ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 16 اگست، 2013

● (40) شہر سو چکا/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے



(40) شہر سو چکا


شہر کا شہر سو چکا ہے مگر
  کچھ خدا والے جاگتے ہوں گے 

   اشک سے دامنوں کو تر کر کے
   خیر اوروں کی  مانگتے ہوں گے   

  ایسے لوگوں کے واسطے بھی جو 
 پیچھے شیطاں کے بھاگتے ہوں گے

    اپنی ناسودہ خواہشوں کے لیئے
حد خدا کی پھلانگتے ہوں گے

   جھوٹ کا تاج سر پہ رکھ کے بھی 
  شرم کو دور ہانکتے ہوں گے

  یہ خدا والے بند آنکھوں  سے 
  دل میں ممتاز جھانکتے ہوں گے  
●●●
کلام: ممتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●   

کتنے رنگ




کتنے رنگ

اور تو کتنے رنگ بدل کر میرے سامنے آئیگی 
   اور تو کتنے دھوکے دیگی  کتنے ناث دکھائیگی

  نہ تجھ میں تہذیب کہیں ہے نہ تیرا ایمان کوئ
    جو تیرا اعتبار کریگا  اسکو جُل دے جاۓ گی 

 دل پر ایسا وار کریگی دل کے ٹکڑے چار کریگی 
  روشن آنکھ اور  سنتے کان  میں کتنا زہر گھلاۓ گی  

 جو بھی تیرے پیچھے آیا رسوا ہوا بدنام ہوا 
  جتنا تجھ سے دور میں بھاگوں اتنا پیچھے آۓ گی 

 اپنے اپنے ظرف کے جیسا سب کا تیرے ساتھ رویہ
  لیکن تُو تو اک لاٹھی سے سب کو ہانکے جائیگی

تجھ سے تو مُمتاز کی راہیں کبھی بھی مل نہ پائیںگی 
 تم میں ہے گر رتی غیرت منہ نہ مجھے دکھاۓ گی 

  کلام / مُمتازملک
................

مرہم ہاتھ



مرہم ہاتھ


میں نے مرہم رکھنے والے  ہاتھوں زخم اٹھاۓ ہیں 
  جس سے دوا کی تھی امید درد اسی سے پایا ہے  

 گل بلبل کو بیچ رہا ہے  بلبل نے بھی چاہت سے 
  گل کی بولی لگوانے کو اک بازار سجایا ہے  

پھرحام اورسام کی جنگ ہے یہ اور وقت بڑا سرکش لوگو
   پھر زرداروں کے ٹولے نے سب کا وزن گھٹایا ہے

   جو تو نے تجوری میں رکھا وہ خون اور پسینہ میرا ہے 
  اب سانپ اور بچھو بننے کو بیتاب تیرا سرمایہ ہے  

 اک الٹے پھیر کی باری ہے اور بہت بڑی تیاری ہے 
یہ وقت کی ٹک ٹک نےہم سے ہنستے ہنستے فرمایا ہے

 کلام / ممتاز ملک .
....................

● (28) تیرادل میرا گھر / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(28) تیرادل میرا گھر


تیرے دل کے راستے میں میرا گھر کہیں نہیں تھا
جو تجھے عزیز ہوتا وہ ہنر کہیں نہیں تھا


تجھے ڈھونڈنے نکلتے کسی روز پا ہی لیتے
مگر ان ہتھیلیوں میں وہ سفر کہیں نہیں تھا

 
یوں تو وقت ہے مقرر کسی کام کا مگر کیوں
میری روح کو شاد کرتا وہ گجر کہیں نہیں تھا


نہ ہی دلنواز ادائیں نہ ہی شوق جاں سوزی
میرے دل کا یہ مسافر کہیں دربدر نہیں تھا


میں ہوں خوش گمان ورنہ مجھے سوچنا تھا لازم
میرے جانے سے اُجڑتا وہ شہر کہیں نہیں تھا


نہ تو جسم کی طلب ہے نہ ہی حسن کی تمنا
یہ معیار نہ تھا میرا میں بھی منتظر نہیں تھا


مجھے ہے تلاش اس کی جو ہے قدرتوں سے باہر
مجھے اس سے اور بہتر کوئی چارہ گر نہیں تھا


میری ساری آرزوئیں ممتاز پوچھتی ہیں
تُو یہ کیسے کہہ سکے گا تیرا راہبر نہیں تھا

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

(49) وابستگی / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(49) وابستگی


میں جس سے وابستہ ہوں اسکا حکم ہے  
  بے اجازت سایہء دیوار بھی تم پر حرام  


 بےدھڑک بازی لگاتے عشق کی جو دعویدار  
 جب یقیں دل میں ہو تو پھر کیا سوالوں کا ہے کام

   اُس پہ چھوڑو فیصلے اچھے برے کوئی بھی ہوں
    جستجوۓ حق میں پھر مرضی کا میری کیا مقام

   میٹھی میٹھی بولیوں میں خود کو جب سنتا ہے وہ 
  مسکرا کر بخش دیتا ہے مجھے حرف کلام 

  ایک میں ہوں ایک تُو ہو اور پھر اک جستجو ہو
   جھومتا ہو یہ زمانہ  وجد  میں ہوں صبح و شام

   چند لمحے خود کو اسمیں جوڑ کر تُو دیکھنا 
   زخم بھی پھر  بھول جائیں گے صدائے انتقام 

  اب بھی گر مُمتاز کر دے وقف اپنی ذات کو
  بے حقیقت تیرے آگے دنیا کے رنج و آلام 
●●●
 کلام: مُمتاز ملک  
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
 ●●●

◇ ● (30) رحمت/ نظم ۔ میرے دل کا قلندر بولے۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


(30) رحمت


مجھے رحمت بنا کر اس جہاں میں     ہزاروں رنگ دیکر تھا اتارا  
 میرے چاروں طرف                        رشتوں کا اور عزت کا گھیرا
 بنا کر آنکھ کاروشن ستارہ             
  میرے رب نے بڑے ہی چاؤ سے تھا
 مجھے دلکش جہاں میں لا اتارا            
   مگر یکدم یہ کیا سے کیا ہوا ہے 
 کہ بابا جان کا دشمن ہوا ہے                      تو بھائی  
 اک لٹیرا بن گیا ہے
  بتاؤ مجھ کو میرا گھر کہاں ہے          پناہ مل جاۓ مجھکو  
 وہ ایسا در کہاں ہے     
  یہاں جو چاہے
 لیکر ہاتھ میں تیزاب کی بوتل  
 عطا کردہ خدا کے حسن کو 
برباد کر دے  
  میں جب انکار کر دوں نفس کے شیطان کو تو 
  وہ مجھ کو جس طرح چاہے
  سڑک پر لا کے پٹخے  
 اور پھر بے حال کر دے 
  خدایا ظلم کی یہ 
  کیسی آندھی چل پڑی ہے
  میری عزت کے رکھوالے  
 میرے ہی دام لگواتے
 نظر آنے لگے ہیں 
   تو گویا 
   حشر ہے اب ایک اک دن  
    جو گزرتا جا رہا ہے  
 کلیجہ میرا اب کرنے کو چھلنی  
 نظر کے سامنے    
 خنجر کو دھارا جا رہا ہے 
 مجھے اس ظلم کے مقتل میں لوگو 
  ہنس ہنس کر پکارا جا رہا ہے۔۔۔
                     ●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
       ●●●        

(47) خوابوں کے جزیرے/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے




(47) خوابوں کے جزیرے 


خوابوں کے جزیروں میں سفر ہم نہیں کرتے  
 غیروں کی توقع پہ بسر ہم نہیں کرتے  

 ہم وہ ہیں جو دیتے ہیں تو دیتے ہی گئے ہیں
  بدلے کی توقع پہ نظر ہم نہیں کرتے

   پہلے ہی حساب آج تک بیباک ہوئے نہ  
  بیکار کے جھگڑوں میں گزر ہم نہیں کرتے 

 خود ڈوب کے جانا ہمیں منظور ہے لیکن 
 ٹوٹی ہوئی کشتی میں سفر ہم نہیں کرتے

   یہ زیست بڑی کم ہے مُمتاز خوشی کو
   ویرانیوں کے اسکو نذر ہم نہیں کرتے
●●●
 کلام: مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●
   

(48) خزاں کے پتے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(48) خزاں کے پتے 


خزاں کے پتوں کے جیسا میرا خیال ہوا 
  جو آج اپنے ہی بس میں نہیں کمال ہوا

   نہ جانے تیز ہوائیں کہاں پہ لے جائیں 
 یہ سوچ کر نہ کبھی کوئی اضملال ہوا 

کبھی کبھی ہمیں لگتا شجر سے گر کر بھی 
  کبھی بھی رنج نہ دل کو کوئی ملال ہوا 

  کھدے ہیں نام درختوں پہ اتنے لوگوں کے 
  کہ جنکو یاد بھی رکھنا اسے محال ہوا  

 کبھی تھی آب و تاب  پورے چاند کے جیسی 
 جو بعد مدتوں دیکھا تو اک ہلال ہوا 

 ہزار ہمتیں مُمتاز کر کے جو تھا دیا   
 اسی جواب کے اوپر بھی اک سوال ہوا 
●●●
 کلام: مُمتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●

● (35) شکرانہ/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(35) شکرانہ



 میں نےدیکھاہےسوا تیرےمیرے حالوں پر 
   بات کرنے کو بھی کوئی یہاں تیار نہیں

  ہاں چمکتی ہیں یہاں دیکھ نیامیں سبکی 
 کب ہوا کوئی کسی کا بھی یہاں یار نہیں 

  لب کوسی کرجوچلا کرتے ہیں گھرکی جانب 
 گھر کے دروازے پہ ہوتی کوئی تکرار نہیں

  خوشبوئیں کیسے اس آنگن میں بسیرا کرلیں 
  جسکی دہلیز پہ آیا کوئی عطار نہیں 

  ہاتھ جیسے بھی دھرو درد کی شدت اتنی  
 اب اگر کاٹ بھی ڈالوگے تو انکار نہیں

   کم سے کم اتنا سکوں مجھ کو میسر تو ہے
  اپنے لفظوں میں میں کردار میں مکار نہیں

  احمقوں کی طرح جو ہاتھ بڑھا کر لی ہے
   میرے سر پر کبھی ایسی کوئی دستار نہیں 

  لوگ سونے کے لیئے رب سے دعائیں مانگیں 
  شکر ہے نیند میری مجھ سے یوں بیزار نہیں  

 خواہشوں کے لیئے سرپٹ جو مقابل آۓ 
 زندگی میں میری ایسی کوئی بھرمار نہیں  

 جسکا مقصد ہی نہ ہو بات وہ ہے لاحاصل 
  منتشر سوچوں کی ایسی کوئی یلغار نہیں 

  بات میں ایسا اثر ہو کہے سننے والا
  کوئی بھی بات ادھوری نہیں بیکار نہیں 

 میں تیرا شکر کروں جتنا بھی اتنا کم ہے 
 راستے میں میرے حائل کوئی دیوار نہیں 

    کوئی جھنجھٹ نہیں کہ جس پہ کلیجہ تڑپے 
  مجھ سے ممُتاز بھی ہوتے ہیں کیا جیدار نہیں  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (46) اپنی آنکھیں دیدو/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے



(46) اپنی آنکھیں دیدو


مجھ کو اپنی آنکھیں دیدو میں نے سنا ہے  
 اندھیارے میں دیکھنا انکا خاص ہنر ہے

  اسمیں کوئی چیز بکاؤ نہیں ملے گی 
 کیوں کہ یہ تو میرے اپنے دل کا شہر ہے 

 اسمیں داخل ہونے سے پہلے پڑھ لینا 
  جھوٹ اور لچر پن سے خالی ایک نگر ہے

منہ کو اٹھاۓ اندر آنا ٹھیک نہیں ہے 
 آنے سے پہلے دو دستک یہ بہتر ہے 

 شاید ان سے دل یہ میرا مل نہ پاۓ
 کچھ لوگوں کا آنا اچھا لگا مگر ہے    

  کچےدھاگے سے بندھکرجب ساتھ چلے
  پیار نہیں تھا یہ تو تیرا حسن نظر ہے

جتنا بھی تو توڑنے کی اب کر لے کوشش 
  تیرے مقابل آنا بس میرا ہی جگر ہے  

  ڈوب ڈوب کر اب تو ابھرنا سیکھ لیا ہے  
زندہ ہوں مُمتاز یہی ہمت کی  لہر ہے

●●●
کلام: ممتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء 
●●●

● (24) ٹہر جا/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(24) ٹہر جا



درپیش مسائل کا ہے انبار ٹہر جا
اے خانماں برباد اے لاچار ٹہر جا 

آۓ گا تیرا وقت بھی اتنا تُو یقیں رکھ
نہ ایسے تُو ہو وقت سے بیزار ٹہر جا

کچھ دیر کو خوش ہونے دے شیطان وقت کو
ہیں اور کتنی دیر یہ مکار ٹہر جا

جن کے لیئے بیکار ہے سب درس نصیحت
کر ان سے میری جان نہ تکرار ٹہر جا

اس پر بھی کوئی شاہراہ تعمیر کرے گا 
کچی ہے سڑک رستہ ہے دشوار ٹہر جا

تاریک گلی ہے بڑا خاموش مُحلّہ
گونجے گی کبھی اسمیں بھی چہکارٹہر جا

ہمراہ کوئی دوست بھی تو آج لیئے چل
بیشک ہیں تیرے ساتھ یہ اغیار ٹہر جا

جو سیکھنا چاہیں تو نمل انکو بہت ہے 
بدبخت کو ہر بات ہے بیکار ٹہر جا

گردل ہےسکوں میں نہیں کوئی بھی ملامت
آنکھوں  کو ملیں گے نئے انوار ٹہر  جا 

ممّتاز نہ امید کا دامن ابھی جھٹکو
تبدیلی کے لگتے ہیں کچھ آثار ٹہر جا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (45) گھرکی اینٹیں/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




(45) گھر کی اینٹیں 




باپ کے گھر کی اینٹوں سے عشق بہت ہے بیٹوں کو  
 اسکے چھوڑے رشتوں سے جانے کیوں بیزار ہیں وہ 

زیور ماں کا بانٹا سب نے بستر بھانڈے بھی لوٹے 
  لیکن اسکے پہنے کپڑے  کہتے ہیں بیکار ہیں وہ

   زہر دیا ہے قطرہ قطرہ باپ کو نافرمانی کا  
 مرگ پہ دنیا کو کہتے ہیں کتنے تابعدار ہیں وہ  

 سرکش اولادوں نے ماں کا سینہ چھلنی کر ڈالا  
 یاد اسے کر کے کہتے ہیں کتنے خدمتگار ہیں وہ  

 عمروں کا وہ ایک آنگن تھا جسکے بخرے کر ڈالے 
 ماں جائیوں  کو دھوکہ دیکر  واہ فرمانبردار ہیں وہ 

●●●
 کلام : مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (44) جدت / اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(44) جدت


ہواؤں میں نئی شدت ابھی پیدا ہوئی ہے 
  اداؤں میں نئی جدت ابھی پیدا ہوئی ہے 

  نہ ہو گی اب کوئی تقلید اندھی  
 مریدوں میں نئی بدعت ابھی پیدا ہوئی ہے

   نئی ہے صورت احوال اور ناگفتہ پا بھی 
  کہ ٹھنڈی راکھ میں حدت ابھی پیدا ہوئی ہے

●●●
  کلام: ممتاز ملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●  

● (33) جھکی نظریں/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(33) جھکی نظریں



شرم سے اپنی نظریں جھکانے چلا 
 کر کے گھر سے میں کتنے بہانے چلا

     اپنی یہ بے بسی میں نے خود مول لی
   عزت نفس اپنی خودی  تول دی 
  سوچ کے آبگینے سبھی توڑ کر  
 گُن جو احسان مندوں کے گانے چلا  

  شرم سے اپنی نظریں جھکانے چلا  
 کر کے گھر سے میں کتنے بہانے چلا 

  اپنی فطری گواہی بڑی معتبر 
  اہمیت اسکی سمجھا نہ میں جان کر 
 اب کٹہرے میں آیا جو دل کا وکیل 
  سارے بھولے وہ قصے سنانے چلا  

  شرم سے اپنی نظریں جھکانے چلا 
  کر کے گھر سے میں کتنے بہانے چلا 

دوستو تم نہ جذبوں کا سودا  کرو
   اپنے افکارواظہار سے نہ ڈرو
  یہ تمہاری ہی تہذیب کا ہے سبق
  اپنی تہذیب کیوں یوں گنوانے چلا

  شرم سے اپنی نظریں جھکانے چلا 
  کر کے گھر سے میں کتنے بہانے چلا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (34) ناسمجھ/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(34) ناسمجھ



ناسمجھ میں بھی ہوں اور تُو بھی سمجھ دار نہیں 
  وار کرتے  ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں

 چھوڑ کر رب کو کرے اپنی انا کی پوجا
    ایک تو شرک کریں اس پہ گناہ گار نہیں 

  اک قدم تُو جو چلے ایک قدم  میں آؤں 
   سوچ لے راستہ پھر کوئی بھی دشوار نہیں  

 دائرے کچھ تو میری ذات کے گرد ایسے ہیں  
  اور کچھ شوق کی شدت کا بھی اظہار نہیں  

  میری خواہش پہ کرے رقص جو انگاروں پر
  کیا وہی دل کا قلندر میرا دلدار نہیں  

  اسکو یاد آتا ہے کچھ دیر سے مقصد اکثر  
 سوچ مُمتاز یہ جلدی کہیں بیکار نہیں 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (43) تعلق/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(43) تعلق



تعلق میں گرمجوشی نہیں پہلے سی اب باقی 
   نہ اب وہ رہبری نہ رہبری کا شوق ہے باقی 

 تمہیں کیا زندگی سے اپنے اندر جذب کرنا ہے
  یہ کچھ قسمت ہے اورکچھ اپنا اپنا ذوق ہے باقی  

 وہ اک لمحہ توجہ جس جگہ مرکوز ہو جاۓ 
   اسی اک قیمتی لمحے کا یہ سنجوک ہے باقی 

 نظر نیچی کیئے وہ جنکو  حور العین کہتے ہیں
   انہیں حاصل کیئے جانے پہ بھی اک روک ہے باقی 

 یہ سورج چاند جو گردش کریں اپنے مداروں میں
 یہ ہی حکم و یقیں ہے تو بڑا دو ٹوک ہے باقی 

  کسی انسان کے اندر  یہ ہی تو سب سے اعلی ہے 
  جوانمردی نکل جاۓ تو پھر اک طوق ہے باقی 

کوئی بھی شام ہو مُمتاز رنگ اسمیں اداسی کا 
 کہ رو شن دن کے پیچھے ایک چھبھتی نوک ہے باقی
●●● 
 کلام:مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

● (26) انسان اور انسانیت/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(26) انسان اور انسانیت



انسانیت  ؛      
 آزاد پرندوں کی طرح گھوم رہی ہوں 
   سرشار ہوں فطرت پہ اور جھوم رہی ہوں  

 پیسوں ک عوض کچھ نہیں بکتا ہے یہاں پر
   کردار کی جب ہی تو میں معصوم رہی ہوں 

 انسانیت ہے نام میرا تجھ کو پتہ کیا 
 دنیا میں تو اکثر ہی میں معدوم رہی ہوں 
انسان  ؛      
  درپردہ گناہوں کا ہے بازار سجایا  
   ہاں سامنے لوگوں کے میں مخدوم رہا ہوں  

 جس لمحہ تک نہ ظالموں کے ہاتھ کو روکا 
  اس لمحہ تک میں خود بڑا مظلوم رہا ہوں  

 مُمتاز میری روح میں ہلچل ہے یہ کیسی 
  شاید یہ اثر ہے کہ میں محکوم رہا ہوں  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (76) یا الہی تیرے دربار میں/ دعا ۔ میرے دل کا قلندر بولے


دعا
(76) یاالہی تیرے دربار میں 



یا الہی تیرے دربار میں حاضر ہو کر 
  میں کروں عرض یہ ہی سر کو جھکا رو رو کر

   بادشاہی ہے تیری اور خزانے تیرے 
  یہ زمانہ ہی نہیں سارے زمانے تیرے

  میری بے خوابی میری نیند کی نعمت تیری
  بھوک بھی تیری تو لذت بھرے کھانے تیرے   

  بحر میں بر میں چلا کرتی ہے مخلوق تیری
   جن کی ہر سانس بیاں کرتی فسانے تیرے  

 تو جسے چاہے زمانے کی حکومت دیدے 
  کیسے مُمتاز کوئی ماپے پیمانے تیرے  
●●●
 کلام: مُمتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●

● (32) شمس/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(32) شمس



جس طرح شمس سے رشتہ ہے اسکی حدت کا
 آج کے دور میں سنتے ہیں شور جدت کا 

آجکل پیار کے احساس کا دعوی ہے بڑا  
  اب کہاں پہلے کا انداز رنگ شدت کا

   آنکھ سے دور چلا جائے چار  دن بھی اگر
   بھولنے کے لیئے محتاج نہیں مدت کا

   چند لمحوں کی رفاقت پہ نہ اترایا کرو
   اب تو برسوں کی ریاضت میں رنگ بدعت کا
   
کیا خزاؤں میں درختوں کی ویرانی دیکھی  
 جیسے بھرپور جوانی میں دور عدت کا 

   ہار کا درد کا ممتاز مارتا ہے خیال
  بارھا دیتا ہے آرام درد شدت کا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (42) ملک کی ہوا / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(42) ملک کی ہوا 



کل اپنے ملک کی مجھ کو ملی ہوا  بولی 
  کہاں پہ جا کے بسے آج میرے ہمجولی

   میرے وقار کی خاطر کبھی نہ بکتے تھے  
 جو مانگنے کے لیۓ کھولتے نہیں جھولی 

  زمانے بھر کو محبت کے گیت سنواتے  
جنہوں نے آنکھ محبت کی گود میں کھولی  

 جنہوں نے آج جہنم مجھے بنایا ہے 
  میری فضاؤں میں کھیلی ہے خون کی ہولی 

   جو سب سے پہلے میرے پیار کی قسم کھا کر
  زمانے بھر میں پھرا کرتے تھے بنے گولی 

میرے وقار کا مُمتاز دربدر سودا
 دکان بیچنے کی مجھ کو آج جا کھولی 
●●●
کلام: ممتاز ملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (31) قافلہ چل پڑا / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(31) قافلہ چل پڑا 


 
قافلہ چل پڑا کارواں چل پڑا
لیکے عزم مُصمم جہاں چل پڑا

اب اندھیرا اُنہیں کیا ڈراۓ گا اور
روشنی کا لیئے سائباں چل پڑا

میرے قائد جواہر کی کیا حیثیت
تیرے نعرے میں لیکے اماں چل پڑا

اتنی لاشیں اُٹھائیں کہ خود مر گئے 
زندگی کا ملا جو نشاں چل پڑا

دوستو چل بھی دو ورنہ لٹ جاؤ گے
ہاتھ سے رہزنوں کے کماں چل پڑا

سر بریدہ کھڑے پوچھتے رہ گئے 
میرا قاتل بتاؤ کہاں چل پڑا
 
اب لُٹیرے نہ اغیار میں جائیں گے
گھر میں اُن کا کڑا امتحاں چل پڑا

عیش کر لی بہت داد دے لی بہت
ظالموں میں اب آہ و فُغاں چل پڑ

جو سنوارے گا ملت کی تقدیر کو
ایسا اُمید کا گُلستاں چل پڑا

رکھ نہ مُمتاز دامن میں مظلومیاں
چاک کرنے تو اب گریباں چل پڑا
 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (21) ڈرتے ہو مجھ سے/ اردو شاعری۔ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے





(21) ڈرتے ہو مجھ سے



قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے
مجھ کو لوٹ کے 
مجھکو بیچ کے 
بے شرمی کی حد کو توڑے
چار آنکھیں کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

سارے ظالم سارے ڈاکو
سارے شرابی سارے ہلاکو
میرے منہ پر کالک مل کر
رحم طلب کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

میں مظلوم اور میں بیچاری
دنیا میں ہوں ماری ماری
بچے میرے بھٹکیں دردر
صرف نظر کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

جب مرنا ہے سوچ لیا ہے 
اب دھرنا ہے سوچ لیا ہے
اپنی شرط پہ اب جاں دینگے
جان طلب کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

جھوٹو تم سے اب نہ ڈریں گے
بجلی بنکر تم پہ گریں گے
موت اور بھوک کے بانٹنے والو
کیوں بڑ بڑ کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (27) ابر رحمت/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(27) ابر رحمت

  
 ہو کیا اچھا کہ میرے ملک پر تُو ابر رحمت بنکے برسے
یہاں سب کچھ میسر ہو کوئی لُقمے کو نہ ترسے

نہ ماں کی گود سونی ہو نہ چوڑی ہاتھ کی ٹوٹے
تلاش رزق میں کوئی نہ جائے اب کبھی گھر سے

تمناؤں کی سب تکمیل میرے گھر تک آتی ہو
فصیل شہر سے باہر کوئی خواہش نہ جاتی ہو

میں اپنے دل کا اک پرچم بنا کر اسکو لہراؤں
سبھی بھٹکے ہوؤ پلٹو منادی آج کرواؤں

چلو ہم پھر سے اک تحریک کا آغاز کرتے ہیں
کہ لیکر سب توانائیاں نئی پرواز بھرتے ہیں

پسینہ اب نظر آئے چٹانوں کی جبینوں پر
میری مٹی کریگی فخر اپنے سب نگینوں پر

نئے رستوں کی آنکھیں اب ہماری منتظر ہوں گی
وطن کے عشق میں ممتاز اب گھڑیاں بسر ہوں گی
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (29) غرور/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(29) غرور



کس بات کا گھمنڈ ہے کس بات کا غرور
   کچھ فیصلے تو موقع پہ ہو جاتے ہیں ضرور 

  آپ اپنی فطرتوں میں تو چالاک ہے مگر
حکمت کی اک نظر سے بھی کوسوں ابھی ہے دُور

  مالک کا کرم تجھ پہ تجھے یہ تو چاہیئے   
 تیرا کرم کسی پہ تجھے یہ نہیں منظور  

  سجدوں کا رنگ دونوں جبینوں پہ جدا ہے 
  اک روشنی سے دُور ہے اک روشن و معمور

   پہلے جو احترام میں شامل کبھی رہے
 اب عیب پوشی کے لیئے ان سب کا ہے ظہور

   مُمتاز ہر برائی میں بااختیار ہیں  پر 
 اچھے عمل کے واسطے رہتے جو بے شعور  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/