ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 31 مئی، 2019

ذوق نبی ۔ نعت ۔ سراب دنیا


نعت 
             ذوق نبی ص

حضور کے ذوق کے مطابق جو نعت ہوتی تو بات ہوتی
  غلام آقا ہی نام ہوتا  یہی ہماری جو ذات ہوتی تو بات ہوتی 

انہیں کے قدموں میں دن گزرتا کمال ہوتا 
جوانکےجیسےہی رات ہوتی تو بات ہوتی

ہمارا بھی ذکر سن کے سرکار مسکراتے 
وہی مقدس حیات ہوتی تو بات ہوتی 

 ہمارا ہر دن نبی کی سنت  بسر جو ہوتا 
ہماری ہر شب برات ہوتی تو بات ہوتی

اگر میسر ہو انکے احکام پر عمل تو
ہمارے تابع یقین کی کائنات ہوتی تو بات ہوتی 

حضور کے راستے پہ ممتاز ہمیں بھی بخشش نصیب ہوتی
ہمیں جو تقوی نصیب ہوتاحصول راہ  نجات ہوتی تو بات ہوتی 
                       ۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 23 مئی، 2019

بھنبھوڑ دو عورت کو ۔ کالم




        بھبھوڑ دو عورت کو 
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)





کبھی دن کے اجالے میں مردانگی کا اشتہار فرشتے مار ڈالتا ہے تو کبھی رات کے اندھیرے میں اس پر کسی بھی کام سے ، چاہے مجبوری سے۔ہی گھر سے  نکلنے پر اس کی آبروریزی کے لیئے جواز ڈھونڈتا ہے ۔ ہمارے مردوں  میں  وہ کون سا  کیڑا ہے جو کسی بھی عورت کو کسی بھی عمر میں یا یوں کہہ لیں گود سے گور تک دیکھ کر کتے کی طرح بھنبھوڑنے پر اکساتا ہے ۔ پھر اس رذیل کام کے بعد وہ نیک ، پرہیز گار ، محنتی ،ذمہ دار ،بیٹا ، بھائی ، شوہر ،  باپ بن کر اپنے گھر بھی پہنچتا ہے ۔ سب کو اپنی پارسائی کو سراہنے پر مجبور بھی کرتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر نیکی کا بھاشن بھی دیتا ہے ۔ قران کی آیات و تراجم شئیر کرتا ہے تو کہیں احادیث کے نمونے لگا لگا کر دنیا کو اپنے نیکی کے اشتہار بھی بانٹتا ہے ۔ 
لیکن اس کے کردار کا اصل دیکھنا  ہو تو اسکے سامنے  کوئی عورت لا کر کھڑی کر دو ۔ تھوڑا اختیار دیدو ۔ بس پھر دیکھیئے اس کے اندر کا شیطان پارسائی کی بوری پھاڑ کر کیسے سامنے آتا ہے ۔ 
روز ایک نئے نام سے پرانی کہانی میرے اسلامی جمہوریہ میں دہرائی جاتی ہے ۔ کل کے دن میں ملک کے جڑواں شہروں میں دارلحکومت کے اندر  اپنے ہی گھر کے سامنے سے اٹھائی ہوئی دس سال کی فرشتے کی عزت کا ماتم کریں یا راولپنڈی میں بائیس سال کی نوجوان لڑکی کا پولیس گردوں کے ہاتھوں گینگ ریپ پر ان کا نوحہ پڑہیں ۔۔یا ہم ان ٹھرکیوں کے سوشل میڈیا پر بیٹھ کر بے شرمانہ کومنٹس پر ان پر تھوکیں جو کم از کم مرد تو نہیں کہلا سکتے ۔ کہ جن کے ہوتے ہوئے اس ملک میں کوئی بچہ کوئی عورت نہ اپنی عزت محفوظ سمجھتا ہے نہ ہی اپنی جان ۔۔لیکن وہ یہاں کومنٹس میں اپنا غلیظ چہرے کی کالک عورت پر پوت کر خود کو صاف ستھرا ظاہر کر رہے ہیں ۔ 
جس کے ہاتھ جس عمر کی عورت لگے وہ اسے  اپنے پانچ منٹ کے مزے کے لیئے ہر دین، دھرم ، عزت ، حیا ، خدا کا خوف سے سے پلہ جھاڑ کر تباہ و برباد کر کے دم لیتا ہے ۔ کیا پاکستانی مردوں کی اکثریت دنیا بھر میں  جنسی امراض کی سب سے زیادہ شکار ہے ۔ یا ذہنی امراض کا، نفسیاتی مسائل کا حل ان جانوروں نے عورتوں کو بھنبھوڑنے میں تلاش رکھا ہے ۔  کیا ان کی ماوں نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ سب عورتیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی ان کی اپنی ماں ہے یا بہن ہے ۔ یا انہیں یہ بتانا یاد نہیں رہا کہ ہر وہ چیز جس پر کسی انسان کی نظر پڑتی ہے اس کی ملکیت نہیں ہوتی،  نہ ہی وہ اس کے زیر تصرف آ جاتی ہے ۔ تمہارے استعمال میں تمہارے نام جاری ہونے والی کوئی چیز یا رشتہ ہی ہو گا اور بس ۔ باقیوں پر رال ٹپکانے سے پہلے اپنے مذہب اور معاشرتی تقاضوں کو اپنی آنکھوں پر باندھ کر رکھو ۔ 
لعنت ہے اس معاشرے پر کہ جس کے مرد اپنے ہاں عورتوں اور بچوں کی جان اور عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے ۔ جو اپنے اندر کا کیڑا نہیں مار سکتے ۔ یہ خود کو کس منہ سے مرد کہتے ہیں ۔ 
انکے لیئے عملی سزاوں کا اطلاق کروانے کے لیئے ہمیں کس ملک کی عدالت سے رابطہ کرنا پڑیگا ۔ یا پھر ہم براہ راست اپنی عزت اور جان کی حفاظت کے لیئے اقوام متحدہ سے کاروائی کرنے کی درخواست کریں ۔ 
ہمیں بتائیں ہمارے ہاں کے غیرتمند کہلانے والے مردوں نے اس معاملے میں اپنے منہ میں گھنگھنیاں کیوں ڈال رکھی  ہیں  ۔ کیا ان کی اپنی داڑھی میں تنکے کی بجائے  جھاڑ ہے پورا ،جو انہیں زبان کھولنے نہیں دیتا ۔ حکومت پاکستان کیا اس سلسلے میں کسی اور ملک کے دباو کا انتظار کر رہی ہے ؟ 
ہمارے معاشرے میں ہندوستانی فلموں کے زہریلے اثرات تیزی سے گھل رہے ہیں ۔ ہمیں ان کے رخ پر بہنے کے بجائے اپنے میڈیا کو مثبت انداز فکر کی جانب راغب کرنا ہو گا ۔ انہیں یہ باور کرائیں کہ عورت اور بچہ جس معاشرے میں محفوظ نہیں وہاں صرف مردوں کو رنڈی خانے ہی ملیں گے ۔
اس مرد کے گھر کی عورت اس کے آگے  اور اس کے گھر کی عورت اس کے آگے ۔۔کیونکہ یہ خدا کا فیصلہ ہے ۔
چاہے وہ دن کی روشنی ہو یا رات کا اندھیرا ۔
 آباد گھروں کو بھول جائیں پھر
                       ۔۔۔۔۔۔


منگل، 21 مئی، 2019

فرشتے کو۔بھی مار ڈالا ۔ کالم



        فرشتے کو بھی مار ڈالا
                     (تحریر:ممتازملک.پیرس )


اسلام جمہوریہ پاکستان کے قلب میں ،سب سے محفوظ شہر میں ، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ، شیطان کو قید کیئے جانے کے باجود ایک فرشتے کی موت ہو گئی۔۔۔۔ کیسے؟؟؟
جیسے اس ملک میں ہر بچی اور عورت اغوا کی جاتی ہے ، برباد کی جاتی ہے اور مار دی جاتی ہے ۔۔ 
اپنی جان و عزت کی حفاظت  کے لیئے عورتوں اور بچوں کو مل کر ایک منظم اور بھرپور تحریک چلانی ہو گی ۔ جہاں سے پارلیمنٹ تین دن میں  اس قانون کو بنائے اور عدلیہ اسے  فوری نافذ کرے۔ کہ ایسے کسی بھی واقعے میں تین دن کے اندر پولیس اصل مجرم کو پکڑے اور عدالت تین دن میں اسے سزائے موت دے اور 7ویں روز اس مجرم یا وکٹم کے گھر کے سامنے یا اس کے محلے میں اسے سرعام پھانسی دی جائے اور کم از کم سات روز تک یہ لاش وہاں عبرت کے لیئے لٹکی رہے ۔ اس کے بعد اسے کسی کھڈے میں بنا کفن دفن کے پھینک کر مٹی کو بلڈوز کر دیا جائے ۔ 
صرف چار سزائیں ایسی دیکر دیکھ لیں اس ملک کے مرد اپنے ناڑے کے ساتھ اپنا نفس باندھ لینگے لیکن کسی بچی کیا عورت کیا،  کسی ہیجڑے  پر بھی نظر بد  نہیں ڈالیں گے ۔ 
                ۔۔۔۔۔۔

اللہ کے کام اسی کے سپرد۔ کالم

          


        اللہ کے کام اسی کے سپرد
              (تحریر:ممتازملک.پیرس)



آج جسے دیکھو کسی نہ کسی پریشانی کو، غم کو کمبل کی طرح اوڑھے گھوم رہا ہے ۔ چہرے کی ایک ایک لکیر میں اس کی غم فکر ، پریشانی گندھی ہوئی ہے ۔ گزرتی عمر کیساتھ یہ نقوش مذید گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ 
ہم سب جب اس دنیا میں آئے تھے تو اپنا مقدر ، اپنی تقدیر،  جس میں ہمارے حصے کی زندگی ،موت کی گھڑی ، ہمارے حصے کا رزق ، نکاح کا وقت اور ساتھ ، اپنے حصے کی ہر خوشی اور غم لکھوا کر لائے تھے ۔ ایک حسین معصوم اور نرم و نازک سے وجود کیساتھ ۔ 
پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے چالاکیاں سیکھیں ، مکاریاں اپنائیں ، مفاد سمیٹے ، نفرتیں بڑھائیں ، محبتیں بھگائیں ، اس ساری دوڑ میں ہم اپنی معصومیت ، سچائی ، اللہ پر اپنے یقین کو کہیں دور گنوا آئے ، پھر آئینہ ہمیں دیکھ کر رو دیتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ ارے تم کون ہو ، وہ معصوم سا حسین وجود کہاں گیا میں تمہیں نہیں جانتا ۔۔۔ایسا کیوں نہ ہو ۔
بڑھاپا نہ تو کوئی طعنہ ہے ، نہ کوئی برائی ۔ بلکہ یہ تجربات و مشاہدات کے خزانے کا نام ہے ۔  ہاں اب یہ حسین ہو گا یا بدصورت ۔ اس کا انحصار ہم سب کے کردار و اعمال پر بھی یے اور ہمارے دل و دماغ میں پلتی سوچوں کی پاکیزگی اور غلاظت پر بھی ۔ اور اللہ پاک نے یہ کام ہمارے ہاتھ میں دے رکھا ہے کہ ہم جوانی میں ہی نہیں بلکہ عمر بھر کتنی مثبت ذندگی گزارتے ہیں ۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیئے کتنے مثبت انداز فکر عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ 
غم اور پریشانیاں  اس زندگی کا حصہ ہیں ان کا مقابلہ کیجیئے ، انہیں دور کرنے کی کوشش کیجیئے لیکن انہیں اپنے ماتھے پر لکھ کر کہ " میں پریشان ہوں" یا "میں دکھی ہوں" کا اشتہار بنا کر مت چپکائیں ۔ 
میرے ایک بہت پیارے قاری بیٹے  سعید الرحمن سے بات ہو رہی تھی ۔ اس نے پوچھا آپی جی آپ بوڑھی کیوں نہیں ہوئیں اور کیسے نہیں ہوئیں ؟ کئی لوگ تو چالیس کی عمر میں بھرہور بوڑھے لگنے لگتے ہیں ..
تو میں نے اسے بتایا کہ بیٹا 
انسان جب اللہ کے کام اپنے سر لے لیتا ہے تو بیس سال کی عمر  میں بھی بوڑھا ہو جاتا ہے ۔ 
اور جب وہ اللہ کے کام اسی کو سونپ کر صرف اپنے حصے کا کام کرنے میں راضی برضا ہو جائے تو سو سال کی عمر میں بھی  وہ اطمینان اس کے چہرے پر آ جاتا ہے ۔ آزمودہ ٹپ دے رہی ہوں ۔ 
میری شکل نے بھی بڑے روپ بدلے اسی تلاش  میں ۔۔
اور اب جب یہ بات سمجھ آ گئی ہے تو بس اپنی حصے کی کوششیں کرتی ہوں جو میرا فرض ہے نتیجے کی فکر اور ذمہ میرے سوہنے رب کا ہے ۔ 
اور یقین مانو بیٹا
 وہ آپ کی سوچ سے بھی بڑھ کر آپ کو عطا کرتا ہے ۔💝
وہ بڑی عقیدت سے بولا
 ہمیشہ جب بھی گفت و شنید ہوٸی ہے آپ سے کچھ نہ کچھ سیکھ کے گیا ہوں ۔۔۔اور آج تو آپ نہ دو لفظوں میں میرے سامنے فلسفہ حیات رکھ لیا ۔۔۔۔
میں ہمیشہ آپ کے کردار و گفتار سے متاثر رہا ہوں۔
میں نے کہا بیٹا
یہ آپ کی اچھی تربیت اور سعادت مندی ہے جو آپ کو سیکھنے کے لیئے، سننے اور سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ 
ورنہ یہاں قد نکالتے ہی سب سے پہلے جن کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتے ہیں انہیں کو جھٹکتے اور توہین کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جبھی سبھی کچھ ہو کر بھی نہ انہیں دل کا سکون ملتا ہے نہ ہی چہرے کی رونق ۔۔۔۔
              با ادب بانصیب
              بے ادب بے نصیب
                         ۔۔۔۔۔۔۔

P

اتوار، 19 مئی، 2019

ہم نہیں سدھریں گے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں



            ہم نہیں سدھریں گے



کم و بیش پچاس سال پرانی  صبیحہ ، سنتوش کی پاکستانی فلم کا مکالمہ 
     ہماری اوقات بیان کرتا ہے
"نماز میرا فرض ہےاور
   چوری میرا پیشہ"
یعنی ہم آج بھی نہیں سدھرے🤔🤔
        (چھوٹی چھوٹی باتیں )
       (تحریر:ممتازملک.پیرس)

ہفتہ، 18 مئی، 2019

فرانس میں رمضان۔۔ کالم


   فرانس میں رمضان بمقابلہ پاکستان
        (تحریر:ممتازملک.پیرس)




پاکستان میں کچھ سال پہلے رمضان المبارک گزارنے کا موقع ملا ۔ وہاں کے لوگوں کے معمولات میں کچھ لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت کے پاس بازار کی دوڑیں،  درزیوں کے چکر ، ہوٹلوں ،دکانوں سے سحریاں افطاریاں خریدنے کی لائنوں میں ہی گھنٹوں گزارنے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ چاند رات زندگی میں ایک بار ہی غلطی سے گئی تھی تو کانوں کو ہاتھ لگا کر رات کے 3 بجے گھر پہنچ پائے ، وہ زندگی کی پہلی اور آخری چاند رات تھی  ۔
اس قدر بھیڑ کہ مجھے محسوس ہوا ہوا میں سے آکسیجن ختم ہو چکی ہے ۔ راہ میں ایک ایک قدم اٹھانا دشوار تھا ۔ عورتوں کے بازاروں میں دنیا بھر کا لوفر لفنگا ، بھونڈی باز، جیب کترے اور جیب کتریاں ، اٹھائی گھیرے لوگوں کے ساتھ چپکے جا رہے تھے ۔ میں ایک جگہ رک گئی لیکن واپس جانے کا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا ۔ لوگوں کا ایک سونامی تھا ۔ ایک خریدار تھا تو سو اچکے اور جیب کترے،  اور ٹھرکی ۔ اس روز آنکھوں دیکھے منظر نامے کے بعد ایک بات کا تو مجھے پکا یقین ہو گیا کہ  میرے نزدیک چاند رات بازاروں کے چکر لگانے والوں سے زیادہ بیوقوف،  اور بے شرم کوئی نہیں ہو سکتا ۔
آخر سال کے تین سو پینتیس دنوں میں  ان لوگوں خصوصا عورتوں  کو خریداری کیوں یاد نہیں آتی ؟
اگر بات سستے کی ہے تو سال بھر کی یہ ایسی واحد رات ہے کہ اس میں سب کچھ مفت مل رہا ہے کیا ؟
تیس روز تک بھوکا پیاسا رہ کر اپنی طرف سے بیت پارسائی کمانے کے بعد یوں نامحرموں کے ساتھ چپک چپک کر دھکے کھانے کے بعد کسی خوشی اور جنت کی تلاش ہوتی ہے ۔ جبکہ ان لوگوں کی اکثریت فجر کی نماز کیا عید کی نماز سے بھی غافل ہو چکی ہوتی یے ۔ یہ ہی سوچ اور دیکھ کر 
دوبارہ گرمی کی چھٹیوں میں کتنے سال رمضان آنے کے باوجود ہم  نے پاکستان میں رمضان گزارنے سے توبہ کر لی ۔
پاکستان کے اکثر دو نمبر یا برائے نام مسلمانوں کی زبان میں ہم ایک غیر مسلم ملک یا کافر ملک میں رہتے ہیں ۔ جہاں ان کے تصورات کے مطابق ہر مرد و زن شراب کی بوتل ہاتھ میں لیئے نائٹ کلبوں میں پڑا ہوا ہے اور جس مرد کا جو دل چاہے وہ عورت اس کی جھولی میں پڑی ہوتی ہے ۔ یورپ کا طعنہ دینے والے یہ ہی لوگ ساری عمر اسی یورپ میں آنے کے لیئے ویزے کی لائنوں میں اور خواہشوں کے سراب میں گزار دیتے ہیں ۔ پھر بھی یورپ میں رہنے والے عزیزوں کو طعنہ دیتے ہیں مادر پر آذادی کا ۔ بنا اپنے ناک کے نیچے نظر دوڑائے ۔ 
باقی یورپ کی طرح فرانس میں بھی
 الحمداللہ ہر چیز کا نظام الاوقات یعنی ٹائم ٹیبل  ہے ۔ یہاں ہم چاند راتوں کے انتظار میں اپنی شرم حیا تار تار کروانے بازاروں کے دھکے نہیں کھاتے ۔ اگر کہیں چاند رات کا اہتمام کسی ہال میں کوئی تنظیم کر بھی دے تو یہ خالصتا خواتین کا پروگرام ہوتا ہے ۔ اس میں کسی مرد کو شرکت کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اول  تو دو تین ماہ پہلے ہی سینے خریدنے کا کام مکمل ہوتا ہے ۔ آرام سے قرآن پڑھا جاتا ہے ۔ روزے میں رابطے کم کر کے غیبت ، چغلی ، جھوٹ سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رات بھر اپنے اپنے  گھروں میں اور مساجد میں  عبادت ہوتی ہے ۔ خواتین گھر میں اپنے ہاتھ سے سحر و افطار تیار کرتی ہیں۔
جبکہ ملازمت کرنے والی خواتین بدستور اپنے کاموں پر بھی جاتی ہیں اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کا روزہ بھی رکھتی ہیں ۔ پھر بھی شوہروں کو سحر اور افطار میں ہوٹلوں پر 3 ،3 گھنٹے کھڑے ہونے کو نہیں بھیجتیں ۔ یہاں کے مرد اور خاص طور پر شادی شدہ مرد پاکستان کے مقابلے میں بیسیوں غموں سے آذاد ہیں ۔ وہ بھی ان خاص مواقع پر۔ جس کے لیئے انہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔ 
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان جو کام چھپ کر اپنے اور اللہ کے بیچ رکھ کر کرنے چاہیئیں وہ ہم نمائش گاہ میں لے آئے ہیں ۔
جیسے
عبادات کرنا ، نماز، روزہ، زکوات ، کسی کی مدد کرنا ۔۔۔۔
 اور جن کاموں کو اعلانیہ کرنا چاہیئے انہیں پردے میں چھپا دیا ہے ۔ ۔۔جیسے کسی کی تعریف کرنا ہمت بندھانا،  سچ بولنا ، گواہی دینا ، معافی مانگنا ، برے کو برا کہنا ، حق کا ساتھ دینا ۔۔۔۔۔
پاکستان میں اسلام کے نام پر جتنا بڑا تماشا کیا جاتا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور مسلم ملک میں ایسا ہوتا ہو ۔ پاکستان میں مسلمانوں کو پھر سے اپنے تجدید ایمان کی شدید ضرورت ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو مجھے لگتا ہے آپ کو پاکستان گئے بھی بہت عرصہ ہو چکا ہے ۔ اس بار جائیں تو یہ سب باتیں سامنے رکھ کر ان کا جائزہ لیجیئے گا ۔ ۔۔
                       ۔۔۔۔۔


جمعہ، 17 مئی، 2019

ماہ رمضان یا ماہ بسیار خوری ۔ کالم



ماہ رمضان یا ماہ بسیار خوری 
                    (تحریر:ممتازملک۔پیرس)



زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب رمضان المبارک کا انتظار اس امید اور تیاری کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ شیطان قید کر لیا جائیگا اور اسے زیادہ سے زیادہ  اپنے اللہ سے بات کرنے  اور اس کی عبادت کا مزہ لینے کا موقع ملے گا . خوب مناجات کی جائیں گی ،دعاؤں کے زور پر خدا سے اپنی مرادیں  مانگی اور پائی جائیں گی اور اللہ کی رحمتوں  سے اپنے دامن خوب خوب بھرے جائیں گے . اب زمانہ بدلا ۔ روزہ داری سے زیادہ اب افطاری کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے کے آغاز سے کئی روز قبل ہی اکثر خواتین  اس مصروفیت میں مبتلا ہوتی ہے کہ بھئی رمضان آ رہا ہے تیاریاں کرنی ہیں .کہیں بیٹھی ہوں کسی بھی محفل میں ہوں پورا ماہ شعبان اسی سوچ اور فکر میں دکھائی اور سنائی دینگی کہ بھئی تیاریاں کرنی ہیں رمضان کی آمد آمد ہے ۔.
ہم  بیوقوف کافی عرصہ تک سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ تیاریاں کس قسم کی ہوتی ہیں ہم تو اسے قرآن پاک کی پڑھائی، نوافل کی محافل کا اہتمام ہی سمجھتے  رہے ۔
لیکن ایک روز کسی خاتون سے پوچھنے کی ہمت کر ہی بیٹھے کہ یہ کس قسم کی تیاریاں ہیں جو اتنی توجہ سے کی جا تی ہے تو بولیں ارے آپ نہیں کرتیں ہیں یہ سب تیاریاں ؟ ہم بے چارے شرمندہ سے سر جھکا کر بولے نہیں جی ہم تو جتنا ہو سکے اتنا ہی کر لیتے ہیں ۔آپ سب تو ماشاللہ اللہ والی ہیں اتنا اہتمام تو آپ ہی کر سکتی ہیں .یہ سن کر وہ زور سے ہنسیں بولیں کیا آپ مذاق کر رہی ہیں . ہم نے کہا نہیں نہیں سچی بات ہے . آپ مجھے بتائیں کہ آپ کیا تیاریاں کرتی ہیں؟ تو بولیں دیکھو  میں اور میری سب سہیلیاں کم از کم پچاس ساٹھ کلو مرغی کو مصالحہ لگا کر فریز کر لیتی ہیں ، پھر دو تین سو سموسے اور رولز بنانے ہوتے ہیں . اتنے ہی شامی کباب بنا کر فریز کرتی ہیں ،روزہ دار ہوتے ہیں تو شام کو چٹ پٹا کھانے کو جی چاہتا ہے. اس کے علاوہ چاٹ وغیرہ کا سامان بھی اکٹھا کرتے ہیں لوبیا اور چنے بھی پانچ سات کلو ابال کر فریز کیئے جاتے ہیں ۔ دھنیئے پودینے کترے جاتے ہیں ۔ گوشت کی یخنی بنا کر کافی پیکٹ میں فریز کر لیتے ہیں، کبھی پلاؤ کھانے کا ہی جی چاہتا ہے تودیر نہ لگے ۔ بریانی کو بھی جی چاہ سکتا ہے یا کوئی افطاری پر مدعو ہو سکتا ہے تو بریانی کا مصالحہ لگا کر بھی کافی گوشت رکھ لیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بھی وہ ہماری معلومات میں  کافی اضافہ کرتی رہیں لیکن ہمیں  صرف ان کے ہلتے ہوئے لب تو دکھائی دے رہے تھے لیکن کانوں نے سننے سے بھی شاید انکار کر دیا تھا ۔ کہ یہ سب ہیں رمضان کی تیاریاں ۔ ہم نے ان کے ایک منٹ کے توقف پر سوال کر ہی دیا جو ہمیں بے چین کر رہا تھا کہ "پھر تو اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ کے پاس عبادت کے لیئے کافی وقت بچتا ہو گا آپ تو خوب تلاوت بھی فرماتی ہوں گی اور نوافل بھی خوب ادا کرتی ہونگی ؟ تو بیچارگی سے بولیں ارے کہاں آپ کو تو پتہ ہے  روزانہ کسی نہ کسی فیملی کی دعوت افطار ہوتی ہے یا ہماری کہیں نہ کہیں دعوت افطار ہوتی ہے ۔  ظہر کے بعد تو ویسے بھی افطاری کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ہر ایک کی پسند کا خیال رکھنا ہوتا ہے آخر کو ایک ہی تو ماہ ہوتا ہے ان سب خاطر داریوں کا ۔  عید کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہی کرنا ہوتی ہیں ۔ کبھی کپڑوں کی خریداری یا پارسل منگوانا ہوتا ہے تو اس کے لیئے فون پر یا آن لائن کافی وقت لگ جاتا ہے کبھی جوتے کبھی جیولری ۔۔۔۔۔پھر پاکستان سے سکائیپ پر بھی کسی نہ کسی سے روز بات کرنا ہوتی ہے ۔ ایک دو قران  پاک تو پڑھ ہی لیتے ہیں ۔ اللہ قبول فرمائے ۔   جب یہ ہی ماہ مبارک پاکستان مین گزارنے کا موقع ملا تو حالات اس سے بھی دگرگوں نکلے۔   اس بات کا تو پتہ تھا کہ سموسے،  پکوڑے اور کچوریاں بازار سے آتی ہیں۔
 لیکن یہ کیا یہاں تو اس قدر ترقی ہو چکی تھی کہ اب تو لائن میں لگ کر چار چار گھنٹے بعد باری آنے پر نہاریاں اور پائے اب سحری میں بھی مرد بازاروں سے ڈھو رہے ہیں ۔ تراویح پڑھنے کا ٹائم مسجدیں گلی گلی میں ہونے کے باوجود کسی کسی کے پاس ہی ہے ۔ نماز کی پابندی کا کوئی حال ہی نہیں ۔ لیکن افطاریوں کا اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کہیں ۔ 
ہم یہ سوچنے لگے  ایک طرف سب کچھ گھر میں بنایا جاتا ہے اس کے پاس بھی اللہ سے بات کرنے کا وقت نہیں اور دوسری جانب سب کچھ بازار سے لا لا کر دسترخوان بھرے جا رہے ہیں تو بھی اللہ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ۔ اس پر یہ کہ کیا اس  مہینے میں  اتنی ساری اپنی ہی خاطر مدارات کی بعد بھی انسان  کسی تزکیئہ نفس کے قابل رہتا ہے ۔ جو بھوکا ہی نہ رہا اور چند گھنٹوں کی بھوک کے بعد چار دن کا راشن اپنے شگم میں بھر لے  اسے کیا معلوم  کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟چار گلاس پانی کی پیاس کو چند گھنٹے روک کر اسے رنگ برنگے مشروبات کے آٹھ گلاس سے بھر لے اسے کیا معلوم کہ پیاس کیا ہوتی ہے ؟.
گویا یہ ماہ خود کو سال بھر سے چڑھی ہوئی چربی اتارنے اور اپنے اندر سے فاسد مادوں کو نکالنے کے لیئے آتا ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ فاسد مادے اپنے اندر بھر کر اس ماہ مقدّس کو رخصت کرتے ہیں ۔ کیا یہ ہی ہے رمضان کی تیاریاں ہیں تو شکر ہے اللہ پاک کا  کہ ہمارے پاس ایسی کوئی بھی تیاری کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی شوق ۔۔۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
MumtazMalikParis.BlogSpot.com 

بدھ، 15 مئی، 2019

بابائی وباء ۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے




  1. بابائی وباء
    (تحریر:ممتازملک. پیرس) 




    ساری زندگی محبتیں مشقتیں کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا  اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں . ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ  ہے کہ وہ جوان جوان لڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال کے فرق سے  کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری یا محبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ  تعلق نہیں ہوتا .  بابا جی کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام سے منہ کے بل آ گرتا ہے .
    کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والے نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟
    تو وہ اٹھلا کے بولی
    ویکھو جی ،  بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے
    ایک تو ان کی ان کم 
    دوسرے ان کے دن کم

    سوچئے تو جنہیں یہ "دن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ 

    بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...
    تو بابا دوزخی بولا لتاں قبر وچ نے منہ تے ہالی باہر اے...
    یہ بابے پاکستان میں نوعمر  بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان  عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک ہنی مون پیریڈ کی نام نہاد بیوی . 
    سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہیں . اس پر طرہ یہ کہ دونوں کی ضروریات  الگ ، خواہشات الگ ، شوق الگ ۔ ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز  شوگر فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا باہوش سمجھدار انسان اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا.
     ساتھی ،دوست ، بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو یہ سوچیں اور گنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت اچھی بھی لگتی ہے .اسی بات کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا.  یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں .
         
    MumtazMalikParis.BlogSpot.com
                          ........


Loading

منگل، 14 مئی، 2019

جلن یا منزل ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


جلن یا منزل

جلنے والے جلتے رہ جاتے ہیں اور کام کرنے والے منزلیں سر کر لیتے ہیں ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک ۔پیرس)

جمعہ، 10 مئی، 2019

✔ کینسر کا جن ہمارے ہاتھ میں۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ

                 

    کینسر کا جن ہمارے ہاتھ میں 
      تحریر/ ممتازملک.پیرس  

دنیا میں آئے روز نت نئی بیماریوں کا غلغلہ مچا رہتا ہے ۔ حالانکہ ہم سوچتے ہیں کہ ہم تو پہلے زمانوں سے زیادہ نہاتے دھوتے ہیں ۔ خوشبوئیں لگاتے ہیں ۔ جلدی کپڑے بدلتے ہیں ، گھروں میں پہلے سے زیادہ صفائی کا خیال رکھتے ہیں ۔ جدید ترین طریقے اور  ادویات سے صفائی کا انتظام کرتے ہیں ۔ پھر بھی کیا وجہ ہے کہ آج جسقدر خوفناک بیماریاں سننے اور دیکھنے میں آتی ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں ۔۔تو ذرا غور کیجیئے جو لوگ جتنے بڑے رتبے اور مقام پر ہوتے ہیں وہ ملئینرز ہوں، سٹارز ہوں ، انہیں کو یہ سب بڑی اور خطرناک بیماریاں زیادہ تر کیوں ہوتی ہیں ۔ خاص طور پر کینسر کی مختلف اقسام ۔۔۔
وجہ یہ ہے ہم جتنے ناموراور امیر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اتنا ہی ہم فطرتی  اطوار سے دور ہونے لگتے ہیں ۔ ہمارے کھانے  پکانے، پہننے ،صفائی کرنے کے انداز میں مصنوعی کیمیکلز کا استعمال زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ 
سب سے پہلے گھر میں داخل ہوئے ائیر فریشر سے گھر کی فضا مہکائی گئی بجائے پھولوں اور عطر کے۔ پھر ہاتھ منہ دھوئے یا نہائے دھوئے کیمیکل سے بنے مصنوعی کیمکل صابن ، شیمپو، باڈی کریم ، لوشنز اور بلا بلا بلا  سے خود کو مہکایا۔ اس کے بعد کھایا پکا بہترین  برتنوں میں جو اکثر نان اسٹک ، اور المونیم کے ہوتے ہیں ۔  روسٹ ہوا۔فوائل پیپر یا المونیم میں ۔ جن میں پکنے والا کھانا پہلے ہی اس کا زہر اپنے اندر جذب کر چکا ہے ۔ اس کے بعد ہمارے کھانا بنانے کے چمچ بھی اکثر نان اسٹک ۔  کھانے  کے برتن پلاسٹک یا کسی بھی قیمتی دھات سے بنے ہوئے۔ 
 کھانے کے بعد یہ برتن کسی بھی کیمیکل لیکوئڈ سے ہی دھلیں گے ۔ جس کا گاڑھا پن تو ہمیں پسند ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس برتنوں کی دھلائی کے لیکوئڈ نے سو فیصد کبھی بھی برتن پر سے نہیں اترنا ۔ اور وہ ایک ادھ تہہ آپ کے کھانے کے ساتھ پھر آپ ہی کے اندر جائے گی ۔ جو کینسر کا سب سے بڑا موجب ہے ۔ اس پر پانی بے تحاشا بہایا جائے گا لیکن صاف نہیں ہو سکتا ۔ اس کا بہتر طریقہ دیسی اچھے برتن دھونے کے صابن جو پہلے استعمال ہوتے تھے۔ لوکل بنا کرتے ہیں استعمال کیئے جائیں ۔ اگر لیکوئڈ استعمال کرنا بھی پڑے تو اس کے ایک حصے کو خالی بوتل میں ڈال کر اس میں تین حصے پانی کے ڈال کے اچھی طرح ہلا کر استعمال کریں اور برتن دھوتے وقت ہاتھ کو برتن پر تیزی سے پھینٹنے کے انداز میں ملئیے ۔ تاکہ سو فیصد کیمیکل اتر جائے۔ ایسا ہی اپنی شیمپو ، اور نہانے کے لیکوئڈ کیساتھ کیجیئے ۔انہیں خالص استعمال کرنا خود اپنے ہاتھوں موت خریدنے جیسا ہے ۔ اس سے آپ کا پانی بھی کم استعمال ہو گا ۔وقت بھی بچے گا ۔ یہ مٹیریل ذیادہ چلے گا ۔ پیسہ بھی بچے گا اور جان  بھی بچے گی بیماریوں سے ۔ 
گھروں کے اندر خوشبو کے لیئے دیسی اچھے عطر کا استعمال کیجیئے ۔ کیونکہ مصنوعی ائیر فریشنر آپ کی سانس کیساتھ آپ کے اندر خطرناک امراض جیسے کینسر بھی پہنچا رہا یے ۔ ظاہر ہے آپ ہوا میں موجود فریشنر کو سانس میں لیجانے سے تو روک نہیں سکتے ۔ یا پھر گھر میں گملے ہی میں پھولوں کے جیسے گلاب ، موتیا ، چنبیلی (یا جو بھی خوشبو آپ کو پسند ہو )کے پودے لگانے کا رواج پھر سے ڈالیئے جو آپ کے گھر کو قدرتی طور پر مہکائے رکھے گا ۔ 
اسی طرح آتے ہیں میک اپ کی جانب جو ہر خاتون اور صاحب نے ضرور ہی استعمال کرنا یے پرفیوم لازمی اور بہت ذیادہ اس کلاس کے لوگوں میں چھڑکے جاتے ہیں جو کہ نرا زہر ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ایک تو یہ چیزیں جیسے پرفیوم، باڈی لوشنز ، ہینڈ کریمز، چہرے پر لگایا جانے والا میک اپ جیسے فلوئڈ یا بیس، فیس پاوڈر،جو آپ کے منہ کے اندر بھی کسی نہ کسی صورت کچھ نہ کچھ جا رہا ہوتا ہے ۔ یہ سب زہریلے مواد آپ کو مصنوعی خوبصورتی تو دے رہے ہیں لیکن اصلی کینسر جیسی  بیماری کیساتھ ۔ ان چیزوں کا استعمال کم سے کم کریں ، ہاتھوں پر لگے کریم اور لوشنز کو صابن سے اچھی طرح دھوئے بنا کبھی کھانے کی کوئی چیز اس سے اٹھا کر اپنے یا کسی کے منہ میں مت رکھیں ۔ آپ کے ہاتھ سے یہ زہر اس منہ تک بھی پہنچ رہا ہے ۔ اسی طرح ایکدوسرے کو پیار کرتے ہوئے خیال رکھیئے کہ اس کے یا آپ کے چہرے کا میک اپ ہونٹوں ہا زبان  سے لگ کر آپ کے منہ میں کسی صورت تو نہیں پہنچ رہا ۔ یہ بھی زہر ہے ۔ 
رات کو میک اپ صاف کرنے کے بعد تازہ پانی سے منہ دھو کر سوئیے۔ کیونکہ آپ کے چہرے کا یہ میک اپ صاف کرنے والا مواد بھی مصنوعی زہر سے لبریز ہے ۔ 
ان باتوں کا خیال رکھیئے اگر آپ کو اپنی اور اپنے سے جڑے لوگوں کی جان اور صحت بھی عزیز ہے تو ۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 7 مئی، 2019

ماہ رمضان رب ۔ شاعری


            ماہ رمضان رب 
                 (کلام:ممتازملک.پیرس)

سال بھر کی کثافت کو دھو لوں زرا 
ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا 

صبر کا شکر کا کیا ہے یہ سلسلہ 
دوسروں کے مسائل سمجھ لے ذرا
 کیسے ٹوٹے ہوئے دل سے تو دل ملا 
یہ سبھی جان کر جی ملے گا مزا
ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا 

اشک شوئی تیرا منصب عین ہے
دردمندی میں ہی تو چھپا چین ہے
دور تک کی خبر تو  بہت ہے مجھے
اپنے نزدیک کی لوں خبر سر جھکا 
ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا 

میرا ہر سال حج تو ضروری نہیں 
میرا ہر سال عمرہ شعوری نہیں 
بھوک سے درد سے جو کوئی مر گیا 
رب کے بندوں کو تیری طلب ہے سوا
ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا 

 اس برس مجھ سے اللہ  لے کام وہ
فرش پر ہی نہیں عرش پر  نام ہو
اپنے آقا کے چہرے پہ دیکھوں خوشی اور حاصل ہو ممتاز رب کی رضا
     ماہ رمضان رب نے مجھے دیدیا

      ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 6 مئی، 2019

نعت ۔ عطا کیجیئے ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم



عطا کیجیئے
کلام/ ممتازملک۔پیرس

ہم سے بھی ملا کیجیئے 
دیدار عطا کیجیئے

 دل مبتلا ہے جس میں 
اس غم سے رہا کیجیئے 

ہم بھی ہیں غلاموں میں 
دنیا کو بتا دیجیئے 

 کیا آپ سے پردہ ہے 
خوشیوں کی دعا دیجیئے 

امید ہے جو مجھ کو 
اس سے بھی سوا کیجیئے

یوں میری خطاوں پر
 خودکو نہ خفا کیجیئے


دل روز سلامی دے  
اوقات بڑھا دیجیئے

ملتا ہے سبھی کچھ تو 
بس  آس دلا دیجیئے 

ممتاز آقا جی سے 
ہے شرط وفا کیجیئے
۔۔۔۔۔۔







اتوار، 5 مئی، 2019

آئی لو یو ۔ کالم

آئی لو یو تحریر: (ممتازملک.پیرس) آج جہاں دیکھیں لڑکے لڑکیوں کے دماغ پر عشق وشق کے ڈیرے ہیں ۔ والدین کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آ پاتی کہ اپنی بیٹی کو ہم اعتماد کے ساتھ گھر سے باہر جا کر پڑھنے لکھنے یا کام کرنے کی کھلی اجازت دیں تو یہ لڑکی ہمارا سر بلند کریگی یا پھر ہمارے لیئے بدنامی کا باعث بنے گی ۔ اس سوچ کی وجہ وہ لڑکیاں ہیں جو جہاں دو الفاظ لکھنے کے قابل ہوتی ہیں، وہیں ان کی بدکرداری بنام لو سٹوری شروع ہو جاتی ہے ۔ اس وقت اس ایک آئی لو یو نے ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ رکھی ہوتی ہے کہ نہ اسے سامنے والے کا خاندان اور اس کی شہرت دکھائی دیتی ہے ، نہ اس کا کردار دکھائی دیتا ہے ، نہ اس کا لب و لہجہ اور تعلیم و تربیت نظر آتی ہے ۔ گویا یہ وہ جملہ ہے جو تیزاب کی طرح کسی بھی لڑکی کی عزت کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے ۔ اس ساری کاروائی کو دیکھنے والے کمزور دل والدین اکثر ان لڑکیوں کے حق تلفی بھی کر بیٹھتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں اور عملی زندگی میں بڑا نام و مقام بنانے کی بھرپور صلاحیتیں رکھتی ہیں ۔ لیکن انہیں گھر میں بند ہونا پڑ جاتا ہے ۔ ان کا مستقبل تباہ برباد ہو جاتا ہے ۔ جبکہ لو یو ماری لڑکیوں کو تو بس نظر آتا ہے تو ہر طرف ہرا ہی ہرا ۔ فلمی خواب اور فلمی سین سر پر سوار کرنے والی یہ لڑکیاں نہ کبھی اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کر سکتی ہیں ، نہ یہ کسی شعبے میں ماہر ہو پاتی ہیں ، اور پھر مرے پہ سو درے ان کا دماغ بس عاشقانہ جملوں کے لیئے ہی گھن چکر بنا رہتا ہے ۔ یہ بھی ایک طرح سے ذہنی مرض ہی تو ہے جسے وہ عشق سمجھ کر فلمی ہیروئن بننا چاہتی ہیں ۔ ہم نہ تو محبت کرنے کے خلاف ہیں اور نہ ہی پسند کی شادیوں کے خلاف ۔ لیکن کسی بھی لڑکی کو سب سے پہلے اپنی تعلیم و تربیت پر دھیان دینا چاہیئے ۔ اور اس بات کا یقین رکھنا چاہیئے کہ انکے والدین ان کے لیئے ایک اچھا فیصلہ کر کے ان کا ہاتھ کسی اچھے انسان ہی کے ہاتھ میں دینگے ۔ جس میں ان کی رضا مندی کو بھی اہمیت دی جائے گی ۔ ہاں اگر آپ کے والدین کسی بھی وجہ سے آپ کے چوبیس پچیس سال کی عمر کے بعد بھی ، اچھے رشتے آنے کے باوجود آپکی شادی کی راہ میں بلاوجہ روڑے اٹکا رہے ہیں تو پھر آپ اپنی کسی اچھی اور ہمدرد عزیز کو اعتماد میں لیکر اپنے فیصلے سے والدین کو آگاہ کریں ۔ اور وہ آپ کو عزت سے رخصت کرنے کو تیار نہیں ہیں تو پھر کسی عزیز کے گھر سے ہی شرعی نکاح کے بعد شادی سے رخصت ہو جائیں ۔ لیکن یہ یاد رکھیں جو لڑکیاں فقروں پر عاشق ہو کر گھر والوں کی رضا کے بغیر شادی شادی کھیلتی ہیں انہیں بہت سی آزمائشوں کے لیئے تیار رہنا چاہیئے ۔ انہیں اس کے ہاتھوں فاقے کاٹنے ، گھریلو تشدد کا شکار ہونے اور بے پرواہی کے دکھوں کے لیئے تیار رہنا چاہیئے ۔ اسی لیئے مرد کی شکل سے پہلے اس کا کردار اور اس کی جیب دیکھی جاتی ہے ۔ اور گھر والے سو باتیں دیکھنے کے بعد ہی بیٹی کا رشتہ دینے پر آمادہ ہوتے ہیں ۔ ادھر آج کی لڑکی کو کسی نے مذاق میں بھی آئی لو یو پھینکا ادھر وہ اس کے بستر تک پہنچنے کو تیار ہو گئی ۔اور اگلا شکاری بھی ایسی چادریں روز بدلنے کا ماہر ہوتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔

ہفتہ، 4 مئی، 2019

بیوقوفانہ سوال ۔ کالم

           


               بیوقوفانہ سوال       
                    (تحریر:ممتازملک.پیرس)


 ابھی کچھ روز پہلے ہی کی بات ہے ہمارے ایک نوآموز صحافی نے ایک پروگرام کے اختتام پر ایک نامور سینئیر شاعر سے سوال کیا کہ سر کیا وجہ ہے کہ آج کل کے شعراء کے کلام میں وہ بات نہیں ہے جو آپ کے دور کے شعراء کے کلام میں تھی؟ ہم نے بڑی شدت سے یہ چاہا کہ کھڑے ہو کر اس صحافی نما کو یہ جواب دیتے بھائی حلفا بتاو آخری وہ کون سی کتاب ہے جو تم نے خریدی تھی یا کتنا عرصہ قبل آخری بار تم نے کوئی کتاب پڑھنے کی نیت سے کھولی تھی؟ لیکن بس آداب محفل آڑے آ گیا اور ہم خاموشی سے اس سوال جواب کو سنتے رہے ۔ ہمارے ہاں غیر ضروری طور پر فعال ہونے کی کوشش ہی اکثر ہمارے فیل ہونے کی وجہ ہوتی ہے ۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ہمیں کسی نے پوچھا آپ کہاں لکھتی ہیں؟ میں نے تو آپ کو کبھی نہیں پڑھا نہ آپ کا نام سنا ہے ۔ ہم نے کہا یہ بتاو آج کل کے معروف کوئی سے تین لکھاریوں کا نام بتاو؟ جواب پتہ نہیں۔ اچھا آجکل کے کوئی سے تین شاعروں کا ہی نام بتا دو ؟ جواب پتہ نہیں میں شاعری میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اچھا کوئی سے تین کالمنگاروں کے ہی نام بتا دیجیئے ؟ جواب ملا ، زہن میں نہیں آ رہے ہم نے کہا بھائی فوٹو باز کبھی کوئی پڑھنے والی سائیٹ کھولے گا، کوئی کتاب خریدے گا ، کوئی پروگرام دیکھے سنے گا تب ہی تو تمہیں معلوم ہو گا کہ کون کیا لکھ رہا ہے ، کیسا لکھ رہا ہے ، کتنا لکھ رہا ہے ۔ ۔۔یوں بونگیاں مار کر نہ تو کوئی بڑا صحافی بن جاتا ہے اور نہ ہے عالم کہلا سکتا ہے ۔ اس سے بڑا کسی کا صحافت کیساتھ  مذاق کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے ہی علاقے میں رہنے اور لکھنے والوں کا ہی علم نہ ہو ، اپنے ہاں سوشل ورکرز کا علم نہ ہو ، اپنے علاقے کے لوگوں کی آبادی، اور طرز معاشرت کا علم نہ ہو ۔ اور آپ چلیں یہ تبصرہ کرنے کہ آج کل وہ کام نہیں ہو رہا جو آپ کے زمانے میں ہوتا تھا ۔آگے سے اگر کوئی حاضر دماغ لکھاری ٹکرا جائے تو وہ بھی یہ جواب دیگا کہ برخوردار جب ہم جوان تھے تو ہمارے بڑوں سے بھی تم جیسے نقل مار کر پاس ہونے والے صحافی یہ ہی سوال کیا کرتے تھے کہ سر کیا بات ہے آج کل لکھنے والے ویسا نہیں لکھتے جیسا کہ آپ کے دور میں لکھا کرتے تھے ۔ ھھھھھھ۔ سو سوال جواب کرنے اور صحافی کہلانے کے لیئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ حالات حاضرہ سے باخبر ہوں ، اچھے قاری ہوں جو ہر قسم کے مطالعے کا بھرپور شوق اور عادت رکھتے ہوں ۔ جنہیں موجودہ دور کے مسائل اور آسانیوں کا مکمل شعور اور ادراک ہو ۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم کیمرے سے تصویر ہی اچھی لے لیا کریں ۔ یقین مانیئے پاکستانی صحافیوں کی اکثریت کے کیمرے کی وہ کوالٹی ہوتی ہے کہ اچھے بھلے حسین انسان کو بھی بھوت بنا کر پیش کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے ۔ اور ان کی تصاویر کسی بھی خوبصورت سے خوبصورت انسان کو بھی باآسانی کسی کے بھی دل سے اتار سکتی ہیں ۔ ان ایمرجنسی صحافیوں کو ایک ہی شعبے میں کام سکھایا جائے تو یہ کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں ۔ اور جو لکھنے پڑھنے سے کورے ہیں انہیں اچھے کیمرے کی پہچان اور فوٹو بنانے کے طریقے اور اچھی تصویر کے اینگل سمجھنے ہی کی کچھ تربیت لے لینی چاہیئے ۔ تاکہ یہ جو خوبصورت لوگوں کو "کوجا" بنا کر پیش کرنے کا مقابلہ ہو رہا ہوتا ہے اسے تو کچھ لگام دی جا سکے ۔
                        ۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 2 مئی، 2019

عظمت نصیب گل ۔۔۔کے بعد پر تبصرہ


۔۔۔۔کے بعد


عظمت نصیب گل کی کتاب 
۔۔۔۔۔ کے بعد

عظمت نصیب گل صاحب ایک بہت ہی بامروت اور شریف النفس انسان ہیں ۔ وہ ایک پختہ لہجے کے شاعر بھی ہیں اور کہانی نویس بھی ۔ اب تک ان کی چار کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور ہم ان کی 5ویں  کتاب ۔۔۔ کے بعد کی رونمائی کے لیئے یہاں موجود ہیں ۔ یہ انکی پہلی اردو شاعری کی کتاب ہے ۔ بنیادی طور پر عظمت نصیب گل پنجابی زبان کے شاعر ہیں اور اپنی ماں بولی میں اظہار خیال کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ 
لیکن ان کی اس کتاب کو پڑھ کر کہیں بھی آپ کو اس بات کا شائبہ تک  نہیں ہو گا کہ وہ اردو اظہار خیال میں کہیں بھی کسی سے کم ہیں ۔ 
ان کی اس کتاب مییں شاعری نہیں حقیقتوں کے پنے ہیں جو الٹتے ہیں تو وہ آپ کے دل کے دروازوں کو بھی کھولتے چلے جاتے ہیں ۔  اس کتاب میں سچائی ، سادگی ، اور پر کاری سے مزین  شاعری میں آپ ان کے تجربات اور مشاہدات کو باآسانی پڑھ سکتے ہیں ۔ جیسے کی 

اجرت واجب نہ تھی کام زیادہ تھا 
جیون کے سودے میں دام زیادہ تھا

میں نے جنت کو چھوڑا تھا اس کارن 
وحشت اس میں کم آرام ذیادہ تھا 

پیچ نہیں تھے اتنے ان کی باتوں میں 
ان کی سوچوں میں ابہام ذیادہ تھا 

کسی نے پوچھا تو فرمایا دلبر نے 
شاعر خاص نہیں تھا نام زیادہ تھا 

میں نے نصیب کو بڑے قریب سے دیکھا ہے 
برا نہیں تھا بس بدنام زیادہ تھا 

یہ اور اس جیسا بہت سا خوبصورت کلام پڑھے جانے کا منتظر ہے ۔  آپ کا ذوق مطالعہ ہی اس کی داد ہو گا ۔ 
میری جانب سے عظمت نصیب گل صاحب کے لیئے بہت سی دعائیں اور نیک خواہشات 
                       ۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/