ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 19 اکتوبر، 2014

● (8) مادر وطن اور چادر وطن/ کالم۔ سچ تو یہ ہے





(8) مادر وطن اور چادر وطن
تحریر: ممتاز ملک. پیرس


بہت ہی ذیادہ دیر ہوچکی ہے خواتین کو معذوروں جیسی ذندگی گزارتے ہوئے ۔ اللہ پاک نےعورت کو بھی دماغ عطا کیا ہے ۔ ویسے ہی سوچنے کا حق بھی عطا کیا ہے ۔ لیکن بد نصیبی سے ہمارے ہاں خواتین کو نہ تو اپنی زندگی پر کوئی اختیار حاصل ہے نہ ہی انہیں اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ وہ کوئی اچھا فیصلہ یا کوئی عقل کا کام کر سکتی ہیں ۔ اور تو اور ہماری 70 فیصد عورتوں کو الیکشن کے زمانے میں اپنی مرضی سے کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے کی تک کی اجازت نہیں ہے ۔ انہیں ہمیشہ گھروں سے حکم دیکر بھیجا جاتا ہے کہ بس فلاں بندے کے نشان پر ہی مہر لگانی ہے ۔ اکثر علاقوں میں تو ان خواتین کے گھر والے  کسی بھی وڈیرے ، چودھدری ، یا خان کو اس کی لاعلمی میں ہی اسکا ووٹ ایڈوانس میں ہی بیچ کر آ جاتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان بے عقل مردوں کی وجہ سے عورت کا ووٹ بھی کسی اچھے امیدوار کی جگہ کسی نہ کسی ایسے امید وار کو چلا جاتا ہے جسے دیکھ کر بعد میں انسان اکثر سوچتا ہے کہ" اوہو اس سے اچھا تھا کہ میں اپنا ووٹ کسی کوڑے دان میں ڈال آتا"۔                 ان سب باتوں کی وجہ تمام مردوں اور خواتین کی جہالت ہی ہوتی ہے۔ عورتوں کراپنے ووٹ کا  احساس دلانے کا وقت آن پہنچا ہے .پاکستان کے (67)سرسٹه سال ہمیں یہ سبق دے کر گئے ہیں کہ اپنے گھروں اور خاندانوں کے مردوں کو ہم نے یہ سوچ کر اپنے سوچنے کا اختیار بھی تفویض کر دیا کہ یہ ہمارے نگہبان ہیں اور ہماری حفاظت کی ذمّہ داری ادا کریں گے . لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ ہماری کیا حفاظت کرتے الٹا انہوں نے کہیں ہمیں کاری کرنے کا ٹھیکہ اٹھا لیا. تو کہیں جائیداد بچانے کے لئے ہمارے ساتھ قران سے نکاح جیسی مذموم حرکتوں کی تاریخ بنا دی .کبھی ہمیں جانوروں کے بدلے بیچا گیا تو کہیں ہمیں جوئے میں ہارا گیا. کہیں ہمیں تیزاب سے نہلایا گیا. تو کہیں ہمیں آگ لگا کر راکھ کیا گیا. کہیں ہماری ہی عزتیں لوٹ کر ہمیں ہی بدکار کاخطاب بهی دے دیا.             ہماری حفاظت کے ذّمہ داروں نے آج تک اپنے عمزادوں میں سے کسی کو سولی کیا چڑھانا تها ان کے خلاف آج تک کہیں کوئی آواز تک نہیں اٹھائی.کہیں مردوں نے ان مجرموں کو سزا دلوانے کی کوئی کوشش نہیں کی. یہاں تک کہ ایک جلوس تک نہ نکالا. ہمارے ہی گھروں کے مردوں نے ہمارے ووٹ بیچ بیچ کر ایک سے ایک بڑا کرپٹ اور بدکار اور بدمعاش آدمی ہمارا لیڈربنا کر مادر وطن کو دنیا بھرمیں رُسوا کیا. آج ہر عورت کو یہ بتانے کا وقت آگیا ہے کہ ووٹ صرف کاغذ کی ایک پرچی نہیں ہے بلکہ ہماری عزت, جان, تعلیم, اپنی اولادوں کے مستقبل کا وہ ٹهیکہ ہے جو بنا سوچے سمجھے کرنا ہی ہمیں برباد کر گیا ہے. اب اپنے ووٹ کا حق ہمیں خود اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا ملک کی ہماری 54% آبادی کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے .اب ہمیں ان لوگوں کو اقتدار کی کرسی تک پہنچانا ہے جو سب سے پہلے عورت اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور عورت کے حقوق اور جان و مال کی حفاظت کے لئیے عملی اقدامات کرے. ہماری عظمتوں کے لٹیروں کو سرعام(48) اڑتالیس گھنٹوں کے اندر پھانسی پر لٹکا کر دکھا ئے .ہمارے حقوق غصب کرنے والا چاہے ہمارا باپ اور بھائی ہی کیوں نہ ہو  انہیں ایک ہی مہینے میں کڑی سے کڑی سزا دلائے اور یہ سب کرنے کی شروعات اس ووٹ مانگنے والے کے اپنے گھر سے ہونی چاہئیے . اس امیدوار کا اپنے گهر میں اپنی ماں, بہن، بیوی اور بیٹی کے ساتھ حقوق ادا کرنے کا ریکارڈ کیسا ہے؟ اگر اس کے اپنے گهر میں کسی عورت رشتہ دار کا کوئی حق مارا جا رہا ہے تو اسے الیکشن میں کھڑا ہونے سے پہلے ہی نا اہل کر دینا چاہیئے. منتخب ہونے کے بعد بھی جو عورتوں اور بچوں کو حقوق پہلے سال میں نہ دلوا سکے اسے بهی اپنے گهر کی راہ دکھائیں گے. عورتوں کے مجرموں کو عورتوں کے سامنے ہی سزا ملنی چاہئیے. اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگی کے فیصلوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہی مادر وطن کو اس کی چادر لوٹائی جا سکتی ہے. اٹھ اے پاکستانی عورت کہ مادر وطن کو بہت دن ہو گئے ننگے سر ہوئے. اس کی چادر بیٹے توسرسٹه سال میں نہ لوٹا سکے لیکن اسکی بیٹیاں ضرور لوٹائیں گی کہ ماں کا دکھ بیٹی سے زياده کون جان سکتا ہے.  
   ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2016ء
●●●
                            


جمعرات، 16 اکتوبر، 2014

مدعی سُست گواہ چُست/ کالم





مدعی سُست گواہ چُست
تحریر:
(ممتازملک۔ پیرس)


15اکتوبر 2014 کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میںفرزانہ باری انسانی حقوق کی علمبردار کو حامد میر سے بہت کچھ کہتے سنا کہ کیسے انہوں نے کھل کرملالہ بی بی کی حمایت میں  اسلامی اور قرآنی احکامات پر اعتراضات کئے . اس خاتون نے کہاں کہاں سے قرانی ادھورے حوالوں کو جوڑ کر ملالہ کو صحیح اور قران کو نعوذبااللہ غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ جبکہ ان خاتون کے لئے ہمارا ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ اللہ آپ کو توفیق دے کہ زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور قرآن کآ ترجمہ پڑھ لیں تاکہ آپکو آپ کے ہی سوالوں کا جواب مل سکے.رٹا رٹایا عربی قران پڑھنے سے اگر آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ کو قران جیسی الہامی کتاب کی سمجھ آ گئی ہے تو آپ کو انگریزی پڑھنے کے لیئے اس کا مطلب سمجھنے کی بھی کیا ضرورت تھی اسی طرح انگریزی کا رٹا لگا کر ہی ڈگری کیوں نہیں مل جاتی کیوں اس کے لیئے انگریزی کے ٹینسز یاد کیئے جاتے ہیں۔ کیون اسکی ووکیبلری کا رٹا لگایا جاتا ہے ۔ کیوں کہ ہر زبان کو سمجھنے کے لیئے اس کے حروف تہجی کی صرف شکل پہچاننا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کی گرائمر اور لغت میں اس کے الفاظ و معنی کا بھی مکمل علم ہونا چاہیئے ۔ 
  جو قران غیر مسلموں کو بڑے بڑے بے دین اور بددماغ لوگوں کو انسان کی اور خدا کے فیصلوں کی حقیقت بیان کرتا ہے ۔ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لا کر کھڑا کرتا ہے ،وہ آپکوبهی سچائی کا رستہ دکھائے گا. ابهی جو آپ ملالہ کی وکالت میں تڑپ کر بیان بازی کر رہی ہیں تو آپ ہی عراق. میانمار.،غزہ کے ہزاروں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کئے رہیں؟ کیوں انسانی حقوق کے نام پر آپ کی این جی اوز کے منہ سی دئیے جاتے ہیں؟ظاہر ہے جو ہڈی ڈالتا ہے وہ اپنی مرضی کے خلاف نہ تو کسی کوبھونکنے دیتا ہے نہ کاٹنے دیتا ہے. اسلامی احکامات انسان کی اس دنیا ہی نہیں بلکہ اگلی زندگی میں بهی کامیابی کے گر بتاتے ہیں.                                                             
                              ذندگی کے پچیس ، تیس برس اس خاتون نے دنیا کا علم کمانے میں گزار دی ، اب ہمت کریں تو صرف تیس دن ہی دین اور قران کے علم پر صرف کر کے دیکھیں ۔ آپ کو معلوم ہو جائیگا کہ یہ دنیا اور وہ دنیا انسان کی ذندگی میں کیا مقام رکھتی ہے اور انسان سے کیا تقاضا کرتی ہے ۔  اللہ کے احکامات کو چیلنچ کرنے کے بجائے اگر آپ اس کے احکامات کے اغراض ومقاصد کو ہی سمجھنے میں کچھ روز صرف کر دیتیں تو آج  میڈیا کی شہہ پر آپ کو یوں بے دینی کی باتیں کرتے ہوئے اپنے دین میں کیڑے کبھی نظر نہیں آتے ۔ ہم آپ کے لیئے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک آپکو دین کی سمجھ اور قران کی محبت عطا کر دے ۔ اور یہ تبھی ہو گا جب دنیاوی شہرت اور پیسہ کمانے کا بھوت آپ کے سر سے اترے گا ۔  اور کسی کی بھی محبت میں اتنا مبتلا نہیں ہو جانا چاہیئے کہ اس کی جانب سے سوال کرنے والوں سے جھگڑنا اور اپنی جانب سے جواب گھڑنا شروع کر دیں۔ محبت اپنی جگہ رکھیں اور جواب دہی کے لیئے دوسرے کو ہی لب کشائی پر مجبور کریں ورنہ معاملہ مدعی سُست اور گواہ چُست کا ہوجاتا ہے جس میں جوتے گواہ ہی کو کھانے پڑتے ہیں ۔                          
             ۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                   


پیر، 13 اکتوبر، 2014

نوبل مذاق/ کالم۔ سچ تو یہ ہے





نوبل مذاق
ممتازملک۔پیرس


انعام حاصل کرناہر انسان کی ہیزندگی کی ایک بڑی خواہش ہوتی ہے
 اس کے لیئے کوئی کوشش کرتا ہے اور کوئی سازش کرتا ہے ۔ اور جب کوئی کچھ نہیں کر سکتا تو خواب ےتو ضرور ہی دیکھتا ہے ۔
ہمیں بھی چند روز پہلے ایک ایسا ایوارڈ وہ بھی نوبل ایوارڈملا کہ پوری پاکستانی 
قوم دانتوں میں انگلیاںداب کر رہ گئی۔دنیا میںجب
 بھی کسی بھی ملک کے کسی فرد کو یہ ایوارڈ
ملتا ہے تو وہ سینہ پھلاکراس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اس کا اس ایوارڈ پر حق ثابت کرتے ہیں ۔ لیکن ہم پاکستانی یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ آخر جس کو یہ ایوارڈ ملا ہے تو کس بات پر ملا ہے ۔ ابھی کچھ ہی عرصہ
 قبل کی بات ہے جب ایک معصوم صورت بچی کو پاکستان کے ایک شورش ذدہ اور دہشت گردی کے شکار ہمارے پیارے صوبے کے پی کے میں پڑھنے لکھنے کے شوق میں اور دنیا کو پاکستان میں شہید ہونے والے بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف متوجہ کرنےپر پاکستان بھر کی محبت بھی ملی اور لاڈ دلار بھی ملا ۔ ہر آدمی نے اسے اپنی ہی بچی کی نظر سے دیکھا ۔ پھر کچھ ہی عرصہ میں جانے کیا کھچڑٰی پکتی نظر آئی
 ایک ڈرامائی حملہ پلین کیا گیا اور اس میں کئی بچوں کی جانوں کو داؤ پر لگا کر یہود و ہنود نے چیل کی طرح ایک خاص تماشے کے ساتھ ملالہ نامی لڑکی کو جہازوں میں اڑایا اور سازشی پنجوں کے ذریعے اسے پاکستانی ماڈل بنانے کی ناپاک کوشش کو آغاز ہو گیا ۔ اس کے ساتھ کی بچیاں کہاں گئیںآج کسی کو پتہ نہیں ۔ اس لڑکی کے ڈی این اے پر سوالات اٹھے تو جوابات کا کوئی پتہ نہیں ۔ اس کے والدین پر سوالات اٹھے تو کوئی جواب نہیں ۔   پھر ایک ایک دن میں اس کبھی ہم نے سلمان رشدی خنزیر اور، تسلیمہ نسرین بنگلہ بھگوڑی کے ساتھ تصویروں میں دیکھا کیا ایسی سیانے لڑکی جو 10 ، اور بارہ سال کی عمر میں دنیا بھر کو اپنی چٹھیوں اور میلز کے زریعے متوجہ کر سکتی ہے اتنی احمق اور جاہل ہو گئی کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کن اسلام دشمنوں اور مسلم کش لوگوں کیساتھ کھڑی ہے ۔
 آج اسے جنرل اسمبلی دعوت خطاب دے رہی ہے تو کل اسے امریکہ کا پریذینٹ گود میں بٹھانے کو بیتاب ہے ۔ کبھی ملکہ برطانیہ دیوانی ہو رہی ہیں تو یورپئین اس پر کتابیں چھاپ چھاپ کے باؤلے ہوئے جا رہے ہیں ۔ 
کیا ہے یہ سب سیہونی ڈرامہ ۔ آج کئی
سوالات ذہن میں کلبلا رہے تھے تو سوچا کہ کیا ہی کمال بلکہ کمالات کی مالکہ ہیں یہ لڑکی کہ کچھ نہیں کرتی مگر اوروں کے کندھوں پر بیٹھی کمال کرتی ہے ۔ ہم سب دوارب سے اوپرکی آبادی کے مسلمان تو ایسا کوئی علم اور ہنر رکھتے ہی نہیں تھے جو نوبل ایوارڈ تک رسائی حاصل کر سکتے ۔ لیکن کل کی چھوکری نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ارے بیوقوفو اس ایوارڈ کو لینے کے لیئے قابلیت کا ہونا نہیں بلکہ پشت پر یہودو ہنود کا وہ ہاتھ ہونا لازمی ہے ۔  آدمی کو میر جعفر ہونا چاہیئے پھر ایوارڈ کی کیا کمی ہے پنجابی میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
" سِر سلامت تے جُتیاں ہزار "
ملالہ بی بی کو تب تک یہ نوازشات ملتی رہیں گی جب تک اس کی غیرت بیدار نہیں ہو جاتی ۔ جس دن اسے کشمیر اور فلسطین کے معصوم شہید نظر آنے لگے ، جس دن اسے میانمار کی مسلم لاشوں کی گنتی نظر آگئی ،جس دن اسے غزہ کے بچوں کے پھٹے ہوئی میت نظر آگئے ، اس دن ملالہ بی بی جان لیں کہ ان کے یہ ہی یہودی ہنودی آقا انہیں بڑی صفائی سے قتل کر کے ایک اور ایوارڈ اس کی گردن میں پھولوں کے ہار کے ساتھ اس کے فریم پر ٹانگ دیں گے ۔ 
پاکستانی قوم وہ بہادر اور ڈھیٹ قوم ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے امتحان سے گزرتی ہے لڑکھڑاتی ہے گرتی ہے روتی ہے آنسو پونچھتی ہے اور پھر سے اپنے قدموں پر کھڑی ہو جاتی ہے ۔ اس میں ہر آدمی کئی کئی کہانیاں رکھتا ہے ۔ آزمائش کے کئی کئی مرحلے گزارے بیٹھا ہے ۔ اسے تو کبھی زبانی پزیرائی دینے کی بھی کسی کو کوئی توفیق نہیں ہوئی ۔ کہاں ایک دس بارہ سال کی لڑکی کو بنا کوئی تیر مارے ہیروئین بنانے کا قِصّہ ۔ عافیہ صدیقی کا جرم ، ایک امریکی پر حملہ کرنے کے جواب میں غیرت مندوں کی طرح بندوق اٹھانا،                      
 گولیاں کھانے کے لیے تو ہماری پورے قوم کے ساٹھ ہزار سے زیادہ کے لوگوں نے خود کو قربان کر کے مثال قائم کر دی ،                                           
ایک استانی نے اپنے شاگردوں کو جلتی گاڑی سے نکالتے ہوئی خود کو شعلوں کی نذرکرلیا۔                                                                                      
خدمت کی مثال بنے تو ایدھی جی پر فلمیں  بن سکتی ہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن انہیں ایوارڈ کے قابل نہیں سمجھا گیا ۔ دنیا کی سب سے بڑی فلائنگ ایمبولینس سروس بھی انہیںیہ ایوارڈ نہ دلا سکی ۔                            
14 سالہ بچے کا اپنی جان پر کھیل کر اپنے ساتھی طلبہ اور اساتذہ کی جان بچانے والے کو بھی نہ مل سکا ۔                                                                        
سوچیئے تو سہی کہ یہ ایوارڈ اسے کیوں ملا؟اور اسے اپنے ہی ملک میں مشکوک کیوں بنا دیا گیا ۔ اور اگر یہ لڑکی پاکستانی ہے تو اسے پاکستانیوں کےہی اعتراضات پرکوئ تکلیف کیوں نہیں ہے؟
عراق ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، برما، کشمیر ، پاکستان اور جانے کہاں کہاں مسلمانوں کے ساتھ غیر اعلانیہ صلیبی جنگ لڑنےوالے 
یہود ہنود اب اس لڑکی کو کب کہاں اورکیسے قتل کریں گے یہ پکچر 
ابھی باقی ہے میرے دوست ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


   



                                                


جمعہ، 10 اکتوبر، 2014

ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں۔ کالم ۔



ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں
(ممتازملک۔ پیرس)




عمر کے ساتھ ساتھ ہر انسان کے رویے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ایک قدرتی امر ہے ۔ خاص طور پر بچوں کے معاملے میں یہ بات اور زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ کیوں کہ یہ ہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچوں کی مثال کمہار کے ایک ایسے برتن کے جیسی ہوتی ہے جو بظاہر تو چاک پر ہی ایک شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے لیکن ابھی اس کے لچکتے وجود کو پختگی اور سمجھداری کی تپش کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ورنہ وہ دھڑام سے بنانے والے ہی کے ہاتھ میں مٹی کی ایک ڈھیری کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے ۔                                                            
13 سال سے لیکر 19 سال تک کی عمر بچوں میں جسے ہم ٹین ایج بھی کہتے ہیں،ایک خاص دور ہوتا ہے اس میں ماں  کو بچوں کے لیئے اور باپ کو بیٹوں کے لیئے بہت ذیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے ۔ عمر کا یہ ہی وہ حصہ ہوتا ہے جس میں یا تو آپ اللہ کے کرم سے کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی ناسمجھی سے ناکام ہو جاتے ہیں ۔                                                                              
 آج ہم خاص طور پر اس عمر کی بچیوں کی مزاجی تبدیلی پر بات کرتے ہیں ۔ اکثر ہم گھروں میں دیکھتے ہیں کہ بچیوں کے شوق لڑکوں سے جدا ہوتے ہیں جیسے انہیں ماؤں کی جیولری ، کپڑوں اور میک اپ کو خود پرٹرائی کرنا بہت پسند ہوتا ہے۔ چاہے وہ ان میں کارٹون ہی کیوں نہ لگیں ۔ بس یہ انکے لیئے کشش کا باعث ہوتا ہے کہ ہماری ماں یہ سب لگاتی ہیں اور اچھی لگتی ہیں تو ہم بھی اچھے لگیں ۔ اچھا لگنے کی یا شاباش لینے کی خواہش بچیوں میں ضرور موجود رہتی ہیں اور اسکا کسی بھی انسان اور خاص طور پر بچوں میں ہونا کوئی عیب نہیں ہے ۔ ہاں انہیں پیار سے یہ بات دوستانہ انداز میں ماؤں کو باتوں باتوں میں بتاتے رہنا چاہیئے کہ بیٹا آپ کی عمر میں کیا چیز آپ کے لیئے اچھی ہے یا آپ پر اچھی لگتی ہے ، یا کس کس چیز یا میک اپ سے آپ کی نازک جلد خراب ہو سکتی ہے ، آپ کے پیارے سے چہرے پر ہمیشہ کے لیئے کوئی بھی میک اپ میں شامل جزو داغ چھوڑ سکتا ہے ۔ اس لیئے آپ کو 20 سال کی عمر سے پہلے وہ چیز چہرے پر ٹرائی نہیں کرنا چاہیئے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔  اس عمر کے بچوں پر بیجا ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ اس عمر میں ہونے والی ذہنی اور جسمانی تبدیلیاں دوران خون کو خاصا تیز کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ بچے بہت اتھرے ہیں یا ہائیپر ہیں ، جوشیلے ہیں وغیرہ اس لیئے ایسے بچے اکثر بہت بحث کرتے ہیں یا بہت ذیادہ سوال کرتے ہیں۔ انہیں " یہ نہ کرو "کیوں کہ میں نے کہاہے،کہہ کر مطمئین نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ انہیں ہر بات کہ وجہ چاہیئے ہوتی ہے ۔ کئی مائیں تو کیا باپ بھی جہالت کی حدوں کو پار کرتے ہوئے بیٹے ہی نہیں جوان بیٹیوں کو بھی دوسروں کے سامنے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ذلیل کرنے یا انہیں مارنے پیٹنے سے بھی احتراز نہیں کرتے ۔ کئی گھروں میں تو بیٹیوں کو مارنا غالبٓٓا بڑی شان سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری مار کے ڈر سے ہی ہماری بیٹی کسی برائی میں نہیں پڑی توایسے تمام خوش خیال جاہل والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں جب لڑکی نے آپکو تارے دکھانے ہیںتو وہ پنجرہ توڑ کر بھی فرار ہو سکتی ہے یہ سوچے بنا کہ اس کے ساتھ آگے ہو گا کیا ؟ لیکن جس کی فطرت میں پاکیزگی ہے اسے بے دھڑک بھی چھوڑ دیں تو بھی وہ کسی گندگی میں شامل نہیں ہو گی کیوں کہ عورت کی فطرت میں حیا اللہ نے شامل کی ہے ۔ جبکہ جو لڑکیاں ان برائیوں میں مبتلا ہوتی ہیں اس میں ان کے والدین اور خاص طور پر ماں ہی قصوروار ہوتی ہے ۔ جو بچی کی عمر کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو سمجھنے کے بجائے اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا بڑی بہادری سمجھتی ہے ۔                                                        
 پچھلے دنوں فیس بک پر ایک ویڈیو بڑے  ٹھٹھے کیساتھ چلی، جس میں ایک ٹین ایج لڑکی گھر سے کسی اور ڈریس میں نکلی اور باہر آکر اس نے  اپنے کپڑۓ بدل لیئے جبکہ نیچے اس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی ۔ ماں نے اسے پیچھے کہیں دیکھ لیا اور گلی ہی میں خوب واویلہ کیا ور اس جوان بچی کو انتہائی ظالمانہ انداز میں مارا پیٹا اور بالوں سے گھسیٹتی ہوئی گھر لے گئی ۔ اس وقت ہمیں بہت افسوس ہوا جب ھاھاھا  لکھ کر اس وڈیو کو شئیر کیا گیا ۔ کیسی بے غیرتی کی بات ہے ان بھائیوں کے لیئے جو بہن کو ایسے شرمسار ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ یہ اس لڑکی کی ایک خواہش تھی کہ وہ پینٹ شرٹ میں سکول جائے تو ماں کو نہیں پسند تو اسے بچی کو پہلے ہی ذہنی طور ہر محبت سے یہ بات سمجھانی چاہیئے تھی کہ بیٹا ہمیں آپ کا یہ لباس پہننا اچھا نہیں لگتا ۔ تو شاید بچی بھی اپنی پسند پر غور کر لیتی یا اسے یہ کہا جاتا کہ اس پینٹ کے ساتھ شرٹ لانگ استعمال کرو تو آپ پر اچھی لگے گی تو بھی بات سمجھ میں آ جاتی ۔ اس عمر کی بچوں کو اپنے منہ پر میک اپ ملنا ہے اور کہنے پر بھی ٹرائی کرنا ہے تو کرنے دیں کیوں کہ ان کا دل جلد ہی اس سے بھر جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ ٹین ایج سے نکلنے تک انکا سارا شوق ختم ہو چکا ہو گا جبکہ آپ نے ان پر بیجا سختی کی تو یہ کام تو انہوں نے کرنا ہی ہے سامنے نہیں تو چھپ کر کریں گی ۔ تو کیا فائدہ ۔ دوسری بات ہماری بہنوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کسی بھی بچی کی عمر دیکھے بنا اس پر اعتراض کرنے کا ۔ اپنی بیٹی چاہے ان کی حرکتوں سے باغی ہو کر کہیں بھی منہ کالا کروا لے، وہ اپنی آنکھ کا شہتیر انہیں دکھائی نہیں دیگا لیکن کسی کی بچی نے ٹین ایج میں منہ پر میک اپ نام کا کوئی لال پیلا رنگ لگایا ہو تو فورا اس بچی میں اخلاقی اور شرعی عیب ڈھونڈنے کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی ۔اور معذرت کیساتھ آجکل کی نام نہاد تہجد گزار اور وظیفہ پڑھے والی خواتین میں یہ عیب عروج پر ہے ۔ حالانکہ وہ اپنی عمر میں یہ سب کچھ کر چکی ہیں مگر پوچھنے پر خود کو پیدائشی حاجن بی بی ثابت کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں ۔    گویا یہ کہنا ہی باقی ہوتا ہے کہ جی  ہم تو '' دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں''  کی کسر ہی رہ جاتی ہے ۔  آپ نے اکثر ایسی بزرگ خواتین 50 سال سے اوپر کی بھی دیکھی ہوں گی کہ جو پورا بیوٹی پارلر بن کر باہر نکلتی ہیں ۔ عجیب سے نیلے پیلے کپڑے ، بڑے بڑے بندے ، دونوں کلائیاں ہر طرح کی چوڑیوں سے بھرے ،  خوفناک میک اپ ۔ جی ہاں یہ وہی خواتین ہوتی ہیں جن کا ٹین ایج انتہائی تکلیف میں گزرا ہوتا ہے ۔ انہیں اپنی مرضی سے ننھی منھی خواہشیں  پوری کرنے کی اجازت بھی کبھی نہیں دی گئی ۔ اور وہ حسرتیں ان کے دل میں پلتی رہیں نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کے بعد بھی کئی گھروں میں ان پر بیجا پابندیوں نے ان کے اس شوق کو اور ہوا دی اور بڑہاپے میں جب انہیں اختیارات ملے تو انہوں نے اپنے شوق پورے کرنے شروع کر دیئے ۔ ہو سکتا ہے دیکھنے والوں کے لیئے یہ ہنسنے کی بات لگتی ہو ۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان کے ایسے شوق کی وجوہات کو سمجھنا چاہیئے ۔ اور ان سے ہمدردی رکھنی چاہیئے ۔ اگر آپ بھی چاہتے ہیں  کہ کل کو اپکی بیٹی کو بھی کوئی دیکھ کر اس کا مذاق نہ اڑائے تو خدارا اپنی ٹین ایج بچیوں کی دوست بنیں اس کوپیار سے اپنی تہذیب سکھائیں۔ انہیں  سوشل ایونٹس میں بھی اپنے سارتھ رکھیں تاکہ انہیں لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ، بات کرنا ، اور لوگوں کو سمجھنا آئے ۔ کیوں کہ آخر کو انہوں نے نئے لوگوں میں بھی بیاہ کر جانا ہے تو اگر آج وہ لوگوں کو سمجھ سکیں گی تو اپنے گھروں کو جلد اچھے سے سنبھالنے کے بھی قابل ہو جائیں گی کہ یہ خود اعتمادی آپ ہی کی دی ہوئی ہو گی ۔ ماں کی محبت اور سمجھداری عورت کی ہر عمر میں اس کی عادات سے جھلکتی ہے ۔ اگر مائیں بچیوں کی دوست ہوں توانہیں کبھی زندگی میں کسی دوست کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر آپ کے بچے دوستوں میں رہنا ذیادہ پسند کرتے ہیں یا آپ کیساتھ کہیں جانے پر تیار نہیں ہیں  تو اپنے رویے پر غور کریں کہیں وہ آپ کی صحبت سے نالاں تو نہیں ہیں ۔ غور کریں اور اپنے رویے کا جائزہ لیں ۔ اگر آپ کو اپنے بچوں سے محبت ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 





جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

خوبصورت اور بامقصد بیٹھک



خوبصورت اور بامقصد بیٹھک
ممتاز ملک ۔ پیرس


27 ستمبر 2014 بروز ہفتہ ہمارے لیئے ایک اہم دن تھا کیوں کہ ہماری اکیڈمی شاہ بانو میر اکیڈمی کے تحت ہماری اراکین لکھاری خواتین کی بیٹھک تھی ۔ تمام خواتین وقت مقررہ پر محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کے گھر پہنچیں ۔  جس کا آغاز اللہ کے پاک نام سے ہوا ۔ بہت سے موضوعات آج کی اس بیٹھک کا حصہ تھے ۔ جس میں اکیڈمی کے تحت جاری ہونے والے شمارے "در مکنون " کی اگلی اشاعت کے مواد ، ترتیب ، اور ذمہ داریوں پر بات کی گئی اور کئی اہم باتوں کو تفصیلی بیان کیا گیا ۔ تمام خواتین نے ہر موضوع پر بڑہ چڑھ کر بات کی اور اپنے اپنے کام کی رفتار سے باقی بہنوں کو آگاہ کیا ۔ اس شمارے کی ایڈیٹر محترمہ وقار النساء خالد صاحبہ نے سب کے تعاون کے لیئے بہنوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اور کام کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ 
کالمسٹ محترمہ نگہت سہیل صآحبہ نے ہر بات پرکُھل کراپنی رائے کا اظہار کیا ۔ اور اکیڈمی کے کاموں کو اطمینان بخش قرار دیا ۔ 
کالمسٹ محترمہ انیلہ احمد صاحبہ نے بھی مختلف باتوں پراپنی رائے اور اہم نکات پیش کیئے ۔ جن پر سب نے ٓسیر حاصل بحث کی ۔
    محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے وقت کی پابندی پر سب کا شکریہ ادا کیا اور بہنوں کو انٹر نیٹ کے استعمال سے متعلق کچھ معلوموت بھی فراہم کیں ۔ اور اکیڈمی کے کاموں اور اگلے شمارے کے لیئے پچھلے شمارے کی کمی بیشی کو بھی زیر بحث لایا گیا اور اسے مذید بہتر بنانے کے لیئے مختلف آراء بھی پیش کیں  جنہیں بڑی فراخدلی سے سنا گیا اوران پراعتمادکا اظہار بھی کیا گیا ۔
 کہیں بھی ہماری بیٹھک ہو اور اسمیں پاکستان  کے حالات پر بات نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا ۔ لہذا حالات حاظرہ پر بھی ایک نظر ڈالی گئی ۔ دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورتحال خاص موضوع رہا ۔ پاکستان میں ان دھرنوں کے نتیجے میں عوام میں پیدا ہونے والا حقوق و فرائض کا شعور جو اب کبھی ائیر لائن ، کبھی ٹریفک پولیس اور پولیس سے گرفتاری پر وارنٹس کی ڈیمانڈ ، تحریری طور پر معاملات کو چلانے کا شعور یقیناابھی  کئی لوگوں کو اعتراض برائے اعتراض میں دکھائی نہیں دے رہا ۔ لیکن جلد ہی انشااللہ اس کے فوائد اور مثبت تبدیلی کو ملکی سطح پر واضح طور پر دیکھا جا سکے گا ۔ پاکستان کے حالات پر دعا بھی کی گئی۔ 
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے بھی اپنے پچھلے مہینے کے کالمز اور تحریروں پر ایک  جائزہ پیش کیا ۔ جبکہ تمام سنجیدہ باتوں کے ساتھ چائے کا دور بھی چلا اور اس دوران ہنسی کے فوارے بھی چُھوٹے ۔ گویا سنجیدگی سے جو بوجھل پن پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے اسے روکنے کے لیئے کوئی نہ کوئی کھلکھلاتی بات گدگداتا واقعہ بھی یاد آتا رہا ۔ جس نے سبھی کو بہت ہی محظوظ کیا ۔ 
سب نے بھرپور تین گھنٹے ایک دوسرے کی سنگت میں بہترین مثبت ماحول میں گزارے ۔ بیٹھک کے آخر میں سب بہنوں نے ذہنوں میں ایک نیا عزم اور ولولہ لیئے ایک دوسرے کو الوداع کہا ۔ یاد رہے تمام بہنیں کئی کئی پبلک ٹرانسپورٹ بدل کر  اور ڈیڑہ سے دو دو گھنٹے کا سفر کر کے یہاں پہنچتی ہیں اور جاتے ہوئے بھی اتنا ہی سفر واپسی پر بھی کرتی ہیں ۔ صرف ایک ہی نیک مقصد کے تحت کہ ہم اپنی کمیونٹی اور اپنے ملک اور اپنی نئی نسل کلیئے کیا اچھا کر سکتے ہیں ۔ اس میں ہمیں کسی قسم کی کو ئی مالی اعانت کہیں سے بھی حاصل نہیں ہے ۔ اگر حاصل ہے تو پڑھنے والوں کی بے انتہاء عزت ، محبت اور اعتماد  جو ہمیں ہر بار ایک نیا عزم اور ایک نیا حوصلہ دیتی ہے ۔  خدا اس بھروسے اور عزت کو قائم رکھے اور جو بات خدا کو پسند نہیں اللہ پاک اس میں ہمارے راستوں کو مسدود کر دے ۔ اور جو کام اسے ہمارے پسند ہیں اس میں ہمارے لیئے کامیابی اور کامرانی کی راہیں کھول دے ۔
 آمین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔









جمعہ، 26 ستمبر، 2014

نعت ۔ حضور آ گئے ہیں


حضور آ گئے ہیں
ممتازملک ۔ شاعرہ

حضور آ گئے ہیں حضورآ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی 
نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
نگاہوں کا میری غرور آ گئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں، حضور آ گئے ہیں 

کہ جن کے لیئے یہ زمیں آسماں بھی 
جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی 
وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں 
حضور آ گئےہیں،حضور آ گئے ہیں

وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی
جو سب کی عقیدت کی وجہہ بنی تھی
وہ حسن و عمل کا شعور آگئے ہیں 
حضور آ گئے ہیں،حضور آگئے ہیں

،،،،،،،،،،،،،،،،

پیر، 22 ستمبر، 2014

لنگوٹیئے یار/ کالم۔ سچ تو یہ ہے



لنگوٹیئے یار
ممتازملک ۔ پیرس

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ایک ہی گلی محلے میں کھیل کود کر شرارتیں کرتے ہنستے روتے ،ساتھ بڑے ہونے والے بچے سب کے سب الگ الگ سوچ اور صلاحیتیں لیکر بڑے ہوتے ہیں ۔ اس مین کچھ تو مالی حالات کا اثر ہوتا ہے ۔ اور کچھ میں انکے گھریلو سوچ اور ذہنیت بہت اثر انداز نظر آتی ہے ۔ کوئی بچہ تمام تر مالی وسائل اور سہولتیں ہوتے ہوئے بھی کوئی خاطر خواہ تعلیمی قابلیت نہیں دکھا سکتا تو کچھ بچے ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی ذندگی کے شدید تھپیڑوں میں بھی اپنا قد اور مقام وہاں تک لیجاتے ہیں کہ جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی انکے مخالفوں کو بھی ان کی جانب دیکھنے کے لیئے سر اٹھانا ہی پڑتا ہے ۔ ایک ہی گلے محلے کے بچے جن میں کوئی ایم اے ، ایم بی اے اور پی ایچ ڈی کرتا ہے ۔تو کوئی اسمبلی میں قوم کی قسمت کے فیصلے کرنے لگتا ہے ۔ اور کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اسی گلی کی نکڑ پر ریڑھی لگاتا ہے ،تو کوئی اسی گلی کے ہوٹل میں میز صاف کرتا ہے اور کل کے ہمجولیوں کو چائے پیش کرتا ہے ۔ کوئی موٹر سائیکل کی مرمت کرتا نظر ہے ۔ تو کوئی میجر صاحب بن کر ملک قوم کی حفاظت کا بیڑا اٹھا تا ہے ۔                                                             
کتنی عجیب بات ہے ایک ہی زمین ، ایک سی خوراک ، ایک سی آب وہوا ، لیکن نتیجہ کسقدر مختلف ۔ اسے پرورش کا فرق کہیں ، اس بچے کا نصیب کہیں یا خدا کی شان ، سب سچ ہے ۔ لیکن سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ رب العالمین جس سے جو کام کروانا چاہے کروا ہی لیتا ہے ۔ چیونٹی سے ہاتھی کومروانا بھی یہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ اپنے سوا کسی کی بھی بڑائی پسند نہیں کرتا ۔ لیکن انسان کے جھکنے اور عاجز ہو جانے سے کسقدر محبت رکھتا ہے ۔ کہ اسے ان سب کے عوض کس کس بلندی پر پہنچا دیتا ہے ۔ کہ وہ انسان خوداپنی اونچائی پر حیران کھڑادیکھتا رہ جاتا ہے ۔ بے عقل اور کم ذات اپنے مراتب کے بعد اپنے انداز و اعمال سے اپنے بدذات اور متکبر ہونے کا اعلان کرتا  گردن اکڑاتا فرعون بنتا نظر آتا ہے ۔ تو عقل وشعور والا ، بانصیب عاجز ہو کر اپنی گردن مالک کے حضور زمین سے جوڑتا اور شکر کے الفاظ اور انداز ڈھونڈتا نظر آتا ہے ۔                  
بچپن کے یہ ساتھی جن میں کچھ تو آگے نکل جانے والوں سے بے انتہاء محبت اور فخر ظاہر کرتے ہیں ۔لیکن ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو انہیں ان کی ماضی کی محرومیوں کے آئینے میں چھوٹا دکھانے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے ہیں ۔ ہم تو اسے حسد ہی کہیں گے ۔ ان کی کم ظرفی کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ انہیں بھری محفل میں ان کے کسی بچپن کے کسی نام یا عرفیت ( جسے ہم چھیڑ بھی کہہ سکتے  ہیں )سے  پکار کر اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو کبھی چُن چُن کر انکی ایسی شرارتیں یا باتیں لوگوں کی موجودگی میں سنانے لگیں گے جن سے انکی محفل میں سُبکی ہو ۔ جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی مرتبے پر پہنچنے کے بعد چاہتے ہوئے بھی یہ لوگ اپنے بچپن کے ساتھیوں سے ملنے سے کترانے لگتے ہیں ۔ کیوں کہ ہر انسان وہیں کسی سے ملنے کی خواہش کریگا جہاں اسے اپنی عزت محسوس ہو ۔ بلکہ اکثر ان لوگوں کو گیٹ پر سے ''صاحب گھر پر نہیں ہیں'' کہہ کر بھی ٹرخا دیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی محفل میں یا ٹی وی پر اپنے کسی بچپن کا ساتھی نظر آئے تو بڑی نخوت سے ناکام دوست ساتھ بیٹھے کو یہ جملہ ضرور کہے گا کہ '' ارے یہ تو فلاں فلاں کا بیٹا ہے میرا لنگوٹیا یار تھا  اسے تو میں کبھی منہ بھی نہیں لگاتا تھا ، اسکے پاس تو فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے ،یا اس کے توجوتے بھی پھٹے ہوئے ہوتے تھے  وغیرہ وغیرہ  آج پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے ''۔ کہہ کر خود کو اونچا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں تو خدا نے اس کی پہنچ سے بھی دور کر دیا اور خود انکے حِصّے میں کیا آیا لنگوٹئے یار کے نام پر چند بوگس جملے ،اور کلیجے سے نکلتی ٹھنڈی آہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    

جمعہ، 19 ستمبر، 2014

کپڑےذیور اورمیک اپ / ممتازملک ۔ پیرس



کپڑے زیور اور میک اپ
ممتازملک۔ پیرس

”کپڑے زیور اور میک اپ“ یہ وہ پٹیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں مردوں نے خواتین کی آنکھوں پر بڑے چاؤ سے باندھ دی ہیں ـ اس لئے نہیں کہ وہ اِن سے محبت بہت کرتے ہیں ( کاش ایسا ہی ہوتا ) بلکہ ان خواتین کا سارا دھیان اِن کی زندگی کی ساری ترجیحات کپڑے زیور اور میک اپ کو بنا دیا گیا ہے ـ
اِن کی علم سے محبت٬ خداداد صلاحیتوں اور انکی پیشہ وارانہ مہارت کو اِن چیزوں کے نیچے دفن کر دیا گیا ہے ـ جِس ملک کی 52 فیصد آبادی کو اِن امراض میں مبتلا کر کے ترقی کا خواب دیکھا جائے تو ہمیں تو ایسا ہی لگتا ہے ٌجیسے کسی گنجے کو جیب میں کنگھی رکھنے کا شوق ہو جائے ـ

اور تو اور ہمارے ٹی وی نے بھی اِن چیزوں کو جنون بنانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ـ کبھی مارننگ شوز کی صورت ،تو کبھی نیوز ریڈرز کے بناؤ سنگھار کو ابھار کر، تو کبھی ڈراموں میں جانے کس کس ملک کا فیشن ٹھونس کر، اور رہی سہی کسر فیشن شوزکے خصوصی پروگرامز اِس طرح پیش کر کے جیسے ہمارے مذہب اور تہذیب کا بہت ہی خاص حصہ ہے ـ اور اگر ہم نے انہیں نہ اپنایا تو خدا جانے کیا قیامت آجائے گی ـ

مہنگے ہوں یا سستے ،کپڑے زیور اور میک اپ، جتنی سہولت سے اِن خواتین کو مہیا کر دیا جاتا ہے ـ یا اِن میں اِن چیزوں کی دیوانگی بڑہانے پر محنت کی جاتی ہےـ کیا ہی اچھا ہو کہ اس بڑہاوے کو خواتین میں کتابوں سے محبت ،تعلیمی مدارج میں بلندی اور کسی بھی شعبہ میں مہارت حاصل کرنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے استعمال کیا جاتا تو آج حالات کتنے اچھے ہوتے کیونکہ علم جس کے اندر داخل ہوتا ہے یہ کپڑوں زیور میک اپ کا عشق اُس کے اندر سے ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتا ہے ـ اُس کے اندر مَثبت اندازفکر پیدا ہوتا ہے ـ اپنے خاندان معاشرے کے لئے کچھ اچھا کرنے کی سوچ اُسے تمام فضول مشغلوں سے دور کر دیتی ہے ـ
علم سے اُن میں سادگی پیدا ہوگی اور یہی سادگی ہمارے معاشرے میں مردوں کے مالی اور ذہنی دباؤ کو کم کرے گا اور گھروں میں یہی بات سچی محبت پیدا کرنے کی وجہ بنے گی ـ دنیا کے جس بھی ترقی یافتہ ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں قوموں کی کامیابیاں تعلیم کو مردوں اور عورتوں میں عام کر کے انہیں کتابوں سے ،الفاظ سے، محبت سکھا کر انہیں بِلا تفریق ہر پیشے میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں دکھانے کا موقعہ دے کر ہی حاصل کی گئی ہے ـ اور ذرا سی حقیقت پسندی آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ سب سے زیادہ شر اور فساد گھر میں بیٹھی بے علم ،خالی ذہن اور بے مقصد زندگی گزارنے والی عورت ہی پھیلا رہی ہے ـ اس کو اپنیخُدا داد ذہنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقعہ جب تک نہیں 
دیا جائے گا تب تک ترقی کا خواب دیکھنے والوں کو ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں
 کہ بھائ
” نہ نو من تیل ہوگا نہ ہی رادھا ناچے گی٬٬

...........................


جمعہ، 29 اگست، 2014

پیشہ سیاست/ کالم



پیشہ سیاست
ممتازملک ۔ پیرس

پاکستان کے حالات اس وقت تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہین ۔ جی ہاں آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ جی یہ توع ہ جب سے پیدا ہوئے ہین تب سے ہی سن رہے ہین ۔ لیکن تب یہ حالات ناذک موڑ پہ تھے تو آج فیصلے کی گھڑیوں میں داخل ہو چکے ہیں ۔ 2013 میں علامہ طاہرالقادری صاحب کے دھرنے سے شروع ہونے والا سفر آج ان کی تمام پیشن گوئیوں کو صحیح ثابت کرتا ہوا ایک سال بعد لوگوں کو یہ سوچنے پر آخر مجبور کر ہی گیا کہ ایک عام آدمی جس کے پاس  دولت ( حرام یا حلال جیسی بھی ہو ) کا جادوئی چراغ ہو یا اثر رسوخ کا ڈنڈا تو وہ اپنی تو کیا  جسکی چاہے بھینس کھول سکتا ہے ۔ قانون بھی اسی کے گھر کی لونڈی ہے اور انصاف بھی اسی کے باپ کی جاگیر ہے ۔ 
پاکستان میں سیاست کبھی ایک مقصد نہیں رہا بلکہ جس نے بھی سیاست کی تجارت بنا کر کی ۔
 سچ ہی تو کہا گیا ہے کہ
''میرے وطن میں سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں ''
یہ وہ بد نصیب ملک ہے کہ جہاں خانوں ، جاگیر داروں ۔ وڈیروں لٹیروں نے اپنے مزارعوں  کے دائرے کو بڑا کر کے اسے عوام کا نام دیدیا ۔ اور اپنی پنچائیتوں کو ہی اسمبلی کی شکل دے دی ۔  اندر خانے وہی گل خوب کُھل کھیل کر کھلائے گئے جوان کا طرء امتیاز ہمیشہ ہی رہا تھا ۔ دیکھتے دیکھتے 67 سال بیت گئے عوام اور ملک بھکاری ہو گیا خزانے کو اقرباء پروری کا کیڑا لگ گیا اور اس کیڑے کو پالنے والے کل کے کنگلے آج کے نام نہاد اشرافیہ بن گئے ۔  ملک غریب اور ملک کے کرسی برانڈ خادمین امیر ترین ہوتے گئے ۔اب ہماری بیچاری خدا سے دور ، قانون شکن ، وعدہ شکن ، دوسروں کی عزتوں کی دھجیاں اڑا کر خوش ہونے والی عوام ، یتیمون بیواؤں کا حق کھانے کے شوقین عوام ،   تہمتیں لگانا جن کا پسندیدہ مشغلہ ہے، کسی اچھے آدمی کو ووٹ محض یہ سوچ کر نہیں دیتے کہ کہیں انہیں اچھا نہ بننا پڑ جائے ۔ آج جب کوئی ان کے لیئے آواز اٹھانے کے لیئے میدان میں آ بھی جائے تو یہ سوچ کر اسکا ساتھ دینے کے لیئے گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ نہ تو انہیں اپنے نفس پر قابو ہے نہ ہی اپنے کردار پر بھروسہ ۔ یعنی کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ
  '' اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے 
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے ''
لیکن ہم ہیں امید پسند لہذا امید کرتے ہیں کہ اتنی تباہی کے بعد جب ہمارے پاس کھونے کو بھی اب کچھ نہیں رہا تو ہم خدا کا نام لیکر ایک نئی شروعات ضرور کریں گے ۔ اور خود کوخدا کی بتائی ہوئے ہدایت کے مطابق  بدلنے کی کوشش بھی ضرور کرینگے اور آئندہ کے لیئے کسی بھی تاجر کو اپنے ایوانوں تک پہنچنے کا راستہ نہیں دیں گے کیوں کہ سیاست ایک فل ٹائم جاب ہے اسے اب پارٹ ٹائم دھندا نہیں بننے دیں گے  ۔ بس یہ ہی ایک صورت ہے کہ خدا ہمیں معاف کر دے ۔ اور ہم بھی اپنے تعارف میں کہ آپ کا پیشہ کیا ہے ؟ کسی کو یہ کہنے کہ اجازت نہ دیں ،جی پیشہ سیاست ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جمعہ، 15 اگست، 2014

یادگار لمحات ۔ ممتازملک ۔پیرس



یادگار لمحات
ممتازملک۔ پیرس


13 اگست 2014 کی شام پیرس کی لکھاری خواتین کے لیئے کئی لحاظ سے یادگار لمحات لیئے ہوئے آئی ۔ پہلی خوشی تو یہ تھی کہ گزشتہ سال جس شاہ بانو میر اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی تھی ، وہ جسے دیوانے کا خواب کہا گیا تھا ، جس میں تین خواتین نمایاں تھیں ، ماشااللہ ترقی کرتا ہوا  اپنا ایک سال مکمل کر گیا ۔ اس ایک سال میں جہاں اس اکیڈمی کی سربراہ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کی حوصلہ افزائی میں اس ٹیم میں ہماری لکھاری بہنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ وہیں ان کے کام کو بھی مختلف پلیٹ فارمز پر سامنے آنے کا موقع ملا ۔ کل تک جہاں پیرس میں شاہ بانو میر ، ممتاز ملک اور وقار النساء خالد صاحبہ پاکستانی اور کمیونٹی مسائل پر قلم سنبھالے ہوئے تھیں وہیں آج اس قافلے میں انیلہ احمد ، نگہت سلطانہ سہیل ، اور اسماء ذاکر علی بھی مضبوط سوچ اور تحریر کیساتھ اس کا حصہ بن چکی ہیں ۔ یہ اضافہ اللہ کا وہ کرم ہے کہ جو ما شااللہ ہماری سوچ سے بہت ذیادہ ہے ۔ بیشک اللہ پاک ہر انسان کو اس کی نیت کا پھل ضرور عطا کرتا ہے ۔ کل تک جو لوگ ہمیں تحریروں سے سب کو خوش رکھنے کا مشورہ یہ سوچ کر دیتے تھے کہ چار دن کی زندگی ہے اس میں کیوں سچ لکھ لکھ کر اپنی مخالف پیدا کرتی ہیں ۔ سب کی تعریف کیا کریں تاکہ آپ بھی خوش اور دوسرے بھی خوش ۔ انہیں اللہ پاک نے سال بھر میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ قول عملی شکل میں دکھا دیا کہ '' جو سب سے متفق ہوتا ہے وہ منافق ہوتا ہے '' ہمارہ گروپ کسی کی بھی چاپلوسی نہ کر کے سب کو یہ پیغام دے چکا ہے کہ 
'' ارادے جن کے پُختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو 
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے ''
پیرس میں اردو کا پہلا پرنٹ میگزین  '' در مکنون '' شائع کر کے اس ٹیم نے ایک تاریخی سنگ میل عبورکر لیا ۔ اب اس ٹیم نے اس شمارے کی دوسری اشاعت کی تیاری شروع کر دی ہے ۔ جس میں اب تین نہیں بلکہ چھ خواتین قلمکارانشااللہ  معاشرتی برائیوں سے پردہ اٹھاتی نظر آئیں گی۔ ان خواتین کے نام اور مختصرتعارف ان لوگوں کے لیئے پیش کیا جا رہا ہے جو اسے ایک  فرضی گروپ کا نام دیکر اپنے دل کو بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ یہ کوئی ایک ہی خاتون نہیں  ہیں جو مختلف ناموں سے لکھ رہی ہیں ۔  بلکہ ہمارے قارئین ان کی تحریروں کا تنوع دیکھ بھی چکے ہیں اور سراہ بھی چکے ہیں ۔ 
شاہ بانو میر
گوجرانوالہ کے ایک صحافی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ انٹر نیٹ پر انکی آٹھ کتابیں اور بیشمار آرٹیکلز اور تجزئے موجود ہیں ۔ پیرس میں اردو کے پہلے پرنٹ میگزین '' در مکنون ''  اور شاہ بانو میر اکیڈمی کی بانی ہیں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممتازملک
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ بہترین مقرر، نعت خواں اور پروگرامز کی نظامت کرتی ہیں ۔ دو شعری مجموعوں بنام '' مدت ہوئی عورت ہوئے '' اور '' میرے دل کا قلندر بولے '' کی خالق ہیں جبکہ تیسرا مجموعہ لانے کی تیاری میں ہیں ۔ انکے جراتمندانہ کالمزاور بے دھڑک  انداز بیاں انکی شناخت ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقارالنساء خالد
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ درس وتدریس سے کافی عرصہ تک وابستہ رہی ہیں۔ میگزین '' در مکنون '' کی مدیر اعلی ہیں ۔ بہت اچھی افسانہ نویس اور کالم نگار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
انیلہ احمد
لاہور کی رہنے والی ہیں ۔ پاکستان کے مسائل پر خاص نظر رکھنے والی ہمدرد شخصیت ہیں ۔ اپنے کالمز کے ذریعے معاشرتی برائیوں کو بے نقاب کرتی ہیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگہت سلطانہ سہیل
راولپنڈی کی رہنے والی ہیں ۔ درس وتدریس سے وابستہ رہی ہیں ۔ طنزو مزاح انکا خاص شعبہ ہے ۔ جس کی جھلک انکے کالمز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے ۔ ہلکے پھلکے لہجے میں سخت بات کہنے کا ہنر جانتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماءذاکر علی
اسلام آباد کی رہنے والی ہیں ۔ شعبہ تعلیم سے وابستگی رہی ہے ۔ دینی موضوعات پر لکھنا پسند کرتی ہیں ۔ ان کے کالمز میں بھی دینی رنگ نمایاں ہوتا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس دن کی کی دوسری خوشی تھی فرانس میں تعینات سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب کی جانب سے شاہ بانو میر صاحبہ کے نام وہ دعوت نامہ جس میں انہیں ہماری ٹیم سمیت 14 اگست 2014 کی تقریب میں شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی ۔ بہت بہت شکریہ جناب سفیر پاکستان کیوں کہ فرانس کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی ایمبیسیڈر کی جانب سے کسی جینوئن لکھنے والے اور وہ بھی خاتون کو ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں باقاعدہ دعوت نامہ انکی ٹیم سمیت دیا گیا ہو۔ 14اگست 2014 کو جیسے پاکستانی ایمبیسی میں شاہ بانو میر صاحبہ کی خدبات کو سراہا گیا ۔ اس سے ہماری پوری ٹیم  کو ایک نئی توانائی ملی ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے آئندہ آنے والے ''در مکنون ''کے شمارے کے لیئے ہمیں پاکستانی ایمبیسی کی جانب سے رہنمائی اور معلوماتی تعاون حاصل رہے گی تاکہ ہم پاکستانی حقیقی لکھاری خواتین  دیار غیر میں پاکستانی مسائل سے متعلق آگہی پیدا کر سکیں ۔ اور انکے حل میں اپنی سوچ اور خدمات کی روشنی پہچا سکیں ۔
میرے سامنے جو کتاب ہے وہ بکھر گئی ہے ورق ورق
مجھے اپنے اصل نصاب میں اسے جوڑنا ہے سبق سبق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جمعہ، 25 جولائی، 2014

سوالنامہ جو دعاوں کو سمیع اللہ تک لیجائے/ ممتازملک۔ پیرس


سوالنامہ
 جو دعاوں کو سمیع اللہ تک لیجائے
ممتازملک۔ پیرس

کون ہے جس نے ہم سب کی دعاؤں کو عرش پر پہنچنے سے روک رکھا ہے ۔ کون ہے جو ہمارے اور خدا کی سماعتوں کے بیچ دیوار بن گیا ہے ؟ کون ہے جو میرے حصے کا سکون مجھ تک پہنچنے نہیں دے رہا ؟خدا سے ذیادہ طاقتور تو کوئی بھی شے ہو ہی نہیں سکتی ۔ پھر کچھ تو ایسا ہے جو ہماری دعاؤں کو ، صداؤں کو ، آرزوؤں کو رب خالق تک پہنچنے سے روک رہا ہے تو گویا اس روکنے والے کو بھی رب کائینات نے اتنی قوت دے ہی رکھی ہے جبھی تو ایسا ممکن ہے ۔ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں یا اللہ ہم تو نمازین بھی پڑھ رہے ہیں ، صدقے بھی دے رہے ہیں ، مسجدیں بھی بنوا رہے ہیں ، ہر سال حج کر کر کے  بھی ریکارڈ قائم کر رہے ہیں ، ہر دوسرے مہینے عمرے پر بھی دوڑے دوڑے جا رہے ہیں ، پھر بھی ہم بے سکون کیوں ہیں ، اولادیں نافرمان کیوں ہیں ،  راتوں کو نیند کیوں نہیں آتی ، دل سے بے چینی کیوں نہیں جاتی ۔ اس کے حصول کے لیئے ہم کیا کریں ؟
 کوئی مشکل نہیں ہے اس کا جواب  ۔ اسکا اور اس جیسےہزاروں سوالوں کا جواب ۔ بس ہمارے ذہن کا منصف ہونا ضروری ہے ۔ اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائیں ۔ ایک ہی  دن میں آپ کو اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے ۔ کیا ہم نے اپنے ملاذم کے ساتھ آج کوئی نااصافی تو نہیں کر دی ، کیا آج کسی نے مجھ سے کچھ رقم اپنے علاج کے لیئے مانگی اور میں نے اسے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جانے دو یہ تو اس کا روز کا کام ہے ( حالانکہ میری تجوری میں اس وقت بے مصرف لاکھوں روپے رکھے تھے ۔)  کیا ہم نے آج گھر سے نکلنے کے بعد کسی کو گاڑی کو ہاتھ لگانے پر گالی تو نہیں دی ۔ کیا میں آج کسی کو محض میرے لیئے کھڑا نہ ہونے پر بے عزت تو نہیں کر دیا ۔ کیا ہم نے آج کسی پر ہاتھ تو نہیں اٹھایا ۔ کیا  ہم نے آج کسی بھکاری کو جھڑک تو نہیں دیا ۔ ( حالانکہ اس کی جگہ میں بھی ہو سکتا تھا ۔ ) کیا ہم نے آج کسی کی عزت پر میلی نظر تو نہیں ڈالی ۔ کیا ہم نے آج کسی کی عزت اپنے کسی قول فعل یا عمل سے تو تار تار نہیں کردی  ۔  کیا میں کسی کے گھر ، کمرے یا  آفس مین بلا اجازت تو داخل نہیں ہو گیا ؟ کیا آج مجھے جہاں جہاں سچ بولنا چاہیئے تھا وہاں وہاں سچ بولا؟  کیا آج میرے سامنے کسی کے ساتھ ذیادتی ہو رہی تھی تو میں نے ہو جانے دی یا اسے روکنے کی کوئی کوشش کی ؟ کیا مین نے کر نے کی ہمت کے باوجود کسی ظالم کے ہاتھ توڑے یا روکے ؟کیا آج مجھے جس جس کو ادائیگی کرنی تھی اسے وقت مقررہ اور مقام پر ادائیگی کی ۔ جس سے جہاں ملنے کا وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا ؟ کیا میں نے حیثیت کے باوجود آج کسی بھوکے کو کھانا کھلایا ۔ کیا میں نے آج جانتے ہوئے بھی ہوتے ہوئے بھی کسے غریب طالبعلم کا داخلہ یا فیس جمع کرائی ؟ کیا جانتے ہوئے بھی یا کسی کے مانگنے کے باوجود کسی مریض کو کوئی دوا لا کے یا منگوا کے دی ؟ کیا میں نے کبھی سارا دن بور ہونے کے باوجود کسی ہسپتال میں کسی مریض کی عیادت کی ۔ کیا ہم نے زندگی میں کبھی کسی اولڈ ہوم کا دورہ کیا ہے ۔ کیا ہم نے اپنے زندگی میں کبھی کسی یتیم خانے کا دورہ کیا ہے یا اسکے لیئے یتیم ہونا ضروری ہے ؟ کیا ہم نے کسی یتم یسیر کے سر پر مدد کا ہاتھ رکھا ۔ کیا بے شمار مال و دولت  ہوتے ہوئے بھی پوری زندگی میں کسی ایک بھی طالبعلم کی پڑھائی کا خرچہ اٹھایا ۔ ؟ کیا ساری عمر میں کسی ایک بیوہ کے گھر کا خرچ اس کے بچوں کے بڑے ہونے تک اٹھایا؟کیا کسی ایک بھی غریب لڑکی کا گھر بسانے میں بغیر بتائے اور بغیر کوئی فائدہ اتھائےاس کی مالی مدد کی ؟ کیا کسی نوکری کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے کسی ایک بھی انسان کو نوکری دلوائی ۔ کیا کبھی ایک بھی انسان کو پوری زندگی میں کوئی ٹیکنیکل ٹریننگ دلا کر اسے بسر روزگار ہونے میں اس کی مدد کی ؟ کیا آج آپ کی کسی حرکت سے کسی ضرورت مند کا دل تو نہیں ٹوٹ گیا ؟ کیا آج آپ کے دروازے سے کوئی کوئی ضرورت مند سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خالی ہاتھ تو نہیں لوٹ گیا ؟کیا کوئی آپ کے گھر میں ان گنت نعمتوں کی موجودگی کے باوجود آپکے در سے بھوکا یا پیاسا تو نہیں لوٹ گیا ؟ کیا آپ کی الماریوں میں کپڑوں کے ٹُھسّے ہونے کے باوجود کوئی پھٹے ہوئے کپڑوں میں تو نہیں لوٹ گیا ؟َ کیا کوئی کتابوں کے نہ ہونے پر آپ کے سامنے تعلیم سے محروم تو نہیں رہ گیا ۔ اگر میں نے یا آپ نے اس میں سے کوئی بھی حرکت کی ہے تو جان جائیئے کہ اسی کی آہ ہے، اسی کی ہائے ہے، اسی کی بدعا ہے جو ہماری دعاؤں کا راستہ روکے کھڑی ہے ۔ ہمت کیجیئے اج ہی اپنےاس گناہ یا حق تلفی یا غلطی کی تلافی کر کے اس دیوار کو توڑ دیجیئے جو ہماری دعاؤں کو عرش تک اور سمیع اللہ تک پہنچنے سے روک رہی ہے ۔ اللہ اپنے آگے کیئے ہوئے سجدوں کی کمی بیشی تو معاف کر سکتا ہے ۔ لیکن کسی انسان پر کیا ہواظلم ، زیادتی اور اسکا مارا ہوا حق کبھی معاف نہیں کرتا ۔  یاد رکھیں مظلوم کی بدعا اور آہ عرش کو ہلا دیتی ہے ۔ اور ہلتے ہوئے عرش کو ٹہرانے کے لیئے دوسروں کے بجائے اپنے گناہ اور عیب تلاش کیجیئے تاکہ ابھی زندہ ہوتے ہوئے ہم اس کی تلافی کر سکیں ۔ ورنہ آنکھیں بند  تو
 منہ بند، ہاتھ بند ، پاؤں بند ،اور عمل موقوففففففف !
 ایک ہی آواز
 اشہد ان لا الہ الااللہ واشہد ان محمد عبد ورسولُہ 
چلو بھئی سیدھے ہو جاؤ ۔ 
حساب کا وقت شروع ہو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

جمعرات، 24 جولائی، 2014

گھروں سے باہر نکلو ۔ سراب دنیا




گھروں سے باہر نکلو
ممتازملک۔پیرس



بھول کے ہر تہوارگھروں سے باہر نکلو
کروظلم سےآنکھیں چار گھروں سےباہرنکلو

مسلم کُش ہاتھوں کو توڑو آگے بڑھکر
بنکر اک للکار گھروں سے باہر نکلو

بدر کے جیسے دہلا دو پھر انکے سینے
بن جاؤ تلوار گھروں سے باہر نکلو

عیاشی کاعادی کرکےطاقت دینی زائل کرکے
ذہن کیا بیمار گھروں سے باہر نکلو

ہر جانب سے تم پر گھیرا تنگ ہوا ہے 
توڑ دو استعمار گھروں سے باہر نکلو

سب سےبہترامت ہوتم رب سوھنے کی
کر کےاستغفار گھروں سے باہر نکلکو 

ثابت کر دنیا پر ورنہ مٹ جاؤ گے
نہیں ہو تم لاچار گھروں سے باہر نکلو

سمجھو کہ قرآن تمہیں سمجھاتا کیا ہے
عملی ہو پرچار گھروں سے باہر نکلو

کب تک بے شرمی سے جینا چاہو گے تم
ممتاز کرو اک وار گھروں سے باہر نکلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پیر، 21 جولائی، 2014

شاہ بانو میر / ممتاز ملک آپکو نورالقرآن میں آنا مبارک ہو



20/07/2014
کیا کہوں ؟

شاہ بانو میر 

ممتاز ملک آپکو نورالقرآن میں آنا مبارک ہو 

کچھ لوگ اپنے علم ذہانت کی وجہ سے ہمیشہ سب میں نمایاں رہتے ہیں ـ بھیڑ چال کی اس مصنوعی دنیا میں عارضی شہرت سے ہٹ کر اصل کامیاب شہرت محنت کر کے جو لوگ نام بناتے ان معتبر ناموں میں ایک اہم ترین نام ممتاز ملک کا ہےـ 22 فروری کو جب ان کی دوسرا شاعری کا مجموعہ منظر عام پے آیا تو اسکی تقریب رونمائی میں نظامت کے فرائض مجھے سونپے گئے ـ اس پروگرام پے جب تفصیلی لکھا تو ایک خاتون نے مجھے پوچھا کہ آپ ایک خاتون ہو کے کسی دوسری خاتون کی اتنے کھلے دل سے کیسے تعریف کر لیتی ہیں ـ ان کو جواب دیا کہ یہ اس خاتون کی اہلیت ہے جس نے اتنی زیادہ تعریف کروائی ـ ورنہ تو یہاں لکھنے کیلیۓ مواد کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہےـ 
آج ممتاز کیلیۓ میں کچھ الگ کہنا چاہتی ہوں ـ پرانے لوگ جانتے ہیں نئے پڑہنے والوں کیلیۓ یہ نئی خبر ہوگی کہ اس در نایاب کو میں کھینچ کھانچ کر باہر لائی ان کی تحریر کو اصرار کر کے شائع کروایا ـ اور آج یہ اکیلی کئی لکھاریوں پے بھاری ہیں ـ ایک خواہش تھی ممتاز کیلیۓ 
ان کا بولنا بات کرنا سمجھانا قدرت نے فیاضی سے الفاظ عطا کئے ہیں پھر حسنِ ادائیگی کمال کی ہے ـ سوچتی تھی کہ اگر یہ "" نورالقرآن "" میں ایڈمشن لے لیں تو ان کے پاس جو 14 سالہ دینی ادارے کا تجربہ ہے اس میں چار چاند لگ جائیں گے ـ پہلے عشقِ مصطفیٰ تھا اب رعب الہیٰ کی آگاہی بھی لازم ہے تا کہ توازن برقرار رہے ـ 
ممتاز نے مجھے کچھ ماہ پہلے ایک بات کہی کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا ہے جس میں وہ میرے ہمراہ دشوار گزار راستے آسانی سے عبور کرتی ہوئی کامیاب ہوگئی ہیں ـ 
یہ مشکل راستہ یقینی طور پے قرآن پاک کا راستہ ہے جو انسان کو نئی زندگی نیا شعور عطا کرتا ہے کہ وہ بدل کے رہ جاتا ہے ـ مگر یہ سچ ہے ـ کہ اس پے استقامت سب کے بس کا روگ نہیں ـ ممتاز بہت مشکل زندگی میں مسکراہٹ بکھیرنے کی عادی ہے ـ انشاءاللہ یہاں بھی کامیاب رہیں گی ـ 
ہر روز صبح 11 بجے نورالقرآن کی لائیو کلاس لندن سے ہوتی ہے جو 3 بجے سہ پہر تک جاری رہتی ہے ـ 23 پارا شروع ہوچکا ہے ـ کئی روز سے ایک نام مجھے چونکا رہا تھا جب ہماری اٹینڈنس ہوتی ہے تو ایک نام ممتاز ملک کا سنتی تھی ـ روح کھچتی تھی کہ ہو نہ ہو ہماری ممتاز ہے آج کنفرم ہوگیا ـ وہی ہیں 
ممتاز آپ کو اتنی ڈہیر ساری مبارک باد پیرس کی تما
م خواتین کی جانب سے جو وہاں موجود ہیں ـ آج سب کو مطلع کروں گی ـ سب آپ کی آمد کے منتظر تھے ـ اللہ پاک
 آپکا یہاں آنا ہم سب کیلیۓ مبارک ثابت ہو کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آپ کی آمد کا مقصد ایک اچھی خطیبہ کا آنا ہے ـ اللہ پاک آپکو بہت کامیابی عطا کرے اور آپ کے شعور میں مزید اضافہ کرے آمین 
نور القرآن کی تمام ٹیم کی جانب سے آپ کو مبارک


اسرائیل کی ساری ماؤں۔ سراب دنیا


اسرائیل کی ساری ماؤں
کلام/ممتازملک۔پیرس 



اسرائیل کی ساری ماؤں
مجھکوآج اک بات بتاؤ
عورت ہونا کیا ہوتا ہے 

 عورت جب پیدا ہوتی ہے
تب سے ہی وہ ماں ہوتی ہے 
ماں کیا تیرا میرا جانے
یہ کب کوئی منطق مانے 

ماں تو سب کی ماں ہوتی ہے
جس میں سبکی جاں ہوتی ہے

جسکے دل میں نرمی نہ ہو
اوراحساس کی گرمی نہ ہو
جو اوروں کا درد نہ جانے
دھوپ میں نہ کوئی سایہ تانے

وہ تو عورت بھی نہیں ہوتی
تم کہتی ہو ماں ہوتی ہے

ماں کب خون کے تحفے بانٹے
گالوں پر بچوں کے چانٹے
وہ کب یہ برداشت کرے کہ
ماں کی یوں توہین کہیں ہو

جس دھرتی پر ماں رہتی ہو 
بچہ کوئی یوں مر جائے
ننھا منا ہنستا جسم جو
لمحوں ہی میں لوتھڑ جائے 
ماں کی ہےتوہین غضب کی

ایسی بھی کیا ماں ہوتی ہے
ایسی نہ کوئی ماں ہوتی ہے

بنجر ہیں سب سخت زمینیں 
سوکھ گئے ہیں انکے سینے
کوکھ سے انکے غم اگتا ہے
زہریلے ہوتے ہیں نگینے

سوئی ہوئی ممتا  کو جگاؤ
دنیا کویہ آج دکھاؤ
ماں تو ہے رحمت کی صورت
بے قیمت نہ اسکو بناؤ


ماں تو بس اک ماں ہوتی ہے 
اسکی ٹھنڈی چھاں ہوتی ہے

اسکا کوئی دین دھرم ہو
یا پھر اسکا کوئی کرم ہو
مامتا اسکا مذہب ہے اور 
گھٹی میں اسکی جو شرم ہو 

ایسی پاگل ماں ہوتی ہے 
ہاں ایسی ہی ماں ہوتی ہے

تم خود کو عورت کہتی ہو
لاشوں کے اوپر ہنستی ہو
اور لاشوں پر محل بنا کر
تم کیسے اس میں بستی ہو

تم کو زمیں سے عشق ہے لیکن 
انسانوں سے ڈر لگتا ہے
ہٹلر پر تہمت دھرتے ہو
اسکا چھوٹا شر لگتا ہے

اسرائیل کی ساری ماؤں 
دنیا کو ممتاز  بتاؤ
دیکھوایسی ماں ہوتی ہے 
جو کہ سب کی ماں ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔







شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/