ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 25 مئی، 2013

مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ممتاز ملک ۔ پیرس


مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض
ممتاز ملک  ۔ پیرس


آج کل مردوں میں بڑی ہی تیزی سے ایک مرض پھیلتا جارہا ہے پھیلتا ہی جا رہا ہے ۔ ہمارے آج کے  آرٹیکل کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ ہم آپ کو اس مرض کی وجوہات، علامات اورعلاج  اور ہاں حفاظتی تدابیر سے بھی آگاہ کریں ۔ یعنی آج ہم آگاہی مہم پر ہیں ۔ کیا کہا، کس کی جانب سے ۔ کیا مطلب اب ہمیں کوئی کہے گا نہیں تو ہم کیا ساری عمر کسی مہم پر ہی نہ جائیں ۔ ہاں تو ہم اس مہم پر ہیں ، خود اپنی طرف سے ہی ۔
 اس مرض کی وجوہات میں ریٹائرمنٹ سرفہرست ہے جبکہ بیکاری یا بیروزگاری بھی ہو سکتا ہے ۔ ۔ ایک دو جگہ محلٓے مین مرمت کروانا بھی اسکی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ اپنے آپ کو مُنٓے راجہ کہلانے کا شوق بھی اسکی ایک وجہ ہو سکتی ہے ۔ ایسے مریضوں کے محلٓہ داروں کو چاہیئے کہ انہیں مُنٓے راجہ ہی پکارا کریں تاکہ یہ اپنے تماشے دوسرے محلے میں کر کے اپنے محلے کی بدنامی کا باعث نہ بنیں ۔
   اس مرض کی علامات یہ ہیں کہ مرد سب سے پہلے تانک جھانک میں مبتلا ہوتا ہے ۔ اسے اپنے گھر کی عورت کے سوا دنیا کی ہر عورت مس ورلڈ لگنے لگتی ہے چاہے وہ کالی کلوٹی گندی مندی بدبدبودار جمعدارنی ہی کیوں نہ ہو ۔  موقع ڈھونڈ ڈھونڈ کر خود ہی اپنی بےعزتی کا سامان پیداکرتا رہتا ہے کسی کو کیااپنے دشمنوں کو بھی یہ سامان پیدا کرنے کی تکلیف نہیں دیتا  ۔ اس کام کے لیئے اسکی اپنی حرکتیں جو کافی ہوتی ہیں یعنی کہ موصوف خود کفیل ہوتے ہیں ۔
 دوسرے مرحلے میں جناب کو ایک عدد فیس بُک اکاؤنٹ کی سوجھتی ہے ، یعنی ہری ہری سوجھتی ہے، تو جناب فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں تو اپنی عمر  کا سال غائب کر کے اور ایک عدد پُرااااااااااااااااانی سی فوٹو کو نیا کر کے لگاتے ہیں اور جب بھی کسی خاتون کے خوبصورت سی پک نظر آئی لگے فورا  اس کو ریکوئسٹ بھیجنے، اس کے بعد اس کا حدود اربعہ جاننے کے لیئے بے چین ہو جائیں گے ۔ یہ اور بات کہ اپنے ہی گھر میں بلکہ اپنے ہی بیڈ روم میں  25 سال سےساتھ رہنے والی خاتون( جو کہ بدنصیبی سے ان کی بیگم جانی جاتی ہیں )انہیں ان تک کا حدود اربعہ تک معلوم نہین ہے۔ شاید اسی لیئے کہتے ہین کہ چراغ تلے اندھیرا ۔  یا پھر بیگم بغل میں اور ڈھنڈھورا فیس بُک میں ۔
 تیسرے درجے میں یہ مرض بڑھتا ہے تو یہ ہی مریض اس خاتون سے لفٹ نہ ملنے کی صورت میں اس خاتون کو جسے فرینڈر بنانا چاہتے ہیں فٹ سے آنٹی کہہ دیتے ہیں ۔ خود کو کم سن ثابت کرنے کے لیئے ۔ اسے کہتے ہیں " چور کی داڑھی میں تنکا"۔
(  ارے مریض برادر فیس بُک رشتہ داریاں بنانے کے لیئے نہیں ہوتا ۔ بلکہ  یہاں لوگ اپنی پسند اور ناپسند کی تحریریں یا تصویریں ایک دوسرے کیساتھ  بانٹتے یا بھیجتے ہیں ۔) لیکن ایسے مریض بیچاری فیس بُک کو بھی اپنے مُحلّے کا تھڑا ہی سمجھ کر ٹھرک جھاڑنے کا زریعہ بنا لیتے ہیں جوابا یا تو ذلیل ہوتے ہیں یا پھر بلاک ۔
   مرض کا اگلا مرحلہ ہوتا ہے خواتین سے ان کا سکائب پر بات کرنے کا اصرار ۔ جس میں یہ کُھل کر اپنی اوقات دکھانا چاہتے ہیں تو مذید شرمندہ کیئے جاتے ہیں ۔
اس مرض کو کہتے ہیں عمر چوری کا مرض جو کہ کبھی خواتین میں بکثرت پایا جاتا تھا ۔ لیکن اب مبارکاں مردوں میں بھی تیزی سے سرایت کر چکا ہے  ۔
 اب ہم آپ کو بتاتے ہیں ایسے مریضوں کا علاج ۔ ایک مرتبہخواتین اور مردوں کی  ایک مشترکہ ادبی نشست میں کسی خاتون نےشاعر مشرق جناب علّامہ اِقبال سے پوچھا کہ جناب خاتون  کی جمع تو ہے خواتین  ۔ تو مرد کی جمع کیا ہوئی   ؟ تو علّامہ اِقبال نے برجُستہ جواب دیا کہ مرد کی جمع ہوئی مۤردُود ۔ یہ سن کر ایک زور دار قہقہہ پڑا ۔ اس سچے لطیفے کی سمجھ ہمیں بھی بڑی دیر سے آئی ۔ 
ایسے مریض مرد سمجھتا ہے کہ فیس بُک شاید اسکے دل کا کوئی راز ہے جسے کوئییییییییییییی نہیں جان سکتا ۔
 جبکہ اسکا علاج یہ ہے کہ اسے کوئی قابل بچہ یا دوست بیٹھ کر سمجھائے کہ بڑۓ ابّا ۔ یا انکل ماموں ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ نیٹ کی دنیا اور خاص طور پر فیس بُک کی دنیا ایسے ہی ہے جیسے اللہ پاک نے دو فرشتے منکر نکیر ہمارے کندھوں پر قلم دوات دیکر بٹھا رکھے ہیں کہ ہماری ہر چٓوّل کو نوٹ کریں اسی طرح چند شریر ذہنوں نے فیس بُک بنا دیا تاکہ ہم اپنے کرتُوتوں کو اپنے ہی ہاتھوں اس میں ایڈ کرتے جائیں ۔ اور گندے گندے کمنٹس دیکر یا فیک نک سے آئی ڈیز بنا کر یا گندے واہیات ولگر لائیکز کر کے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اسے ڈیلیٹ کر دیا تو یہ  بے نام و نشان ہو گیا یا ہم نے اسے پوشیدہ کر دیا تو اب یہ کوئی نہیں جان سکتا ۔ جی نہیں اس میں ہماری ہر کی ہوئی بات شاید ہم تو بھول جائیں لیکن برادر مریض یہ شیطانی جال ہمیں کبھی بھولنے نہیں دیتا ۔
لہذا یا تو نیٹ استعمال کرنا ہے تو اسکی تھوڑی سی سیکھ لیکر اسکا استعمال کریں  اور تہذیب اور شائستگی سے بھی کبھی کبھی اپنی واقفیت کا اظہار کر دیا کریں اس سے آپ کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور آپ کو جھیلنے والے کی صحت پر بھی ۔ یا پھر جس حساب سے بابوں کے اور شوقین مردوں کی شکایتیں ہو رہی ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ ہماری بہنوں کو گھروں مین لیپ ٹاب  پر لکھ کر لگانا پڑے کہ اسے چھچھوروں اور بابوں کی پہنچ سے دور رکھیں ۔
                                     منجانب ۔ تحفظ بچیات و دفعانِ واہیاتیات
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 21 مئی، 2013

عمران خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھیئے / ممتازملک ۔ پیرس


عمران خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھیئے

ممتازملک ۔ پیرس


کافی عرصے سے پاکستان میں ایک ایسی پارٹی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی جو آ کر ملک میں قائم دو پارٹیوں کی اجارہ داری کو توڑ سکے ۔   اپنی 17 سالہ جدوجہد کے بعد اور بلند ارادے اور حوصلے سے بآلاخر تحریک انصاف کی صورت عمران خان نے اپنی پارٹی کو وہ تیسری  پارٹی بنا ہی لیا  جو کہ عوام کی خواہشات کو شرمندء تعبیر کرنے کا عزم لیکر میدان عمل میں کود چکی ہے ۔ آج سے دو سال پہلے عمران خان کی سونامی  کواسوقت ایک بڑا دھکہ لگا جب جوک در جوک دوسری پارٹیز کے ممبران نے اس کا رخ کرنا شروع کیا ۔ اور تحریک انصاف کے نادان مشیروں نے یہ سوچے سمجھے بغیر بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیا  کہ جو لوگ بیس بیس سال تک کرسیوں کے مزے لوٹنے کے بعد بھی ملک کے لیئے کچھ اچھا نہ کر سکے اُلٹا ملک کو اربوں روپے کا چونا لگاتے رہے  ۔ وہ  بھلا آپ کی پارٹی کو نوالہ تر سمجھنے کے سوا اور کیا کریں گے ۔   ایک نئی اور ابھی نہ آزمائی ہوئی پارٹی کو شکار کرنے کا منصوبہ اس کے اپنے نادان دوستوں نے بڑی ہی کامیابی کے ساتھ پورا ہونے دیا ۔ نتیجہ کیا نکلا بہت سے وہ مخلص کارکنان جنہوں نے یہ سوچ کر اس  نئی پارٹٰ کو اپنا وقت ، حوصلہ اور طاقت دی کہ کبھی نہ کبھی تو ہمیں بھی اپنے ملک کے لیئے کوئی اچھا کام کرنے کا موقع یہ قوم ضرور دیگی ۔ وہ سب ہی بدظن ہو گئے  ۔ لوگوں کی  امیدوں کا  مورال جو دو سال پہلے ایک دم آسمان کی بلندیوں تک پہنچا ۔ وہ ایک دم سے زمین پر آرہا ۔ اور ایسے نوجوانوں کی اکثریت نے اس پارٹی کا رخ کیا جو بیشک پڑھے لکھے تو بہت تھے لیکن تہذیب اور تمیز سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ انہین فر فر انگریزی بولنی تو آتی تھی لیکن کس سے کیسے بات کرنی ہے اس کی الف بے  سے بھی وہ واقف نہیں تھے  ۔ دوسری جانب عمران خان اس ایکدم کے بہاؤ کو شاید پوری طرح سے سنبھال نہیں پا رہے تھے جسکا ثبوت ان کی پارٹی کے ممبران اور ورکرز کے وقتا فوقتا نظر آنے والی بدتمیزیاں اور بےترتیبیاں تھیں ۔ کہیں پنڈال الٹے ۔   تو کہیں کھانے کی لوٹ مار کی گئی ۔ کہیں کرسیاں اور برتن لوٹ لیئے گئے تو کہیں پارٹی الیکشن کے موقع پر ایک دوسرے کی جم کے دھنائی کی گئی ۔  یہ سب کیا تھا یہ کوئی الزامات نہیں ہیں بلکہ آنکھوں دیکھی کہانیاں ہیں ۔ ہماری بات کا مطلب کہیں بھی تحریک انصاف میں کیڑے نکالنا نہیں ہے بلکہ ایک ایسی پارٹی کو ایک اچھے شہری کے طور پر یہ مشورہ دینا ہے کہ وہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ کون کون سی خامیاں رہیں کہ جن کی وجہ سے ایک ایسی پارٹٰ کو جسے کم از کم 100 سے 150 تک نشستیں حاصل کرنی چاہیئں  تھیں وہ صرف 25 سے    35 سیٹوں کے بیچ جھول گئی ۔  کیوں کہ یہ پانچ سال  ہر اس پارٹی کے ایک ایک ممبر کے لیئے ایک ٹرائل پیریڈ ہے جو آئندہ پاکستان میں رہنا چاہتی ہے یا پورے پاکستان پر اپنا سکہ جمانا چاہتی ہے ۔ ایک تو آپ اپنے  ورکرز اور ممبران کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ تمیز سے بات کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ بات یاد رکھیں کہ پڑھائی لکھائی سرٹیفیکیٹ کی صورت سجانے کا نام نہیں ہے بلکہ اسے عملی طور پر بھی آپ کی بات چیت  ، اخلاقیات اور طور طریقوں میں   نظر آنا چاہیئے ۔  ہر وقت ہر جگہ ہماری ہی مرضی کی بات نہیں ہوتی ہے ۔ اسلیئے جہاں کہیں کسی سے بات کریں تو اتنے اچھے اور مدلل لہجے میں کریں کہ ان کی بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن ان کے اخلاق کی ایک اچھی چھاپ ضرور اس کے دل پر چھپ جائے ۔ کیوں کہ صرف یہ ہی ایک ایسی صورت ہے جب کوئی شخص آپ کی بات پر غور کرنے پر تیار ہو گا کیوں کہ کوئی بھی شخص زبر دستی ڈنڈے کے زور پر تو اپنی کوئی بات کسی سے کبھی بھی نہیں منوا سکتا ۔ ۔ ہٹ دھرم لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی سمجھداری ہے ۔ ویسے بھی پھل دار ڈالیاں جھکی ہوئی ہی اچھی لگتی ہیں ۔ اکڑے ہوئے پیڑوں کے تو سائے نہیں ہوتے ۔ 

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 

جمعرات، 16 مئی، 2013

● (7) تیرے نظارے/ شاعری۔ میرے دل کا قلندر بولے


(7) تیرے نظارے



 اے وطن تیرے نظارے اسقدر سستے نہیں

منزلوں تک جو نہ پہنچیں ایسے بھی رستے نہیں 

ہم جنہیں اپنا کہیں وہ جانتے ہیں بات یہ 
دوستوں کی ہم لگامیں پر کبھی کستے نہیں 

جن گھروں میں چین ہواور صحن میں بھی سکھ بسے
ان گھروں میں بھوت  آ کر پھر کبھی بستے نہیں 

اے وطن جو لوگ عزت قرض میں لیتے نہیں
یہ جہاں والے کبھی ان لوگوں پہ ہنستے نہیں 

جن کے پیروں میں نہیں کانٹوں پہ چلنے کی سکت
ایسے لوگوں پر کبھی گُل آ کے برستے نہیں 

کیا بتائیں ہم کہ دنیا پوچھتی ہے ہر جگہ
  چاہنے والے تیرے کیا اس نگر بستے نہیں 

ممتاز تجھ کو خواب کے نذرانے کیوں کر دے سکے
 کیوں کہ میرے ہاتھ یہ اب ریت میں دھنستے نہیں 
●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

بلی تھیلے سے باہر ۔ کالم



بلی تھیلے سے باہر آہی گئی 
ممتازملک ۔ پیرس


 لیجیئے ملاحظہ فرمایئے کل تک جو باتیں ایم کیو ایم کی جانب سے الزامات کہی جاتی تھیں آج ان تمام باتوں پر انہین کے نام نہاد لیڈر نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے  ۔
بہت سالون سے جو چنگاری الظاف حسین اپنے سینے میں دبائے بیٹھے تھے آج اسے اس لاوے کی  الٹی ہو ہی گئی ۔ایلیکشن تو ایک بہانہ تھا۔ حقیقت میں 25 سال سے الطاف حسین المعروف الطاف بھائی جس محاذ پر تھے اس میں کراچی والوں نے اپنی عزتیں بھی گنوائیں اپنے پیاروں کے لاشے بھی اٹھائے ، بوری بند لاشوں اور نامور لوگون کی ٹارگٹ کلنگ کے زریعے کراچی کو نایاب لوگوں سے پاک کرنے کے سنگین منصوبے بھی بھگتے ۔ اس بار کا ایلیکشن  میڈیا کے انقلاب کا ایک بہت بڑا ٹٰیسٹ کیس تھا ۔  جسے پاکستانی قوم نے اپنی آگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے تو پاس کر لیا لیکن جن لوگوں کو پچھلے تماشوں کی عادت تھی ان کا ہاضمہ ضرور خراب ہو گیا ۔   جس پولنگ بوتھ پر چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجاذت نہیں دیگئی وہاں پرجعلی ووٹنگ کو کیا کھیل کھیلا گیا   کئی خفیہ موبائل کیمرے اپنی آنکھوں میں ان مناظر کو قید کر رہے تھے جو جعلی کامیابیوں کا رونا روتے نظر آئے ۔ جعلی انگوٹھوں کی بہار بھی دیکھی گئی ۔ پورے پورے رجسٹر پر چند پارٹی کے لٹیرون کو دھڑا دھڑ ٹھپے ۔ انگوٹھے لگاتے واضح دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ دنیا میں کسی کا انگوٹھے کا نقش کسی بھی دوسرے کیساتھ نہیں ملتا ۔اب جب  کہ ایلیکشن کا ایک ایک ایکشن قوم کی نظر میں آ چکا ہے تو ایک جانب تو الطاف حسین نے  نواز شریف کوسارے ملک میں سیٹیں لینے کے باوجود  پنجابی لیڈر کہہ کر اپنے تعصب کا کھلا اظہار کر دیا ۔ دوسری جانب کراچی میں بھی اپنی سیٹس جو غنڈہ گردی کے زریعے جیتی جاتی تھیں وہ بھی جاتے دیکھ کر موصوف اپنا آپہ ہی کھو بھیٹھے اور لگے آئیں بائیں شائیں کرنے ۔ یہ ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا ملک توڑنے کی دھمکیاں بھی دینے لگے ۔ بندہ پوچھے جگت بھائی صاحب  آپ بقول اپنے اتنے ہی کامیاب لیڈر اور جماعت کے بانی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آج 25 سال سے بھی ذائد عرصہ سیاست کے میدان میں گزار کر بھی آپ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کھلے بندوں  کوئی بھی سیٹ کیوں نہیں جیت سکے ۔ کیوں کسی اور شہر نے آپ کو اپنے ہاں ترقیاتی کاموں کے لیئے اعتبار سے نہیں نوازا۔ کیوں کوئی بھی شخص آپ کو اپنے علاقے میں نہیں دیکھنا  چاہتا ۔ تو بھائی صاحب یہ کوئی تعصب نہیں ہے بلکہ بہت بڑی سچائی ہے ۔ کہ جان بوجھ کر اپنی موت کو کوئی دعوت نہیں دیتا ۔ لہذا آپ کو بھی کسی نے اپنے شہر میں قبول نہیں کیا کیوں کہ آپ کی جماعت کا ماضی اور  تصور دونوں غنڈہ گردی / بوری بند لاشوں / ٹارگٹ کلنگ /بھتہ خوری / اغواہ برائے تاوان / ٹارچر سیلوں سے اٹا ہوا ہے ۔ ان سب کے باوجود بھی آپ کی خواہش ہے کہ آپ کو قومی لیڈر مان لیا جائے ۔کسی بھی ایشو پر ہر گھنٹے بعد تو آپ کا انکار اور اقرار تک بدل جاتا ہے ۔  آپکا اپنا کوئی دین اور ایمان آج تک نہ تو آپ کی اپنی باتوں میں نطر آیا نہ ہی آپکی پارٹی کے افراد کے قول و فعل میں ۔ اسی لیئے آپ لوگ  اپنا وقار  بھی قائم نہ کر سکے ۔ خود کو جناح کی اولاد کہنے والوں کو شرم آنی چاہیئے  ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ  جنہوں نے قائد کے شہر کو اسی کے باسیوں کے لہو میں ڈبو دیا اوروہی قاتل شہر  اپنے نام کیساتھ آج بھی قائد کا نام لگاتے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں موصوف کی تما م  تقاریر کو اکھٹا کر کے سنا جائے تو صرف ایک ہی بات سامنے آتی ہے ایک ایسے آدمی کا چہرہ سامنے آتا ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے نہ تو اسے اس ملک سے محبت تو کیا دوردورتک کوئی ہمدردی ہے نہ ہی  اس ملک کے لوگوں کیساتھ اسکا کوئی درد کا رشتہ ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے ادمی کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور اس کی موشگافیوں کا بھرپور علاج کیا جائے ۔ اس سے پہلے کہ پھوڑا ناسور  ۔۔بنے اس کا فوری علاج ملک و قوم کے مفاد میں بہت ضروری ہو چکاہے  ۔ خدا کے لیئے اپنے ملک سے محبت کیجیئے ۔ یہ ملک ہی ہماری ماں ہے ۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ملک اور اپنی ماں کا دامن جھٹکنے والے نہ تو دنیا میں کامیاب ہوئے نہ ہی انہیں آخرت میں بخشش ملی ۔ اور نہ ہی انہیں تاریخ میں کوئی باعزت مقام ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔




منگل، 7 مئی، 2013

ماؤں کا دن (ایک خاص تقریب) ممتاز ملک ۔پیرس


ماؤں کا دن (ایک خاص تقریب)
ممتاز ملک ۔پیرس





  1. پیرس میں 5 مئی 2013 کو ماؤں کے دن کے سلسلے مین ایک پروقار تقریب کا اہتمام انصاف وویمن ایسوسی ایشن کے تحت کیا گیا ۔ اس پروگرام  میں بین الاقوامی سطح کی نامور شخصیات کی شرکت نے اسے ایک یادگار تقریب بنا دیا ۔  ان کامیاب خواتین مین انگلینڈ سے نور ٹی وی کی میزبان محترمہ سمیہ ناز صاحبہ ، سپین سے  آسے سوپ کی روح رواں ڈاکٹرھما جمشید صاحبہ ، ڈنمارک سے نساء ٹی وی کی منیجنگ ڈائیریکٹر اور معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا صاحبہ اور اٹلی سے دی جزبہ کے چیف ایڈیٹر محترم اعجاز حسین  پیارا صاحب نے خیر سگالی کے جزبے کے تحت خصوصی  شرکت کی ۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اسکے بعد بچوں نے ایک نعت پاک کی سعادت حاصل کی ۔ ایسوایشن کی سربراہ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے مہمانان کو خوش آمدید کہا ۔ ڈاکٹر ھما جمشید صاحبہ نے خواتین پر زور دیا کہ ایسے تمام عناصر جو اچھے  گھرون سے تعلق رکھتی ہین اور اپنی خاندانی ذمہ داریون کیساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریان احسن طریقے سے انجام دی رہی ہین ان کے خلاف ایک مخصوص ٹولہ کافی عرصے سے ان کی کردار کشی کرنے مین ایکا کیئے ہوئے ہے ۔ جن کا مقصد صرف اور صرف ایسی خواتین کو اپنی فیلڈ مین کام کرنے سے روکنا ہے جو ان کی کسی بھی قسم کی ناجائز مانگون کو پورا کرنے سے انکار کرتی ہین ۔ انہون نے خواتین پر ذور دیا کہ ایک اچھی مان کے حیثیت سے وہ تب ہی اچھی تربیت کا فریضہ ادا کر سکتی ہین جب کہ وہ خود اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہون اور ان کا تحفظ کرنا بھی جانتی ہون ۔ ورنہ وہ خواتین کو ان کے کردار پرکیچڑ اچھال کر یون ہی کھڈے لائن لگاتے رہین گے ۔ صدف مرزا صاحبہ نے  فرمایا  پچھلی صدی مین بھی اسی طرح بدنامیون کے بوجھ کے نیچے کئی باکردار خواتین دب کر خود کشی تک کرنے پر مجبور کر دی گئیں  ۔ کیون کہ کسی بھی خاتون اور خاص طور پر اگر وہ ایک ماں ہے تو اس کے لیئے سب ے آسان طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے ختم کرنا ہے تو اسے اس کی اولاد کی نظر مین گرا دیا جائے ۔  وہ عورت خود بخود مر جائے گی ۔ لیکن بدمعاشی کی ان مثالون کو ہم اس صدی مین مشعل راہ نہین بننے دینگے ۔ اور ایسے تمام لوگون کا ہر پلیٹ فارم پر محاسبہ کیا جائیگا جو خواتین کو اور ماؤں کو اپنے غلط مقاصد کے لیئے اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں ۔  اس کام کے لیئے خواتین کو یہ بات جاننی ہو گی کہ جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے کی جانی والی گھٹیا کاروائیون کی ہر سطح پر مذمت کی جائے گی ۔  سمیہ ناز صاحبہ نے ایسے لوگون کی کاروائیون کو قابل افسوس قرار دیا ۔ ممتاز ملک نے اپنی کتاب ،،مدت ہوئی عورت ہوئے سے ،،سے اپنی نظم  ،، یہ مائیں کیون مر جاتی ہین ،، پیش کر کے داد سمیٹی ۔ اور ماؤن کو سلام پیش کیا ، انہون نے کہا کہ سب کو اپنی ماں بہت اچھی لگتی ہے ۔ لیکن زندگی کے تین ادوار ہوتے ہین ایک دور جب بچہ ہر طرح  سے ماں کا محتاج ہوتا ہے تو اسکی کل کائینات اسکی ماں ہوتی ہے پھر ٹین ایج آتی ہے تو بچے کو نئی جوانی میں اپنی ماں ہی اپنی دشمن لگنے لگتی ہے  پھر جیسے ہی اس کی یہ عمر بیس بائیس کی حد پار کرتی ہے اور اپنے مان باپ بننے کا زمانہ آتا ہے تو پھر سے اولاد کو شدت سے اپنی ماں کی قربانیوں کو احساس ہونے لگتا ہے ۔ اور یہ محبت عقیدت کا روپ بھی دھار لیتی ہے ، خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو ماں باپ کی زندگی میں ہی یہ بات جان لیتے ہین اور ان کی خدمت کا موقع حاصل کر لیتے ہین ۔  محترم اعجاز حسین پیارا نے تمام ماؤں کو خراج عقیدت  پیش کیا ۔  اور تمام ماؤں بہنون کو اس بات کو یقین دلایا کہ ہم لوگ بھائیون کی طرح  اپنی ماؤں بہنون کی عزتون کی حفاطت کرنا جانتے ہین ۔ اور سبھی مرد ابھی اتنے بے غیرت نہین ہوۓ کہ یہ بھول جائین کہ ان کے اپنے گھرون مین بھی مائیں بہنیں بیٹھی ہین اگر آج آپ کسی خاتون کی کردار کشی کرتے ہین تو اصل مین آپ بلا واسطہ اپنے ہی گھر کی خواتیں کو ذلیل کر رہے ہوتے ہین ۔ انہون نے ایسی تمام کاروائیون کی بھر پور مذمت کی ۔ جناب اٖفضل گوندل صاحب نے بھی بہت جذباتی انداز مین ماؤں کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اور ایسے لوگون کو شرم دلائی کہ ہر مرد صرف مرد ہی نہین ہوتا بیٹا بھی ہوتا ہے بھائی بھی ہوتا ہے ، باپ بھی ہوتا ہے ، اسے اپنے تمام رشتون کو نبھانا بھی آتا ہے اور جو شخص خواتین کا احترام نہین کرتا تو گویا وہ اپنے گھر میں بھی نہ تو اچھا بیٹا ہو گا ، نہ ہی اچھا بھائی اور نہ ہی اچھا باپ ہو گا ۔   ایک نوجوان مظہر نے  بہت  ہی خوب صورت انداز مین  ماں کی شان میں نظم پیش کی اور آنکھوں کو آبدیدہ کر دیا ۔ بہت سی خواتیں اور بچون نے اپنی ماؤن کی یاد میں خوبصورت باتون کو بانٹا ۔    پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر ہما جمشید نے شاہ بانو میر صاحبہ کو چادر اوڑھا کر انہیں عزت دی ۔ صدف مرزا صاحبہ نے بھی دوپٹہ اوڑھا کر انہین ماؤں کی عزت کی حفاظت کے محاز پر انہین اپنے ساتھ کا یقین دلایا   ۔ اور کہا کہ یہ دوپٹہ ان کے لیئے اسلیئے بھی بہت خاص ہے کہ یہ ان کی مرحومہ والدہ کی نشانی تھی جسے وہ اس خاتون کو اس لیئے پیش کر رہی ہیں کہ وہ ان کی نظر مین ماؤں کی عزت کی علامت ہیں ۔  اور اس بات کا بھی یقین دلایا کہ مٹھی بھر بدقماش ٹولے کے ہاتھوں تحریر کے ذرائع کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا ۔ یوں یہ خوبصورت شام شرپسندون کو یہ پیغام دیتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچی کہ جو اپنی ماں کی عزت کرتا ہے وہ کبھی کسی اور کی ماں بیٹی پر انگلی نہین اٹھا سکتا ۔ 
 ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/