ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 20 مارچ، 2019

وسیلے بن ہی جاتے ہیں ۔ سراب دنیا


       وسیلے بن ہی جاتے ہیں 
        (کلام/ممتازملک.پیرس)

اگر خواہش ہو جینے کی تو حیلے بن ہی جاتے ہیں 
خدا جب ساتھ دیتا ہے ،وسیلے بن ہی جاتے ہیں


گھروں کی نیوو میں اکثر دراڑیں عود کر آئیں 
نہ جب انصاف ہو یکساں قبیلے بن ہی جاتے ہیں


محافظ جب نگاہوں کو جھکانا بھول جاتے ہیں  
بھلے چنگے سماجوں میں رنگیلے بن ہی جاتے ہیں


بدوں کے بیچ اکثر بھائ چارہ جب پنپتا ہے 
وہاں سچ بولنے والے کسیلے بن ہی جاتے ہیں


خوشامد زہر ہے ایسا کہ جس سے رس  ٹپکتا ہے
منافق موت آنے تک رسیلے بن ہی جاتے ہیں


حفاظت ہو اگر درپیش گل کی تو چمن والے  
سبھی شاخیں سبھی پتے نوکیلے بن ہی جاتے ہیں

انوکھا کچھ تو کرنا ہے اگر ممتاز رہنا یے 
وگرنہ نام کے تو سب ہٹیلے بن ہی جاتے ہیں 
                     ۔۔۔۔۔۔۔



● (81) یہ دنیا کی نشانی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا


       

      (81)  دنیا کی نشانی ہے
          

جہاں امید ہوتی ہے وہیں پر ٹوٹتا ہے دل 
اسی کا نام دنیا ہے یہ دنیا کی نشانی ہے

ہماری ماں کہا کرتی تھی اکدن جان جاو گے
اسی سچ کو جسے سمجھا کہاوت اک پرانی ہے

نہیں تھے ہم تو وہ سب تھے نہیں ہونگے تو بھی ہونگے  
یہ سورج چاند اور تارے  مگر جاں آنی جانی ہے

تمناؤں کے شیشے پر جمی ہے دھول  برسوں کی 
جوانی میں سمجھتے ہو کہ جیون جاودانی  ہے

نئی صبحییں طلوع ہونگی نئے اب رت جگے ہونگے
پرانی یاد کاہے کو تمہیں دل سے لگانی ہے

ہر اک یہ ہی سمجھتا ہے وہی تو بس انوکھا ہے 
انوکھا ہے سفر اسکا ، انوکھی زندگانی ہے 

یہ عزت تھال میں رکھ کر کسی کو بھی نہیں ملتی 
 تمہیں گر چاہیئے تو پھر تمہیں یہ خود کمانی ہے 

وہ جس کے بل پہ جیتی تھی کبھی ہاری لڑائی تب
 تمہیں اک بار پھر سے اب  وہی  ہمت  دکھانی ہے

نہیں تھا وقت جس کے پاس ہم سے بات کرنے کا 
 ہمارا سوچنا اسکو  کہانی اک سنانی ہے 

اگر ہم سے صلاح کرتے کبھی وہ مشورہ کرتے 
بتاتے بات الجھی ہو تو بھر کیسے بنانی ہے 

اسی دھرتی پہ رہتے ہو، مسائل پیش آئینگے
نہ تم راجہ ریاست کے نہ ہی وہ ماہ رانی ہے 

یہ ہی تو سوچ کر ممتاز آتی ہے ہنسی ہمکو 
ہمیں  احمق سدا ٹھہرے یہ دنیا تو سیانی  ہے
                   ●●●

کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

بس اک ہوائی ہیں ۔ سراب دنیا


 بس اک ہوائی ہیں
(کلام/ممتازملک.پیرس)


ہوا کے زور پہ زندہ ہیں ہم بس اک ہوائی ہیں 
ہوا ہے زندگی اپنی مگر کرتےخدائی ہیں 

ہمیں خواہش بہت رہتی ہے اوروں کو گرانے کی
تماشا دیکھنے کی چاہ میں خود جگ ہنسائی ہیں  

بظاہر سب ہی کہتے ہیں کوئی ہم سے نا بچھڑے گا
مگر ہم بھول جاتے ہیں اصل کے دن جدائی ہیں 

تمنائے زمانہ میں ہم اتنا ہو گئے تنہا 
بظاہر ہیں تو میلے میں تمنائے رہائی ہیں 

نہ دن کا چین حاصل اور نہ شب کو سکوں ہم کو
مگر لینے دوائے دل بڑی دیتے دہائی ہیں 

ہم ایسی عمر میں ہیں اب کہ اوروں کو بھی سمجھائیں
نہیں ممتاز مانے کہ سراپائے ڈھٹائی ہیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔


بے خبری ۔ سراب دنیا


7
بے خبری
(کلام/ممتازملک۔پیرس)


اپنے حالات سے بے خبری تجھے معاف نہیں
دوسروں کے بڑے حالات سنوارے تو نے

کبھی اپنوں کی بھی توصیف کی ہمت کرلے  
طعنے تشنیع تو بڑے جان کے مارے تو نے

عیب گھڑ گھڑ کے جو تھک جائے ذرا دم لے لے
یاد کر آخری لمحے جو نکھارےتو نے

ہو جو توفیق کبھی اپنا بھی چارہ کر لے
لوگ کتنے ہی کیئے جبکہ بیچارے تو نے

جیتنے کی ہی خبر خیر سے دینے والے 
اب بتاوہ بھی سبھی کھیل جوہارے تو نے 

کامیابی کے سبھی راز ہیں عریاں تجھ پر
کیوں نہ ممتاز لیئے ایسے سہارے تو نے
۔۔۔۔۔۔


منگل، 19 مارچ، 2019

(68) شاخسانے ہیں/ شاعری ۔ سراب دنیا


(68) شاخسانے ہیں 


 جبر ہوتا نہیں محبت میں 
یہ تو ظلمت کے شاخسانے ہیں

کچھ طبیعت بدل گئی اپنی 
کچھ خیالات بھی پرانے ہیں

کھا رہے ہیں وہ دونوں ہاتھوں سے
یاد بچپن کے چار دانے ہیں

عشق تھا مفلسی سے جو اتنا 
خواب میں کیوں نئےزمانے ہیں

لوٹ جاو اسی اندھیرے میں
گن اگراسکے تو نے گانے ہیں

تیری چاہت کا مستحق سنگ ہے
جانے والے گئے  نہ آنے ہیں

چھوڑ دے اس کی یاد میں جینا
زندگی کے کئی بہانے ہیں

درد دیتی ہے ہر نئی چوکھٹ
اور در کتنے آزمانے ہیں

اتنے رشتوں نے باندھ رکھا ہے
وہ جو  ممتاز کو نبھانے ہیں
                     ●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●


پیر، 18 مارچ، 2019

تبصرہ نجف علی شاہ صاحب کا ۔ سراب دنیا

  معروف شاعر اور سکالر  جناب نجف علی شاہ کے قیمتی الفاظ میرا سرمایہ 

روح کو عبرانی زبان میں نقش , لاطینی زبان میں اینی ماء  , سنسکرت کی زبان میں آتما , یونانی زبان میں سائیکی , لغت کی زبان میں ھوا کا جھونکا اور اردو زبان میں ”ممتاز ملک  “ کہتے ھیں  یہ روح جب اس جہان میں وارد ھوتی ھے تو زندگی کہلاتی ھے اور بے چینی اس کا مقدر ھوتا ھے اھل فکر اور اھل نظر اس بے چینی کو عشق کا نام دیتے ھیں یہ روح جب واپس لوٹتی ھے تو ”روح کل “ کے حضور میں  پہنچ کر پھر کہیں چین پاتی ھے یہی بھید ممتاز ملک کی شاعری کا بھی  ھے جسے دوام حاصل ھو گا اور یہ شاعری شاعرہ کے نام اور شخصیت کی طرح ممتاز ھو گی .....
( نجف علی شاہ بخاری ایم فل اردو سکالر بھکر پنجاب پاکستان )

جمعہ، 15 مارچ، 2019

تبصرہ ۔ دعا علی ۔ سراب دنیا


تبصرہ :
دعا علی 

ممتاز ملک صاحبہ ادب کی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہے وہ نہ صرف ایک اچھی شاعرہ بلکہ ایک اچھی کالم نگار  اور ایک بہتریں  نعت خواں بھی ہیں تو ایک بہترین ٹی وی ہوسٹ (انداز فکر پروگرام/ondesi tv) بھی ہیں ۔ 
لکھاری ، کوٹیشن رائٹر ، افسانہ نگاراور شارٹ سٹوری رائٹر بھی ہیں ۔ 
شاعری میں وہ  غزل کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی طبع آزمائی کرتی ہیں ۔یقیناً ہر عہد ایک اعتبار سے نئے نئے تجربوں سے گزرتا ہے میری نظر سے اب تک جتنی بھی شاعری ممتاز ملک صاحبہ کی گزری ہیں وہ تمام مضوعات عصر سے جڑے ہوئے ہیں۔ 
مجموعی اعتبار سے ممتاز ملک صاحبہ اکیسویں صدی کی ایک اہم شاعرہ ہیں ۔میں نے ہمیشہ ان میں خوب سے خوب تر کی جستجو  اور لگن دیکھی ہے۔ ان میں ایک جنون ہے کچھ کر دکھانے کا ممتاز ملک صاحبہ کے الفاظ سادہ مگر پر شکوہ ہیں جو  قاری کے دل میں اترنے کے صلاحیت رکھتے ہیں۔  
ان کے چند ایک اشعارملاحظہ کیجیے  

؎ محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

؎ ان میں جرات نہ تھی کہ  ہم سے مقابل ہوتے
بات اوروں سے کہی ہم کو نشانہ کرکے

 ؎ ان کی نظم عورت مدت ہوئی کی چند لانئیں 
دیکھیے جس نے مجھے اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا

پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب 
یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
اب بھی کیا آباد ہے

میں ان کو ان کے بہترین کام پر ڈھیروں مبارکباد پیش کرتی ہوں اور ان کے اس شعری مجموعہ کلام "سراب دنیا " کی کامیابی اور مزید ترقی کے لیے دعاگو ہوں ۔ 
دعاعلی
شاعرہ،  کالمنگار ،لکھاری 
 ایڈیٹر "باب دعا "

پتوں جیسا حال ہوا ہے ۔ سراب دنیا


پتوں جسا حال
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)


پتوں جیسا حال ہوا ہے 
اب جینا جنجال ہوا ہے

بوٹی بوٹی کر کے دل کی 
تب یہ ماہ و سال ہوا ہے

کیا بتلاوں کس کس جاء پر
میرا استحصال ہوا ہے

کیسے کیسے لفظ تھے جنکا
کیا کیا استعمال ہوا ہے

آنکھیں بند تھیں  پھر یہ کیونکر
خواب کا انتقال ہوا ہے

یہ نہ سمجھنا آتے ہی یوں 
میرا استقبال ہوا ہے 

برسوں سہہ کر تب ممتاز کو
حاصل استقلال ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔



نظر بد کا کیا کریں ۔ سراب دنیا


 نظر بد کا کیا کریں 
(کلام/ممتازملک.پیرس)


پوری نہ ہوئی کوئی رہی بات ادھوری
لگ جاتی ہے ہر بار نظر بد کا کیا کریں 

لکھ دی ہے داستان سب اپنی زبان میں
وہ ہی سمجھ سکے نہ یہ ابجد کا کیا کریں 

معافی خدا کی شان کو دیتی ہے ذیب اور
بندے کو پیش آتی ردوقد کا کیا کریں 

ہو جاتی مکمل تو زمانے سے مگر پھر
ہر بات میں ہوتی نئی شد مد کا کیا کریں 

ہر ایک ہوس سے ہیں بہت دور یہ سن لو
 کردار جو نہیں تو سروقد کا کیا کریں 

نااہل تھے جو  موقع پرستی نہ کر سکے
بدنام ہوئے جو آباءو جد کا کیا کریں 

تہذیب جنہیں گھول کے گُھٹی میں پلائی
گستاخ ہیں ممتاز جو بیحد کا کیا کریں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہر کا جوگی ۔ سراب دنیا


 شہر کا جوگی 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

سانپ بسنے لگاہردوسرےگھرمیں آ کر
میں نےجاناہےتیرےشہرکاجوگی ہو کر

ہجرتیں کرکےجوانی کولٹایا پھر بھی  
میں نےکیاپایاتیرےعشق کاروگی ہو کر

پہلے ہنستے تھے جو غیروں میں بھی ہو بے پرواہ
آج اپنوں میں بھی بیٹھے ہیں وہ سوگی ہو کر

زندگی صبح  سے یوں شام ہوئی ہے ممتاز  
ریل کی پٹری پہ بھاگے کوئی بوگی ہو کر
۔۔۔۔۔۔۔۔


◇ ● (46) دوستی کی نقل مکانی/ نظم ۔ سراب دنیا۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا



     (46) دوستی کی نقل مکانی 
           (ممتازملک۔پیرس)



کہاں ہوتے ہیں یہ دوست بولو ؟
مجھے تو کوئی ملا نہ اب تک ۔۔۔
سنا ہے دنیا سے دوستی نے
اسی گھڑی میں چھڑایا دامن
جب آدمی نے مفاد کے سنگ 
ملائی نظریں 
غرض سے ناجائز 
جوڑا رشتہ
تبھی سے سوچا تھا دوستی نے
اک ایسے گھر میں بھلا کیا رہنا 
جہاں پہ چاہت نہیں کسی کو
بس اک ضرورت وہ بن گئی ہو
یہ سوچ کر اس نے
 اپنے صندوق میں رکھے تھے 
خلوص، چاہت ، امید ،جذبے 
دعائیں  اور حوصلے غضب کے
جو آخری بار میں نے دیکھا
بہت ہی نمناک غمزدہ سی 
برستی آنکھوں جھکائے سر کو 
وہ ادھ مری سی رواں ہوئی تھی
وہ اس جہاں لامکاں ہوئی تھی
سنا ہے اس کو نقل مکانی 
کیئے ہوئے بھی زمانے گزرے
نہ بعد اس کے کسی نے اس کی
خبر سنی اور 
نہ بعد اس کے کبھی کسی نے 
اسے ہے دیکھا
ہاں  نام لے لیکے لوگ اس کا 
بہت بناتے ہیں دوسروں کو 
جہاں بھی مقصود کوئی دھوکہ
تو لے لیا نام دوستی کا ۔۔۔۔
                       ●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●

              

(45) چاہت کے دستور نرالے/ شاعری ۔ سراب دنیا


(45) چاہت کے دستور نرالے
(کلام/ممتازملک ۔پیرس) 


چاہت کے دستور نرالے
چھلنی چھلنی کرنیوالے

اپنے آگے پیچھے جو بھی 
رہتے ہیں سب دل کے کالے

دھڑکن کے بدلے سناٹے
سوچ میں دقیانوسی جالے

عزت کو پامال کرے جو
روگ نہ کوئی ایسے پالے

سچائی کے دم پر اکثر
قسمت پر لگ جائیں تالے

آنکھوں کی سرمے دانی میں
درد سلائی بھر کر ڈالے

مجھکو یہ ممتاز بتاو
مشکل سے دل کون  نکالے
                     ●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●

ارمان ہے ہمیں ۔ سراب دنیا



 ارمان ہے ہمیں 
(کلام/ ممتازملک ۔ پیرس)

ہم نے کہا کہ آج بھی ارمان ہے ہمیں 
اس نے کہا کہ کردیا حیران ہے ہمیں  

ہم سے وصولتی رہی کچھ ایسے زندگی 
جیسے خوشی کے نام پہ تاوان ہے ہمیں 

زخموں کو مرہموں کی طلب سے رہا کرو
سب بھول جاؤوقت کافرمان ہے ہمیں 

انسانیت کے نام پہ دھبہ تھا جسکا نام
کہتا وہ خود کو بہتریں  انسان ہے 
 ارمان ہے ہمیں 
کلام / ممتازملک ۔ پیرس

ہم نے کہا کہ آج بھی ارمان ہے ہمیں 
اس نے کہا کہ کردیا حیران ہے ہمیں  

ہم سے وصولتی رہی کچھ ایسے زندگی 
جیسے خوشی کے نام پہ تاوان ہے ہمیں 

زخموں کو مرہموں کی طلب سے رہا کرو
سب بھول جاؤوقت کافرمان ہے ہمیں 

انسانیت کے نام پہ دھبہ تھا جسکا نام
کہتا وہ خود کو بہتریں  انسان ہے ہمیں

اک شعر بن کے جس سے طلب داد کی رہی
سچ پوچھیئے وہ ذات ہی دیوان ہے ہمیں 

چالاکیاں سکھاتے جسے عمر کاٹ دی
کیوں آج بھی سمجھتا وہ نادان ہے ہمیں 

جاہل کوعالمانہ  سند مل گئی ہے اب 
سمجھانااسکوعقل کا نقصان ہے ہمیں

طوفان نہ بدل سکے ممتاز اس کو پر 
قطرہ کسی کی آنکھ کاطوفان ہے ہمیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔







بغاوت ہم کرینگے ۔ سراب دنیا



بغاوت ہم کرینگے 
(کلام/ ممتازملک۔پیرس)



نظامت ہم کرینگے
بغاوت ہم کرینگے 

تمہاری ناک میں ہم
بڑا ہی دم کرینگے

تمہارے ظلم پہ نہ
اب آنکھیں نم کرینگے

اندھیری رات کو ہم
سحر پیہم کرینگے

نہ آنا راہ میں اب
دمادم دم کرینگے 

نہ دن کو رات سے اب
کبھی باہم کرینگے

تمہاری دہشتوں کا 
نگوں پرچم کرینگے

تمہاری گولیوں کو 
ہمیں سرگم کرینگے

اُمیدوں کے ستارے
نہیں مدھم کرینگے

بہت ممتاز جلدی 
بلند علم کرینگے  
۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 14 مارچ، 2019

سنو بیٹے ۔ سراب دنیا




سنو بیٹے! میں تیری ماں ہوں 


تومیری گود میں  آیا  تومجھکو ایسا لگا
جیسے جینے کا نیا موقع زندگی نے دیا 
تھام کر جب میں چلی تھی تیری نازک باہیں 
مجھکو لگتا تھا کہ ہر ظلم سے محفوظ ہوئی
عمر کیساتھ بڑھی جب تیری آواز کی گونج
میں نے دنیا کی ہر آواز کو نیچا جانا
تیری سوچوں کو تیری آنکھ سے پڑھ لیتی تھی
تیری خوشیوں کو میں ارمانوں سے لڑ لیتی تھی

میں نے جب جب تجھے سینے پہ سلایا اپنے
تلخیاں ساری زمانے کی تڑپ کر بھاگیں 
تو نے بچپن میں جو اقرار وفا مجھ سے کیئے
بھول جانا نہ میری زیست کا حاصل ہیں وہی
 تو خطاؤں کو میری معاف بھی کرتے رہنا
بنکے تو باپ میرا مجھکو سنبھالے رکھنا 
مجھکو دنیا میں جدا خود سے نہ ہونے دینا 
جیسے میں نے کیا مجھکو بھی نہ رونے دینا

پہلے میں نے تجھے پھولوں سا اٹھا رکھا تھا
اب تیری باری مجھے بوجھ نہ کہنا خود پر
کل تیری ماں تھی تو تُو بوجھ نہیں تھا مجھ پر
آج بچہ ہوں میں تیرا مجھے تکنا ہنس کر
میرا بیٹا ہے میرے باپ سا پیارہ مجھکو
تُو مجھے خود سے کبھی دور نہ ہونے دینا
میں تیرے چہرے میں ڈھونڈوں گی جوانی ممتاز
تو میرے چہرے میں ڈھونڈا کرو بچپن اپنا

                    ۔۔۔۔۔۔۔۔


بنا تیرے بھی مکمل ہے ۔ سراب دنیا




بنا تیرے بھی مکمل ہے
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

بنا تیرے بھی مکمل ہے یہ حیات میری
اسی سفر میں رواں ہے یہ کائنات میری

ادھوری چھوڑ گئے تم جو اک زمانے میں
اکیلے آج مکمل کروں گی اپنی بات میری

فلک کے چاند ستاروں نے حال دیکھا ہے
حیات کس نے کی دنیا میں بے ثبات میری

ہوا کے رخ کو بھی میں اپنے حق میں کر لوں گی
بڑے عذاب لگائے ہوئے ہیں گھات میری

جو مجھ سے واسطہ رکھے اسے پتہ ہو گا 
میں تم کو عیب بتاؤں یا پھر صفات میری

جنہوں نے نام سے ممتاز پہلی بار کہا 
 وہ سن چکے تھے کسی طور مناجات میری
۔۔۔۔۔۔۔۔

خریدے جنت ۔ سراب دنیا





ہے کوئی۔۔۔
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)




 ہے کوئی آج جو بن دیکھے خریدے جنت
چاہیئے آج ذبیدہ سی خریدار مجھے


کل تلک میں نے مقدرخود ہی تعمیر کیا
وقت پہ کرنا پڑا آج انحصار مجھے


جان دینی  نہیں  لینے کی یہاں بات کرو
غرض کا آج نظر آتا ہے ہر یار مجھے 

قتل کے واسطے خنجر کی ضرورت کیا ہے
کاٹنے کو ہے بہت لہجے کی تلوار مجھے

میں نے کتنوں کو بٹھایا ہے سہارا دیکر
تو نے  کیوں سمجھا ہے  بوسیدہ سی دیوار مجھے

یہ میرے ساتھ دعاؤں کا اثر ہے شاید
مالک دو جہاں کرتا نہیں لاچار مجھے

پشت پہ میرے وہ ہنستے بھی دِکھے ہیں اکثر
سامنے ملتے تھے ممُتاز جو غمخوار مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کیا سے کیا نکلا ۔ سراب دنیا


کیا سے کیا نکلا
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)


جس کو چاہا وہ بےوفا نکلا
کیا سمجھتے تھے کیا سے کیا نکلا

اس نے جو مشورے دیئے تھے کبھی
ان سے مشکل ہی  راستہ نکلا

جس کو سمجھا تھا راحت جاں وہ تو
ایک جھلسی ہوئی ہوا نکلا

زخم دینا تو اس کی فطرت ہے
جو سراپائے التجا نکلا

جب بھی چاہا کہ دل یقیں کر لے
خواب کا کوئ سلسلہ نکلا

یوں نہ ممتاز دو ہمیں الزام
دو دلوں کا یہ فاصلہ نکلا
۔۔۔۔۔۔۔



برستی بارش/ شاعری ۔ سراب دنیا


                 برستی بارش
                   (کلام/ممتازملک ۔پیرس)

☔آنکھ کو اشک پلاتی ہے برستی بارش
پھر سے کچھ یاد دلاتی ہے برستی بارش


☔کتنے بچھڑے ہوئے لوگوں نےصدا دی        دل میں
رنج وغم خوب کھلاتی ہے برستی بارش


☔پھول جھڑتے ہیں ثمر بار شجر سے         اکثر 
شاخ دل آ کے ہلاتی ہے برستی بارش


☔یوں تو سادہ سا ورق ہے دلِ نازک  اپنا 
خواب رنگین دکھاتی ہے برستی بارش


☔گونجتے ہیں کئی سناٹے ہنسی سے اپنی
        آہ کے گیت سناتی ہے برستی بارش


☔بند کمروں کے اندھیرے جنہیں بھاتے ہیں بہت
صحن میں انکو بھی لاتی ہے برستی بارش


☔چھوڑجاتا ہے جو طوفان  میں کم ظرف ہے وہ
ورنہ محبوب ملاتی ہے برستی بارش


☔کہیں میٹھے کہیں نمکین سے پکوانوں  سے 
پاس مہمان بلاتی ہے برستی بارش


☔بجلیاں لے کے نکلتے ہیں مسافر بادل 
پھر جہاں چاہے گراتی ہے برستی بارش


☔روٹھ جائے تو بھری بستیاں ویران کرے  
  پڑھ کر استسقاء یہ آتی ہے برستی بارش


☔یاد پھولوں کی انہیں آئی ہے ممتاز تو کیا
کتنے پیاروں کو مناتی ہے برستی بارش
                     ۔۔۔۔۔

16دسمبر کے شہزادے ۔ سراب دنیا


سولہ دسمبر
 کے شہزادے
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)


شہزادوں سی شان تھی انکی
رب سے کچھ پہچان تھی انکی

جبھی تو ماوں کے ہاتھوں سے 
سج دھج کے مقتل کو نکلے 

قتل اور قربانی میں لوگو
کچھ تو تم تفریق کرو

وہ تو واپس نہ آئیں گے 
تم ہی کچھ تحقیق کرو

دشمن کو بتلا دو لہو ہم 
ممتاز چراغوں میں بھرتے ہیں 

جس سے وہ دہشت کھاتے ہیں
ان سے گھر روشن کرتے ہیں 


۔۔۔۔۔۔


کوئی وادی کشمیر نہیں ۔ سراب دنیا



کوئی وادی کشمیر نہیں 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)


تو ستم ڈھائے چلا جائے میں روؤں بھی نہیں 

یہ میرا دل ہے کوئی وادی کشمیر نہیں 

میں  جستجو نہ کروں بخت تک رسائی کی 
کیا شاہراہ محبت یہاں تعمیر نہیں 

تمہیں خبر ہے اگر ہمکو بھی ملا دینا 
ہمیں تلاش تھی جنکی وہ بے نظیر نہیں 

یہاں پہ اپنی حکومت ہے حکم دے نہ ہمیں

یہ میرے دل کا جہاں ہے تیری جاگیر نہیں


بہت پکایا ہے رنگوں کو آنچ دے دیکر

ناپائیدار سے رنگوں کی یہ تصویر نہیں 

یہ کیسے ہوگا کہ سچا نہ ہو سکے ممتاز 

فجر کے خواب کی کیسے کوئی تعبیر نہیں 

وہ جس کی کوکھ میری پہلی کائنات ہوئی

دعا میں ماں کے اُسی کیا کوئی تاثیر نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


















کهول دے یہ در بیٹا ۔ سراب دنیا



کهول دے یہ در بیٹا
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)


مجھ پہ تو کهول دے یہ در بیٹا
ورنہ ہو گا تو دربدر بیٹا

مجه کو گر یہ نصیب ہو نہ سکا
تجه کو بهی نہ ملے گا گهر بیٹا

 یاد کر ان تمام سالوں کو
 میرا کاندھا تھا تیرا سر بیٹا

تیری اک اک کسی ضرورت پر
.میں نے کهٹکائے کتنے در بیٹا

باپ سے تیرے مار کهاکها کر 
تیری خاطر نہ چھوڑا در بیٹا

تجه کو قابل بنانے کی خاطر
بیچ ڈالے سبهی ہنر بیٹا

تجه کو سوکهے پہ ڈال کر اکثر
 رات گیلے پہ کی بسر بیٹا

آنکه میں بھر کے تیری صورت کو
خواب میرے گئے بکهر بیٹا

کوکه میں تجه کو لے کے جب آئی
ساری دنیا سے تھا مفر بیٹا

آج تو قد سے میرے اونچا ہے
 تو یہ مشکل ہے کیوں ڈگر بیٹا

تیری غوں غاں سمجهنے والی ماں
جس کی سمجھا نہ تو نظر بیٹا

پرورش کے لئے تیری میرے
شوق کتنے گئے تھے مر بیٹا

تو نے جس دن نگاہ بدلی تهی 
میں جہاں سے گئی گزر بیٹا

میں نہ ہونگی تمہاری دنیامیں 
خاک  اڑائے گی رہگزر بیٹا

پھر اٹھا پاؤنگی نہیں ممتاز 
اپنی چوکھٹ سے تیرا سر بیٹا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


درد پرانے کتنے ۔ سراب دنیا


             درد پرانے کتنے
             (کلام/ممتازملک ۔پیرس )
صبح کے ساتھ نئی سوچ نئی فکر جگی 
شام ہوتے ہی جگے درد پرانے کتنے

کل جسے ہم نے سکھایا تھا تکلم کرنا
آگئے اس کو ذرا دیکھ  بہانے کتنے

ایک لمحہ کبھی صدیوں سا معلق  رکھتا 
بیت جاتے ہیں گھڑی بھر میں زمانے کتنے

ڈھونڈنے والے اسے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں  سدا
 یوں تو بدلے تھے یہاں اس نے ٹھکانے کتنے

کر نہ مجبور ہمیں آنکھ ملانے کے لیئے
جانے نظروں سے عیاں ہونگےفسانے کتنے

درد ہے رنج ہے وحشت ہے جنوں ہے اپنا
دل میں ہم لوگ چھپائے ہیں خزانے کتنے

وہ نہ آیا کہ دکھی جس سے ہوا جی اپنا
یوں تو آئے تھے ہمیں لوگ منانے کتنے

بن کے انجان زہر اس نے پیا او بےخبر 
آئے ممتاز کے ہمدرد  بتانے کتنے
                     ۔۔۔۔۔۔



بدلتے گھر ۔ سراب دنیا


بدلتے گھر
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

میں نے دیکھاہے پرندوں کو بدلتے ھوۓ گھر
گھونسلہ ٹوٹنے پہ اُن کو بھٹکتے در در

کبھی صیّاد کی گولی کا نشانہ بنتے
اُن کی کھالوں میں بھرے بھُس سے بناۓ بستر

سوچ لیں وہ کہ جنہیں اپنا اصل یاد نہیں 
روند کے وقت نکلتا ہے بدل کر منظر

وہ جواں جس سے جوانی نہ سنبھالی جاۓ
اور لعنت کہ ضعیفی بھی نہ جاۓ بچ کر 

دوست دیکھے ہیں گزرتے یہاں ممّتاز بہت
لب پہ مسکان تو ہاتھوں میں اُٹھاۓ نشتر
                         ۔۔۔۔


بربادیء امت/ شاعری ۔ سراب دنیا



بربادیء امت 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

بربادیء امت پہ پریشان بڑا ہے
امی یہ تیراخود بھی تو حیران بڑا ہے

خالی ہےعمل سے یہ مگر سوچ رہا ہے
خاموش ان حالات میں رحمن بڑا ہے

پُرداغ جوانی ہے تو ناپاک بڑہاپا
ہاں نصرُ من اللہ پہ ایمان بڑا ہے

پھرتا ہے تصور میں مدینے کی گلی میں 
لیکن یہ کھلی آنکھ سے شیطان بڑا ہے

اپنی تو حیات اس نے اندھیروں میں گزاری
اوروں کے لیئے لے کے شمعدان کھڑاہے

کردار سنوارے نہ ہی گفتار سنوارے
 ممتاز یہ جنت کا نگہبان بڑا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔



قابل غور ہوں ۔ سراب دنیا


            قابل غور ہوں 
        (کلام/ممتازملک۔پیرس)


نہ ہوں ہمت میں  کم نہ میں کمزور ہوں
نام عورت میرا  قابل  غور ہوں


یہ نہ سمجھیں کہ ہوں  بے زباں پالتو
تہہ میں اترو سنو شور ہی شور ہوں


نہ الجھنا کبھی میرے پندار سے 
ظلم کو کاٹنے والی اک ڈور ہوں


تم سے آگے نہیں تو نہیں پر سدا
ہاں مقابل تمہارے بہر طور ہوں


جو تناور درختوں کے بس میں نہ تھا 
آندھیوں سے الجھتا میں وہ زور ہوں


بن میں ناچے اور اس کو بھی رنگیں کرے 
خاموشی میں پکارے میں وہ مور ہوں


راحت جاں ہوں سمجھو تو مرہم ہوں میں 
درد کا میں علاج ایسا فی الفور ہوں


مجھ کو جتنا بھی پیچھے دھکیلا گیا
اتنا ممتاز بڑھتا ہوا دور ہوں
               ۔۔۔۔۔                   


                  

نوحہ غم ہے ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا




نوحہ غم ہے
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)


نوحہ غم ہے اس پہ کیا کہئیے
ہر گھڑی آنکھ نم ہے کیا کہئیے 

چیرتی جا رہی ہے روحوں کو 
 درد جتنا ہو کم ہے کیا کہئیے

زہر لفظوں میں گُھل گیا اتنا
 چاشنی اب عدم ہے کیا کہئیے 

ہائے آوارگی کا کیا شکوہ 
 سب کا شکوہ ستم ہے کیا کہئیے

اتنے پهولوں پہ خاک ڈالی ہے 
اب تو گردن بهی خم ہے کیا کہئیے

ہم نہ پہچان پائے لاشے کو
دوستی سرقلم ہے کیا کہئیے

گھر میں میرے ہو روشنی کیسے
کب چراغوں میں دم ہے کیا کہئیے

ماتمی شور کر گئی بہرا
 اور بصارت الم ہے کیا کہئیے

جس کی چادر چهنی اجالے میں
 زندگی شام غم ہے کیا کہئیے

جو بهی اٹھتا ہے امن کی جانب
لڑکهڑاتا قدم ہے کیا کہئیے

 منزلوں تک پہنچ نہیں پاتا
 سوچ میں ہی سُکم ہے کیا کہئیے

اب تو ممتاز دل کی تختی پر
درد ہی تو رقم ہے کیا کہیئے
۔۔۔۔۔۔۔۔   سراب دنیا 


دل و جا ں نثار ۔ ۔ سراب دنیا


دل و جاں نثار
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

اس پاک سرزمیں پہ دل و جاں نثار ہوں اک بار نہیں جب بھی جیوں بار بار ہوں 

اس کائنات میں ہے تیرے دم سے روشنی
اس روشنی پہ ہم سبھی پروانہ وار ہوں

چاہے کہیں بھی جا کے ہوں آباد مگر سچ
 اس نام پہ شکرانہ پروردگار ہوں

 آ کر تیری آغوش میں سب بادشاہ ہوئے 
آوارہ راستوں کے ہی گردو غبار ہوں  

ملتا ہے چین آ کے اسی سرزمین پر  
کتنے بھی دل گرفتہ ہوں یا بیقرار ہوں

ممتاز پاک نام ہے ایمان کا حصہ
میرے لہو کی گردشیں اس سے شمار ہوں 
۔۔۔۔۔




شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/