کیسی محبت
بہت سارے پیسے خرچ کر کے قرضے لیکر اور جانے کہاں کہاں کے دھکے کھانے کے بعد آخر کار وہ فرانس پہنچ ہی گیا۔
گھر میں جب بھی فون پہ بات کرتا تو وہاں سے پیسے کے مطالبے کے سوا کوئی دوسری بات ہوتی تو صرف یہ اور سناؤ بھئی وہاں پہ کاغذ مل گئے ہیں۔
امی جی یہ کاغذ اتنی آسانی سے نہیں ملتے، یا تو آپ نے یہاں شادی کی ہو یا پڑھائی کر رہے ہو یا کاروبار کر رہے ہو، تب یہاں کے کاغذات ملتے ہیں۔
تو شادی کرنا کون سا مشکل ہے۔ پھنسا لو کسی میم کو۔
امی جی نے بڑا دانشورانہ مشورہ دیا۔
امی جی یہاں میمیں کوئی سڑک پہ نہیں پڑی ہوتیں، جو ہر کسی کو گھاس ڈالیں۔
وہ جھلا کربولا
تو وہاں پر کسی پاکستانی کو دیکھ لینا ، کسی پاکستانی لڑکی کو پھنسا لے ، وہاں پر انہیں کون پوچھتا ہے؟
ہاں امی جی دیکھ رہا ہوں۔ کوشش کر رہا ہوں ۔دیکھو اب۔ دعا کرنا۔
پچھلے دنوں کسی کی سفارش پر اسے ایک ریسٹورنٹ میں کام تو مل گیا جہاں فی الحال وہ ویٹر کے طور پر لوگوں کو چائے کافی سرو کرتا یا ٹیبل صاف کرتا۔
ریسٹورنٹ کا مالک اچھا آدمی تھا۔ وہ اس کو اپنے بیٹے کی طرح عزت دیتا اور اس کا خیال رکھتا تھا۔ اس نے کافی عرصہ پہلے فرانس میں آ کر اپنی فیملی کے ساتھ رہائش اختیار کی تھی ۔
آہستہ آہستہ اپنی محنت سے ترقی کرتے ہوئے آج وہ ایک ریسٹورنٹ کا مالک تھا۔
اس کی بڑی بیٹی ابھی 18 سال کی ہو رہی تھی اور یہاں کے مقامی سکول سے اپنی بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے آخری سال میں تھی۔ اپنے لیسے سے چھٹی کے بعد وہ اکثر باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیئے ریسٹورنٹ بھی چکر لگا لیتی۔
اس روز رشید کی نظر اس پر پڑی تو اس کے دماغ میں فورا ماں کا جملہ گھومنے لگا کہ کسی لڑکی کو پھنسا کر کاغذ حاصل کر لے تو نے کون سا ہمیشہ رہنا ہے اسکے ساتھ۔
لیکن یہ لڑکی بھولی بھالی سی 18 سال کی سٹوڈنٹ ، جو اپنے گھر میں سب سے بڑی بیٹی تھی ۔ اسے اپنے لیئے ایک آسان شکار لگی۔
عام طور پر تو کوئی لڑکی یا مقامی عورت اس کے ہاتھ نہیں آئی۔ لیکن اس نے سوچ سمجھ کر اس لڑکی کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا ۔
وہ جب بھی آتی یہ جان بوجھ کر اس کے آگے پیچھے گھومتا۔
اس کی خاطر مدارت کی کوشش کرتا ۔ اس کی تعریفیں کرتا۔ اس کے ساتھ لطیفہ گوئیاں کرتا ۔ رفتہ رفتہ وہ لڑکی اس کے ساتھ کچھ بے تکلف ہو گئی ، تو اس نے اسے شیشے میں اتارنا شروع کیا۔
یہاں تک کہ اسے شادی کی دعوت دے ڈالی۔
وہ لڑکی اس کی تعریفوں پر پہلے ہی پھولے نہیں سما رہی تھی۔ شکل صورت کا تو رشید اچھا تھا۔ لیکن تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ہنر بھی کوئی نہیں تھا اس کے پاس۔ بس عام سے لڑکوں کی طرح منہ اٹھا کر کسی نہ کسی طرح دھکے کھا کر فرانس پہنچ چکا تھا ۔
یہ بے وقوف، کم عمر، ناسمجھ، دیسی لڑکوں کی چالاکیوں سے بے خبر لڑکی آسانی سے اس کے جال میں پھنستی چلی گئی۔
وہ اکثر اس کے لیئے چھوٹے موٹے تحفے لے آتا۔ اس کے دن رات قصیدے بڑھتا اس کی ایسی ایسی باتوں پر تعریف کرتا ۔جس کے بارے میں خود اس نے بھی نہیں سوچا تھا کہ اس میں بھی ایسی کوئی خوبی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ مکمل طور پر اس کے شکنجے میں پھنستی چلی گئی۔
اس نے اس لڑکی عظمی سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس کے ماں باپ کو پتہ چلا تو انہوں نے رشید کو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی۔
لیکن عظمی اپنے ماں باپ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔
رشید یہاں کام کرے یا کہیں بھی رہے۔ میں اسی سے شادی کروں گی۔
ماں نے سمجھایا ۔
باپ نے سمجھایا۔۔
گڑگڑائے روئے اس کے آگے ۔ لیکن وہ تو جیسے پتھر ہو چکی تھی ۔
جانے کون سا جادو پھونکا تھا اس رشید نے اس پر ، کہ وہ ہر صورت میں اسی سے شادی کرنے کے لیئے بے قرار تھی۔ اس کے لیے دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں تھا ۔
ماں باپ نے سمجھایا۔
دیکھو اس لڑکے کے پاس یہاں کے پیپرز نہیں ہیں۔ تعلیم نہیں ہے ۔ زبان بھی نہیں ہے۔ برباد کر دے گا تمہیں۔ بچ جاؤ اس سے ۔
تمہارے لیے اچھے سے اچھا رشتہ یہاں موجود ہے اور یہاں نہیں تو ہم تمہیں پاکستان سے بہترین لڑکا شادی کر کے لا دیں گے۔
لیکن نہیں محبت میں وہ اندھی گونگی بہری ہو چکی تھی۔ اسے صرف رشید چاہیے تھا اور رشید اسے دن رات اسکے ماں باپ کے خلاف اکساتا رہتا ۔
دیکھو وہ تمہاری بات نہیں مانتے۔ دیکھو وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ دیکھو تمہاری کسی خواہش کا احترام نہیں کرتے۔ صرف میں ہوں جو تمہارے پیچھے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔
میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتا ہوں۔
ایسی ہی فلمی باتوں سے وہ اس کی ہر کمی کو بھول کر اس پر فدا ہو چکی تھی۔
یہ فرانس میں جوان ہونے والی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔
جو سب کچھ بھول کر اس کے ساتھ گھر بسانے کو تیار ہو گئی۔
یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر اس لڑکی نے رشید کے ساتھ نکاح کر لیا۔
اسکی ماں کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے تو باپ صدمے سے نڈھال ہو گیا۔
لیکن عظمی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
اس نے جا کر رشید کے ساتھ ایک کمرے کا فلیٹ کرائے پر لے کر اس کے ساتھ فلیٹ میں رہائش اختیار کر لی۔
نکاح کرتے ہی رشید کے اطوار ہی بدل گئے۔
اس نے دیکھا کہ اس کے ماں باپ نے تو اس کو اتنی آسانی سے چھوڑ دیا۔ جو کہہ چکے تھے دوبارہ اس گھر کا رخ نہ کرنا۔ تم مر چکی ہو ہمارے لیئے۔
اب اس لڑکی کی دولت تو اس کے کام آ نہیں رہی تھی۔ وہ تو سوچ رہا تھا ۔
نکاح کرتے ہی وہ مجبورا اسے داماد قبول کر لیں گے اور وہ راتوں رات انکی حسین بیوقوف بیٹی کیساتھ ان کے پیسے کا بھی مالک بن جائے گا اور ریسٹورنٹ کا بھی مالک بن جائے گا۔
اب لڑکی تو اس کے ہاتھ آ ہی چکی ہے ۔جو اسے پیپر دلوا دے گی۔
لیکن پیسہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ نوکری بھی ہاتھ سے گئی اور خرچہ بھی بڑھ گیا۔
عظمی کو کام کرنے کی اجازت اس لیئے نہیں دیتا کہ جیسے اس نے اسے بیوقوف بنا کر جال میں پھانسا تھا اب اسے ڈر تھا کہ کوئی اور بھی اسے ورغلا کر اس کے ہاتھ سے نہ لے اڑے۔
چند ہی روز میں اس نے اپنا اصلی دیسی رنگ دکھانا شروع کر دیا ۔
بات بات پر گالی گلوچ اور اب تو مار پیٹ بھی روز کا معمول بن چکی تھی۔
چند مہینے کی مارپیٹ اور طعنہ زنی نے ہی عظمی کو پہچانے جانے کے قابل نہ چھوڑا تھا ۔
وہ لڑکی جسے والدین کے گھر میں کبھی کسی نے جھڑکا تک نہ تھا۔ اب وہ دن رات اپنی پڑھائی کے زمانے کے بجائے عذاب ناک وقت کو جھیل رہی تھی۔
عظمی امید سے ہو چکی تھی۔
اب اس کی ہر بات ہر خوبی رشید کو زہر لگنے لگی۔
اس کی ہر قربانی رائیگاں گئی۔
رشید اسے ہر بات پر غلیظ گالیاں دیتا ۔ اسے کسی سے ملنے نہ دیتا اور جب دل کرتا اس کی کسی بھی بات کو بہانہ بنا کر اس کی اچھی خاصی مرمت کر دیتا ۔
پہلے چانٹے سے شروع ہو کر باقاعدہ تشدد کے اوپر بات چلی گئی شادی کے دسویں مہینے اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔
لیکن بچی کے ہونے کے بعد رشید کی تکلیف میں اور اضافہ ہو گیا۔
ایک تو پہلے وہ اس لڑکی کو بہلا پھسلا کے گھر سے بھگا کے لایا تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
اوپر سے بیٹی پیدا ہو گئی ۔
اس پینڈو اور جاہل کے لیئے یہ ایک اور نیا تماچہ تھا بیٹی کا باپ بننا ۔
اس نے اس کی زندگی حرام کر رکھی تھی ۔
وہ بچی بمشکل ابھی دو تین مہینے کی تھی کہ عظمی پھر سے امید سے ہو چکی تھی ۔
چھوٹی بچی کا ساتھ ، دوبارہ سے پریگننسی، کم عمر لڑکی دوسری بار یہ بوجھ اٹھا رہی تھی اور پھر گھر کا تشدد اس قدر بڑھ گیا کہ وہ کئی بار اس سے مار کھاتے کھاتے بے ہوش ہو جاتی۔
وہ کسی سے بات کر لیتی تو وہ اسے اس کا عاشق قرار دے دیتا ۔
گھر سے باہر جانے نہیں دیتا کہ تم میری شکایت کر دو گی۔
گھر کے اندر اسے ہر تنگی میں رکھ کر وہ جانے کون کون سی ذہنی اذیت دے کر اسے وہ اسے تل تل مار رہا تھا۔
رشید کی حرکتیں بالکل ذہنی مریض جیسی تھیں ۔
عظمی رات دن اپنے ماں باپ کو یاد کر کے شرم کے مارے رویا کرتی کہ
ماما مجھے معاف کر دیں ۔ میں نے کس جانور کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیئے اپنی محبت کرنے والے ماں باپ کھو دیئے۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب اس کی مرضی کے بغیر اس کی بیوی اپنے ماں باپ سے بھی ملے ۔
چھوٹی سی بچی بلکتی روتی رہتی لیکن وہ اس کے خرچ کے لیئے نہ پیسے دیتا نہ گھر کی ضرورتیں پوری کرتا۔
کبھی کام کرتا اور کبھی فارغ ہوتا۔ جس دن کام نہ ہوتا اس دن کام نہ ہونے کا غصہ اس پہ اتارتا اور جس دن کام ہوتا اس دن تھکاوٹ کا کہہ کر اس پر اپنا غصہ اتارتا ۔
لگاتار دوسری پریگننسی کم عمری اور خوراک کی کمی نے اس میں خون کی کمی پیدا کر دی ۔
پریگنیننسی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا ۔
وہ اسے کہیں دوا دارو کے لیئے بھی لے جانے کو تیار نہ تھا ۔
ایک روز اس نے اسے اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔
اس کے مار پیٹ کے شور کو سن کر ساتھ کے پڑوس میں سے کسی نے پولیس کو فون کر دیا ۔
پولیس کا سائرن سنتے ہی وہ تو گھر سے غائب ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ کبھی بھی کہیں بھی پکڑا جا سکتا ہے۔
عظمی کی حالت بیحد خراب تھی۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں پولیس نے اسے وہاں سے ریسکیو کیا اور فوری طور پر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا ۔
بیوی کے ہسپتال پہنچنے کا منظر اس نے اپنی بلڈنگ کے باہر ہی دور سے ہی دیکھ لیا کہ پولیس اسے لے جا رہی ہے۔
اب اسے اپنی فکر پڑ گئی
کہ میں سامنے گیا تو پولیس مجھے ضرور گرفتار کرے گی۔
اس لڑکی کے بیان پر تو میں جیل چلا جاؤں گا۔
لہذا اس نے گھر نہ جانا مناسب سمجھا ۔
لیکن چھپ کر ہر بات سے باخبر رہا۔
ہسپتال میں کسی نے اس کے ماں باپ کو خبر کر دی کہ تمہاری بیٹی اس حالت میں ہے ۔
ماں تھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے شوہر کو مجبور کیا کہ جا کر اسے دیکھو۔
چلو میرے ساتھ۔
ہسپتال میں عظمی نے قبل از وقت ایک بیٹے کو جنم دیا۔
عظمی کی ماں نے جب اپنی بیٹی کو دیکھا۔ اس کے زخموں کو دیکھا تو برداشت نہ کر سکی۔
اسے سینے سے لگایا اور خوب روئی۔
دو سال میں دو بچے، جسم اور روح پر بیشمار زخم ، دل پر صدمات ۔۔
یہ تھی اس مجرم صفت دیسی کی کل کارکردگی ۔
عظمی بھی اپنی ماں سے لپٹ کر بری طرح روئی اور خوب معافی مانگی۔
ماں سے منت کی کہ مجھے اپنے گھر لے جاؤ ۔
ہسپتال سے کافی روز کے بعد اسے فارغ کیا گیا ۔
ڈاکٹر نے اسے شدید احتیاط کا کہا اس کے ہاں اس مار پیٹ کے دوران ابھی وہ مشکل سے بیس سال کی نہیں تھی لیکن دو بچوں کی ماں بن چکی تھی ۔
ذہنی طور پر بھی وہ بکھر چکی تھی۔
اس کا اعتبار ٹوٹا تھا۔ اس کا یقین ٹوٹا تھا۔ اس کی عزت تو گئی تھی۔ لیکن اپنی نظر میں اس کی وہ قدر بھی نہ رہی۔
وہ بہت کم بولنے لگی تھی۔
ماں اسے دیکھتی اور کڑھتی رہتی۔
وہ اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئی۔ لیکن اس روز بچی کے رونے پر وہ چڑ سی گئی۔
ماں نے کہا بھئی بچے پیدا کرنے کا شوق تھا ۔ عشق لڑا رہی تھی تو سنبھالو اسے۔
ماں کی یہ بات اس نے خاموشی سے سنی ۔
سر نیچے کیئے وہ کتنی دیر آنسو ٹپکاتی رہی۔
بچی کو گود میں اٹھا کر اس نے بھنبھوڑ ڈالا ۔
وہ اسے اٹھا کر کہیں پھینک دینا چاہتی تھی۔
کیونکہ وہ خود ابھی بچی تھی 20 سال کی وہ بچی جو ابھی خواب دیکھتی، ابھی یونیورسٹی جاتی۔ اپنی تعلیم مکمل کرتی۔ کچھ بننے کا عزم کرتی۔
وہ لڑکی دو بچوں کے ساتھ باندھ دی گئی۔
اس کی ماں نے بچی کو اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
وہ بستر پر پڑی جانے کتنی دیر روتی رہی۔
اس کی ماں کے لیئے یہ دو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے سنبھالنے ، بالکل نو زائیدہ اور ایک سال بھر کی بچی آسان نہیں تھا۔
اس کے بہن بھائی بھی ان کو دیکھتے لیکن وہ خود صبح جاتے اور شام کو سکولوں سے واپس آتے ۔
وہ زیادہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔
پھر گھر سے بھاگنے کے بعد، من مانی کرنے کے بعد اس کی عزت دو کوڑی کی ہو چکی تھی۔
وہ کسی سے نظر ملا کر حوصلے کے ساتھ بات نہیں کر سکتی تھی۔ خاموش رہتی تھی کھانا کھاتے ہوئے اسے شرم آتی تھی۔
کھانے کی میز پر بیٹھی ہوئی اسے لگتا تھا شاید وہ بھیک کی روٹی کھا رہی ہے۔
اسے اپنے والدین کا اپنا گھر اسے پرایا لگتا تھا۔
لیکن آج ماں بیٹی میں اسی بات پہ بحث ہوئی۔
بحث بڑھتے بڑھتے ماں نے کہا اگر اتنے ہی نخرے تھے تو اپنے میاں کے ساتھ ہی نبھا کر لیتی۔
ہم تو برے تھے وہ تو تیرا من چاہا تھا نا۔ جب یار بنایا تھا تو ہم سے پوچھ کے بنایا تھا۔ رہتی اس کے ساتھ ۔ نبھا کر کے دکھاتی۔ زندگی گزار کے دکھاتی۔ ہمارے گلے نہ پڑتی۔
ماں نے یہ کہا اور پیر پٹختے ہوئے اس کے کمرے سے باہر چلی گئی۔
یہاں عظمی کے دماغ کی حالت غیر ہوتی چلی گئی۔
ماں کا دیا ہوا طعنہ گولی کی طرح اس کے سینے پر لگا۔ اس کا دل اتھل پتھل ہو رہا تھا۔ بے عزتی کی ایک ایسی شدید لہر تھی جو اس کے رگ و پے سرایت کر گئی۔
اس نے سوچے سمجھے بغیر کھڑکی کا رخ کیا۔
کھڑکی کھولی اور گیارویں منزل سے کود گئی۔
ماں جو بڑبڑاتی ہوئی کچن میں جا چکی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کی بیٹی اس کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ اس دنیا سے بھی نکل چکی تھی۔
جب کافی دیر تک اسے بیٹی کا کوئی جواب سنائی نہیں دیا تو غصے میں اس کے کمرے کی طرف آئی۔
میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتی۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا بچے کے رونے پر اس نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا.
سارے کمروں میں دیکھا . سارے فلیٹ میں چھان مارا . لیکن اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا ۔
اتنی دیر میں اس کی پڑوسن بھاگتی ہوئی آئی اور زور زور سے دروازے کی گھنٹی بجائے جا رہی تھی۔
اس کے دروازہ کھولتے ہیں وہ بولی
مادام تمہاری بیٹی کہاں ہے؟
اس نے کہا یہیں ہو گی۔ کیوں کیا ہوا کیا کہنا ہے اسے؟
جا کر دیکھو نیچے کیا ہوا ۔
نیچے نیچے کیا ہوا۔۔
اس پڑوسن کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ اسے کیا کہتی ہے کہ تمہاری بیٹی کی لاش پڑی ہے نیچے۔
اس نے کہا
فورا نیچے جاؤ کافی دیر سے وہاں پولیس آئی ہے۔
الہی خیر کہتے ہوئے
وہ جلدی سے لفٹ کے ذریعے نیچے اتری ۔
پہنچی تو ایک ہجوم تھا وہاں پر۔ پولیس بھی تھی۔
اس نے کہا
کیا ہوا
کیا ہوا۔۔
ایک پولیس افیسر نے اسے روکتے ہوئے کہا
رک جاؤ
آپ کون؟
اس نے اپنا نام بتایا۔
اس کی پڑوسن اس کے ساتھ تھی۔ انہوں نے کہا اسے جانے دو یہ اس کی ماں ہے۔
پولیس نے اس کو ایک فاصلے تک جانے دیا
لیکن یہ کیا اپنی بیٹی کی لاش دیکھ کر وہ اپنے اوسان خطا کر بیٹھی۔۔
اف میرے خدا یہ کیا ہوا میں تو اس سے باتیں کر رہی تھی۔۔
مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔
میں تو کچن میں اس سے باتیں کر رہی تھی کھڑے ہو کر،
اور یہ کس وقت کود گئی ۔۔
عظمی موقع پر ہی وہ دم توڑ چکی تھی۔
اسکی میت کو لیجایا گیا ۔ اسے غسل دیتے وقت جب ماں نے اپنی لاڈلی بیٹی اپنی پہلی اولاد کو جس نے اسے پہلی بار ماں کہہ کر پکارا اسے اس کے بدن کو دیکھا جہاں جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے ۔
وہ یہ سوچتے ہوئے غش کھا رہی تھی کہ اف خدایا میں میں اتنی بے حس کیسے ہو سکتی تھی۔ مجھے میری بیٹی کی آہیں سسکیاں سنائی کیوں نہیں دیں؟
کیسے مجھے پتہ نہیں چلا کہ وہ ایک درندے کے شکنجے میں پھنس چکی ہے۔
ہم ماں باپ اپنی بیٹیوں کو ایسے لاوارث کیسے چھوڑ سکتے ہیں ،
کیسے وہ اتنا ظلم اس پر کر سکتا ہے۔
وہ ذرا سا ہوش سنبھالنی اور پھر سے بے ہوش ہو جاتی۔
اس کی ماں کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی۔
اپنی لاٹری بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر ، اس کی میت کو دیکھ کر اس کا خود مر جانے کو جی چاہا، لیکن اس کے بچے اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔
اگر میں بھی نہ رہی ۔۔۔
اس کے شوہر نے کہا اگر تم بھی نہ رہی تو تم کیا سوچتی ہو ان بچوں کا کیا بنے گا۔۔
حوصلہ کرو۔ ہماری بیٹی نہیں رہی لیکن اس کے دوبچے ہماری گود میں ہیں ۔ انکا سوچو
اپنی بیوی کو ذہنی اذیت کے لیئے اور اس پر گھریلو تشدد کے لیئے اس کے شوہر کو نامزد کیا گیا۔
پولیس نے اسے ڈھونڈ نکالا ۔
گرفتار کیا۔
اس پر کیس چلا اور اسے جیل ہو گئی۔
سات سال کی جیل کاٹنے کے بعد باہر نکلتے ہی اس نے اپنے بچوں کی کسٹڈی انکے نانا نانی سے دوبارہ حاصل کر لی ۔
نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کے نانا نانی کچھ نہ کر سکے۔
یہ کیسا قانون ہے بچوں کو انکی ماں کے قاتل کے حوالے کر رہا ۔
رشید نے اپنے سات اور آٹھ سال کے بچوں کو پاکستان ایک دور دراز کے گاؤں میں لیجا کر اپنی ماں کے حوالے کر دیا۔
اس کی ماں جو پہلے ہی اس کو یہاں سے احکامات بھیج کر چلایا کرتی تھی۔
اس نے یہ سوچ کر وہ بچے اپنے پاس رکھ لیئے کہ بیٹا اسی بہانے ہر مہینے ایک موٹی رقم اسے بھجوانے پر مجبور رہے گا اور اس کے ساتھ بنا رہے گا۔
گھر میں ان بچوں کی چچی بھی موجود تھی۔ یوں چچی جو رشید کی اپنی خالہ زاد تھی اور خالہ بھانجی نے جو ساس بہو بھی تھیں۔
مل کر ان بچوں کی ذمہ داری لی۔
اسے میٹھے میٹھے سپنے دکھائے۔
اپنا کلچر سکھانے کے بہانے، اپنی تہذیب سکھانے کے بہانے، ان کو مسلمان بنانے کے بہانے، انہوں نے وہ بچے اپنے پاس رکھے۔
سارا دن ان بچوں کے ذہن میں انکی ماں کی بدکرداری کا زہر بھرا جاتا۔
یہ معصوم بچے جو کسی کو اپنی ضرورت بھی ٹھیک سے نہیں بتا سکتے تھے لیکن ان بچوں کو اس کی ماں اور بھاوج نے لاٹری کا ٹکٹ سمجھا ۔
تھوڑے دن جب تک وہ رہا ان بچوں سے خوب لاڈ پیار ہوتا رہا۔
اس کے بعد یہ بچے اس دور دراز افتادہ ایسے گاؤں میں جہاں ابھی تک بجلی بھی نہیں تھی اپنے بچے چھوڑ کر آ گیا اور خود فرانس میں اپنی اسی صبح شام میں گم ہو گیا ۔
کسی نئے شکار کے انتظار میں ۔
اس نے زندگی کا آغاز کیا ۔
وہ بچے اس دور افتادہ گاؤں میں اپنی دادی اور چچی کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے رہے ۔
ان دونوں کو پورا کھانا تک نہ ملتا۔ ڈرے سہمے کسی بھی کونے میں سو جاتے۔
سارا دن چچی اور دادی کی مار پیٹ کا شکار رہتے ہر بات پر انہیں طعنے دیئے جاتے۔
ان کی ماں کو بھگوڑی کہا جاتا ان کی ماں کو عاشق مزاج کہا جاتا اور وہ معصوم لڑکی جو ان کے بیٹے کے ہاتھوں قبر میں جا سوئی۔ اسے گندے ناموں سے پکارا جاتا۔
یہ بچے ذہنی طور پر دبتے چلے گئے۔
کسی سے کھل کر بات نہیں کر سکتے تھے۔
اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے تھے۔
وہ دونوں بچے ہسنا بھول چکے تھے۔
آخر چھ سات سال کی فرانس میں کی ہوئی عیاشی کے بعد اسے جب لوگوں نے احساس دلانا شروع کیا کہ تم اپنے بچے کیوں نہیں بلاتے۔ شادی کیوں نہیں کرتے۔اپنا گھر کیوں نہیں بساتے۔
اس کی ماں نے اس کا رشتہ اس کے گاؤں کے قریبی شہر میں پکا کر دیا ۔
یوں اس بار وہ پاکستان گیا تو دوستوں نے اسے صلاح دی
اگر تم اس بار اپنے بچے لے کر نہیں آئے، 16 سال کی عمر سے پہلے پہلے، تو یاد رکھو ان بچوں کے آنے میں مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔
حالانکہ وہ بچے فرانس میں پیدا ہوئے ہیں لیکن بہت سے قوانین تبدیل ہوتے رہتے ہیں، تو بچوں کے لانے میں مشکل ہو جاتی ہے۔
اس لیے بہتر ہے کہ انہیں لا کے یہاں سکول میں داخل کرواو۔
لیکن وہ چھوٹے گھر کا ، چھوٹے علاقے کا، چھوٹی سوچ کا ایک ایسا آدمی تھا جو اس چیز کو ہضم نہیں کر پا رہا تھا.
کیونکہ جب وہ خود کسی اور کی بیٹی بھگا کر لایا تھا۔ اسے ہر وقت کے دھڑکا رہے گا کہ کوئی اس کی بیٹی بھگا کر نہ لے جائے۔
مکافات عمل تو ہر وقت آپ کے پیچھے رہتا ہے۔
لیکن بالاخر اسے شادی کا فیصلہ لینا پڑا ۔ ساری زندگی محض عیاشی پہ نہیں گزاری جا سکتی تھی۔
اسے بھی اب گھر کا کھانا چاہیئے تھا۔
بالآخر اس کی ماں کے کہنے پر اس نے نزدیک کے شہر سے ایک لڑکی کا رشتہ اس کے لیے پسند کیا۔
لیکن وہ اس کے بچے اس کے ساتھ بھیجنا نہیں چاہتی تھی۔ بیوی کے لیئے دستاویزات بنانے کے بعد اس نے اسے اپنے پاس فرانس بلا لیا۔
ڈیڑھ دو سال کی اسی کوشش میں اسکی ماں نے اسے بچے لے جانے سے منع کرنے کے لیے ہر زور لگایا۔ لیکن دوستوں کی بات اس کے ذہن میں سما چکی تھی ،
کہ بچے یہاں لاؤ گے تو کئی سرکاری فائدے بھی تمہیں ملیں گے۔
لیکن ابھی بھی وہ جب دوسری شادی کر رہا تھا تو اس کا خیال تھا۔
میں اور بچے پیدا کر لوں گا مجھے ان بچوں کی کیا ضرورت ہے۔
لیکن خدا کی لاٹھی بھی بے آواز ہوتی ہے۔
جس معصوم لڑکی کی موت کی وہ وجہ بن چکا تھا اسے بچوں پہ بچے پیدا کرنے کی ایک مشین سمجھ چکا تھا۔ اب شاید قدرت اسے اس بات کا جواب دینے والی تھی۔
دوسری بیوی شکل صورت میں اچھی تھی ۔خوبصورت تھی۔ لیکن بیحد حاسدانہ مزاج رکھتی تھی۔
پیرس کے نام پر وہ شادی کر کے تو آ گئی تھی لیکن وہ اس کے بچے کبھی بلانا نہیں چاہتی تھی۔
اسے بھی اسی بات کا انتظار تھا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ یہاں اپنا گھر بنائے گی۔
اللہ کی کرنی مہینوں پہ مہینے گزرتے چلے گئے لیکن اللہ نے ان کا دامن خوشی سے نہیں بھرا۔
کرتے کرتے اس بات کو تین چار سال کا عرصہ گزر گیا اور اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔
ڈاکٹرز نے جواب دے دیا
سوری تم اولاد نہیں پیدا کر سکتی۔
اب تو رشید کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
اس نے جلد سے جلد پاکستان کی ٹکٹ کٹوائی اور پاکستان جا پہنچا۔
اپنے بچے اپنے ساتھ لیئے۔ ہر کسی کی مخالفت کے باوجود وہ انہیں مہینے بھر میں اپنے ساتھ واپس فرانس لے آیا۔
یہاں آ کر اس نے بچوں کے کو انکی عمر کے سکول میں (لازمی تعلیم کی سرکاری پابندی کے سبب) داخل کر دیا ۔
لیکن اب اس کی دوسری بیوی شاہانہ کے سینے پر یہ بچے سانپ بن کر لوٹنے لگے۔
رشید کی بیٹی جو اب 17 سال کی ہو چکی تھی۔ وہ اتنے دکھ اپنی دادی اور چچی کے ہاتھ سے اٹھا چکی تھی اور اپنے بھائی کو اتنے ظلم سہتے ہوئے دیکھ چکی تھی کہ وہ ہر بات میں اپنا حق لینے کے لیے ہر ایک سے مقابلہ کرنے کو تیار ہو جاتی۔
وہ دوسروں سے ہر خوشی چھین لینا چاہتی تھی ۔
اس کے منہ پر کبھی مسکراہٹ نہیں آتی تھی۔ کسی نے اسے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔
ایک عجیب سی سختی اس کے چہرے پر تھی۔ دور سے دیکھنے پر اس کا چہرہ پتھر سے تراشہ ہوا لگتا۔
دونوں بہن بھائی جیسے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔
ظاہر ہے دونوں نے تکلیفیں جو ایک جیسی اٹھائی تھیں۔ دونوں کی محسوس کرنے کی حس، درد اٹھانے کی حس ، بھی ایک جیسا کام کر رہی تھی۔
یہاں پر پڑھائی شروع ہوئی۔ اس نے شکر ادا کیا۔
لیکن اب وہ جب بھی اسے دیکھتی اسے اپنی ماں اور اپنی ننہیال یاد آتی۔
لیکن ماں کی موت کے بارے میں سننے کے بعد وہ اپنی ننھیال سے ملنے کے لیئے بھی تیار اس لیئے نہیں تھی کہ پہلے تو رشید انہیں ان کی طرف جانے نہیں دیتا تھا اور اگر کسی کے کہنے پر شرما شرمی جانا بھی پڑتا۔ تب بھی وہ اپنی ماں کی قتل کا ذمہ دار اپنی ننہیال کو سمجھ رہے تھے۔
کیونکہ یہ زہر کتنے سال تک اس کی دادی اور اس کی چاچی نے ان کے کانوں میں بھرا تھا۔
اس لیئے اس نے اپنا سارا غصہ اور غضب نکالنے کے لیے اپنی سوتیلی ماں شاہانہ کو ٹارگٹ بنا لیا ۔
شاہانہ بھی کم نہیں تھی جو ایک رنگ کا سوٹ ایک کے لیئے آتا تو دوسری اس میں کٹ لگا کے یا استری رکھ کے بھول جاتی اور وہ اسے پہننا نصیب نہ ہوتا۔
کبھی اٹھا کر اس کی کوئی چیز کھڑکی سے باہر پھینک دیتی ۔
کبھی ایک دوسرے کی چیزیں پھینکتے، کپڑے پھاڑتے جلاتے ،گویا حسد کا ایک ایسا عذاب تھا جو رشید کو شام کو گھر آنے کے بعد دونوں کے فساد کی صورت میں سننا پڑتا۔
بیٹی کو برا بھلا کہتا ہے اور کبھی بیوی کو ایک آدھ لگا دیتا۔
لیکن یہ مقابلہ ختم ہونے پہ آتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
آخر کار اس کے بیٹے نے بھی بنیادی پڑھائی کے بعد اپنا سکول چھوڑ دیا۔
اور یوں زبان تو وہ سیکھ ہی چکا تھا اب اسے آوارہ گردی میں مزہ آنے لگا۔
اس کے لیئے پیرس کی ہوا بھی نئی نئی تھی۔
نئی نئی اس نے موٹر سائیکل چلانا سیکھی۔
زبان سیکھنے کے بعد وہ اپنے اپ کو بہت زیادہ خود مختار سمجھنے لگا۔
پچھلی بندشوں کے بدلے اس نے اگلے رشتوں سے لینے شروع کیئے۔
بہت سی بری صحبتوں کا شکار ہوا۔ جیل تک سے ہو آیا۔
اس کی بیٹی جو ہر چیز سے بیزار ہو چکی تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے غصے کا شکار بناتی ۔
رشید اب روز پستا تھا ۔ کبھی بیٹی کے ہاتھوں اور کبھی اپنی بیوی کے ہاتھوں۔
کئی کئی دن اپنے گھر نہیں جاتا اپنے دفتر میں ہی سوتا ہے ۔
کیونکہ خدا نے سکون اس کی زندگی سے الگ کر دیا تھا ۔
وہ حرام حلال طریقوں سے مختلف کمپنیز بنا کر نوٹ تو بہت چھاپ رہا تھا۔
لیکن سکون اور گھر کا بنا کھانا اس کا خواب ہو چکے تھے۔
وہ یہی سوچتا کہ کاش وہ سکون اور گھر کے کھانے کی لذت بھی پیسوں سے خرید سکتا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔