ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 27 اگست، 2024

دوستا ۔ اردو شاعری

دوستا
کلام/ممتازملک۔پیرس 


ہم تیری یاد میں، کس جگہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا،  ہمیں دوستا


جستجو کے  سویرے، بسر ہو گئے
خواہشوں کی ہر اک، شام ڈھلنے لگی
دل سے آہوں کی صورت، اٹھا ہے دھواں  
آنکھ سے اشک بن کر، نکلنے لگی

ہم تو شاید یہاں، بے وجہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا ، ہمیں دوستا


مسکرانا ہماری تو، فطرت میں تھا 
اور ستانا تیری ،عادتوں کا ثمر
مسکرانا ہمارا ، قضاء ہو  گیا 
اور ستانا تیرا ، ہو گیا پر اثر

زندگی سے ہوئے، جب خفا آ گئے 
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا 


تجھکو احساس اسکا ، زرا بھی نہیں 
 بیوفائی ہے تیری،  کرامت نہیں 
جھوٹ کے پاوں ، ممتاز ہوتے نہیں 
دوستی کا نہیں سر، قیامت نہیں

خود سے آنے لگی، ہے حیا آ گئے
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا
۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 26 اگست، 2024

تبصرہ ۔ زرقا نسیم کی شاعری پر



زرقا نسیم لاہور میں رہتی ہیں۔ ایک ایسی شاعرہ جس کے کلام میں اسکے مشاہدات، اس کے تجربات اور اس کی دوسروں سے متعلق نیک خواہشات بولتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
 کہیں وہ کہتی ہیں
 وہ بھی جو میرا ذہن  تصور نہ کر سکا آنکھوں سے اپنی ہوتا ہوا میں نے دیکھا ہے

 وہ اپنی زندگی کے بہت سے صدمات کو لفظوں میں سمیٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جس کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں۔

 مت پوچھیے گزرتی ہے کیا دل پہ ہم نشیں
 ہوتے ہوئے کسی کو جدا میں نے دیکھا ہے

 زرقا نسیم کی شاعری ان کے دل سے نکلی ہوئی  ایسی آواز سنائی دیتی ہے جو سننے والے کو خود پہ گزرے ہوئے حالات پر ادراک دیتی ہے۔
 زندگی میں اپنے جیون ساتھی کے بہت جلد بچھڑ جانے کے دکھ کو وہ چاہیں بھی تو اکثر چھپا نہیں پاتیں۔
 دنیا کی بے ثباتی، حالات کی شتم ظریفی اور پھر اپنے ایک مخلص پیار کرنے والے جیون ساتھی سے جدائی ان کی تحریروں میں جا بجا سنائی دیتی ہے۔ جیسے کہ
 میری حرمت کا امانت دار ہوتا تھا کوئی
 میرے گھر کی چھت میری دیوار ہوتا تھا کوئی
یا پھر یہاں دیکھیئے

 وہ ہنس کے سارے رنج و غم اٹھاتا تھا
 میری خود داری کا اہل کار ہوتا تھا کوئی

  ایسے ہی اور بہت سے اشعار جو ان کے درد دل کو بیان کرتے ہیں۔
 ان کی روح میں سمائے ہوئے اس کرب کو بیان کرتے ہیں جو انہیں جا بجا زندگی میں کہیں اپنوں سے ملے اور کہیں اپنے جیسوں سے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کا وہ کلام جو میری نظر سے گزرا اس میں زیادہ تر حصہ اس کلام کا تھا جو انہوں نے اپنے جیون ساتھی کے نام کیا۔
 اس کے ساتھ بیتے ہوئے اچھے لمحات کو بار بار یاد کیا اور اس کے بعد گزری ہوئی تنہائی اور درد کو بیان کرتے ہوئے شاید اس درد کو اپنے اوپر بار بار گزرتے ہوئے محسوس کیا تو حلط نہ ہو گا۔
 جیسے کہ تم جو ملتے تھے مہک اٹھتی تھی میں
 رات کی رانی بھی رانی تم سے تھی
یا پھر اس میں ملاحظہ فرمائیں 

 میری سوچوں کا فقط مرکز سے تم
 میرے اس دل کی کہانی تم سے تھی

 زرقا نسیم نہ صرف ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں بلکہ بہت اچھی دوست ہیں ۔ مہمان نواز ہیں۔ اپنے بچوں کی ایک اچھی ماں ہیں۔ جنہوں نے انہیں بہترین تربیت کرنے کی ہر ممکن سعی کی اور اپنے بچوں کی کامیابی کی صورت اس کا پھل آج ان کے سامنے   ہے ۔
میری بہت سی دعائیں زرقا نسیم کے لیئے۔ اللہ تعالی ان کی اس کتاب کو بہت پذیرائی عطا فرمائے اور انہیں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین 

ممتازملک۔پیرس فرانس 
 ( شاعرہ۔ کالمنگار نعت خواں۔ نعت گو۔افسانہ نگار۔ کہانی کار۔ عالمی نظامت کار)

بیباک ادائیں ۔ اردو شاعری


بیباک ادائیں
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

اے میرے حسن کی بیباک اداؤں کے شکار 
تو نہیں جانتا کتنوں کے کیئے دل بیمار

یہ یقین ہے یا نگاہوں کی کرشمہ سازی
دوسرے اسکو نظر آتے ہیں ہر دم لاچار

سوچ کے پر کبھی آزاد نہیں ہو سکتے 
وقت کی قید نے زخمی کیئے جنکے دلدار

عارضی کے لیئے ابدی کا کیا ہے سودا
یہ حوادث کےہیں شیدائی بلا کے مکّار

عشق کے ہونٹ سلے رہنے دو اے دل والو
شور کرنے کو یہاں عقل نہیں ہے تیّار

لاکے چوٹی پہ تیرے ہاتھ اسی نے چھوڑے
جس کے کہنے پہ کیئے تو نے دل و جان نثار

ہر جگہ بِکنے کو تیار ہے ہر چیز یہاں 
اب نہ مکتب نہ ہی مسجد نہ جُدا ہیں بازار

وعظ ممتاز کسی وقت اٹھائے رکھو 
غیرت دین ابلنے کے نہیں ہیں آثار 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 22 اگست، 2024

عید دا چن وی ۔ پنجابی کلام ۔ کوسا کوسا



عید دا چن وی

اداسی دور نہ ہوئی میں تکیا عید دا چن وی
ہر اک معصوم شکلاں والا دسیا عید دا چن وی

کسے اتھرو دے وانگوں ہر گھڑی مغموم کردا اے
دکھاں دی سیویاں بںڑں دل چہ  پکیا عید دا چن وی

میں اینوں روندیاں تکیا دھاڑاں مار کے غم نل
نہ اپنے آپ نوں وی سانبھ سکیا عید دا چن وی

ہر اک پاسے بچھے لاشے جو مینوں سوںڑں نہیں دیندے
میرا ناں سنڑں کے زوراں نال ہسیا عید دا چن وی

جیہڑا کل رات کھبیا سی کلیجے ماں دے سینے وچ
میں ناں رکھیا شہید اوس دا تے
رکھیا عیدا دا چن وی 

دھماکے نال ہویا سی جدوں ممتاز دو ٹوٹے
میں ڈوری اتھروواں دی نال 
کسیا عید دا چن وی
۔۔۔۔۔۔

پیر، 19 اگست، 2024

بدکاروں کا علاج۔ نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


کولکتہ کی بربریت کیساتھ 
ماری گئی
 معصوم
 ڈاکٹر مومیتا کے نام
9 اگست 2024ء 
        ۔۔۔۔۔۔

بدکاروں کا علاج

ان درندوں کی وہ 
شے ہی گر کاٹ دو 
جو سنبھالی نہیں جاتی
 ان سے کبھی 
ان کو حق بھی نہیں 
 اس کو رکھنے کا گر 
یہ امانت ہوئی ان پہ بھاری بہت
چھین لو ان سے یہ نام کا لوتھڑا 
جسکو مردانگی  کہتے  
تھکتے نہیں 
آو ہم بیٹیاں بھی بنائیں کوئی
ایک ایسا گروہ
جس میں ایسے  ہر اک
 نام کے مرد کو 
ہم سزا دیں سر عام 
ایسی کہ پھر
مرد کو مرد کا 
معنی سمجھا سکیں 
اپنی سب بیٹیاں
 انکے ہر گند سے
 ہم بچا بھی سکیں 
             (ممتازملک۔پیرس)


ہفتہ، 10 اگست، 2024

اعتبار تو کر/ اردو شاعری



اعتبار تو کر


جا اپنے سوئے ہوئے بخت کو بیدار تو کر
تو اپنی ذات پہ تھوڑا سا اعتبار تو کر

نہ شہہ نہ مات ہمیشہ رہی کسی کے لیئے
پلٹتے وقت کے پانسے کا انتظار تو کر

بھریں گے زخم سبھی پھول بھی کھلیں گے ضرور
تو مسکرا کے کبھی موسم بہار تو کر

نہیں ہے جو اسے رونے سے لاکھ بہتر ہے
جو پاس ہیں تیرے وہ نعمتیں شمار تو کر

نہ بوجھ لاد یوں احسان کے تو اپنے سر 
بس اپنی ذات پہ تھوڑا سا انحصار تو کر

بہت سکون ہے ٹہراو ہے ولایت ہے 
کبھی تو راہ توکل کو اختیار تو کر

تمہارا نام بھی ممتاز ہو مقام بھی ہو 
بلند اپنا زمانے میں تو وقار تو کر     

  ●●●

فقیر کا کاسہ /اردو شاعری۔ متفرق اشعار



گرنا ہی جب نصیب میں لکھا ہے جان کر 
چپکے سے اک فقیر کے کاسے میں جا گرے 

مشاعرہ ۔22واں۔ رپورٹ

رپورٹ :
راہ ادب فرانس دا 22واں عالمی پنجابی مشاعرہ 


راہ ادب فرانس دا 22واں آن لائن عالمی پنجابی مشاعرہ 9 اگست پاکستان ٹیم راتی 8 وجے تے یورپ ٹیم شامی 5 وجے  منعقد کیتا گیا۔جدے وچ دنیا بھر دے منے پر منے شعراء کرام نے شرکت کیتی۔  شامل ہون والیاں دے ناں ایس پرکار  نے۔ 
 صدر مشاعرہ: ملک رفیق کاظم بھسین صاحب : لاہور
 ۔ محمد نواز گلیانہ صاحب اٹلی۔ 
 جد کے مہمان خاص:
 رحمان امجد مراد صاحب سیالکوٹ۔ 
 نغمانہ کنول شیخ صاحبہ نے یو کے توں عزت بخشی ۔ 
شاعراں دی بیٹھک وچ  شامل سن۔۔۔
 محمد نوید نواز صاحب لاہور۔ پرگٹ گل صاحب آسٹریلیا۔  
پلک دیپ صاحبہ انڈیا۔ 
 سرور صمدانی صاحب ملتان ۔
 اشتیاق انصاری صاحب ۔مسقط۔ 
 اندر جیت لدھیانوی صاحبہ لدھیانہ۔
 ریاض ندیم نیازی صاحب سبی۔  
یوسف تابش۔ اوکاڑا 
 بخشی وقار ہاشمی صاحب فرانس۔ 
 نجمہ شاہین صاحبہ لاہور۔
 اشفاق احمد صاحب سپین۔
  بے باک ڈیروی صاحب ڈی جی خان۔  
امین اوڈیرائی صاحب سندھ۔
 الیاس آتش صاحب مریدکے۔
 ڈاکٹر فیاض دانش صاحب ڈی جی خان۔
 دکھ بھنجن سنگھ صاحب پرتگال 
توں اپنے کلام دے نال محفل دی رونق ودھاندے رہے۔ 
پروگرام دی نظامت راہ ادب فرانس دی بانی و  صدر تے منتظمہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے  کیتی۔   پروگرام دی کامیابی تے صدر مجلس ملک رفیق کاظم بھسین صاحب ، رحمان امجد مراد صاحب ، محمد نواز  گلیانہ صاحب تے نغمانہ کنول شیخ صاحبہ نے پروگرام دی انتظامیہ دی بھرپور تعریف کیتی۔ تے انہاں دا حوصلہ ودھایا ۔ تے امید کیتی کہ آئندہ وی ایسی طرح نویں نویں فنکار تے نویں نویں قوی  راہ ادب دا حصہ بندے رہن گے تے راہ ادب دے پلیٹ فارم تے اونہاں نوں حوصلہ ملدا رہے گا۔ انہاں نے  ممتاز ملک صاحبہ نوں دلی شاباشی دتی کہ انہاں نے اپنے  شاعراں  لئی رستے تنگ کرن دے بجائے اونہاں نو کھلا ماحول فراہم کیتا ۔ سوہڑیں محفل سجائی۔  پروگرام دی نظامت محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے کیتی ۔ جدی تعریف سارے دوستاں نے کیتی تے اونہاں  دی حوصلہ افزائی کیتی۔ ممتاز ملک نے سبھی پروڑیاں دا شکریہ ادا کیتا نالے امید ظاہر کیتی کہ اہسی طرح آئندہ وی اپنے قیمتی وقت وچوں کچھ وقت کڈ کے ساڈے قوی ساتھی  راہ ادب فرانس دے اردو تے پنجابی مشاعرے اپنے خوبصورت کلام دے نال  سجاندے رہن گے ۔ اوناں نے پروگرام دی خوبصورت پیشکش تے تیکنیکی معاون کاری تے ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل دے نائب صدر جناب کامران عثمان صاحب دا بھرواں بھرواں شکریہ ادا کیتا ۔ جدی وجہ نال ایہہ پروگرام تیار ہو سکیا۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 8 اگست، 2024

* اور وہ چلا گیا/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


اور وہ چلا گیا 


ہم پہ زندگی کا بوجھ،  لاد کر کہاں گیا
الوداع کہا ہمیں،  اور وہ چلا گیا

مسکرا کے ہم نے دیکھا ،تو وہ لڑکھڑا گیا 
دور تک یہ بیخودی کا ، پھر تو سلسلہ گیا

بات جو  زبان پر ، ہم نہ لا سکے کبھی
بات مجھ سے کہہ کے کوئی، آج  برملا گیا

مت ٹہر کہ ہر گھڑی ، فنا ہے تیری منتظر
کر لے جو بھی کرنا کہہ کے، دل کا منچلا گیا

زیست اور حیات کی، سعی جو عمر بھر رہی
بھوک سے شروع ہوئی، ہوس پہ تلملا گیا 
 
ممتاز اب سمیٹ لو ، سفر کے اس پھیلاو کو
واپسی میں رہ ہی کتنا،  اور  فاصلہ گیا
●●● 

پیر، 5 اگست، 2024

نیند۔کوٹیشنز۔چھوٹی چھوٹی باتیں

نیند

جب آپ حق پر ہوتے ہیں تو دل بھی سکون میں ہوتا ہے اور نیند سولی پر بھی بڑی میٹھی آتی ہے۔ 
     (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
        (ممتازملک۔ پیرس )

تو کی کردا۔ پنجابی کلام۔ کوسا کوسا


تو کی کردا

ناں تیرے جد فال نہ ہوندی تو کی کردا
میں جے تیرے نال نہ ہندی تو کی کردا

تاڑی دے لئی دو ہتھاں دی لوڑ اے ماہیا
 تال دے اتے تال نہ ہوندی تو کی کردا

پج پج تینوں لب لینی آں لک نہیں سکدا 
ہرنی ورگی چال نہ ہندی  تو کی کردا

تیریاں کمیاں تے وی پردے پائے ہس کے
عشق چہ میں بے حال نہ ہوندی تو کی کردا

دھپ نہ آوے تیرے سر تے ویلے دی جے
کھولے ہوئے وال نہ ہوندی تو کی کردا

تیریاں محنتاں تیرے دعوے کی کر لیندے
ذات اوہو لجپال نہ ہوندی تو کی کردا

شکرے نوں ممتاز نہ پنجرے دے وچ ڈکڑاں
اسمانی ترپال نہ ہوندی تو کی کردا
   ۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 2 اگست، 2024

تبصرہ ۔ صغیر تبسم۔ اور وہ چلا گیا


حساس جذبوں کی شاعرہ۔۔۔
ممتاز ملک 

کسی کے چھوڑ جانے کا دکھ بھی بڑا عجیب دُکھ ہے، دل کو اس حقیقت سے باور کروانا بے حد اذیت ناک  ہوتا ہے اور پھر یہی ناتواں دل عمر بھر انتظار کے کرب سے گزرتا ہے۔ کسی کے ہجر میں گزرنے والا اک اک لمحہ صدیوں کے برابر محسوس ہونے لگتا ہے، زندگی کی ریل کسی ویران سٹیشن پر رُک سی جاتی ہے، ہجر میں ایک ایک دن، ایک ایک پل انسان کے دل پر اسقدر بھاری گزرتا ہے کہ اندر سے اک درد بھری آواز آتی ہے :

ہاۓ وہ رات کتنی بھاری تھی
 جو ترے ہجر میں گزاری تھی

کہتے ہیں کہ وقت ہر دکھ کا مرہم ہوتا ہے، ہر روگ کا علاج ہوتا ہے، گہرے سے گہرے زخم کو بھی بھر دیتا ہے، وقت ہر تکلیف مٹا دیتا ہے لیکن ہجر کے ایام میں یہی وقت ناسور بن جاتا ہے، کٹتا ہی نہیں اور انسان کو اپنی تیز تیکھی کٹاری سے اندر ہی اندر کاٹ دیتا ہے:

فصل تیار تھی امیدوں کی 
وقت کے ہاتھ میں کٹاری تھی

ممتاز ملک حساس جذبوں کی شاعرہ ہیں، شاعری اترتی ہی حساس دلوں پر ہے اور پھر وہ ایک عورت کا حساس دل ہو تو  ہر ایک کیفیت چاہے وہ دکھ کی کیفیت ہو یا خوشی کی، انتظار کی کیفیت ہو یا بچھڑنے کی، رونے کی کیفیت ہو یا مسکرانے کی، محبت کی کیفیت ہو یا نفرت کی وہ دل ہر کیفیت کو ٹوٹ کر محسوس کرتا ہے۔
 ممتاز ملک کی شاعری کی طرح ان کے الفاظ بھی بہت حساس ہیں، وہ اپنے حساس اور اداسی میں ڈوبے خیالات کو اس طرح سادگی سے الفاظ میں ڈھالتی ہیں کہ شعر پڑھتے ہی دل میں اتر جاتا ہے :

کُھردری کُھرردی اُداسی ہے 
 مخملی مخملی خماری ہے

مضبوط سے مضبوط انسان بھی دکھ جھیلتے جھیلتے اک دن آخر تھک جاتا ہے، زندگی سے اس کا دل اُکتا جاتا ہے، وہ جابجا بھٹکتا ہے، اماں ڈھونڈتا ہے، سکوں ڈھونڈتا ہے، وہ دکھوں کا بوجھ اُٹھاۓ دربدر پھرتا ہے، کہیں کوٸی سہارا، کوٸی پیارا نہیں ملتا، کوٸی ایسا کاندھا نہیں ملتا جہاں وہ سر رکھ کر روۓ اور روتے روتے سو جاۓ بلآخر وہ آسمانوں کی طرف نم آنکھوں سے دیکھ کر، غم سے  بوجھل دل کے ساتھ پورے درد سے پکارتا ہے:

یوں تو دلدار ہے دنیا کی سجاوٹ مولا
 لوگ اخلاص میں کرتے ہیں ملاوٹ مولا
 ہو ترا حکم تو سُستا لیں گھڑی بھر کو کہیں
زندگی بھر کی اتر جاۓ تھکاوٹ مولا 

ممتاز ملک کی شاعری کا ایک ایک لفظ احساس میں گُندھا ہوا ہے، مصرعوں کی سادگی ہی ان کی شاعری کا حُسن ہے، ان کے ہاں ہر اس کیفیت کا بیان ہے جو ایک حساس دل محسوس کرتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا:

گُھلی ہیں سِسکیاں ہر ایک لے میں
یہی اس گیت کا رنگِ طرب ہے

ممتاز ملک نے بِلا خوف خطر ہر وہ کیفیت اشعار میں پروٸی ہے جو ان کے حساس دل پر بیتی یا  محسوس کی، ان کی آہیں، سسکیاں، آنسو، کرب، اذیت ان کے اشعار میں واضح محسوس ہوتے ہیں، یہی ایک حساس شاعر کی نشانی ہے۔
ممتاز ملک صاحبہ کو ان کے اس شعری مجموعہ ”اور وہ چلا گیا“ کی اشاعت پر مبارکباد اور ڈھیر دعاٸیں

صغیر تبسم
(معروف پنجابی اور اردو شاعر)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/