ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 16 اگست، 2013

● (56) فطری دھمال/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے




(56) فطری دھمال


ہر کوئی گھومتا ہے زمانے کی چال پر
شاید ہے محورقص وہ فطری دھمال پر 

  وہ کہہ رہا ہے خوبیاں اپنی تلاش کر 
  دوجے کو دیکھ اپنا نہ چہرہ گلال کر  

 بے پر کی اڑاتا ہے جو لفظوں کے کھیل میں 
  کوئی تجھے پرکھے ہے مصیبت میں ڈال کر 

  آئیگا کسی روز مجھے لینے سنا ہے  
اس دن کا انتظار کروں دل سنبھال کر 

  آئیگا وہ تو ساتھ مجھے لیکے جائے گا 
 تیار نہ اسکے لیئے حیلوں کے جال کر

   لمبی اڑان بھر کے بہت تھک گیا ٹہر
  تو اڑ چکا پر پُرزے بہت سے نکال کر 

 پُرکاریاں تیری جو کسی کام آسکیں  
 ممتاز انکو گدڑی میں رکھنا سنبھال کر
●●●
 کلام:ممتاز ملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
 ●●●   

● (55) سلسلے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(55) سلسلے


کتنے بےربط سلسلے ہیں سبھی 
 پھر بھی لگتا ہے ہم ملے ہیں کبھی  

 کوئی رشتہ ہے آنسوؤں  سے کہیں
   اس لیئے اتنے دل جلے ہیں سبھی  

 اک عجب سا جمود طاری ہے  
زخم بھی کچھ تو ان سلے ہیں ابھی 

  موت کی آرزو بھی کیا کرتے   
 زندگی سے کئی گلے ہیں ابھی

   دل کی کشتی ہے وقت کا طوفاں
پھر بھی ساحل سے جا ملے ہیں کبھی  

 کانچ کا زخم سے جو رشتہ ہے
  بس اسی طور مرحلے ہیں ابھی

  میں ہوں مُمتاز چُپ وہ جان تو لے
دل سے دل کس طرح ملے ہیں کبھی 

●●●
 کلام: مُمتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (36) ہنستے ہوۓ ڈر جاتے ہیں / شاعری۔ میرے دل کا قلندر بولے




(36) ہنستے ہوۓ ڈرجاتے ہیں


جانے کیا بات ہے ہنستے ہوۓ ڈر جاتے ہیں  
 چلتے چلتے ہوۓ رستے میں ٹہر جاتے ہیں  

 مارنے کے لیئے ہتھیار ضروری تو نہیں 
  ہم تو احساس کی شدت سے ہی مر جاتے ہیں 

   نام کے اپنوں نے تاعمر کیا ہے رسوا 
  اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے بھی گھر جاتے ہیں  

  یہ الگ بات کہ ہم خود ہی فراموش کریں 
 کون کہتا ہے کہ حالات سنور جاتے ہیں 

  یوں نہ مغرور ہو تُو اپنی مسیحائی پر 
  زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں

   جھوٹ کا ساتھ نہ دینے کی قسم کھائی تھی 
 پھر بھی تیرے لیئے ہم سچ سے مُکر جاتے ہیں  

 کیا قیامت کا یہ احوال تجھے یاد نہیں  
 روئی کے گال سے پتھر بھی بکھر جاتے ہیں  

  لفظ کے کھیل میں ماہر تھے کبھی ہم بھی مگر
   اب تو صدیوں یونہی خاموش گزر جاتے ہیں  

  جو دیئے شب میں جلے انکو سنبھالو مُمتاز
   سارے چڑھتے ہوۓ سورج تو اتر جاتے ہیں
●●●
   کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: (2014ء)
●●●


 

● (25) عزت یہ زمانے میں/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




(25) عزت یہ زمانے میں 



کب ہم کو میسر تھی عزت یہ زمانے میں
   مصروف تھے جینے کی اک رسم نبھانے میں 

 کوئ کہاں سنتا ہے کیا کس پہ گزرتی ہے  
 کچھ عمر گنوانے میں کچھ زخم دکھانے میں 

    آئی یہ ندا ہمکو چپ چاپ چلے آؤ  
جو دل پہ گزرتی ہے وہ حال سنا جاؤ 

  جب آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ عجب عالم 
  تھی غرق وہاں دنیا احوال سنانے میں 

  چُپ چاپ تکے ہم تو خاموش رہے ہم تو 
  اپنا تھا بہت ہلکا اوروں کے سنے غم تو

   سر اپنا جھکے دیکھا تو عقل چلی آئی 
جنبش جو ہوئی لب کو لگ جاتی بتانے میں

  دل درد کا ساگر ہے اور آنکھ کا پیالہ ہے
  ہر لمحہ بھرا اسکو ہر لمحہ نکالا ہے 
 تھوڑی سی تشفی بھی شاید نہ اسے بھائی
   مصروف رہی دنیا ساگرکو سکھانے میں  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
    ●●●    

● (39) برسر منبر/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(39) برسر منبر 




چراغاں بر سر منبر مگر نیچے اندھیرا ہے 
 تجھے اے روشنی کس نے وہاں جانے سے گھیرا ہے 

 کہا یہ روشنی نے بے تحاشا اس سیاہی نے  
  قبا والوں کے دل اندر بھی جسکا ایک ڈیرا ہے

بہت ہمت میں کرتی ہوں مگر میں جا نہیں سکتی 
 بناۓ صورت مومن مگر دل کا لٹیرا ہے  

خدا کے گھر میں اپنے آپ کو دھوکے سے نہ روکے 
 ہمیشہ یہ یقیں رکھنا وہ تیرا ہے نہ میرا ہے  

 کرم کی اک نظر سے جس جگہ قسمت بدلتی ہے  
وہاں ان بد نصیبوں نے کیا سایہ گھنیرا ہے
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (37) سو جنازے/ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے


(37) سو جنازے

 
ارے دیکھی ہے ایسی ماں
جو اپنے پیارے بیٹے کا
جنازہ سامنے رکھ کر
جمے جاڑے میں بیٹھی ہے
خدا سے پوچھ بیٹھی ہے
کہ اب کون آۓ گا یارب
جو میری آنکھ کے آنسو
گرم ہاتھوں سے پونچھے گا
سینے سے لگا کر جو
دوپٹہ سر پہ رکھے گا
جو تھامے ہاتھ بیوی کا
گلے سے لگ کے بچوں کے
کہے گا تم نہ گھبرانا
تمہارے واسطے میں ہوں
تمہیں رونے نہیں دوں گا
لہو ہو یا تیرے آنسو
ضیاں ہونے نہیں دوں گا
تیرے میں پونچھ کر آنسو
تجھے رونے نہیں دوں گا
کبھی رونے نہیں دوں گا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (53) دو آنکھیں/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(53) دو آنکھیں


 
ایسا کیوں مجھ کو لگتا ہےجھانک رہی ہیں دو آنکھیں
    میری آنکھیں لینے والو مجھ کو بھی اب دو آنکھیں 

   راستہ تکتے  رہنے کی جب اتنی عادی ہو جائیں   
دہلیزوں پر بیٹھے بھی اکثرجاتی ہیں سو آنکھیں 

 تم کو سہارا دینے کی خواہش میں ہی  ہم نے بھی 
  روشنیوں کے بازاروں میں جانے کب دیں کھو آنکھیں 

  دل کا درد چھپانے کی کیسی بھی کر لو کوشش 
 بھید یہ کھولیں سوجی سی  بیکل سی رو رو آنکھیں 

قبل اس کے ممتاز کہ منظر پہنچے دل کے پردے تک
میں نے کھارے پانی سے لی ہیں اپنی دھو آنکھیں 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء 
●●● 
  بیوپار /  BUPAR



بیوپار



اک تصویر دی مار نے لوکی
کر دے کی بیوپار نے لوکی

سوہڑیاں رناں کار بیٹھا کے
کوجیاں دے ہوڑں یار اے لوکی

اک پل نوں جے ساہ رُک جاوے
فیر پھلاں دے ہار نے لوکی

کمزوراں نوں زور وکھاوڑں
زور آور اگے ہار دے لوکی

سامڑیں آ کے جپھیاں پاوڑں
بچھوں خنجر مار دے لوکی

دھیاں والے جاڑندے نے اے
کیوں ہوندے لاچار نے لوکی

سچ بولن جے ودے کوئ
طعنے لکھ لکھ مار دے لوکی

حوصلہ مند نوں اگے کر کے کے
کلیاں سولی چاڑ ھدے لوکی

چنگا قدم اُٹھاون دے لئ
ممتاز کرن تکرار اے لوکی
کلام / مُمّتازملک
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 

● (58) ساز باز / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے





(58) ساز باز 


دل جلایا بڑا زمانے نے
 پھر  بھی کرنا نہ ساز باز آۓ  

   لوگ پتھر ہوۓ ہیں جن ہاتھوں
    ہم انہیں پر جگر گداز آۓ

   اپنے زخموں پہ جب نظر ڈالی
   زخمی دل کی وفا پہ ناز آۓ

  جنکو تنقید سے ملے تسکیں
 خود پہ کرنے نہ اعتراض آۓ

   جانے مُمتاز دل دکھانے سے
  باز کیوں نہ وہ دلنواز آۓ    
●●●
 کلام:مُمتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

بنجر زمینیں۔ اردو شاعری




بنجرزمینیں


بنجر زمینیں خون سے آباد ہو گئیں   
بسنے کو اجڑی بستیاں بیتاب ہو گئیں 

  آنکھیں تھیں خشک غم میں خوشی میں بھی دوستو 
  محسوس کیا ہوا تھا کہ پُرآب ہو گئیں

   جن کے وجود سے تھا کبھی محفلوں میں رنگ 
  کتنی حسین صورتیں  کمیاب ہو گئیں 

  بھر کے نظر نہ جن کو گوارہ تھا  دیکھنا
     کچھ ہستیاں دیئے سی وہ ماہتاب ہو گئیں  

 سنتے ہیں دوستی بھی کبھی کوئی چیز تھی
  اب دوستی کی باتیں  بھی نایاب ہو گئیں 

  ہے وقت بہت تیز سفر پر رواں دواں  
 گفت و شنید آرزو احباب ہو گئیں

   مُمتاز نئی بات کوئی آج چھیڑیئے 
 پچھلی کہانیاں  سبھی مضراب ہو گئیں 

کلام/ ممتاز ملک  
.........


کچھ نام


کچھ نام

کچھ نام زباں پر ہوتے ہیں 
  کچھ رہتے دل میں گھر کر کے 
  
 کچھ ناطے وقت گزاری کے 
  کچھ رشتے باہیں بھر بھر کے

   کچھ اشک تو رہتے پلکوں پر 
  ہر جنبش پر جو گر جائیں 
 پر ان اشکوں کا کیا کیجیۓ
  جو دل میں بہیں دریا بن کے

 آ  پار کریں دریا ہم بھی   
آجانچیں اسکی گہرائ  

  لازم تو نہیں کہ مر جائیں
   ہم چار قدم غم کے دھر کے 

  مظلوم بھی ظالم ہوتا ہے  
جو سہتا ہے پر کہتا نہیں

  اٹھو آواز اٹھا لو اب
  پھر ہاتھ گھماؤ اک دھر کے

 یا سینہ تان کے نکلو تم
   یا مر جاؤ خاموشی سے

  کوئ اسکو یاد نہیں کرتا 
  لاکھوں گزرے ہیں کھا مر کے

  اک بدمعاش ہزاروں پر
 کیسے بھاری ہو سکتا ہے

   کیوں کہ تم اسکے غلاموں میں
 مُمتاز کھڑے ہو بت بن کے

 کلام / مُمتاز ملک 
 ..................

● (52) کچھ رنج/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




(52) کچھ رنج



کچھ  رنج بھی ہوتا ہے کچھ درد بھی ہوتا ہے  
جب چوٹ پڑے دل پر رنگ زرد بھی ہوتا ہے

   کچھ نرم سے گدوں پر بے خواب ہی رہتے ہیں 
   کوئی یہاں پیڑوں کی چھاؤں میں بھی سوتا ہے  

 نفرت کی فصل کو جو پروان چڑھاتا ہے
   بدنام ہی ہوتا ہے جو بیج وہ بوتا ہے 

 پہلے تو بڑے شوق سے اک درد دیا اسنے
 پھر اشک ندامت سے ہر داغ کو دھوتا ہے

  جذبات کی آندھی میں برباد بھی کرتا ہے 
  طوفان اترنے پہ دامن کو بھگوتا ہے  

میں معاف اسے کر دوں یہ بات نئی کب ہے 
  اکثر یہ ہی ہوتا ہے اکثر یہ ہی ہوتا ہے

  مُمتاز گرہیں ہاتھ سے جلدی میں لگاتے ہیں
   دانتوں سے اسے کھولتے دل خون بھی روتا ہے
●●●
  کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

بھول


بھول

پہلے خوشی سے دل پہ میرے پاؤں رکھ دیا 
  پھر کہہ دیا کہ مجھ سے بڑی بھول ہو گئ  

 کٹھنائیوں کے پار لگایا تو کہہ دیا  
اب ساتھ تیرے زندگی فضول ہو گئ  

 ہم نے جوانی تیری محبت پہ پہ وار دی 
  اب راستوں میں اڑتی ہوئ دھول ہو گئ  

 الفاظ تیرے منہ سے نکلنے کی دیر تھی 
 جو تھی بری وہ بات بھی معقول ہو گئ 

  ہاتھ اٹھنے سے پہلے بھی دعا تو کبھی کبھی 
  کیا جانتے نہیں ہو کہ مقبول ہو گئ 

 مُمتاز ہم قدم بھی ابھی نہ جما سکے 
 دنیا تو انتخاب میں مشغول ہو گئ 

 کلام  مُمتازملک  
..................

● (51) مواقع/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(51) مواقع



سارے مواقع تو نے ہی پیدا کیئے خدا
   میری تو اسمیں کوئی بھی کاوش نہیں رہی   

کہتے ہیں سب کہ تیرے خیالات ہیں بلند
   کہتے ہیں ہم کہ ایسی بھی دانش  نہیں رہی 

 پیچھے بہت ہی پیچھے کہیں چھوڑ آئے ہیں
  اب شوق کی کوئی بھی تو آتش نہیں رہی

  لوگوں کے خول ایسے اترتے نظر آئے 
اب خود میں جھانکنے کی بھی خواہش نہیں رہی 

 بکھرا  ہے جسطرح سے درد کائنات میں 
 جانا یہ جب سے خود سے بھی رنجش نہیں رہی 

 مُمتاز گھومتے ہیں چلو اس زمیں کے گرد 
  اب جسکے حال کی کوئی پُرسش نہیں رہی 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (40) شہر سو چکا/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے



(40) شہر سو چکا


شہر کا شہر سو چکا ہے مگر
  کچھ خدا والے جاگتے ہوں گے 

   اشک سے دامنوں کو تر کر کے
   خیر اوروں کی  مانگتے ہوں گے   

  ایسے لوگوں کے واسطے بھی جو 
 پیچھے شیطاں کے بھاگتے ہوں گے

    اپنی ناسودہ خواہشوں کے لیئے
حد خدا کی پھلانگتے ہوں گے

   جھوٹ کا تاج سر پہ رکھ کے بھی 
  شرم کو دور ہانکتے ہوں گے

  یہ خدا والے بند آنکھوں  سے 
  دل میں ممتاز جھانکتے ہوں گے  
●●●
کلام: ممتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●   

کتنے رنگ




کتنے رنگ

اور تو کتنے رنگ بدل کر میرے سامنے آئیگی 
   اور تو کتنے دھوکے دیگی  کتنے ناث دکھائیگی

  نہ تجھ میں تہذیب کہیں ہے نہ تیرا ایمان کوئ
    جو تیرا اعتبار کریگا  اسکو جُل دے جاۓ گی 

 دل پر ایسا وار کریگی دل کے ٹکڑے چار کریگی 
  روشن آنکھ اور  سنتے کان  میں کتنا زہر گھلاۓ گی  

 جو بھی تیرے پیچھے آیا رسوا ہوا بدنام ہوا 
  جتنا تجھ سے دور میں بھاگوں اتنا پیچھے آۓ گی 

 اپنے اپنے ظرف کے جیسا سب کا تیرے ساتھ رویہ
  لیکن تُو تو اک لاٹھی سے سب کو ہانکے جائیگی

تجھ سے تو مُمتاز کی راہیں کبھی بھی مل نہ پائیںگی 
 تم میں ہے گر رتی غیرت منہ نہ مجھے دکھاۓ گی 

  کلام / مُمتازملک
................

مرہم ہاتھ



مرہم ہاتھ


میں نے مرہم رکھنے والے  ہاتھوں زخم اٹھاۓ ہیں 
  جس سے دوا کی تھی امید درد اسی سے پایا ہے  

 گل بلبل کو بیچ رہا ہے  بلبل نے بھی چاہت سے 
  گل کی بولی لگوانے کو اک بازار سجایا ہے  

پھرحام اورسام کی جنگ ہے یہ اور وقت بڑا سرکش لوگو
   پھر زرداروں کے ٹولے نے سب کا وزن گھٹایا ہے

   جو تو نے تجوری میں رکھا وہ خون اور پسینہ میرا ہے 
  اب سانپ اور بچھو بننے کو بیتاب تیرا سرمایہ ہے  

 اک الٹے پھیر کی باری ہے اور بہت بڑی تیاری ہے 
یہ وقت کی ٹک ٹک نےہم سے ہنستے ہنستے فرمایا ہے

 کلام / ممتاز ملک .
....................

● (28) تیرادل میرا گھر / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(28) تیرادل میرا گھر


تیرے دل کے راستے میں میرا گھر کہیں نہیں تھا
جو تجھے عزیز ہوتا وہ ہنر کہیں نہیں تھا


تجھے ڈھونڈنے نکلتے کسی روز پا ہی لیتے
مگر ان ہتھیلیوں میں وہ سفر کہیں نہیں تھا

 
یوں تو وقت ہے مقرر کسی کام کا مگر کیوں
میری روح کو شاد کرتا وہ گجر کہیں نہیں تھا


نہ ہی دلنواز ادائیں نہ ہی شوق جاں سوزی
میرے دل کا یہ مسافر کہیں دربدر نہیں تھا


میں ہوں خوش گمان ورنہ مجھے سوچنا تھا لازم
میرے جانے سے اُجڑتا وہ شہر کہیں نہیں تھا


نہ تو جسم کی طلب ہے نہ ہی حسن کی تمنا
یہ معیار نہ تھا میرا میں بھی منتظر نہیں تھا


مجھے ہے تلاش اس کی جو ہے قدرتوں سے باہر
مجھے اس سے اور بہتر کوئی چارہ گر نہیں تھا


میری ساری آرزوئیں ممتاز پوچھتی ہیں
تُو یہ کیسے کہہ سکے گا تیرا راہبر نہیں تھا

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

(49) وابستگی / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(49) وابستگی


میں جس سے وابستہ ہوں اسکا حکم ہے  
  بے اجازت سایہء دیوار بھی تم پر حرام  


 بےدھڑک بازی لگاتے عشق کی جو دعویدار  
 جب یقیں دل میں ہو تو پھر کیا سوالوں کا ہے کام

   اُس پہ چھوڑو فیصلے اچھے برے کوئی بھی ہوں
    جستجوۓ حق میں پھر مرضی کا میری کیا مقام

   میٹھی میٹھی بولیوں میں خود کو جب سنتا ہے وہ 
  مسکرا کر بخش دیتا ہے مجھے حرف کلام 

  ایک میں ہوں ایک تُو ہو اور پھر اک جستجو ہو
   جھومتا ہو یہ زمانہ  وجد  میں ہوں صبح و شام

   چند لمحے خود کو اسمیں جوڑ کر تُو دیکھنا 
   زخم بھی پھر  بھول جائیں گے صدائے انتقام 

  اب بھی گر مُمتاز کر دے وقف اپنی ذات کو
  بے حقیقت تیرے آگے دنیا کے رنج و آلام 
●●●
 کلام: مُمتاز ملک  
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
 ●●●

◇ ● (30) رحمت/ نظم ۔ میرے دل کا قلندر بولے۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


(30) رحمت


مجھے رحمت بنا کر اس جہاں میں     ہزاروں رنگ دیکر تھا اتارا  
 میرے چاروں طرف                        رشتوں کا اور عزت کا گھیرا
 بنا کر آنکھ کاروشن ستارہ             
  میرے رب نے بڑے ہی چاؤ سے تھا
 مجھے دلکش جہاں میں لا اتارا            
   مگر یکدم یہ کیا سے کیا ہوا ہے 
 کہ بابا جان کا دشمن ہوا ہے                      تو بھائی  
 اک لٹیرا بن گیا ہے
  بتاؤ مجھ کو میرا گھر کہاں ہے          پناہ مل جاۓ مجھکو  
 وہ ایسا در کہاں ہے     
  یہاں جو چاہے
 لیکر ہاتھ میں تیزاب کی بوتل  
 عطا کردہ خدا کے حسن کو 
برباد کر دے  
  میں جب انکار کر دوں نفس کے شیطان کو تو 
  وہ مجھ کو جس طرح چاہے
  سڑک پر لا کے پٹخے  
 اور پھر بے حال کر دے 
  خدایا ظلم کی یہ 
  کیسی آندھی چل پڑی ہے
  میری عزت کے رکھوالے  
 میرے ہی دام لگواتے
 نظر آنے لگے ہیں 
   تو گویا 
   حشر ہے اب ایک اک دن  
    جو گزرتا جا رہا ہے  
 کلیجہ میرا اب کرنے کو چھلنی  
 نظر کے سامنے    
 خنجر کو دھارا جا رہا ہے 
 مجھے اس ظلم کے مقتل میں لوگو 
  ہنس ہنس کر پکارا جا رہا ہے۔۔۔
                     ●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
       ●●●        

(47) خوابوں کے جزیرے/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے




(47) خوابوں کے جزیرے 


خوابوں کے جزیروں میں سفر ہم نہیں کرتے  
 غیروں کی توقع پہ بسر ہم نہیں کرتے  

 ہم وہ ہیں جو دیتے ہیں تو دیتے ہی گئے ہیں
  بدلے کی توقع پہ نظر ہم نہیں کرتے

   پہلے ہی حساب آج تک بیباک ہوئے نہ  
  بیکار کے جھگڑوں میں گزر ہم نہیں کرتے 

 خود ڈوب کے جانا ہمیں منظور ہے لیکن 
 ٹوٹی ہوئی کشتی میں سفر ہم نہیں کرتے

   یہ زیست بڑی کم ہے مُمتاز خوشی کو
   ویرانیوں کے اسکو نذر ہم نہیں کرتے
●●●
 کلام: مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●
   

(48) خزاں کے پتے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(48) خزاں کے پتے 


خزاں کے پتوں کے جیسا میرا خیال ہوا 
  جو آج اپنے ہی بس میں نہیں کمال ہوا

   نہ جانے تیز ہوائیں کہاں پہ لے جائیں 
 یہ سوچ کر نہ کبھی کوئی اضملال ہوا 

کبھی کبھی ہمیں لگتا شجر سے گر کر بھی 
  کبھی بھی رنج نہ دل کو کوئی ملال ہوا 

  کھدے ہیں نام درختوں پہ اتنے لوگوں کے 
  کہ جنکو یاد بھی رکھنا اسے محال ہوا  

 کبھی تھی آب و تاب  پورے چاند کے جیسی 
 جو بعد مدتوں دیکھا تو اک ہلال ہوا 

 ہزار ہمتیں مُمتاز کر کے جو تھا دیا   
 اسی جواب کے اوپر بھی اک سوال ہوا 
●●●
 کلام: مُمتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●

● (35) شکرانہ/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(35) شکرانہ



 میں نےدیکھاہےسوا تیرےمیرے حالوں پر 
   بات کرنے کو بھی کوئی یہاں تیار نہیں

  ہاں چمکتی ہیں یہاں دیکھ نیامیں سبکی 
 کب ہوا کوئی کسی کا بھی یہاں یار نہیں 

  لب کوسی کرجوچلا کرتے ہیں گھرکی جانب 
 گھر کے دروازے پہ ہوتی کوئی تکرار نہیں

  خوشبوئیں کیسے اس آنگن میں بسیرا کرلیں 
  جسکی دہلیز پہ آیا کوئی عطار نہیں 

  ہاتھ جیسے بھی دھرو درد کی شدت اتنی  
 اب اگر کاٹ بھی ڈالوگے تو انکار نہیں

   کم سے کم اتنا سکوں مجھ کو میسر تو ہے
  اپنے لفظوں میں میں کردار میں مکار نہیں

  احمقوں کی طرح جو ہاتھ بڑھا کر لی ہے
   میرے سر پر کبھی ایسی کوئی دستار نہیں 

  لوگ سونے کے لیئے رب سے دعائیں مانگیں 
  شکر ہے نیند میری مجھ سے یوں بیزار نہیں  

 خواہشوں کے لیئے سرپٹ جو مقابل آۓ 
 زندگی میں میری ایسی کوئی بھرمار نہیں  

 جسکا مقصد ہی نہ ہو بات وہ ہے لاحاصل 
  منتشر سوچوں کی ایسی کوئی یلغار نہیں 

  بات میں ایسا اثر ہو کہے سننے والا
  کوئی بھی بات ادھوری نہیں بیکار نہیں 

 میں تیرا شکر کروں جتنا بھی اتنا کم ہے 
 راستے میں میرے حائل کوئی دیوار نہیں 

    کوئی جھنجھٹ نہیں کہ جس پہ کلیجہ تڑپے 
  مجھ سے ممُتاز بھی ہوتے ہیں کیا جیدار نہیں  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (46) اپنی آنکھیں دیدو/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے



(46) اپنی آنکھیں دیدو


مجھ کو اپنی آنکھیں دیدو میں نے سنا ہے  
 اندھیارے میں دیکھنا انکا خاص ہنر ہے

  اسمیں کوئی چیز بکاؤ نہیں ملے گی 
 کیوں کہ یہ تو میرے اپنے دل کا شہر ہے 

 اسمیں داخل ہونے سے پہلے پڑھ لینا 
  جھوٹ اور لچر پن سے خالی ایک نگر ہے

منہ کو اٹھاۓ اندر آنا ٹھیک نہیں ہے 
 آنے سے پہلے دو دستک یہ بہتر ہے 

 شاید ان سے دل یہ میرا مل نہ پاۓ
 کچھ لوگوں کا آنا اچھا لگا مگر ہے    

  کچےدھاگے سے بندھکرجب ساتھ چلے
  پیار نہیں تھا یہ تو تیرا حسن نظر ہے

جتنا بھی تو توڑنے کی اب کر لے کوشش 
  تیرے مقابل آنا بس میرا ہی جگر ہے  

  ڈوب ڈوب کر اب تو ابھرنا سیکھ لیا ہے  
زندہ ہوں مُمتاز یہی ہمت کی  لہر ہے

●●●
کلام: ممتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء 
●●●

● (24) ٹہر جا/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(24) ٹہر جا



درپیش مسائل کا ہے انبار ٹہر جا
اے خانماں برباد اے لاچار ٹہر جا 

آۓ گا تیرا وقت بھی اتنا تُو یقیں رکھ
نہ ایسے تُو ہو وقت سے بیزار ٹہر جا

کچھ دیر کو خوش ہونے دے شیطان وقت کو
ہیں اور کتنی دیر یہ مکار ٹہر جا

جن کے لیئے بیکار ہے سب درس نصیحت
کر ان سے میری جان نہ تکرار ٹہر جا

اس پر بھی کوئی شاہراہ تعمیر کرے گا 
کچی ہے سڑک رستہ ہے دشوار ٹہر جا

تاریک گلی ہے بڑا خاموش مُحلّہ
گونجے گی کبھی اسمیں بھی چہکارٹہر جا

ہمراہ کوئی دوست بھی تو آج لیئے چل
بیشک ہیں تیرے ساتھ یہ اغیار ٹہر جا

جو سیکھنا چاہیں تو نمل انکو بہت ہے 
بدبخت کو ہر بات ہے بیکار ٹہر جا

گردل ہےسکوں میں نہیں کوئی بھی ملامت
آنکھوں  کو ملیں گے نئے انوار ٹہر  جا 

ممّتاز نہ امید کا دامن ابھی جھٹکو
تبدیلی کے لگتے ہیں کچھ آثار ٹہر جا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/