ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 31 اکتوبر، 2020

● لفافے ‏بولتے ہیں ‏/ ‏شاعری ‏

  
              لفافےبولتے ہیں جی
           (کلام: ممتازملک.پیرس)


انہیں تم چھیڑنے کا سوچنا بھی مت 
سچائی ان کے اندر کی کبھی تم کھوجنا بھی مت
یہ آنکھیں لال کر کے جب ڈراتے ہیں 
سمجھ جاتے ہیں ہم اس دم لفافے بولتے ہیں جی 

انہیں کردار پہ کیچڑ  گرانے کا تجربہ ہے 
نہ جب کمزوریاں ہاتھ آئیں عورت کی یہ حربہ ہے 
ازل سے ہے ابد تک ہی یہ مردانہ حقارت کہ
یہ آنکھیں کھولتے ہیں جی لفافے بولتےہیں جی

کبھی سچ بولنے کی تم نے کی جرات سمجھ جانا
کہ اب ہے سامنے میدان حریت سمجھ جانا 
مقابل ہے سماجی گدہ زرا ہشیار ہو جانا
پروں کو تولتے ہیں جی لفافے بولتے ہیں جی

انہیں ایمان سے  ہے کب غرض اور 
عقل سے کیا ہے
بھرو جب جیب تو پھر خر بھی اسپہہ شکل سے کیا ہے
اگر ائینہ دکھلاو تڑپتے ہیں بدکتے ہیں 
بڑا ہی ڈولتے ہیں جی لفافے بولتے ہیں جی
                     ۔
                         ●●●                       
         

بدھ، 28 اکتوبر، 2020

● نعت ۔ جس جاء پہ نظر پڑ گئی۔ اے شہہ محترم ص



جس جاء پہ نظر پڑ گئی
کلام/ممتازملک 



جس جاء پہ نظر پڑ گئی سرکار کی لوگو
آذاد ہوا فکر سے گھر بار کی لوگو

جو پا گیا ہے انکے پسینے کی مہک کو
کیا اسکو تمنا کسی عطّار کی لوگو

جو شہر مدینہ کی کبھی خاک ہی پا لے 
کیا ہو گی کشش پھر گل و گلزار کی لوگو

جو آپ کے قدموں ہی میں سر اپنا جھکا لے
نہ پالے کوئی فکر وہ بیکار کی لوگو

بکتے ہیں جو سرکارکی قربت کی طلب میں 
کھٹکے ہیں سدا آنکھ میں اغیار کی لوگو

طائف کی گلی سےجو گزر جاو گے اک بار
یاد آئے گی پھر تو کسی بازار کی لوگو

اک بار جسے آپکی چاہت نے نوازہ
پرواہ نہ دنیا کے کسی پیار کی لوگو

 سر میرا یہ ارزاں نہیں اس در پہ جھکا ہے
حاجت نہیں اب دوسرے دربار کی لوگو

آنکھیں جو ہوں سرکار کے چہرے سےمنور
کیا آرزو ممّتاز کو انوار کی لوگو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پیر، 26 اکتوبر، 2020

● سیاحتی ‏مقامات ‏کی ‏تباہی / کالم


سیاحتی مقامات کی تباہی
تحریر:(ممتازملک.پیرس)















اگر آپ اسلام آباد جانے کا ارداہ کریں اور وہاں موجود حسین پہاڑی چوٹی کے حسین مقام پیر سوہاوہ نہ جائیں تو آپ کی سیر ادھوری ہے ۔۔ یہ چوٹی آپکے سامنے اسلام آباد اور راولپنڈی کا نظارا جیسے ایک تھال میں رکھ کر پیش کر دیتی ہے۔ 
 کچھ سال پہلے جب ہمارا وہاں جانا ہوا تھا تو اس کی چوٹی پر ایک ڈھابہ اسٹائل کا ریسٹورنٹ تھا جہاں چارپائیاں بچھی ہوتی تھیں   یا پلاسٹک کی میز کرسیاں ۔ اور خلق خدا کا خصوصا فیمیلیز کا  رش تھا جس سے اس مقام کی پسندیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا  تھا۔ اس ریسٹورنٹ میں ملنے والا چکن ایک بار کھائیں  تو بار بار اسی  کی لذت میں آپ وہاں جانے   پر مجبور ہو جائیں ۔ اور قیمت بھی انتہائی مناسب۔ وہ نظارہ آپکی یادداشتوں میں ہمیشہ لیئے نقش ہو جاتا تھا ۔ ہر غریب امیر کی یہاں تک رسائی بھی تھی اور یہ سیر اسکی جیب پر اتنی بھاری بھی نہیں تھی ۔ 
اس بار چار پانچ سال بعد 2019ء میں جب وہاں جانے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر شدید  صدمہ پہنچا کہ اس ڈھابے کی جگہ ایک بلند و بالا ریسٹورنٹ تعمیر ہو چکا ہے ۔ ساتھ میں ڈیکوریشن پیسز اور جیولری کے سٹال لگ چکے ہیں ۔ جن کی قیمت ہوشربا تھی ۔ جس قیمت میں وہاں سے بہترین چکن تکہ کھا کر لوگ نکلتے تھے اب اسی قیمت میں اس ہائی فائی ریسٹورنٹ سے آپ چائے بھی نہیں پی سکتے ۔ جس پہاڑی کی چوٹی سے لوگ شہر کا دلکش نظارا کیا کرتے تھے اب وہاں اونچی اونچی دیواریں بنا دی گئی ہیں ۔ نیچے نظارا کرنا بیحد مشکل ہو گیا ہے ۔ ظاہر ہے اس ریسٹورنٹ کا فضلہ اس جگہ سے اسی پہاڑی سے نیچے گرا کر اس کے جنگل اور چھوٹی چھوٹی خوبصورت آبگاہوں کو برباد کر رہا ہے۔ عام آدمی کے اس سیاحتی مقام کو ہائی جیک کر کے اشرافیہ اور دو نمبر مالداروں کا  خصوصی ٹھکانہ بنا دیا گیا ہے ۔ جب کہ ان لوگوں کے لیئے وہاں پہلے سے ہی ایک گیسٹ ہاوس موجود تھا ۔  تو اسے عام آدمی کی پہنچ سے دور کیوں کر دیا گیا ہے ۔ ایک عجیب سے نحوست برستی دکھائی دی وہاں ۔ کوئی رش بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے ڈھائی سو روپے کی چائے کی ایک پیالی  پینے ایک عام آدمی تو فیملی کے ساتھ وہاں جانے سے رہا ۔ 
دوسرا سیاحتی مقام جہاں ہر بار ہمارا جانا ہوتا ہے وہ ہے مالاکنڈ (کے پی کے ) مالاکنڈ کا بڑا بس اڈا بٹخیلہ کی خوبصورت اور زور آور نہر کے کنارے واقع ہے ۔ اس کے پل کے آر پار مارکیٹ اور بازار اب کافی زیادہ بن چکے ہیں ۔ یہ ایک مقامی اہم بس اڈا ہے ۔ یہیں سے ہمیں لوکل طور پر کہیں جانے کے لیئے  جہاں بیس سال پہلے تک  تانگے چلا کرتے تھے وہاں اب چینکچی ،رکشہ ، سوزوکیاں اور پرائیویٹ گاڑیاں بھی مل جاتی ہیں ۔ یہاں کی اچھی بات یہ پرائیویٹ آرام دہ گاڑیاں ہیں جنہیں آپ روک کر پوچھ سکتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ تک جا رہے ہیں کیا ؟اگر وہ کہے ہاں تو آپ اس سے کرایہ پوچھ کر بے خطر اس کے ساتھ بیٹھ کر سفر کر سکتے ہیں اور وہ آپ کو باحفاظت آپ کے مطلوبہ مقام پر اتار دیتے ہیں ۔ ویسے تو یہاں کے لوگ بیحد مددگار اورمخلص ہوتے ہیں  لیکن اگر آپ  اکیلے ہیں یا زبان نہیں جانتے تو  ایسا رسک نہ ہی  لیں تو اچھی بات ہے۔ کسی زبان جاننے والے کو ساتھ لے لیں تو بہتر  ہو گا  ۔ یہاں کے اکثر نوجوان لوگ اردو جانتے بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ اس نہر کے کنارے قانونی طور پر تعمیرات کی اجازت نہیں تھی لیکن اس بار جو دیکھا وہ بیحد افسوسناک تھا ۔ اس نہر کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر گھر اور ہوٹلز بنا دیئے گئے ہیں جس کا فضلہ اس نہر کی جانب گرایا جا رہا ہے ۔ اگر اسے فوری طور پر نہ روکا گیا تو یقین جانیئے یہ خوبصورت رواں دواں تاریخی نہر  راولپنڈی کے نالہ لئی کی صورت اختیار کر جائے گی ۔ خدا کے لیئے اس جانب توجہ دیجیئے اس نہر اورباقی تمام نہروں  اورندیوں کو نالہ بننے سے بچایئے ۔ دنیا سے سیکھیئے کہ وہ اپنی سیرگاہوں ، نہروں اور آبی گزرگاہوں کی کیسے حفاظت کرتی ہیں ۔ حکومت وقت کو اس پر فوری اقدام لینا چاہیئے ۔۔ایک اور اہم ترین مسئلہ  اسی بٹخیلہ سے جب درگئی کی جانب جانے کے لیئے روانہ ہوتے ہیں تو انخلاء پر ہی اس قدر شدید ٹریفک جام  کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس وقت میں باآسانی ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کیا جا سکتا ہے ۔ اس پر توجہ دیجیئے۔ یہاں ٹریفک سگنلز لگائیے۔ گول چکر بنایئے اور باقاعدہ ٹریفک پولیس تعینات کیجیئے ۔ یہیں سے گزر کر مینگوہ، سوات ، کافرستان اور مالم جبہ کی گزرگاہوں تک پہنچا جاتا ہے اسے نظر انداز کرنا سیاحتی نقطہ نظر سے بھی نقصان دہ ہے بلکہ مقامی آبادیوں کے لیئے بھی باعث آزار ہے ۔ سیاحتی مقامات کے حسن کو بچایئے اور اس کے نزدیک آبادیاں  بنانے اور ہوٹلز کی تعمیرات کو روکنے کے لیئے فوری اقدامات کیجیئے ۔ ورنہ خدانخواستہ  یہ قدرتی نظارے بھی "ہیں" سے "تھے" میں جا کر کھو جائینگے ۔ 
                       ۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 25 اکتوبر، 2020

● ◇ خزاں ‏کی ‏رت/ ‏نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


   خزاں کی رت

خزاں کی رت میں چھپا ہوا ہے 
عجیب سا اک
اداس جوبن 
جدائی کی اک چبھن ہے اس میں 
ملاپ کی اک امید روشن
              ●●●

جمعہ، 23 اکتوبر، 2020

● درگور ‏/ ‏کالم


              درگور
  (اپنی عزت بچائیں۔۔
                       پر کیسے؟)
        (تحریر: ممتازملک.پیرس)
                 

حیرت ہوتی ہے سن کر کہ کوئی پولیس  والا یا محافظ  کیسے کسی مدد طلب کرنے والے کو کہہ سکتا ہے کہ یہ معاملہ ہماری حدود کا نہیں ہے؟
بھئ وائرلیس پر پیغام وائرل کیا جاتا ہے کہ اس پوائنٹ کے نزدیک جو بھی پولیس کی گاڑی موجود ہے فورا موقع مدد پر پہنچے ۔ 
یہ کیا ذلالت ہے کہ یہ ہماری حدود میں نہیں ہے ؟؟؟؟
پولیس ہمارے ٹیکسز سے مال بٹورتی ہے بطور تنخواہ اور ڈاکہ ڈالتی ہے ہماری جیبوں پر بشکل رشوت اور بھتہ بعوض مشاورت کے ۔ کب سے پولیس لوگوں کا ماما چاچا بن کر مشورہ دینے پر مامور ہو گئی ۔ ان کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے مشورے دینا نہیں ۔ 
تل تل کر مرنے کے لیئے  برباد کر دی جانے والی زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جانے والی عورتیں اور بچے کیسے جیتے ہیں ۔ ان کی نفسیات پر اس کے کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ کیسے جیتا ہے زندہ درگور ہونے والے یہ مظلوم ؟ کوئی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ یہ تکلیف صرف وہی جانتا ہے جس پر گزرتی ہے۔ ان درندوں کا مستقل علاج کیجیئے ۔ عبرت ناک علاج ۔
کیوں نہیں ہے خوف ایسے بدکاروں اور بدذاتوں میں  کسی کا ۔ خدا کا خوف رہا نہ ہی دنیاوی شرمساری کا ۔۔
ہماری مائیں ، ہمارے علماء ، ہمارے خطیب ، ہماری موم بتی مافیا ہماری پولیس ، ہمارے وکیل ، ہمارے ججز ۔۔۔کہاں ہیں یہ سب کے سب ؟ اپنے فرائض کہاں ادا کیئے ہیں انہوں نے ؟ مان لیجیئے کہ یہ سب ناکام ہو چکے ہیں ۔
 پہلے تربیت سے عاری معاشرہ اور پھر سر عام عبرتناک سزاوں کا نہ ہونا یہ ہی وجوہات ہیں ان تمام جرائم کی آماجگاہوں کو پروان چڑھانے کی ۔ جس روز چار مجرمان سر عام لٹکا دیئے گئے چوراہے میں ، تو  وہ علاقہ کم از کم دس سال کے لیئے محفوظ ہو ہی جائے گا ۔ کسی کا عہدہ ذات پات رشتہ دیکھے بغیر بدکاری کے مجرمان کو سزا کا قانون صرف پاس ہی نہیں کرنا ۔۔۔چار دن اس پر میڈیا میں شور مچا کر اسے کارپٹ کے نیچے نہیں دبا دینا ۔۔۔ سرعام پھانسی کا صرف مطالبہ ہی نہہں کرنا بلکہ یہ قانون بنوا کر لاگو کروانا ہے اور چوبیس گھنٹے کے اندر ایسے واقعات کو پہلی ترجیح دیتے ہوئے مجرمان کو  سرعام پھانسیاں دی جائیں ۔ ہمارے ملک میں ہر جمعے کی نماز کے بعد کھلے عام چوک میں ایسی سزاوں کو پوری قوم کی تربیت کا مرحلہ سمجھتے ہوئے عمل کرنا ہو گا ۔
اس کے لیئے ہمیں یورپی ممالک کی ناراضگیاں نہیں دیکھنی چاہیئیں بلکہ اللہ کی کتاب قرآن پاک ہمیں سزاوں کا معیار ہونا چاہیئے۔ اور اللہ کے عذاب اور پکڑ سے ڈرنا چاہیئے ۔ انہیں نہ صرف لٹکائیں بلکہ ان کی لاشیں نہ دفنانے کی اجازت ہو ، نہ انکا جنازہ پڑھا جائے ، نہ انکی قبر بنائی جائے بلکہ انکی لاشیں بھوکے کتوں کے آگے ڈال دی جائیں ۔ 
دوسری سزا یہ ہے کہ ایسے تمام گندوں کو نامرد کر کے اسکے ماتھے پر بدکار کی انمٹ مہر لگا دی جائے اور اسے اسی معاشرے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے کے لیئے چھوڑ دیا جائے۔
تیسری سزا یہ ہے کہ ایسے مجرموں کو ایک ایک پنجرے میں ڈال کر شہر کے  چوراہوں میں بھوکا پیاسا تادم مرگ لٹکا دیا جائے  ۔ آتے جاتے ہر آدمی حسب توفیق انہیں پتھر مارے ۔ انکی موت کے بعد بھی انہیں غسل کفن اور دفن سے محروم کر دیا جائے ۔ اور انہیں نامعلوم کھڈوں میں پھینک کر زمین کو برابر کر دیا جائے۔ 
سزاوں کا مقصد  مجرمانہ سوچ رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے کرنا ہونا چاہیئے ۔ دنیا والے ناراض ہو جائینگے کہہ کر کوئی بھی حکمران اپنی ذمہ داری سے پلہ نہیں جھاڑ سکتا ۔ کیونکہ اس ملک کی آددھی آبادی کی جان اور عزت داو پر لگی ہوئی ہے اور دنیا کی کوئی یونین اور مملکت ان کی حفاظت کے فریضے کے لیئے روز قیامت آپ کا گریبان ان مظلوموں کے ہاتھ سے نہیں چھڑا سکتی ۔
اس ملک میں عورت اور بچے کو تحفظ دینا اگر آپ کے بس میں نہیں رہا تو پھر ہم عورتوں کو اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیئے خود سے کچھ اقدامات لینا ہونگے ۔
 یہ حفاظت اگر حکومت، قانون  ساز اداروں اور  پولیس کے بس میں نہیں رہی  ہر عورت کو لوڈڈ پستول رکھنے اجازت دیدی جائے ۔ جہاں اس پر کوئی سور حملہ کرنا چاہے ، اسے کوئی خطرہ ہو وہاں اس مجرم کو وہ گولی مار دے۔
خس کم جہاں پاک
یورپ اور امریکا  کیساتھ ایسے واقعات  پر مقابلہ کرنے والوں کو بات کرنے سے پہلی تھوڑی شرم ضرور کرنی چاہیئے ۔ ایسی ہر روز کی مثالیں آئے دن کے واقعات آپکے مسلمان اور مہذب ہونے کا پول کھل کر کھولتی رہتی ہیں ۔ 
خواتین کو ہر ملک کو فرانس اور یورپ نہیں سمجھ لینا چاہیئے ۔
سنا ہے کہ متاثرہ خاتون اپنے بچوں کو   اسلامی تعیمات اور اپنا کلچر سکھانے کے لیئے فرانس چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوئی تھی ۔۔لیکن اس افسوسناک واقعہ کے بعد انہیں یہ سمجھ آ چکا ہو گا کہ ان کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے  کونسا اسلام اور کلچر محفوظ کرا دیا گیا ہے ۔ ۔۔۔میرے خیال میں انہیں پہلی فلائٹ سے اپنے بچے لیکر فرانس پہنچ جانا چاہیئے ۔  جہاں سے وہ یہ اعتماد لیکر گئی تھیں کہ انکی عزت محفوظ ہے اور وہ  "اپنوں "کے بیچ ہیں ۔ یہ چور چور اعتماد اب واپس یورپ آ کر ہی  بحال ہو سکتا ہے ۔ 
وہ لوگ جو مجھ سے بدزبانی  کی حد تک بحث کیا کرتے تھے کہ اسلامی ملک اور ہمارا اسلامی کلچر ۔۔۔۔ان میں حیا ہو تو یہ واقعہ اور اس جیسے تمام واقعات ان سب کے منہ پر ایک  کرارا جواب ہے ۔ حقائق سے آنکھیں مت چرائیں ۔ بحث برائے بحث محض آپکے اندر کا بغض ہی سامنے لاتا ہے اس سے کوئی تعمیری نتیجہ کبھی نہیں نکل سکتا ۔ 
                       ۔۔۔۔۔۔۔    

     

جمعرات، 15 اکتوبر، 2020

● اہمیت ‏/ ‏کوٹیشنز ‏



اہمیت    

ہر ایک سے گلہ کرنے سے بہتر ہے کہ  جو آپکو اپنی زندگی میں جتنی اہمیت دیتا ہے اسے بھی بس اتنی ہی جگہ دو ۔ جھگڑے اور دکھ دونوں سے بچ جاو گے ۔
     (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
            (ممتازملک.پیرس)

منگل، 13 اکتوبر، 2020

● فرانس میں اردو کا سفر/ کالم

      

       فرانس میں اردو کا سفر
           تحریر:  (ممتازملک.پیرس)





اردو زبان کا سفر فرانس میں اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب فرانس کے شہر ماغسائی میں پیدا ہونے والے نامور ماہر لسانیات اور ماہر ہندویات 
 گاغساں دے تاسے ( 20 جنوری 1794ء تا 2 ستمبر  1878ء  ) نے 1838 ء  میں ہندوستانی ادب کی تاریخ کے نام سے   اردو ادب کی تاریخ فرانسیسی زبان میں  مرتب کی اور کئی  اردو مجموعات کے فرانسیسی زبان میں تراجم کیئے اور  فرانس میں اس  زبان کی داغ بیل ڈالی ۔ اسی سال انسٹیٹیوٹ نیسونال دے  لونگ اے سیویلیزاسیوں اوغیانتال (INLCO) کی بنیاد رکھی گئی ۔ جہاں دوسری زبانوں کیساتھ اردو زبان بھی پڑھائی جانے لگی ۔ آج بھی اردو زبان کا اعلی سطح کا واحد ادارہ یہی انسٹیوٹ ہے ۔ جہاں ہر وقت دو اساتذہ جس میں ایک ایسو ایٹ پروفیسر ہوتا ہے اور ایک لیکچرر تعینات رہتے ہیں۔ جن کا تعلق عموما پاکستان سے ہوتا ہے ۔ 
گاغساں نے اس  زمانے میں تین جلدوں پر مبنی ہندوستانی ادب کی تاریخ کے عنوان سے فرانسیسی زبان میں سب سے پہلے اردو ادب کی تاریخ لکھی ۔ جبکہ اس وقت تک خود اردو زبان میں بھی ایسا کوئی تاریخی مواد موجود نہیں تھا ۔

فرانس میں اردو زبان کی ضرورت کا احساس پاکستانی نئی نسل کو اپنے کلچر اور تہذیب کیساتھ جوڑے رکھنے کی ایک شعوری کوشش تھی جسے یہاں والدین نے بڑی محنت کیساتھ نبھانے کی کوشش کی ۔ کچھ پاکستانیوں نے فرانس میں غیر سرکاری  طور پر مساجد اور اداروں میں بھی اردو زبان کی کلاسز کا اجراء کیا ہے ۔ جہاں ہر عمر کے بچے زبان سیکھنے کے لیئے آتے ہیں ۔ 
 یہ کوششیں پندرہ سال کی عمر تک تو ممکن تھیں لیکن اس کے بعد فرانس کے تعلیمی نظام میں اداروں اور سکولوں کے نظام الاوقات صبح 8 بجے سے لیکر تقریبا شام 5 بجے تک ہوتے ہیں جس میں بچوں کے آنے جانے کا دو سے تین گھنٹے کا دورانیہ مذید شامل کر دیا جائے تو ان کے پاس گھر میں سوائے رات کو کھانا کھانے اور سونے کے کوئی وقت نہیں بچتا ۔
 اس نظام الاوقات کے شروع ہونے کے بعد کم ہی بچے شوق سے لکھنے اور پڑھنے کے لیئے اردو کو وقت دے پاتے ہیں ۔ جس کے سبب وہ اردو بول تو لیتے ہیں لیکن لکھنے پڑھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں 
لیکن یہی بچے بڑے ہو کر اب اپنے بچوں کیساتھ اردو میں بات کرنا چاہتے ہیں  
 تاکہ وہ اظہار کی اس لذت کو محسوس کر سکیں جو صرف اور صرف اپنی ہی زبان میں محسوس کی جا سکتی ہے ۔۔ یاد رہے کہ فرانس انتظامی طور پر ریجنز میں تقسیم ہے۔ اس کے (26 )چھبیس ریجنز ہیں ۔ ال دو فغانس کے ریجن میں اکا دکا  ہائی سکولز میں بھی اردو کو اختیاری زبانوں کے مضامین میں شامل کیا جا چکا ہے ۔۔ 

ہماری پہلی نسل کی شادیاں جب مختلف ممالک کے لڑکے لڑکیوں کیساتھ انجام پائیں یا پاکستان سے بیاہ کر لائے گئے تو زبان کی ضرورت نے سر اٹھایا ۔ کیوں کہ انہیں اپنے شریک حیات کی زبان اور کلچر سے آگاہی اپنے بچوں کی پرورش اور شناخت کے لیئے اہم لگنے لگی ۔ 
اس کے لیئے انہوں نے اپنے شریک زندگی پر انحصار کرنے کے بجائے باقاعدہ طور پر اردو سیکھنے کے لیئے یونیورسٹی میں داخلے لیئے۔ جہاں دو تین اور چار سالہ اردو زبان میں  سرٹیفیکیٹ اور ڈپلومہ کروایا جاتا ہے ۔ فرانس میں پیدا ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کے علاوہ یہاں یورپیئن ، فرنچ، عرب ، افریقی خواتین  جو پاکستانی مردوں سے شادی کر چکی ہیں اردو زبان سیکھنے آتی ہیں ۔ تاکہ وہ اپنے شوہروں کیساتھ گونگی زندگی کے بجائے ایک بولتی اور  متحرک ساتھی کا کردار ادا کریں ۔ یا وہ فرانسیسی اور دیگر اقوام کے لوگ جو پاکستانیوں کیساتھ کام کرنا چاہتے ہیں یا مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے خود کو پاکستان کے ساتھ جڑا محسوس کرتے ہیں وہ بھی یہ زبان سیکھنا چاہتے ہیں ۔  اردو سیکھنے کی وجہ سے خواتین پاکستانی تہذیب کو بھی تیزی سے اپنانے لگتی ہیں کیونکہ جیسے  ہر زبان اپنی تہذیب اور ثقافت رکھتی ہے اسی طرح اردو بھی اپنے ساتھ بیحد حسین ثقافت اور رکھ رکھاو لیکر آپکی زندگی میں داخل ہوتی ہے ۔ میں بہت حیران ہوئی جب میری بوتیک پر کچھ عرب اور افریقی خواتین میرا اصل وطن پوچھتیں اور پاکستان کا نام سن کر مجھ سے ٹوٹی پھوٹی گلابی اردو میں بات کرنے کی کوشش کرتیں ۔ پوچھنے پر بتاتیں کہ ہم نے کسی پاکستانی سے شادی کی تھی شادی تو چلی یا نہیں چلی لیکن ہمیں اردو سے شناسائی بلکہ محبت دے گیا۔
 کیونکہ اردو بے حد مترنم زبان ہے ۔ اس زبان کے ساتھ وہ ہمارا پہناوا بھی پسند کرنے لگیں ۔ اپنے بچوں کو بھی اردو  سیکھنے کی ترغیب دیتیں ۔ جبکہ وہ اپنے شوہروں کو چھوڑ بھی چکی تھیں لیکن اردو کو نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں ۔
کچھ خواتین و حضرات نے بتایا کہ ہم بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں وہیں سے ہندی کے نام پر انہیں یہ اردو سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ۔ یہ سچ ہے کہ نہ صرف فرانس بلکہ ساری دنیا میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہندی کہہ کر ہی سہی بھارتی سنیما  نے اردو کو گھر گھر تک پہنچانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ وہ کردار جو ہماری پاکستانی حکومتوں ، فلم انڈسٹری ، سفارتخانوں  اور عوام کو ادا کرنا چاہیئے تھا کیونکہ ہم اس زبان کی وراثت اور قومی رابطہ زبان ہونے کے سب سے بڑے دعویدار بھی ہیں ۔ 

سال  2015ء میں مائیگرنٹ کرائسس کے تحت  آنے والے مہاجرین کے بڑے ریلے میں فرانس میں بھی تقریبا دس لاکھ کے  قریب مہاجرین کا داخلہ ہوا ۔ فرانس کے  مضمون نگار شاہ زمان حق (جو انلکو  پیرس میں شعبہ جنوبی ایشیا اور ہمالیہ 
 ڈیپارٹمنٹ کے کو ڈائیریکٹر ہیں )
لکھتے ہیں کہ ان مہاجرین سے انکے مسائل کے سلسلے میں جب انہیں تجزیہ کرنے اور رپورٹ بنانے  کا موقع ملا تو وہاں پریشان کن حالات میں ان پاکستانی ، افغانی، بنگلہ دیشی مہاجرین کے لیئے اردو  سب سے اہم رابطہ زبان ثابت ہوئی جو ان کے اجنبیت کے احساس کو کم کرنے کا باعث بنی۔ 
ویکیپیڈیا پر اس وقت فرانس میں اردو بولنے والوں کی تعداد بیس ہزار درج ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ فرانس میں اسوقت پاک سفارتخانے کے مطابق تقریبا ایک لآکھ پچیس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی آباد ہیں  ۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی کسی بھی علاقے سے ہوں آپس میں ملتے ہیں تو ان کی سب  سے پہلی ترجیح اردو زبان میں ہی بات کرنا ہوتی ہے ۔ وہ پڑھے لکھے ہوں یا نہ ہوں اردو بولنا پسند کرتے ہیں ۔ اور ان سب میں سے 90 فیصد افراد بہت اچھی یا کم اچھی اردو بول سکتے ہیں ۔ اور پاکستانی نوجوانوں سے شادیاں کرنے والے نوجوان کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہیں اپنے شوہر و بیوی کے ساتھ اس کی زبان میں بات کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیئے ڈپلومہ کورسز کرتے ہیں اور بھارتی فلموں سے بھی اردو سیکھتے ہیں ۔ اور کافی اچھی اردو بولتے ہیں ۔ اس لحاظ سے فرانس میں اردو بولنے والوں کی تعداد صرف پاکستانی لحاظ سے بھی دیکھی جائے تو کم از کم ایک لاکھ کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر اس میں افغانی (جو کہ یہاں ہجرت کر کے آنے والوں میں تعداد میں پہلے نمبر پر ہیں خوب روانی سے اردو بولتے ہیں۔)کو ملاکر نیپالی ، بھارتی موریشیئنز ، بنگلہ دیشی ، مڈگاسکر والوں شامل کر لیا جائے جو کہ اردو کو رابطے کے لیئے پہلی ترجیح دیتے ہیں ۔اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانیوں کے ساتھ  بیاہتا افراد کی تعداد جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطے کے لیئے یا پاکستان کے دورے کے لیئے یہ زبان سیکھتے ہیں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد کم ازکم دو سے ڈھائی لاکھ تک باآسانی چلی جاتی ہے۔ 
یہاں پر آن دیسی ٹی وی کے نام سے ویب ٹی وی کا آغاز چند سال قبل کیا گیا ہے ۔ جو کہ وسائل کی کمی کے سبب ابھی تک 
کیبل پر نہیں جا سکا۔ لیکن کام کر رہا ہے ۔ یہاں کوئی اردوریڈیو یا باقاعدہ ٹی وی چینل موجود نہیں ہے ۔ جبکہ مقامی طور پر اردو اخبارات نہیں چھپتے  لیکن ویب اخبارات  اردو زبان میں موجود ہیں جیسے کہ ڈیلی پکار ، دی جائزہ ، تاریخ انٹرنیشنل ، گجرات لنک ، آذاد دنیا اور بہت سے ۔۔۔یہاں کتابوں کی چھپائی بہت مہنگی پڑتی ہے اور اس کے پاکستانی سپانسرز بھی میسر نہیں ہیں اس لیئے لکھنے والے اپنی جیب سے پاکستان سے ہی کتب چھپواتے ہیں ۔ 
پاکستانیوں  کی کئی ادبی تنظیمات یہاں اپنے پروگرامز مرتب کرتی رہتی ہیں جن میں شرکاء کی مخصوص تعداد شرکت کرتی ہیں ۔ ان تنظیمات میں دو دہائی پہلے حلقہ احباب کے نام سے ادبی تنظیم کام کیا کرتی تھی جو کہ ابھی فعال نہیں ہے  جبکہ اس کے بعد پیرس ادبی فورم ، اہل سخن ، لے فم دو موند اور راہ ادب  نامی تنظیمات یہاں ادبی اور کلچرل پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں  جن میں کتابوں کے اجراء ، مشاعرے ، کانفرنسز ، اور شعراء کرام اور لکھاریوں  سے ملاقاتیں  شامل ہیں ۔ یہاں اردو کے حوالے سے خوبصورت کام تخلیق ہو رہا ہے ۔ جس میں شاعری ، کالمز ، افسانہ ، ناول  سبھی کچھ شامل ہے ۔ اردو لکھنے والوں میں خواتین میں ممتازملک  ، شازملک ، شمیم خان اور سمن شاہ کے نام نمایاں شامل ہیں  جبکہ 
مرد لکھاریوں میں ایاز محمود ایاز ، عاکف غنی ، آصف جاوید آسی، عظمت گل ، سرفراز بیگ ، اشفاق،  مقبول الہی شاکر ، ممتاز احمد ممتاز ، وقار بخشی نمایاں نام ہیں ۔ اور یہ سبھی خواتین و حضرات  اہل کتاب ہیں ۔ جبکہ اسکے علاوہ بھی نئے لکھنے والے اس میدان میں قدم رکھ رہے ہیں اور ان کی کتب آنے کا ابھی انتظار ہے ۔ 
ان سب باتوں کے علاوہ ابھی ہماری  اردو زبان کے لیئے سرکاری طور پر باقاعدہ زبانوں کے مضامین میں شامل کرانا ، کتابوں کی دکانوں پر کسی ریک کی تلاش ، مقامی اردو ریڈیو اور ٹی وی چینل ،اور مقامی طور پر اردو پروگراموں کی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے ۔ جس کے لیئے ہم کوشاں ہیں۔      
                            ۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 12 اکتوبر، 2020

● کرونا ‏ایک س‏پیڈ ‏بریکر/ ‏کالم


             کرونا ایک سپیڈبریکر
              تحریر: 
                   (ممتازملک.پیرس)



اللہ پاک نے انسان کو ایسی ایسی خصوصیات سے نواز رکھا ہے جس کا اکثر علم خود اسے بھی مرتے دم تک نہیں ہو پاتا ۔ 
کرونا نے ہمیں زندگی گزارنے کا نیا انداز سکھایا ہے یا یوں کہیئے کہ ایک سے ڈیڑھ صدی بعد دوبارہ سے پچھلی زندگی کی جانب لوٹایا ہے ۔ ہم جو سرکش گھوڑے کی طرح بے لگام بے تکے مقاصد کے حصول کے لیئے سرپٹ دوڑے جا رہے تھے ۔ نہ ہمارے پاس خدا کی یاد کے لیئے وقت تھا نہ ہی رشتوں کے لیئے ۔ وہاں کرونا ایک سپیڈبریکر کی طرح ہماری زندگیوں میں داخل ہوا ۔ تب ہمیں کھل کر معلوم ہوا کہ ہمیں کسی کا خوف نہیں سوائے موت کے ۔ چلو شکر یے کہ موت کا ہی سہی کچھ خوف تو ہے ابھی ۔ لیکن یہ بھی چند ہی روز میں جاتا رہا ۔ اب ہم کب تک مرغیوں کی طرح گھر کے ڈربے میں دبک کر بیٹھتے ۔ ہمارے بنا بازار ویران ہیں ۔ سینیما خالی ۔ ریسٹورینٹ اجاڑ اور جانور سکھی ۔ ہواوں نے سکھ کا سانس لیا ۔ ندیاں گنگنائیں ۔ آسمان  صاف اور اجلا ہو گیا ۔ سورج کی روشنی  اور بھی روشن ہو گئی ۔ چاند اور بھی جگمگا اٹھا ۔ حد تو یہ ہے کہ اکثر جبگلوں سے جانور انسان نامی دردندے کو ناپید سجھ کر شہروں اور سڑکوں پر مٹر گشتی کرنے کو نکل پڑے ۔ 
پہلے سالوں دہائیوں بلکہ صدیوں کے لیئے کہانی کا آغاز یہ کہہ کر کیا جاتا تھا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ۔۔۔۔اور آج ہم اس زمانے میں ہیں کہ محض کچھ روز میں ہی ہم اس آغاز تک آ پہنچے جیسے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لوگ ایک ملک سے کسی دوسرے ملک میں کسی پروگرام میں شرکت کرنے لیئے جانے کے واسطے ہفتوں مہینوں پہلے ٹکٹ لیا کرتے تھے ۔ ویزہ لیا کرتے تھے ۔ پھر جانے کے لیئے خاص ملبوسات خریدے جاتے یا بنوائے جاتے تھے ۔ پروگرام کی نوعیت کے حساب سے مواد تیار کیا جاتا تھا ۔ اپنے کاموں سے چھٹیاں لی جاتی تھیں ۔ لوگ مخصوص دن اور وقت پر ٹکٹ لیئے ایئر پورٹ پہنچتے ۔گھنٹوں کا سفر کرتے ۔ منتخب منزل تک پہنچتے ۔ لوگ انہیں ایئرپورٹ پر لینے بھی آیا کرتے تھے ۔ ان کی رہائش کا انتظام کیا جاتا ۔ کئی لوگوں کو ان کو گھمانے اور کھلانے پلانے کی ذمہداری دی جاتی تھی ۔ پروگراموں میں ان کی کئی روز شرکت ہوتی ۔ جاتے ہوئے ایک لفافہ انہیں شکریئے کیساتھ تھمایا جاتا ۔  پھر وہ ہزاروں میل کا سفر کر کے اسی طرح واپس ہوا کرتے تھے ۔ اففففففف۔ 
سوچیئے آپ پڑھتے پڑھتے تھک گئے تو جانے اور بلانے والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا ۔ پھر بھی خاطر مدارات آو بھگت میں حسب توفیق مہمان و میزبان کیڑے نکال ہی لیا کرتے تھے ۔ یہ ہیں  پچھلے زمانے کی باتیں یعنی قبل از کرونا کی ۔
اور بعد از کرونا راوی کتنے چین ہی چین لکھتا ہے ۔ سچ پوچھیں تو دوڑتی زندگی کو سانس لینے کا موقع دیا ہے اس کرونا سپیڈ بریکر نے۔ 
نہ اچانک آدھمکنے والے مہمان ہیں تو نہ انکی خاطر سارا سارا دن کچن میں کھپنے کی چخ چخ ۔ نہ ہی بے تکلفی کے نام پر بدتمیز دوست جو طوفان کی طرح آپ کا ہر شیڈول تباہ کرنے میں اہم رول نبھاتے ہیں ۔ نہ دوڑ دوڑ کر بسیں ٹرین لینے کا جھنجھٹ ہے ۔ پھر بھی ہم ساری دنیا سے رابطے میں ہیں ۔ ادھر انگلی لگائی ادھر  جادوئی آئینہ ہمارے روبرو ہمارے مطلوب حاضر ہیں ۔ 
کبھی شاعر نے فرمایا تھا کہ 
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار 
بس زرا گردن جھکائی دیکھ لی 
اگر وہی شاعر آج موجود ہوتے تو یقینا فرماتے کہ
یہ  جہاں آباد موبائل میں ہے  
بس ذرا انگلی سے چھو کر دیکھ لو 
جام جہاں نما کی طرح اس چھوٹی سے سکرین میں انٹرنیٹ کا جادو پھونکیئے اور ادھر سے دنیا کے کسی بھی کونے سے دعوت ملی، ادھر آپ نے اپنی مصروفیات کا کیلنڈر دیکھا ، یہاں آپ نے اوکے کیا ۔ وہاں آپ کا پوسٹر بن گیا۔ لو جی مقررہ روز دنیا بھر کا میلہ ایک کلک پر اکٹھا ہو گیا ۔ نہ میک اپ اور ملبوسات کی پریشانی اور نہ وقت کا ضیاع ۔ خواتین تو آرام سے لپ اسٹک لگا کر صرف دوپٹہ ہی تبدیل کر کے بیٹھ جائیں تو نئی نئی لگنے لگتی ہیں ھھھھھھ 
 وہاں وہاں سے لوگ اکٹھے ہو گئے جہاں سے آپ ایک ساتھ ملاقات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ وہ وہ قیمتی ہستیاں آپ کے روبرو موجود ہونگی ۔ ۔ پروگرام کے میزبان کی بھی ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے کے مصداق واہ واہ ہو گئی ۔ جبکہ عام حالات میں یعنی قبل از کرونا میں ایسے عالمی پروگرام کے انعقاد پر تنظیمات کے کروڑوں روپے لگ جاتے جس میں بیس  بائیس ممالک سے مہمانان کو بلانے، ٹہرانے، ٹہلانے، لانے ، لیجانے اور نوازنے کا  موقع ہوتا  تو ۔ ہو سکتا ہے آگے چل کر اس میں بھی مہمانان کسی  فیس کا مطالبہ کر دیں ۔ لیکن فی الحال تو یہ ٹرانسمیشن کی  ابھی آزمائشی  نشریات ہیں ۔ آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ۔۔
گھروں میں سکون ہو گیا ہے ۔ ہر ایک خاموشی سے فون یا لیپ ٹاپ پر اپنا کام بھی کیئے جا رہا ہے ۔ گھر سے بھی وابستہ ہے ۔ اور دنیا بھی نبھا رہا ہے ۔ کوئی کچھ بھی کہے  زمانہ بعد از کرونا نے ہمیں تو بہت آرام دیا ۔ کرونا تیرا شکریہ 
بس کسی کے پیارے اس سے جدا نہ ہوں تو اس زمانے نے ہمیں زندگی کا نیا سبق پڑھا دیا ہے ۔ کہ دنیا ہم سے پہلے بھی چل رہی تھی اور ہمارے بعد بھی چلتی رہے گی سو اپنے آپ کو میں میں میں کا ترانہ سنانے سے باز آ جاو ۔۔۔
میرا ایک  قطعہ ہے کہ 
تجھے ڈھونڈنے نکلتے کسی روز پا ہی لیتے
مگر ان ہتھیلیوں میں وہ سفر کہیں نہیں تھا

میں ہوں خوش گمان ورنہ مجھے سوچنا تھا لازم 
میرے جانے سے اجڑتا وہ شہر کہیں نہیں تھا                      (ممتازملک)
                        ۔۔۔۔۔۔
۔

جمعہ، 9 اکتوبر، 2020

✔ ● اقبال ‏جب ‏اتا ‏ہے ‏/ ‏کالم۔ لوح غیر محفوظ





اقبال جب آتا ہے                     
           (تحریر:ممتازملک.پیرس)



کچھ لوگ دنیا میں پیدا ہی خاص مقاصد سے کیئے جاتے ہیں جن کے آنے سے جانے تک کی ہر گھڑی کسی خاص تاریخ کو رقم کرتی چلی جاتی ہے۔ 
شیخ نور محد اور فاطمہ بی کی جوڑی بھی ایک ایسی جوڑی تھی جن کی جھولی میں ان کا ایک خواب حقیقت بن کر 9 نومبر 1877ء  اقبال کی صورت آن گرا
 اور پھر اسی تارے نے آسمان کی بلندیوں تک کا سفر طے کرنا تھا ۔ بچپن میں ایک پرہیز گار باپ اورمتقی ماں کی گود نصیب ہوئی تو میر حسن جیسے گوہر شناس استاد  کا ان کے سر پر دست شفقت انہیں دین کیساتھ دنیاوی علوم کے سفر پر نصیب ہوا ۔ بہترین نمبروں سے اپنے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور شعرو شاعری سے شغف ہوا تو اپنے زمانے کے سب سے بڑے اور مانے ہوئے شاعر داغ کے آستانے پر جا پہنچے ۔ جہاں استاد داغ نے انہیں یہ کہہ کر روانہ کر دیا کہ میاں سیکھنے کی گنجائش ہوتی تو ضرور سکھاتا لیکن آپ تو خدا دا صلاحیتوں سے سکھائے ہوئے ہیں ۔ اس لیئے مذید کی گنجائش نہیں سمجھتا ۔ لیکن اس کے باوجود اقبال و داغ ایکدوسرے کی چند روزہ استادی شاگردی پر تاحیات متفخر رہے ۔
لاہور میں ہی اپنے ایم اے کی پڑھائی مکنل کرتے ہیں کئی کالجز میں عربی اور انگریزی کے استاد بھی رہے ۔ اور پھر 1905ء میں مزید اعلی تعلیم کے لیئے انگلستان کا رخ کیا ۔ جہاں سے وکالت کی تعلیم حاصل کی ۔ ایک اقبال وہ تھا جو غلام بھارت میں وطنیت ہی کو سب کچھ سمجھتا تھا ۔ جو دین کو عمل سے الگ کرتا تھا ۔ لین یورپ سے لوٹنے کے بعد ایک نئے اقبال کا جنم ہو چکا تھا ۔ یہ اقبال وطنیت سے امہ تک کا سفر ان تین سالوں میں طے کر چکا تھا ۔ 1908ء میں اقبال کی مشترکہ  ہندوستان واپسی نے مسلمانوں کی سیاسی راہ متعین کرنے کا آغاز کر دیا ۔ ایک ریوڑ کو قوم بنانے کے کام کا آغاز ہو گیا ۔ اقبال کے فلسفے اور آفاقی شاعری نے اپنا رنگ دکھانا بلکہ جمانا شروع کر دیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے ان کہ دوستی کا آغاز ہوا ۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اقبال کے الہ آباد میں پیش کیئے گئے اپنے خواب اور دو قومی نظریئے نے مسلمانوں کو اپنی منزل کا نشان دیدیا ۔ 
اقبال کی شاعری اور پرجوش خطابات نے مسلمانوں کے جمے ہوئے خون کو گرما کر رگوں میں دوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اپنے وقت کے بہترین علماء،  شعراء ، اساتذہ اور سیاست دانوں کیساتھ ان کا تعلق رہا ۔ نہایت سادہ زندگی گزارتے ۔ تکلفات کے قائل نہ رہے ۔ کبھی کسی سے کوئی امید نہیں لگائی۔ اپنی محنت اور لیاقت کے بل پر اپنا نام اور مقام بنایا ۔ دنیا بھر میں اقبال کے کلام کے تراجم شائع ہوئے ۔ مقالات لکھے گئے ۔ پی ایچ ڈیز ہوئیں ۔ 11 نومبر 1938ء کو سیالکوٹ کا  یہ سورج لاہور میں غروب ہو گیا ۔ ان کا مزار لاہور میں موجود ہے ۔ جہاں ہر پاکستانی ہی نہیں دنیا کا ہر باشعور انسان جانا اور سلام کرنا باعث افتخار سمجھتا ہے ۔ 
چاہے اقبال کو پاکستان بنتے دیکھنا نصیب نہیں ہوا ۔ لیکن اس قوم نے اپنے محسن کے خواب کو اپنے سینے سے لگائے رکھا آج دنیا سے جانے کے 82 سال بعد بھی اگر ہم اقبال کو یاد کر رہے ہیں تو  ان کے کردار و فن اور ان کی سیاسی رہنمائی اور بصیرت کا اس سے بڑا اعتراف اور کیا ہو سکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کی خودی کے پیغام کو عملی طور پر اپنایا جائے ۔ تاکہ ان کے مقاصد اور سوچ کو عملی جامہ پہنایا جا سکے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔

● چھوٹی ‏سی ‏چوری/ ‏بچوں ‏کی ‏کہانی




           چھوٹی سی چوری 
           کہانی: 
             (ممتازملک.پیرس)


چھٹی جماعت کے بچے اپنی کلاس کی جانب جاتے ہوئے آج کے ٹیسٹ کے لیئے فکر مند تھے ۔
 استاد نے آج بہت کم مہلت کیساتھ ٹیسٹ کا فرمان جاری کیا تھا ۔ سو کچھ بچے جو روز کا کام روز کرتے تھے وہ تو بے فکر رہے لیکن کامچور بچوں کی آج شامت آنے کو تھی ۔ جبھی ان کے چہروں پر پریشانی ناچ رہی تھی ۔
جماعت میں کرسی پر بیٹھتے ہی حسب عادت عارف نے دو تین کھلے بستوں میں سے کچھ نہ کچھ چرا کر غائب کر لیا ۔ ایک کی کاپی ، دوسرے کا پنسل تراش یعنی شاپنر اور ایک دوست  عمیر کا قلم یعنی پن ۔۔
استاد نے کلاس میں آتے ہی سب کو سلام کہا اور اپنی کتابیں اپنے بستوں (بیگز) میں ڈالنے کا حکم دیا ۔ اپنی اپنی ٹیسٹ کی کاپیز نکالیئے 
سبھی نے قلم اور کاپی نکال لی لیکن عمیر پریشانی سے اپنے بستے میں  اندر باہر سے کچھ تلاش کر رہا تھا ۔ عارف من ہی من میں میں اس کی پریشانی سے مزا لیتا رہا ۔ 
کیا ڈھونڈ رہے ہو 
استاد کی آواز آئی ۔۔
سر وہ میرا قلم نہیں مل رہا 
اچھا تو ٹیسٹ نہ دینے کا اچھا بہانہ ہے۔ 
نہیں سر میری پوری تیاری ہے ۔میں نے خود اپنے ہاتھ سے اپنا قلم اپنی جیومیٹری بکس میں رکھا تھا ۔ لیکن اب نہیں مل رہا ۔ 
عارف جو کوئی غریب یا ضرورت مند  نہیں تھا جسے چوری کرنا پڑتی بلکہ وہ اچھے مالدار گھر سے تعلق رکھتا تھا ۔ لیکن اسے چوری کرنا بھی ایک کھیل جیسا لگتا تھا ۔ اسے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس چوری کے کھیل میں جو چیزیں اس کے کسی کام کی نہیں ہیں (کیونکہ اس کے پاس اس سے اچھی چیزیں موجود ہیں ) وہ دوسروں کے لیئے کتنی ضروری اور اہم ہو سکتی ہیں ۔ 
استاد نے عمیر کے کان کھینچے اور اسے سزا کے طور پر کلاس سے باہر کھڑا کر دیا ۔ اسے بتایا گیا کہ اسے اس ٹیسٹ سے بنا امتحان کے ہی فیل کر دیا جائیگا  ۔ 
یہ سن کر عارف کو دل میں بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ اس کا دوست فیل ہو گیا تو کہیں سالانہ امتحانات پر بھی اس کا نتیجہ اثر انداز نہ  ہو۔ یہ سوچ کر کہ اس کے چھوٹے سے مذاق یا حرکت سے کہیں اس کا دوست نقصان نہ اٹھا بیٹھے ۔ اس نے سوچا کہ
اب کیا کیا جائے 
کہ اس کا نام بھی نہ آئے اور عمیر کو واپس کلاس میں امتحان کا موقع بھی مل جائے ۔ 
اس نے۔استاد سے بیت الخلاء (ٹائلٹ) جانے کی اجازت طلب کی ۔ اور عمیر کا پن اس کی جیب ہی میں تھا ۔۔
اس نے جلدی سے ٹائلٹ کی جانب سے چکر لگا کر واپسی پر استاد صاحب کو بتایا کہ سر یہ گراونڈ میں قلم گرا ہوا دیکھا شاید یہ عمیر کا ہو ۔ استاد نے عمیر کو بلا۔کر قلم دکھایا 
عمیر نے فورا خوشی وہ قلم لیا اور ٹیسٹ دینے بیٹھ گیا ۔
عارف مسکرایا 
وہ جانتا تھا کہ سب سے اچھا ٹیسٹ عمیر ہی دیگا کیونکہ وہ تھا ہی سب سے لائق ۔
پیارے بچوں یاد رکھو جس حرکت سے کسی بھی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچتی ہے نہ وہ مذاق اچھا ہے اور نہ ہی حرکت ۔ اور چوری کرنا تو ویسے بھی بہت بری حرکت ہے ۔ جو اللہ کو سخت ناپسند ہے ۔ 
  ●●●●                     ۔


● ان ‏بکس ‏/ کالم ‏۔ ‏افسانہ۔۔سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



    

    ان بکس
     تحریر:
        (ممتازملک.پیرس )


پہلے عورت کا لڑکیوں کا  نام اور تصویر دیکھر اسے ان بکس میں   سلام ٹھوکا جائے گا 
دیکھ لیا تو حکم دیا جائے گا 
سلام کا جواب تو دو ۔۔
مسلمان نہیں ہو کیا ۔۔۔
جواب دیدیا تو مزید یارانہ گانٹھنے کا پروگرام شروع ہو جائے گا ۔۔
آپ بہت حسین ہیں 
آپ بہت عظیم ہیں 
میں آپ تو آپ کا فین ہو چکا ہوں 
کیسی ہیں ۔۔۔
کیا کرتی ہیں ۔۔
(ابے اندھے پروفائل دکھائی نہیں دیتی تجھے۔۔۔)
کہدو بھائی معذرت ان بکس میں بات کرنے سے۔۔۔
کیوں نہیں کرنی بات۔۔۔
نہیں کرنی بھائی مرضی۔۔۔
مجھے بھائی کہا ہے اب مجھ سے بات کرو۔۔۔
 بات کرو۔۔
ہیلو۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔
کال ملا بیٹھے گا الو ۔۔۔
لکھو کہ کیوں بھائی کس کی اجازت سے کال کی؟
ایسے ہی میرا دل کیا ۔۔۔
اچھا تو اپنی بیگم کا یا بہن کا  نمبر دو تاکہ میں بھی اپنے میاں سے اور بھائیوں سے کہوں کہ اسے کال ملا ملا کر ایسے ہی شوق پورا کریں ۔۔۔
یہ فیملی تک مت جاو 
تو پھر ڈونٹ کال سمجھ نہیں آتی ؟
اتنی پارسا بنی پھرتی ہے تو فیس بک کیوں بنایا ہے ۔۔۔
تم جیسے احمقوں سے گپیں لگانے کے لیئے تو بالکل نہیں بنایا 
فلانی ڈھمکانی بلا بلا بلا 
 اسکے ساتھ ہی اصلی پاکستانی مردانہ ذہنیت کی الٹیاں شروع کر دیگا ۔۔۔
 کسی بھی درجے کی ڈگری ہو۔ کسی بھی عہدے کا ہو ۔ اس حمام میں بھارتی پاکستانی سبھی عالم ،فاضل ، ڈگری ، جاہل سب ننگے ہیں ۔
 ماسوائے آٹے میں نمک جتنے اچھے اور شریف  لوگ چھوڑ کر ۔۔۔
بھارتی تو اس سے بھی چار قدم آگے ہیں 
 انہیں بھائی یا بیٹا کہدو تو ایسا لگے گا جیسے آپ نے ان پر کوئی سانپ چھوڑ دیا ہو ۔
باقاعدہ چلائیں گے میں تمہارا بیٹا ویٹا نہیں ہوں مس ۔۔
دوستی کرنی ہے تم سے ۔۔۔۔
نہ اپنی عمر دیکھتے ہیں نہ سامنے والے کی ۔
نہ اپنا مقام حیثیت اور تعلیم دیکھتے ہیں نہ سامنے والے کا مقام و مرتبہ ۔
بس عورت دیکھی اور رال ٹپکانا شروع ۔۔۔
                     پاکستان زندہ باد

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2020

● تحفے ‏کی ‏قیمت/ ‏کوٹیشنز ‏


       تحفےکی قیمت         


ہم جتنی مرضی توجیحات پیش کر لیں 
مگر 
زمینی سچ یہی ہے کہ اکثریت کے نزدیک
 تحفہ نہیں بلکہ تحفے کی قیمت اہمیت رکھتی ہے ۔ 
             (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                    (ممتازملک.پیرس)

جمعہ، 2 اکتوبر، 2020

● برا ‏وقت ‏/ ‏کوٹیشنز ‏

 


     برا وقت 


کسی معاشرے پر اس سے زیادہ برا وقت نہیں آ سکتا جب کسی فرد کو اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیئے اپنی عزت یا اپنی جان کا سودا کرنا پڑے ۔ 
                (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                      (ممتازملک.پیرس)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/