ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 29 مارچ، 2016

مذہبی جنونیت ناقابل قبول / کالم


     مذہبی جنونیت ناقابل قبول 
       ( تحریر:ممتازملک. پیرس)




یہ سچی بات ہے کہ ہر انسان ہر کام میں ماہر نہیں ہوتا بلکہ ہو ہی نہیں سکتا . اس کا ایک ثبوت سابقہ گلوکار اور موجودہ نعت خواں جنید جمشید نے بارہا اپنے غیر محتاط انداز بیاں سے دیا ہے . کہ بات کرتے ہوئے انہیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ کس ہستی کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟
  کیا انداز تخاطب برت رہے ہیں ؟
اور کس کے سامنے موجود ہیں ؟
لوگوں نے ہی انہیں ڈھیل دے دیکر مولوی صاحب بنا دیا جبکہ حد ادب کاکبھی مطالبہ ہی نہیں کیا گیا . تو انہیں بھی اپنی باتوں کو ڈرامہ بنانے کے لیئے آیات اور احادیث و واقعات کو آوازیں بنا بنا کر ایک عام آدمی کی کہانی بنانے کی بھونڈی کوششوں نے بے حد شرمناک حرکت تک گرا دیا  . اس واقعے کی روشی میں ان پر تاحیات منبر پر بیٹھنے اور درس دینے کی پابندی لگنی چاہیئے . اور ہم بھی جنید جمشید کی اس بھونڈی ڈرامہ بازی پر ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں .
لیکن اس کے مقابل کسی بھی شخص کو سر عام روک کر اس کی اہانت  کرنا اور اس پر حملہ کرنا کیا کسی قوم کے اعلی کردار کا آئینہ دار ہو سکتا ہے . کسی صورت نہیں کہ ہمارا دین ہمیں صبر تحمل اور بردباری کا درس  دیتا ہے . جبکہ یہ حرکتیں نیم ملا خطرہ ایمان کی نشاندہی کر رہی ہیں .  دنیا بھر میں ان  نیم ملاوں  کے شر پسند شاگردوں نے پاکسان کو بدنام کر رکھا ہے . ان پر گرفت کرنا  بے حد ضروری ہے.  ورنہ یہاں کسی کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں رہیگی  . ہم.اس کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ایسا کرنے اور کرانے والوں اور انہیں اکسانے والوں کی مرمت کرنے کا بھرپور مطالبہ کرتے ہیں . یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ یہ  سب کرنے والے را کے ایجنٹس ہیں جو پاکسان میں بدامنی پھیلانے اور دنیا بھر میں ایک منتشر قوم کی شبیہہ پیش کرنے کے لیئے ایسے ٹٹووں کو خرید کر انہیں دین کی آڑ میں استعمال کر رہی ہے جب کہ ان کا دین کی د سے بھی کوئی واستہ نہیں ہے . اس کا علاج تبھی ممکن ہو گا جب ہم مولوی صاحبان اور علماء کرام میں اصل.اور نقل کی پہچان کر سکیں . اس کا فی زمانہ سب سے بڑا مددگار ہر ایک مولوی صاحب اور عالم کی ڈی این اے رپورٹ بنوائی جائے . جو ان کی ذات اور نسل کی صحیح پہچان با سکتی ہے 
کہ یہ لوگ واقعی پاکستانی اور مسلمان ہیں یا نہیں ...
اور اگر نہیں  تو ان کو سر عام پھانسی دی جائے جنہوں نے ہمارے دین کا مذاق بنانے کی نا پاک جسارت کی . 
  ہر انسان آذاد پیدا کیا گیا ہے اور اللہ اسے ایک الگ دل اور دماغ دیکر یہ ثابت کرتا ہے کہ ہر  انسان اپنی سوچ میں آزاد ہے . رب کائینات نے یہ حق کسی انسان کو نہیں دیا کہ وہ دوسرے انسان کی سوچ پر مسلط  ہونے کی کوشش کرے اگر ایسا ہوتا تو صدیوں کی تبلیغ کرنے کی کسی پیغمبر کو کوئی ضرورت نہ تھی . اللہ پاک انہیں خود سے مجبور کر دیتا کہ مخلوق اس کے تابع آ جائے . جب کہ ایسا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کسی کو اختیار نہیں دیا گیا . اور ہر انسان کو اپنی سوچ اور فکر میں آذاد رکھا گیا ہے . تو آج کیا ایسا نرالا ہو رہا ہے وہ بھی ہمارے ہی ملک میں کہ کبھی ہم غیر مسلموں کو ذبردستی ڈنڈے کے زور پر مسلمان کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ہم مسلمانوں کو بھی ہماری مرضی کے خلاف بات کرنے پر کہیں کافر تو کہیں مرتد کہہ کر کبھی سر راہ انکی عزت اچھالنے اور ان کے قتل کے احکامات جاری کرتے پھرتے ہیں . ہر انسان اپنی رائے رکھنے میں خواہ وہ.کسی بھی موضوع پر ہو مکمل آذاد ہے . ہم صرف اپنے اچھے اخلاق اور اپنے اچھے کردار سے اسے اپنی جانب مائل کر سکتے ہیں .ڈنڈا  ہاتھ میں.لیکر اسے قتل تو کر سکتے ہیں مرعوب نہیں ......
                   ..  . . ... .....

جمعہ، 11 مارچ، 2016

اپنے بچوں کا بچپن بچائیں


اپنے بچوں کا بچپن بچائیں
کل تک ہم لوگ سنا کرتے تھے کہ لڑکیوں کی عزت بہت نازک ہے اس کی حفاظت کریں . لڑکیاں گھر  سے اکیلی نہ جائیں . دیر تک گھر سے باہر نہ رہیں . لڑکیاں یہ نہ کریں وہ نہ کریں . زیادہ دوست نہ بنائیں وغیرہ وغیرہ لیکن کیا آج آپ جانتے ہیں کہ لڑکیاں  ہی نہیں لڑکے بھی اتنے ہی زیادہ غیر محفوظ  ہوتے ہیں.  ان کی بھی عزت ہوتی ہے. ان کا بچپن بھی اتنا  ہی معصوم اور اہم ہوتا ہے جتنا کہ کسی بھی لڑکی کا . والدین نے اپنی آسانی یا مجبوری کی بنا پر کہیں بچوں کو گھروں میں ملازمین کے حوالے کر دیا . تو کہیں گھر میں آئے ٹیوٹر اور مولوی صاحب کے حوالے کر دیا  .  اور اس کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ بس ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا . بچہ اگر کسی کی شکایت کرتا ہے یا ایک جگہ جانے ،کسی سے ملنے یا کسی کے پاس بیٹھنے یا پڑھنے سے انکار کرتا ہے تو اسے بچوں کا روز کا بہانہ یا معمول سمجھ کر خود  کو اور اپنے بچے کی جان اور عزت کو خطرے میں مت ڈالیں . ایسی صورت میں بچے کو مارپیٹ کر زور زبردستی سے سکول ،ٹیوشن سینٹر یا کسی اور جگہ جانے پر مجبور مت کریں .  بلکہ اس کی بات پر کان دھریں  اور اس کی شکایت کی تحقیق کریں . اسے اکیلے کسی کے پاس مت چھوڑیں .  چاہے وہ آپ کا اپنا گھر ہی کیوں نہ ہو . یا جس کے پاس چھوڑ رہے ہیں وہ آپ کا سگا بھائی یا بہن کیوں نہ ہو . بچے کے بدکنے کو اپنے لیئے خطرے کی گھنٹی سمجھیں . اپنے گھریلو ملازمین اور ڈرائیوروں پر کبھی اندھا اعتبار مت کریں . بلکہ بچوں کو سکول لیجانے یا لانے کی ذمہ داری خاتون خانہ کو خود ادا کرنی چاہیئے یا بصورت دیگر باپ کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول میں نہ صرف لائے لیجائے بلکہ انہیں سکول کے اندر جانے تک وہاں رکے . ان کی سکول رپورٹس میں ہونے والی ان کی اچھی بری کارکردگی پر نظر رکھیں اور اساتذہ کو بھی چاہیئے کہ بچوں کے رویئے اور پڑھائی کے معمول میں آنے والی ہر تبدیلی سے نہ صرف خود باخبر رہے بلکہ ان کے والدین کو بھی باقاعدہ اس سے خبردار کرتے رہیں .اور ہر مہینے میں کم از کم ایک بار ضرور  ان کی ملاقات بچوں کے والدین سے ہوتی رہیں چاہیئے. یہ معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے .انہیں ایسے شیطانوں سے بچانے کے لیئے آپ کی تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی باخبری آپ کو آنے والے کسی بھی  طوفان سے بچا سکتی ہے .خاص طور پر  کمرے کا دروازہ بند کروانے والے استاد کی خبر لیں . بچے کی پڑھائی کے دوران اس کے کمرے میں وقتا فوقتا جھانکتے رہیں اور اس کمرے کے ہی ایک کونے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں . اکثر گھروں میں بچوں کے دوست آ جائیں تو والدین انہیں ان کے بیڈ روم میں بھیج دیتے ہیں جہاں ایک بیماری ٹی وی کی صورت بھی موجود ہوتی ہے . بچوں کو کبھی کسے بڑے کی موجودگی کے بغیر اکھٹے ہونے کا موقع مت دیں . بچے کی عمر سے زیادہ عمر کے دوست بنانے کی اجازت مت دیں .  اس کے دوستوں کی آمد پر انہیں بیڈ رومز میں جانے کی یا ہاتھ میں یا بیگز لے کر جانے کی کبھی اجازت مت دیں . بچوں کو کسی ذمہ دار بڑے کی موجودگی کے بغیر کبھی بھی ٹی وی دیکھنے کے لیئے اکھٹے ہونے کی اجازت مت دیں . ٹی وی کو بیڈ رومز میں کبھی مت رکھیں . ایسی خواتین پر بھی خصوصی نظر رکھیں جن سے آپ کا بچہ گھبراتا یا کتراتا ہے . یاد رکھیں بچپن میں ملے ہوئے صدمات یا دکھ ساری عمر بھلائے نہیں جا سکتے . اس لیئے ان کے معصوم بچپن کی حفاظت کرنا آپ کی ذمہ دای ہے . اور آپ اس بات کے لیئے خدا کو جواب دہ ہیں . اپنے کنبے اور گھر کا سائز اتنا ہی رکھیں جس میں آپ فردا فردا سب کا خیال رکھ سکیں . اس کی ہر خوشی اور پریشانی کے احساس سے باخبر رہ سکیں . اور اس کی ضروریات کو پورا کر سکیں .ورنہ کئی بار بچے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی لالچ میں اپنی معصومیت اور اپنا بچپن قربان کر بیٹھتے ہیں . اور کئی بار گھر جانے کس لالچ میں اتنے بڑے بنا لیئے جاتے ہیں کہ خود بھی ہر روز اپنے ہی گھر کا بھی پورا چکر نہیں لگایا جا سکتا . کیا فائدہ ایسے گھر کا کہ اس میں رہنے والے چار افراد بھی روز ایک دوسرے کا احوال نہ جان سکیں . اور تحفظ اور آسائش دینے کے فوبیا میں انجانے میں  ہمارے بچے ہمارے ہی ہاتھوں اپنا بچپن اپنی معصومیت کہیں کھو بیٹھے.....

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/