ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 16 اگست، 2013

● (72) نورِازل/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(72) نورِازل



      نورِازل سے نورِابد تک تیرے ساتھ کا وعدہ ہے
کتنے بھی رنگوں میں ڈھل کرحسن تو اسکا سادہ ہے

تیرے ایک اشارے پرکوئی عکس کرے کوئی رقص کرے
             فطرت کی ہر اِک شے میں تابعداری کا مادہ ہے

   جنکی خوشی میں خوش ہو کر ہر چیز فنا ہوجاتی ہے
کیوں میں نے اس پیار کو زہن پہ بوجھ کی طرح لادا ہے

اسکی تو ہر ایک عطا ہی کہیں پہ مجھ کو کم لگتی ہے 
       میری تھوڑی سی بھی شکرگزاری بہت ذیادہ ہے 

  ہر ٹکِ ٹکِ پر میرے ذہن کو سوچ کا وہ اِک موقع دے
کون ہے جس نے سورج چاند کو اِک مرکز پہ باندھا ہے

   نہیں ضرورت ہتھیاروں کی نہیں تمنّا یلغاروں کی    
توڑ سکے نہ پھر بھی مجھ کو یہ مضبوط اِرادہ ہے    


اِک ممتاز کے دم بھرنے سے نہ تُو کم نہ ذیادہ ہے
بس تیری تسبیح کروں میں خود سے میرا وعدہ ہے
●●●
کلام: مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (70) گُل نہ مار/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(70) گُل نہ مار


کانٹوں کا احتساب ہے پھولوں کا انتظار
یوں گل اُٹھا کے نہ تُو میرے زخمی دل پہ مار

گر آج ہیں نصیب سے راہیں جُدا جُدا
ممکن ہے کل یہ وقت نگاہوں کو کر دے چار 

کچھ تو لحاظ بات میں لہجے میں چھوڑیئے
اس سے ذیادہ جھیل نہ پائیگا دل بیمار

سوچوں کو انتخاب کا موقع تو دیجیئے
جس میں حقیقتوں کے مناظر ہیں بیشُمار

وابستہ تیری ذات سےغم پہلے کم نہ تھے
مجھ کوتیرے وجود سے ملتی ہےصرف ہار

انہونیوں نے راستے گھر کے بتا دیئے
ممتاز ہونیوں نے کبھی کا دِیا تھا مار

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●  

● (71) رختِ سفر /شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(71) رختِ سفر



چلو کہ رخت سفر ہے باندھا
 ہمارا بھی منتظر کوئی ہے
وہ جن کا اپنا کوئی نہیں ہے
 نہ سوچوانکا بھی گھر کوئی ہے 

جو رکھتے ہیں شوق خودنمائی
 جو اپنے پنجوں پہ قد بڑھائیں 
صدا دکھانے کو دے رہے ہیں
 بتاؤ اہل ہنر کوئی ہے 

طویل کتنی ہو رات کالی 
مگر یہ رکھنا یقین لازم
مثال پچھلی تمام راتیں
  ضروراسکی سحر کوئی ہے

جہاں یہ اپنا وجود کھو دے
 وہیں یہ بیخود دھمال ڈالے
یہ کون آ آ کے پوچھتا ہے
 فقیر کا بھی نگر کوئی ہے

نہ ڈگمگائیں قدم کہیں پر
 نہ ان میں کوئی بھی موڑ آئے
یہ رکھ کے ہاتھ اپنے دل پہ کہنا
 جہاں میں ایسی ڈگر کوئی ہے

خود اپنی آنکھوں سے دیکھکر بھی
 یہ پوچھتےہوکہ حال کیاہے
کوئی بتائے سوال کا اس
 کہیں پہ پیر اور سر کوئی ہے

جو بات کا در کھلا رہے تو
 فساد کا در بھڑا رہیگا
یہ ہی تھا ممتاز تم سے کہنا
 کہوشکایت اگر کوئی ہے  
●●●
کلام: مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (69) ٹوٹے تارے / نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے


(69) ٹوٹے تارے



ٹوٹے ہوئے تارے کو دیکھو تو دُعا مانگو 
پھر سے نہ بچھڑ جائیں دنیا کے جھمیلے میں

کچھ فیصلے کرنے ہیں کچھ راز بھی کُھلنے ہیں  
لوگوں میں کہیں کیسے ملتے ہیں اکیلے میں 

دل نے جو صدا دی تو دل تک وہ پلٹ آئی
اِک گونج سی سنتے ہیں اتنے بھرے میلے میں 

کب ہم کو میسر تھی عزت یہ زمانے میں 
مصروف تھے جینے کی اِک رسم نبھانے میں 

پھر جیسے ندا آئی چُپ چاپ چلے آؤ
جو دل میں چھپایا ہے وہ حال سنا جاؤ

جنبش جو ہوئی لب کو دیکھا تو عجب عالم
مصروف واں  خلقت تھی کیا حال سنانے میں 

چُپ چاپ تکے ہم تو خاموش رہے ہم تو 
اپنا لگا ہلکا تھا اوروں کے سنے غم تو 

سر اپنا جھکا دیکھا تو عقل چلی آئی
نظریں یہ اٹھیں جس پل جٹ جاتی بتانے میں 

دل درد کا ساگر ہے اور آنکھ کا پیالہ ہے 
ہر لمحہ بھرا اسکو ہر لمحہ نکالا ہے 

تھوڑی سی تسلی بھی شاید نہ اسے بھائی 
مصروف رہی دنیا ساگر کو سکھانے میں 
●●●
کلام \مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (68) خود کو بڑا کر/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




(68) خود کو بڑا کر


محبوب ہیں جو اسکے کبھی ان میں جگہ پا 
لاچار سے لوگوں میں نہ یوں خود کو بڑا کر

جو کہ ہیں طلب گار جاہ و ہشم انہیں کہہ
ان عاشق دنیا کے نہ تو در پہ پڑا کر

بے مایہ یہ جھنجھٹ ہیں تو بے فیض کلامی
بچنا ہے تو تُو ذہن پہ پہرے کو کڑا کر

ہر چیز اپنی جا پہ ہی اچھی نظر آئے
ہیرے کو کبھی جا کے نہ پیتل میں جڑا کر 

ہاتھوں کو بنا کاسہ نہ آ نکھوں کو سوالی
نہ اپنی خودی کو یوں فقیروں میں کھڑ اکر

ہر ایک کو ہے اپنے اصل پر ہی پلٹنا
دیوار کے لکھے کو شب و روز پڑھا کر

جتنا بھی ہے منظور خدا وہ ہی ملے گا
مُمتاز مقدر کی لڑائی نہ لڑا کر

●●●
کلام: مُمتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (67) سچا ہی تو تنہا ہے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(67) سچا ہی تو تنہا ہے


سچا ہی تو تنہا ہے جھوٹے کے ہیں یار کئی 
پھر بھی اس سے ڈرتے ہیں کتنے ہیں لاچار بھئی

بے پیندے کے لوٹوں جیسا ان کا حال سدا رہتا ہے 
پھر بھی جون نہ بدلیں اپنی ذہنی ہیں بیمار کئی

جیسی ہیں بے وقت نمازیں ایسی ان کی توبہ ہے
راتوں کو بھی اٹھ اٹھ کر ہیں کتنے ٹکریں مار کئی

اک بات انہیں سمجھادے کوئی اک رستہ دکھلا دے کوئی
اک تنہا ہی ہے سچا ہے نہیں اسکے لیئے منجدھار بھئی

بس فرض ادا کرتے جاؤ یہ حکم ہے جسکا اسکے لیئے
ان لوگوں نے کیا دینا ہے ہر روز کریں تکرار نئی

یا بیٹھے گا یا بہہ جائیگا بس آگ کی لو کو کم کر دو
یہ جوش ابلتے شیر سا ہے نہ ان میں پھونکیں ماربھئی

  بدمست جوانی میں انکو کب ہوش ہے یہ ڈھل جائے گی    
  ممّتاز جو اچھی بات کرے یہ لے آئیں تلوار نئی    
         
  ●●●    
     کلام/مُمّتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
                  ●●●                                                                         

● (66) کائنات/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے



(66) کائنات



ساری کائنات تیرے حکم پر رواں دواں 
ہم یہ پوچھتے رہے کہ تُو کہاں ہے تُو کہاں 

حشر ہو گیا بپا مگر دلوں کا قُفل ہے
جو نہ کھل سکا کہ منتشر ہوا ہے یہ جہاں 

میری ہی گواہیاں میرے خلاف جائینگی
مجھ کو دِکھ رہا ہے اک گناہ بحرِ بیکراں 

کچھ نہیں ہے ہاتھ میں لٹ گیا ہے ہر سکوں 
طفل کی طرح نہ دے تُو مجھکو اب تسلّیاں 

آب خورے آنکھ کے بھرے بھی اور چھلک گئے
نہ تو اب وہ جام ہے نہ وہ لن ترانیاں 

جسکی جستجو میں اتنی دُور تک ہم آ گئے
وہ تو ہم سے آج بھی اسی طرح رہا نہاں 

ولولے وہ شوق اور صدق کی وہ منزلیں 
مُمّتاز کس طرح کرے گی دل کا حال اب بیاں 
●●●
کلام: مُمّتازملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (60) کیوں لگتا ہے/ شاعری۔ میرے دل کا قلندر بولے


(60) کیوں لگتا ہے



مجھ کو ایسا کیوں لگتا ہے میرا آنا پہلی بار نہیں ہے 
اپنے سر جو لے بیٹھے ہیں پھولوں کا وہ ہار نہیں ہے 

کیسا گلہ اور کیسا شکوہ اپنے زخموں پر چُپ رہنا
خاموشی سے درد کا سہنا کیا یہ کارو کار نہیں ہے

ہر پل مجھ کو نئی تمّنا ہر پل خواہش شاباشی کی
اے دل مجھ کو سچ کہنا کہ کیا یہ کاروبار نہیں ہے

دنیا میں آنے سے پہلے کیا تم کو معلوم نہیں  تھا
یہ تو جگہ ہے صرف سزا کی کوئی کسی کا یار نہیں ہے

ایک دفعہ جب اس رستے پر چلنا عادت ہو جائے
منزل کو پا لینا پھر تو اتنا بھی دشوار نہیں ہے

عمل سے خالی ہے تو کیا ہے رِیت نرالی ہے تو کیا ہے 
تم اک اچھے قصّہ گو ہوہم کو تو انکار نہیں ہے 

ہاں اب ہم مصروف بہت ہیں لوگوں سے بھی کم ملتے ہیں 
تم  سے بھی نہ مل پائیں اب ایسی مارا مار نہیں ہے 

نہ کوئی رنجش ہے ان سے نہ کوئی مُمّتاز بھرم
اپنے بیچ میں سرٹکرانے کو کوئی  دیوار نہیں ہے

بدن کی تیری ساری چوٹیں خوش ہوں کہ اب دور ہوئیں 
لیکن اس سے ذیادہ خوش کہ روحانی بیمار نہیں ہے 
●●●
کلام:مُمّتازملک
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

● (65) گل چننا نہیں آیا/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(65) گل چننا نہیں آیا



  ہمارے راستے کچھ اسقدر بے نام بھی نہ تھے   
  چراغ راہ بننا تھا مگر بننا نہیں آیا 

  صدائیں دیں بہاروں نے کہ آ کر پھول لیجاؤ 
 مگر ہم بد نصیبوں کو وہ گل چننا نہیں آیا 

 ہماری خوش نصیبی ڈھونڈتی پھرتی تھی ہم کو اور 
   ہمیں اس خوش نصیبی کی صدا سننا نہیں آیا   

   بہت موقع ملا ہم کو کہ ٹوٹے پھر سے جڑ جائیں  
 مگر افسوس ادھڑا پھر ہمیں بُننا  نہیں آیا

  وہ ایسا راگ کہ دنیا بھی جس پر مست ہو جاۓ 
  ہمیں اس راگ پر اپنا یہ سر  دُھننا نہیں آیا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●  

حیثیت / اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



حیثیت
ممتازملک ۔ شاعرہ

ضرورت سے کبھی بھی حیثیت جانچا نہیں کرتے 
یہ پہلا ہےاُصول اِسکو کبھی آخر نہیں کرتے 

بہت سے لوگ جیتےجی بھی مرجاتےہیں دنیا میں
مگر کچھ لوگ مر کر بھی حقیقت میں نہیں مرتے 

منظم اور بےترتیب لوگوں کا تقابل کیا 
منظم لوگ ہی تو آزمائش سے نہیں ڈرتے

کبھی دیکھا کسی ریوڑکوچرواہے کی سنگت میں 
بھرا ہو پیٹ تو پھر وہ چراگاہیں نہیں چرتے

یونہی الزام در الزام کی خاطر کئی باتیں 
بنا چاہے بھی ہم اک دوسرے کے سر پہ ہیں دھرتے

پچھاڑے جو پہلواں کو وہ طاقتور نہیں ہوتا
ہے طاقتور جو اپنے غصے کے آگے نہیں ہرتے 

ارادے ٹوٹنے سے ہی خدا کو جان پاتے ہیں
وہ جن کے عِلم سے ممتازروشن ہیں دیئےکرتے

مجموعہ کلام / میرے دل کا قلندر بولے

،،،،،،،،،،،،،،

مجھے امید ہے




امید


مجھے امید ہے اک دن اندھیرے روٹھھ جائیں گے
 نئ صبح طلوع ہو گی سویرے مسکرائیں گے

   خراماں اور سبک رفتار ہواؤں کے تھپیڑے ہوں 
  نہ بنکر آندھیاں سر سے چھتوں کو یہ اڑائیں گے 

  چراغاں اب مزاروں کا مقدر ہی نہیں ہو گا  
 محلے اور گلی کوچے  بھی اک دن جھلملائیں گے 

   نئ اب کونپلیں پھوٹیں نۓ پتے اگیں گے اب   
  درختوں کے لبادے  بھی نیا جوبن دکھائیں گے

  نہ پانی کا کبھی لہجہ کہیں سیلاب سا ہو گا 
   بھری ندیاں چلیں گی اور دریا گنگنائیں گے  

ہمارا ہاتھ تو تھاما ہے قدرت نے فراغت سے  
  پسینہ لے کے ماتھے پر قدم آگے بڑھائیں گے   

 بہت ہی جلد  ایسی بھی کوئ صبح طلوع ہو گی 
  جہاں جا کر اندھیرے اب سدا کو منہ چھپائیں گے  

  زرا ہمت کرو مُمتاز کہ اُمید زندہ ہے
  ہمارے کھیت پھر اس شان سے ہی لہلہائیں گے
........................

● (62) اک چھت تلے/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے

             



              (62) اک چھت تلے
 

 اک چھت تلے رہتے ہوۓ پرواہ نہیں تھی
   گھر جب سے ہوۓ دور تو یاد آنے لگے ہیں

  پہلے جو تھے اک دوسرے کی شکل سے بیزار  
  آج اپنی ہی صورت سے وہ بیگانے لگے ہیں
   
  آۓ نظر اپنا کوئی شیرینیاں بانٹوں
   شدت سے یاد آکے جو تڑپانے لگے ہیں

   میں اپنی بیقراری کا نوحہ کہاں پڑھوں 
  قبروں پہ وہ چراغاں تو کروانے لگے ہیں

  میں روک نہ  پاؤں انہیں جاتے ہوۓ دیکھوں 
 ہاتھوں سے لمحے ریت جیسے جانے لگے ہیں

 اک شاخ کے پھولوں کو کچلتے ہوۓ دیکھا
  کیا میری طرح سب کو یہ دیوانے لگے ہیں

 مُمتاز جو ہونٹوں کو ہنسی دے نہیں پاۓ 
   غم ہنستی ہوئی آنکھوں میں چھلکانے لگے ہیں 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

سربستہ راز ۔ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




سربستہ راز

سربستہ رازوں کو اب میں جان رہی ہوں  
  چھپے ہوۓ لہجوں کو اب پہچان رہی ہوں

    سیدھے رستوں کی متلاشی رہی ہمیشہ
   اس کے ہر اک موڑ سے میں انجان رہی ہوں

   اپنا لکھا آپ جو پڑھنے بیٹھی جانا  
 میں تو سب کے غم کا اک دیوان رہی ہوں  

 جس کی دیواروں میں درد بسیرا کر لیں 
  میں خاموش سا ایسا ایک مکان رہی ہوں 

   مجھ میں آوازوں کی گونج سنی جاتی ہے 
  صدیوں سے ہی شاید میں ویران رہی ہوں

   کبھی یہاں نقارے گونجا کرتے تھے  
  حیرت کا اب لوگوں کے سامان رہی ہوں   

ہر اک چوٹ کے بعد قدم جماۓ پھر سے 
  جینے کا میں ہر باری امکان رہی ہوں  

 کبھی خوشی کا اوڑھ لبادہ کبھی غموں کی چادر 
 ہر اک رنگ میں میں تو بس مہمان رہی ہوں 

  روشن امیدوں کو قأیم رکھنا ہو گا  
  ہمت والوں کی میں تو مسکان رہی ہوں   
 
 اب اک ہی افسوس مجھے مُمتاز رہے گا
 دیر بہت کر کے میں یہ سب مان رہی ہوں 


کلام / مُمّتازملک
مجموعہ کلام / میرے دل کا قلندر بولے



....................
 

زندگی کی زلف




زندگی کی زلف

تم زندگی کی زلف کو کتنے بھی پیچ دو
  سچی گواہیاں بھی سر عام بیچ دو 

   کر نہ سکو گے مجھ کو کبھی مبتلاۓ خوف
    چاہے کسی جگہ بھی میری کھال کھینچ دو   

 ہم کو اگر نصیب نہیں بارش مراد
 وادئ حیا کی خون جگر سے ہی  سینچ دو

  مقدور بھر جو میری اطاعت نہ ہو قبول 
  مٹھی میں میرا نامة اعمال بھینچ دو

  یا تو میری حیات کا مُمتاز ہو معیار  
 یا پھر میری حیات کا نقشہ ہی کھینچ دو

 کلام/  مُمتاز ملک 
..................

● (59) سرگزشت / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(59) سرگزشت



حیراں ہوں کائنات کی یہ کیسی سرگزشت ہے
  دوزخیں ہیں اسطرف تو اسطرف بہشت ہے 

  مسکرا کے سوچتے ہیں وہ بھی جانتا تھا یہ 
 الجھنوں کو پار کرنا ہی میری سرشت ہے  

 حوصلوں کو آزما کے جیت لوں بینائی تو  
   پھر دکھائی دیگی کہ کہاں میری نشست ہے 

   کیا کیا کیا نہ کیا کیوں کیا یہ کب کیا
   مُمتاز کیا شمار اسکا یہ بڑی فہرست ہے
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●● 

● (57) گلے کا ہار/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(57) گلے کا ہار

یہ نہ ہو جو آج کہہ بیٹھے ہیں آپ 
  معاملے  یہ کل گلے کا ہار ہوں 

  جان کتنی بھی چھڑانا چاہیۓ
   جان  لینے کے لیئے تیار ہوں 

 کچھ وضاحت کام پھر نہ آسکے 
  محنتیں ساری یونہی بیکار ہوں

   آپ کے لفظوں میں اس دم ہیں حلال 
  آپ کی خاطر یہ کل مردار ہوں  

 یوں نہ بڑھ چڑھ کر تقاضا کیجیئے
 گر دینے والے آپکے دلدار ہوں 

 ظلم میں حد سے نہ باہر جایئے
 کل کہیں خود آپ  نہ سنگسار ہوں 

  ہمکو بھی مُمتاز گر سہنا پڑے 
 ہم بھی ان حالات سے دوچار ہوں

●●●
  کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (56) فطری دھمال/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے




(56) فطری دھمال


ہر کوئی گھومتا ہے زمانے کی چال پر
شاید ہے محورقص وہ فطری دھمال پر 

  وہ کہہ رہا ہے خوبیاں اپنی تلاش کر 
  دوجے کو دیکھ اپنا نہ چہرہ گلال کر  

 بے پر کی اڑاتا ہے جو لفظوں کے کھیل میں 
  کوئی تجھے پرکھے ہے مصیبت میں ڈال کر 

  آئیگا کسی روز مجھے لینے سنا ہے  
اس دن کا انتظار کروں دل سنبھال کر 

  آئیگا وہ تو ساتھ مجھے لیکے جائے گا 
 تیار نہ اسکے لیئے حیلوں کے جال کر

   لمبی اڑان بھر کے بہت تھک گیا ٹہر
  تو اڑ چکا پر پُرزے بہت سے نکال کر 

 پُرکاریاں تیری جو کسی کام آسکیں  
 ممتاز انکو گدڑی میں رکھنا سنبھال کر
●●●
 کلام:ممتاز ملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
 ●●●   

● (55) سلسلے/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(55) سلسلے


کتنے بےربط سلسلے ہیں سبھی 
 پھر بھی لگتا ہے ہم ملے ہیں کبھی  

 کوئی رشتہ ہے آنسوؤں  سے کہیں
   اس لیئے اتنے دل جلے ہیں سبھی  

 اک عجب سا جمود طاری ہے  
زخم بھی کچھ تو ان سلے ہیں ابھی 

  موت کی آرزو بھی کیا کرتے   
 زندگی سے کئی گلے ہیں ابھی

   دل کی کشتی ہے وقت کا طوفاں
پھر بھی ساحل سے جا ملے ہیں کبھی  

 کانچ کا زخم سے جو رشتہ ہے
  بس اسی طور مرحلے ہیں ابھی

  میں ہوں مُمتاز چُپ وہ جان تو لے
دل سے دل کس طرح ملے ہیں کبھی 

●●●
 کلام: مُمتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (36) ہنستے ہوۓ ڈر جاتے ہیں / شاعری۔ میرے دل کا قلندر بولے




(36) ہنستے ہوۓ ڈرجاتے ہیں


جانے کیا بات ہے ہنستے ہوۓ ڈر جاتے ہیں  
 چلتے چلتے ہوۓ رستے میں ٹہر جاتے ہیں  

 مارنے کے لیئے ہتھیار ضروری تو نہیں 
  ہم تو احساس کی شدت سے ہی مر جاتے ہیں 

   نام کے اپنوں نے تاعمر کیا ہے رسوا 
  اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے بھی گھر جاتے ہیں  

  یہ الگ بات کہ ہم خود ہی فراموش کریں 
 کون کہتا ہے کہ حالات سنور جاتے ہیں 

  یوں نہ مغرور ہو تُو اپنی مسیحائی پر 
  زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں

   جھوٹ کا ساتھ نہ دینے کی قسم کھائی تھی 
 پھر بھی تیرے لیئے ہم سچ سے مُکر جاتے ہیں  

 کیا قیامت کا یہ احوال تجھے یاد نہیں  
 روئی کے گال سے پتھر بھی بکھر جاتے ہیں  

  لفظ کے کھیل میں ماہر تھے کبھی ہم بھی مگر
   اب تو صدیوں یونہی خاموش گزر جاتے ہیں  

  جو دیئے شب میں جلے انکو سنبھالو مُمتاز
   سارے چڑھتے ہوۓ سورج تو اتر جاتے ہیں
●●●
   کلام: مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: (2014ء)
●●●


 

● (25) عزت یہ زمانے میں/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے




(25) عزت یہ زمانے میں 



کب ہم کو میسر تھی عزت یہ زمانے میں
   مصروف تھے جینے کی اک رسم نبھانے میں 

 کوئ کہاں سنتا ہے کیا کس پہ گزرتی ہے  
 کچھ عمر گنوانے میں کچھ زخم دکھانے میں 

    آئی یہ ندا ہمکو چپ چاپ چلے آؤ  
جو دل پہ گزرتی ہے وہ حال سنا جاؤ 

  جب آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ عجب عالم 
  تھی غرق وہاں دنیا احوال سنانے میں 

  چُپ چاپ تکے ہم تو خاموش رہے ہم تو 
  اپنا تھا بہت ہلکا اوروں کے سنے غم تو

   سر اپنا جھکے دیکھا تو عقل چلی آئی 
جنبش جو ہوئی لب کو لگ جاتی بتانے میں

  دل درد کا ساگر ہے اور آنکھ کا پیالہ ہے
  ہر لمحہ بھرا اسکو ہر لمحہ نکالا ہے 
 تھوڑی سی تشفی بھی شاید نہ اسے بھائی
   مصروف رہی دنیا ساگرکو سکھانے میں  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
    ●●●    

● (39) برسر منبر/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(39) برسر منبر 




چراغاں بر سر منبر مگر نیچے اندھیرا ہے 
 تجھے اے روشنی کس نے وہاں جانے سے گھیرا ہے 

 کہا یہ روشنی نے بے تحاشا اس سیاہی نے  
  قبا والوں کے دل اندر بھی جسکا ایک ڈیرا ہے

بہت ہمت میں کرتی ہوں مگر میں جا نہیں سکتی 
 بناۓ صورت مومن مگر دل کا لٹیرا ہے  

خدا کے گھر میں اپنے آپ کو دھوکے سے نہ روکے 
 ہمیشہ یہ یقیں رکھنا وہ تیرا ہے نہ میرا ہے  

 کرم کی اک نظر سے جس جگہ قسمت بدلتی ہے  
وہاں ان بد نصیبوں نے کیا سایہ گھنیرا ہے
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (37) سو جنازے/ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے


(37) سو جنازے

 
ارے دیکھی ہے ایسی ماں
جو اپنے پیارے بیٹے کا
جنازہ سامنے رکھ کر
جمے جاڑے میں بیٹھی ہے
خدا سے پوچھ بیٹھی ہے
کہ اب کون آۓ گا یارب
جو میری آنکھ کے آنسو
گرم ہاتھوں سے پونچھے گا
سینے سے لگا کر جو
دوپٹہ سر پہ رکھے گا
جو تھامے ہاتھ بیوی کا
گلے سے لگ کے بچوں کے
کہے گا تم نہ گھبرانا
تمہارے واسطے میں ہوں
تمہیں رونے نہیں دوں گا
لہو ہو یا تیرے آنسو
ضیاں ہونے نہیں دوں گا
تیرے میں پونچھ کر آنسو
تجھے رونے نہیں دوں گا
کبھی رونے نہیں دوں گا 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (53) دو آنکھیں/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(53) دو آنکھیں


 
ایسا کیوں مجھ کو لگتا ہےجھانک رہی ہیں دو آنکھیں
    میری آنکھیں لینے والو مجھ کو بھی اب دو آنکھیں 

   راستہ تکتے  رہنے کی جب اتنی عادی ہو جائیں   
دہلیزوں پر بیٹھے بھی اکثرجاتی ہیں سو آنکھیں 

 تم کو سہارا دینے کی خواہش میں ہی  ہم نے بھی 
  روشنیوں کے بازاروں میں جانے کب دیں کھو آنکھیں 

  دل کا درد چھپانے کی کیسی بھی کر لو کوشش 
 بھید یہ کھولیں سوجی سی  بیکل سی رو رو آنکھیں 

قبل اس کے ممتاز کہ منظر پہنچے دل کے پردے تک
میں نے کھارے پانی سے لی ہیں اپنی دھو آنکھیں 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء 
●●● 
  بیوپار /  BUPAR



بیوپار



اک تصویر دی مار نے لوکی
کر دے کی بیوپار نے لوکی

سوہڑیاں رناں کار بیٹھا کے
کوجیاں دے ہوڑں یار اے لوکی

اک پل نوں جے ساہ رُک جاوے
فیر پھلاں دے ہار نے لوکی

کمزوراں نوں زور وکھاوڑں
زور آور اگے ہار دے لوکی

سامڑیں آ کے جپھیاں پاوڑں
بچھوں خنجر مار دے لوکی

دھیاں والے جاڑندے نے اے
کیوں ہوندے لاچار نے لوکی

سچ بولن جے ودے کوئ
طعنے لکھ لکھ مار دے لوکی

حوصلہ مند نوں اگے کر کے کے
کلیاں سولی چاڑ ھدے لوکی

چنگا قدم اُٹھاون دے لئ
ممتاز کرن تکرار اے لوکی
کلام / مُمّتازملک
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 

● (58) ساز باز / شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے





(58) ساز باز 


دل جلایا بڑا زمانے نے
 پھر  بھی کرنا نہ ساز باز آۓ  

   لوگ پتھر ہوۓ ہیں جن ہاتھوں
    ہم انہیں پر جگر گداز آۓ

   اپنے زخموں پہ جب نظر ڈالی
   زخمی دل کی وفا پہ ناز آۓ

  جنکو تنقید سے ملے تسکیں
 خود پہ کرنے نہ اعتراض آۓ

   جانے مُمتاز دل دکھانے سے
  باز کیوں نہ وہ دلنواز آۓ    
●●●
 کلام:مُمتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

بنجر زمینیں۔ اردو شاعری




بنجرزمینیں


بنجر زمینیں خون سے آباد ہو گئیں   
بسنے کو اجڑی بستیاں بیتاب ہو گئیں 

  آنکھیں تھیں خشک غم میں خوشی میں بھی دوستو 
  محسوس کیا ہوا تھا کہ پُرآب ہو گئیں

   جن کے وجود سے تھا کبھی محفلوں میں رنگ 
  کتنی حسین صورتیں  کمیاب ہو گئیں 

  بھر کے نظر نہ جن کو گوارہ تھا  دیکھنا
     کچھ ہستیاں دیئے سی وہ ماہتاب ہو گئیں  

 سنتے ہیں دوستی بھی کبھی کوئی چیز تھی
  اب دوستی کی باتیں  بھی نایاب ہو گئیں 

  ہے وقت بہت تیز سفر پر رواں دواں  
 گفت و شنید آرزو احباب ہو گئیں

   مُمتاز نئی بات کوئی آج چھیڑیئے 
 پچھلی کہانیاں  سبھی مضراب ہو گئیں 

کلام/ ممتاز ملک  
.........


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/