ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 27 دسمبر، 2017

واقف حال



بچہ بندوق سے نہیں ڈرتا
کیونکہ وہ موت کی حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے.
ممتازملک. پیرس

فحش گوئی اور دعوی حب رسول ص۔ کالم

     


   فحش گوئی اور دعوی حب رسول ص ع و
   (تحریر/ ممتازملک. پیرس)

پچھلے دنوں ہمارے سامنے نئے نئے کردار آئے اور اپنے نرالے کاموں سے لوگوں میں اپنی پہچان چھوڑ گئے . یہ صاحبان اس سے پہلے نہ کسی نے دیکھے نہ سنے . انہیں آپ موسمی بٹیرے بھی کہہ سکتے ہیں . ان کی حیثیت اس وقت اور زیادہ تکلیف دہ ہو جاتی ہے جب یہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر  ہمیں ایکدوسرے کے لہو سے غسل دینے  کا پروگرام لیکر کوئی کھیل رچانے کو میدان میں پہنچ جاتے ہیں . انسان کی زبان ہی اس کا پہلا تعارف اور اس کے خاندان کی پہچان ہوتی ہے . اس حساب سے ہمارے پاس کس کس خاندان اور کس کس کی تربیت کے نمونے اکٹھے ہو چکے ہیں . یہ ایک لمحہ فکریہ ہے . ایک مثال تو یہاں  دیکھ لیں کہ
 جو لوگ غلیظ اور فحش گو ہوتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنا تک جائز نہیں  ہے .
کیونکہ غلاظت بکنے والا پہلے گندگی اپنے دل دماغ میں پکاتا ہے پھر اسے اپنے نگاہوں اور زبان سے الٹتا ہے.
اور ایسا آدمی جب نبی پاک ص  کے نام کی دہائی دیتا ہے تو صرف منافقت کرتا ہے اور منافق کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ پاک  کیا فرماتا  ہے یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں.  سو پلیز ایسے لوگوں کی وکالت  کسی بھی رتی بھر ایمان رکھنے والے  کو بھی زیب نہیں دیتی . افسوس کا مقام ہے کہ ہم اس زمانے میں سانس لے رہے ہیں جہاں گالی دینا یا فحش گوئی کرنا اتنا عام ہو چکا ہے کہ خود کو علماء کہنے والے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے . کیا قرآن پاک میں ان باتوں سے سختی سے روکا نہیں گیا . حتی کہ ایک دوسرے کو اچھے ناموں سے پکارنے کا حکم دیا گیا ہے . لیکن ہمارے ملا صاحبان اور علمائے دین اس قسم کے احکامات کو یا آیات کو کبھی عام آدمی تک نہیں پہنچاتے . وہ ہمیشہ وہ آیات اور احادیث وہ آدھی ادھوری اس وقت ہی بیان کرتے ہیں  جو ان کے مخصوص مواقعوں پر ان کے مفادات کو پورا کر سکیں . یا ان کے لیئے کوئی محفوظ راستہ بناتی رہیں .  اگر دھیان دیں تو آج ہر عالم یہ ہی کچھ کر رہا ہے . ہمیں آج تک کبھی کسی مسجد کے سپیکر سے بدکاروں اور زانیوں کے بارے میں احکامات الہی کیوں سنائی نہیں دیتے؟
. ہمیں کیوں بیوی اور بچوں کے تحفظ کی آیات اور احادیث منبر سے سنائی نہیں دیتیں ؟
ہمیں کیوں ذکوات وقت پر ادا کرنے اور مسافروں کو کھانا کھلانے یا ان کی مدد کرنے کی احادیت و آیات سنائی نہیں جاتیں ؟
ہمیں کیوں یتیموں کا مال کھانے پر عذاب الہی کے احکامات نہیں سنائے جائے ؟
ہمیں کیوں ہمارے منبر سے یتیم و مسکین کی پرورش اور ان پر شفقت کے انعامات و خوش خبریاں  نہیں سنائی جاتیں ؟
ہمارے منبر اپنی آنکھوں کو نیچا رکھنے والی آیات و احادیث کیوں نہیں سناتے ؟
ہمارے علماء کیوں ہمارے سپیکرز پر اپنی جوانیوں کو گناہوں میں لتھڑنےسے بچانے والے پر انعامات کیوں نہیں گنوائے ؟
ہمارے منبر سے اپنی بزرگی کی حفاظت اور گناہ سے بچنے کی ترغیب کیوں نہیں دی جاتی ؟
یہ سب کام کس کے ہیں ؟  جنہیں کرنا چاہیئے  وہ دھرنوں اور چرنوں میں بیٹھ کر غلاظت اگل اور نگل رہے ہوتے ہیں . تو ہم جیسے  کم علموں کو یہ علم اٹھانا ہی پڑتا ہے .
بلکل اس چڑیا کی طرح  جو ابراہیم علیہ السلام کے لیئے بھڑکائی ہوئی آگ پر اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لا لا کر پھینکتی تھی . کسی نے ہنس کر پوچھا اری چڑیا تیری چونچ کی ان قطروں سے کیا آتش نمرود بجھ جائے گی ؟ تو اس نے جواب دیا میں جانتی ہوں کہ میری چونچ کے ان قطروں سے یہ آگ نہیں بجھے گی لیکن میں قیامت کے روز اس آگ کے بجھانے والوں میں ضرور شمار کی جاؤنگی نہ کہ تماشا دیکھنے والوں میں.....
                 ----------





ہفتہ، 16 دسمبر، 2017

بریکنگ نیوز




باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سسرال میں ماری جانے والی اور خوار کی جانے والی خواتین کی اکثریت
سچ بولنے کے مرض میں مبتلا تھی ..
جن میں کچھ کو کئی کئی سال بعد منافقت کے ٹیکے لگوانے پر بظاہر بچایا جا سکا 😉
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
ممتازملک. پیرس  

ڈو مور


اندر کی  باتیں

یہ جو سسرائیلی ہوتے ہیں نا
یہ ہمیشہ بہو سے مطالبہ کرتے ہی کہ
ڈو مور 😠
ڈو مور 😠
اور بہو کا دل کرتا ہے کہ کاششش
میرا بس چلے تو ان سب کو دوں لات
اک ہور 😧
اک ہور 😧
😁😁😁😁
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
ممتازملک. پیرس  

دل کا کیل

ایک خط ماں کے نام

                 دل کا کیل
             (تحریر/ممتازملک. پیرس)


ہر زمانے میں اکثر ہی مائیں اپنی بیٹیوں سے پریشان یوتی ہیں کہ بڑی بڑبولی ہے . بہت سست ہے .بڑی نکمی ہے . بڑی ہی کام چور یے . بڑی منہ پھٹ یے . بڑی بدتمیز ہے ....
کیا بنے گا اس لڑکی کا ؟ کون بیاہے  گا اسے ؟
اور پھر ایک دن اس کے نصیب کا جوڑ اسے بیاہ کر لے ہی جاتا یے . بابل کے گھر کو پردیس بنا کر وہ کسی اور کے گھر کو اپنا گھر بنا کر اسے  سجانے میں ماہر ہو جاتی ہے . پیسے بچانے سیکھ جاتی ہے . تمیز سے بات خرنا سیکھ جاتی ہے ، باتوں کو چھپانا اور زبان کو دانتوں میں دبانا بھی سیکھ جاتی ہے ، آنسو پینا بھی سیکھ جاتی ہے ، صبر کرنا بھی سیکھ جاتی ہے ، رنگ رنگ کے پکوان بنانے سیکھ جاتی ہے اور پھر ایک دن آتا ہے کہ . ہر ملبے والا اس کے  سگھڑاپے کی تعریف کرتا ہے
 اور وہ سب کو اکھلاپنے ہاتھ سے پکا کر کھلا  کر خوش ہوتی ہے. سی سی کر داد لیتی ہے  لیکن اپنی میکے کی نادانیوں اور نافرمانیوں کا کیل اس کے دل میں گڑھا رہ جاتا ہے . جب اس کے اندر سے آواز آتی ہے واہ ری سگھڑ خاتون خانہ ساری دنیا سے تعریفیں سمیٹنے والی  تیرے ہاتھ کی روٹی کا کوئی نوالہ تیری ماں کے منہ میں نہ گیا ...میرے ابو نے میرے ہاتھ کے کھانے کا ذائقہ کیوں نہ چکھا ...میں نے اپنی ماں کو اپنے ہاتھ سے پکا کر کیوں کچھ نہ دیا ...کوئی کپڑا اپنے ہاتھ سے سی کر اپنی ماں کو کیوں نہ پہنایا .... دو گرم آنسو آنکھوں سے پھسل کر اس کی گود میں جا گرتے ہیں  . واقعی بہت دیر یو گئی امی جی...
 میں نے آپ کو سینے سے لگا کر کیوں کبھی آپ کو اپنی محبت کا احساس نہ دلایا . سا ری دنیا کو آئی لو یو کہنے والے ہم اپنی ماں اور اپنے ہی باپ سے آئی لو یو کہنے سے کیوں ہچکچا جاتے ہیں . جنہوں نے ہمیں پاوں پاوں چلنا سکھایا . زبردستی دنیا کی ہر لذت کو ہمارے منہ میں رکھا . اپنی حیثیت سے اچھا ہمیں پہنایا اوڑھایا لیکن انہیں سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار ہم کبھی نہیں کر پاتے . سنو پڑھنے والو سننے والو
ماں اور باپ جیسے  مہربان رشتے انسان کو دنیا میں ایک ہی بار ملتے ہیں اور جو ان انمول نگنیوں کو کھو دیتا ہے وہ فقیر ہو جاتا ہے . چاہے دنیا کے خزانے کتنے بھی بھر جائیں لیکن اس کے دل کی تجوری ہمیشہ ہی خالی رہتی ہے .
امیر ہونا ہے تو ان کے جسم کے لمس کو بھی محسوس کرو
کبھی ان کے پاوں دبا کر
کبھی انکے ہاتھ چوم کر
کبھی انہیں جپھی دیکر
کبھی ان کا چشمہ بنوا کر
کبھی ان کی پسند کی جوتی دلا کر
کبھی ڈاکٹر سے ان کا چیک آپ کروا کر
کبھی ان کے لیئے سوٹ یا شال خرید کر
کبھی انہیں اپنے ہی بچوں کی لوٹ مار سے بچا کر
کہ خبردار ماں یا باپ کے نام پر آئی کوئی شے نہ تو آپ کی کوئی بہن ہاتھ لگائے نہ بھائی استعمال کرے
انہیں خود سے لپٹا کر اپنے بچپن کا قرض لوٹانے کی کوشش تو کیجیئے.
تاکہ بعد میں یہ سوچ کر دل نہ مسلنا پڑے کہ
ہائے نی مائے کبھی دیکھ تو سہی تیری نکمی بیٹی کتنی سگھڑ ہو گئی ہے . کاش میں تجھے اپنے ہاتھ سے بنے سموسے کھلاتی .
تجھے بازار کی بنی  پوریاں  پسند تھی نا ...آج تیری بیٹی اس سے بھی اچھی پوریاں بناتی ہے مگر تیرے منہ میں اس کا لقمہ تک نہیں رکھ پاتی .آج کھانے والے میرے پکوان کی تعریف کرتے ہیں تو میرے دل میں گڑا کیل مجھے اور درد دینے لگتا ہے کہ تیری نکمی کے سگھڑ ہونےکی خوشی مناوں یا اپنے دل کا کیل  دباوں ❤💔💘
                                             ---------------------



بدھ، 6 دسمبر، 2017

راستے جدا ٹہرے / کالم


راستے جدا ٹہرے 
ممتازملک. پیرس 

ماں اور باپ کی محبت فطری محبت ہوتی ہے وہ اس کو خون کے لوتھڑے ہونے سے لیکر بھرپور جوان ہونے تک پروان چڑہاتے ہیں اس کی ضروریات اور شوق پورے کرتے ہیں چڑیا کے بچے کی طرح اسے اڑنا سکھاتے ہیں۔
 لیکن جب وہ اڑنا سیکھ لیتا ہے تو کہاں کہاں کس کس شاخ پر بسیرا کرتا ہے، یا کس ماحول  میں جاتا ہے،  کس انداز سے فیصلے کرتا ہے، یہ  سب اکثر انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا .
بہن بھائی جن کیساتھ اس کی نسل کا تار فطرت نے جوڑ رکھا ہے . وہ بھی اس کے ساتھ لڑتے جھگڑنے ایک دوسرے سے مفاد حاصل کرتے زندگی کے گول چکر پر آ کر اپنی اپنی پسند کی راہ  منتخب کر کے اپنے اپنے خاندان میں گم ہو جاتے ہیں . وہ آپ کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ ان سے کبھی کبھار رابطے میں آتے ہیں .
نکاح ایک انتہائی خوبصورت رشتہ ،جس کے دو بول ایک عورت اور مرد کو ایسے تعلق میں باندھ دیتے ہی کہ گویا وہ ایک دوسرے کا لباس ہو گئے۔ دو انسانوں کے دل کے تار ایک دوسرے سے  خالق نے اس طرح جوڑ دیئے کہ ایک تار کو چھیڑنے پر دوسرا تار خود بخود اسی سر میں بجنے لگتا ہے . دونوں کی خوشی، غمی، نفع ، نقصان، عزت اور بے عزتی جتنی اس رشتے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتی ہے شاید وہ کسی بھی دوسرے رشتے میں اس طرح وابستہ دکھائی نہیں دیتی.
لیکن کچھ لوگوں کی زندگی میں زندگی کا ساتھی کبھی ایسا مل جائے جو اس کی سوچ اور تصور یا اس کی امید سے  نوے ڈگری کے اینگل  پر کھڑا نظر آتا ہے . یا جب آپ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آپ کی پشت سے  غائب ہی ملتا ہے . آپ کی خوشی اور غم سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی یا آپ کی آنکھ کا آنسو اس کے دل پر نہیں گرتا تو جان لیجیئے کہ دو غلط لوگ ایک مقام پر اکھٹے ہو چکے ہیں . ایسے میں شروع ہوتی ہے روز کی چخ چخ...  ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ، شک کر کر کے اس کا خون جلانا، اس کی کامیابیوں سے حسد کرنا ، اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ،  گھریلو تشدد کا شکار ہونا (مرد و عورت دونوں ہی اس کا شکار ہو سکتے ہیں ) ایکدوسرے کی زندگی سے آرام اور سکون کو تباہ کر دینا، تحفظ کے احساس سے خالی زندگی، اپنے شریک زندگی  کیساتھ دوستی کا فقدان ... .
یہ سب کچھ انسان کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیتا  ہے کہ کیا اسے اپنی مرضی اور خوشی سے زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟
لیکن ہمارا معاشرہ  ہمیں نام نہاد عزت کی دہائی دیکر، کبھی بچوں کا واسطہ دیکر ، کبھی  لوگ کیا کہیں گے کا بینڈ بجا کر تاحیات اس ذلت بھری زندگی میں جڑے رہنے پر مجبور کرتا رہتا ہے اور اس فیصلے کو بھی لینے سے روکتے رہتے ہیں جس کا حق ہمیں ہمارا قانون، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی دیتی ہے . 
ہمارا دین تو عورت کو پورا پورا حق دیتا ہے کہ اسے اپنے شوہر کی اگر شکل بھی پسند نہیں ہے تو اسے چھوڑ سکتی ہے لیکن ہماری عورت کبھی اپنا یہ حق کسی چھوٹی موٹی بات پر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی . اور جب وہ ایسا سوچ لے تو سمجھ لیں وہ صبر کہ آخری منزل تک  آ پہنچی ہے .
شادی پسند نا پسند کا معاملہ ہو تو شادی سے پہلے علم بغاوت بلند بھی کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں شادی کے بعد آپ کی زندگی دوذزخ بنا دی جائے تو بھی بڑوں کے طعنے پر عورت  یہ سوچ کر اولاد پیدا کر لیتی ہے کہ چلو یہ آدمی اپنے بچے کی محبت میں ہی ٹھیک ہو جائیگا. لیکن پوتڑوں کے بگڑے بھی کبھی ٹھیک ہوئےہیں کیا؟
اور ویسے بھی اولاد تو چند سال میں ویسے ہی بیاہ کر چھوڑ کرچلی جائے گی تب تک بھی اکثر ماں ہی اور کبھی کبھی اکیلا باپ ہی قربانی دیتا ہے . تو کیا یہ ظلم نہیں ہے .کچھ بھی کر لو بعد میں اولاد سے انعام تو یہ ہی ملتا ہے کہ آپ نے ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے؟
انہیں کون بتائے کہ کس نے اپنی جوانی ،اپنی طاقت، اپنے ہنر، اپنی زندگی ،تمہاری خاطر راکھ کر دی .
اور ذرا سی بھی انسانیت اس مرد میں ہے تو اسے عزت سے اپنی زندگی سے رخصت کر دے . ورنہ یہ حق وہ اپنے پاس تو رکھتی ہی ہے. ہمارےمعاشرے میں بچے پہلے عورت کے پاؤں کی بیڑی بن جاتے ہیں اور جوان ہو کر اسی عورت کے گلے کا پھندا. شادی کو عورت کے لیئے تحفظ اور سکون کے رشتے کے بجائے شاید اسے توڑنے اور اذیت دینے کا ایک ذریعہ بنا دیا جاتا ہے . جہاں نہ اس کی کوئی ذات باقی رہے، نہ اس کا کوئی ہنر بچے، نہ ہی اس کا کوئی شوق سلامت رہنے دیا جائے .اس کی اپنی شخصیت کو مرد اور بچوں کے جوتوں کے نیچے کچل دیا جائے . جبکہ اسے بھی اللہ نے ایک جیتے جاگتے دل دماغ اور کچھ صلاحیتوں کیساتھ اس دنیا میں پیدا کیا ہے .
افسوس اسے انسان سمجھنے اور اس کے جذبات کی قدر کرنے والے دنیا میں بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں.  لیکن خدا کو جوابدہ سبھی کو ہونا پڑے گا، اسے انسان سمجھنے والوں کو بھی اور نہ سمجھنے والوں کو بھی ۔                                                              ---------    



ہفتہ، 2 دسمبر، 2017

یا محمد نور مجسم



یا محمدؐ نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی
تصویرِ کمال محبت تنویرِ جمالِ خدائی
تیرا وصف بیاں ہو کس سے تیری کون کرے گا بڑائی
اس گردِ سفر میں گم ہے جبریلِ امیں کی رسائی
اے مظہرِ شانِ جمالی اے خواجہ وبندہ ءِ عالی
مجھے حشر میں کام آجائے میرا ذوقِ سخن آرائی
مااجملک تیری صورت مااحسنک تیری سیرت
مااکملک تیری عظمت تیری ذات میں گم ہے خدائی
یہ رنگِ بہارِ گلشن یہ گل اور گل کا جوبن
تیرے نورِقدم کا دھوون اس دھوون کی رعنائی
تیری ایک نظر کے طالب تیرے ایک سخن پر قرباں
یہ سب تیرے دیوانے یہ سب تیرے شیدائی
تو رئیسِ روز شفاعت تو امیرِ لطف و عنایت
ہے ادیبؔ کو تجھ سے نسبت یہ غلام ہے تو آقائی

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/