ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 15 دسمبر، 2019

کاروان حوا کی ادبی شام/ رپورٹ




کاروان حوا کی ادبی شام
(رپورٹ : ممتازملک)

13 دسمبر 2019ء بروز جمعتہ المبارک 
پشاور میں خواتین لکھاریوں کی معروف تنظیم کاروان حوا نے ایک  بھرپور ادبی نشست کا اہتمام کیا ۔ نشتر آباد پشاور میں عبادت ہاسپٹل کے حق بابا اڈیٹوریم کے خوبصورت ہال میں خواتین کی تنظیمات  شرکت گاہ ،  حورائزن  ، بلیو وینز اور نور ایجوکیشن ٹرسٹ نے پروگرام کو اپنے تعاون سےنوازا۔  پروگرام کی مہمان خصوصی اسلام آباد سے معروف ڈرامہ نگار ، افسانہ نگار اور شاعرہ فرحین چوہدری صاحبہ تھیں ۔ جبکہ مہمان اعزازی محترمہ ممتازملک صاحبہ تھیں ۔ جبکہ خالد مفتی صاحب کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ۔ تنظیم کی صدر معروف فنکارہ اور ایوارڈ یافتہ شاعرہ محترمہ بشری فرخ صاحبہ  ، جنرل سیکٹری محترمہ فرح اسد صاحبہ نے پروگرام کو خوبصورتی سے منظم کیا ۔
پروگرام کا آغاز نادیہ حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ،جبکہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم  پیش کرنے کی سعادت تابندہ فرخ کو حاصل ہوئی ۔
 پروگرام کے پہلے حصے میں پیرس سے آئی معروف شاعرہ،د  کالم نگار، نعت خواں ، ٹی وی ہوسٹ ممتازملک کے شعری مجموعہ کلام اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ ) کی تقریب رونمائی پر مشتمل تھا ۔ جس میں شاہین آمین ،سلمی قادر اور عزیز اعجاز صاحب اور خالد مفتی صاحب  نے بھرپور انداز میں ممتاز ملک کے کام اورمجموعہ کلام پر روشنی ڈالی ۔ 
ممتازملک نے اپنے کام پر اتنے خوبصورت انداز میں بات کرنے پر سبھی معزز دوستوں کا دل سے شکریہ ادا کیا ۔ 
پروگرام کے دوسرے حصے میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے خواتین کے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں خواتین نے اردو ، ہندی ، پشتو زبانوں میں شاعری کے زریعے معاشرے  کے اس سنگین مسئلے کو اجاگر کیا ۔
خواتین و حضرات نے  شاعرات کے کلام کو بہت سراہا . شاعرات میں شامل تھیں  ثمینہ قادر ، غزالہ غزل،
شاہین امین ، روشن کلیم ، سلمی قادر، ممتازملک،  بشری فرخ اور فرح اسد شامل تھیں . 
پروگرام کے اختتام پر چائے اور لوازمات سے مہمانوں کی تواضح کی گئی. 
یوں ایک یادگار شام اپنے اختتام تک پہنچی . 
                    ......
                








منگل، 10 دسمبر، 2019

ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ/ کالم



         ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ
       (تحریر :ممتازملک. پیرس)



ہم نے اکثر لوگوں کو اپنی اولادوں سے یا ایکدوسرے سے یہ کہتے سنا ہے کہ بھئی ہم تو اپنے والدین کے بہت فرمانبردار تھے ، نیک تھے ، مخلص تھے لیکن ہماری اولاد ایسی نہیں ہیں ۔ جانے کیوں؟ 
جبکہ بڑے کہہ گئے ہیں کہ جو بوو گے وہ کاٹو گے۔ ببول کے پیڑ پر آم تو نہیں لگ سکتے ۔ اسی طرح انسان اپنی جوانی میں جو اعمال انجام دیتا ہے اسے بڑھاپے میں انہیں کی جزا اور سزا اس کے ساتھ پیش آئے معاملات میں ملتی ہے ۔ گویا جوانی عمل کے لیئے ہے، تو بڑھاپا سامنے سے ملنے والے ردعمل کا زمانہ ہوتا ہے ۔ 
ہم جب ایسے لوگوں کے ماضی میں یا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اپنی ہی والدین سے کی ہوئی نافرمانیاں ،بہن بھائیوں سے کی ہوئی ذیادتیاں ، اور دوستوں سے کی ہوئی وعدہ خلافیاں ہی ہماری اولاد میں ان کے اخلاق و کردار کی صورت میں ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ پھر ہم خود کو لاکھ فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن سچ کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ ہم نے جو بیج جوانی میں بوئے تھے انہیں کا پھل جب پک کر تیار ہوجاتا ہے تو ہم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ 
لیکن اس انکار سے ہم اپنی اولاد کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ 
کیا یہ نہیں کہ ہم تو بڑے نیک اور باکردار تھے لیکن ہماری اولاد نافرمان اور بےکردار پیدا ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اولاد اپنے ذہن میں اس بات پر یقین کر لے کہ  اچھا ہونے کا کیا فائدہ اس کے بدلے میں ہمیں سزا اور آزمائش ہی تو ملنی ہیں ۔ تو پھر چھوڑو نیک بننے کے چکر کو ۔ جو چاہے وہ کرو ۔ تو کیا اس پیغام سے ہم اپنےاور اپنی اولاد کے  ایمان کو خطرے میں نہیں ڈال رہے ؟ 
جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم ایمانداری سے اپنا احتساب کرنے کی جرات کا مظاہرہ کریں ۔ اپنی غلطیوں اور خطاوں کو تسلیم کریں اور اپنی اولادوں کو سمجھائیں کہ آج ہم اگر اپنی اولادوں سے پریشان ہیں یا مالی تنگی کا اور بے سکونی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ ماضی میں ہماری اپنے والدین کو دی گئ پریشانیاں اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزیاں ہیں ۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ہم خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور جب بڑھاپے میں ہم میں گناہ کرنے کی، بدزبانی کرنے کی،  دھوکے دینے کی ہمت نہیں ہوتی تو ہم سب ہی تسبیح پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور  اللہ اللہ کر کے خود کو پارسا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرنے میں جت جاتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جوانی ہی میں (جب ہم میں جسمانی اور ذہنی طاقت بھی موجود ہوتی ہیں ، اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں ، آسودگی بھی ہوتی ہے )اس بات کا پختہ یقین کر لیں کہ ہمارے آج کے اعمال ہی ہمارے بڑھاپے کے نتائج ہونگے۔ جبھی تو اللہ پاک نے جوانی کی توبہ اور جوانی کہ عبادات کو افضل ترین قرار دیا ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔


بدھ، 4 دسمبر، 2019

ساتھی کے چناو میں اہم نکات / کالم


       ساتھی کے چناو میں اہم نکات
         (تحریر:ممتازملک۔پیرس)


آج کل میڈیا کی چکا چوند نے لوگوں خصوصا نوجوانوں کی عقل پر پردے ڈال دیئے ہیں ۔ ہر جوان ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔ اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال ان چیزوں کے حصول میں برباد کرتے ہیں تب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہیرے سمجھ کر پتھروں کے ڈھیر اکٹھے کرتے رہے ہیں ۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب ہم محنت اور عقل و شعور کو طاق پر رکھتے ہوئے مشاورت سے دوری اختیار کرتے ہیں اور خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے من مانی راہوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے کہ "مشورہ دیوار سے بھی کیا ہو تو کبھی نہ کبھی کام آ جاتا ہے ۔ "
ایسے ہی غلط انتخاب کا شکار ہمارے نوجوان اپنی زندگی کے ساتھی کے انتخاب کے سلسلے میں بھی بہت زیادہ ہیں ۔ اس کا ثبوت آج  کے دور میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح بھی ہے ۔ شادی کے لیئے ساتھی کا انتخاب کرتے ہوئے کچھ چیزوں اور باتوں کا دھیان رکھنا لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیئے بیحد اہم ہے ۔ 
جیسا کہ آج کل میک اپ سے لپی تھپی اور اداوں سے لبریز لڑکیاں لڑکوں کو پاگل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ انہیں اگر سمجھایا جائے کہ برخوددار لڑکی کی اصل شکل دیکھ لو اسے گھر سنبھالنے کا کوئی سلیقہ ہے کہ نہیں ، تو جواب آئیگا میں بیوی لا رہا ہوں کوئی کام والی ماسی نہیں ۔  کہو کہ  وہ کھانے پکانے کا کوئی شغف رکھتی ہیں تو شادی پر اتاولے جوان کا جواب آئے گا ، ارے بھئی میں بیوی لا رہا ہوں کوئی باورچن نہیں ۔
بیٹا سوچ لو لڑکی کے لچھن اچھے نہیں ہیں ، چھوڑیں اماں آپ تو ہر لڑکی میں کیڑے نکالتی رہتی ہیں۔ وہ ایسی نہیں ہے ۔۔۔۔
 اور جب شادی کے چار دن کا بخار اترتا ہے تو اسی جوان کو بیوی میں ماسی بھی چاہیئے ، باورچن بھی چاہیئے ، دھوبن بھی چاہیئے ، نرس بھی چاہیئے، گھر کی نگران بھی چاہیئے ۔ وفادار بھی چاہیئے ، باکردار بھی چاہیئے، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے "جب چڑیاں چگ گئیں کھیت" تو۔۔۔
اسی طرح لڑکیاں شادی کے بخار میں یہ سوچنا تک بھول جاتی ہیں کہ لڑکا کتنا پڑھا لکھا ہے ، کتنا ہنر مند ہے، کتنا کماتا ہے ، کتنا مہذب ہے،  کتنا باکردار ہے ،
اس وقت وہ بس یہ سوچتی ہیں کہ یہ مجھے جھونپڑی میں بھی بھی  رکھے گا تو میں رہ لونگی ، گھاس بھی کھلائے گا تو میں کھا لونگی ۔ بس اس کا پیار ہی میرے لیئے کافی ہے، کیونکہ اس وقت تک نہ انہوں نے جھونپڑی  دیکھی ہوتی ہے اور نہ ہی گھاس کھائی ہوتی ہے بس خواب فروش شاعروں کی جذبات بھڑکاتی بازاری شاعری پر سر دھن دھن کر خود کو ہوا کے دوش پر سوار کیا ہوتا ہے ۔  ابا کی کمائی پر عیش کر کے انہیں ہر بات کھیل اور مذاق لگتی ہے۔ شادی کے پہلے ہی ہفتے میں جب خوابوں کے  آسمان سے حقیقت کی زمین پر گرائی جاتی ہیں تو دماغ ٹھکانے آتا ہے لیکن چہ معنی دارد ؟؟؟
بیشک عورت کا حسن اور سیرت دونوں ہی چیزیں بیحد اہم ہیں ۔ اگر اس میں اس کے سگھڑ پن اور خوش گفتاری کی خوبیاں بھی شامل ہو جائیں  تو سونے پر سہاگہ ہے وگرنہ خالی خولی حسن والیاں رلتی کھلتی اور تباہ ہوتے ہی دیکھی ہیں ۔ سیانے کہتے ہیں کہ
"روپ والی روئے اور مقدر والی کھائے"

عورت بدشکل بھی ہو تو مرد کیساتھ چل سکتی ہے ، کم پڑھی لکھی بھی چل جائے گی ، غریب بھی چل سکتی ہے ، پھوہڑ بھی شاید برداشت کر لی جائے۔ لیکن بدزبان اور بدکردار لڑکیاں چاہے جنت کی حور جیسی صورت بھی لے آئیں تب بھی چار ہی دن میں لات مار کر زندگی سے نکال دی جاتی ہیں ۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے جب مرد کا صبر ختم ہو جاتا ہے ۔ 
جبکہ مرد کمانے کیساتھ حفاظت کرنے اور عزت دینے والا ہو تو گویا عام سی شکل کا مرد بھی اپنی بیوی کا ہیرو ہو سکتا ہے  ۔ اور اگر وہ خوشگفتار اور مزاح بھی مزاج میں رکھتا ہو تو زندگی واقعی آسان ہو جاتی ہے ۔

لیکن شکی ، بدزبان ، نکھٹو اور بدکردار مرد کسی بھی لڑکی کی زندگی میں ایک بددعا کی طرح داخل ہوتا ہے اور اسکے زندگی کے سارے رنگ ، سارے ہنر چاٹ جاتا ہے۔ 
مرد اور عورت کو  اپنی زندگی کے ساتھی میں حقیقت پسندانہ خوبیوں اور خواص کو نظر میں رکھنا چاہیئے ۔ تاکہ ان کی زندگی کے ساتھی میں انہیں ایک بہترین دوست بھی میسر آ سکے ۔ 
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔



اتوار، 1 دسمبر، 2019

وقت کی ضرورت فوری پھانسیاں/کالم



  وقت کی ضرورت فوری پھانسیاں
     (تحریر: ممتازملک ۔پیرس)
           
کیا ہی بدنصیبی ہے اس قوم کی کہ جہاں بیٹیاں محفوظ نہ رہیں ، مائیں ہر گھنٹے میں بیدردی سے قتل کر دی جائیں ، بہنیں جلا کر راکھ کر دی جائیں ۔ بچیاں پالنے ہی میں ریپ کر کر کے دفنا دی جائیں ۔ 
اور ان کے قاتل اور  بربادی کے ذمہ داران کو مدعی بنکر یا معافی نامے کی سطروں کے عوض سودے بازی کر کے چھوڑ دیا جائے ۔ ایسے ہی چھوڑے جانے والے لوگ ہمارے ہاں اپنے ہی رشتوں کے لیئے،  پڑوسیوں کے لیئے، ملنے والوں کے لیئے ایک ٹائم بم کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ۔ اور ان کو یوں معاشرے میں چھوڑ دینا گویا اپنے آپ کو کسی خود کش بمبار کے حوالے کر دینے جیسا ہے جو کبھی بھی ، کہیں بھی پھٹ سکتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی جانیں کسی بھی بہانے لے سکتے ہیں ۔ ایسے افرادجو ایک بار قتل اور ذیادتی جیسے واقعات میں ملوث ہو چکے ہوتے ہیں وہ دوبارہ زندگی بھر کبھی بھی نہ تو قابل اعتبار رہ سکتے ہیں اور نہ ہی نارمل ۔ 
نفسیاتی طور پر ہلے ہوئے یہ لوگ اپنے اندر کی شیطان کو راضی کرنے کے لیئے کسی نہ کسی کی عزت یا زندگی کی بلی دینے کو شکار کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ 
ایسے میں جب نو سال کی بچی کو سنگسار کر کے مار ڈالا جائے ،
کہیں اپنی بیوی کے پیسے خرچ کر دینے والا باپ اس بات کو چھپانے کے لیئے اپنی ہی چھ سال کی مصوم بیٹی کو بلی کا بکرا بنا کر قتل کر دے ،صرف اسے ڈکیتی کا رنگ دینے کے لیئے۔۔۔
جہاں بہنوں کی جائیداد کے حصے ہڑپ کرنے کے لیئے اس کے کردار کی دھجیاں اڑانے  بھائی ان کے مال پر عیش کرنے کے لیئے ان پر تہمتوں کے پہاڑ توڑ کر ان کے کردار کو قتل کر رہا ہو ، ان حالات میں 
پاکستان میں سزائے موت کے قانون پر فوری نفاذ کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید کسی اور ملک میں نہ ہو ۔ 
خدا کے سوا کون ہے جسے انسانی جان یا عزت کے لینے کا اختیار ہے ؟ تو یہ کام اپنے ہاتھوں میں لینے والے مجرمان کو خدائی قانون کے تحت بھی قتل کیا جانا چاہیئے اور انسانیت کے قانون کے تحت بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جانا چاہیئے تاکہ اس معاشرے سے بے حسی اور  سنگدلی کی بیخ کنی کی جا سکے ۔ معاشرے کو محفوظ بنانا جن قانون دانوں اور منصفین کا ذمہ ہے انہیں آنکھیں کھولنے اور ہوش میں آنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل درامد کو یقینی بنائیں جنہیں سالہا سالہا سے قانون اور دستور کی کتابوں میں  دفن کیا گیا ہے ۔ 
ان مردوں کو ذندہ کیجیئے اس دن سے پہلے کہ جس روز ہمارے مردے حساب کیلیئے ذندہ کر دیئے جائیں ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/