ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 30 مئی، 2015

● (4) زندہ قبریں/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے



(خاص تحریر ماؤوں کے دن کے حوالے سے)
گھریلو معاملہ؟ 
پرتشدد گھر/
 زندہ قبریں
ممتاز ملک .پیرس



        (4) (پرتشدد گھر) 
                 زندہ قبریں 


ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین گھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدد کا 
شکار ہوتی ہیں یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہی دل میں ایک پرانی یاد کا درد 
اٹھا۔ اس وقت میں شاید سکول کی دسویں کلاس میں تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے۔ اسی لیئے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانا ہمارا خاص شغف تھا . چاہے اس کے بدلے گھر والوں سے اپنی کتنی بھی خاطر کروانی پڑ جائے. انہیں  دنوں ایک جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھتی تھی مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں. کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ،کیوں اس کے دانت نہیں توڑتی بے. کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں. لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے. اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی دیوار پر . خاص بات یہ کے اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری نہیں تھا. کبھی اس بات پر پیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے بات کیوں کی۔ دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا۔ رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ، تیری ماں مر گئی ہے کیا؟ 
ہنس کیوں رہی ہو تیری ماں کا بیاہ ہے کیا؟ 
کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا؟
یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ؟ 
آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا ؟ 
افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے ؟ 
گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا ؟ 
گلاس پورا کیوں بھرا، پانی ضائع کرتی ہو؟ یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ 
ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتاہے کوئی نارمل 
آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا . 
ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئی اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے . اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدد کی رپوٹ ہم نے اس وقت کے ایک 
ادارہ کو(جس کا ان دنوں گھریلو مظالم سے بچانے کے لیئے نام لیا جاتا تھا .) 
بھجوا دیا کہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس 
خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے. بڑے دنوں کے انتظار کے بعد 
آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ یہ ایک 
گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے. یہ سن کر وہ 
خاتون زاروزار روئی اور بولی بیٹا میں نے کہاتھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں، 
کتابوں میں ہی ہوتی ہیں، مجھ جیسی عام سی گھریلو عورت کو بچانے کے لیئے 
کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا ،مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھو ل بڑھ 
جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں ماپ 
اس لیئے بیاہ دینے کے بعد ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے۔ میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں۔ صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جاتا ہے، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے کیوں؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی تھا۔ آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا؟ 
آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے چند سال بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اسکی ادھ کھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ دیکھا میں نے کہا تھا نا 
کہ کوئی پاکستانی قانون کسی عام سی پاکستانی عورت کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا . ان مردہ نظروں میں کچھ ایسا تھا کہ میں اس سے زندہ نظریں بھی نہ ملا سکی اورشرمندگی اور صدمے کے مارے بیساختہ میری 
آنکھ سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ 
                          ●●●
          تحریر: ممتازملک.پیرس
      مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
                    اشاعت: 2016ء
                          ●●●


جمعرات، 21 مئی، 2015

شارٹ کٹ




شارٹ کٹ 
ممتازملک ۔ پیرس



ہر آدمی ہی جلدی میں ہے ۔ ہر انسان مصروف ہے ۔ ہر کوئی بھاگ رہا ہے ۔ لیکن کس چیز کے پیچھے ؟ ہر انسان کل بھی دو روٹی کھاتا تھا آج بھی دو روٹی ہی کھاتا ہے ۔ ہر انسان کے تن پر کل بھی تین کپڑے تھے آج بھی دو یا تین کپڑے ہی ایک وقت میں ہوتے ہیں ۔ ہر ایک کو سونے کے لیئے کل بھی ایک بستر کی جگہ چاہیئے تھی اور آج بھی اتنی ہی جگہ چاہیئے ۔ ہر انسان کی قبر کل بھی دو گز کی تھی اور آج بھی دو گز ہی اس کا مقدر ہونا ہے ۔ کفن کا سائز بھی ایک ساتھا اور ہے ۔ پھر ایسی کون سی بھوک ہے جسے مٹانے کے لیئے آج کا انسان ہر رشتے کو کاٹتا جا رہا ہے ، ہر حد کو پھلانگتا جا رہا ہے ، ہر دل کو کچلتا جا رہا ہے ، ہر حرمت کو پامال کرتا جا رہا ہے ۔ قیامت کی کیا یہ وہی گھڑی یا نشانی نہیں ہے ،جس میں ہر آدمی دوڑ رہا ہے وقت کا ہر  سال مہینہ ، مہینہ ہفتہ اور ہفتہ دن جیسا گزر رہا ہے ۔ لیکن کسی سے پوچھا جائے تو اتنی مصروفیات میں بھی نہ کسی کے دل کو قرار نصیب ہے ،نہ ہی کوئی مالی سکون کی بات کرتا ہے ،اور نہ ہی کوئی شکر گزار ہے، ہر ایک شاکی ہے کسی نہ کسی بات پر ۔ کیا وجہ ہے ؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم جن کامیابیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اصل میں ہم وہ ڈیزروو ہی نہیں کرتے ۔ اور جب ہم کسی اور کا حق اپنے نام کرنے جاتے ہیں تو بے سکونی تو مقدر بننا ہی ہے ۔ ہمارے پاس محنت کرنے کا تو وقت نہیں ہے لیکن ہمیں عہدہ بھی دوسرے محنت کرنے والے سے بڑا چاہیئے ۔ ہم دوڑ میں تیزی سے بھاگنا نہیں چاہتے لیکن گولڈ میڈل اپنے ہی گلے میں لٹکا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں کھانا بنانا تو سیکھنا نہیں ہے ،لیکن ہمیں دوسرے کی پکاۓ ہوئے پکوان کو اپنے ہی نام سے پیش کرنے کا شوق بھی بہت ہے ۔  گویا کہ ہر ایک مصروف تو ہے لیکن وہ محنت جو کر رہا ہے وہ کچھ سیکھنے کے بجائے شاید دوسرے سیکھے ہوؤں کا کام اپنے نام کرنے میں مصروف ہے ۔ کچھ لوگ محنت سے کچھ بنانے میں مصروف ہیں تو باقی اسی فیصد اس کی محنت پر اپنے نام کا ٹھپہ لگانے میں مصروف ہیں ۔ لیکن یہ سمجھنے میں اور کتنی دیر لگے گی کہ  زندگی کسی بھی شارٹ کٹ کی اجازت نہیں دیتی ۔ یہاں جو کچھ کرنا ہے اگروہ اصل ہو گا جبھی اس انعام بھی سکون کی صورت میں ملے گا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم گندم بوئیں اور آم کی فصل کی امید کریں  ۔ امیدیں بھی جب تک حقیقت کے دائرے میں رہیں تبھی پوری ہونے کی امید بھی رہتی ہے ۔ جب یہ امیدیں حقیقت کے دائرے سے باہر ہو جاتی ہیں تو پھر خواب بن جاتے ہیں اور خوابوں کا کیا ہے، ان کے نصیب میں تو ٹوٹنا لکھ ہی دیا گیا ہے ۔ محبتیں بھی اتنی ہی کی جانی چاہیئیں کہ جتنا اس کے ختم ہونے پر دکھ سہنے کا حوصلہ ہو، تبھی اگلا قدم اٹھایا جا سکتا ہے ۔ شارٹ کٹ سے ملنے والی خوشی ہو یا کامیابی دونوں ہی شارٹ ہوتی ہیں ۔ زندگی میں پائیدار کامیابی اور خوشی کے لیئے بھرپور محنت اور نیت کی اچھائی دونوں ہی اہمیت رکھتی ہیں ۔ شارٹ کٹ کو اسی لیئے ہم چور دروازہ کہتے ہیں ۔ اور گھروں کے مالک چور دروازوں سے کبھی نہیں آیا کرتے ۔ سکون ہی تو دل کا مالک ہوتا ہے ۔ اور اس کا اصل داخلہ اصل دروازے ہی سے ہو سکتا ہے  ۔ مالک اور چور میں کوئی تو فرق ہونا ہی چاہیئے ۔ کہ نہیں ؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 13 مئی، 2015

● پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔ ہیں جی !!!!!!!!!! / کالم





پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔
 ہیں جی !!!!!!!!!!
تحریر/ممتازملک ۔ پیرس 



پاکستانی مردوں کو اچھا شوہر سمجھنے والی غیر ملکی خواتین کیساتھ ان مردوں کا رویہ اور اتنی اچھائیوں کی وجہ جاننے کا ہمیں بہت ہی خبط ہوا تو ہم نے اس پر ان تجربات سے گزری خواتین کو اس موضوع پر بات کرنے کے لیئے تیار کرنے کی ٹھانی  ۔ 
میری ملاقات  کئ ایسی غیر ملکی خواتین  سے ہوتی رہتی ہے جو پاکستانی مردوں کو آئیڈیل شوہر سمجھنے کے بھرم میں مبتلا ہو تی ہیں .ہمیں بھی ان پر   ریسرچ   کر نے کا شوق چرایا خاص طور پر اس وقت جب ایک عرب ملک کی خاتون نے فرمایا کہ میرا شوہر پاکستانی ہے اور اب میری بہن جو پینتیس سال کی ہو کر بھی اس لیئے شادی نہیں کر رہی کیونکہ وہ بھی کسی پاکستانی  شوہر کی تلاش میں ہے .ہم نے جب ان کے شوہر کے بارے میں دریافت کیا تو بولیں میں نے اور میری ایک یورپئین دوست نے پاکستانی مردوں کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ان سے شادیاں کیں۔
میں پوچھا مثلا کیا خوبیاں دیکھیں ؟تو گویا ہوئیں کہ جیسے میرے میاں نے مجھے کبھی کسی سے ملنے سے نہیں روکا .ہمیں جتنی رقم درکار ہو آج تک دینے سے منع نہیں  کیا .ہمیں کبھی سسرالیوں کے جھنجھٹ میں نہیں ڈالا. یہاں اس کا کوئ عزیز آ بھی جائے تو کیٹرنگ آرڈر کر دیگا اور ہمیں کبھی ان کی خاطروں میں نہیں الجھاتا. ہفتے میں کئی بار اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ بنا کر کھلاتاہے .ہمیں اور ہمارے بچوں کو سال میں جب چاہیں چھٹیوں میں ہماری من چاہی جگہ پر بھیجتا ہے .میں جیسا چاہوں لباس پہنوں سلیولیس ہو یا منی سکرٹ اسے کوئ مسئلہ نہیں ہے .ہر خاص دن پر چاہے میری یا میرے بچوں کی یا شادی کی سالگرہ ہو یا عید تہوار نیا سال ہو یا ویلنٹائین کہے بنا ہمارے تحفے اور پروگرام ارینج کرتا ہے . بلا کے خوش لباس ہیں پاکستانی شوہر  . میں کہیں بھی کتنی بھی لمبی سیر کے لیئے جاؤں اس نے مجھے کبھی نہیں روکا ٹوکا. میرے لیئےاور بچوں کے لیئے دنیا کے کسی کونے میں چلا جائے تحائف لائے بنا نہیں رہتا.............
میرے کانوں میں یہ سب سن کر جانے کس کس خیالی مندر کی گھنٹیاں بچتی رہیں اور آنکھوں میں ان تمام پاکستانی مظلوم خواتین کی صورتیں گھومتی رہیں .جنہیں ان کے پاکستانی  آئیڈیل شوہروں نے کھانے میں نمک کم اور زیادہ پر مار مار کر ادھ مُوا کر دیا .کبھی لڑکی پیدا کرنے پر قتل کر دیا یا طلاق دے دی کبھی اپنی امّاں کو خوش کرنے کے لیئے اس کی کھال کے جوتے بنائے. کبھی بھائ کی محبت میں پیٹ ڈالا .کہیں ساری ساری زندگی ان کا اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ملنا روک دیا .کہیں دو وقت کی روٹی کے لیئے عورت کو ایک لونڈی سے بدتر حالات میں رہنے پر مجبور کر دیا .اور میں سوچنے لگی یا اللہ ساری دنیا کو پاکستانی مردوں کا بلند اخلاق اور کردار نظر آ گیا . ہم پاکستانی عورتوں کو بھی ایسے ہی پاکستانی شوہر عطا فرما دے کہ جن کی کہانی ان غیر ملکی خواتین نے سنائی ہے . لیکن اس سے پہلے کہ میں چند ماہ بعد اگلی ملاقات پر ان میں سے ایک غیر ملکی خاتون سے یہ پوچھتی کہ اس برانڈ کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کس مارکیٹ سے ملتے ہیں اس خاتون نے چھوٹتے ہی اپنے گھر والوں کی خیریت بتاتے ہوئے خبر دی کہ اس کی اور اس کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کی طلاق ہو گئ ہے .
پوچھا کیوں؟ تو بولی اپنے ایک بھائ کو گھر لے آیا تھا اور بولا کہ یہ ایک ہفتہ میرے پاس رہیگا . اس کا خیال رکھنا .تو میں نے جھٹ کہا کہ میاں اسے کسی ہوٹل میں ٹہراؤ . بس اسی پر بات طول پکڑ گئ اور طلاق ہو گئی .  اب اسکا سارا کاروبار اور گھر پچاص فیصد میرے ہیں . ویسے پاکستانی مرد بڑے آئیڈیل شوہر ہوتے ہیں. میں دوسری شادی بھی کسی پاکستانی  سے ہی کرنے کا سوچ رہی ہوں . یہ بہت عیش کراتے ہیں آپ کی ایک یورپئین دوست کا شوہر بھی پاکستانی  ہے نا!
 ہم نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا تو ہنس کر بولی ارے ہاں اس کا تو تین سال پہلے ہی طلاق ہو گیا تھا. اس نے تو پہلے ہی سارا بینک بیلنس اپنے نام کروا لیا تھا اب وہ کہیں نوکری کرتا ہے اور سنا ہے کوئ  پاکستانی مسکین سی لڑکی بیاہ کر لایا ہے . .. ..

اور میں  سوچتی رہ گئی کہ سولہ سال عیش کرانے کے باوجود جو عورتیں سولہ منٹ آپ کی خوشی کا کوئی کام نہیں کر سکتیں اور آپ ان کے آئیڈیل بننے کے لیئے ذلالت بھرا آئیڈیل بننے کو تیار ہو جاتے ہیں (کبھی ہو سکے تو جو مردانگی یہ اپنی پاکستانی بیویوں کو دکھاتے ہیں کبھی ایک بار ہی سہی ان بدیسی بیویوں کو بھی  دکھا کر تو دیکھیں کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے ) ان پاکستانی مردوں سے کوئ پوچھے کہ بھائ کبھی سولہ دن بھی اپنی پاکستانی بیوی کیساتھ انکی مرضی کے گزارے ہیں ۔ اگر گزارے ہوتے تووہ تاحشر تمہاری غلام ہو جاتی . اور انہیں دنوں کی دید میں تمہاری محبت کی یاد میں ہی تم سے شکوہ کیئے بنا ساری عمر گزار دیتی ۔ جبھی تو کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کالے رنگ دا بادام ہوسی 
جیوندیاں وی تیری آں
مویاں مٹی وی غلام ہوسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعہ، 8 مئی، 2015

سولر انرجی ، وقت کی سب سے بڑی ضرورت / ممتازملک۔ پیرس



سولر انرجی
                        وقت کی سب سے بڑی ضرورت       
   ممتازملک۔ پیرس 





یورپ میں جب سورج نظر آتا ہے تو لوگوں کے چہرے کھل جاتے ہیں ۔ گھومنے پھرنے کے پروگرام بننے لگتے ہیں ۔ نئی تازگی محسوس کی جانے لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں سال کے تقریبا دس ماہ تو بادل رہتے ہیں یا پھر بارش اور ٹھنڈ کا زمانہ رہتا ہے مشکل سے دو ماہ کا ہی عرصہ سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود آج کل جہاں دیکھیں، یورپ بھر میں سولر انرجی کو جذب کرنے کے لیئے سولر پلیٹس لگی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔ حالانکہ یہاں پر پن چکی سے بجلی پیدا کرنا زیادہ بہتر اور مفید ہے کیونکہ یہاں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں اور تقریبا ہر وقت اور ہر علاقے میں ہوا اچھی خاصی رفتار سے موجود رہتی ہے ۔ جبکہ سورج کی ساری حِدّت سولر پلیٹس میں جذب ہونے کے باعث یہاں اکثر ہی ہڈیاں ٹوٹنے کی شرح کسی بھی گرم ملک کے مقابلے میں کہیں ذیادہ ہے کیونکہ خوراک میں یا فوڈ سپلیمنٹس میں اگر وٹامن ڈی کا استعمال باقاعدہ نہ کیا جائے تو ہڈیاں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ذرا ذرا سی چوٹ بھی ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اس لیئے یہاں پر سولر انرجی کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیئے ۔ 
جبکہ ایشین ممالک میں جہاں سورج سال کے گیارہ ماہ خوب گرمی اور روشنی بکیھرتا ہے  اور گرمی کی شدت لوگوں کے لیئے سوہان روح بن کران کی  زندگیوں کے لیے بھی خطرناک ہو جاتی ہے ۔اکثر گرمیوں میں لوگوں کی اموات کی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جس میں ان کی موت کی وجہ صرف گرمی کی شدت ہی ہوتی ہے ۔ غریبوں کا حال تو اور بھی برا ہوتا ہے ۔ انہیں تو کُھلے آسمان کے نیچے ہی نہ صرف مذدوری کرنی ہے، سودا بیچنا ہے اور سفر بھی پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی کرنا ہے لہذا ان کی صحت بھی براہ راست گرمی کی شدت سے متاثر ہوتی ہے ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سورج کی تپش کو کم کیا جائے اس کے لیئے آپ سورج کا وولٹج تو کم نہیں کر سکتے ۔ایک ہی کام کر سکتے ہیں کہ سورج کی اس بھرپور نعمت کو زحمت بننے سے بچایا جائے اور بہتر انداز میں استعمال میں لایا جائے ۔ تصویر کا دوسرا اور زیادہ خوفناک رُخ یہ بھی ہے کہ پہاڑوں پر ایک تو برف پڑ ہی کم رہی ہے۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ سورج کی ماحولیاتی تبدیلی کے زیر اثر ہونے والی تپش کی اضافت کو بھی جب تک استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پہاڑوں کی برف کو اور گلیشئیرز کو تیزی سے پگھلنے سے نہیں روکا جا سکتا ۔ جبکہ یہ ہی گلیشئیرز ہمارے پانی کا منبع ہیں ۔ جس پر ہماری زندگیوں اور ہماری زراعت کا دارومدار ہے ۔ پانی کا یہ منبع ہی نہ رہیں تو ملک ریگستان بن جاتے ہیں ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں توانائی کا شدید بحران ہے اور ہمماری تمام انڈسٹریز اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ان سب کا ایک ہی بہترین حل ہے کہ سورج کی توانائی کو بھرپور انداز میں سولر انرجی کے طور استعمال کیا جائے ۔اس کے لیئے حکومت کو بھی سولر پلیٹس اچھے معیار کی اور کم سے کم قیمت میں مہیا کرنے کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے ۔ وہ نوجوان جو اسی شعبے میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔ان کے علم سے بھرپور استعفادہ حاصل کیا جائے۔

انہیں ان پلیٹس کو جدید اور مذید بہتر بنانے کے لیئے بھرپور مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ ہمیں سستی توانائی مہیا ہو سکے ۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ آخر پاکستان میں حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود اس کا رویہ ہر سولر انرجی کے لیئے کام کرنے والے ماہر کیساتھ حوصلہ شکن ہی کیوں ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اس فیلڈ میں کام کی پیشکش کی تو حکومت وقت نے نخوت سے ناک سکیڑ لی ۔ ڈاکٹر ثمر مند  اور داکٹر قدیر کا آج سے بیس سال پہلے کا اخباری خوشخبری بیان"کہ اسی سال ہم قوم کو سولر انرجی اور سولر چولہوں کا تحفہ دینگے ۔" پڑھ کر ہم آج تک اسی انتظار میں رہے کہ آج آئے یہ سولر چولہے یا کل آئے ۔ لیکن   لیکن ہائے ! افسوس کہ پورے ملک کی معیشت کی اس توانائی کمیابی کے کارن اینٹ سے اینٹ بج گئی لیکن نہ آئی سولر انرجی اور نہ آئے سولر چولہے ۔ جانے  کس سوچ میں پاکستانی حکومتوں نے قوم کا یہ قیمتی وقت تباہ کر دیا ۔ ہمیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہو سکتا ہے تمام حکومتیں اسی بات پر غورو فکر میں مدتیں پوری کرتی رہی ہیں کہ یہ جو ہے سورج ،اس پر ٹیکس کیسے لگائیں گے ۔ آخر جو ہے، ہم کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بھئی تم نے ٹیکس نہیں دیا لہذَا ہم جو ہے ،تمہارے گھر کا سورج کاٹ رہے ہیں ۔ آخر جو ہے ،حکومت کو کوئی فیدہ بھی ہونا چاہیئے سورج دینے کا ۔ جو ہے ، کیا خیال ہے ۔ ملک و قوم کے مفاد میں اس تاخیر پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 4 مئی، 2015

اٹھو جہاں بدل دو۔ کالم



اٹھو جہاں بدل دو
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)


وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ مثلا کل تک ہمارے ہاں جو خاتون گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی       خریداری میں کسی بھی چیز ک لیۓ گائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،
دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائ ، شوہر یا بیٹے کی کمائ سے ہمدردی نہیں کر سکتی ہیں ۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیۓ بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائ میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائ جاۓ ۔گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔ یہ سب کیا ہے ۔کوئ مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی کچھ کر رہی ہیں لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئ تردد نہیں کرے گا ۔اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیۓ کمانے لیۓ کیا کیا محنت کی گئ ہے ۔ ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیۓ لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔ کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔رشتہ لینے کے لیۓ تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے لیکن کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًمحلّوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
  ۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/