(71) رختِ سفر
چلو کہ رخت سفر ہے باندھا
ہمارا بھی منتظر کوئی ہے
ہمارا بھی منتظر کوئی ہے
وہ جن کا اپنا کوئی نہیں ہے
نہ سوچوانکا بھی گھر کوئی ہے
نہ سوچوانکا بھی گھر کوئی ہے
جو رکھتے ہیں شوق خودنمائی
جو اپنے پنجوں پہ قد بڑھائیں
جو اپنے پنجوں پہ قد بڑھائیں
صدا دکھانے کو دے رہے ہیں
بتاؤ اہل ہنر کوئی ہے
بتاؤ اہل ہنر کوئی ہے
طویل کتنی ہو رات کالی
مگر یہ رکھنا یقین لازم
مگر یہ رکھنا یقین لازم
مثال پچھلی تمام راتیں
ضروراسکی سحر کوئی ہے
ضروراسکی سحر کوئی ہے
جہاں یہ اپنا وجود کھو دے
وہیں یہ بیخود دھمال ڈالے
وہیں یہ بیخود دھمال ڈالے
یہ کون آ آ کے پوچھتا ہے
فقیر کا بھی نگر کوئی ہے
نہ ڈگمگائیں قدم کہیں پر
نہ ان میں کوئی بھی موڑ آئے
یہ رکھ کے ہاتھ اپنے دل پہ کہنا
جہاں میں ایسی ڈگر کوئی ہے
خود اپنی آنکھوں سے دیکھکر بھی
یہ پوچھتےہوکہ حال کیاہے
کوئی بتائے سوال کا اس
کہیں پہ پیر اور سر کوئی ہے
جو بات کا در کھلا رہے تو
فساد کا در بھڑا رہیگا
یہ ہی تھا ممتاز تم سے کہنا
کہوشکایت اگر کوئی ہے
●●●
فقیر کا بھی نگر کوئی ہے
نہ ڈگمگائیں قدم کہیں پر
نہ ان میں کوئی بھی موڑ آئے
یہ رکھ کے ہاتھ اپنے دل پہ کہنا
جہاں میں ایسی ڈگر کوئی ہے
خود اپنی آنکھوں سے دیکھکر بھی
یہ پوچھتےہوکہ حال کیاہے
کوئی بتائے سوال کا اس
کہیں پہ پیر اور سر کوئی ہے
جو بات کا در کھلا رہے تو
فساد کا در بھڑا رہیگا
یہ ہی تھا ممتاز تم سے کہنا
کہوشکایت اگر کوئی ہے
●●●
کلام: مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●