہاں 
مرد بطور شوہرجب اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی سانس لیتی گوشت پوست کی انسان پر ہاتھ اٹھا رہا ہے یا کسی پنچنگ بیگ پر زور آزمائی کر رہا ہے ۔
وہ کسی لوہے پر لوہے کا ہتھوڑا برسا رہا ہے یا روئی دھنک رہا ہے۔  ہمارے معاشرے میں ایسے ہی قصاب سوچ والے مردوں نے کبھی مذہب کی آڑمیں اور کبھی معاشرے میں اسے بے امانی کا خوف دلا کر طلاق کو عورت کے لیئے ایسی گالی بنا دیا ہے کہ عورت  یا مرد قتل ہونے تک اس رشتے کو چوہے دان سمجھ کر اس میں قید ہو جاتا ہے ۔ خصوصا عورت جسے اپنے شوہر کے گھر سے مر کر نکلنے کا حکم سنا دیا جاتا ہے ۔ اور تو اور یہ گالی اور بلیک میلنگ ان خواتین کے لیئے بھی ایک پھندا بن جاتی ہے جو معاشی طور پر مستحکم ہیں، مردکی محتاج نہیں ہیں ۔ پچھلے دنوں ہمارے ملک میں ہوئے گھریلو تشدد کے ایسے بے شمار واقعات دیکھے جا سکتے ہیں ، جہاں کہیں لڑکی نابالغ بڑی عمر کے مرد سے بیاہی گئی، کہیں وہ اچھا گھر کہہ کر بیاہی گئی، کہیں وہ اعلی تعلیم یافتہ اور  برسر روزگار ہے، تو کہیں مشہور مالدار میڈیا کی شخصیت ہے، سب کی سب اپنے شوہروں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد کا شکار ہو کر پٹ رہی ہیں۔ کہیں ماری گئی ہیں تو کہیں مرنے کے قریب پہنچا دی گئی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی شکایت کو اس مرد یا عورت کے ٹریک ریکارڈ کے مطابق ہینڈل کیا جائے ۔ اگر وہ جھوٹا اور منافق ہونے کا ریکارڈ رکھتا ہے تو اس کی فوری تحقیقات کا آغاز کرنے کے ساتھ زیادہ باریک بینی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ جبکہ اگر ایسی کوئی بات نہیں،  سائل یا سائلہ سچا اور اچھا انسان ہے، اس کی شہرت علاقے میں مثبت ہے تو اس کی شکایت پر فوری گرفتاری ڈالی جائے ۔ سائل کو فوری طبی معائنے کے لیئے بھیجا جائے اور اسکے زخموں کا فارنزک بھی فوری کروایا جائے، تاکہ انکے زخموں کا اصلی نقلی خودساختہ ہونا یا واقعی حملہ ہونا ثابت ہو سکے ۔ ہمارے تھانوں میں بیٹھے اکثریت بکاو پلسیئے، ایس ایچ اوز ، حتی کہ سی پی اوز ان مجرمان کے ہاتھوں اپنا دین ایمان بیچے ہوتے ہیں ۔ انہیں اپنی جیب کے سوا دنیا میں کچھ دکھائی دیتا ہے نہ ہی سکے کی چھنکار کے سوا کوئی آواز انکے کانوں تک پہنچتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں اوربچوں پر ہونے والا وحشیانہ تشدد دنیا بھر میں ہماری شرمناک پہچان ہے ۔
 اس پر ہمیں شرم نہیں آتی بلکہ ہم اس پر حیلے پیش کرنا اور عذر دینا زیادہ پسند فرماتے ہیں، بجائے اپنی کرتوں پر غور کرنے کے ۔ دنیا ہمیں ذہنی مریض کا سرٹیفکیٹ دیدے تب تک شاید ہم اس محاذ سے پیچھے کبھی نہیں ہٹیں گے۔ 
ہمارا ملک دنیا بھر میں عورتوں بچوں بلکہ مجموعی طور پر اخلاقی اور انسانی حقوق بلکہ ہر جاندار و بے جان کے لیئے سب سے خطرناک اور غیر محفوظ ملک کہا جائے تو قطعا غلط نہیں ہو گا ۔ یہاں پر یہ ثابت کرنے کے لیئے کہ میں مار دیا جاؤنگا۔۔۔ مر کر دکھانا پڑتا ہے ۔ یہاں انصاف کا حصول دودھ کی نہر نکالنے سے بھی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ سارا کا سارا عدالتی نظام صندوق بھر بھر کر وصول کرنے کے عوض  سیاسی پیشرووں کے جوتے صاف کرنے میں مصروف ہے ۔ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا رہا کہ ہم دنیا بھر  کے عدالتی نظام میں آخری نمبروں تک گر چکے ہیں ۔ کیونکہ فرق پڑنے کے لیئے باضمیر ہونا ضروری ہے ، جسے ہم کب کا کرپشن کا زہر پلا کر مار چکے ہیں ۔ اب دیکھیئے یہ عدالتی نظام حق و سچ کیساتھ کس حکومت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔ اور جو حکومت ایسا کر سکی وہ ہمیشہ کے لیئے تاریخ کے اوراق پر امر ہو جائیگی۔   
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 4 نومبر، 2024

معصوم بے گھر جانور ۔ کالم



      معصوم بےگھر جانور
      تحریر: (ممتازملک۔پیرس)

ویسے ہی تو دنیا کے بہت سارے کاموں میں پاکستان کو بدنامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس کا سبب اس ملک کے لوگوں کی اپنی بےحسی، نالائقی اور غیر ذمہ داری ہوتی ہے ۔ خدا کا خوف منہ زبانی تو ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب یہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ انہی انسانوں کے ہاتھوں (جو اپنی مظلومیت کا رونا روتے نہیں تھکتے) معصوم جانور گلیوں  محلوں، میں بے انتہا ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ جانور جو بات نہیں کر سکتے، اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے، وہ آپ کی ہمدردی کے کتنے مستحق ہوتے ہیں۔  ہماری گلی کے کتے کو ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے ، شرارت اور مذاق کے طور پر اس کی ٹانگ توڑی جا چکی ہے۔ میں ایک مہینے سے، پہلے ہاسپٹل کے پتے ڈھونڈتی رہی، پھر گوگل سے سرچ کیا،  پہلے تو معلوم ہوا کہ یہاں پر اکا دکا ہاسپٹلز بھی ہیں تو بہت مہنگے مہنگے لینڈ لارڈز کے لیئے ہاسپٹلز ہیں کہ وہ اپنے جانوروں کے علاج کروا سکیں وہ 24 گھنٹے کھلے رہیں گے۔ لیکن یہاں پر جیسے عام انسان جانوروں سی زندگی گزار رہا ہے۔ ویسے ایک جانور جانے وہ کس طرح اس ملک میں زندہ ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے اس کے گلے میں رسی ڈال لے۔ اس کی ٹانگ توڑ دے۔ اسے گولی مار دے ۔ اس کے علاج کا یہاں کوئی بندوبست نہ ہونا  ایک بڑا سوال ہے کہ ہم کیسے مسلمان لوگ ہیں؟ جنہیں جانوروں سے ہمدردی کرنا نہیں آتا ۔ ان پر رحم کرنا نہیں آتا۔ لیکن اپنے لیئے وہ سب سے بڑے رحم کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ خدا ان پر کیسے رحم کرے گا ، جو دوسروں پہ رحم نہیں کرتا۔ ہمارا میڈیا ہمیں کبھی کسی ڈرامے میں یہ نہیں سکھائے گا، کسی پروگرام میں ، کسی ٹاک شو میں یہ نہیں سنیں گے کہ صرف پالتو جانور ہی نہیں باہر گھومتا پھرتا جانور بھی ہمدردی اور توجہ کا مستحق ہے، اسے کھلایا ہوا رزق بھی آپ کے لیے ثواپ کا باعث بنتا ہے، اگر وہ بیمار ہے تو اس کا علاج کرنا بھی آپ کے لیئے باعث ثواب ہے۔ لیکن یہاں اس کتے کی ٹانگ کے علاج کے لیے معلومات کیں  تو پتہ چلا جی کوئی 50 ہزار اور کوئی 60 ہزار روپے کا طلبگار ہے۔ میں یہ سن کر حیران رہ گئی کہ آپ نے معصوم جانوروں کے علاج کو بھی کتنا بڑا کاروبار بنا لیا ہے۔  کاروبار کرنے میں ہماری قوم کا کوئی جواب نہیں۔ سچ پوچھیں تو اگر چھ کروڑ لوگ جس ملک میں بیٹھ کر صرف ہاتھ آگے کرنے کی اور منہ بسورنے کی ایکٹنگ کر کے شام کو دودھ ملائیاں کھا کر عیش کر سکتے ہیں،  وہاں پر یہ معصوم بلی کتے گلیوں میں گھومنے والے اگر زخمی ہو جائیں تو انہیں اٹھانے ریسکیو کرنے کے لیئے کہیں گاڑی نہیں،  کہیں ڈاکٹر نہیں اور کہیں آپ سے اتنے پیسے طلب کیئے جائیں گے کہ آپ خاموشی سے ایک طرف ہو جاؤ گے۔
پھر بھی ہم مسلمان ہیں ؟
کیا ہمارا میڈیا واہیاتی،  عاشقی معشوقی ، ٹھرکیات سکھانے کے سوا بھی کوئی اخلاقی تربیت کا کردار ادا کر سکتا ہے؟ 
کیا ہمارے ملا اور علماء  کو یہ بات یاد ہے کہ چار شادیوں ، داڑھی اور ٹخنے سے اوپر شلوار ،سیاسی دھڑے بندیوں اور کرسی کی بلیک میلنگز  کے علاوہ بھی لیکچرز دینے کے لیئے بہت سے اخلاقی تربیتی موضوعات انکی توجہ کے طالب ہیں ۔ اور اسلام پندرھویں صدی میں بھی انکے پاس جانوروں کے اوپر رحم کرنے، انہیں کھانا کھانے، انکا علاج کروانے کا ذمہ دارںمبناتا ہے۔  گھر میں طوطا، مینا، چڑیا پالنے کے سوا بھی جانور ہوتے ہیں ان کو پالنا یا خیال رکھنا بھی اللہ کو محبوب ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہے اور انکی دعائیں اور بدعائیں بھی ہماری زندگی پر اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ یہ سب انہیں اور کون سکھائے گا؟
اور اگر ہم ایسی انسانیت اور ہمدردی دکھانے کے قابل نہیں ہیں تو بہتر ہے اس کے لیئے بھی ہم بین الاقوامی این جی اوز یا مشنریز کا سہارا لیں جو بہت بہترین انداز میں بلا معاوضہ ان جانوروں کی دیکھ بھال اور شیلٹر کا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ اور کئی ممالک میں کر بھی رہے ہیں ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/